غلام رسول عرف چھوٹو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

غلام رسول عرف چھوٹو بابا لونگ نامی ڈاکو کے بنائے گئے مجرمانہ گروہ کے حالیہ سرغنہ ہیں۔

چھوٹو کا لقب[ترمیم]

لفظ چُھوٹو ایک عرفیت ہے جس کا مطلب ہے ایک چھوٹا لڑکا۔

غلام رسول کو یہ نام بابا لونگ کی جانب سے دیا گیا تھا جو چھوٹو سے پہلے اس گروہ کے سرغنہ تھے۔ چھوٹو نے گروہ میں تب شمولیت اختیار کی تھی جب وہ بمشکل نوجوان تھے۔ اُن کی کہانی اس علاقے کے کسی بھی قبائلی نوجوان جیسی روایتی کہانی ہے۔

پیدائش اور خاندان[ترمیم]

غلام رسول چھوٹو 1975ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک چھوٹے سے کسان کے بیٹے تھے۔ وہ سنہ 1988ء میں جب وہ 13 سال کے تھے تو کشمور میں ٹرک اڈوں پر قائم چائے خانوں میں بیراگیری کرتے تھے۔

انھوں نے جنگ کے نامہ نگار کو انٹرویو میں بتایا کہ اُن کے ایک بھائی قبائلی جھگڑے کی وجہ سے جیل گئے اور اُن کے والد اور دوسرے بھائی گرفتاری سے بچنے کے لیے فرار ہو گئے۔ ایک سال یا اُس سے کچھ عرصے کے بعد انھیں بھی پولیس اہلکاروں کی جانب سے رشوت دینے سے ناکامی پر چوری کے ایک ’جُھوٹے‘ مقدمے میں ملوث کر دیا گیا۔

اُن کی غیر موجودگی میں اُن کی لگ بھگ 12 ایکڑ پر مشتمل خاندانی اراضی پر اُن کے پڑوسیوں نے قبضہ کر لیا۔

جب وہ دو سال بعد جیل سے واپس آئے انھوں نے اپنی خاندانی اراضی واپس حاصل کرنے کے لیے بابا لونگ کے گروہ میں شمولیت اختیار کر لی اور بعد میں اُن کے بھائی بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے۔

قبیلہ و وطن[ترمیم]

وہ باخارانی ملک قبیلے سے ہیں اور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راجن پور کی ایک تحصیل روجھان کے رہائشی ہیں۔

چھوٹو کا خاندانی پیشہ زمینداری ہے اور تحصیل روجھان میں اس کا زرعی رقبہ بھی موجود ہے۔

اس دشوار گزار اور غریب علاقے کو جاگیرداروں کی سرزمین اور خاندانی غیرت کے تنازعات والا علاقہ کہا جاتا ہے۔

یہ سیاسی جاگیرداروں کے اثر و رسوخ والا علاقہ ہے جن پر پولیس اور ڈاکوؤں دونوں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پیسے دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

الزامات[ترمیم]

غلام رسول عرف چھوٹو کے خلاف اغوا برائے تاوان قتل ڈکیتیوں پولیس مقابلوں پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنے اور اسلحہ چھیننے اور بھتہ لینے کے 95 مقدمات درج ہیں جبکہ ان کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے مقرر ہے۔

چھوٹو گینگ[ترمیم]

یہ گروہ دریائے سندھ کے ایک طرف جنوبی پنجاب کے ایک دورافتادہ علاقے میں موجود ہے۔

یہ پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور ساتھ واقع صوبہ سندھ کے ڈیڑھ سو کلومیٹر تک کے کچے کے علاقے کے درمیان موجود درجنوں گروہوں میں سے ایک سرکردہ گروہ ہے۔ اس گروہ کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو ہیں جو اس خطے میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے سرگرم ہیں۔

گینگ کے کارندوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زائد ہے جن کا ذریعۂ معاش اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، بھتہ خوری اور ڈکیتیاں ہے۔ اب چھوٹو گینگ میں لنڈ سیکھانی ڈیرہ غازی خان کے خالد اور اسحاق گینگ اور مظفر گڑھ کا جاکھا گینگ بھی شامل ہو چکے ہیں۔

یہ ڈاکو انتہائی تربیت یافتہ ہیں اور پولیس مقابلوں میں شدید مزاحمت کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

اسلحہ[ترمیم]

چھوٹو گینگ کے پاس جدید اسلحہ بڑی مقدار میں موجود ہے جس میں طیارہ شکن توپیں بھی شامل ہیں۔ ماضی میں یہ گروپ راکٹ لانچر، جی تھریز، لائٹ مشین گن، سب مشین گن، دستی بم اور ٹینک شکن باروری سرنگیں بھی استعمال کرتا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستانی اخبار ’جنگ‘ کے ملتان میں نامہ نگار ظفر اہیر سے ٹیلی فون انٹرویو کے دوران چھوٹو نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی ساختہ ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ البتہ انھوں نے کہا کہ یہ ہتھیار افغانستان سے حاصل کیے گئے تھے۔

اہیر سنہ 2006ء میں چھوٹو سے اُن کے جزیرے میں واقع ٹھکانے میں ملے تھے۔

اُن کا کہنا ہے کہ گینگ کے کارندے بھاری اور ہلکے دونوں طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے، جن میں طیارہ شکن بندوقیں بھی شامل تھیں جو اُن کے مطابق چھوٹو کے خیموں کے قریب نصب تھیں۔

چھوٹو جزیرہ[ترمیم]

کچا جمال اور کچا مورو کے علاقے میں جس جزیرے پر ڈاکوؤں کا گروہ موجود ہے وہ سنہ 2010ء کے سیلاب کے بعد دریائے سندھ میں ابھرا۔ اس کی لمبائی دس کلومیٹر اور چوڑائی تین کلومیٹر ہے۔ اسے چھوٹو گینگ کی مناسبت سے چھوٹو جزیرہ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ علاقہ ویسے تو ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کا حصہ ہے تاہم یہاں سے رحیم یار خان کی سرحد بہت قریب ہے۔

یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ ہے۔

یہ علاقہ مختلف عمل داریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جایا کرتی ہے۔

چھوٹو جزیرہ گھنے جنگل سے ڈھکا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں موجود ڈاکوؤں نے اسے اپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔

اگر دریا کے کنارے سے کشتی کے ذریعے اس جزیرے تک پہچنے کی کوشش کی جائے تو ایک کلومیٹر تک پانی میں سفر کرنا پڑتا ہے۔

جزیرے پر چھوٹو گینگ نے بھینسیں پال رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس گندم کا وافر ذخیرہ بھی موجود ہے۔

وارداتیں[ترمیم]

اس علاقے کے دُور دراز ہونے کی وجہ سے ڈکیتی کی وارداتیں روایتی طور پر کم توجہ حاصل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مزاری قبیلے کے رہنما ڈکیتوں پر جوابی حملہ کر کے غلبہ حاصل کر لیتے ہیں جس سے حکومت کے لیے دردِ سر پیدا ہو جاتا ہے۔

اسی وجہ سے سنہ 2005ء میں چھوٹو گینگ نے خود کو اس وقت کافی دباؤ میں پایا تھا جب انھوں نے قریبی انڈس ہائی وے سے 12 چینی انجینیئروں کو اغوا کیا بعد میں انھوں نے ان انجینیئروں کو بغیر کسی تاوان کے رہا کر دیا۔

کارروائیاں[ترمیم]

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اپریل 2016ء میں فوج کی ڈاکوؤں کے خلاف تازہ کارروائی چینیوں کے خدشات دُور کرنے اور انڈس ہائی وے کو محفوظ بنانے کے لیے تھی۔

انڈس ہائی وے اس علاقے سے گزرتی ہے اور یہ وہ 46 ارب ڈالر کے اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے اہم گزرگاہ ہے جو چین نے پاکستان کی گوادر بندرگاہ اور شمال مغربی چین کو آپس میں جوڑنے کے لیے پیش کیا ہے۔

پولیس نے اپریل 2016ء میں کئی ہفتوں تک کچا مورو اور کچا جمال کا محاصرہ کیے رکھا۔

18 دن کی کارروائی کے دوران ڈاکوؤں نے سات پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا جب کہ 24 کو یرغمال بنا لیا۔ پولیس کے مطابق آپریشن میں سات ڈاکو ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں چھوٹو کا دست راست پہلوان عرف پلو بھی شامل تھا۔

یرغمال اہلکاروں کی رہائی کے لیے مقامی قبائل کے ذریعے گینگ سے مذاکرات کیے جاتے رہے ہیں۔

جب سے فوج اس جگہ پہنچی ہے تب سے ڈاکوؤں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی خبریں آ رہی ہیں لیکن اب تک زمینی کارروائی نہیں کی گئی۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چھوٹو گینگ کی جانب سے یرغمالوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

کنارے کے ساتھ آباد شہری آبادی بھی اس لڑائی کی زد میں آ سکتی ہے، تاہم وہاں کے باسیوں نے کئی بار کے انتباہ کے باوجود اب تک علاقے کو مکمل طور پر خالی نہیں کیا۔

چھوٹو گینگ نے گذشتہ برس مئی میں بھی سات پولیس اہلکاروں کو اغوا کرکے یرغمال بنایا تھا جس کے بعد گینگ کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا جس میں ہیلی کاپٹرز سے شیلنگ بھی کی گئی۔

گرفتاری[ترمیم]

پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سرگرم جرائم پیشہ گروہ چھوٹوگینگ کے سربراہ غلام رسول نے 12ساتھیوں سمیت غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے جبکہ اغوا کیے گئے 24 پولیس اہلکار بھی بازیاب ہو گئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ نے مختصر میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ گینگ کے سربراہ کو جزیرے سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے اور وہ حساس اداروں کی تحویل میں ہیں۔

پولیس اہلکاروں کی رہائی اور گینگ کے ارکان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا عمل بدھ کی صبح مکمل ہوا۔

فوج کے ترجمان نے بتایا کہ جزیرہ پرگینگ میں شامل افراد کے خاندان کی 24 خواتین، 44 بچوں اور 4 بزرگوں کو بھی حفاظتی تحویل میں لے کر جزیرے سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جزیرے پر آپریشن اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہاں موجود تمام جرائم پیشہ افراد ہتھیار نہ ڈال دیں یا اُن کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔

لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ جزیرے پر آپریشن مشکل ہے اور وہاں گھنے جنگل، دلدل اور بنکرز بنے ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ کچہ جمال کے علاقے میں منگل کو فوج کی جانب سے پمفلٹ پھینکے گئے تھے جن میں چھوٹو گینگ کے سرغنہ اور ارکان سے کہا گیا ہے کہ وہ مغوی پولیس اہلکاروں کو رہا کر دیں اور ہتھیار ڈال دیں بصورتِ دیگر فوجی کارروائی کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

مآخذ[ترمیم]

بی بی سی اردو