مندرجات کا رخ کریں

قاضی نور عالم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قاضی نور عالم مانسہروی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔


قاضی نور عالم مانسہروی
ذاتی
پیدائش(1247ھ بمطابق 1831ء)
موضع بروٹ مانسہرہ
وفات(7 ربیع الثانی 1339ھ بمطابق 1921ء)
مذہباسلام
والدین
  • قاضی نور محمد (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاممانسہرہ
دورانیسویں بیسویں صدی
پیشروشمس الدین سیالوی
جانشینقاضی غلام نبی

ولادت

[ترمیم]

قاضی نور عالم کی ولادت 1247ھ بمطابق 1831ء کو موضع بروٹ ضلع مانسہرہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام قاضی نور محمد تھا۔ آپ کا تعلق قطب شاہی اعوان خاندان سے تھا۔

سلسلہ نسب

[ترمیم]

قاضی نور عالم کا خاندانی شجرہ اس طرح ہے۔

  • قاضی نور عالم بن قاضی نور محمد بن قاضی کرم دین بن قاضی شاه ولایت بن قاضی محمد عنایت بن قاضی محمد ولایت بن قاضی محمد اکبر بن قاضی مظہر الحق بن قاضی عبد الحق بن قاضی فضل حق بن قاضی عبد الله بن قاضی احمد خان بن قاضی رب نواز بن قاضی حق نواز بن قاضی شاه محمد بن قاضی محمود بن پنوں خان بن میال شاہین کالانہ شاہ بن کال شاہین خلیل شاہ بن امان شاه (حضرت قطب شاہ) بن انحا شاه بن محمود شاہ بن فقیر شاہ بن سلطان شاہ بن حیدر شاہ بن اکبر شاہ بن بقا شاہ بن تراب شاه بن حضرت شاہ بن تراب شاہ بن انت شاہ نن سکندر شاہ بن فیروز شاہ بن حیدر شاہ بن بقا شاہ بن حمید شاہ بن احمد شاه بن شاہ شمس تبریز بن حضرت محمد حنفیہ بن حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجہ۔

کہکہ میں قیام

[ترمیم]

قاضی نور عالم نے جب ہوش سنبھالا تو اپنی خالہ کے پاس موضع كبکہ ہری پور ہزارہ تشریف لے گئے اور اپنی خالہ کے مویشی چرانے لگے۔ ایک مرتبہ گھر میں ایک کتاب پڑی دیکھی تو خالہ سے پوچھا یہ کتاب کسی قسم کی ہے؟ خالہ نے جواب دیا تمھیں اس کتاب کے بارے میں علم نہیں ہے۔ تم ایک بہت بڑے عالم کے بیٹے ہو جنہیں افغانستان میں ’’فیضی ملا“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ خالہ کے اس جواب کا آپ کے دل پر گہرا اثر ہوا۔ پوری رات نیند نہ آئی۔ دوسرے روز حسب معمول مویشی چراگاہ میں لے گئے اور دوسرے ساتھیوں سے کہا کہ میں آج شہر جارہا ہوں۔ جب آپ شام کو گھر جائیں تو میرے مویشی بھی گھر پہنچا دینا۔ بس اپنے ساتھیوں سے رخصت ہوکر حصول علم کے لیے پھرتے پھراتے اٹک جا پہنچے۔

حصول تعلیم

[ترمیم]

قاضی نور عالم جب اٹک پہنچے تو وہاں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے اور ہندوستان کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بالاخر مولانا احمد على سہارنپوری سے دورہ حدیث شریف پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔

  • مشاہیر علمائے دیوبند کا مولف لکھتا ہے: ۔ اعلی تعلیم کے لیے مظاہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا اور حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغ حاصل کی۔

درس وتدریں

[ترمیم]

قاضی نور عالم نے حصول علم کے بعد ہندوستان سے مراجعت فری اور لاوہ تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال میں ایک مدرسہ میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔ اس مدرسہ میں آپ کے دیرینہ دوست حضرت مولانا امیر اللہ قلندر ساکن شنکیاری ضلع مانسہرہ بھی مدرس تھے۔ قاضی نور عالم عطائے خلافت کے بعد کچھ عرصہ لاوہ میں قیام کے بعد حکم مرشد کامل عازم وطن ہوئے۔ آپ کی معیت میں قبائلی علاقہ جات اور کشمیر کے تقریبا تیس طلبہ کی جمعیت تھی۔ کئی ایام کی مسافت طے کرنے کے بعد مانسہرہ پہنچے تو موسلا دھار بارش شروع تھی۔ آپ ایک برساتی نالہ جو مانسہرہ شہر کے درمیان سے گزرتا ہے عبور کر کے ایک حجره نما مکان کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ بارش تھمنے تک وہاں ٹھہر جانا چاہے۔ جب آپ مع طلبہ حجرہ میں داخل ہوئے تو ایک مجذوب دیکھا۔ مجذوب نے آپ کی خوب آو بھگت کی اور اپنے بالکے سائیں کترا کو حکم دیا کہ برادر طریقت آئے ہیں ان کے لیے حلوہ اور سبز چائے تیار کرو۔ مجذوب قاضی نور عالم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے۔ حلوہ اور چائے نوش کرنے کے بعد قاضی نور عالم سے مخاطب ہوئے کہ اب کدھر جانے کا ارادہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ طلبہ کشمیر جانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں کہ وہاں کے مہاراجا نے کہا ہے کہ اگر قاضی نور عالم یہاں آجائیں تو ان کی خوب پزیرائی کی جائے گی۔ مدرسہ کے ساتھ ایک بڑی جاگیر بھی دی جائے گی۔ مجھے جاگیر وغیرہ کی تو قطعا حاجت نہیں البتہ یہ خواہش ہے کہ طلبہ کو درس دیتا ہوں تا کہ ان کے علم کی تعمیل ہو جائے۔ مجذوب نے جواب دیا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بڑی سرکار نے ہمارا یہاں سے تبادلہ کر دیا ہے۔ ہم عازم کشمیر ہوں گے اور آپ اس علاقہ کے سردار ہوں گے۔ دوران گفتگو جمعہ خان سواتی نمبردار مانسہرہ کا ادھر سے گذر ہوا۔ ایک عالم کو مع طلبہ دیکھ کر سلام و نیاز کے بعد عرض گزار ہوا کہ آپ مانسہرہ قیام فرمائیں۔ طلبہ کے قیام و طعام اور درس و تدریس کا انتظام ہمارے ذمہ ہو گا اور آپ کو اس قدر مجبور کیا کہ آپ کو اپنا ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ آپ نے مٹیاں والی مسجد میں درس و تدریس اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ مجذوب عازم کشمیر ہوئے اور مظفر آباد جاگزین ہوئے۔ یہ مجذوب بعد میں سائیں سہیلی سرکار کے نام سے مشہور و معروف ہوئے۔ بعد ازاں آپ مسجد خان بہادر محمد حسین خان نمبردار مانسہرہ میں منتقل ہو گئے اور آخری دم تک اس مسجد میں درس و تدریں امامت و خطبت اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔

تلامذہ

[ترمیم]

مانسہرہ کے علاوہ کشمیر اور افغانستان تک قاضی نور عالم کے شاگرد پھیلے ہوئے تھے جو اپنے وقت کے متدین علما میں شمار ہوتے ہیں۔ چند تلامذہ کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

  1. مولانا حمید الدین مانسہروی
  2. مولانا محمد اسحاق مانسہروی
  3. مولانا عبد الحق آف سرپنہ ضلع ہزارہ
  4. قاضی احمد حسن مانسہروی (پسر)
  5. قاضی غلام نبی مانسہروی (پسر)
  6. قاضی عبد الحق مانسہروی (پسر)
  7. مولوی سید انور شاہ کشمیری دیوبندی
  8. مولانا احمد گل ہزاروی
  9. مولانا عبد الکریم ہزاروی ساکن لبرکوٹ ہزارہ

بیعت و خلافت

[ترمیم]

قاضی نور عالم کے والد ماجد ایک صاحب نسبت بزرگ تھے۔ یہ روحانی خاندانی کشش آپ کے سینہ میں موجزن تھی۔ مرشد کامل کی تلاش میں ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے۔ چنانچہ ایک رات خواجہ شمس العارفین سیالوی کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی۔ خواجہ سیالوی نے فرمایا : اے نور عالم ! میرے پاس سیال شریف آجاؤ اور سیال شریف کا پورا نقشہ اور پتہ دیا۔ آپ علی الصبح دیوانہ وار عازم سیال شریف ہوئے۔ جب سیال شریف پہنچے تو خواجہ سیالوی کو اس حالت میں پایا جیسے خواب میں زیارت سے مشرف ہوئے تھے۔ قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ خواجہ سیالوی نے استفسار فرمایا کہ سیال شریف کی تلاش میں کوئی دقت تو پیش نہیں آئی؟ عرض کیا جہاں آفتاب روشن ہو وہاں اندھیرے یا راستہ نہ ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خواجہ سیالوی نے چند یوم اپنے پاس ٹھہرایا اور بیعت و خلافت سے نواز کر واپس کیا۔ نیز سلسلہ درس و تدریس کے جاری رکھنے کی تلقین فرمائی۔

شیخ سے عقیدت

[ترمیم]

قاضی نور عالم کو اپنے مرشد کامل سے اس قدر محبت اور عشق تھا کہ علائق دنیا سے رخ پھیر کر ساری عمر مرشد کے قدموں میں گزارنے کا ارادہ تھا لیکن مرشد کا حکم تھا کہ تمهارا وظیفہ درس وتدریں ہے لہذا الامر فوق الادب کے تحت (مجبوراً) اس ارادہ کو ترک کرنا پڑا۔ آپ مانسہرہ سے طویل مسافت طے کر کے پیادہ سیال شریف حاضر ہوتے تھے۔ مانسہرہ اور گرد و نواح و مضافات سے عوام کی کثیر تعداد بغرض بیعت اپنے مرشد طریقت کی بارگاه عالی وقار میں لے جاتے تھے۔ خواجہ سیالوی فرماتے : قاضی صاحب! آپ ہی ان کو بیعت کر لیا کریں۔ تو دست بستہ عرض کرتے : حضور! آپ نے میرے ذمہ صرف درس و تدریس کا کام لگایا ہے مریدوں کے بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا نیز آپ کے ہوتے ہوئے میں کیونکر اجرائے بیعت کا سلسلہ کر ستکا ہوں اور آپ کے ہوتے ہوئے کیوں مخلوق خدا کو آپ کے فیوض و برکات سے محروم رکھو۔ بغیر اجازت اپنے مرشد کامل کے دوسرے سلسلہ کے ولی، فقیر اور درویش سے ملاقات نہ کرتے۔ فرمایا کرتے کہ میں غیر سلسلہ کے فقراء سے ملاقات کر کے اپنے شیخ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ سیال شریف کے در اقدس کے علاوہ نور عالم کا سر کسی دوسرے درویش کے در پر نہیں جھک سکتا۔ سیال شریف کے سفر کے دوران راستے میں جو مزارات مقدسہ آتے باہر ہی کھڑے کھڑے دعائے مغفرت و ایصال ثواب کرتے۔ ایک بار حضرت خواجہ سیالوی نے حضرت خواجہ سید ضامن شاہ مشہدی کو فرمایا کہ مانسہرہ کے قبرستان میں ایک کامل درویش کا مزار ہے جس کا اسم گرامی مولانا شہاب الدین ہے اور قوم کے بھٹی ہیں۔ جہاد بالكفار میں شہید ہوئے۔ یہ میرے دوست ہیں ان کو میرا سلام کہنا۔ جب دونوں برادر طریقت قبرستان میں داخل ہوئے تو شاہ صاحب نے قاضی نور عالم سے فرمایا کہ مزار شریف کے اندر چلیں۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ شاہ صاحب آپ تو مزار شریف کے اندر جا سکتے ہیں کیونکہ آپ نے حضور کا سلام پیش کرنا ہے لیکن نور عالم کا سر بغیر سیال شریف کے در اقدس کے کہیں اور نہیں جھک سکتا۔ الغرض شاہ صاحب نے مزار شریف کے اندر داخل ہوکر سلام پیش کیا اور قاضی نور عالم نے مزار شریف کے باہر کھڑے کھڑے فاتحہ خوانی کی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص آسمان میں اڑتا ہوا اور نور کے شعلے برساتا ہوا کیوں نہ آجائے جس آنکھ نے خواجہ سیالوی کا روئے زیبا دیکھا ہے وہ آنکھ کسی دوسرے کی طرف نہیں اٹھ سکتی۔ اگر اٹھے تو اندھی ہو جائے۔ آپ اپنے مرشد کامل خواجہ شمس الدین سیالوی کے وصال مبارک پر نہایت افسردہ اور غمگین ہوئے اور دل پر اس قدر غم جدائی کا اثر ہوا کہ دو ماہ عالم فراق میں گزارے ۔

سیرت و کردار

[ترمیم]

قاضی نور عالم پاکیزه اخلاق و کردار کے مالک تھے۔ زہد و تقوی اور پابندی شریعت میں فرد فرید تھے۔ مہمان نوازی، سخاوت اور فیاضی میں مشہور تھے۔ سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ طلبہ پر ازحد مہربان اور شفیق تھے۔ علم و مطالعہ کا اعلی ذوق تھا۔ اب بھی آپ کا کتب خانہ موجود اور محفوظ ہے۔ مناظرہ میں ید طولی حاصل تھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی مناظرہ کرنے کا شوق تھا۔ بعد میں اپنے شیخ طریقت کے ارشاد پر مجتنب ہو گئے۔ اپنے شیخ کے شیدانی تھے۔ ہمہ وقت باوضو اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے۔ برادران طریقت سے حد درجہ محبت کرتے۔ ان کی خدمت اور خاطر مدارات میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برادران طریقت کئی کئی ماہ ان کے پاس قیام کرتے اور فیض صحبت سے مالا مال ہوتے تھے۔ زیادہ مرید بنانے سے اجتناب فرماتے۔ اسی لیے آپ کے چند ایک مرید تھے۔ بہت بڑے نحوی تھے۔ معاصر علما آپ کو امام النحو کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ ہر کلمہ کی 72 تراکیب کرتے تھے۔ اوراد و وظائف کے پابند تھے۔

حلیہ و لباس

[ترمیم]

قاضی نور عالم کا متوسط قامت، دبلا پتلا جسم، نورانی چہرہ اور چشمان خوبصورت تھی۔ آخری عمر میں سفید براق ریش تھی۔ قاضی نور عالم ہمیشہ سادہ اور سفید لباس زیب تن فرماتے تھے۔ سر پر عمامہ باندھتے تھے۔

وصال

[ترمیم]

قاضی نور عالم کے وصال سے قبل ایک شخص خواب کی تعبیر کے لیے حضرت مولانا امیر الله قلندر مانسہروی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنا خواب یوں بیان کیا : میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ آپ (مولانا امیر اللہ قلندر )اس جگہ (جہاں اب قاضی نورعالم اور مولانا امیر اللہ قلندر کے مزارات ہیں) تشریف فرما ہیں۔ آپ کے ارد گرد بچوں کا مجمع لگا ہوا ہے۔ ایک سید آپ کی پشت کی جانب تشریف فرما ہے۔ آپ اس کو پیچھے ہٹاتے ہیں کہ سید صاحب پیچھے یہ جگہ شہر کے مہاراجا کی ہے۔ آپ میری پشت کی سمت میں بیٹھیں۔ یہ سن کر مولانا امیر اللہ قلندر رو پڑے اور قاضی نور عام کی جانب اشارہ کر کے فرمانے لگے شہر کا مہا راجا وہ بیٹھا دلائل الخیرات شریف پڑھ رہا ہے۔ بچوں سے مراد یہ ہے کہ جو بچہ خسرو اور چیچیک میں مبتلا ہو گا یا علاقہ میں وبا ہوگی تو قاضی نور عالم اور مولانا امیر اللہ کے پاس آئے گا تو الله تعالی اس مرض سے شفا دے گا۔ مولانا امیر اللہ قلندر کے مزار کے باہر مزار کی پشت کی جانب ایک سید صاحب کا مزار موجود ہے۔

قاضی نور عالم نے اپنے آخری وقت میں عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے بھائی قاضی نور احمد جو آپ کے پاس چارپائی پر تشریف فرما تھے سے فرمایا کہ ابلیس علما پر بہت سوال کرتا ہے لہذا آپ لوگ مجھ سے گفتگو نہ کریں بلکہ آہستہ آہستہ تلاوت قرآن پاک میں مشغول رہیں۔ آپ خود بھی زیرلب کچھ پڑھ رہے تھے۔ فرمایا کہ روح سینے تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے بعد آپ نے با آواز بلند کلمہ شہادت پڑھا اور اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی ۔ آپ کا وصال 7 ربیع الثانی 1339ھ بمطابق 1921ء کو بروز جمعرات ہوا۔ جمعہ کو برادران طریقت‘ مریدین اور معتقدین کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیے گئے۔ تعزیت کے لیے پیر مہر علی شاہ بھی تشریف لائے تھے۔ مانسہرہ کے قبرستان میں ایک چاردیواری احاطہ قاضی نور عالم کے نام سے مشہور ہے جس میں آپ دفن ہے۔

اولاد

[ترمیم]

قاضی نور عالم کی اولاد میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل تھی۔ بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. قاضی احمد حسن
  2. قاضی غلام نبی (سجادہ نشین)
  3. قاضی عبد الحق

کرامت

[ترمیم]

قاضی نور عالم کا ایک مرید جو مانسہرہ سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر کاشتکاری کرتا تھا آپ کے وصال کے تقریب دو سال بعد قاضی غلام نبی مانسہروی کی خدمت میں حاضر ہوا جو اپنے گدھے پر مکئی کی چھلیاں لائے ہوئے تھا۔ چھلیاں نذر گزران کر کے معانی کا خواستگار ہوا۔ قاضی غلام نبی نے فرمایا کونسی غلطی کی معافی مانگ رہے ہو؟ معروض ہوا کہ میری ذاتی ملکیت 40 کنال زمین تھی جس پر دس سال سے مقدمہ چل رہا تھا اور میرے حق میں فیصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ قاضی نور عالم کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ دعا فرمائیں فیصلہ میرے حق میں ہو جائے۔ آپ نے دعا فرما کر تسلی دی تھی کہ فکر مند نہ ہو۔ اللہ تعالی کرم کرے گا۔ چنانچہ فیصلہ میرے حق میں ہو گیا اور یہ زمین عرصہ دو سال سے میرے زیر کاشت ہے۔ چھلیاں نذر گزارنے کا واقعہ یوں ہے جس زمین میں مکئی کاشت کی ہے اس کے ساتھ والی زمین میں گندم کی کاشت کے لیے ہل چلا رہا تھا۔ دور دور تک کسی آدم زاد کا نام و نشان تک نہ تھا کہ ایک گھڑ سوار کو میں نے اپنی طرف آتے دیکھا جو میرے نزدیک آکر رک گیا۔ گھڑ سوار سفید کپڑوں میں ملبوس سر پر چادر اوڑے ہوئے اور تھوڑا سا چہرہ چادر سے باہر نکال رکھا تھا۔ بغور دیکھا تو قاضی نور عالم تھے۔ شرف قدم بوسی حاصل کیا۔ بعد ازاں استفسار فرمایا : عصمت اللہ یہ تمھاری زمین ہے؟ عرض کیا آپ کی دعا کا نتیجہ ہے۔ فرمایا چھلیوں کا میرا حصہ نہیں کیا؟ تو میں سخت نادم و شرمسار ہوا اور معذرت طلب کرتے ہوئے عرض کیا کہ کل ہی آپ کے صاحبزادے کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔ بعد ازاں میں نے عرض کیا حضور ! آپ کو اس جہان فانی سے رحلت فرمائے دو سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ آپ کو اس حالت میں کیسے دیکھ رہا ہوں؟ آپ نے متبسم ہوکر فرمایا کہ تو نے قرآن مجید میں نہیں پڑھا کہ اللہ تعالی کے بندے جو دنیاوی آسائشوں کو ترک کر دیتے ہیں جاہ و جلال کو ٹھکرا دیتے ہیں اور نفس امارہ سے جہاد کرتے ہیں وہ مرتے نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہیں وہ صرف موت کا ذائقہ چکھتے ہیں جو چند لمحے یا ساعت ہوتا ہے۔ میں نے مکرر پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ فرمایا یہاں سے آگے بہت دور ایک مقدمہ ہے اس کا فیصلہ کرنے جارہا ہوں ۔ اتنے میں آپ رخصت ہو گئے۔ تھوڑی دور جاتے میں نے آپ کو دیکھا اور پھر میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ [1]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 478 تا 489