فضل بن موسیٰ سینانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت فضل بن موسیٰ سینانیؒ
معلومات شخصیت

حضرت فضل بن موسیٰ سینانیؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

فضل نام،ابو عبد اللہ کنیت اوروالد کا نام موسیٰ ہے،بنو قطیعہ مروزی سے نسبت دلاء رکھنے کے باعث مروزی اوروطن کی طرف منسوب ہوکر سینانی مشہور ہوئے۔ [1]

مولد اوروطن[ترمیم]

115ھ میں بمقام سینان پیدا ہوئے،یہ مرو سے پانچ فرسخ پر واقع ایک گاؤں ہے[2]ملک خراسان میں،مرو وہ مردم خیز خطہ ہے جس کو محدثین و فقہا کے ایک انبوہِ عظیم کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہے،کسی زمانہ میں کوفہ بصرہ اوربغداد کی طرح وہ بھی علم کا ایک بڑا مرکز شمار ہوتا تھا،جن ائمہ کے ناموں کے ساتھ مروزی کی نسبتیں لگی ہوئی ہیں وہ دراصل مرو ہی کی طرف منسوب ہیں۔

ترک وطن کا واقعہ[ترمیم]

ایک افسوسناک واقعہ کی بنا پر شیخ سینانی اپنے وطن مالوف کو خیرباد کہہ کر دوسرے گاؤں میں جاکر رہنے لگے تھے چونکہ یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اورعبرت انگیز بھی ،اس لیے یہاں اس کا تفصیلی ذکر غالباً بے محل نہ ہوگا۔ جب شیخ فضل بن موسیٰ کے آفتاب علم و فضل کی کرنیں اطرافِ عالم میں پھیلیں،تو تشنگانِ علم کے قافلے ہر سمت سے اسی ایک مرکز ثقل کی طرف کھینچے چلے آنے لگے،بیان کیا جاتا ہے کہ قریہ سینان طالبانِ علم کی کثرت سے بھر گیا تھا،شیخ کی اس درجہ مقبولیت اورشہرت بہت سے دلوں میں کھٹکنے لگی اوروہ ان کی بدنامی کی تدبیریں کرنے لگے،چنانچہ انھوں نے ایک فاحشہ عورت سے مال وزر کی حرص دلا کر یہ اقرار کرالیا کہ شیخ فضل (حاشا وکلا)اس کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں،پھر حاسدین نے ان پر بدکرداری کا اتہام عائد کیا جس سے دل برداشتہ اورملول خاطر ہوکر فضل بن موسیٰ نے وہ گاؤں ہی چھوڑدیا اور ایک دوسرے قریہ "راماشاۃ"نامی میں جاکر سکونت اختیار کرلی۔ لیکن چند ہی دن بعد خدائے عزوجل نے اپنے مقبول بندہ کی برأت کا سامان بھی کر دیا اورہوا یہ کہ شیخ فضل کے ترک وطن کے بعد قریہ سینان میں شدید ترین خشک سالی پیدا ہو گئی ،لوگوں کو اپنی غلطی اورقدرت کے انتقام کا فوراً احساس ہو گیا،چنانچہ وہ لوگ ایک وفد کی شکل میں حاضر خدمت ہوئے اوراپنی نازیبا حرکتوں کی معافی مانگی اوربہت منت سماجت کرکے دوبارہ سینان چلنے کی درخواست کی،لیکن شیخ نے فرمایا کہ پہلے تم لوگ اپنے کذب صریح اوربہتان عظیم کا اعتراف کرو؛چنانچہ لوگوں نے کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا،اپنی برأت سننے کے بعد انھوں نے فرمایا: لااسکن قریۃ اھلھا کذبہ صفۃ (میں ایسے گاؤں میں ہر گز نہیں رہوں گا،جس کے باشندے جھوٹے ہیں۔ اور پھر تاحیات راما شاۃ ہی میں مقیم رہے۔ [3]

فضل وکمال[ترمیم]

علم و فضل میں نہایت بلند مقام رکھتے تھے انھوں نے جو زمانہ پایا تھا اس میں تابعین کرام کی لائی ہوئی بہاریں ختم ہورہی تھیں اوران کی جگہ اتباع تابعین کی تازہ دم جماعتیں علم وکمال کی مجلسیں سجا کر درس وافادہ میں مشغول تھیں،فضل ابن موسیٰ نے کوفہ اوردوسرے مراکز علم وفن کا سفر کرکے اپنے جیب و داماں کو لا تعداد گوہر آبدار سے مالا مال کیا تھا،اسی کا نتیجہ تھا کہ پھر وہ خود بھی مشاہیر زمانہ ائمہ میں شمار کیے گئے۔ حافظ ذہبی انھیں"احدعلماءالثقات"اورشیخ مروومحدثھا لکھتے ہیں[4]علامہ سمعانی ان کو علم و فضل اورعمر میں عبد اللہ بن مبارک کا قرین ومثیل قرار دیتے ہیں۔ [5]

حدیث[ترمیم]

حدیث ہی ان کے فکر و نظر کا خصوصی جولا نگاہ تھی،اس کی سماعت وکتابت انھوں نے سلیمان الاعمش ہشام بن عروہ،اسماعیل بن ابی خالد،ابو حنیفہ ، داؤد بن ابی ہند، خثیم بن عراک معمر بن راشد ،یونس بن ابی اسحاق السبیعی،سفیان ثوری شریک اورقاضی شریح سے کی تھی۔ [6]

تلامذہ[ترمیم]

ان کے فیض صحبت سے بہرہ یاب ہونے والوں میں علی بن حجر، معاذ بن اسد محمود بن غیلان، اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن اکثم اورمحمد بن حمید کے اسمائے گرامی معروف وممتاز ہیں۔ [7]

تثبت وثقاہت[ترمیم]

اتقان وثقاہت میں بھی ان کا مرتبہ بہت ارفع ہے،تمام علما ان کی صداقت وثقاہت کے معترف ہیں،ابو نعیم کا بیان ہے کہ وہ عبد اللہ بن مبارک سے بھی زیادہ ثبت تھے [8]ابو حاتم کہتے ہیں کہ"ھوصدوق صالح"[9]عبد اللہ بن مبارک ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ"حدثنی الثقۃ"[10]امام وکیعؒ کا قول ہے:"اعرفہ ثقۃ صاحب سنۃ"[11] علاوہ ازیں یحییٰ بن معین، ابن شاہین،امام بخاری ،علامہ ذہبی،ابن حبان اورعلامہ ابن سعد نے بھی ان کی توثیق کی ہے [12] صرف علی بن المدینی ایک تنہا شخص ہیں جو سینا نی کی بعض روایات کو منکر قرار دیتے ہیں۔

عقل وفرزانگی[ترمیم]

بہت ہی دانشمند اورذہین وفطین تھے،ابو اسماعیل ترمذی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اکثر ابو نعیم کو فضل بن موسیٰ کے بارے میں یہ کہتے سُنا ہے کہ : کان واللہ عاقلا لبیبا [13] بخدا وہ بہت عاقل ودانشمند تھے۔

اعترافِ علما[ترمیم]

مشہور محدث حاکم ان کے علم و فضل کا اعتراف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: کبیر السن عالی الاستاد وامام من ائمۃ عصر پر فی الحدیث سن رسیدہ بلند اسناد اوراپنے زمانہ کے ائمہ حدیث میں تھے۔ ابراہیم بن شماسؒ نے ایک دفعہ امام وکیع سے سینانی کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا: ثبت سمع الحدیث معنا لاتبالی سمعت الحدیث منہ اومن ابن مبارک [14] وہ ثبت ہیں انھوں نے ہمارے ساتھ حدیث کا سماع حاصل کیا تھا،تم اگر ان سے یا ابن مبارک سے سماع کرو تو پھر کوئی پروا نہ کرنا چاہیے۔ علامہ سمعانی نے لکھا ہے کہ وہ علم اورعمر دونوں میں عبد اللہ ابن مبارک کے بربر تھے [15]باختلافِ روایت ربیع الاول 191ھ یا 192ھ میں انتقال ہوا۔

وفات[ترمیم]

علامہ ذہبی نے اول الذکر ہی کو راجح قرار دیا ہے [16] راما شاۃ ہی میں جہاں وہ ترکِ وطن کے بعد مقیم تھے،تدفین ہوئی۔ [17]


حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اللباب فی الانساب:589)
  2. (کتاب الانساب اللسبعانی:323)
  3. (اللباب فی الانساب:1/590 وکتاب الانساب:323)
  4. (میزان الاعتدال:2/334والعبرفی خبرمن غبر:1/307)
  5. (کتاب الانساب:323)
  6. (تہذیب التہذیب:7/386)
  7. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:309وکتاب الانساب ورق 323 وتہذیب :7/287)
  8. (العبر:1/307)
  9. (تہذیب التہذیب:7/286)
  10. (ایضاً)
  11. (العبر:1/307)
  12. (خلاصہ تذہیب :309،ومیزان الاعتدال:4/334، وتہذیب :7/287وطبقات ابن سعد:7/104)
  13. (تہذیب:7/387)
  14. (ایضاً)
  15. (کتاب الانساب ورق:323)
  16. (العبر:1/307)
  17. (سمانی:323)