"زید بن وشنہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی کے لیے
م خودکار: درستی املا ← 3، کر دیا، ہو گئے
سطر 6: سطر 6:
نام نامی حضرت زیدؓ ہے، قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلۂ نسب یہ ہے، زید بن دثنہ بن معاویہ بن عبید بن عامر بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔
نام نامی حضرت زیدؓ ہے، قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلۂ نسب یہ ہے، زید بن دثنہ بن معاویہ بن عبید بن عامر بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔
== غزوات ==
== غزوات ==
بدر اور احد میں شریک تھے، غزوہ احد کے بعد قبیلہ عنضل اورقارہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ چند صحابہؓ جو قرآن اور فقہ کی تعلیم دے سکیں، ہمارے یہاں بھیجئے، ان اطراف میں اسلام پھیل رہا ہے، ان کی درخواست پر آنحضرتﷺ نے خبیب ؓ اور زیدؓ بعض اور لوگوں کو روانہ فرمایا، راستہ میں بیر معونہ پر معر کہ پیش آیا، حضرت خبیبؓ اور زید ؓ مشرکین کے ہاتھوں میں اسیر ہوگئے، وہ لوگ ان بزرگوں کو ہاتھ باندھ کر مکہ لائے اور صفوان بن امیہ کے ہاتھ فروخت کیا،صفوان نہایت خوش تھا کہ اپنے باپ کے عوض ان کو قتل کروں گا۔
بدر اور احد میں شریک تھے، غزوہ احد کے بعد قبیلہ عنضل اورقارہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ چند صحابہؓ جو قرآن اور فقہ کی تعلیم دے سکیں، ہمارے یہاں بھیجئے، ان اطراف میں اسلام پھیل رہا ہے، ان کی درخواست پر آنحضرتﷺ نے خبیب ؓ اور زیدؓ بعض اور لوگوں کو روانہ فرمایا، راستہ میں بیر معونہ پر معر کہ پیش آیا، حضرت خبیبؓ اور زید ؓ مشرکین کے ہاتھوں میں اسیر ہو گئے، وہ لوگ ان بزرگوں کو ہاتھ باندھ کر مکہ لائے اور صفوان بن امیہ کے ہاتھ فروخت کیا،صفوان نہایت خوش تھا کہ اپنے باپ کے عوض ان کو قتل کروں گا۔
== شہادت ==
== شہادت ==
رائے و مشورہ کے بعد تنعیم مقتل قرار پایا، صفوان نے اپنے غلام کو جس کا نام نسطاس تھا، حکم دیا کہ ان کو تنعیم لے چلو۔
رائے و مشورہ کے بعد تنعیم مقتل قرار پایا، صفوان نے اپنے غلام کو جس کا نام نسطاس تھا، حکم دیا کہ ان کو تنعیم لے چلو۔
قتل گاہ پہنچے تو عجیب آزمائش کا وقت تھا، ابو سفیان نے پوچھا زید تمہیں خدا کی قسم سچ سچ بتانا اگر تمہارے بجائے محمد ہوں اور ہم ان کی گردن ماریں اور تم اپنے گھر محفوظ رہو تو تم اس کو پسند کرتے ہو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ مجھے یہ بھی منظور نہیں کہ محمد کے کانٹا چبھے اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں ،ابو سفیان اس فقرہ کو سنکر دنگ رہ گیا اور اس عالم میں زبان سے نکلا کہ محمد کے اصحاب ان سے جس قدر محبت کرتے ہیں دنیا میں کسی کے دوست ایسے گرویدہ نہیں، اس کے بعد ان کو قتل کردیا گیا، یہ ۳ ھ کا افسوسناک واقعہ ہے ۔
قتل گاہ پہنچے تو عجیب آزمائش کا وقت تھا، ابو سفیان نے پوچھا زید تمہیں خدا کی قسم سچ سچ بتانا اگر تمہارے بجائے محمد ہوں اور ہم ان کی گردن ماریں اور تم اپنے گھر محفوظ رہو تو تم اس کو پسند کرتے ہو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ مجھے یہ بھی منظور نہیں کہ محمد کے کانٹا چبھے اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں ،ابو سفیان اس فقرہ کو سنکر دنگ رہ گیا اور اس عالم میں زبان سے نکلا کہ محمد کے اصحاب ان سے جس قدر محبت کرتے ہیں دنیا میں کسی کے دوست ایسے گرویدہ نہیں، اس کے بعد ان کو قتل کر دیا گیا، یہ 3 ھ کا افسوسناک واقعہ ہے ۔
<ref>(حصہ اول تمت با الخیر)</ref><ref>اسدالغابہ تذکرہ زید بن وشنہ</ref>
<ref>(حصہ اول تمت با الخیر)</ref><ref>اسدالغابہ تذکرہ زید بن وشنہ</ref>
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 19:05، 14 جون 2021ء

حضرت زیدؓ بن وشنہ
معلومات شخصیت

نام و نسب

نام نامی حضرت زیدؓ ہے، قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلۂ نسب یہ ہے، زید بن دثنہ بن معاویہ بن عبید بن عامر بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔

غزوات

بدر اور احد میں شریک تھے، غزوہ احد کے بعد قبیلہ عنضل اورقارہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ چند صحابہؓ جو قرآن اور فقہ کی تعلیم دے سکیں، ہمارے یہاں بھیجئے، ان اطراف میں اسلام پھیل رہا ہے، ان کی درخواست پر آنحضرتﷺ نے خبیب ؓ اور زیدؓ بعض اور لوگوں کو روانہ فرمایا، راستہ میں بیر معونہ پر معر کہ پیش آیا، حضرت خبیبؓ اور زید ؓ مشرکین کے ہاتھوں میں اسیر ہو گئے، وہ لوگ ان بزرگوں کو ہاتھ باندھ کر مکہ لائے اور صفوان بن امیہ کے ہاتھ فروخت کیا،صفوان نہایت خوش تھا کہ اپنے باپ کے عوض ان کو قتل کروں گا۔

شہادت

رائے و مشورہ کے بعد تنعیم مقتل قرار پایا، صفوان نے اپنے غلام کو جس کا نام نسطاس تھا، حکم دیا کہ ان کو تنعیم لے چلو۔ قتل گاہ پہنچے تو عجیب آزمائش کا وقت تھا، ابو سفیان نے پوچھا زید تمہیں خدا کی قسم سچ سچ بتانا اگر تمہارے بجائے محمد ہوں اور ہم ان کی گردن ماریں اور تم اپنے گھر محفوظ رہو تو تم اس کو پسند کرتے ہو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ مجھے یہ بھی منظور نہیں کہ محمد کے کانٹا چبھے اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں ،ابو سفیان اس فقرہ کو سنکر دنگ رہ گیا اور اس عالم میں زبان سے نکلا کہ محمد کے اصحاب ان سے جس قدر محبت کرتے ہیں دنیا میں کسی کے دوست ایسے گرویدہ نہیں، اس کے بعد ان کو قتل کر دیا گیا، یہ 3 ھ کا افسوسناک واقعہ ہے ۔ [1][2]

حوالہ جات

  1. (حصہ اول تمت با الخیر)
  2. اسدالغابہ تذکرہ زید بن وشنہ