فضا ابن فيضى

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فضا ابن فيضى
معلومات شخصیت
پیدائش 7 جنوری 1923ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مئو   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 جنوری 2009ء (86 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مئو   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

فضا ابن فیضی (وفات: 17جنوری 2009ء) فضا صاحب کا نام تو فیض الحسن تھا مگر اپنے قلمی نام فضا ابن فیضی سے مشہور ہوئے یہاں تک کہ لوگ ان کا اصلی نام بھول گئے۔ یکم جولائی 1923ءکو مئوناتھ بھنجن یوپی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کے بعد مئو کے معروف دینی ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ مئو میں درس نظامی میں داخلہ لیا اور 1942ءمیں فراغت حاصل کی۔ آپ کی رسمی تعلیم بس اتنی ہی ہے بعد میں فضا صاحب نے پرائیویٹ طور پر انگریزی سیکھنے کی طرف توجہ کی مگر آبائی تجارت نے ان کو موقع نہ دیا اور تجارت میں لگ گئے کرانہ کی ایک دکان سے ہونے والی آمدنی ذریعہ معاش تھی اس کے علاوہ آمد نی کا ایک ذریعہ پاکستانی رسائل و جرائد تھے جہاں وہ باقاعدگی سے اپنے اشعار اشاعت کے لیے بھیجا کرتے تھے افسوس کہ ہند و پاک کی باہمی چپقلش کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ زندگی بھر کسی کی ملازمت نہ کی ،فرماتے ہیں

تھا شوق بہت شہ کا مصاحب بن جاوں
خیر گذری کہ فضا نوکری کرنے سے بچا

فضا ابن فیضی کی شاعری[ترمیم]

فضا ابن فیضی کی شاعری مثبت فکر کی ترجمان ہے آپ نے حالات و زمانہ کو جیسا دیکھا اپنے اشعار میں بے تکلف بیان کر دیا، نظم، غزل ،نعت اور حمد ہر صنف شاعری پر آپ نے خامہ فرسائی کی۔مخمور سعیدی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں نظموں کے مقابلہ میں تنوع زیادہ ہے ان کی نظم گوئی چند ایک موضوعات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ غالبا مخمور سعیدی صاحب نے فضا صاحب کے نعتیہ مجموعہ کلام ”سرشاخ طوبی “کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھی کی غزلوں کی طرح مضامین کا تنوع موجود ہے ان کا مجموعہ کلام ”شعلہ نیم سوز “جو نظموں کا مجموعہ ہے اس پر شاہد ہے۔ فضا صاحب مشاعرے میں بلائے جاتے تھے اور اشعار بھی پڑھتے تھے مگر سب سے بڑی مجبوری فضا صاحب کے ساتھ یہ تھی کہ وہ مشاعروں کی سطح تک گر کر اشعار پڑھنے کے قائل نہ تھے۔ فضا صاحب ہمیشہ معیاری شاعری کرتے تھے خواہ اس پر انھیں داد ملے یا نہ ملے۔ فضا صاحب چونکہ عربی و فارسی زبان کے ماہر تھے اس وجہ سے ان کی شاعری میں عربی و فارسی تراکیب کی کثرت ہے یہی وجہ ہے کہ فضا صاحب کی شاعری سمجھنے کے لیے عربی اور فارسی زبان کی واقفیت بھی ضروری ہے۔ فارسی اور عربی نہ جاننے والوں کے لیے ان کی شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ مگر عجیب بات یہ کہ فضا کے ترانے اس سے مختلف ہیں۔ فضا صاحب نے جامعہ سلفیہ بنارس ،جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاوں اور جامعہ اسلامیہ سنابل اور کئی دیگر اداروں کا ترانہ لکھا ہے اس کے اندر الفاظ انتہائی سہل تراکیب آسان اور فکر کی بلندی اپنے عروج پر ہے۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے ترانہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیں: سحر کا پیرہن ہیں ہم، بہار کی ردا ہیں ہم
بدن پہ زندگی کے رنگ و نور کی قبا ہیں ہم

چراغ کی طرح سرِدریچہ وفا ہیں ہم
مغنیِ حرم ہیں، بربط لبِ حرا ہیں ہم

کہ گلشن رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم
خدا کرے فضا یوں ہی خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں ہنرورانِ سنت و کتاب جاگتے رہیں :

چمن چمن بشارتِ نسیم جاں فزا ہیں ہم
کہ گلشنِ رسول کے طیورِ خوش نوا ہیں ہم

مذکورہ دو بندوں میں ردا، قبا اور مغنی عربی الفاظ ہیں مگر ان کو فضا صاحب کے نہایت خوبصورتی سے باندھا ہے بلکہ ان عربی الفاظ کی اضافت فارسی کی طرف کرکے ایک خوش کن نغمگی پیدا کردی ہے’ مغنی حرم‘ اور’ طیور خوش نوا‘ جیسی تراکیب فضا کی شعری مہارت کو واضح کرتی ہیں۔ فضا صاحب کا رشتہ ایک طرف قدیم کلاسیکی شاعری سے ملتا ہے تو دوسری طرف جدید لب و لہجہ کی شاعری سے بھی انھوں نے اپنا تعلق جوڑے رکھا، بجا طور پر فضا کی شاعری قدیم و جدید کا سنگم ہے۔ فضا نے اپنا رشتہ میر و داغ سے بنائے رکھا اور اسی معیار کی شاعری پوری زندگی کرتے رہے۔ نمو نے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں::

غیر مشروط مسائل لب و لہجہ مشروط
چلو اچھا ہے کہ وہ ہم سے مخاطب ہی نہ تھا

چلتے پھرتے پاؤں میں لفظوں نے بیڑی ڈال دی
اب کہاں دہلیزِ معنی چھوڑ کر جاؤں گا میں

مجھے پکار رہی ہے زمیں کی پہنائی
یہ در تو کھول کہ میں آسمان سے نکلوں

بہت قریب رہا مجھ سے وہ مگر پھر بھی
یہ فاصلہ سا مرے آس پاس کیسا ہے

چاند کا درد سمجھ دن میں چمکنے والے
تو تو اک پل کو کبھی منظر شب میں نہ کھلا

اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا

خاکسترِحیات ہوں دامن میں باندھ لے
پیارے تو مجھ کو شعلہ سمجھ کر ہوا نہ دے

فضاابن فیضی ایک نظر میں[ترمیم]

نام: فیض الحسن بن مولانا منظور حسن تاریخ ولادت: یکم جولائی1923ء تعلیم: ابتدائی عربی جامعہ عالیہ عربیہ مئو سے عالمیت اورفضیلت(1942)جامعہ فیض عام مئو سے الہ آباد بورڈ سے منشی ،کامل، مولوی، عالم اور فاضل کے امتحان۔ ذریعہ معاش: تجارت مجموعہ کلام : سفینہء زرگل (غزلیات ورباعیات) فیضی پبلیکیشنز مئو دریچہء سیم سمن (غزلیات) پس دیوار حرف (غزلیات) سبزہء معنی بیگانہ (غزلیات)اسلامک سائنٹفک ریسرچ اکیڈمی،نئی دہلی۔25

شعلہء نیم سوز (غزلیات) فیضی پبلیکیشنز، مئو سرِشاخ طوبی (حمد ،نعت ومنظومات) جامعہ سلفیہ بنارس غزال مشک گزیدہ (رباعیات) (غیر مطبوعہ) لوح آشوب آگہی (منظومات) (غیر مطبوعہ) آئینہ نقش صدا(غزلیات) (غیر مطبوعہ) سخنہائے گفتی (خطبہء استقبالیہ) دانش کدہ مئو خود نوشت حالات زندگی اور شاعری دانش کدہ مئو (غیر مطبوعہ)

نقادوں کی نظر میں[ترمیم]

فضاکی زندگی ہی میں ماہرین فن نے ان کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر عبد المغنی صاحب کہتے ہیں:”آج کے طوفان مغرب میں فضا کی مشرقیت اپنی جگہ ایک مضبوط ستون ہے اور یہ ایقان شاعر کے فکری رسوخ اور ذہنی بلوغ کی علامت ہے پروفیسر مسعود حسین کہتے ہیں:”وہ صوت و لفظ کے نازک رشتے کے محرم ِراز ہیں۔“پروفیسر ابو الکلام قاسمی صاحب کہتے ہیں :فضا ابن فیضی ان معدودے چند ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی مشاقی اور قدرت ِاظہار کلاسیکی روایت سے ان کی دلچسپی اور وابستگی کا پتہ دیتی ہے اور نئے شعری رجحانات کی ان کی شاعری کو نئے اسالیب اظہار اور نئے طرز احساس سے ہم رشتہ کرتی ہے“۔

== فضا پرلکھے گئے ڈاکٹریٹ کے مقالے ==# فضا ابن فیضی فکر و فن اور شخصیت“ ڈاکٹر محمد شفیع بنارس ہندو یونیورسٹی# فضا ابن فیضی کی شاعری اور شخصیت “مقالہ نگار ڈاکٹر ممتاز،پٹنہ یونیورسٹی# فضا ابن فیضی “ڈاکٹر حدیث انصاری، اسلامیہ کریمیہ کالج، اندور# فضا ابن فیضی پرتحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹر تبسم بانو نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔# فضا ابن فیضی کی نظم نگاری ایک تجزیاتی مطالعہ؛ فیضان سعید؛ جی آئی سی لکچرر؛رضا انٹر کالج؛ رام پور نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے 2007ء میں ایم۔ فل۔ کی ڈگری حاصل کی۔# فی الحال پاکستان میں ايك صاحب فضا ابن فیضی اور ان کی کتابوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ میرے علم کے مطابق پاکستان میں ایسی کوئی تحقیق نہیں ہو رہی ہے۔ (جابر زماں)

اعتراف ہنر[ترمیم]

فضا کی ادبی خدمات پر مختلف ادبی تنظیموں نے انھیں ایوارڈ سے نوازا۔ ’سفینہ زرگل ‘کی اشاعت پر اردو اکادمی لکھنؤ اور مجموعی ادبی خدمات پر غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی 2000ءمیں انھیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ادبی ایوارڈ فہرست یہاں گنانا ممکن نہیں ہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ 1991ءمیں سہ ماہی توازن مالیگاؤں نے ایک خصوصی نمبر نکالا تھا جس کی ضخامت296 صفحات ہے اس میں ملک کے معروف ناقدین نے فضا کی شاعری کا مختلف جہات سے جائز لیا ہے۔ فضا کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی کے مقالے ان کی زندگی ہی میں لکھے گئے۔ڈاکٹر شفیع صاحب بنارس یونیورسٹی سے اور اندور سے ڈاکٹر حدیث انصاری نے آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ اول الذکر مقالہ 2001ءمیں شائع بھی ہو چکا ہے۔

غزل گوئی[ترمیم]

فضا صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی غزلوں میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں ایک خامی یہ ہے کہ عربی و فارسی اور مشکل الفاظ کی بھر مار نے ان کی شاعری کو عوام سے دور کر دیا۔ انہی مشکل الفاظ کی وجہ سے ان کی شاعری میں نغمگی کی کمی پائی جاتی ہے جہاں فضا نے اس حصار کو توڑا ہے وہاں ان کا اصلی جوہر کھل کر سامنے آیا ہے ،خاص طور پر نظموں میں۔ فضا کی مشکل پسند ہی ہے کہ ان کے سبھی مجموعہ کلام کے نام سہ حرفی ہیں۔ ’سفینہ گل‘،’ سبزہ معنی بیگانہ‘، ’دریچہ سیم سمن ‘اور ’پس دیوار حرف ‘وغیرہ۔ فضا کے کل چھ مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں ان میں سے بعض مجموعے کئی یونیورسٹیز میں داخل نصاب ہیں۔ فضا کے یہاں تصوف کے مضامین نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اور یہ بات مشہور و معروف ہے کہ اہل حدیث اور تصوف میں بعد المشرقین کا فرق ہے۔ ہاں ،دینی مضامین کی کثرت ہے۔ بلکہ ایک مجموعہ کلام ’سر شاخ طوبی ‘حب نبی میں ڈوب کر لکھا گیا نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔ اس مقالہ كا خاتمہ فضا ہى کے ايك شعر سے كرتا ہوں:

مجھ سے ملنا ہو تو پھر میری کتابیں دیکھنا
ہرورق پر عکس اپنا چھوڑ کر جاؤں گا میں

حوالہ جات[ترمیم]

link title