شاہپور اول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شاہپور اول
 

معلومات شخصیت
پیدائش 2ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیروز آباد  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 272ء (121–122 سال)[1][2][3][4][5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بیشاپور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ساسانی سلطنت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بہرام اول،  نرسی،  ہرمز اول  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد اردشیر بابکان اول  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان خاندان ساسان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ساسانی سلطنت کا بادشاہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
12 اپریل 240  – مئی 270 
اردشیر بابکان اول 
ہرمز اول 
عملی زندگی
پیشہ مقتدر اعلیٰ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شاہ پور ساسانی سلطنت دوسرا شہنشاہ تھا۔ وہ 241ء میں اردشیر کے جانشین کے طور پر تخت نشین ہوا۔ وہ 32 سال تک شاندار حکومت کر کے 272ء میں وفات پائی۔

تعارف[ترمیم]

اردشیر نے اشکانی خاندان کی ایک شہزادی سے شادی کی جو شاه اردوان کی بیٹی یا اس کے چچا کی لڑکی یا اردوان کے لڑ کے فرحان کی بھتیجی تھی۔ شاہ پور اس اشکانی شہزادی کے بطن سے تولد ہوا تھا۔

تخت نشینی[ترمیم]

شاہ پور اول کو اردشیر نے اپنا ولی عہد منتخب کیا تھا۔ شاہ پور 241ء میں اردشیر کے جانشین کی حثیت سے تخت نشین ہوا۔

نصیبین کی فتح[ترمیم]

شاہ پور نے عنان حکومت سنبھالتے ہی سرحدوں کی حفاظت اور دشمنوں کا قطعی طور پر قلع قمع کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس نے سب سے پہلے 257ء میں یمن پر چڑھائی کی کیونکہ رومی پادشاه ویلیرین (Yalerian) نے اس کے خلاف بغاوت کی اور باج دینے سے انکار کر دیا تھا۔ نصیبین اس وقت سرحد روم کا آخری شہر تھا۔ شاہ پور نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ پہلے گوپھیوں سے دیواروں اور برجوں کو گرایا۔ پھر شہرزور سے بچھومنگوا کر فصیل کے اندر پھینکوائے جن کے کاٹنے سے اہل شہر بہت تنگ آ گئے۔ نیز جب محصورین کی خوراک کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ شاہ پور نے شہر فتح کر کے وہاں اپنا ایک نائب مرزبان مقرر کیا اور خود خرطوس کی طرف بڑھ گیا۔ اس کو بھی فتح کرکے قسطنطنیہ کی طرف بڑھا۔ شاہ ویلیرین نے یہ صورت دیکھی تو ایلچی بھیج کر مقررہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد شاہ پور مدائن واپس آ گیا۔

ہیترا کی فتح[ترمیم]

دریائے دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں ایک شہر ہیترا ( Hetra) کے نام سے آباد تھا۔ جس کا سردار ایک عرب تھا جس کا نام ساطرون اور لقب غیزان (Zazan) تھا۔ اس نے اپنی حدوں سے تجاوز کر کے شاہ پور کا کچھ علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور شاہ پور کے احکام سے نحراف کیا ۔ شاہ یور نے حملہ کیا تو غیزان قلعہ بند ہو کر بیٹھ گیا۔ شاہ پور نے آگے بڑھ کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔ شہر کی فتح از رومی افسانہ ایک غداری کی وجہ سے ہوئی۔ ضیزان کی بیٹی شاہ پور پر عاشق تھی۔ اس نے شہر کے دروازے کھلوا دیے تا کہ شاہ پور داخل ہو سکے۔ شاہ پور نے اس غداری کے صلے میں حسب وعدہ اس سے شادی کر لی۔ اس کے بعد نواح بحیرہ خزر کے باشندوں اور اندرون سلطنت کی سرکش قوموں اور شمال مشرق کی سرحدی مملکتوں کے ساتھ جنگ کرنا پڑی۔ پہلے اس نے خوارزمیوں کو شکست دے کر ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد گیلیوں ، دیلامیوں اور گرکانیوں کو ایک خونریز لڑائی کے بعد زیر کیا۔

پہلیزگ کی شکست[ترمیم]

پہلیزگ ایک تورانی بادشاہ تھا۔ شاہ پور نے اس پر چڑھائی کر کے اسے شکست دے کر قتل کر دیا۔ جس جگہ لڑائی ہوئی تھی اس جگہ ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جس کا نام اس نے نیوشاه پور (پسندیدہ شاہ پور ) رکھا جو آج کل نیشاپور کہلاتا ہے۔ شاہ پور نے ان فتوحات کے بعد شاہانشاہ ایران وان ایران (شہنشاہ ایران و غیر ایران) کا شاندار لقب اختیار کیا۔

جنگ ایدیسا[ترمیم]

نصیبین کی جنگ کے تین سال بعد 240ء میں ایرانیوں اور رومیوں کے درمیان ایدیسا کے مقام پر زبردست جنگ ہوئی۔ قیصر روم ویلیرین نے صلح نامہ نصیبین کی رو سے خراج کے علاوہ ارمینیا بھی ایرنیوں کے حوا لے کر دیا تھا۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے قیصر روم تین سال کی زبردست تیاریوں کے بعد بذات خود حملہ آور ہوا۔ شاہ پور نے آگے بڑھ کر اسے نہ صرف شکست فاش دی بلکہ گرفتار بھی کر لیا۔ قیصر روم قیدی کی حالت میں شہر جندلیشاہ پور میں مرا۔ ویلیرین سے جو سلوک شاہ پور نے کیا وہ اس کا مستحق تھا کیونکہ اس نے خود ہی صلح نامہ کی خلاف ورزی کر کے شاہ پور پر چڑھائی کی تھی۔ اس فتح کے بعد شاہ پور نے پہلی عہد شکنی پر رہا کرنا مناسب نہ سمجھا اور وہ قید میں مر گیا۔ اس کے بعد شہنشاہ جولین نے ایرانیوں سے بدلہ لینے کے لیے طیسفون پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس جنگ میں جولین اس قدر زخمی ہوا کہ جانبر نہ ہو سکا۔ اب رومی سلطنت کو چار و ناچار یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ ایرانی قیامت کے حریف اور معرکے شہسوار ہیں ۔

بند قیصر کی تعمیر[ترمیم]

شاہ پور نے ویلیرین پر فتح حاصل کرنے کے بعد رومی قیدیوں کو شوشتر کے قریب دریائے کارون پرایک بند تعمیر کرنے کے لیے مجبور کیا۔ کیونکہ رومی مہندسوں کی صنعتی قابلیت کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ اس بند کے ساتھ انھوں نے ایک بڑا پل بھی بنایا تھا۔ اس بند کو آج تک لوگ بند قیصر کہتے ہیں۔ ان قیدیوں کو واپس بھیجنے کی بجائے جندلیشاہ پور اور شوشتر کے قریب آباد کیا گیا۔ بند قیصر کا اس وقت صرف نچلا حصہ ساسانی عہد کی یادگار ہے۔ اوپر کا حصہ اسلامی عہد سلجوقی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

وفات[ترمیم]

شاہ پور نے 32 سال حکومت کرنے کے بعد 272ء میں وفات پائی۔ وہ فہم و تدبیر اور مصلحت بینی میں اپنے باپ کا ہم پلہ اورسخاوت میں اس سے افضل تھا۔ اس نے رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے تندہی سے کام کیا۔

اولاد[ترمیم]

شاہ پور اول کی کے چار بیٹوں کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔

  1. ہرمز اول
  2. بہرام اول
  3. نرسی
  4. مہران [7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0060897.xml — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2021 — عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana
  2. Treccani's Enciclopedia Italiana ID: https://www.treccani.it/enciclopedia/shahpur_(Enciclopedia-Italiana) — بنام: SHĀHPŪR — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2021 — عنوان : Enciclopedia Treccani — ناشر: اطالوی دائرۃ المعارف ادارہ
  3. Treccani's Dizionario di Storia ID: https://www.treccani.it/enciclopedia/shahpur-i_(Dizionario-di-Storia) — بنام: Shahpur I — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2021 — مدیر: اطالوی دائرۃ المعارف ادارہ — عنوان : Dizionario di Storia
  4. بنام: Shāhpūr — Treccani ID: https://www.treccani.it/enciclopedia/shahpur — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2021 — مصنف: اطالوی دائرۃ المعارف ادارہ — عنوان : Enciclopedia on line
  5. دائرۃ المعارف یونیورسل آن لائن آئی ڈی: https://www.universalis.fr/encyclopedie/shahpur-ier-sapor-ier/ — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2021 — ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک.
  6. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Shapur-I — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2021 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  7. تاریخ ایران قدیم (زمانہ قدیم تا زوال بغداد) مولف شیخ محمد حیات صفحہ 35 تا 39