مولد فاطمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہرا کی سیرت و فضائل پر اردو زبان میں پہلی مطبوعہ کتاب ’’مولدِ فاطمی‘‘

اہمیت و فضیلت[ترمیم]

حضرت فاطمہ زہرا اسلام کی مقدس ترین خاتون میں سے ایک ہیں جن کے تذکروں کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اسے سمیٹنا ایک مشکل امر ہے، صحاحِ ستہ اور دوسری تمام کتبِ احادیث آپ کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،بیشتر علمائے اہلِ سنت نے آپ کے اوصاف و کمالات، انداز و اطوار پر ہزاروں صفحات لکھے ہیں، ان میں ایرانی، مصری اور ہندوستانی مصنفین کی تعداد ہمیں کثرت سے ملتی ہیں، احادیث کے علاوہ تاریخ و سِیَر کی کتابیں جیسے تاریخِ ابنِ عساکر، تاریخِ بغداد، تاریخِ ہشام، تاریخِ طبری، تاریخِ ابن الاثیر، تاریخِ ذہبی، تاریخِ ابنِ خلدون، سیرتِ ابنِ اسحٰق اور تاریخِ ابنِ کثیر وغیرہ میں چند بنیادی تذکرے آئے ہیں ۔[1]

حضرت فاطمہ زہرا کی سیرت و فضائل پر حضرت شاہ اکبرداناپوری کی مَولدِ فاطمی اردو زبان میں پہلی مطبوعہ سوانح عمری ہے جو چار فصلوں پر مشتمل آپ کے فضائل، پیدائش، نکاح اور اولاد و وصال کا مجموعہ ہے، اس کا ہر ایک لفظ قرآن و احادیث اور تاریخ و سِیَر سے ماخوذ ہے، حضرت اکبر نے بعض روایتیں ابوبکر خطیب قسطلانی،  امام  ابو حفص نجم الدین عمر بن محمد نَسَفی، محب الدین طبری، عبدالرحمٰن ابنِ جوزی، شمس الدین محمد بن احمد ذہبی، احمد بن حجر الہیتمی مکی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرہ کے علاوہ معروف ایرانی عالم ملا حسین بن علی واعظ کاشفی کی کتاب سے بھی لی ہے، کتاب کو دلچسپ بنانے کے لیے حضرت اکبر نے ذاتی مشاہدے، تبصرے اور فارسی اور اردو کے بر محل و برجستہ اشعار بھی شامل کیے ہیں۔[2]

وجہ تالیف[ترمیم]

اس کتاب کی وجہ تالیف یہ بتائی گئی ہے کہ عامۃ الناس حضرت فاطمہ زہرا جیسی عظیم خاتون کے اوصاف و کمالات کی پیروی کر کے بہترین اور منظم زندگی گزار سکے، حضرت شاہ اکبرداناپوری کا مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمان عورتوں کے اندر حضرت فاطمہ کے اخلاق کو نمونہ بنانے کی رغبت پیدا ہو اور ان کی پیروی میں انھیں ایمانی لذت و حلاوت ملنے لگے، اسی لیے اس رسالہ میں زیادہ تر وہی حالات درج کیے گئے ہیں جن میں بشریت کا پہلو نمایاں ہے اور جو آپ نے بحیثیت انسان کامل کیے ہیں۔[3]

مطالعہ کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر ایک مسلمان عورت کے لیے ان کی زندگی قابلِِ تقلید اور قابلِِ رشک ہے، اس میں ان کی پیدائش سے پہلے کے واقعات، وقتِ ولادت سے لے کر وصال تک کے تمام حالات کو شرح و بَسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جگہ جگہ حضرت فاطمہ کا اپنے والد کے ساتھ بحیثیت صاحبزادی، حضرت علی کے ساتھ بحیثیت اہلیہ اور حضراتِ حسنین کے ساتھ بحیثیت والدہ اور ہمسایہ ومسلمہ کے ایسے شریف اور عالی کردار پیش گئے ہیں کہ ہر مسلمہ کو ان کی پیروی کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور یہ ذمہ داری ان کے والدین کی ہے کہ اپنی بچیوں کو حضرت فاطمہ کے واقعات و بیانات سے باخبر کریں تا کہ وہ آپ کی طرف مائل ہوسکیں۔[4]

خصوصیت[ترمیم]

حضرت شاہ اکبر داناپوری کا یہ کارنامہ نہایت قیمتی اور قابلِِ قدر ہے جس وقت تمام تذکرے عربی اور فارسی میں لکھے جا رہے تھے اس وقت حضرت اکبر نے اردو زبان میں اسے تیار کیا، زبان و بیان میں سادگی اور صفائی ،نپے الفاظ، بہتر اور مربوط اسلوب، آسانی الفاظ، جگہ جگہ استعارے،محاورے اور برمحل اشعار قارئین کی دلچسپی کا سبب بنے ہے، اس سے قبل حضرت اکبرکے عمِ مکرم حضرت شاہ عطاحسین فانی نے اردو میں’’ تذکرہ سیّدۃ النساالعالمین‘‘کے عنوان سے اک رسالہ تیار کیا تھا پر اب وہ نایاب ہے۔[5]

حضرت اکبر کے بعد حافظ شاہ انور علی کاکوروی، سیّد کرامت حسین، مولانا محمد عابد علی مجددی اور مولانا محمد اعجاز حسین نے علی ٰالترتیب الدرۃ البیضافی تحقیق صداق  فاطمۃ الزہرا،تاریخ جنابِ سیّدہ، بستانِ فاطمہ مع بستانِ عائشہ، مصائبِ زہرا نامی کتابیں لکھیں۔[6]

کیفیت[ترمیم]

جاننا چاہیے کہ حضرت اکبر نے یہ کتاب اپنے مرید نواب رستم علی ابوالعلائی کی خواہش پر 21؍ذی الحجہ تا قبلِِ رویتِ ہلال محرم الحرام1307ھ میں تالیف فرمائی، بعض مؤرخین نے اس کتاب کا ذکر اصل نام سے زیادہ تاریخی نام خاتمِ  نوریاور انگشترِعروس سے کیا ہے، 47؍صفحات پر مشتمل ابوالعلائی پریس آگرہ سے تاجرانِ کتب کی فرمائش پر 1307ھ موافق 1889ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔

اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسی سال اس کی دوسری اشاعت جدید کتابت ، تصحیح شدہ، اچھے حروف، شفاف تقطیع اور 2؍15x22-1سائزکے 39؍صفحات پر مشتمل حضرت اکبر کے شاگرد مولانا شاہ نظیر حسن ابوالعُلائی کے ضمنی حاشیے اور آپ کے مرید شیخ انعام اللہ ابوالعلائی جو تاج محل کے نقشہ نویس عیسیٰ آفندی کے پوتے تھے ان کا بنایا ہوا حضرت سیّدنا امیر ابوالعلاکے آستانہ کا نقشہ جس کے چہار جانب حضرت اکبرکے یہ اشعار لکھے ہیں۔

مجمع میں لطف دیکھاتنہائی کا اسی جا

خلوت در انجمن ہے میلاد ابوالعلا کا

برس رہی ہے خدا کی رحمت درِ عطاوکرم کھلاہے

زمیں پہ عرشِ بریں کی صورت مزارِپاکِ ابوالعلاہے

اسے منشی عبد الغفار خاں ابوالعلائی نے مُنّورائے، آگرہ سے شائع کرائی۔[7]

اب اس کی تیسری اشاعت تقریباً 140برس بعد خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ سے ہو ئی ہے۔

  1. ابوالعلائی ریان (2023)۔ مولدِ فاطمی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  2. ریان ابوالعلائی (2023)۔ مولدِ فاطمی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 12 
  3. ابوالعلائی ریان (2023)۔ مولدِ فاطمی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  4. ریان ابوالعلائی (2023)۔ مولدِ فاطمی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  5. ابوالعلائی ریان (2023)۔ مولدِ فاطمی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 14 
  6. ابوالعلائی ریان (2023)۔ مولدِ فاطمی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ صفحہ: 15 
  7. ابوالعلائی ریان (2023)۔ مولدِ فاطمی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ