غنیمت کنجاہی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
غنیمت کنجاہی
معلومات شخصیت
مقام پیدائش کنجاہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1698ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنجاہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  عالم ،  مصنف ،  ادیب ،  نثر نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

غنیمت کنجاہی –مولانا محمد اکرم (وفات: 1698ء) سترہویں صدی کے فارسی زبان کے نامور و ممتاز ترین شاعر تھے۔مولانا غنیمت عالم یگانہ، فاضل زمانہ، علامۂ دوراں، فہامۂ بلند مکاں، شاعر باکمال، ناظم بے مثال، غواص بحرِ شریعت، گوہر دریائے حقیقت، صاحب عشق و محبت و علم و فضل تھے۔

سوانح[ترمیم]

نام و نسب اور وطن[ترمیم]

مولانا کا نام محمد اکرم، تخلص غنیمتؔ تھا۔ والد کا نام نظر محمد تھا۔ آپ کے والد اور چچا شیخ ابوالبقاء کنجاہی قادری بزرگ نوشہ گنج بخش (متوفی 1654ء) کے مریدین میں سے تھے۔قصبہ کنجاہ کا منصب اِفتاء آپ کے بزرگوں سے متعلق تھا۔ کتاب تذکرہ حسینی میں آپ کو ’’ از مفتی زادہائے قصبہ کنجاہ بود‘‘ لکھا ہے[1]۔ کتاب نشترِ عشق میں تحریر ہے کہ: ’’ خدمتِ افتاء آن قصبہ بہ پدر اُو متعلق بود‘‘، یعنی اِس قصبہ (یعنی کنجاہ) کی فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کے والد ِ بزرگوار سے متعلق تھی[2]۔مولوی عبد الرشید محبوب رقم عادل گڑھی کہا کرتے تھے کہ مولانا غنیمت کنجاہی کے آباؤ اَجداد پیشۂ خیاطی کیا کرتے تھے۔[3]

تعلیم[ترمیم]

مولانا کے اساتذہ میں نمایاں درجہ میر محمد زماں راسخ سرہندی کو دیا جاتا ہے۔ تذکرۂ گُلِ رعنا، تذکرۂ نشترِ عشق، تذکرۂ مجمع النفائس میں بھی میر محمد زماں کو ہی آپ کا استاد لکھا گیا ہے۔علاوہ ازیں مولانا نے کنجاہ کے تین مفتی و قاضی بھائیوں سے بھی تحصیل علم کیا جن میں قاضی خوشی محمد نور، قاضی رضی الدین اور قاضی ابوالبقاء کنجاہی شامل ہیں۔ قاضی ابوالبقاء کنجاہی آپ کے حقیقی چچا تھے۔ مولانا کے والد اور یہ تینوں حضرات نوشہ گنج بخش کے مریدین میں سے تھے۔لہٰذا اِن حضرات کے حالاتِ خاندان نوشاہیہ کے تذکروں مثلاً الاعجاز، ثواقب المناقب، کنز الرحمۃ اور تحائف قدسیہ میں موجود ہیں۔[4]

وفات[ترمیم]

غنیمت کی وفات کے سن کا تعین نہایت مشکل ہے۔ مولانا کے مزار پر جو کتبہ نصب ہے، اُس پر آپ کا سنہ وفات 1110ھ بالکل درست لکھا ہوا ہے، کیونکہ یہ سنہ وفات آپ کے وطن کے لوگوں کی روایت با تحقیق کے مطابق ہے۔ غالب اِمکان ہے کہ یہ اُن کی سینہ بہ سینہ یادداشت کے مطابق ہو۔ محمد افضل سرخوشؔ نے تذکرۂ کلمات اشعراء اولاً 1093ھ میں لکھا اور 1108ھ میں یا اُس کے بعد تذکرہ پر نظر ثانی کرکے دوبارہ مرتب کیا۔ افضل سرخوشؔ کی وفات 1126ھ میں ہوئی۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اُس نے 1093ھ سے لے کر 1126ھ کے وسطی سالوں میں کس سال تذکرہ پر نظر ثانی کی۔ اِس لیے یہ فرض کرنا کہ چونکہ اِس میں 1108ھ تک کے حالات ملتے ہیں، اِس لیے یہ 1108ھ میں دوبارہ مرتب ہوا ہوگا، چنداں درست ہیں۔ لہٰذا اِس پر نظرثانی کا زمانہ 1110ھ یا اُس کے بعد 1126ھ تک کوئی سنہ بھی تسلیم کر لیا جائے تو مولانا غنیمت کا سنہ وفات 1110ھ ماننے میں یہ بات حائل نہیں ہو سکتی۔مشہور مستشرق (Reu) نے مولانا کا سالِ وفات 1107ھ لکھا ہے اور حاشیہ پر فہرست مخطوطات فارسی عجائب خانہ، لندن کے صفحہ 700 کا حوالہ دیا ہے، لیکن یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ اِسی جگہ 1107ھ مولانا غنیمت کا نہیں بلکہ اُن کے استاد میر محمد زماں راسخ سرہندی کا سالِ وفات ہے جس سے دیگر تذکرہ نگار بھی متفق ہیں۔[5]

کتابیات[ترمیم]

  • حسین دوست سنبھلی: تذکرۂ حسینی، انتشارات منشی نول کشور، لکھنؤ۔
  • حسین قلی خان عظیم آبادی، نشترِ عشق، مطبوعہ تہران۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرۂ حسینی، صفحہ 230۔
  2. نشتر عشق، جلد 3، صفحہ 1114۔
  3. مولانا غنیمت کنجاہی، صفحہ 164۔
  4. مولانا غنیمت کنجاہی، صفحہ 111۔
  5. مولانا غنیمت کنجاہی، صفحہ 112۔

مزید دیکھیے[ترمیم]