فاطمہ نجار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فاطمہ نجار
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1938ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جبالیہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 23 نومبر 2006ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جبالیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات خود کشی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ریاستِ فلسطین   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فاطمہ عمر محمود نجار، لقب: ام محمد تھا، شہیدوں کی ماں کے لقب سے بھی مشہور تھیں، فلسطینی مجاہدہ خاتون جن کا تعلق حماس کے عسکری دھڑے کتائب عز الدین القسام سے تھا۔ 23 نومبر 2006ء میں جمعرات کی شام انھوں نے غزہ پٹی کے شمالی علاقہ جبالیہ میں خاص اسرائیلی فوجیوں کے قریب خودکش حملہ میں خود کو اڑا لیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد اسرائلی فوجی ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے تھے۔[3]

پیدائش و حالات[ترمیم]

فاطمہ نجار کی پیدائش سنہ 1938ء میں فلسطین کے شہر جبالیہ میں ہوئی، یہ وہ زمانہ تھا جس میں فلسطین اور اس میں رہنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا تھا، بالآخر 1948ء میں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نقل مکانی پر مجبور کیا جانے لگا۔ یہ وہیں ایک شہر جبالیہ میں اپنے سات بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں، انھوں نے نہ نقل مکانی کی اور نہ ان کے ارادے میں کسی طرح کی کوئی کمزوری آئی، بلکہ اپنی قوم کو تسلی دی اور انھیں بھروسا دلایا، فوج کے ناجائز قبضے کا انتقام لینے کا جوش و حوصلہ پیدا کیا، فلسطینی قوم اس خاتون کو شہید دادی ام محمد اور شہیدوں کی ماں کہہ کر پکارتی تھی۔

اسرائیلی قبضہ کے خلاف جہاد و مزاحمت[ترمیم]

سنہ 80 کی دہائی میں پہلی فلسطینی بغاوت میں حصہ لیا اور اس میں شریک ہونے والے مردوں کی دیکھ بھال کی، چنانچہ ان کا گھر بیسیوں مجاہدین و مزاحمین کی رہائش گاہ اور ٹھکانا ہوا کرتا تھا، اسرائیلی فوج نے انھیں روکنے کے لیے ان کے ایک بیٹے کو گرفتار کر لیا۔ اس کے نتیجے میں یہ بغاوت میں مزید سرگرم ہو گئیں، مجاہدین و مزاحمین کی مدد کرتی اور ان کے قیام و طعام کا انتظام کرتی تھیں۔

جبالیہ کی مسجد عمری الکبیر میں جمع ہوتی، یہ ان کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ میں پنجوقتہ نمازوں کا اہتمام، رمضان میں تراویح کا انتظام اور اس مسجد میں اور دوسری مساجد میں تعلیم تربیت کے دروس و حلقے منعقد ہوتے تھے۔

فوج کا گھر مسمار کرنا[ترمیم]

اسرائیلی قابض فوج نے انتفاضہ اول کے موقع پر ان کے گھر کے دونوں منزلوں کو مسمار کر دیا اور ملبہ میں تبدیل کر دیا۔ ان کے بیٹے کو گرفتار کر لیا اور 10 سال قید کی سزا سنائی۔

انتفاضہ اقصی میں شرکت[ترمیم]

انتفاضہ اقصی میں بھی فاطمہ نجار شریک رہیں انھوں نے اسرائیلی دفاعی افواج کے قتل عام اور خونریزی کا مشاہدہ کیا، شمالی غزہ کی خواتین کی زیر قیادت محاصرہ مہم میں شریک ہوئیں، بیت حانون کی مسجد نصر میں مجاہدین و محاصرین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ اس وقت محاذ میں شہادت کی دعا کر رہی تھیں۔

وفات[ترمیم]

فاطمہ نجار حماس کی عسکری دھڑے کتائب عز الدین القسام میں شامل ہو گئیں اور انھیں کسی جہادی محاذ پر خودکش حملہ میں پیش کرنے کی درخواست کرتی۔

صہیونی فوج نے جبالیہ کے مشرقی حصہ پر قبضہ کر لیا تھا، اسی کا انتقام لینے اور جان پیش کرنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ بالآخر جمعرات کے دن 23 نومبر 2006 کو اسرائیلی دفاعی افواج نے ایک گھر کو اپنے قبضہ میں لے لیا جو القسام کی زیر نگرانی اور گھات میں تھا، چنانچہ فاطمہ کو اس گھر میں بند کر دیا گیا جیسے ہی فوج نے دروازہ کھولا تو اسی وقت فاطمہ نے خود کو دھماکا میں اڑا دیا، جس میں متعدد فوجی ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے، اسرائیلی فوج میں اعتراف کیا کہ ان کا ایک فوجی مارا گیا ہے اور تین زخمی ہوئے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]