شیخ احمد قمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ احمد قمی ایک بلند پایہ شیعہ عالم دین اور تاجر تھے۔ ان کے مقام ولادت کے بارے مورخین میں اختلاف پایاجاتاہے تاہم ان کی تاریخ پیدائش اور قومیت کے لحاظ سے سب متفق القول ہیں کہ وہ ایرانی النسل اور 1543عیسوی میں تولد ہوئے۔ شیخ احمد قمی کا یہ تجارتی سفر سیام (موجودہ تھائی لینڈ )میں مکتب تشیع کی ترویج کا سبب بنا۔

مختصر احوال زندگی[ترمیم]

شیخ احمد قمی ایک بلند پایہ عالم دین تھے اور فقہ جعفریہ کے مطابق انھیں اسلام کی تعلیمات پر پورا تسلط حاصل تھا۔ انھوں نے صفوی دور حکومت میں ایران سے سیام (موجودہ تھائی لینڈ) کابحری سفر کیا۔ ان کے تجارتی سامان میں جو بیش قیمت سامان تھے، ان میں میں خوشبودار لکڑیاں، یاقوت اور فیروزہ جیسے قیمتی پتھر شامل تھے۔1602 عیسوی میں وہ سیام کی بندرگاہ پر رونما ہوئے اور اجنبی سرزمین پر شیعہ مسلک کو متعارف کروانے کاباعث بنے۔۔ شیخ احمد قمی کے ہمراہ ان کے بھائی محمد سعید بھی تھے جو اس غرض سے ان کے ساتھ تھے کہ اپنے بڑے بھائی کا ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دے سکیں۔ شیخ احمد قمی اور ان کے بھائی نے تجارتی امور کی انجام دہی کے بعد سیام کی سرزمین کو سکونت کے لیے نہائت سازگار پایا اور کافی رقم خرچ کرکے آیوتھایا کے ایک محلے تاکیہ میں ایک حجرہ خریدلیا۔ بعد ازاں انھوں نے جنگل کی مصنوعات کی دیگر ممالک کو برآمد اور نادر و قیمتی اشیاء کی سیام درآمد کاکام شروع کیااور اس سے حاصل ہونے والی ثروت سے اپنے لیے پکی اینٹوں کا مکان تعمیر کرالیا۔

ایرانی تہذیب اور تھائی لینڈ[ترمیم]

سب متفق ہیں کہ اس محلے کا نام تاکیہ سیدالشہداء کی عزاداری کی وجہ سے مشہور ہواہے جو فارسی کے لفظ تکیہ سے مشتق ہے جس کے معنی عزاداری کے ہیں۔ سیام کے مسلمان باشندے زیادہ تر سنی العقیدہ اور روحانی سلسلہ نقشبندیہ اور قادریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیام میں تصوف کے ان سلسلوں کے تعارف کا سہرا برصغیر کے بزرگان دین کے سر ہے۔ اسلام کی دیگر خوبیوں کی طرح ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ جس علاقے میں بھی جاتاہے وہاں کی ثقافت اور فن و ہنر کو اپنے اندرسمولیتاہے اس سچائی کی تصدیق تھائی _مسلم فن و ہنر میں دیکھی جا سکتی ہے جن کی مثالیں تھائی لینڈ(سیام) کی مساجد و درگاہیں ہیں۔ تجارتی معاملات اور بازار میں لین دین کی مہارت نے سیام کے شاہی دربار میں ان کے اثرو رسوخ کا راستہ ہموار کر دیا اور انھوں نے کم عرصے میں ہی سیام میں اپنی تجارت و کاروبار کو مستحکم کرلیاتھا۔ شیخ احمدقمی ایران کی عظیم تہذیب کے نمائندے تھے ۔۔ ایک ایسی تہذیب جو فن تعمیر، ہنر اور علم و دانش میں پیش پیش تھی، لہذا شیخ احمد نے ایرانی تہذیب کا خزانہ سیام میں منتقل کیا۔ تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ سترھویں صدی عیسوی میں شیخ کی سکونت والا علاقہ سیام کا جدیدترین علاقہ سمجھاجاتاتھا اور آج یہ علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ ہے اور جامعہ آیوتھایا یہیں واقع ہے۔ اس محلے میں ماضی کی جاہ حشم کی خصوصیات آج بھی باقی ہیں۔

شیخ احمد قمی کی خدمات[ترمیم]

چونکہ شیخ احمد قمی ایرانی تہذیب کے نمائندے تھے لہذا یہ بات یقینی تھی کہ وہ ایرانی فن و ہنر اور تجربات کو سیام میں متعارف کرواتے۔ اس زمانے میں ایرانی تہذیب قدرتی وسائل سے استفادے کی حکمت عملی پر استوار تھی اور ایرانی انجینئر و ماہرین نے پانی کی شہری علاقوں میں فراہمی اور پلوں کی تعمیر کے حوالے سے نئی نئی تکنیکی معیار پیش کیے تھے۔ ہر حکمران کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کو نئے نئے انداز میں سنوارے اور تاریخ میں یادگار ہو جائے۔ شیخ احمد قمی فن تعمیر اور تعمیراتی تکنیکوں سے بخوبی واقف تھے۔ اور آیوتھایا میں اسلامی فن تعمیر کے نمونوں کی وجہ سے وہ سیام کے حکمرانوں کے دل میں اترتے چلے گئے۔ شیخ احمد قمی نے سیام کے حکمرانوں کے دربار میں اثر ورسوخ کا فائدہ اس طرح اٹھایا کہ انھوں نے اجنبی سرزمین پر اسلام اور شیعہ مسلک کے فروغ کے لیے بڑھ چڑھ کرکام کیا اور تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ دیگر علاقوں کے مسلمان تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیوتھایا آیاکرتے تھے۔ شیخ احمد قمی نے سیام میں مسلمانوں کی سماجی حیثیت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ شیخ احمد قمی کا سیام میں قیام، سیام کے شاہی دربار میں اثر ورسوخ اور دینی خدمات منصوبہ بندی اور وسیع مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں تھا کیونکہ سیام میں بہت سے ایرانی اور دیگر اسلامی ممالک کے باشندے تجارت کیاکرتے تھے لیکن ان کی نسبت شیخ احمد قمی کا اثر ورسوخ اچھی منصوبہ بندی اور ان کے وسیع مطالعہ کی دلیل ہے۔ تجارتی معاملات میں مہارت نے شیخ احمد قمی کو شاہی وزیر خارجہ کے مشیر امورخارجہ اورمشیر اقتصادیات کے عہدے پر پہنچادیااور کچھ عرصہ بعد انھیں وزیر کی جانب سے جاپانیوں، چینیوں،ہندوستانیوں اور مسلمانوں سے تجارت کا نگران مقرر کر دیاگیااور شاہی تجارتی آمدنی میں شیخ کا حصہ بھی مقررکر دیا گیا۔ شیخ کے اقدامات اور حسن تدبیر کے نتیجے میں سیام کے پڑوسی ممالک کے مقابلے میں سیام کی معاشی و اقتصادی صورت حال میں ترقی ہوتی گئی جس کی وجہ سے سیام کے شاہ سوم تھومکی شیخ پر نظر خاص تھی اور شاہ نے شیخ کے اقدامات اور نمایاں کردار سے خوش ہوکرمملکت کے اہم انتظامی معاملات شیخ کے حوالے کردئے۔ شیخ کافی عرصہ تک مغربی ممالک کے ساتھ تجارت کے نگران رہے۔ جاپانیوں نے شاہ سیام کے ناکام خلاف بغاوت کردی لیکن شیخ احمد نے شاہ سیام کا دفاع کیا جس کی وجہ سے ان کی ترقی کا راستہ مزید ہموار ہو گیااور شیخ وزیر اعظم کے عہدے پر فائزکردئے گئے بعد ازاں مزید ترقی کی اور شاہ سیام کے قریبی دوست شمار کیے جانے لگے۔ حتٰ کہ شیخ شیخ الاسلام کے عہدے پر فائز ہوئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیام میں سنی مسلمان اکثریت میں تھے لیکن شیخ الاسلام ایک شیعہ دانشور کو مقررکیاگیا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے کہ شیخ احمد قمی سیام میں تمام مسلمانوں میں وحدت کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔ وہ صرف شیعہ مکتب کے نمائندے نہیں تھے بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے نمائندے تھے اور سیام میں تمام مسلمانوں کے حقوق کے محافظ ان کے سماجی وقار کو قائم رکھنے والے اور ان کی مشکلات کا قلع قمع کرنے والے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ شیخ احمد قمی شیخ الاسلام کے عہدے پر فائز ہونے بعد بیک وقت وزیرخارجہ، وزیر تجارت، مشیر خاص، وزیر دفاع اور کماندار جامع قوۃ کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے تھے اور یہ عہدہ بہت عرصے تک ان کے خاندان میں باقی رہا۔

ازدواجی زندگی[ترمیم]

شیخ احمد قمی نے سیام میں ہی شادی کرنے کاارادہ کیا اور اس غرض کے لیے ان کی نظر انتخاب تھائی لینڈ کے ایکاشرافیہ قبیلے جمکی شریف زادی پر پڑی۔ جم قبیلہ دراصل کمبوڈیا کے مسلمانوں کا ایک قبیلہ تھاجو ہجرت کرکے تھائی لینڈ میں آباد ہو گیاتھا۔ اس شدی کا ثمر دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی صورت میں ملا۔ انکا ایک کم سنی میں آبلوں کی بیماری کی وجہ سے وفات پاگیاتھا، تاہم ان کی دو اولادیں باقی بچیں ،شیخ نے اپنے بچوں کو فارسی زبان سکھائی اور برسوں تک جم قبیلے میں فارسی زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی۔

شیخ احمد قمی کی اولاد کی قابلیت[ترمیم]

وقت کے ساتھ ساتھ شیخ احمد قمی چونکہ نہائت عمر رسیدہ ہو گئے تھے اس لیے شاہ سیام پرسات تھونگ جو ان کو اپنے بڑے بھائی کی حیثیت دیتے تھے اور صرف ان سے مشاورت کیاکرتے تھے۔ جبکہ شیخ احمد قمی کے بیٹے یوئنگ کو داخلی شہری خدمات کے لیے منتخب کیا گیا۔ بعد ازاں ان کے بیٹے یوئنگ کو شیخ الاسلام اور بندرگاہوں کے معاملات کی دیکھ بھال کا عہدہ بھی دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعدپرسات تھونگ کی وفات کے بعد شورش کے برپاہوجانے کی وجہ سے قتدار پرسات تھونگ کی اولاد کو نہ ملا۔ بعد ازاں پرسات تھونگ کا بیٹا نارائے مسند اقتدار پر براجمان ہوا اور اس نے پرانی دوستی اور قربت کے ناطے شیخ احمد قمی کی اولاد کو بھی اپنے دربار میں خاص عہدوں سے نوازا۔ شیخ احمد قمی کی صرف ایک صاحبزادجن کا نام چی تھا بھی شاہ نارائے کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھیں۔ شاہ نارائے کو مسند اقتدار تک پہنچانے میں شیخ احمد کے بھائی شیخ سعید احمد کے بیٹے آغامحمداسترآبادی نے اہم کردار اداکیاتھا جس کی بنا پر شاہ نارائے نے انھیں اپناوزیر منتخب کر لیا۔ آغامحمد نے اپنی چچازاد شیخ احمد قمی کی بیٹی چی سے شادی کی۔چی اورآغامحمد کے دو بیٹے ہوئے ایک کا نام رائے اور دوسرے کا کیو تھا۔ آغامحمد اپنی وفات تک قریب بیس سال تک شاہ نارائے کے وزیر رہے۔ ان کی وفات کے بعد دربار کے معاملات ایک یونانی شخص قسطنطین فالکن کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس پر فرانسیسیوں کا بڑا گہرا اثر تھا جس کی وجہ سے فرانسیسیوں اور ایرانیوں کے مابین رقابت کا آغاز ہوالیکن آغا محمد کے بیٹوں کی کوششوں سے ایک بار پھر سیام کے شاہی دربار میں ایرانیوں کو غلبہ حاصل ہو گیا۔ قسطنطین فالکن کو شاہ نارائے کا وفادار نہ ہونے کی وجہ سے پھانسی دے دی گئی۔ شیخ احمد کے انتقال کے بعد جن لوگوں کو بھی وزارت کا قلمدان دیا گیا وہ سب شیخ احمد قمی کے پوتے اور پڑپوتے تھے اور انھیں چاؤکوم کرم مانہ کا لقب دیاجاتاتھا۔ شیخ الالسلام کا یہ عہدہ شیخ احمد کی آٹھویں پشت تک اور سیام کے عظیم بادشاہ چولالانگ کورن جسے اصلاحات کا بانی سمجھاجاتاہے تک یونہی باقی رہا۔ بعد میں اسی بادشاہ چولالانگ کورن نے تجارت اور داخلہ کو دو الگ وزارتوں میں منقسم کرکے شیخ احمد قمی کے خاندان سے داخلہ اور تجارت کی وزارتوں کے قلمدان واپس لے لیے تاہم شیخ الاسلام کا عہدہ اسی طرح شیخ احمد کے خاندان میں باقی رہا۔

شیخ احمد قمی کے خاندان کی تقسیم[ترمیم]

شیخ احمد کے خاندان میں جو اہم تبدیلیاں رونماہوئیں ان میں سے سب سے اہم اور حیرت انگیز تبدیلی ان کے خاندان کی دوحصوں میں تقسیم تھی یہ تبدیلی تھائی لینڈ کی تاریخ میں نہائت اثرانگیز تھی۔ یہ تقسیم ان کے خاندان کے کچھ افراد کی طرف سے سیاسی طور پر بدھ مت کی قبولیت تھی، جبکہ کچھ افراد مسلمان کے طور پر ہی شناخت قائم رکھی۔ شیخ احمد کی وفات کے بعد ان کی اولاد تھائی لینڈ میں سرکاری عہدوں پر فائز ہوئی، ان کو سرکاری مناصب و مراتب عطاہوئے اور دربار میں ان کو کافی رسوخ حاصل تھا یہاں تک کہ برما نے آیوتھایا پر قبضہ کر لیا اور 1750عیسوی میں سقوط آیوتھایا کے بعد شیخ احمد کے خاندان میں درج بالا مذہبی تقسیم بندی کا عمل شروع ہوا۔ شیخ احمد کے خاندان کی دونوں شاخوں (بدھ مت اور مسلمانوں) نے تھائی لینڈ کی نہائت احسن طریقے سے خدمت کی۔ شیخ احمد کی خاندان میں واقع ہونے والی مذہبی تقسیم بندی کے حوالے سے تاریخ میں کئی طرح کی روایات پائی جاتی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ بادشاہ وقت نے ایرانیوں کو کہاکہ وہ شاہی مناصب پر بدستور باقی رہنے کے لیے بدھ مت قبول کریں جس پرتھائی لینڈ میں ایرانی طبقے کے رہنما نے راہب اعظم اور بادشاہ وقت کے سامنے بدھ مت کی قبولیت کا اعلان کر دیا جس کے بعد بہت سے دیگر افراد نے بھی بدھ مت کی قبولیت کا اعلان کیا۔ بدھ مت کی جانب تبدیلی کا آغاز اسی دور کو کہاجاسکتاہے۔ ممکن ہے کہ اس عمل کی اور بھی سیاسی وجوہات ہوں جن پر ہنوز تحقیق ہوناباقی ہے۔
یہ بھی کہاجاتاہے کہ تھائی لینڈ میں ایرانی طبقے کا رہنما جب بادشاہ وقت کے ہمراہ بدھا کی قدمگاہ سے موسوم عبادت گاہ کا دورہ کرکے دار الحکومت واپس پہنچے تو اس کو چاؤپرایا کا عہدہ دیا گیا۔ چاؤپرایا بھت بھچائی کے چار بیٹے تھے تاہم یہاں صرف دو بیٹوں کا ذکر کیاجائے گا۔ اول: چیئنک اور دوم: سیئنک
چیئنگ نے اپنے والد بھت بھچائی جو تھائی لینڈ میں ایرانی طبقے کے رہنما بھی تھے کی طرح بدھ مت قبول نہیں کیا بلکہ اسلامی شناخت باقی رکھی جبکہ اس کے برعکس چیئنگ کے بھائی سیئنک نے مذہب تبدیل کرکے دربارشاہی میں امور کی انجام دہی کا آغاز کر دیااور رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرکے کئی عہدے حاصل کیے اور اپنے باپ کی طرح چاؤپرایا کا عہدہ بھی عطاکیاگیا۔ چاؤپرایا مہا سہنا یعنی وزارت عظمیٰ کا عہدہ بھی سیئنک کو دیا گیا۔ دوسری طرف چیئنک صاحب نے چونکہ بدھ مت کو قبول نہیں کیا تھا انھیں بھی سرکاری طور پر شیخ الاسلام کا منصب عطا کیا گیا۔ تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی قیادت اور ان کے معاملات کی نگرانی چیئنک کے ذمے رہی۔ اس طرح شیخ احمد قمی کا خاندان دو شاخوں میں تقسیم ہو گیا یعنی ایک بدھ مت والے افراد جو دربار شاہی کے ملازم اور نہائت اہم مناصب و عہدوں پر فائز رہے اور دوسرے شیخ احمد کے خاندان کے وہ افراد جو مسلمان رہے وہ بھی شیخ الاسلام کے عہدے پر کام کرتے رہے۔
شیخ احمد قمی کے خاندان کی دوسری اہم اور حیرت انگیز بات یہ رہی کہ مذہبی لحاظ سے تبدیلی کے باوجود دونوں شاخوں کے مابین تعلقات میں تبدیلی نہیں آئی۔ پوری تاریخ میں دونوں شاخوں کے مابین نہائت قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم رہے۔ خاندان کی دونوں شاخوں کے افراد نہائت یگانگت اور وحدت کے ساتھ ایوان وزیر اعظم میں اکٹھے ہوتے تھے۔
1872 میں شیخ احمد کے خاندان کی بدھ مت شاخ کے ایک فرد کو وزیر جنگ اور کماندار جامع قوۃ بنائے گئے، اس شخصیت کا نام بون ناگ تھا۔ دورحاضر میں بھی چاؤ پرایا ایک پوتا تھائی لینڈ میں اہم عہدے پر فائز ہے اور تھائی عوام کی خدمت پر مامور ہے۔
شیخ احمد قمی کے خاندان کی تاریخ میں کہیں بھی ایسا نہیں پایاگیاکہ ان کی یا ان کے خاندان کے کسی فرد کی کسی بھی دور میں سرزنش کی گئی ہو، بلکہ تھائی اور سیامی عوام کو شیخ احمد قمی کے خاندان پر فخر ہے اور بنکاک کے ایک معروف جامعہ میں شیخ احمد قمی کے خاندان کے حوالے سے ایک مستقل نگارخانہ قائم کیاگیاہے جبکہ بون نات صاحب کا مجسمہ جامعہ کے صدر دروازے پر نصب کیاگیاہے، تھائی لینڈ کا دورحاضر کا ایک بادشاہ بھی بون نات خاندان سے ایرانی النسل ہے۔
شیخ احمد قمی کے زمانے سے حساب لگایاجائے تو تیرہ افراد بنتے ہیں اور اگر وقت کا حساب لگایاجائے تو تین سو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ بنتاہے کہ ا س عرصے میں شیخ الاسلام کا عہدہ، بیرونی ممالک سے رابطہ قائم کرنا، تجارت کے معاملات کی نگرانی اور سب سے بڑھکر تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی قیادت و رہنمائی اس عرصے میں شیخ احمد قمی کے خاندان کے کاندھوں پر رہی ہے۔

شیعہ تھائی لینڈ میں[ترمیم]

گو کہ تھائی لینڈ میں اہلسنت مسلک کے مسلمانان زیادہ ہیں لیکن ماضی میں شیخ الاسلام کا عہدہ زیادہ تر اہل تشیع مسلک کی شخصیات کے پاس رہا۔ اس عہدے کی ابتدا ء شیخ احمد قمی کے دور میں ہوئی اور پہلی بار انہی کو اس عہدے پر خدمات کے لیے منتخب کیا گیا۔ سترھویں صدی عیسوی سے اب تک تھائی لینڈ میں کل چودہ شیخ الاسلام نے خدمات انجام دی ہیں جن میں سے چار اہل سنت مسلک سے اور باقی اہل تشیع مسلک سے تھے۔ شیخ احمد قمی کی مذہبی سوچ ،شاہی دربارمیں رسوخ اور عوام میں مقبولیت کا اندازہ اس تاریخی حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ تھائی لینڈ میں ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں دو بار عزاداری کی مجلس منعقد کی جاتی، ایک بار مساجد و امام بارگاہوں میں اور دوسری بار شاہی دربار میں جن میں بالترتیب عوام الناس اور اخص الخواص شرکت کیاکرتے تھے۔ آج بھی تھائی لینڈ کی عوام مذہبی طبقہ بندی سے بالاتر ہوکر امام حسین عہ کی عزاداری کے حوالے سے خاص عقیدہ رکھتے ہیں۔ حتٰی ایک بار حکومت مخالف گروہ نے عزاداری کے دستوں کی مدد سے حکومت کا تختہ الٹاتھا۔

مستند و معتبر کتاب[ترمیم]

شاہ سلیمان صفوی کے آخری دور گیارہ ہجری میں محمد ربیع ابن محمدابراہیم کو ایران کے حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر تھائی لینڈ بھیجا گیاجنہوں وہاں جاکر ایک کتاب سفینہء سلیمانی تحریر کی جس میں آیوتھایا کے مسلمانوں کے حالات اور ایرانی اآبادی والے علاقوں کی معلومات درج ہیں۔فارسی زبان میں یہی ایک واحد کتاب ہے جس میں صفوی دور حکومت میں ایران_سیام کے باہم سیاسی، سماجی، اقتصادی، تجارتی تعلقات کا تفصیل سے تذکرہ کیاگیاہے۔ محمد ربیع نے اس کتاب میں شاہ نارائے کا جو خاکہ پیش کیاہے اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایرانیوں نے شاہ نارائے کی شخصیت پر گہرااثر ڈالاتھا۔ حتی ایک خراسانی سید زادے کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ شاہنامہ فردوسی کا سیامی زبان میں ترجمہ کرے اور اسے شاہ نارائے کو پڑھ کر سنائے۔ اس کتاب میں یہ بھی درج ہے کہ شاہ نارائے ہر سال ماہ محرم الحرام میں ہاتھی پر سوار ہوکر اآیوتھایا میں شیعہ مسلمانوں اور دوسرے مسالک کے مسلمانوں کی مجالس، عزاداریوں اور دیگراسلامی رسومات میں باقاعدہ شریک ہواکرتاتھا۔

شیخ احمد قمی کی آخری آرامگاہ[ترمیم]

سیام کے بادشاہ پراسات تھونگ کے دور حکومت کے وفات پاگئے۔ سنہ 1964میں اس علاقے میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران شیخ احمد قمی کی قبر دریافت ہوئی اور ایرانی حکومت کی مدد سے ان کی قبر پر ایک یادگار عمارت تعمیر کروائی گئی۔

حوالہ جات[ترمیم]

شیخ سیام (موجودہ تھائی لینڈ)جز اولآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdumovies.net (Error: unknown archive URL)
شیخ سیام (موجودہ تھائی لینڈ)جز دومآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdumovies.net (Error: unknown archive URL)
شیخ سیام (موجودہ تھائی لینڈ)جز سومآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdumovies.net (Error: unknown archive URL)
شیخ سیام (موجودہ تھائی لینڈ)جز چہارمآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdumovies.net (Error: unknown archive URL)
شیخ سیام (موجودہ تھائی لینڈ)جزپنجمآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdumovies.net (Error: unknown archive URL)
شیخ سیام (موجودہ تھائی لینڈ)جزششمآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdumovies.net (Error: unknown archive URL)

خارجی روابط[ترمیم]