ولی دکنی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ولی دکنی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1667ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اورنگ آباد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 31 اکتوبر 1707ء (39–40 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
احمد آباد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب
ولی دکنی

ولی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل گجرات انھیں گجرات کا باشندہ ثابت کرتے ہیں اور اہل دکن کی تحقیق کے مطابق ان کا وطن اورنگ آباد دکن تھا۔ ولی کے اشعار سے دکنی ہونا ثابت ہے۔ ولی اللہ ولی، سلطان عبد اللہ قطب شاہ، قطب شاہوں کے ساتویں فرماں روا کے عہد میں 1667ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد حصول علم کے لیے احمد آباد آگئے۔ جو اس زمانے میں علم و فن کا مرکز تھا۔ وہاں حضرت شاہ وجیہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ ولی کی عمر کا بیشتر حصہ احمد آباد میں گذرا۔ اس شہر کے فراق میں انھوں نے ایک پردرد قطعہ بھی لکھا۔ ولی نے گجرات، سورت اور دہلی کا سفر بھی کیا۔ اس کے متعلق اشارے ان کے کلام میں موجود ہیں۔

دہلی میں ولی کی سعد اللہ گلشن سے ملاقات ہوئی۔ تو وہ ان کا کلام دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تمام مضامین کو جو فارسی میں بیکار پڑے ہیں۔ ریختہ کی زبان میں کام میں لانا چاہیے، تاہم یہ بات متنازع ہے اور اردو نقاد اور محقق شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال ہے (کتاب: اردو کا ابتدائی زمانہ) کہ محض دہلی والوں کی امپیریل ازم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو کے اولین تذکرہ نگار میر تقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آکے دہلی میں اردو غزل کا آغاز کرے۔ اس لیے سعد اللہ گلشن والا واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے (یعنی سعداللہ گلشن نے) ولی کو شاعری سکھائی تھی۔ دوسرا مشورہ یہ دیا کہ دکنی الفاظ کا استعمال کم کرو اور ان کی جگہ فارسی کے شیریں الفاظ کا انتخاب کرو.

فلسفہ کی گہرائیوں اور علمی مضامین اور اخلاقی باتیں نہ ہونے کے باوجود ولی کی شاعرانہ اہمیت مسلمہ ہے۔ جب بھی اردو غزل کی بات ہوگی اولیت کا تاج ولی کے سر کی زینت بنے گا۔ وہ اردو غزل کا بابا آدم نہ سہی، غزل کو نئے معانی اور نئے راستوں پر ڈالنے کا معمار اول ضرور ہے۔

قائم چاند پوری نے اپنے تذکرے نکاتِ سخن میں لکھا ہے کہ ولی نے سعد کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری مرتبہ دہلی گئے تو ان کے کلام کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کی امراءکی محفلوں میں اور جلسوں اور کوچہ و بازار میں ولی کے اشعار لوگوں کی زبان پر تھے۔ ولی دکنی کو محمد حسین آزاد نے اردو شاعری میں وہی مقام دیا ہے جو انگریزی شاعری میں چاسر اور فارسی شاعری میں رودکی کو حاصل ہے۔

ولی کی تاریخ وفات بھی بے حد متنازع ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق وہ 1730 کے بعد فوت ہوئے، تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی 1708 کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

ولی دکنی کی شاعری

  1. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/1855414 — بنام: Valī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017

ولی دکنی کی سوانح حیات

https://mualla.pk/wali-dakni-sawaneh-aur-halat-e-zindagi/

ولی کا تصورِ عشق