سسی پنوں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سسی پنوں (Sassui Punnhun) ((سندھی: سَسُئيِ پُنهوُن،)‏، اردو: سسی پنوں، پنجابی: ਸੱਸੀ ਪੁੱਨੂੰ، سسی پنوں‎) ایک مشہور سندھی لوک کہانی ہے۔ یہ کہانی ایک وفادار بیوی کی ہے جو اپنے محبوب شوہر کی تلاش میں ہر قسم کی مشکلات میں سے گزرتی ہے جسے حریفوں نے اس سے جدا کر دیا تھا۔[1]

داستان[ترمیم]

پنوں یا پنہوں[ترمیم]

میر پنوں خان (میر دوستین ہوتھ) میر عالی کا بیٹا تھا جو میر ہوتھ خان بلوچستان کے مشہور قبیلے ہوتھ کا سردار تھا۔

سسی[ترمیم]

سسی بھمبھور (موجودہ سندھ میں) کے راجا کی بیٹی تھی۔ اس کی پیدا ئش پر جوتشیوں نے راجا کو کہا کہ یہ لڑکی شاہی خاندان کے لیے بدشگونی ہے۔ راجا نے لڑکی کو ایک لکڑی کے صندوق میں ڈال کر دریائے سندھ میں بہا دیا۔ صندوق بھمبھور کے گاؤں کے ایک بے اولاد دھوبی کے ہاتھ لگا، جس نے لڑکی کو خدا کا عطیہ سمجھ کر اپنی اولاد کی طرح پالا۔

سسی جب جوان ہوئی تو اس کی خوبصوتی کے چرچے دور دور تک پھیل گئے۔ پنوں نے جب سسی کے بارے میں سنا تو اس سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا، جس پر نوجوان شہزادے نے بھمبھور کا سفر کیا۔ پنوں اپنے کپڑے دھلوانے کے بہانے سسی کے باپ کے پاس آیا جو ایک دھوبی تھا۔ اس کے گھر پر سسی کو پہلی نظر دیکھتے ہی اس کا دیوانا ہو گیا۔ سسی کا باپ سسی کو اپنی ہی ذات میں بیاہنا چاہتا تھا، اس لیے اس نے پنوں سے یہ ثابت کرنے کو کہا کہ وہ بھی ایک دھوبی ہے۔ شہزادہ چونکہ دھوبیوں کے کام سے ناواقف تھا اس لیے وہ صاف کپڑے دھونے میں ناکام رہا۔ اس کا حل اس نے یوں نکالا کہ ہر کپڑے کے جیب میں اس نے ایک سونے کا سکہ ڈالا دیا۔ جس پر تمام گاؤں والوں نے اس کی دھلائی کی تعریف کی اور یوں سسی کا والد اسے اس سے بیاہنے پر تیار ہو گیا۔

پنوں کے بھائی[ترمیم]

پنوں کا والد اور بھائی اس شادی کے خلاف تھے اور اپنے ولد کے کہنے پر پنوں کے بھائی بھمبھور آئے تا کہ اسے اس شادی سے منع کیا جا سکے۔ بھائیوں نے پنوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور دھمکایا میں پنوں کسی طور سے نا مانا تو انھوں نے دوسرا طریقہ اپنایا۔ بظاہر وہ پنوں کی شادی پر رضامند ہو گئے اور پنوں کی شادی میں شریک بھی ہوئے جہاں انھوں نے پنوں کو بہت زیادہ شراب پلائی جس سے وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو گیا۔ وہ لوگ پنوں کو باندھ کے ایک اونٹ پر لاد کر اپنے آبائی علاقے کیچ میں لے آئے۔

انجام[ترمیم]

اگلی صبح جب سسی کو احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، تو وہ غصے اور غم کی کیفیت میں ننگے پاوں کیچ مکران کی طرف چل دی۔ سفر میں اسے خشک ریگستان سے گذرنا پڑا مگر اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ تمام سفر میں وہ پنوں پنوں پکارتی رہی۔ انتہائی پیاس کی حالت میں اسے ایک گڈریا ملا جس نے اسے پینے کو پانی دیا۔ گڈریا کی نیت اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر خراب ہو گئی، سسی وہاں سے بھاگ گئی اور رب سے دعا کی کہ اسے چھپا لے۔ خدا نے اس کی دعا سنی، زمین شق ہوئی اور وہ اس میں سما گئی۔ سسی نے اپنے آپ کو پہاڑوں کی ایک وادی میں دفن پایا۔

اگلے روز جب پنوں کو ہوش آیا تو وہ بھی سسی سسی پکارتے ہوئے بھمبھور کی طرف بھاگا۔ راستے میں اس کی ملاقات اسی گڈریے سے ہوئی جس نے اسے سارا ماجرا سنایا۔ پنوں نے بھی اپنے رب سے وہی دعا کی اور زمین ایک بار پھر شق ہوئی اور پنوں بھی اس میں سما گیا اور اپنے آپ کو اسی پہاڑوں کی وادی میں دفن پایا جہاں سسی دفن تھی۔ یہ افسانوی قبر آج بھی موجود ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس قصے کو منظوم کیا۔

کیچ مکران[ترمیم]

موجودہ دور میں کیچ بلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی وے پر واقع ہے۔ پنوں کا پرانا قلعہ یہاں موجود ہے۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Dr.Nabi Bux Khan Baloach (1976)۔ Popular Folk Stories:Sassui Punhun۔ Hyderabad, Sindh, Pakistan: Sindhi Adabi Board 
  2. http://www.kahopakistan.com/showthread.php?10750-Turbat[مردہ ربط]