سید ابراہیم دانشمند

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید ابراہیم دانشمند
معلومات شخصیت
پیدائش 16ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام وفات سنار گاؤں   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید ابراہیم دانشمند ( (بنگالی: সৈয়দ ইব্রাহীম দানিশমন্দ)‏ ) سولہویں صدی کے ایک زمیندار اور اسلامی اسکالر تھے جو صوفی قادریہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی زندگی کے دوران میں ہی ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا، دانشمند کو متعدد اسلامی اور سیکولر مضامین کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قادریہ سلسے کے پہلے افراد میں شامل ہیں جو بنگال میں متحرک تھے اور وہیں انھوں نے تبلیغ کی۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

سید خاندان میں پیدا ہونے والے، ابراہیم دانشمند کیے خاندارن کے بارے میں مختلف آراء ہیں، ایک روایت کے مطابق بیان کیا گیا ہے کہ وہ فارس کے رہنے والے تھے، جو 16 ویں صدی میں بنگال ہجرت کر گیا تھا۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ان بہت سے سید لوگوں میں شامل ہوں جنہیں سلطان بنگال، علاؤالدین حسین شاہ نے وسطی ایشیاء اور فارس سے اپنی سلطنت کے انتظام میں مدد کے لیے مدعو کیا تھا۔

متبادل کے طور پر، مورخ اچیوت چرن چودھری کے مطابق وہ صوفی جنرل سید ناصرالدین کا ایک پوتے تھے اور جو 13ویں صدی سے بنگال میں موجود تھا۔

زندگی[ترمیم]

ایک مشہور مصنف، سید ابراہیم کواسلام کے بہت سے شعبوں میں علم سکھایا گیا تھا، جبکہ ان کی خصوصی توجہ اسلامی عرفان یا تصوف پر مرکوز تھی۔ ان کے علم کی وجہ سے انھیں دانشمند (عقلمند) کا خطاب دیا گیا اور اہ اب اسی نام سے مشہور ہیں۔ دانشمند کی رہنمائی کے تحت ہندو راجپوت کے رئیس کالیداس گزدانی نے اسلام قبول کیا۔ گزدانی نے اپنا نام سلیمان خان رکھا اور بعد میں ان کے ہاں مشہور عیسیٰ خان پیدا ہوئے، جو مغل سلطنت کے خلاف بغاوت میں بارو-بھویان کی قیادت کرتے تھے۔

سید ابراہیم فارسی اور عربی زبانوں کے بھی مشہور عالم تھے۔ اسی وجہ سے اس وقت کے دہلی کے شہنشاہ نے انھیں ملک العلماء ( علما کا شہزادہ) کا لقب عطا کیا، اس کے علاوہ انھیں قطب الاشکین کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ دانشمند کو سلطان بنگال کی طرف سے سنارگاؤں میں ٹیکس فری زمین دی گئی تو وہ اپنے پرانے مقام سلہٹ سے یہاں نقل مکانی کر گئے۔ یہاں انھوں نے ایک خانقاہ یا صوفی ملاقات خانہ قائم کیا جہاں سے انھوں نے اسلام کے ساتھ ساتھ قادریہ صوفی سلسلے کی بھی تبلیغ کی۔ یہ سلسلہ ان کی اولاد کے ساتھ ساتھ روحانی جانشینوں نے بھی جاری رکھا۔

انھیں سونارگاؤں میں 15 ویں صدی کی فتح شاہ مسجد کے ایک مقبرہ کمپلیکس دفن کیا گیا، جس میں وہ کنبہ کے کئی افراد اور دیگر اسلامی شخصیات کے ساتھ مدفون ہیں۔ یہ ایک مقدس مقام سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر عقیدت مند زیارت کے لیے بھی آتے ہیں۔

کنبہ[ترمیم]

بہت سارے ذرائع بتاتے ہیں کہ سید ابراہیم کی شادی سلطان بنگال کی سب سے بڑی بیٹی سے ہوئی تھی، جس کا نام روشان اختر بانو تھا۔ تاہم اس سلطان کی صحیح شناخت کے بارے میں کچھ اختلاف رائے موجود ہے۔ آراء میں آخری الیاس شاہی حکمران جلال الدین فتح شاہ نیز علاؤالدین حسین شاہ یا اس کے بیٹے غیاث الدین محمود شاہ، دونوں حسین شاہی خاندان شامل ہیں۔ [1] اس شادی سے سید ابراہیم کے چار بیٹے تھے: موسیٰ، عیسیٰ، یوسف اور اسحاق۔ [2] ان کی ایک بیٹی (یا پوتی) بھی تھی جس کا نام فاطمہ بی بی تھا، جو بعد میں عیسیٰ خان کی اہلیہ اور ان کے بیٹے موسیٰ خان کی امکانی ماں بنیں۔ [3][4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Curley, Das (1999)
  2. Choudhury (1917)
  3. Taifoor (1965)
  4. Pakistan Historical Society, Journal of the Pakistan Historical Society, Volume 2 (1954)، p. 129