يوكون

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
يوكون
يوكون
پرچم نشان
شعار: No official motto
[[File:|||Canadian Provinces and Territories]]
دارالحکومت وائٹ ہارس
سب سے بڑا شہر وائٹ ہارس
سب سے بڑا میٹرو وائٹ ہارس
سرکاری زبانیں
نام آبادی يوكونر
حکومت
قسم
کمشنر ڈوگ فلپس
پریمیئر ڈیرل پاسلوسکی (Y)
مقننہ یوکون قانون ساز اسمبلی
وفاقی نمائندگی ( کینیڈین پارلیمنٹ)
ایوان نشستیں 1 of 338 (0.3%)
سینیٹ نشستیں 1 of 105 (1%)
کنفیڈریشن جون 13, 1898 (نواں)
رقبہ  درجہ نواں
کل 482,443 کلومیٹر2 (186,272 مربع میل)
زمینی 474,391 کلومیٹر2 (183,163 مربع میل)
آب (%) 8,052 کلومیٹر2 (3,109 مربع میل) (1.7%)
کینیڈا کا تناسب 4.8% of 9,984,670 km2
آبادی  درجہ ہارہواں
کل (2011) 33,897 [1]
کثافت (2011) 0.07/km2 (0.18/مربع میل)
خام ملکی پیداوار  درجہ بارھواں
کل (2011) C$2.660 billion[2]
فی کس C$75,141 (تیسرا)
مخففات
ڈاک YT
آیزو 3166-2 CA-YT
منطقہ وقت متناسق عالمی وقت-8
ڈاک رمز سابقہ Y
پھول Fireweed
درخت Subalpine fir[3]
پرندہ Common raven
ویب سائٹ www.gov.yk.ca
Rankings include all کینیڈا کے صوبے اور علاقہ جات
یوکون، کینیڈا

یوکون (انگریزی نام: Yukon) کینیڈا کا ایک شمال مغربی علاقہ ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے کینیڈا کے تین چھوٹے ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس کا نام “یوکون“ ہونے کی وجہء تسمیہ “دریائے یوکون“ ہے، جس کے معنی گوچ زبان میں عظیم دریا ہیں۔

یوکون کو ریاست یوکون بھی کہا جاتا ہے لیکن مقامی افراد اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ 2003ء میں وفاقی حکومت نے یوکون ایکٹ کے ذریعے ریاست کا نام ریاست یوکون سے بدل کر یوکون رکھ دیا ہے۔

یوکون کا پہاڑ لوگن 5959 میٹر بلند ہے جو کلایون نیشنل پارک اینڈ ریزرو میں ہے۔ یہ پہاڑ اس ریاست کا سب سے بلند مقام ہے اور شمالی امریکا میں دوسرا بلند ترین مقام۔

جغرافیہ[ترمیم]

یہ انتہائی کم آباد علاقہ برفیلے پانیوں کی جھیلوں اور سارا سال برف سے ڈھکی پہاڑی چوٹیوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کا موسم اگرچہ برفانی اور نیم برفانی اور انتہائی خشک ہے۔ یہاں سردیاں طویل اور سرد ہوتی ہیں۔ گرمیوں کے مختصر عرصے میں لمبے دنوں کی وجہ سے سبزیوں اور پھولوں کی مختصر فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔

یہ ریاست ایک زاویہ قائمہ مثلث کی مانند ہے جس کے سرے امریکی ریاست الاسکا سے مغرب میں، شمال میں نارتھ ویسٹ ریاست اور جنوب میں برٹش کولمبیا سے ملتے ہیں۔ اس کے شمالی ساحل پر بیوفورٹ سمندر ہے۔ اس کی غیر ہموار مشرقی سرحد یوکون بیسن اور میکنزی دریا کے درمیان سرحد کا کام کرتی ہے۔ اس کا دار الخلافہ وائٹ ہارس ہے۔

کینیڈا کا بلند ترین مقام یعنی ماؤنٹ لوگن اسی ریاست کے جنوب مغربی حصے میں موجود ہے۔ ماؤنٹ لوگن اور یوکون کے جنوب مغرب کا بڑا حصہ کلوآن نیشنل پارک اینڈ ریزرو کا حصہ ہیں جو یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دئے گئے ہیں۔

ریاست کا زیادہ تر حصہ دریائے یوکون میں ہے۔ یوکون کے جنوبی حصے میں گلیشئر سے بننے والی جھیلوں کی کثرت ہے جو بڑی لمبی اور تنگ ہر قسم کی ہیں۔ ان کی اکثریت یوکون دریا سے جا ملتی ہے۔ بڑی جھیلوں میں تیسلین، آٹلن، ٹاگیش، مارش، لبیرگ، کساوا اور کلوآن جھلیں ہیں۔ بینیٹ جھیل ناریس جھیل سے جا ملتی ہے اور اس کا زیادہ تر رقبہ یوکون میں موجود ہے۔

پانی کے دوسرے ذرائع میں میکنزی دریا اور السیک ٹاٹشینشینی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے دیگر چھوٹے چھوٹے دریا بیوفورٹ سمندر میں جا گرتے ہیں۔ یوکون کے دو بڑے دریا لیارڈ اور پیل شمالاً جنوباً بہتے ہوئے میکنزی سے جا ملتے ہیں۔

دار الخلافہ وائٹ ہارس یہاں کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ یہاں ریاست کی دو تہائی آبادی رہتی ہے۔ دوسرا بڑا شہر ڈاسن شہر ہے جو 1952ء تک یہاں کا دار الخلافہ تھا۔

تاریخ[ترمیم]

یورپئین لوگوں کی آمد سے قبل وسطی اور شمالی یوکون برفانی دور میں جمنے سے بچا رہا۔ یاہں انسانی رہائش کی نشانیاں اولڈ کرو کے علاقے میں ملتی ہیں جو شمالی امریکا میں قدیم ترین باقیات ہیں۔ 800 عیسوی میں الاسکا کے قریب ماؤنٹ چرچل میں آتش فشانی سے جنوبی یوکون میں راکھ کی تہ جم گئی جو ابھی بھی کلونڈیک ہائی وے کے آس پاس دیکھی جا سکتی ہے۔ ساحلی اور اندرونی مقامی قبائل یہاں پہلے سے تجارتی جال بچھا چکے تھے۔ یہاں انیسویں صدی میں یورپیئوں کی آمد شروع ہوئی جو کھالوں کی تجارت سے وابستہ تھے۔ ان کے بعد مشنری اور ویسٹرن یونین ٹیلی گراف کی مہمیں آئیں۔ بعد میں انیسویں صدی کے اختتام پر سونے کی تلاش کی دوڑ شروع ہوئی۔ اس وجہ سے آبادی اتنی بڑھ گئی کہ یہاں پولیس تعینات کرنی پڑی۔ 1897ء میں کلونڈیک گولڈ رش کی وجہ سے آبادی اتنی بڑھی کہ اس علاقے کو الگ کر کے ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔

آبادی

اقوام[ترمیم]

2001ء کے کینیڈین مردم شماری کے مطابق یوکون میں انگریز آبادی کا تناسب 27 فیصد سے زیادہ، قدیم قبائل 22 فیصد سے زیادہ، سکاٹش تقریباً 22 فیصد، آئرش تقریبا 19 فیصد، جرمن تقریبا 14 فیصد اور فرانسیسی 13 فیصد تھے۔ اگرچہ ایک چوتھائی نے خود کو کینیڈین ظاہر کرنے پر ترجیح دی۔

زبان[ترمیم]

2006ء کی مردم شماری میں کل آبادی 30372 افراد تھی۔ ان میں سے 29940 نے رائے شماری میں حصہ لیا اور تقریباً پچاسی فیصد افراد نے اپنی مادری زبان انگریزی اور تین فیصد سے کچھ زائد نے فرانسیسی کو مادری زبان کہا۔

یوکون کے لینگوئج ایکٹ میں مقامی زبانوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے تاہم قانون، عدالتی اور مقننہ کے لیے صرف انگریزی اور فرانسیسی ہی استعمال ہوتی ہیں۔

مذہب[ترمیم]

2001ء کی مردم شماری کے مطابق رومن کیتھولک چرچ کے پیروکاروں کی تعداد 5985 تھی جو کل آبادی کا 21 فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر انگلیکن چرچ آف کینیڈا تھا جس کے پیروکار 3795 یعنی کل آبادی کا تیرہ فیصد تھے۔ تیسرے نمبر پر کینیڈا کا متحدہ چرچ ہے جس کے پیروکار 2105 یعنی سات فیصد ہیں۔

معیشت[ترمیم]

تاریخی اعتبار سے یوکون کی اہم صنعت کان کنی ہے جو سیسہ، زنک، چاندی، سونا، ایس بیس ٹاس اور تانبے پر مشتمل ہے۔ 1870ء میں حکومت نے ہڈسن بے کمپنی سے زمین حاصل کر کے اسے 1898ء میں نارتھ ویسٹ ریاست سے الگ کر دیا تاکہ سونے کی تلاش میں آنے والے لوگوں کی آباد کاری آسان ہو سکے۔

سونے کے متلاشی افراد ہزاروں کی تعداد میں ریاست پہنچے۔ اس ابتدائی دور کی یادیں اور رائل کینیڈین گھڑ سوار پولیس کے اوائل کے دن اور ریاست کے خوبصورت قدرتی مناظر وغیرہ مل کر سیاحت کو یہاں کی دوسری بڑی صنعت بناتے ہیں۔

مینوفیکچرنگ میں بشمول فرنیچر، ملبوسات اور ہینڈی کرافٹ کے ساتھ ساتھ پن بجلی بھی شامل ہے۔ روایتی طور پر جانور اور مچھلی پکڑنے کی صنعتیں زوال کا شکار ہیں۔ اس وقت حکومت سب سے ملازمتیں مہیا کر رہی ہے۔ اس وقت 12500 افرادی قوت میں سے 5000 افراد براہ راست حکومت کے لیے کام کرتے ہیں۔

سیاحت[ترمیم]

یوکون کی سیاحت کا موٹو ہے "زندگی سے بھی بڑا"۔ یوکون کی سب سے بڑی کشش اس کی فطری خوبصورتی ہے۔ سیاحت کا دارومدار بھی اسی بات پر ہے اور بہت سارے پیشہ ور گائیڈ شکاریوں اور مچھلی کے شکار کے شوقینوں اور فطری ماحول سے محبت کرنے والوں کی رہنمائی کے لیے موجود رہتے ہیں۔ کھیل کود کے شائقین کے لیے جھیلوں اور دریاؤں میں میں کشتی رانی کے مواقع ہیں۔ پیدل چلنا ہو یا سکی کی مدد سے یا سنو بورڈ کی مدد سے، برف پر چلنے والی گاڑیوں پر سفر ہو یا اونچی چوٹیاں سر کرنی ہوں یا پھر برف پر پھسلنا ہو یا کتوں والی برف گاڑی پر سفر، ہر چیز ممکن ہے۔

سردیوں میں جب رات کو آسمان صاف ہو تو آرورا دیکھنے کے لیے بہت لوگ باہر نکلتے ہیں۔

ذرائع نقل و حمل[ترمیم]

جدید ذرائع نقل و حمل سے قبل دریا اور پہاڑی درے ہی مقامی لوگوں کے راستے تھے۔ پہلے پہل یورپیوں نے بھی انھیں اختیار کیا۔

گولڈ رش سے لے کر 1950ء تک یوکون دریا میں کشتیاں چلتی رہیں جو زیادہ تر وائٹ ہارس اور ڈاسن شہر کے درمیان تھیں۔ چند ایک آگے الاسکا اور بیرنگ سمندر تک بھی جاتی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر کشتیاں برٹش یوکون نیویگیشن کمپنی کی ملکیت تھیں۔ یہ کمپنی ایک نیرو گیج ٹرین بھی چلاتی تھی جو سکاگوے، الاسکا اور وائٹ ہارس کو ملاتی تھی۔ 1980ء میں اس ٹرین کو فارو کی کان کے ساتھ ہی بند کر دیا گیا۔ آج کل یہ گرمیوں میں سیاحت کی غرض سے چلائی جاتی ہے اور کارکراس تک چلتی ہے۔

آج اہم زمینی راستوں میں الاسکا ہائی وے، کلونڈیک ہائی وے، ہینز ہائی وے اور ڈیمپسٹر ہائی وے تمام کی تمام ماسوائے ڈیمپسٹر، پختہ ہیں۔ دیگر ہائی وے جہاں کم ٹریفک ہوتی ہے میں رابرٹ کیمپبل ہائی وے کارمک کو واٹسن لیک سے ملاتی ہے۔ اولڈ کرو کے علاقے میں آباد لوگوں تک رسائی کا واحد راستہ ہوائی جہاز ہے۔

وائٹ ہارس انٹرنیشنل ائیرپورٹ اس علاقے کے ذرائع نقل و حمل کا مرکز ہے۔ یہاں سے براہ راست پروازیں وینکوور، کیلگری، ایڈمنٹن، فئیربینکس اور فرینکفرٹ کے لیے چلتی ہیں۔ فرینکفرٹ صرف گرمیوں میں پروازیں چلتی ہیں۔ یوکون میں موجود ہر شہر میں ائیرپورٹ موجود ہے۔ ڈاسن سٹی، اولڈ کرو، انوویک کے لیے ائیر نارتھ کی باقاعدہ سروس ہے۔ ائیر چارٹر بزنسز بھی اس علاقے میں سیاحت اور کان کنی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

حکومت اور پالیسیاں[ترمیم]

انیسویں صدی میں یوکون ہڈسن بے کمپنی کا ایک حصہ تھی جو نارتھ ویسٹرن ٹیریٹوری کا انتظام سنبھالے ہوئی تھی۔ 1895ء میں اسے پہلی بار قابل ذکر مقامی حکومت دی گئی جب اسے نارتھ ویسٹ ٹیریٹوری کے ضلع سے الگ کیا گیا۔ 1898ء میں اسے الگ ریاست کا درجہ دے کر اس میں کمشنر کا تقرر کر دیا گیا۔

1979ء سے قبل تک ریاست کا انتظام کمشنر کے پاس ہوتا تھا جو وفاقی وزارت برائے انڈین افیئرز اینڈ ناردرن ڈیلویلپمنٹ مقرر کرتی تھی۔ کمشنر ریاست کی ایگزیکٹو کونسل کی تقرری کرتا تھا اور ان کے سربراہ کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے ریاست کی حکومت میں روز مرہ کام بھی سر انجام دینے ہوتے تھے۔ 1979ء میں وفاقی وزارت اور کمشنر سے کافی سارے اختیارات لے کر انھیں ریاستی کونسل کو دے دیا گیا۔

یوکون ایکٹ جسے یکم اپریل 2003ء میں منظور کیا گیا تھا، نے ریاستی حکومت کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ 2003ءسے ریاستی حکومت کے پاس ما سوائے جرائم کے خلاف، دیگر تمام اختیارات وہی ہیں جو دیگر صوبائی حکومتوں کو حاصل ہیں۔ کسی حد تک کمشنر کا کردار صوبائی لیفٹیننٹ گورنر سے ملتا جلتا ہے تاہم کمشنر کو وفاقی حکومت تعینات کرتی ہے جبکہ لیفٹییننٹ گورنر کو ملکہ کی نمائندگی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

1978ء میں پہلی بار ذمہ دار حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں اور انھوں نے یوکون کی مقننہ کے لیے اپنے امیدوار مقرر کیے۔ پروگریسو کنزرویٹو نے ان انتخابات کو جیت لیا اور یوکون کی حکومت جنوری 1979ء میں سنبھالی۔ یوکون نیو ڈیموکریٹک پارٹی نے 1985ء سے 1992ء تک حکومت بنائے رکھی۔ اس کے بعد 1996ء سے 2000ء تک ان کی حکومت رہی۔ کنزرویٹیو کی واپسی 1992ء میں ہوئی۔ انھوں نے اپنا نام بدل کر یوکون پارٹی رکھ دیا۔

اگرچہ یوکون کو کینیڈا کا گیارھواں صوبہ بنانے کے بارے بات ہوتی رہی ہے تاہم اس کی قلیل آبادی کی بناٗ پر اس تجویز پر عمل ہونا محال ہے۔

وفاقی سطح پر اس پارٹی کا ایک پارلیمانی ممبر اور ایک سینیٹر ہے۔ یوکون کے باشندوں کو دیگر صوبوں کے باشندوں کی طرح یکساں حقوق ملے ہوئے ہیں اور اسی طرح پارلیمنٹ میں ان کے اراکین کو بھی یکساں حقوق ہیں۔ یوکون کا ایک رکن پارلیمان ایک بار ڈپٹی پرائم منسٹر رہ چکا ہے اور دوسرا ممبر وفاقی نیو ڈیمو کریٹک پارٹی کا صدر بھی۔

یوکون ان نو علاقوں میں سے ہے جہاں ہم جنس شادیوں کی اجازت ہے۔

قدیم قبائل کی حکومتیں[ترمیم]

ریاست کی زیادہ تر آبادی مقامی قبائل پر مشتمل ہے۔ امبریلا لینڈ کلیم معاہدے کے تحت، جس میں چودہ مختلف قبائل کے 7000 اراکین نے اپنی رائے دی، پر وفاقی حکومت نے 1992ء میں دستخط کیے۔ دسمبر 2005ء تک ان چودہ میں سے گیارہ قبائل اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Population and dwelling counts, for Canada, provinces and territories, 2011 and 2006 censuses"۔ Statistics Canada۔ February 8, 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ February 8, 2012 
  2. "Gross domestic product, expenditure-based, by province and territory (2011)"۔ Statistics Canada۔ November 19, 2013۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ September 26, 2013 
  3. "Government of Yukon: Emblems and Symbols"۔ 12 فروری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2016