تاریخ فلسفہ مغربی
تاریخ فلسفہ مغربی | |
---|---|
(انگریزی میں: A History of Western Philosophy) | |
مصنف | برٹرینڈ رسل |
اصل زبان | انگریزی |
ادبی صنف | مضمون ، غیر افسانوی ادب [1] |
ناشر | سائمن اینڈ شوستر |
تاریخ اشاعت | 1945 |
او سی ایل سی | 224241145، 368394 |
درستی - ترمیم |
تاریخِ فلسفۂ مغربی[2] (History of Western Philosophy) سنہ 1945میں لکھی گئی ،برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کی کتاب ہے- یہ کتاب مغربی فلسفے کا ،سقراطی دور سے قبل سے لے بیسویں صدی کے اوائل تک، جائزہ لیتی ہے- اگرچہ اس کتاب کو تعمیم اور بھول چوک کی بنا پر کافی تنقید کا سامنا رہا بہرحال یہ ایک کامیاب کتاب ہے اور اپنی پہلی اشاعت سے اب تک شایع ہو رہی ہے۔ جب رسل کو 1950 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تو کچھ حوالوں کے مطابق یہ کتاب اس انعام کی ایک وجہ بنی-اس کتاب نے رسل کو اپنی زندگی کے آخری حصّے میں مالی تحفظ بھی فراہم کیا -
پس منظر
[ترمیم]یہ کتاب دوسری عالمی جنگ کے دوران لکھی گئی، جو تاریخِ فلسفہ کی لیکچر سیریز پر مبنی تھی، جو رسل نے بارنس فاؤنڈیشن کے لیے فلاڈیلفیا میں 1941اور 1942 میں دیے- [3] تاریخی تحقیق کا بیشتر کام رسل کی تیسری بیوی پیٹریسیا نے سر انجام دیا - 1943 میں، رسل کو ایک پبلشرکی جانب سے پیشگی3000 ڈالر موصول ہوئے اور تبھی 1943 اور 1944 میں انھوں نے یہ کتاب برنمار کالج میں رہتے ہوئے مکمل کی، جو 1945 میں امریکا اور 1946 میں برطانیہ میں شایع ہوئی- 1961 کے 'نئے ایڈیشن' میں کوئی نیا مواد شامل نہیں کیا گیا، ہر چند کہ برطانوی ایڈیشن میں تصحیح اور معمولی نظرِ ثانی کی گئی تھی جب کہ امریکی ایڈیشن میں کچھ نہیں بدلہ گیا تھا، یہاں تک کہ سپینوزا کی تاریخ پیدائش بھی غلط ہی شایع کی گئی -
متن
[ترمیم]کتاب کے متن کو تین حصّوں میں، جب کہ ہرحصے کو بیشتر بابوں میں تقسیم کیا گیا ہے - ہر باب ایک فلسفی، ایک فلسفی سوچ یا دور پر مبنی ہے -
قدیم فلسفہ
[ترمیم]- پیش از سقراط (بشمول تالس، فیثاغورث ، هراکلیتوس، بارامانیاس، امپی دوکلیز، اناکسی مینس، اناکسا غورث، لئوکیپوس، دی مقراطیس اور پروتاغوراث)
- سقراط، افلاطون اور ارسطو
- قدیم فلسفہ پس از ارسطو (سمیت الساخرين، المتشككين، أبيقوري ،رواقیون اور أفلوطين)
کیتھولک فلسفہ
[ترمیم]- پادری (The Fathers) نام کے باب میں یہودی اور اسلامی فلسفے کو شامل کرتے ہوئے سینٹ ایمبروز، سینٹ جیروم، سینٹ آگسٹائن، سینٹ بینیڈکٹ اور پوپ گریگوری کا ذکر کیا گیا ہے -
- "اسکول من " (The Schoolmen) کے باب میں جون دا سکوٹ اور تھامس آکویناس پر بحس شامل کی گئی ہے -
جدید فلسفہ
[ترمیم]- نشاۃ ثانیہ سے ہیوم تک (From the Renaissance to Hume) (بشمول ماکیاولی ، ایراسمس، مور، بیکن، ھوبس ، رینے دیکارت، سپینوزا، لائیبنز، لوکی، برکلے اور ہیوم) کا ذکر ہے -* "روسو سے موجودہ دور تک" ( From Rousseau to the present Day) میں (سمیت روسو، کانٹ، ہیگل، بائرن، نٹشے ، شوپنهاور ، افادیت پسندوں ، مارکس، برگسن ، ولیم جیمز اور جان ڈیوی) کا ذکر ہے -
- آخری باب میں فلسفۂ منتقی کا تجزیہ رسل کی اپنی فکر کا عکاس ہے -
رد عمل اور بعد کے حالات
[ترمیم]مبصرین کے ملے جلے رجحان کے باعث رسل کچھ مایوس رہے -[4] راجر سکرٹن لکھتے ہیں کہ کتاب کو زیبا اور دلچسپ انداز میں لکھا گیا ہے مگرکتاب میں زیادہ توجہ دکارتی فلسفے سے پہلے دور پر دی گئی ہے - کانٹ پر لکھے جانے والے مواد میں تعمیم اور بھول چوک صاف ظاہر ہے - ۔[5]
رسل نے اس کتاب کو بطورسماجی تاریخ گرداننے کا مطالبہ کیا [6]
جائزہ
[ترمیم]"ایک قیمتی کتاب … ایک اعلیٰ تعلیمی کام جو جماعتی تنازعات اور رائے سے مبرا ہے " – البرٹ آئنسٹائن[6]
"اس مشہور کتاب کے حصے سطحی ہیں - مگر دیگر معاملات میں یہ ایک شاندار، پڑھنے کے قابل، مغربی سوچ کا احاطہ کرنے والا متن رکھتی ہے جہاں مغربی سوچ کو تاریخ کے سیاق و سباق میں ایک معلوماتی انداز میں پیش کرتی ہے - اس کے لکھنے میں رسل نے کافی لطف اٹھایا اور یہ لطف اندوزی نظر آتی ہے -رسل کے بعد ازاں رونما ہونے والے ریمارکس سے عیاں ہوتا ہے کے وہ اس کی کمی بیشیوں سے بخوبی واقف تھے-" اے سی گریلنگ [7]
"جناب رسل ایک اعلیٰ پائے کے مصنف اور مفکر ہیں -ان کا انداز برجستگی و ہشیاری ،سادگی و پرکاری سے بھرپور ہے - جس کے باوجود وہ کتاب کو رسل کا بدترین کام ہونے سے نہیں بچا سکا ہے- جیسے متوقع تھا کہ مصنف نے مہارت کے ساتھ حالیہ خیالات سے نمٹا ہے (کوئی وجہ نہیں کے وہ ایسا نہ کر پاتے کیوں کہ ان کی کی تخلیق میں انکا بڑے حصہ ہے )- اس کے برعکس قدیم اور قرون وسطی کے عقائد پر ان کا کام تقریباً بیکار ہے-" – لیو رابرٹس[8]
" 'تاریخِ فلسفہِ مغربی' اس سلسلے میں مسلسل چوک جاتی ہے- ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ مصنف اپنا ذہن بنا پائے ہیں کہ وہ اسے تاریخ کے طور پر لکھنا چاہتے ہیں یا تناظري طور پر -[اس کا طریقہ] فراموش شدہ فلسفیوں کو ایک مصنوعی جدت فراہم کرنے پر مبنی ہے - جس سے ناتجربہ کار ذھن کو ان کی اہمیت کا گمان ہوتا ہے -بہرحال یہ ایک تاریخ کی غلط تعبیر ہے "جارج باوث –[9]
"بے شک، ایک یا دو سال کی مختصر مدت میں کئی کتابیں شائع کی گئیں، جن کے مصنفین کلاسیکی علما نہیں تھے لیکن بنیادی طور پرآج کی سائنس اور فلسفے میں دلچسپی رکھتے تھے - جب کہ انھوں نے اپنی علمی محنت کا بیشتر حصہ، قدیم تصانیف میں ماڈرن سوچ کے اوائل کی تفسیر اور جانچ پڑتال میں صرف کیا - ان میں برٹرینڈ رسل کی شاندار کتاب تاریخِ فلسفہِ مغربی ہے، جس کے امتیازات وخصوصیات موجود ہیں جس کو بیان کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ میں ایسا کر پاؤں گا - " – ارون شروڈنگر [10]
" 'تاریخِ فلسفہِ مغربی' ، ایک بیہودہ، لیکن نمائندہ کتاب ہے۔" – جارج اسٹائنر[11]
"اس نے اسے پیسہ کمانے کے لیے لکھا اور عجلت میں لکھا -برٹرینڈ رسل ایک عظیم فلسفی تھا لیکن ایک بدترین مؤرخ تھا -" – ایڈورڈ پولس
رسل خودکتاب کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے تھے : "میں تاریخِ فلسفہِ مغربی کے ابتدائی حصہ کو تاریخ ثقافت گردانتا ہوں - لیکن بعد کے حصوں میں جہاں سائنس اہم ہو گئی ،وہاں اسے ایسے فریم ورک میں ڈھالنا مشکل ہو گیا - میں نے حد وسعہ کوشش کی پر مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ میں کامیاب ہوا - مجھ پر کچھ دفعہ مبصرین نے غیر حقیقی تاریخ لکھنے بلکہ متعصب واقعات کا بیان قلم بند کرنے کا الزام لگایا جو جن کا انتخاب میں نے اپنی منمانی کرتے ہوئے کیا - لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر در واقع اایک غیر متعصب انسان کا وجود بھی ہوتا تو وہ ایک ا د لچسپ تاریخ نہ لکھ پاتا "[6]
مطبوعات
[ترمیم]- تاریخِ فلسفہِ مغربی (1947)
== دیکھیں ==* فریڈرک کوپلستون کی فلسفہ کی تاریخ
نوٹ
[ترمیم]- ↑ http://www.naxos.com/catalogue/item.asp?item_code=NA0136
- ↑ مکمل عنوان: تاریخِ فلسفۂ مغربی اور اس کے سیاسی اور سماجی حالات سے روابط، ابتدا سے آج تک
- ↑ رسل، بی: "تاریخِ فلسفہِ مغربی"، صفحہ گیارہ - سائمن اور شسٹر، 1972
- ↑ راہب p. 296
- ↑ اآر، سکروٹن : "جدید فلسفے کی مختصر تاریخ "، روٹلیج 2٠٠1
- ^ ا ب پ رسل، بی: " برٹرینڈ رسل کی سوانح عمری " روٹلیج 2٠٠1
- ↑ اے سی گیرلنگ ۔: "رسل: ایک مختصر تعارف "، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ،2٠٠2
- ↑ رابرٹس، ایل : "تاریخِ فلسفہِ مغربی" کا جائزہ، 38(1948): 2٦8-2٧٠
- ↑ باوث، جی : " "تاریخِ فلسفہِ مغربی" کا جائزہ، خیالات کا جرنل ،8(194٧):11٧-123
- ↑ (ارون شروڈنگر 199٦)۔
- ↑ اسٹائنر، جی : "مارٹن ہائیڈیگر" یونیورسٹی آف شکاگو پریس،1991