لالہ موسیٰ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(لالہ موسی سے رجوع مکرر)
لالہ موسیٰ
لالہ موسیٰ
Lalamusa
انتظامی تقسیم
ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
تقسیم اعلیٰ گجرات ڈویژن   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات صفحہ ماڈیول:Coordinates/styles.css میں کوئی مواد نہیں ہے۔32°42′04″N 73°57′38″E / 32.70120°N 73.96050°E / 32.70120; 73.96050
بلندی
آبادی
کل آبادی
قابل ذکر
جیو رمز 1172318  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

Map
لالہ موسیٰ کی پہچان گلوکار عالم لوہار مرحوم

لالہ موسیٰ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے جو ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں میں واقع ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے یہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور کچھ انگریزوں کے خاندان آباد تھے جو تقسیم کی بعد نقل مکانی کر گئے.

محلِ وقوع[ترمیم]

قومی شاہراہ (جی ٹی روڈ) اس شہر کے درمیاں سے گزرتی ہے اور اس کو لاہور، اسلام آباد، پشاور، کراچی اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں سے ملاتی ہے۔

ریلوے جنکشن[ترمیم]

لالہ موسیٰ جنکشن ریلوے اسٹیشن پاکستان ریلویز کی کراچی-پشاور مرکزی ریلوے لائن پر شہر کے درمیان واقع ہے۔ یہاں تمام ایکسپريس ٹرینیں رکتی ہیں۔ یہ لالہ موسیٰ-شور کوٹ براستہ سرگودھا برانچ ریلوے لائن کا جنکشن بھی ہے۔ اس شہر کی تاریخ محض اتنی ہی پرانی ہے جتنا یہاں کا ریلوے اسٹیشن. 1880ء میں انگریزوں نے جب محل وقوع کا جائزہ لیا تو یہاں کی جگہ کی اہمیت کو دیکھتے ھوئے ایک ریلوے اسٹیشن کی بنیاد رکھی جو ایک جنکشن کی صورت اختیار کر گیا-

پرانا لالہ موسی[ترمیم]

یہ شہر اسلام آباد اور لاہور کے وسط میں واقع اور محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس شہر کو آباد کرنے والے آرائیں بھائی لالہ اور موسی تھے جو موجودہ پرانا لالہ موسی میں آکر آباد ہوئے. اسی نسبت سے اس شہر کا نام لالہ موسی پڑ گیا۔ اس شہر میں لوگ نہیں داستانیں بستی ہیں.

غلہ منڈی[ترمیم]

شیر شاہ سوری نے جی ٹی روڈ کی بنیاد ڈالی تو یہاں کی غلہ منڈی برصغیر کی کاروباری مرکز کی اہم توجہ بن گئی۔ یہاں ملک بھر سے کاروبار کو وسعت ملی. آج بھی یہ غلہ منڈی پنجاب بھر میں ایک اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن یہاں تاجروں میں عدم اتفاق اور یونین برائے نام ہے۔ خود ساختہ تاجر تنظیم منتخب نہیں ہوتی بلکہ اس کا چناو ہوتا ہے.

ورثہ[ترمیم]

تاریخی عمارتوں کو تلاش کریں تو آپ کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ شہر کے وسط میں ایک مندر ہوتا تھا جو آباد گاہ بن گیا۔ گوردوارہ تھا جس کو اسکول بنا دیا گیا۔ انگریزوں کا ایک قبرستان ہے جو کسی وقت ان کی یہاں موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ ریلوے اسٹشن پر شاید اس لیے تعمیر نو اور زیبائش کا کام نہیں کیا گیا کہ یہ ہمیں اس دور کی یاد دلاتا رہے.

زبانیں اور خاندان[ترمیم]

شہر کی مقامی زبان تو پنجابی ہے لیکن یہاں مختلف اقوام آکر آباد ھو گئیں۔ یہاں اردو بولنے والے مہاجر بھی ہیں۔ دوسری طرف بہار سے آئے ھوئے بہاری آباد ہیں۔ پھر یہاں مختلف لہجے میں پنجابی بولنے والے بھی ہیں۔ یہاں سادات، گجر، آرائیں، جٹ، شیخ اور قریشی کچھ پہلے سے آباد تھے اور کچھ نقل مکانی کرکے آئے۔ یہاں مٹی زرخیز ہے لیکن جو ترقی کرتا ہے وہ شہر چھوڑ جاتا ہے۔

مردم خیزی[ترمیم]

مرالہ کے چودھری فضل الہی جو صدر پاکستان بنے. کولیاں کے افضل حیات نگران وزیر اعلی پنجاب بنے. کائرہ کے قمر زمان کائرہ وفاقی وزیر اور گلگت بلتستان کے پہلے گورنر اور بنے. سادات کے سید منظور حیسن شاہ بھی سیاست میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ دوسروں سے محبت اور وفا اس شہر کی مٹی میں شامل ہے، منی لاڑکانہ بھی اسی شہر کو قرار دیا گیا جہاں کے باسیوں نے سندھ دھرتی کے سیاست دان ذو الفقار علی بھٹو کو کاندھوں پر اٹھایا اور اس کی بیٹی کے سر پہ ہاتھ رکھا جس کی حفاظت کی خاطر یہاں کا بیٹا توقیر اپنی جان نچھاور کر گیا. 'شہر شہر داراں دا' کے نعروں کو یہاں کوئی اہمیت نہیں ملی. ایک بار عام انتخابات میں نواح سے آئے ہوئے جعفر اقبال کو سر آنکھوں پہ بٹھایا جو وزیر مملکت کے عہدے تک جا پہنچے. لوگوں کے نظریات اور وفائیں تبدیل ھوتی رہیں لیکن اس شہر پر دہائیوں سے گجر اور سادات ہی اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتے رہے. اس مٹی کے سپوت جاوید چودھری بھی ہیں جو صحافت میں نام کماتے ہیں۔ موسیقی کو ایک نام دینے والے عالم لوہار اور روشن آرا بیگم بھی اس شہر سے تھے. عارف لوہار کے نام کا ڈنکہ ابھی بج رہا ہے۔ یہاں سے فوج کے افسر بھی بنے ہیں اور شاعر بھی پیدا ہوئے ہیں۔ مقامی شاعروں میں ابھرتا ہوا نام اسد اللہ مسعود کا ہے.

لائبریری[ترمیم]

یہاں کمانڈر شہزاد لائبریری بھی ہے جو اس شہر اور علم سے مبحت رکھنے والے ایک سپوت کی نشانی ہے۔ لائبریری کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے اس شہر کا ہر باسی علم دوست ہے۔ بندوق اٹھانے اور خاندانی دشمنی کلچر کو دیکھیں تو یہاں جہالت کا بسیرا نظر آتا تھا جو شاید اب کافی حد تک کم چکا ہے۔ یہ جہالت اور انا ہزاروں گھروں کے چراغ گل کر گئی اور خاندان اجڑ گئے.

تعلیمی اور فلاحی ادارے[ترمیم]

یہاں امام دین جنجوعہ کا دیا ھوا پودا جنجوعہ کالج بچیوں کو تعلیم سے روشناس کروا کر اب ایک قد آور درخت بن چکا ہے۔ درد دل رکھنے والے افراد کی المدد چئیریٹی بھی ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت فلاح و بہبود کی سردار پورہ چیئرئٹی بھی. مسائل کے حل اور فلاح کے لیے عرفان صفی، مہر رشید جیسے نام بھی ہیں اور ایدھی جیسے اعزازی نام لیے الحاج شیخ خلیل بھی. اس شہر کی یتیم پروری کی اعلی مثال خواجہ نور احمد کا نور کمپلیس بھی ہے اور توحید کا پرچم اٹھائے مولانا عبد الخالق جامعی بھی یہاں سے گذرے. محمدی فری سوسائٹی بھی ہے.

سوغاتیں اور کھابے[ترمیم]

نونے حلوائی کی برفی کے چرچے اور میاں جی کی دال کے چرچے وطن سے باہر تک ہیں۔ کبھی اس دال میں جو لذت تھی، نہ جانے کیوں وہ اب ناپید ہے.

سمندر پار پاکستانی[ترمیم]

اس خطہ اور گرد و نواح کی اکثریت بیرون ملک آباد ہے۔ دیہات جن کی خوبصورتی زراعت اور کھیت تھے ولائتی کرنسی سے کوٹھیوں اور بنگلوں میں تبدیل ھونے لگے.

تہزیب و ثقافت[ترمیم]

تہزیب کا سفر جہاں سے گذرا اپنے ساتھ آسانیاں لے آیا اور کئی یادیں ہم سے جدا کر گیا۔ کہیں ایک بازار میں تیل کے کولھو ہوا کرتے تھے اور کہیں ایک قصبے میں مٹی کے برتن بنا کرتے تھے۔ پانی کے گھڑے اور مٹی کے دیگر برتن جو صدیوں تک ہماری ثقافت رہے اب صرف گھروں میں سجاوٹ کے کام آتے ہیں۔ پاک پور چائنہ فیکڑی جس کی بدولت ہزاروں گھروں کا چولھا جلتا تھا آج ویران پڑی ہے۔ کبھی شہر میں لوگوں کی تفریح کے لیے واحد سینیما گھر 'میٹرو' ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی شاید 80ء کی دہائی کے نظریات کی تاب نہ لا سکا اور کاروبار کی نظر ھو گیا۔ اپنے طور پر ایک برکت پارک بنا تھا جو کسی تہوار پہ رونق کا سامان تھا۔ پھر اسکول بن کر منافع بخش ادارہ بن گیا۔ حاجی اصغر صاحب کے نام سے ایک پارک تو بنا لیکن اس میں رونق بحال نہ ھو سکی. ایک وقت روڈ کے ایک جانب تو آبادی تھی دوسری طرف ہریالی. یہ شہر اب ہر سو پھیلتا جا رہا ہے۔ تاحد نظر لہراتے ہریاول سے بھرے کھیت سکڑتے جا رہے ہیں اور منزلوں پر منزلوں سے لدے مختلف رنگوں کے گھر بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہرے بھرے کھیت اب پلازوں اور کمرشل ازم کی نظر ھو گئے ہیں۔ گندم کی کٹائی اور بہار کی آمد پر میلے لگا کرتے تھے۔ درباروں پر چراغ جلتے تھے۔ بزرگ جو ہجرت کرکے آئے تھے اپنے بچوں کو اپنی دکھ بھری داستانیں سنا کر محبت اور ایثار سکھاتے اور تکمیل پاکستان میں اپنے خون سے رنگ بھرتے تھے۔ ان کی یہ کہانیاں نئی نسل میں وطن کی اہمیت اجاگر کرتی تھیں. وقت اور ٹیکنالوجی کا یہ سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا جو نئی نسل کو منتقل نہ ہو سکا. سب کچھ بدل چکا ہے۔ نہیں بدلہ تو بس اس شہر کا نصیب. [2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1.   ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"صفحہ لالہ موسیٰ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2024ء 
  2. مہر عبد الرحمن طارق

حوالہ جات

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔