عوامی جمہوریہ چین کی معیشت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
چین کی معیشت

ترمیم کریں

مالی سال 1 جنوری - 31 دسمبر
تجارتی اداروں کی رکنیت عالمی تجارتی ادارہ (WTO)
,ایشیا پیسیفک تعاون (APEC)
شماریات
خام ملکی پیداوار
(2006)
$26.8 کھرب (چوتھا شمار)
مساوی قوتِ خرید خام ملکی پیداوار
(2006)
$100 کھرب (دوسرا شمار)
فی کس آمدنی
(2006)
$2,034 (ایک سو پانچواں)
مساوی قوتِ خرید فی کس آمدنی
(2006)
$7,593 (اسی واں)
خام ملکی پیداوار کی شرحِ نمو
(2006)
10.5%
خام ملکی پیداوار کی تقسیم
(2005)
زراعت (12.46%), صنعت (47.28%), خدمات (40.26%)
افراط زر
(2006)
1.5%
غربت کی لکیر سے نیچے آبادی
(2004)
10%
کام کرنے کے قابل آبادی
(2006)
79.81 کروڑ
کام کرنے کے قابل آبادی بلحاظ پیشہ
(2005)
زراعت 45%, صنعت 24%, خدمات 31%
شرح بے روزگاری
(2006)
4.2%
تجارتی ساتھی
برآمدات $974 ارب (2006 )
بنیادی شریک
(2005)
امریکا 21.4%, ہانگ کانگ16.3%, جاپان 11%, جنوبی کوریا 4.6%, جرمنی 4.3%
درآمدات $777.9 ارب (2006)
بنیادی شریک
(2005)
جاپان 15.2%, جنوبی کوریا 11.6%, تائیوان 11.2%, امریکا 7.4%, جرمنی 4.6%
عوامی مالیات
عوامی قرضہ خام ملکی پیداوار کا 22.1% (2006)
بیرونی قرضہ
(2006)
$305.6 ارب
زر مبادلہ کے ذخائر
(مارچ 2007)
$12.02 کھرب
وصولیاں
(2006)
$446.6 ارب
اخراجات
(2006)
$489.6 ارب


چین دنیا میں خام ملکی پیداوار کے حساب سے چوتھا ملک ہے اور بڑی تیزی سے مزید ترقی کر رہا ہے اور اب یہ بات شک سے بالاتر ہے کہ اگر چین ایسے ہی ترقی کرتا رہا تو جلد ہی اسے دنیا کی ایک عظیم طاقت (Super Power) تسلیم کرنا پڑے گا۔ چھبیس کھرب امریکی ڈالر کی خام ملکی پیداوار اور دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین کی فی کس آمدنی بھی دو ہزار ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے اور مساوی قوتِ خرید فی کس آمدنی بھی سات ہزار ڈالر سے زیادہ ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چین ایک اشتراکی (Socialist) ملک ہے مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کی %70 خام ملکی پیداوار نجی شعبہ میں ہوتی ہے۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جسے وقتاً فوقتاً اپنی ترقی پر روک لگانا پڑتی ہے تاکہ غیر ضروری ترقی سے اس کا معاشرتی ڈھانچہ تباہ نہ ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی اپنے ملک میں مسلسل اصلاحات کر رہے ہیں تاکہ وہ دنیا میں اپنا معاشی مقام بنا سکیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا مقابلہ بھی کر سکیں۔ چین کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ معاشی اشاریوں (Indicators) کے مطابق اس کی خام ملکی پیداوار کی تقسیم آبادی میں سب سے زیادہ مناسب ہے یعنی امیر اور غریب کے درمیان فرق نسبتاً کم ہے۔ 2006ء میں چین کی خام ملکی پیداوار 1978ء کی نسبت 10 گنا زیادہ تھی۔ چین کی طاقت کا اندازہ بہت سی چیزوں سے ہو سکتا ہے مثلاً اس میں 23000 سے زیادہ بند (ڈیم) ہیں۔ 2005ء میں اس کی برآمدات اس کی درآمدات سے 30 ارب امریکی ڈالر زیادہ تھیں۔ 2006ء میں چین میں 70 ارب امریکی ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ اسی سال چین دنیا میں سب سے بڑے زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے والا ملک بن گیا۔ تیزی سے ترقی کی وجہ سے 1981ء سے 2001ء کے دوران غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد %53 سے کم ہو کر صرف %8 رہ گئی ہے۔ 1990 کی دہائی میں فی کس آمدنی میں %175 اضافہ دیکھنے میں آیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس قدر تیز ترقی کے باوجود افراطِ زر کو قابو میں رکھا گیا ہے جو 1995-1999 کے دوران بہت کم ہو گیا۔

پس منظر[ترمیم]

چین 1949ء کے انقلاب کے بعد ایک اشتراکی ملک بن گیا۔ شروع ہی سے اس نے بھاری صنعتوں کو ترقی دینا شروع کی۔ صرفی اخراجات کم کیے گئے اور ذرائع نئے کارخانوں کی طرف لگائے گئے۔ چین کی حکومت نے تمام صنعتوں کو اپنے اختیار میں رکھا۔ 1950ء تک افراطِ زر قابو میں تھی، تیزی سے ترقی ہو رہی تھی، زر کی رسد پر سخت حکومتی اختیار تھا۔ مختصر عرصہ میں 1952ء تک چین کی صنعتی پیداوار دنیا کی کل صنعتی پیداوار کا تین فی صد ہو چکی تھی۔ 1970ء کی دہائی میں چین کی خام ملکی پیداوار میں %70 اضافہ ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں خام ملکی پیداوار میں %63 اضافہ ہوا۔ 1990ء میں خام ملکی پیداوار میں 175 فی صد اضافہ ہوا جو آج تک کہیں دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ چین نے صرف ترقی نہیں کی بلکہ اس ترقی کو عام آدمی تک لے جانے کے لیے دنیا کے کامیاب ترین ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ اپنی عظیم الشان آبادی کے وجہ سے لوگوں کی آمدنیوں میں تفاوت ہے مگر یہ فرق ارد گرد کے ممالک اور کئی ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے۔ چین نے 1980ء سے اپنی معیشت میں نجی شعبہ کا حصہ بڑھانا شروع کیا ہے تاکہ وہ مرکزی معیشت سے کچھ ہٹ کر ایک آزاد بازار کی معیشت بن سکے۔ لیکن یہاں بھی چین کے مطابق توازن قائم رکھنا ضروری ہے اس لیے چین کی منصوبہ بندی میں مغرب کی طرح کی ایک مکمل آزاد بازار کی معیشت بننا نہیں بلکہ ایک متوازن اور مخلوط معیشت بننا ہے۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آمدنی میں کمی کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان کے مطابق اس سے ان کا معاشرتی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ اسی لیے 2005ء کے ایک اعلان کے مطابق چین نے 2010ء تک خام ملکی پیداوار میں (2000-2010 کے دوران) صرف %45 کا ھدف رکھا ہے جو پچھلی دہائیوں کی نسبت کم ہے۔

چین میں پانی سے بجلی بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا بند