شیخ یحی المعروف حضرت جی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیخ یحیی نقشبندی
ذاتی
پیدائش(1041ھ بمطابق 1631ء)
وفات(1131ھ بمطابق 1718ء)
مذہباسلام
والدین
  • پیر داد (والد)
سلسلہنقشبندیہ
مرتبہ
مقاماٹک
پیشروشیخ سعدی لاہوری

شیخ یحییٰ صاحب سلسلہ نقشبندیہ ضلع اٹک کے بلند پایہ اولیاء کرام میں سے ہیں۔ انھیں شیخ یحیٰ اٹکی بھی کہا جاتا ہے۔

ولادت[ترمیم]

شیخ یحیی نقشبندی کی ولادت 1041ھ بمطابق 1631ء کو ہوئی۔

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا اسم شریف شیخ یحییٰ والد کا نام پیرداد، کنیت شیخ ابو اسماعیل یحییٰ اور لقب سر الاعظم تھا۔ آپ چغتائی (مغل) تھے۔ آپ کے بزرگ ماوراء النہر ( سمرقند اور بخارا ) سے اٹک تشریف لائے تھے۔

سلسلہ نسبت[ترمیم]

سلسلہ نقشبندیہ میں آپ شیخ المشائخ شیخ سعدی لاہوری کے دست گرفتہ تھے اور انہی سے صاحب مجازتھے۔ آپ اپنے شیخ کی نظر میں بہت مقبول تھے۔ اور آپ کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ چنانچہ جب شیخ سعدی لاہوری 1105ھ میں پشاور تشریف لائے تو اپنے تمام مریدین اور مخلصین کو ارشاد فرمایا کہ ’’ اب وہ جناب شیخ یحییٰ صاحب ؒ کی صحبت اختیار کریں اور ان سے فیض حاصل کریں‘‘۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے شیخ کی نظر میں آپ کا مقام کتنا بلند تھا اور روحانیت زہدو اتقاء میں آپ کی شخصیت مثالی اور قابل تقلید تھی۔

مرشد سے عقیدت[ترمیم]

شیخ یحیی نقشبندی کو اپنے مرشد شیخ سعدی لاہوری سے نہایت عقیدت و محبت تھی۔ اس عقیدت کا یہ عالم تھا کہ آپ فرط ادب سے اٹک سے لاہور تک پیدل تشریف لے جاتے۔ آپ کو اس سفر میں 14 دن لگ جایا کرتے تھے۔

مقام و مرتبہ[ترمیم]

میاں محمد عمر صاحب المعروف چمکنی بابا اپنی کتاب توضیح المعانی کے دیباچہ میں رقمطراز ہیں ۔’’ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ سے جوراز کی باتیں معراج میں کی تھیں وہ سیدنا ابوبکر صدیق پر آشکارا کی گئیں اور وہ راز کی باتیں سلسلہ در سلسلہ سر الاعظم شیخ یحییٰ کو بخشی گئیں۔ اور ان کے ذریعہ ان باتوں سے مجھے سرفراز کیا گیا‘‘۔ چمکنی بابا نے آپ کی تعریف میں ایک قطعہ لکھا فرماتے ہیں ۔

  • قطب ہفت اقلیم شیخ رہنما
  • ​شیخ یحییٰ بندۂ خاص خدا
  • مخزن لطف و عنایات خدا
  • ​غوث اعظم خواجہ ہر دوسرا

سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج[ترمیم]

شیخ المشائخ محدث جلیل سید شاہ محمد غوث قادری پشاوری ثم لاہوری آپ کی خدمت میں اکثر حاضر ہوتے اور آپ سے سلسلہ نقشبندیہ میں وافر حصہ پایا، ان کی آپ پر خاص نظر عنایت تھی۔ آپ شیخ یحییٰ کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’حضرت یحییٰ جیو صاحب کہ از افراد زمانہ بودند‘‘ یعنی جناب شیخ یحییٰ حضرت جی افراد زمانہ میں سے ایک فرد تھے۔ آپ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی بہت ہی ترویج و اشاعت کی ،

سیرت وکردار[ترمیم]

انتہائی متبع سنت تھے، خوش خلق، متواضع، منکسر المزاج اور سخی تھے۔ ہر وقت یاد الٰہی میں مستغرق رہتے۔ کوئی لمحہ بھی یاد الٰہی سے غفلت میں نہ گذارتے، آپ کی نظر میں شاہ و گداایک تھے۔ آپ کا لنگر ہر وقت جاری تھا اور سینکڑوں افراد سیر ہو کر جاتے۔ ہر ضرورت مند کی حاجت پوری کرتے۔ قدم قدم پر آپ سے کرامات کا ظہور ہوتا۔ حضرت محدث جلیل سید شاہ محمد غوث صاحبؒ فرماتے ہیں ’’چونکہ آپ (یعنی حضرت جی صاحب) حبس نفس بہت فرماتے تھے۔ اس لیے رات میں ایک، دو یا تین دم لیتے تھے، بڑے ریاضت کش تھے۔ خدا کے سوا کس کی طرف دھیان نہیں لگاتے تھے۔ ان کی نظر میں خاک و زر، شاہ و گدا یکساں تھے۔ شغل حق کے سوا ان کو مطلق فرصت ہی نہیں ہوتی تھی کہ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوں۔ کسی کو آپ کی مجلس میں بات کرنے کی جرأت نہ تھی۔ آپ کی مجلس میں جو ہوتا خدا کی ہی طرف متوجہ رہتا۔ چارپائی پر نہیں سوتے تھے، تکیہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ ہمیشہ اپنے پیر کی زیارت کے لیے اٹک سے لاہور چودہ دن میں پیدل سفر کرتے ‘‘۔

شیوخ[ترمیم]

  • حضرت شیخ سعدی بلخاری لاہوریؒ
  • حضرت شیخ فقیر جمیل بیگؒ

خلفاء و سالکین[ترمیم]

بڑے بڑے اکابر علما اور فضلاء آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور تکمیل سلوک کر کے اجازت و ارشاد کے رتبہ پر پہنچے۔ آپ نے تمام عمر ارشاد و تلقین میں بسر کی اور آپ کے ذریعہ ہزاروں لوگ مراتب قرب تک پہنچے۔ آپ اپنے وقت میں یگانہ آفاق تھے۔ آپ کا صوبہ سرحد میں عموماً اور پنجاب کے علاقہ میں خصوصاً علم مشیخت بلند تھا۔ جس مرید پر آپ کی نظر پڑ جاتی۔ کئی کئی دن بے ہوش پڑا رہتا اور تارک الدنیا ہو کر یاد الٰہی میں مستغرق ہوجاتا۔ آپ کے خلفاء میں صوبہ سرحد کے علاقہ میں چار عظیم شخصیتیں ہوئی ہیں جو ہر لحاظ سے جامع کمالات صوروی و معنوی تھیں۔ ایک محدث جلیل سید شاہ محمد غوث صاحب پشاور ثم لاہوری، دوسرے جنا ب شیخ المشائخ میاں محمدعمر صاحب المعروف میاں صاحب چمکنی,تیسرے حضرت شیخ قاری جنید پشاوری، چوتھے حضرت شیخ سید عبد الشکور قادری منصور پوری اور ہندوستان، پنجاب اور سندھ میں کافی خلفاء تھے۔ [1]

اولاد[ترمیم]

آپ کے دوفرزند تھے، ایک شیخ اسماعیل اور دوسرے خواجہ محمد عیسٰے۔ جن کی وفات 1131ھ میں واقع ہوئے ۔

وفات و مزار[ترمیم]

ان کی وفات 1131ھ بمطابق 1718ء اس وقت آپ کا مزار پر انوار اٹک پل کے قریب، بلب دریائے اٹک واقع ہے اور مرجع خلائق ہے۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 489 تا 491
  2. تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 64 تا 67،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور