محمد عبد العزیز بگوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مولانا محمد عبد العزیز بگوی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلفیہ خاص تھے۔

مولانا محمد عبد العزیز بگوی
ذاتی
پیدائش(1262ھ بمطابق 1845ء)
وفات( 14 ذی الحجہ 1324ھ بمطابق 1908ء)
مذہباسلام
والدین
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامبگہ بھیرہ شریف سرگودھا
دورانیسیویں، بیسویں صدی
پیشروشمس الدین سیالوی

ولادت[ترمیم]

محمد عبد العزیز بگوی کی ولادت استاد الکل مولانا حافظ غلام محی الدین بگوی کے گھر 1262ھ بمطابق 1845ء کو بگہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

محمد عبد العزیز کی تعلیم و تربیت علامہ مولانا احمد الدین بگوی نے خود فرمائی اور علوم متداولہ کی تحصیل و تکمیل انہی سے کی۔

درس و تدریس[ترمیم]

علامہ احمد الدین بگوی نے اپنی زندگی ہی میں محمد عبد العزیز بگوی کو قائم مقام مقرر کر کے مسند بھیرہ پر درس و تدریس اور اصلاح و ارشاد کا حکم دیا۔ آپ نے بھیرہ میں علامہ مولانا احمد الدین بگوی کے جاری کردہ اور پھر جامع مسجد بگویہ میں منتقل کردہ مدرسہ کو مزید ترقی دی۔ مولانا غلام قادر بھیروی اور مولانا غلام رسول چاوی کو استاد مقرر فرمایا۔ 1331ھ بمطابق 1905ء میں آپ نے جامع مسجد کی مرمت کرائی اور دو خوبصورت میناروں کا اضافہ کیا جس پر قطعہ تاریخ مولانا حکیم عبد الرسول بکھروی نے موزوں کیا

جنوبی شد با پیش از شمالی ندا آمد چہ خوش مینار عالی
شد چو مینار در شمال تیار گفت دل زیب و خوشنا مینار

تلامذہ[ترمیم]

مولانا محمد عبد العزیز بھگوی بھیرہ کی جامع مسجد کے خطیب اور دینی درسگاہ کے مہتم رہے۔ یہ وہ مدرسہ تھا جہاں سے پاک و ہند کے جلیل القدر مدرس‘ عالم ، مفتی اور خطیب تربیت پاکر نکلے۔ آپ کے چند معروف تلامذه یہ ہیں:۔

  1. مولانا محمد ذاکر بگوی (پسر)
  2. مولانا نصیر الدین بگوی (پسر)
  3. مولانا محمد یحیی بگوی (پسر)
  4. مولانا محمد سعید بھیروی
  5. مولانا حافظ سید لعل شاه دوالمیالوی ،ضلع چکوال

بیعت و خلافت[ترمیم]

مولانا محمد عبد العزیز بگوی نے خواجہ شمس العارفین سیالوی دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ سلوک کی تمام منازل اپنے مرشد کامل کے زیر سایہ پوری کی۔

شیخ سے محبت[ترمیم]

مولانا عبد العزیز کو اپنے مرشد کامل خواجہ شمس العارفین سیالوی سے انتہائی درجہ کا عشق اور محبت تھی۔ اکثر سیال شریف حاضر ہوتے تھے۔ لاہور میں کسی بزرگ کی مزار پر حاضر ہوئے اور ذکر میں مشغول ہو گئے۔ صاحب مزار جو قلندرانہ وضع کے تھے نے فرمایا کہ ذکر چھوڑ دو۔ مذکور کے ہوتے ذکر سے کیا کام؟ عرض کیا ہمارا گذر، ہماری ہمت جب اتنی بلند نہیں تو ذکر سے کیوں محروم رہیں؟ اس پر پھر ارشاد ہوا اگر یہی بات ہے تو یہاں سے چلے جاؤ۔ یہ کہہ کر میں آپ کی کسی چیز کا بھوکا نہیں اور میرے لیے میرے پیر کا سایہ کافی ہے اٹھ کر آگئے اور پھر وہاں نہیں گئے۔

عنایات شیخ[ترمیم]

مولانا عبد العزیز سیال شریف اکثر حاضر ہوتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ جو گئے تو روضہ شریف سے آواز آنے لگی۔ آو جان من ! یہ حیران تھے کہ اس دفعہ یہ کیا نئی بات ہورہی ہے۔ شرم و دہشت کے عالم میں اندر گئے اور فاتحہ پڑھی۔ حکم ہوا جاؤ جلدی خواجہ محمد الدین سیالوئ کی خدمت میں۔ یہ گھبرا کر خائف و ترساں کہ شاید کوئی قصور ہو گیا ہے۔ آپ کے پاس بنگلہ میں حاضر ہوئے۔ فرمانے لگے مولوی صاحب! ہم تو حکم کے بندے ٹھہرے۔ جو کچھ ارشاد ہوتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ پھر مرقع وغیرہ عنایت کیا اور دعا فرمائی۔

مزارات مقدسہ کی حاضری[ترمیم]

مولانا عبد العزیز بگوی اجمیر شریف، دہلی شریف، تونسہ شریف اور لاہور کے مزارات مقدسہ پر حاضری دیا کرتے تھے اور فیض یاب ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اجمیر شریف کے عرس پاک پر حاضری کا ارادہ تھا لیکن پھر ملتوی ہو گیا۔ خود خواجہ اجمیری نے قدم رنجہ فرمایا اور فرمایا تم ہمارے عرس پر کیوں نہیں آئے؟ عرض کیا بوڑھا اور مزدور ہوں۔ وہاں خلقت کا اژدھام ہوتا ہے اور مجاور دق کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ کسی قسم کی تکلیف تمھیں نہیں ہوگی ، ضرور آؤ. فورا تیار ہو کر پہنچ گئے۔ کہتے تھے کہ کسی مجاور نے پوچھا تک نہیں اور ہجوم سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ سیدها درگاہ شریف چلا جایا کرتا تھا۔

سیرت[ترمیم]

مولانا محمد عبد العزیز بگوی کو شکل و شباہت سے کوئی نہیں پہچان سکتا تھا کہ مفتی و عالم ہیں یا صوفی و صافی۔ مرتے دم تک اپنی سادگی پر قائم رہے۔ آپ کو سماع مرغوب خاطر تھا۔ بھیرہ شریف تدریس میں مجالس سماع منعقد کروایا کرتے تھے۔ آخری عمر میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خطابات شروع ہو جاتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اب تو نماز پڑھنی بھی دشوار ہو رہی ہے۔ مگر اس مرد خدا نے نماز نہیں چھوڑی۔ مولوی صاحب قبلہ فرماتے تھے کہ کئی دفعہ جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے۔ آپ کو بچپن سے ہی عبادت و ریاضت سے محبت تھی۔شب بیداری اور نوافل تہجد کے پابند تھے۔ خدمت خلق کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ نماز فجر کے بعد معمولی اوراد و وظائف کے بعد اشراق کے نفل پڑھتے تھے اور پھر قال الله قال الرسول کا چرچا ہوتا تھا۔ استفسار مسائل کے لیے دور دراز سے لوگ حاضر خدمت ہوتے تھے۔ اتباع سنت نبوی اور شریعت کی پابندی میں بے نظیر تھے۔ آپ کو حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی سے بے پناہ محبت تھی۔

وصال[ترمیم]

مولانا عبد العزیز بگوی نے اپنے وصال سے 21 یوم پہلے اپنے مزار اور تجہیز و تکفین کے لیے وصیت فرما دی تھی۔ عید الاضحی کے دوسرے دن بیمار ہوئے۔ شیخ پور کے نامور طبیب، حکییم الہ دین مرحوم ، حکیم محمد الدین مرحوم ، حکیم فضل احمد مرحوم اور دوسرے اطباء علاج کے لیے حاضر ہوئے ۔ آپ نے فرمایا : مرض موت کا کوئی علاج نہیں ہوا۔ آپ 14 ذی الحجہ 1324ھ بمطابق 1908ء کو فوت ہوئے۔ آپ کی تدفین جامع مسجد بگویہ بھیرہ شریف کے جنوب مشرقی گوشہ میں کی گئی۔ آپ کا عرس ہر سال 14 ذی الحجہ کو عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔

اولاد[ترمیم]

مولانا محمد عبد العزیز بگوی کے چار بیٹے تھے۔

  1. مولانا محمد ذاکر بگوی (سجادہ نشین)
  2. مولانا محمد یحیی بگوی
  3. مولانا نصیر الدین بگوی
  4. مولانا ظہور احمد بگوی [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 411 تا 418