مندرجات کا رخ کریں

نائلہ کیانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نائلہ کیانی
نائلہ کیانی
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش راولپنڈی
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی کوئین میری یونیورسٹی آف لندن   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ کوہ پیما،

بینکر

ایرو اسپیس انجینئر
فائل:Nylla kianni.JPG
وہ گاشر برم ٹو کو فتح کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں

نائلہ کیانی ایک خاتون کوہ پیما ہیں جن کا تعلق صوبہ پنجاب، پاکستان میں راولپنڈی شہر کے علاقے گوجرخان سے ہے۔ انھوں نے مملکت متحدہ سے ایرو سپیس انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرکے کچھ عرصے اس شعبے میں بھی کام کیا تھا تاہم اب وہ اپنے خاوند کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں جہاں اس وقت وہ ہیکنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کے مطابق نائلہ اور ان کی ٹیم نے کوہ پیمائی کی دنیا میں تاریخ رقم کردی ہے۔ وہ نہ صرف گاشر برم ٹو کو فتح کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں بلکہ وہ ایسی کوہ پیما بھی ہیں جنھوں نے اپنی پہلی مہم میں ہی آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی فتح کی ہے۔[1]

نائلہ کیانی نے کچھ عرصہ قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انھیں بچپن سے مہم جوئی کا شوق تھا۔ نائلہ کیانی نے شادی اور دو بچوں کی پیدائش کے بعد کوہ پیمائی کا آغاز گیشابرم ٹو کو فتح کر کے کیا تھا۔ بچے کی پیدائش کے چند ماہ بعد انھوں نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹی فتح کر کے لوگوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا تھا[2]

نائلہ کیانی کی شادی پسند کی شادی تھی۔ ان کے خاوند خالد راجا کو ان کے شوق کا علم تھا نائلہ کے مطابق انھیں یہ بھی پتا تھا کہ میرے شوق اور دلچسپیاں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔‘'

نائلہ نے ایک انٹرویو میں بتایا مجھے بچپن ہی سے مہم جوئی اور پہاڑوں سے عشق تھا، اسی لیے شادی کی بڑی تقریبات کرنے کی جگہ میں نے اپنی شادی کی تقریب کے ٹو بیس کیمپ پر منعقد کی تھی۔‘' کے ٹو بیس کیمپ پر نائلہ کیانی کی شادی کی تقریب کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں۔

اپنے اس سفر کو یاد کرتے ہوئے نائلہ کہتی ہیں کہ اس مہم سے پہلے میں نے کوہ پیمائی کی کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ آٹھ ہزار میٹر سے قبل کوئی پانچ، چھ ہزار میڑ کی چوٹی بھی سر نہیں کی تھی۔‘' مگر یہ ضرور تھا کہ انھوں نے باضابطہ مہم سے قبل گاشر برم ٹو کے کیمپ تھری پر ایک مشق کی تھی۔ یہ سب کوہ پیماؤں کے لیے باضابطہ مہم شروع کرنے سے قبل معمول کی پریکٹس ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’'پاکستان میں زیادہ تر کوہ پیماؤں کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ان کی پیدائش اور بچپن ہی پہاڑوں اور دو، دو ہزار میٹر کی بلندی پر ہوتی ہے۔ وہ اس ماحول کے بھی عادی ہوتے ہیں جبکہ میں میدانی علاقے کی رہنے والی تھی۔ اس لیے میرا آٹھ ہزار میٹر تک پہنچا مشکل سمجھا جارہا تھا۔‘' وہ کہتی ہیں کہ ’بچے کی پیدائش کے فوراً بعد جسم کسی بڑی مہم کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مہم کی تیاری کے لیے میں نے جسمانی تربیت سے زیادہ اپنے حوصلہ کو مضبوط کیا اور خود کو ذہنی طور پر تیار کیا کہ میں یہ کرسکتی ہوں۔‘

حوالہ جات

[ترمیم]