شاکر کنڈان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شاکر کنڈان
پیدائش20 جون 1951ء
کنڈان کلاں ، ضلع سرگودھا ، پنجاب ، پاکستان
پیشہشاعر ، نقاد ، محقق ، آرمی افسر
زباناردو
قومیتپاکستان کا پرچمپاکستانی
نسلپنجابی
تعلیمپی ایچ ڈی اردو
اصنافشاعری ، تنقید ، تحقیق
نمایاں کامبیرک نامہ ، اُردو ادب اور عساکر ِ پاکستان ، وجدان کی دوسری آنکھ ، نعت گویان سرگودھا ، آشوب زیست ، جلتے صحراؤں میں(ماہیے)جادۂ شوق و محبت ، رفاقتوں کی فصیلیں ، ہتھیلی پہ سورج ، نعت گویان سرگودھا

ولادت[ترمیم]

شاکر کنڈان مورخہ 20 جون 1951ء کو موضع کنڈان کلاں تحصیل شاہ پور ضلع سرگودھا کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے- شاکر کنڈان کے والد گرامی حاجی محمد حسین ہیں-

نام[ترمیم]

والدین نے نام عطا رسول رکھا اور یہ حضرت شاکر تخلص کا انتخاب کر کے دریائے جہلم کے کنارے آباد بستی کنڈان کلاں کی محبت دل میں بسائے ادب کے میدان میں شاکر کنڈان کے نام سے مشہور ہوئے۔

تصنیفات[ترمیم]

  • بیرک نامہ
  • اُردو ادب اور عساکر ِ پاکستان
  • وجدان کی دوسری آنکھ
  • نعت گویان ِ سرگودھا
  • آشوب ِ زیست
  • جلتے صحراؤں میں(ماہیے)
  • جادۂ شوق و محبت
  • رفاقتوں کی فصیلیں
  • ہتھیلی پہ سورج۔[1]

شاعری[ترمیم]

شاکر کنڈان ادب کے میدان میں ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے ابھرے ہیں- ان کی شاعری میں ایک انوکھا پن ہے- افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں- شاکر کی شاعری میں نیا رنگ ملتا ہے- ان کی شاعری کا ایک پہلو انھیں اپنے دوسرے تمام ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتا ہے وہ ہے ان کا نئی نسل کی مغربیت پسندی پر تنقید

  • اب نئی رسم نئی رِیت چلی محفل میں
  • ساقی و جام و سبو سارے پرانے بدلے
  • شاکر دبے دبے لفظوں میں اپنے جذبات و احساس کا اظہار نہیں کرتے بلکہ کھل کر کہتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ کرتے ہیں- نسلِ نو کی بے راہروی پر جل اٹھتے ہیں۔....... کڑھتے ہیں اور پھر اس جلن کو لفظوں کا روپ دے کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں-
  • بے حجابی میں یہ فیشن کی تگ و دو ہیہات
  • دخترِ قوم کی عادات پہ رونا آیا
  • انسانی قدروں کی پامالی کے خلاف لکھتے ہیں اور دھڑلے سے لکھتے ہیں۔....
  • شاکر کے کلام میں رچاؤ اور سادہ پن ہے- بڑی سے بڑی بات کو ایک مصرع میں بند کر دینے کا ڈھنگ جانتے ہیں- دیکھیے سادہ لفظوں میں بہت بڑی بات کہہ گئے ہیں-
  • زردار لے گئے ہیں محبت بھی دوستو
  • مفلس کو پیار میں فقط رسوائیاں ملیں
  • شاکر ہنس مکھ اور یاروں کے یار ہیں-احباب کو حاصلِ زیست سمجھتے ہیں- قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں-مسکراہٹوں کے پھول ہر وقت احباب پر نچھاور کرتے ہیں- ان کی شاعری سادہ ہے اور خود بھی سادہ وضع کے انسان ہیں- حجازِ مقدس میں اڑھائی برس گزار کر آئے ہیں-فریضہء حج ادا کر چکے ہیں اور اسی زمانے کا ان کا ایک شعر ہے-
  • یہ حقیقت ہے یا واہمہ ہے میرا
  • مجھ سا عاصی قریبِ حرم دوستو
  • ان کا ایک خوب صورت سا شعر ہے جس میں ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-
  • قوم کے راہنماؤں کو الجھتے پا کر
  • قوم کی قسمت و حالات پہ رونا آیا
  • شاکر شاعری مشاہدے کی کرتے ہیں- نسلِ نو کی مغربیت پسندی پر ان کا شعر دیکھیے:
  • مغربیت کے سمندر میں ہوا گم مشرق
  • مجھ کو مغرب کی عنایات پہ رونا آیا
  • آج کے پُر آشوب دور میں اپنے دور کی بے حسی اور لکیر کے فقیر معاشرے کے بارے لکھتے ہیں:
  • تہذیب کے لاشے پہ کھڑا کب سے نجانے
  • فرسودہ رواجوں کا بدل سوچ رہا ہوں
  • ہر شب کی تیرگی کا ہے انجام جب سحر
  • پھر کیسے ترک کر دوں حسیں خواب دیکھنا
  • آئیں گے نہ میداں میں کبھی زاہد و عابد
  • دشمن کی نفی ہم سے گنہگار کریں

حوالہ جات[ترمیم]