لاہور کے مجسمے
لاہور شروع سے ہی ثقافتی و ادبی مرکز رہا ہے۔ اس کی تاریخ پر بہترین کتب کنہیا لال کپور اور پران نوائل نے تحریر کی ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم سے قبل برٹش ایمپائر دور میں اور کچھ اس کے بعد لاہور میں قابل ذکر سرگرمیوں کے حوالے سے سرکردہ شخصیات کے مجسمے مختلف چوکوں اورشاہراؤں کے کنارے نصب کیے جاتے رہے ۔
لالہ لاجپت رائے کا مجسمہ
[ترمیم]لالہ لاجپت رائے دیش بھگت بندے تھے، جنھوں نے سائمن کمیشن کی بھرپور مخالفت کی اور انگریز فوج کے شدید تشدد کے نتیجے میں زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ ان کا مجسمہ مال روڈ کے آغاز میں بھنگیوں کی توپ کے پاس نصب تھا جو پاکستان کی تشکیل کے فورا" بعد 1948 میں ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہاں سے ہٹا کر شملہ(انڈیا) میں نصب کر دیا گیا۔
پروفیسر الفرڈ وولنرکا مجسمہ
[ترمیم]مال روڈ پر ہی اسی بھنگیوں کی توپ (جسے بعد میں توپ زمزمہ کا نام دیدیا گیا) کے سامنے پنجاب یونیورسٹی کی دیوار کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سنسکرت کے پروفیسر الفرڈ وولنر کا مجسمہ تھا جو تاحال اپنی جگہ قائم ہے( شاید استاد ہونے کے احترام میںاسے عوام قبول کرتی ہے،بڑی گل اے بھئی)۔ ملکہ وکٹوریہ:مال روڈ پرپنجاب اسمبلی کا سامنے ایک سرسبز احاطے میں ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا جسے عوام کے پرزور اصرار پر وہاں سے ہٹا کر لاہور عجائب گھر کے اندر رکھوا دیا گیا تھا تاکہ عوام کو عجیب چیز دکھائی جاسکے۔اب مجسمے والے چوبوترے پر قرآن پاک کا نسخہ رکھا ہوا ہے۔
سر جان لارنس کا مجسمہ
[ترمیم]اسی مال روڈ پر لاہور ہائی کورٹ کے سامنے انگریز دور میں ہی سر جان لارنس کا مجسمہ ہوتا تھا (جس کے نام پر لارنس گارڈن قائم ہوا جو اب باغ جناح کہلاتا ہے) یہ مجسمہ ُشکر ہے قیام پاکستان سے قبل ہی لاہوری باشندوں کی شدید مہم کی نتیجہ میں انگریز سرکار کو ہٹانا پڑا تھا ۔ مجسمے میں جان لارنس کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی اور دوسرے ہاتھ میں قلم۔ مجسمے کے نیچے درج تھا
‘Will you be governed by the pen or sword?
کہ تم لوگوں پر قلم کے ذریعے حکمرانی کریں کہ تلوار کے ذریعے؟ ، لہوڑیوں کو لگا کہ انگریز تڑی لگا رہے ہیں کہ شرافت سے ہمیں قبول کرلو ورنہ ہمیں ڈنڈہ(طاقت) استعمال کرنا پڑے گا ۔ بس پھر لہوڑی مشتعل ہوتے گئے اور اس احتجاج سے مجبور ہوکر انگریز سرکار نے یہ مجسمہ مال روڈ لاہور سے ہٹا کر لندن بھجوا دیا۔ کنگ ایڈورڈ ہفتم: کبھی کنگ ایڈرورڈ میڈیکل کالج کا سامنے ایک گھوڑے پر سوار کنگ ایڈورڈ 7 کا مجسمہ ہوتا تھا ۔ وہ بھی بس یونہی ہٹا کر لندن پہنچادیا گیا۔
سرگنگا رام کا مجسمہ
[ترمیم]مال روڈ، لاہور چونکہ انگریز سرکار کی خاص نظر التفات کا مرکز تھی اس لیے یہیں زیادہ تر معاشی سرگرمیوں کے مراکز قائم تھے جہاں سبھی مذاہب کے افراد کاروبار کرتے تھے۔ اسے ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا تھا برٹش دور کی زیادہ تر قدیم عمارتیں یہیں قائم ہیں۔ جو قدیم اندرون شہر لاہور کے باہر ترقی کرتے جدیدلاہور شہر کی شان بنیں۔ ان میں سے بیشترعالیشان عمارتوں کا ڈیزائنر( جسے مستنصر حسين تارڑ صاحب محسنِ لاہور کا نام دیتے ہیں )سر گنگا رام کی ڈیزائن کردہ ہیں۔جی وہی سر گنگا رام جن کے نام کا گنگا رام ہسپتال آج بھی انسانیت کی بلاتفریق خدمت کررہا ہے۔ سر گنگا رام کا مجسمہ بھی کبھی لاہور کی مال روڈ پر نصب کیا گیا تھا جو پاکستان بننے کے بعد مذہبی احتجاجیوں کے ہاتھوں مسمار کر دیا گیا تھا۔اس کے پس منظر میں سعادت حسن منٹو نے ایک افسانہ بھی لکھا تھا۔سرگنگا رام کے بارے ایک مفصل مضمون جلد شئیر کروں گا۔
سردار دیال سنگھ مجیتھیہ
[ترمیم]لاہور کے ہی ایک اور محسن سپوت سرداردیال سنگھ مجیتھیہ کا مجسمہ بھی کبھی لکشمی مینشن کے قریب نصب تھا جس کا پکا پتہ نہیں کہاں گیا۔ موجودہ لاہور میں کئی جگہوں پر نئے آرٹسٹوں کے تیارکردہ مجسمے نصب بھی کیے گئے ہیں ان میں ادبی اور فنی سرگرمیوں کے مرکز الحمرا آرٹ سنٹر میں سر علامہ اقبال کا مجسمہ اور ڈیفنس چوک میں سفید گھوڑوں کے مجسمے قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ گارڈن ٹاون میں واقع شاکر علی میوزیم میں آرٹسٹ شاکر علی کا مجسمہ موجود ہے۔ سرکلر روڈ اردوبازار چوک میں ثقافتی گھگو گھوڑے، فورٹریس اسٹیڈیم پر گھوڑسوار فوجیوں کے مجسمے وغیرہ۔ شاہی قلعہ لاہور میں اور اندرون شہر کی کئی پرانی تعمیرات میں بھی جابجا مجسمے ملتے ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے عین سامنے واقع استنبول چوک میں ایک بہت دلکش درخت نما گھروندوں کا مجموعہ دیکھنے کو ملتا ہے جو میرے بڑے اچھے دوست اور بہت اچھے پرنٹ میکر آرٹسٹ این سی اے کے پروفیسر عاطف خان کا تخلیق کردہ ہے۔ اس پر بھی ایک تفصیل سے مضمون لکھ رہا ہوں جو جلد ایک اخبار میں شائع ہوگا اور آپ لوگوں سے یہاں بھی شئیر کروں گا۔ لاہور میں ہی این سی اے کے اندر کئی طالب علموں کے تھیسز کے مجسمے کئی عشروں سے موجود ہیں ۔ ان میں قابل ذکر جمیل بلوچ کا "ڈیوڈ" اور کالج کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے لان میں جھولے میں بیٹھے جوڑے کا کسنگ مجسمہ kissing sculpture . ۔ اور بھی کئی لکڑی کے مجسمے اس آرٹ کی دُنیا میں بکھرے پڑے ہیں یہ مختلف طالب علموں کے ہی کالج اسائنمنٹس اور تھیسز کی باقیات ہیں ۔ این سی اے میںماڈرن اور کھلے ذہن کے ماحول اور تعلیمی نصاب کی وجہ سے کبھی کسی بھی قسم کے ٹاپک یا تھیم پر قدغن نہیں لگائی گئی اور ہر قسم کے مناظر پر مبنی پینٹنگز اور مجسمے تھیسز ڈسپلے میں ہرسال نمائش میں پیش ہوتے ہیں اور بڑے ہوٹلز یا کمپنیوں کے مالکان انھیں منہ مانگے داموں خرید کر مطلوبہ جگہوں پر نصب کرتی ہیںاور یہ کبھی کھلے عوامی جگہوں پر نصب نہیں کیے جاتے کیونکہ عام بندہ نہ تو اس کا ادراک رکھتا ہے نہ ہمارے مذہبی حلقے اور عام لوگ اس کو برداشت کرسکتے ہیں۔ اب آتے ہیں۔ اب آتے ہیں لاہور میوزیم کے احاطے میں نصب کردہ اس متنازع مجسمہ کی جانب اگر یہ بھی کسی طالب علم کا تھیسز ورک تھا تو اسے اس طرح کھلے بندوں عوامی جگہ پرڈسپلے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اس کی رونمائی کی رنگا رنگ ،میوزک شدہ اور تھرکتے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ تقریب کیا ظاہر کررہی ہے؟ یہ کوئی ایسی انوکھی دریافت تو نہیں ہے اس طرح کے ہزاروں کریکٹر کمیپیوٹر اینی میٹر/ ڈیزائنر روز ہی بچوں کی گیمز اور دوسرے استعمال کے لیے اسیکچ کرکے پھر کمپیوٹر میں کئی سوفت وئیرز کے ذریعے بنا رہے ہیں۔ اگر فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ یا خود آرٹسٹ یا حکومت کے تئیں یہ کوئی بہت آؤٹ کلاس چیز تخلیق ہو گئی ہے تو اسے بھی این سی اے کی طرح اپنے لان میں ہی نصب کرکے آرٹسٹ کو خراج تحسین پیش کر دیا جاتا یعنی جس ماحول میں یہ تخلیق ہوا اور جس ماحول کے باسی اسے سمجھتے ہیں اسے وہیں رکھوا دیا جاتاتو بہتر تھا کجا کہ ایک کریہہ الصورت جانور نما مجسمے کو عام عوام کے سامنے جہاں روزانہ اسکولوں کے بچے وزٹ کرنے آتے ہیں وہاں رکھوا کر ماحول کو مکدر کر دیا گیا۔
حوالہ جات
[ترمیم]تحریر و تحقیق : طارق عزیز (لاہور)