معرکہ دبا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
معرکہ دبا
Battle of Dibba
سلسلہ فتنۂ ارتداد کی جنگیں

دبا, متحدہ عرب امارات
تاریخ632-634 عیسوی
مقامدبا، خلافت راشدہ
(موجودہ دور دبا، متحدہ عرب امارات)
نتیجہ ساسانی سلطنت فتح
مُحارِب
مرتد ازد
الجلند مخالف قبائل
خلافت راشدہ
خلافت کے حامی ازد
بنو الجلند
الجلند حامی قبائل
قیس عیلان
کمان دار اور رہنما
دبا  ابوبکر صدیق
حذیفہ بن محصن
عرفجہ بن ہرثمہ بارقی
عکرمہ بن ابوجہل
ہلاکتیں اور نقصانات
10,0000 ہلاک
تاریخ the United Arab Emirates
Emblem of the United Arab Emirates
باب UAE

معرکہ دبا (انگریزی: Battle of Dibba) 632ء تا 634ء فتنہ ارتداد کی جنگوں کے دوران میں دبا کے میدانی علاقہ میں لڑی گئی تھی جس میں تقریباً 1000 لوگ قتل ہوئے۔ دبا کا علاقہ موجودہ متحدہ عرب امارات میں واقع ہے۔ جنگ کے مقتولین کی قبروں کے باقیات اب بھی موجود ہیں۔

ازد[ترمیم]

فارسی ساسانی سلطنت کے زوال کے بعد جزیرہ نما عمان میں ازد باشاہ کی طوطی بولنے لگی۔[1] پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قاصد عمرو بن العاص کو بھیجا جو محافظہ البریمی ہوتے ہوئے ساسانی گورنر کے پاس گئے اور نبی کا خط پیش کیا۔ گورنر نے خط کو ٹھکرادیا۔ اس کے بعد عمرو بن العاص وہی خط لے کر ازد کے بادشاہ الجلند اور اس کے بھائی جیفر کے پاس نزوی گئے جو جزیرہ نما عمان کے اندرونی حصہ کے حاکم تھے۔ دونوں بھائی ازد کے بزرگوں کے پاس گئے اور انھوں اسلام قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔[2]

630ء میں ازد کے بادشاہ نے جولاندا کے ساتھ اتحاد کیا اور ساسانی گورنر مسکان پر حملہ کر دیا جس میں مسکان مارا گیا۔ یہ جنگ صحار میں واقع ہوئی تھی۔[3] ساسانی اپنے سونے چاندی چھوڑ کر میدان سے بھاگ گئے۔ 632ء میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد عبد نے مدینہ منورہ کا سفر کیا اور ابو بکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت کی۔[2]

بغاوت[ترمیم]

عرب میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات میں جگہ جگہ بغاوتیں سر اٹھانے لگیں جن سے نمٹنا ناگزیز ہو گہا۔ بغاوتوں کے خلاف انہی جنگوں کو جنگ دبا کے نام سے جانا گیا۔ اس دوران میں جنگوں کا ایک طویل سلسلہ چلا کیونکہ جگہ جگہ سے فتنہ سر اٹھا رہے تھے جن کی سرکوبی ضروری تھی۔ خلیفہ ابوبکر نے عمان کی جانب دو کمانڈروں کو روانہ کیا جن کے نام حذیفہ بن محسان یمنی اور ارفجہ البریقی ازدی ہیں۔ یہ دونوں ازدیوں کے خلاف جولندا کی مدد کر گئے تھے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. United Arab Emirates : a new perspective۔ Abed, Ibrahim.، Hellyer, Peter.۔ London: Trident Press۔ 2001۔ صفحہ: 80۔ ISBN 1-900724-47-2۔ OCLC 47140175 
  2. ^ ا ب United Arab Emirates : a new perspective۔ Abed, Ibrahim.، Hellyer, Peter.۔ London: Trident Press۔ 2001۔ صفحہ: 81۔ ISBN 1-900724-47-2۔ OCLC 47140175 
  3. Hawley, Donald. (1970)۔ The Trucial States۔ London,: Allen & Unwin۔ صفحہ: 48۔ ISBN 0-04-953005-4۔ OCLC 152680 
  4. United Arab Emirates : a new perspective۔ Abed, Ibrahim.، Hellyer, Peter.۔ London: Trident Press۔ 2001۔ صفحہ: 82۔ ISBN 1-900724-47-2۔ OCLC 47140175