جوئیہ بلوچ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جوئیہ خاندان کی تاریخ اور مختصر تعارف۔

جوئیہ قدیم اترپردیش کے راجوں کی اولاد میں سے ہیں جو مدل ایج میں ہیاں آباد ہوئے تھے جوئیہ قبیلہ کو مختلف ادوار سے ہی مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا ہے۔ ایودھیا میں ہجرت کرنے پر انھیں وہاں سے یودھا (جوئیہ کا خطاب ملا) بلایا جاتا تھا۔ لفظ جوئیہ سنسکرت زبان کے لفظ جودھا (یودھا) سے نکلا ہے جس کے معنی جنگجو کے ہیں اور اِن کے جدِ امجد کا نام بھی یدھشترا تھا جس کے معنی میدانِ جنگ کا شیر۔

لفظ جوئیہ سنسکرت زبان کے لفظ جودھا (یودھا) سے نکلا ہے جس کے معنی جنگجو کے ہیں اور اِن کے جدِ امجد کا نام بھی یدھشترا تھا جس کے معنی میدانِ جنگ کا شیر۔

******راجدھانی و راجگان ******

جوئیہ کو قدیم دور میں یودھیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا جو ایک قدیم قبائلی سلطنت کے مالک تھے۔ یودھیا حکمران جو دریائے سندھ اور گنگا ندی کے درمیان کے علاقے میں رہتے تھے، ان کا ذکر پانینی کی اشٹادھیائی اور گنپتھ میں ملتا ہے۔ مہابھارت، مہاموری، برہت-سمہتا، پورانوں، چندرویاکرن اور کاشیکا میں ان کے اور بھی حوالہ جات موجود ہیں۔ یہ حوالہ جات قرونِ وسطیٰ کے ابتدائیی دور کی تحریروں اور 500 قبلِ مسیح کے اوائل سے لے کر 1200 عیسوی تک کی تاریخ پر محیط ہیں۔ وہ تقریباً 200 قبلِ مسیح سے 400 عیسوی تک اپنی طاقت کے عروج پر تھے۔

بعد میں انھوں نے جوئیہ کے نام سے حکومت کی۔جوئیہ  قریباً تیسری صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی تک جنگل دیش (جانگلا باڑی)، ہریانہ، بھٹیانہ اور ناگوڑ کے علاقے کے خود مختار حاکم اور نڈر جنگجو رہے۔ جنگل دیش سے پہلے یہ قبیلہ سکندر اعظم کے دور میں یعنی 300 قبل مسیح میں مرکزی پنجاب یعنی ملتان کے گرد و نواح کے علاقوں کا حاکم تھا۔ جنگل دیش میں آج کے کئیی اضلاع مثلاً جیسلمیر، بیکانیر، شری گنگا نگر، بھٹنیر، جودھ پور، جئے پور، مارواڑ، ترن تارن صاحب، جیکب آباد، کشمور، رحیم یار خان، راجن پور، بہاولپور، بہاولنگر، اوکاڑہ، وہاڑی، لودھراں، پاکپتن شریف (اجودھن)، ساہیوال، مظفر گڑھ، ملتان، ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے شامل ہیں۔

جوئیہ باقی قدیم قبائل کی طرح جنگجو فطرت کے مالک اور نڈر ہیں۔ جنھوں نے ہر دور میں جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رکھا۔ جوئیہ  نے اپنی جنگی خصلت اور جبلت کی بدولت دریائے ستلج کے کنارے سکندر اعظم کا راہ روکا اور دنیا کے فاتح کے قدم یہیں روک دیے۔ جوئیہ  نے سکندر اعظم کے وقت کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ بانس کے بنے تیروں اور لوہے کے بالوں سے کیا۔ اس کے بعد یہ ملتان سے جنگل باڑی کی طرف کوچ کر گئے۔ راجا سہن پال خان جوئیہ نے چولستان میں قلعہ مروٹ بنوایا جہاں ان کی اولاد تین پشتوں تک قابض رہی۔ تاریخ بھٹیاں میں درج ہے کہ راجا سہن پال خان جوئیہ والئ قلعہ مروٹ ایک بہادر اور نڈر حکمران تھا جس نے بھٹی راجپوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مذکورہ کتاب میں درج ہے کہ راجا سہن پال خان کا سکہ بھٹنیر اور کرولی تک چلتا تھا اور یہ راجا انصاف پسند بادشاہ تھا۔ راجا سہن پال خان کی شادی انوپ گڑھ کے مہاراجا جام چوہر سمیجہ سمہ جڈیجہ کی چہیتی بیٹی سے ہوئی۔ مروٹ کے قلعہ پہ بعد میں پنوار راجپوتوں نے قبضہ جما لیا۔ کامران اعظم سوہدروی کی کتاب کے مطابق ان کے ایک معروف راجا الک مل خان جوئیہ بھی تھے جو شاید سکندر اعظم کے لشکر کے خلاف لڑے۔ جنگل دیش میں راٹھور راجپوتوں کی آمد سے قبل جوئیہ سب سے زیادہ طاقتور قبیلہ تھا جن کے 700 دیہات باگڑی نگر (بیکانیر) اور 600 دیہات جوئیہ چھاؤنی میں تھے۔ جیت پور، کوہانہ، مہاجن، پیپسر، یدھسر جیسے بڑے بڑے دیہات جوئیہ کے ہی زیرِ تسلط تھے۔ بیکانیر میں راٹھور راجپوتوں کی آمد سے قبل اس علاقے کا سب سے طاقتور راجا، "ٹھاکر شیر خان جوئیہ" تھے، جو ایک بڑے خطے کے مالک تھے جن کا دار الحکومت بھروپال کا علاقہ تھا۔ ٹھاکر شیر خان جوئیہ بہت بہادر و دلیر، نڈر، خود مختار، ضدی جنگجو اور عوام کی نظروں میں مقبول راجا تھے۔

**** جنگ و جدل کا سلسلہ ****

جنگل دیش میں جوئیہ نے کئیی دوسرے راجپوت قبائل مثلاً بھٹی، چالوکیہ، پنوار اور راٹھور وغیرہ کے ساتھ جنگ و جدل کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب محمود غزنوی کے لشکر سومنات کا سونا لوٹ کر جا رہے تھے تو ملتان کے قریب انکا کئیی بار سامنا جوئیہ  سے بھی ہوتا۔ جوئیہ دھرتی کے دشمنوں کو بار بار یاد کراتے کے دھرتی کے بیٹے زندہ ہیں اور کئیی حملہ آوروں اور لٹیرے گروہوں کو جوئیہ نے تگنی کا ناچ نچوایا۔ نویں صدی عیسوی میں اس خاندان کے راجا شیوخان جوئیہ جو ملدوٹ قلعہ کے مالک تھے نے غزنوی حملہ آوروں سے جنگ کی۔

******رہائش پزیر ******

پاکستان میں جوئیہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں مقیم ہیں۔ بھارت میں جوئیہ  راجستھان، ہریانہ، یوپی اور پنجاب میں آباد ہیں۔ جوئیہ اب بھی ستلج کے تمام کناروں کو وٹو/بھٹی کی سرحدوں سے لے کر تقریباً اس حد تک پکڑے ہوئے ہیں جتنا کہ موجودہ پاکستان کے بہاولپور اور ملتان ڈویژنوں کے ذریعے دریائے سندھ سے ہم آہنگ ہے۔ اگرچہ بھٹیوں نے انھیں کہروڑ سے نکال دیا تھا اور بعد میں جب ان کی ملکیت ریاست بہاولپور کا حصہ بن گئی تو وہ اپنی نیم آزادی کھو بیٹھے۔ وہ اب بھی بیکانیر میں اپنی قدیم نشست بھٹنیر کے بالکل نیچے پرانے گھگر کے بستر پر ایک پٹی رکھتے ہیں۔ یہ لاہور، فیروز پور کے کچھ حصوں اور دراجات اور مظفر گڑھ کے نچلے دریائے سندھ پر، تحصیل پپلاں (ضلع میانوالی) میں بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ وہ دریائے جہلم کے کنارے پر چند دیہاتوں پر قابض ہیں اور ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور میں اور تحصیل خوشاب اور ضلع خوشاب کی تحصیل نورپور کے تقریباً چھ گاؤں خاص طور پر حویلی چراق اور عینو کے جوئیاں ضلع خوشاب کے سب سے بڑے زمیندار ہیں۔بہت کم مورخین کا کہنا ہے کہ وہ سالٹ رینج یا جود کے پہاڑوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور اپنی شناخت جوڈیا یا یودھیا بلوچ سے کرتے ہیں۔

***** پیشہ ******

جوئیہ بلوچ قدیم دور سے ہی ریاستوں کے مالک نواب اور راجگان رہے ہیں۔ عصرِ حاضر میں جوئیہ سیاست، تجارت اور زراعت میں اپنا تکھڑا مقام رکھتے ہیں۔

******* مذاہب *******

جوئیہ بلوچوں کی آبادی بلحاظ مذہب اسلام، ہندومت اور سکھ مت میں تقسیم ہے۔ پاکستان میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں جوئیہ زیادہ تر اسلام مذہب کے پیروکار ہیں۔ جوہیہ کے تین سرداران (لونے خان، دونا خان اور چونن خان)  جو اترپردیش کے قدیم بلوچوں کی اولاد تھے انھوں نے 12ویں صدی عیسوی میں معروف صوفی بزرگ بابا فرید شکر گنج کے ہاتھ پہ اسلام قبول کیا جن کا مزار اجودھن موجودہ پاک پتن میں ہے۔ راجستھان اور ہریانہ میں ہندو مت اور اسلام مذہب کے ماننے والے ہیں۔۔ جوئیہ  نے 11 ویں صدی میں اسلام قبول کیا تھا۔ اِن کے ایک راجا راؤر  سنگھ کے بیٹے پھتح سنگھ (فتح سنگھ) نے اسلام قبول کیا تو انکا اسلامی نام قطب الدین خان جوئیہ رکھا گیا انہی کہ نسبت سے ان کی ایک گوت "قطب جوئیہ" کہلاتی ہے۔ رائے قطب الدین خان جوئیہ کا مزار ٹھٹھہ سندھ میں ہے۔ ولی اللہ الیاس سیری کا تعلق بھی جوئیہ خاندان سے تھا۔

***** منسوب علاقے *****

پاکپتن شریف کا پرانا نام جودھن یا اجودھن تھا جو جوئیہ  کے خاندانی نام سے منسوب تھا۔وہاڑی شہر کی بنیاد جوئیہ  کے سردار، راجا فتح خان جوئیہ نے رکھی۔ اسی طرح رائے فرید خان جوئیہ نے فرید کوٹ کو آباد کیا۔ آلہ آباد، بیجا گڑھ، بھٹنیر، دریائے گھاگھرا اور دریائے راوی و سندھ کے علاقوں میں کھدائی کے دوران ملنے والے اوزاروں، برتنوں، سکوں اور دیگر تاریخی اشیا سے معلوم ہوتا کہ جوئیہ  اس علاقے کے بہت طاقتور حکمران تھے جن کا تجارتی، ملکی، معاشی اور معاشرتی نظام خاصہ مضبوط تھا۔ جئے پور راجستھان کے میوزیم میں جوئیہ کے دورِ حکومت کی رکھیں گئیں پختہ اینٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جوئیہ کافنِ تعمیر اور معاشرے کی بناوٹ اور ترقی میں خاصہ کردار رہا اور یہ شواہد جوئیہ  کے شاندار ماضی کا عکاس ہیں۔ ملتان بار، آج تک جوئیہ بار کے نام سے مشہور ہے۔

*****القاب و خطابات ******

قدیم دور کے جوئیہ، یودھا بلوچ اور راجا کا لقب استعمال کرتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں پاکستان کے جوئیہ  راجا، رانا اور رائے کے القاب استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ خان، میاں، سردار، نواب، رئیس اور وڈیرہ وغیرہ کے خطابات بھی استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کے جوئیہ  ٹھاکر، رانا، بنہ، خان، یودھا بلوچ، سنگھ اور سردار کے القاب استعمال کرتے ہیں۔

**** گوتیں یا قبائل ****

کتاب تاریخ جوئیہ قوم کے مطابق جوئیہ جو قدیم بلوچوں کی اولاد تھے ان کی نسل کے ذیلی قبائل میں مندرجہ ذیل شامل ہیں :

ابھريرے، اجيرے، ادميرے، ادلانے، ادوکے، اسمعيل کے، اسحاق کے، الپہ، امدانی، ايبک، یودھا بلوچ کے، جتوئیہ بلوچ کے، جودھا بلوچ کے، خان بلوچ کے، بلوچ جوہیہ کے، بلانے، بدانے، بلوکے، بہادرکے، بيگ کے، برخے کے، بالے کے، بگريرے، باھورانے، بھلوکے، بھکرانی، بھراج کے، بھورے کے، بھڑيرے، بھيکھارانی، بلھياری، بٹٹرے، برے کے، بلوچ خيل، برہان کے، بلیال کے، پانجيرہ، پہلوان کے، پہاڑے کے، پھتورا، پہاڑے خيل، پہنے خيل، تگيرے، ٹھٹھے واليے، ،جتوئی بلوچ کے، جلمیرے، جودھيکا، جلوکے، جسپليرے، جلوانے، جھنڈے کے، جونے کے، جدھيانے، جوگے کے، جوئيہ زئی، جوئيہ خيل، جہميرے، جھنڈے خيل، جين کے، جليرے، جہاں بيرے، جتيرہ، جلويرہ، جماليکے، جلال کے، جندے کے، جاگن کے، چنگے کے، چاؤيکے، چھلڑے، چکوکا، چابہ، چونڈرے، حاجی کے، حسن کے، حامندکے، حمديرے، حسين خيل، خصر کے، خانيکے، خيراکے، خان خيل، دلے کے، دولتانے، دہکو، دلاورکے، دليلے کے، ڈھيڈے، ڈورے خيل، ڈھبکڑے، راضائے خيل، رانا، راو، راجپوت، راٹھکے، رانوکے، رمديرے، رنديرے، رونت، رانے کے، رتھال کے، راضی خيل، راجيکا، زيرک، زمانيکا، سنتيکے، سوائے کے، سلديرے، سليرے، سلميرے، سادہ کے، ساھوکے، سليال کے، سرون کے، سيلم کے، سوڈھے کے، سيسی، سيرانی، سيلم خانی، سيلم رائے، سجن کے، سادھورانی، سخبرانی، سپرانی، سباجی، سابوکے، سمليرے، سلجيرے، سيکر، سمنداکے، ساوند، سوھنے خيل، سيکھوکے، سريرے، سال، ھوکا، ساہکا، ستارکے، سماعيل کے، شنيکی، شادی خيل، شادوکے، شيخوکے، شالبازی، شاميکے، شريف خيل، صادق کے، صابوکے، صوبہ کے، ظريف خيل، عالم کے، عاکوکے، عسکيرے، غازيخنانے، غلام محمد خيل، فريد کے، فتويرے، فتولاں کے، فقير، فيروزکے، فصلوخيل، فتح خيل، قائم کے، قاسم کے، کبے کے، کلاسی، کمرانی، کليرے، کھيواکے، کورائی بلوچ کے، کميرے، کالو، کريانی، کامل کے، کھپريرے، کوڈيکے، گاگن کے، گاڈی واھنے، گوگا، گراج کے، گندڑا، گاموں کے، گنجو، گاھنڑے خيل، گگريڑے، گلابی، گبوری، گھليکا، گاموں کے، لاليکا، لکھويرے، لطفيی، لکھوکے، لوھيے کے، لنگاھے کے، لاھر، لنگرے کے، ليدھرا، لعل خيل، ملکيرے، ممديرے، مدوکے، مگھيرے، مديرے، ممليرے، مموں کے، مومے کے، مسے کے، ماہمے کے، معراج کے، مانڈل، مہروکے، مادھورانی، منگھير، مسوانہ، مليرے، مامورکے، محمد کے، محرم خيل، موسی خيل، ماٹن، مانک ويرے، مغلانے، محکم خيل، محمد خيل، موسی کے، مستقیم کے، نہال کے، نسريرے، نامے کے، نہالکہ، نصيرکے، نورخيل، ہمديرے، ولی کے، واھيہ، وزيرکے، وسلديرکے، وساؤے خيل، واگہہ، وڈجوئيہ، ولياکے، ہراج کے، يکتاری، يونس کے، يوسف کے، يارے خيل، يسين کے، ياراکے۔

حوالہ: تاریخ جوئیہ۔

***** تہذیب و ثقافت *****

جوییہ

کے دورِ حکومت کی رکھیں گئیں پختہ اینٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جوئیہ  کافنِ تعمیر اور معاشرے کی بناوٹ اور ترقی میں خاصہ کردار رہا اور یہ شواہد جوئیہ راجپوتوں کے شاندار ماضی کا عکاس ہیں۔

***** مشہور شخصیات *****

راجا فتح خان جوئیہ :

اکبر کے دور میں فتح پور (موجودہ وہاڑی) شہر اور ریاست کے بانی۔

نواب فرید خان لکھویرہ :

بانی شہر فرید بہاولپور۔

غلام محمد دولتانہ :

المعروف نواب گوگا، ایک معروف زمیندار۔

ملک چراغ خان جوئیہ :

رنجیت سنگھ دور میں عینو خوشاب کے ممتاز جوئیہ سردار۔

جنرل بخت خان :

1857 کیجنگِ آزادی کے ہیرو۔

رانا لقمان مہرو خان جوئیہ :

جنگِ آزادی کے عظیم حریت پسند رہنما۔

نواب غلام قادر دولتانہ : زمیندار۔

میاں اللہ یار دولتانہ :

ایم ایل اے پنجاب (انڈیا)، چیف مسلم لیگ۔

نواب احمد یار خان دولتانہ :

ایم ایل اے پنجاب (انڈیا) چیف پارلیمانی سیکنڈ، یونینسٹ پارٹی۔

نواب حامد خان دولتانہ : زیلدار اور زمیندار۔

نواب عظیم خان دولتانہ : زیلدار اور زمیندار۔

سکندر خان بھڈیرہ :

زمیندار آف دلہ بھڈیرہ، زیلدار، ریاست بہاولپور کے عہدیدار۔

فتح محمد خان بھڈیرہ :

دلہ بھڈیرہ کے زمیندار اور زیلدار۔

ایاز خان بھڈیرہ :

زمیندار آف دلہ بھڈیرہ۔

محمد فیاض خان بھڈیرہ :

فلاحی شخصیت دلہ بھڈیرہ سے۔

میاں ممتاز خان دولتانہ (وہاڑی سے) وزیر اعلیٰ پنجاب، پاکستان۔

نواب محمد بخش لکھویرا :

ایم ایل اے مغربی پاکستان۔

فتح محمد خان لالیکا :

ایم ایل اے مغربی پاکستان (1956–58)۔

میاں فیض احمد جوئیہ :

ایم ایل اے مغربی پاکستان۔

میاں ریاض احمد دولتانہ :

ایم ایل اے پنجاب (انڈیا) اور ایم این اے پنجاب (پاکستان)۔

ملک شاہ محمد جوئیہ :

ملتان سے سابق ایم پی اے۔

میاں محمد امجد جوئیہ :

سابق ایم این اے، ضلع ناظم پاکپتن۔

ملک محمد امیر خان جوئیہ :

زمیندار اور زیلدار۔

محمد یار مومنکا :

ایم پی اے (بہاول نگر)۔

ڈاکٹر جنید ممتاز جوئیہ :

ایم این اے (پاک پتن)۔

مسز تہمینہ دولتانہ :

ایم این اے اور وفاقی وزیر۔

محمد خان بھڈیرہ :

سابق ایم پی اے (بہاولنگر)۔

ملک مہمند خان جوئیہ :

دریاخان بھکر سے معروف شخصیت۔

میاں محمد اشرف جوئیہ :

سابق ایم پی اے (پاکپتن)۔

ملک محمد اجمل جوئیہ :

سابق ایم پی اے کہروڑ پکا۔

ملک غلام شبیر جوئیہ :

سابق ایم پی اے اور چیئرمین ضلع کونسل میانوالی۔

ملک محمد بخش جوئیہ :

سابق وائس چیئرمین ضلع کونسل خوشاب۔

ملک محمد بخش جوئیہ :

زیلدار آف عینو شیر گڑھ خوشاب۔

ستار خان اکوکا :

سابق ایم پی اے (بہاولنگر)۔

ملک سجاد احمد جوئیہ :

تحصیل ناظم کہروڑ پکا۔

ملک محمد فیروز جوئیہ :

سابق تحصیل ناظم پپلاں (میانوالی)۔

ملک خان محمد جوئیہ :

شیر گڑھ چیئرمین زکوٰۃ تحصیل نورپور خوشاب۔

سینیٹر میاں عالم علی لالیکا :

سینیٹر فرام بہاولنگر۔

میاں شوکت علی لالیکا :

سابق ایم پی اے، نائب ضلع ناظم بہاولنگر۔

میاں سکندر علی دولتانہ :

سابق ایم پی اے (وہاڑی)۔

میاں محمد ایوب سلدیرا :

سابق ایم پی اے (وہاڑی)۔

ملک احمد خان جوئیہ :

شیر گڑھ خوشاب سے زمیندار۔

ملک مقصود احمد جوئیہ :

پی پی پی رہنما ضلع کونسل ممبر چک 55 این بی، جوئیانوالہ سرگودھا۔

تنویر احمد جوئیہ :

زمیندار آف قصور۔

ملک غازی اماں اللہ جوئیہ :

ضلع کونسل سرگودھا۔

میاں محمد علی لالیکا :

سیاست دان آف بہاولنگر۔

میاں جاوید ممتاز دولتانہ :

سابق ایم پی اے (وہاڑی)۔

سردار محمد عارف خان جلوانہ، فلاحی شخصیت بہاولپور۔

غلام محمد خان ممنونکہ :

سابق چیئرمین ضلع کونسل بہاولنگر۔

غلام عباس خان لکھویرا شہر فرید چشتیاں۔

میاں امتیاز علی لالیکا :

سابق ایم پی اے بہاول نگر۔

ملک جند وڈیہ جوئیہ :

ممبر ضلع کونسل مظفر گڑھ۔

ملک لال خان جوئیہ :

ممبر ضلع کونسل ملتان۔

ملک محمد قاسم جوئیہ :

سابق تحصیل ناظم کہروڑ پکا۔

ملک محمد رمضان جوئیہ :

ایڈووکیٹ بہاولپور۔

محمد لائق جوئیہ : سرائیکی پارٹی۔

میاں ولی محمد جوئیہ :

لینڈ لارڈ گھوٹکی سندھ۔

وڈیرو خدا بخش جویو :

سٹی ناظم کوٹری سندھ۔

مغل دور میں جوئیہ کے کئیی معروف سرداران گذرے ہیں جن کا ذکر آئین اکبری میں بھی ہے جن میں:

رائے جلال الدین خان اور رائے کمال الدین خان شامل ہیں جو پنجاب کے بہت نامور زمیندار تھے۔

رائے فتح محمد خان جلوانہ اس قبیلہ کے جلوانہ شاخ سے ایک باوقار، بہادر اور مشہور شخصیت تھے۔

اورنگزیب عالمگیر کے دور میں جوئیہ کے سردار، نواب سلیم خان لکھویرا نے حویلی سلیم گڑھ (موجودہ فرید کوٹ) کی بنیاد رکھی۔

ہریانہ سے موتی چند جوئیہ ایم ایل اے رہے ہیں۔

پاکستان میں عبد الستار لالیکا اور میاں ممتاز اس قبیلہ کے نامور سیاسی شخصیات تھیں جو کسی تعریف کے محتاج نہیں۔

پروفیسر غلام رسول اور میاں آفتاب اقبال جوئیہ بھی اس قبیلہ سے معروف ادبی اور تحقیقی شخصیات میں سر فہرست ہیں۔

سیاست میں ملک ظفر جوئیہ کا مقام بھی منفرد اور خاص رہا۔

شاہ آفرین جوئیہ شاہ فرخ سیار کے شاہی درباری شاعر (1713-1719ء)۔

ڈاکٹر محمد ابراہیم جویو :

اس کالر، دانشور اور سندھی کے سب سے مشہور مصنف۔

پروفیسر تاج جویو :

مشہور سندھی قوم پرست مصنف

خاکی جویو :

سندھی کے ممتاز شاعر۔

محمد اختر مومنکا: مشہور فوٹوگرافر۔

سردار محمد خان جوئیہ :

ممتاز فوٹوگرافر۔

یاسین جوئیہ :

میڈیا اینڈ کیبل نیٹ ورک۔

اشفاق جوئیہ نشریات۔

ایم نیاز حسین لکھویرا PSO ٹو وزیرِ ثقافت پنجاب۔

ملک یونس جوئیہ :

خدمت آرگنائزیشن لاہور۔

الفت رسول جوئیہ :

رحمن فاؤنڈیشن لاہور۔

محمد اقبال جوئیہ :

صدر کسان بورڈ ملتان۔

ملک فدا محمد جوئیہ :

سرپرست اعلیٰ جوئیہ حیدری شاہین ٹینٹ

پیگنگ کلب آف پاکستان۔

حویلی چراغ کے رئیس  خوشاب ڈاکٹر شریف جوئیہ ملتان۔

ملک امجد حسین جوئیہ: سیاست دان۔

ملک شاہ محمد جوئیہ : سیاست دان۔

ملک سجاد حسین جوئیہ:

لودھراں سے سیاست دان۔

میانوالی سے محمد فیروز جوئیہ :

ایم پی اے۔

وہاڑی سے میاں عرفان عقیل جوئیہ :

ایم پی اے۔

عالم داد جوئیہ :

ایم این اے۔

یاسین جوئیہ :

سری لنکا کے جنرل کونسلر۔

رانا کیف جوئیہ :

ایتھلیٹ، پول وال کے کھلاڑی۔

ذاکر نبی بخش جوئیہ۔

ذاکر احمد جوئیہ۔

علامہ حیدر جوئیہ : عالم دین۔

علامہ تقی عباس جوئیہ : عالم دین۔

بشیر احمد جوئیہ :

بلند شہر یوپی سے خاکسار تحریک کے غازی اور دھرتی کے حریت پسند رہنما۔

****فن تعمیر اور تاریخی ورثہ****

جوئیہ قبیلہ کے لوگ دریائے ستدرو (ستلج) کے کنارے ان علاقوں میں آباد تھے جو بعد میں آج کے صوبہ پنجاب (پاکستان) میں ریاست بہاولپور کا حصہ بنے۔ہندوستان کی ریاست ہریانہ میں روہتک کے سونی پت قلعے میں ستلج اور یمنا ندیوں کے درمیان کے علاقوں میں بھی یودھی قبیلے کے سکے ملے ہیں۔ ان سکوں پر سنسکرت میں "یودھے گنسیا جے" کے نام سے نشان لگایا گیا ہے۔ یودھی قبیلہ بھی مہابھارت کے دور میں موجود تھا۔ یودھی یا جوئی اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے۔ وہ گپتوں، موریوں اور کشانوں سے لڑے۔ انھوں نے مارواڑ، جودھ پور اور جیسلمیر جیسے قدیم علاقوں پر قبضہ کیا۔ راجستھان رنگ محل ان کا دار الحکومت تھا (بھارت میں گنگا نگر کے قریب تباہ شدہ شہر) رنگ محل کی ثقافت وادی گھگر میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کے پینٹ شدہ سامان ہڑپہ دور سے بالکل مختلف ہیں۔ چولستان کا قدیم ترین قلعہ مروٹ (سروٹ) کو جوئیہ  خاندان کے حکمران، راجا سہن پال خان یودھیا نے تعمیر کروایا تھا۔

**** تاریخی تذکرات ****

میاں عمران دولتانہ جوئیہ کے مطابق :

"یودھی یا یودھیا قدیم ہندوستان کا ایک بہت مشہور بلوچوں کا قبیلہ تھا۔ وہ قدیم دور سے ہی دریائے سندھ اور دریائے گنگا کے درمیان کے علاقے میں رہتے تھے۔ ان کا ذکر پانینی کی اشٹادھیائی اور گنپتھ میں ملتا ہے۔یایاتی کا چوتھا بیٹا انو تھا، انو کا آٹھواں بیٹا مہاراجا مہامنا تھا، اُشنار مہامنا کا بیٹا تھا اور پنجاب کے بیشتر علاقوں کا حکمران تھا۔عناوی بادشاہ Usinara، پنجاب میں اپنی آمد کے بعد، غالباً ملتان میں اپنے آپ کو قائم کیا۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عثنارا کی موت کے بعد اس کی اناوی سلطنت اس کے پانچ بیٹوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان کے جدید نمائندے جویا کے پنجابی قبیلے، اب بھی صوبے کے اس حصے میں رہتے ہیں۔ وہ مقدونیہ کے حملہ آور سکندر اعظم کے زمانے کے یونانی مصنفین سے واقف تھے۔ اوشینار کا بیٹا نرگ تھا اور نرگ کا بیٹا بلوچ یودھی تھا۔ یودھیا قبیلہ اسی سے نکلا ہے۔

ان کی بہادری کی بنا پہ ویاکرن کی سنسکرت میں لکھی گئی کتاب اشادھیائی میں انھیں بہت خوددار، خود مختار اور بڑے جنگجو مانا گیا۔

الیگزینڈر کنگہم نے اپنی کتاب سروے آف انڈیا میں جوئیہ بلوچوں کی بہادری کی تعریف کی۔ جنرل کنگہم مزید کہتے ہیں کہ 450 قبل مسیح میں جودیا بلوچوں کی سلطنت ہندوستان کے سب سے طاقتور سلطنت تھی۔اطالوی محقق ڈاکٹر تسطوری نے اپنی کتاب اینشیئنٹ انڈیا میں جوئیہ بلوچوں کو برصغیر کے طاقتور جنگجو مانا ہے اور بیکانیر کے دورہ کے دوران انھوں نے سروے رپورٹ میں جوئیہ  بلوچوں کا ذکر اچھے انداز میں کیا۔ بدھ پرکاش نے اپنی تحقیق سے کہا کہ سکندر اعظم کے سامنے ثابت قدم رہنے والے جوئیہ بلوچ بہت نڈر جنگجو رہے ہیں۔

جنرل جیمز ٹاڈ نے اپنی کتاب تاریخ راجستھان میں جوئیہ بلوچوں کو راجستھان کا قدیم حکمران قبیلہ مانا ہے۔

پنڈت گوری شنکر بھی ان کی بہادری سے خوب متاثر تھے۔ پنڈت گوری شنکر اپنی کتاب راجاؤں کا اتہاس میں لکھتے ہیں :

"ہندوستان میں آریہ خون سب سے زیادہ یودھا بلوچوں میں ہی نظر آتا ہے۔ جوئیہ جنگجو فطرت کے مالک لڑاکے لوگ ہیں جنھوں نے ہندوستان پہ آنے والے ہر حملہ آور کا مقابلہ کیا۔جب کوئی بیرونی حملہ آور نہ آتا تو ان یودھا بلوچوں کے 36 شاہی خاندان (راجکل) آپس میں ہی پنجا آزمائی کرتے رہتے۔"

سر ڈینزل ابسٹن کے مطابق:

"پنجاب کے یودھا بلوچ(جوہیہ) عمدہ اور جری لوگ ہیں اور شاید باقی ذاتوں کے نسبت پنجاب میں زیادہ اثرو و رسوخ والے زمیندار اور جاگیردار ہیں۔ خون پہ فخر کرنا اور اپنے برابر حیثیت کے کسی کو نہ ٹھہرانا اور ماننا تو ان کا بنیادی عنصر ہے۔ پنجاب کے  بلوچ جوئیے اب کھیتی باڑی سے کتراتے نہیں۔ "

جنرل تھامس کک کے مطابق:

"جوئیہ نے مرہٹوں کے خلاف بھی بغاوتیں کیں۔"

سر لیپل گریفن کے مطابق:

"پنجاب کے رؤسا میں سب سے زیادہ جوئیہ قبائل ہی موجود ہیں۔"

کیپٹن ایلفیسٹون انھیں یوں بیان کرتے ہیں:

"جوئیہ بلوچ ستلج کے سب سے بڑے جنگجو اور زمیندار رہے ہیں جو اپنی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور خاصے جھگڑالو بھی ہیں۔" کتاب داستان دولتانہ میں مصنف وکیل انجم نے اس قبیلہ کے بارے میں خاصی معلومات فراہم کی۔ کتاب ساندل بار میں احمد غزالی نے جوئیہ بلوچ قبیلہ کے بارے میں اچھے الفاظ لکھے۔ گزیٹر سرسہ، گزیٹر بہاولپور اور تاریخ ضلع وہاڑی میں جوئیہ بلوچوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ کتاب ویدک اور آریائی ہند کا زمانہ میں اس قبیلہ کے بارے میں جنگی اور حاکمیت کی بہت زیادہ تاریخ درج ہے۔جوئیہ قوم پاکستان کی مشہورقوم ہے اور دیگر برصغیر کے ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس قوم کے افراد زمیندار، محنتی، جفاکش اور خود داری کے حوالے سے معروف ہیں۔ یہ پنجاب اور سندھ میں اکثریت سے ہیں۔جوئیہ راجپوت : جوئیہ خاندان قبیلہ کے معروف سردار لونے خان اور اس کے دو بھائی بر اور وسیل اپنے ہزاروں اہل قبیلہ کے ساتھ 635ھ کے قریب بابا فرید کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بابا فرید نے لونے خان کو دعا دی، تو 12 فرزند ہوئے اس کا بڑا بیٹا لکھو خاں سردار بنا، بیکانیر میں رنگ محل کا قلعہ بنوایا بیکانیر میں قصبہ لکھویرا بھی اسی کے نام سے منسوب ہے۔ اس کی اولاد کو لکھویرا کہا جاتا ہے جو ضلع بہاولنگر اور پاکپتن میں آباد ہیں۔ بعض جوئیے اپنے قبیلے کو عربی النسل کہتے ہیں مگر اصل میں جوئیہ قوم ہند کی ایک قدیم قوم ہے۔ ٹاڈ کے مطابق جوئیہ قوم سری کرشن جی کی اولاد ہے یہ قوم پہلے بھٹنیر، ناگور اور ہریانہ کے علاقہ میں حکمران تھی اب بھی بھی یہ قوم راجپوتانہ میں اور اس کے ملحقہ علاقے میں کافی تعداد میں آباد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ قبیلہ بیکانیر سے ہجرت کر کے زیادہ تر ریاست بہاولپور اور ضلع ساہیوال، عارف والا، پاکپتن میں آباد ہو گیا۔ ساتویں صدی ہجری میں جوئیوں کی بھٹی راجپوتوں سے بے شمار لڑائیاں ہوئیں، دسویں صدی ہجری میں راجپوتانہ کے جاٹ اور گدارے جوئیوں کے خلاف متحد ہو گئے ان لڑائیوں سے تنگ آکر دریائے گھاگرہ کے خشک ہونے کی بنا پر جوئیہ سردار نے دسویں صدی ہجری میں اپنے آبائی شہر رنگ محل کو خیر باد کہا اور دریائے ستلج کے گردونوںاح ایک نیا شہر سلیم گڑھ آباد کیا زبانی روایات کے مطابق سلیم گڑھ کا ابتدائیی نام شہر فرید تھا۔ بعد میں نواب صادق محمد خان اول نے لکھویروں کے محاصل ادا نہ کرنے کی وجہ سے نواب فرید خان دوم اور ان کے بھائی معروف خان اور علی خان کے ساتھ جنگ کی۔ جس کی بنا پر جنوب میں بیکانیر کی سرحد تک اور شمال میں پاکپتن کی جاگیر تک نواب صادق محمد خان کا قبضہ ہو گیا اور لکھویرا کی ریاست بہاولپور کی ریاست میں مدغم ہو گی۔ تاہم بعد ازیں شاہان عباسی نے لکھویروں کی ذاتی جاگیریں بحال کر دیں اور انھیں درباری اعزازات بھی دیے۔ جنرل بخت خان جنگ (آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سپہ سالار) بھی جوئیہ تھا یہ کوروپانڈوؤں کی نسل سے خیال کیے جاتے ہیں۔ راجپوتوں کے 36 شاہی خاندانوں میں شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق راجا پورس جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا، جوئیہ راجپوت تھا۔ ملتان بار اور جنگل کے بادشاہ مشہور تھے۔ چونکہ سرسبز گھاس والے میدان کو جوہ کہا جاتا ہے۔ اسی جوہ کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ جوھیہ اور جوئیہ مشہور ہوئے جو بابا فرید کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔لونا کے والد کا نام گراج تھا۔ اور دادا کا نام جیسنگ تھا۔ جیسنگ کے دو بیٹے تھے۔ ایک بیٹا ہراج اور دوسرا گراج۔ ہراج کے بیٹے کا نام چونڈرا یا چونڑا تھا۔ ہراج نے گراج کو ایک قطعہ زمین کی خاطر قلعہ کھربارہ میں قتل کیا۔ بعد ازاں اسی دشمنی کی وجہ سے چونڈرا نے لونا کو قتل کیا۔ اسی طرح جوئیہ فیملی کی ایک گوت ہراج اور چونڈرا بھی ہے۔

قبول اسلام،[ترمیم]

اس سوال کا عام طور پر  جواب يہ ديا جاتا ہے کہ اس قوم کو بابا فريد الدين گنج کے ہاتھوں اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ پوری جوئيہ قوم کے حوالے سے يہ بات نامکمل بھی ہے اور تحقيق طلب بھی۔ دراصل جوئيہ قوم کا شمار ہندوستان کی ان قوموں ميں ہوتا ہے جس کے کچھ ( اکثر ) افراد مسلمانوں کے فاتحين کے سلسلہ آمد سے قبل مسلمان ہوئے۔ دوسری اہم بات يہ ہے کہ اس قوم کو کسی ايک بزرگ نے مسلمان نہیں کيا مختلف ادوار ميں مختلف بزرگوں کے ہاتھوں يہ مشرف بااسلام ہوئی۔

لالہ رام رکھا مل ملہو ترا راجپوتوں کے خصائل کے بارے میں لکھتا ہے۔

'راجپوت بڑ ے بہادر' جنگجو' غيرت مند اور وعدے کے پکے تھے انہيں اپنی عزت کا بڑا پاس تھا اور بے عزتی پر

موت کو ترجيح ديتے تھے آزادی اور خودداری کے دلدادہ تھے۔ عورتیں دير اور پاکدامن ہوتی ھيں جب دشمن سے بچاؤ کی صورت نہ ديکھيں تو ''رسم جوھر''ادا کرتيں يعنی زندہ جل کر مر جاتيں. مردوں کی بہادری کا يہ عالم تھا  کہ نہتے اور سوئے ياگرے ہوئے يا گرے ہوئے دشمن پر حملہ نہ کرتے تھے ''۔

ايک روايت يہ بھی ہے ( واللہ اعلم بالصواب ) کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم ہر نماز میں مشرق کی جانب رخ مبارک فرما کر دعا فرمايا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمايا ''مشرق ميں ايک ايسی قوم آباد ھے جس ميں اسلام کی تمام خوبياں موجود ھيں يعنی وہ وعدے کے پکے ' پاکدامن 'بہادر اور ھٹ کے پکے ھيں. صرف کلمہ پڑھنے کی پڑھنے کی کسر ھے ''۔ يہ راجپوت قوم ہی کے بارے ميں فرمايا گيا۔

سرزمین عرب میں طلوع اسلام کے وقت ہندوستان کے وسيع علاقوں خصوصاً پنجاب میں جوئيہ قوم کا وجود ملتا ہے۔

مورخين کے مطابق يہ قوم قدیم ايام سے يہاں مسکن پزير تھی۔

جوئيہ گوتيں[ترمیم]

ابھريرے-اجيرے -ادميرے -ادلانے -ادوکے -اسمعيل کے-اسحاق کے- الپہ-امدانی-ايبک-اٹھوال-بلانے-بدانے-بلوانہ-بلوکے-بہادرکے -بيگ کے -برخے کے -بالے کے -بگريرے - بھٹنيرے - باھورانے -بھاٹے کے -بھلوکے -بھکرانی -بھراج کے -بھورے کے -بھڑيرے -بھيکھارانی -بلھياری -بٹٹرے -برے -بلوچ خيل -برہان کے - بلیال کے -پانجيرہ -پہلوان کے -پہاڑے کے -پھتورا -پہاڑے خيل -پہنے خيل -تگيرے _ٹھٹھے واليے -جمليرے -جودھيکا -جلوکے -جسپليرے -جلوانے -جھنڈے کے -جونے کے -جدھيانے -جوگے کے -جوئيہ -جوئیو_جوعا-جنوعا -جوئيہ زئی-جوئيہ خيل -جہميرے -جھنڈے خيل -جين کے -جليرے -جہاں بيرے -جتيرہ -جلويرہ -جماليکے -جلال کے -جندے کے _جاگن کے _چنگے کے _چاؤيکے _چھلڑے _چکوکا _چابہ _چونڈرے_حاجی کے _حسن کے _حامندکے _حمديرے _حسين خيل _خصر کے _خانيکے _خيراکے _خان خيل _دلے کے _دولتانے _دہکو_دلاورکے_دليلے کے_ڈھيڈے_ڈورے خيل _ڈھبکڑے _راضائے خيل _راٹھ_رانوکے_رمديرے_رنديرے_رونت_رانے کے_رتھ_رتھال کے _راضی خيل _راجيکا_زيرک_زمانيکا_سنتيکے_سوائے کے_سلديرے_سليرے_سلميرے_سادہ کے _ساھوکے _سليال کے _سرون کے _سيلم کے _سوڈھے کے_سيسی_سيرانی_سيلم خانی _سيلم رائے _سجن کے _سادھورانی_سخبرانی_سپرانی_

سباجی_سابوکے_سمليرے_سلجيرے_

سيکر_سمنداکے_ساوند_سوھنے خيل _سيکھوکے_سريرے_سال ھوکا_ساہکا_ستارکے_سماعيل کے _شنيکی _شادی خيل _شادوکے_شيخوکے_شالبازی_شاميکے_شريف خيل _صادق کے _صابوکے_صوبہ کے_ظريف خيل _عالم کے _عاکوکے _عسکيرے_غازيخنانے_غلام محمد خيل _فريد کے _فتويرے _فتولاں کے _فقير_فيروزکے_فصلوخيل_فتح خيل _قائم کے _قاسم کے _کبے کے _کلاسی _کمرانی _کليرے _کھيواکے _کميرے _کالو _کريانی _کامل کے _کھپريرے _کوڈيکے _گاگن کے _گاڈی واھنے _گوگا_گراج کے _گندڑا_گاموں کے _گنجو _گاھنڑے خيل _گگريڑے _گلابی_گبوری_گھليکا_گاموں کے _لاليکا_لکھويرے_لطفيی_لکھوکا_لوھيے کا_لنگاھے کے_لاھر_لنگرے کے_ليدھرا_

لعل خيل _ملکيرے _ممديرے _مدوکے_مگھيرے_مديرے_ممليرے_

مموں کے _مومے کے _مسے کے _ماہمے کے _معراج کے _مانڈل _مہروکے _مادھورانی _منگھير_مسوانہ_مليرے_مامورکے_

محمد کے _محرم خيل _موسی خيل _ماٹن_مانک ويرے _مغلانے _محکم خيل _محمد خيل _موسی کے _مستقیم کے_نہال کے _نسريرے _نامے کے _نہالکہ _نصيرکے _نورخيل _ہمديرے _ولی کے _واھيہ راجپوت _وزيرکے _وسلديرکے _وساؤے خيل _واگہہ_وڈجوئيہ_ولياکے_ہراج کے_يکتاری_

يونس کے _يوسف کے _يارے خيل _يسين کے _ياراکے۔ حوالہ تاریخ جوئیہ

حوالہ جات[ترمیم]

حوالہ کتاب قوم جوئيہ  ( مصنف ڈاکٹر آفتاب جوئيہ ) تحریر سعداللہ جوئيہ