لیلا اور چنیسر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لیلا اور چنیسر سندھ کی ایک رومانی داستان ہے۔[1]

کہانی[ترمیم]

سومرہ حکمران چنیسر ایک خوبصورت نوجوان تھا اس کی شادی ایک خوبصورت عورت لیلا سے ہوئی تھی۔ چنیسر کو اپنی بیوی لیلا سے غیر معمولی محبت تھی۔ دونوں ہنسی خوشی اندگی بسر کر رہے تھے ۔

اسی زمانے میں ایک راجا کی حسین و جمیل بیٹی کنورو تھا۔ کنورو کو اپنے حسن پر بہت ناز تھا۔ ایک دن کنورو اپنی سہلیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ حسب معمول وہ اپنے حسن پر فخر کا اظہار کیا۔ اس کی ایک سہلی نے کہا تم ایسے اترا رہی ہو جیسے چنسر کی رانی بن گئی ہو ۔

یہ بات کنورو کے دل کو لگی اور اس نے تہیہ کر لیا وہ چنیسر سے شادی کرکے رہے گی۔ کنورو نے اپنے ماں باپ کو اپنے ارادے کی خبر کردی اور مشورے کے بعد اپنی ماں کے ساتھ چنیسر جو چنسر کا پایہ تخت تھا سوداگری کا سامان لے کر پہنچ گئی۔

کنورو نے کسی نہ کسی طرح چنیسر کے وزیر جکھرا تک رسائی حاصل کی اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور اس سے مدد طلب کی۔ وزیر کنورو سے بہت متاثر ہوا اور اس نے مدد کی ہامی بھری۔ ایک دن موقع پاکر وزیر نے کنورو کی بڑی تعریف کی لیکن چنیسر نے کوئی توجہ نہیں دی اور کہا میں لیلا کے ہوتے ہوئے دوسری عورت سے شادی کرنا گناہ سمجھتا ہوں۔ وزیر نے کنورو کو یہ بات بتادی ۔

اب کنورو کی ماں نے دوسری ترکیب سوچی اور سوداگری کا سارا سامان اونے ہونے فروخت کرکے ایک غریب عورت کا بھیس بدل کے دونوں ماں بیٹی لیلا کے محل پہنچیں۔ لیلا کو اپنی غربت کا حال بتا کر ملازمت کی خواہش مند ہوئیں۔ لیلا نے رحم کھا کر ماں بیٹی کو ملازم رکھ لیا۔ یہاں تک کہ کنورو چنیسر کے کمرے کی صفائی اور آرائیش پر مقرر ہوئی۔ ایک دن وہ بستر بچھا رہی تھی اور چنیسر اور لیلا دونوں کمرے موجود تھے۔ کنورو کے دیکھ کر آنسو نکل آئے۔ چنیسر نے پوچھا کیا ہوا۔ کنورو کہنے لگی کچھ نہیں چراغ کا گرم تیل لگ گیا ہے اس لیے آنسو نکل آئے ۔

لیکن لیلا کو یقین نہیں آیا دوسرے دن اس نے کنورو سے پوچھا کیا بات ہے جو تم مجھ سے چھپا رہی ہو۔ کنورو نے جب دیکھا کہ اب مجھے بتانا پڑے گا تو اس نے ساری حیققت بتا دی کہ وہ ایک راجا کی لڑکی ہے۔ لیلا کو یقین نہیں آیا۔ اس پر کنورو نے ایک نولکھا ہار لیلا کو دیکھایا۔ لیلا بیش قیمت ہار دیکھ کر بہت حیران ہوئی اور اس نے کنورو سے کہا یہ ہار مجھے دیدو۔ کنورو نے کہا میں ایک شرط پر یہ ہار دے سکتی ہوں کہ آپ ایک رات کے لیے چنیسر کو میرے حوالے کردو۔ لیلا نے یہ شرط منظور کرلی اور ہار کنورو سے لے لیا۔ جب چنیسر کو یہ بات معلوم ہوئی کہ اس کی بیوی لیلا نے ایک ہار کے بدلے اسے فروخت کر دیا لیلا۔ اس کی نظروں سے گر گئی اور وہ کنورو سے محبت کرنے لگا۔ لیلا جب ہر طرح سے مایوس ہو گئی تو اپنے گاؤں چلی گئی اور وہیں غم میں گھلتی رہی ۔

اتفاق سے چنیسر کے وزیر جکھرا کی منگنی اسی گاؤں میں ہوئی تھی۔ لیلا کے ساتھ جب یہ واقع پیش آیا تو لڑکی کے ماں باپ نے جکھرا کو کہلا بھیجا آج لیلا گھر بیٹھ گئی ہے کل ہماری لڑکی بھی گھر بیٹھ جائے گی اس لیے ہم یہ شادی نہیں کرتے۔ جکھرا یہ سن کر بہت پریشان ہوا۔ لیلا نے جکھرا کو کہلا بھیجا تم کسی طرح چنیسر کو ہمارے گاؤں لے آؤ میں وعدہ کرتی ہوں اس لڑکی سے تمھاری شادی کرا دوں گی۔ جکھر کسی نہ کسی طرح چنیسر کو راضی کو کرکے لیلا کے گاؤں میں لے آیا۔ لیلا بھیس بدل کر اور منہ پر نقاب ڈال کر اس جگہ پہنچی جہاں چنیسر ٹہرا ہوا تھا۔ لیلا نے کچھ اس طرح باتیں کیں کے چنیسر اس پر عاشق ہو گیا۔ لیلا نے چنیسر سے کہا تم سے کون محبت کر سکتا ہے تم نے لیلا جیسی شریف عورت سے بے وفائی کی ہے۔ چنیسر نے کہا لیلا سے کہا تم لیلا کو چھوڑو تم خود کیا لیلا سے کم ہو۔ تم کون ہو؟ تمھاری محبت نے مجھے لوٹ لیا ہے۔ لیلا نے کہا تم جیسے بے وفا سے دل کو لگائے گا۔ یہ سن کر چنیسر اٹھا اور اس نے لیلا کا نقاب الٹ دیا۔ چنیسر نے یہ دیکھ کر وہی لیلا ہے سرد آہ بھری اور زمین پر گرا اور جان دے دی۔ لیلا نے بھی چیخ مار کے اس پر گری اور دنیا سے رخصت ہو گئی ۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب اعجاز الحق قدوسی، تاریخ سندھ اول۔ فروری 1976ء مرکزی اردو بورڈ لاہور ۔