سرگودھا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سرگودھا
 

انتظامی تقسیم
ملک پاکستان
بھارت[1]  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[2]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ تحصیل سرگودھا  ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 32°05′01″N 72°40′16″E / 32.083611111111°N 72.671111111111°E / 32.083611111111; 72.671111111111  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقبہ
آبادی
کل آبادی
مزید معلومات
رمزِ ڈاک
40100  ویکی ڈیٹا پر (P281) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فون کوڈ 048  ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
جیو رمز 1166000  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

سرگودھا (انگریزی: Sargodha) پاکستان کا گیارھواں بڑا شہر ہے۔ پاکستان کے منصوبہ کے تحت آباد یا تیار ہونے والے تین شہروں (باقی دو اسلام آباد اور فیصل آباد) میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ہندو سادھو کے نام پر ہے جو گول کھوہ (کنواں) پر رہتا تھا۔ جہاں دوسرے مسافر بھی آرام کرتے تھے۔ آج وہاں پر ایک خوبصورت سفید مسجد ہے جس کا نام گول مسجد ہے اور اس کے نیچے گول مارکیٹ ہے۔ انگریز راج میں یہ ایک چھوٹا قصبہ تھا لیکن اس کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ایک فوجی ایٔرپورٹ بنایا گیا۔ جو آزادی کے بعد پاکستانی فضائیہ کے لیے مزید اہمیت اختیار کر گیا۔ سرگودھا پہلے شاہپور کی ایک تحصیل تھی لیکن اب شاہپور سرگودھا کی تحصیل ہے۔ سرگودھا میں پنجابی کا شاہپوری لہجہ بولا جاتا ہے۔

تاریخ[ترمیم]

سرگودھا شہر کی بنیاد ایک انگریز خاتون لیڈی ٹروپر نے 1903 میں رکھی سرگودھا شہر پاکستان کا پہلا شہر ہے جس کو ماسٹر پلان کے تحت آباد کیا گیا اس کے بعد فیصل آباد اور اسلام آباد دو شہر مزید ماسٹر پلان کے تحت آباد ہوئے : 1860 کی بات ہے جہاں آج کل گول مسجد ہے وہاں ایک تالاب ہوتا تھا اور تالاب کو فارسی زبان میں سر کہتے ہیں۔ اس گول تالاب کا مالک ایک ہندو سادھو تھا جس کا نام گودھا تھا اس وجہ سے اس نوآباد شہر کا نام سرگودھا رکھا گیا۔پاکستان بننے کے بعد بھی اس جگہ کو گول کھوہ کہا جاتا رہا . اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش_نظر بہت جلد آبادی بڑھتی گئی۔ اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریز حکومت نے یہاں پر ایک عسکری سطح کا ایئر پورٹ بنایا ایک فوجی چھاؤنی تعمیر کی 1949 میں اس کو تحصیل کا درجہ دیا گیا جو ترقی کرتے کرتے بعد میں ضلع اور پھر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنا تقسیم پاکستان کے وقت قانون ساز اسمبلی کی ایک نشست تھی جو مسلم لیگ کے امیدوار نواب سر محمد حیات قریشی نے جیتی تقسیم کے وقت یہ علاقہ مسلم لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا 1946 کے انتخابات میں بابائے قوم نے 2 دفعہ سرگودھا کا دورہ کیا :

اہل_سرگودھا کی آمدنی کا زیادہ انحصار زرعی پیداوار پر ہے کنو . سنگترہ مسمی فروٹر بلڈ مالٹا ریڈ بلڈ مالٹا اور گریپ فروٹ کی پیداوار میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے چاول کی پیداوار میں 11واں جبکہ گنے کی پیداوار میں دنیا میں آٹھویں نمبر پر نے.دیگر زرعی اجناس میں گندم چنا جو باجرہ مکئی سبزیاں  امرود جامن آم بھی بکثرت اگائے جاتے ہیں مچھلی فارم گائے بکریوں اور بھینسوں کے فارم کے علاوہ کبوتر اور موروں کی افزائش نسل کے لیے الگ فارم ہیں دو انڈسٹریل ایریا ہیں سلانوالی میں لکڑی کا بہت عمدہ کام ہوتا ہے جس کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اپنی زرعی پیداوار کی وجہ سے سرگودھا کو کیلی فورنیا آف پاکستان کہا جاتا نے میڈیا کی دنیا میں سرگودھا سے 9 مقامی اخبار 3 قومی اخبار 2 ریڈیو چینل 93 اور ایف ایم 96 تین ٹی وی چینل انڈس نیوز دھوم ٹی وی اور رائل نیوز 5 ماہنامہ رسالے  مزید 10 پرائیویٹ ریڈیو چینل  بھی کام کرتے ہیں تعلیمی میدان میں ایک یونیورسٹی 1 میڈیکل کالج 1 لا کالج 1 ٹیوٹا کالج ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور عمومی تعلیم کے لیے 16 کالج 5 کامرس کالج  ایک پی ایف کالج 31 سے زائد پبلک کالج دار ارقم اسکول اینڈ کالج کا ہیڈ کوارٹر ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 30 فیصد جبکہ سرگودھا کا لٹریسی ریٹ 80 فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے صحت کے میدان میں بھی اللہ کے فضل سے کسی سے پیچھے نہیں ہیں سینکڑوں سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتال 2 ٹراما سنٹر شوکت خانم اور آغا خان کے کولیکشن سنٹر بھی کام کر رہے ہیں۔

شہر کی بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ بازاروں میں ہر چیز کے بازار الگ الگ ہیں مثلا کپڑے کتابیں جوتے برتن زیورات رنگ روغن لکڑی سبزی فروٹ اور لوہے کے سامان کی مارکیٹیں الگ الگ ہیں۔ دینی تعلیم کے لیے بے شمار مدارس موجود ہیں پاک فوج کی ایک چھاؤنی ایک ٹریننگ سنٹر ایک ریماؤنٹ ڈپو پی ایف کا عالمی شہرت یافتہ مصحف میر بیس کرکٹ کا ایک انٹر نیشنل اسٹیڈیم بھی موجود ہے اہل_سرگودھا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1965 کی جنگ میں دشمن کی فضائیہ کے حملوں میں افواج پاکستان کا ساتھ دینے پر نشان استقلال اور صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا پاکستان میں یہ اعزاز سرگودھا سیالکوٹ اور لاہور کے علاوہ کسی شہر کو حاصل نہیں . 1965 کی پاک بھارت جنگ میں شاندار کردار اور پاک فوج سے محبت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ چوکوں کے اکثر نام عسکری ہیں جیسے شاہین چوک غوری چوک بم چوک ٹینک چوک اور توپ چوک وغیرہ. راشد منہاس نشان حیدر کا آبائی وطن بھی سرگودھا ہے کرنل غلام حسین  نشان جرات جو 65 کی جنگ میں نماز پڑھتے ہوئے شہید ہوئے تھے اس کے علاوہ 65 کی جنگ کے ہیرو سرفراز رفیقی ایم ایم عالم کا تعلق بھی سرگودھا سے تھا دنیا کا خوفناک جرنیل جس کی قابلیت کو پوری دنیا کے عسکری ماہرین تسلیم کرتے ہیں یعنی جنرل حمید گل کا تعلق بھی سرگودھا سے ہے 65 کی جنگ میں دنیا کا حیرت انگیز معرکہ جس میں پاکستان کے ایک ہوا باز نے صرف 34 سیکنڈ میں انڈیا کے 5 جہازوں کو ٹکڑوں اور شعلوں میں تبدیل کیا وہ تاریخی معرکہ بھی سرگودھا کی سرزمین پر لڑا گیا روس افغان وار کے اہم کردار جنرل غلام محمد کنڈان کا تعلق بھی سرگودھا سے ضلع سرگودھا میں 7 تحصیلیں 59 ٹاؤن کمیٹی 161 یونین کونسلیں ہیں۔ ضلع سرگودھا کی آبادی 1998 کی مردم شماری کے مطابق 2665979 جبکہ شہر سرگودھا کی آبادی 458440 افراد پہ مشتمل ہے آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 11واں بڑا شہر ہے جو فیصل آباد سے 94 لاہور سے 172 جبکہ موٹر وے سے 48 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کل رقبہ 5884 مربع کلومیٹر ہے۔ دریائے جہلم اور چناب کے درمیان ایک خوبصورت شہر ہے ایک چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ کرانہ بار جو اپنے کرش کے معیار کی وجہ سے پنجاب بھر میں مشہور ہے 90% لوگوں کی زبان پنجابی 10% اردو جبکہ ہندکو پشتو پوٹھوہاری کشمیری سرائیکی بولنے والے بھی موجود ہیں یہاں پر ایک زرعی کالج اور بہترین نہری نظام ہے۔ ضلع میں قومی اسمبلی کی 5 اور صوبائی اسمبلی کی 10 نشستیں ہیں۔ موٹر وے کی 5 انٹر چینجز ضلع بھر کو لنک کرتی ہیں۔

سرگودھا کی چند اہم شخصیات .

ملنگی

اصل نام احمد خان تھا انگریز حکومت میں حریت پسندوں کی قیادت کی اور لگاتار 26 سال تک انگریز حکومت کا امن حرام کیے رکھا آپ کا یہ نعرہ بہت مشہور ہوا تھا کہ "دن نوں راج فرنگی دا تے رات نوں راج ملنگی دا"

فتح خان بلوچ

آپ انگریز حکومت کے دوران  شاہپور ساہیوال اور خوشاب کے علاقے پر مشتمل ایک آزاد ریاست کے حکمران تھے آپ کی زندگی میں انگریز اس خطے پر قابض نہیں ہو سکا.

مفتی محمد شفیع صاحب سراج العلوم

آپ سرگودھا کی سرزمین پر آزاد وطن اور مسلم لیگ کی پہلی آواز تھے انتہائی نڈر اور بیباک راہنما تھے

خواجہ ضیاءالدین سیالوی

آپ کی انگریز حکومت کی مخالفت اور آزادی کی جدوجہد تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے آپ انگریز کے باغی تصور کیے جاتے تھے آپ نے تحریک ترک موالات تحریک خلافت میں بھر پور کردار ادا کیا

خواجہ قمرالدین سیالوی

آپ نے تحریک پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا آپ مسلم لیگ کے صوبائی راہنما تھے آپ نے آزادی کے بعد تحریک ختم نبوت تحریک نظام مصطفی میں قائدانہ کردار ادا کیا

ملک فیروز خان نون. تھے

آپ اپنے دور کے انتہائی اعلی تعلیم یافتہ تھے انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن آپ کے تدبر اور سیاست کا معترف تھا آپ متحدہ ہندوستان کے آخری وزیر دفاع تھے آزادی کے کچھ عرصہ بعد آپ پاکستان کے صدر بھی رہے

ملک خضر حیات ٹوانہ

آپ مشہور کانگریسی لیڈر تھے آپ متحدہ پنجاب کے آخری وزیر اعلی تھے

سر نواب محمد حیات قریشی .

آپ تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے آپ کی انتھک محنت سے شاہپور خوشاب اور سرگودھا میں مسلم لیگ کو پزیرائی ملی.

محمد حسین مرولوی .

آپ سیال شریف کے مرید اور خلیفہ تھے آپ نے گاؤں گاؤں پھر کر مسلم لیگ کے لیے راہ ہموار کی.

مولانا ظہور حسین بگوی.

آپ خواجہ ضیاءالدین سیالوی کے نامور خلیفہ تھے آپ اپنے دور میں انگریز حکومت کے باغی کہلاتے تھے آپ نے آزادی کے لیے پورے ہندوستان کا دورہ کیا.

مولانا نقشبند  صاحب.

آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے آپ کی محنت سے شاہپور کے علاقے میں قائد اعظم محمد علی جناح کے جلسے کا کامیاب انعقاد ممکن ہوا.

دیگر نامور شخصیات.

پیر امیر محمد بھیروی. مولانا محمد حسین نیلوی . پیر کرم شاہ صاحب ازھری. ڈاکٹر انوار احمد بگوی. سید حامد علی شاہ . مولانا ثناء اللہ امرتسری:  علامہ عطاء اللہ بندیالوی. مولانا عبد الشکور ترمذی. مولانا اکرم طوفانی. سید سبطین نقوی.

نامور شعرا :

احمد ندیم قاسمی وسعی ساہ

سردار علی فوق. ڈاکٹر وزیر آغا. ریاض احمد شاد . شاکر کنڈان. محمد حیات بھٹی. غلام محمد درد. قاسم شاہ.  افضل عاجز. اور ھارون الرشید تبسم وغیرہ.

کھیل اور کھلاڑی.

کرکٹ مین  محمد حفیظ اعزاز چیمہ اور رانا نوید الحسن.

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی.

ڈاکٹر لمعات احمد بگوی. ڈاکٹر عطاء الرحمان. ڈاکٹر شاہد اقبال.

اعزازات[ترمیم]

ہلال استقلال
پاکستان کے تین شہروں لاہور، سرگودھا اور سیالکوٹ کے شھریوں کو 1965ء کے پاک بھارت جنگ میں بہادری کے لیے ھلال استقلال سے نوازا گیا جو کھ ان کے لیے بہت فخر کی بات ہے۔ اسی طرح سرگودھا کے لوگ بھی اس پر فخر کرتے ہیں۔ جو انھیں پاکستان کے باقی شہروں سی نمایاں کرتا ہے۔ سرگودھا ہمیشہ سے ہی بہادروں کی سرزمین رہی ہے۔ اورپاکستان فضائیہ کے پائیلٹ ان بہادروں میں ایک بہترین اضافہ ہیں.

شاہینوں کا شہر[ترمیم]

1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سرگودھا کی پاک فضائیہ نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے سرگودھا کے پاک فضائیہ طیاروں نے بہت جواں مردی کے ساتھ دشمن کا منہ توڑ جواب دیا اور سرگودھا سے پرواز کر کے دشمن کی زمین پر جا کر اس کے اہم ٹھکانوں کو نیست و نابود کیا دشمن کی طرف سے سرگودھا پہ ہونے والے اک حملے میں پاک فضائیہ نے نہ صرف حیران کن دفاع کیا بلکہ پاک فضائیہ کے ایک پائلٹ ایم ایم عالم نے محض تین یا چار سیکنڈ میں دشمن کے 4 طیارے مار گرائے جو اک عالمی دریکاڑ ہے انھوں نے مجموعی طور پر 9 طیارے مار گرا‎ئے اور دو کو نعقصان پہنچایا ہے اس کے علاوہ پاک فضائیہ کے طیاروں نے اک یاد گار دفاع کیا اسی مناسبت سے سرگودھا کو "شاھینوں کا شہر" کہتے ہیں

(پھل مالٹے) کنو سنگترے[ترمیم]

ضلع سرگودھا کے علاقوں میں پیدا ہونے والے خوشبودار اور لزیذ ترش پھل مالٹے سنگترے اور کنو معیار اور ذائقے کے لحاظ سے بہت مشہور ہیں یہ پوری دنیا میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں اس وجہ سے بھی سرگودھا بے حد شہرت کا حامل شہر ہے۔ یہاں پر ترش پھلوں کے سینکڑوں مربع پھیلے باغات سے حاصل ہونے والا پھل بیرون ملک بھی برآمد کیے جائے ہیں۔ اسی وجہ سے سرگودھا کو کیلیفورنیا آف پاکستان بھی کہتے ہیں۔

کیرانہ کی پہاڑیاں[ترمیم]

سرگودھا شہر سے 14 کلو میڑ کے فاصلہ پر کیرانہ پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو چنیوٹ شہر تک جاتا ہے ان پہاڑیوں کے دامن میں ایک قدیم تاریخی مندر موجود ہے جو ہنو مان جی کا مندر کہلاتا ہے یہ مقام سیاحت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت اہم ہے اس مندر کے حوالے سے مشہور ہندو روایت یہ ہے کہ جب سیتا کو راون اُٹھا کے لے گیا تو ہنو مان جی سیتا کو بچانے کے لیے ان کے پیچھے بھاگے اور بقول ہندو تاریخ کے ہنو مان جی کوہِ ہمالیہ سے پہاڑ اُٹھا اُٹھا کرلا رہے تھے تاکہ لنکا اور بھارت کے درمیان موجود سمندر میں پہاڑ رکھ کر اپنے لیے خشکی کا راستہ بناتے جائیں لہذا وہ بار بار آتے اور پہاڑ لے آتے تھے ان کے ہاتھ سے جو جو پہاڑیاں گرتی رہیں کیرانہ کی پہاڑیاں مشہور ہوگئیں ہندؤ تاریخ کے نزدیک یہ وہی پہاڑیاں ہیں جن کا تذکرہ ہندوؤں کی مشہور کتب میں ملتا ہے اِس کے علاوہ تاریخی تذکرے کے مطابق ایک مشہور ہندو شہزارے برتری ہری کا ذکر ملتا ہے جس نے دنیا سے بے گانہ ہو کر اپنے اور یوگ طاری کیا اور دنیا سے بے نیاز ہو کراپنی مذہبی تعلیم حاصل کی اس کے بعد اس نے ایک عبادت گاہ انھیں کیرانہ کی پہاڑیوں میں تعمیر کروائی اور خود یہاں ہی منتقل ہو گیا برتری ہری بہت مشہور شاعر بھی ہوا اس کے اک شعر کا علامہ اقبال نے ترجمہ بھی کیا ہے اِسی پہاڑی سلسلے میں آج کل سرگودھا کے نزیک ترین بلند پہاڑی پہ پاک فضایئہ کا اہم ترین ریڈار نصب ہے

یونیورسٹی آف سرگودھا[ترمیم]

سرگودھا میں موجود یونیورسٹی کا شمار پنجاب کی بہترین جامعات میں ہوتا ہے جس نے کم عرصے میں بہترین خدمات سر انجام دیں ہیں یونیورسٹی کے قیام کی وجہ سے بھی سرگودھا شہر بہت اہمیت کا حامل ہے۔

بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا[ترمیم]

سرگودھا کا میٹرک اور انٹرکا امتحانی بورڈ پنجاب کے بہترین بورڈز میں سے ایک ہے۔

(رانجھا)تخت ہزارہ[ترمیم]

تحت ہزارہ کا تذکرہ ابوالفضل نے اپنی کتاب آئینِ اکبری میں کیا ہے جو اکبر بادشاہ کا مشہور ﻣﺼﺎﺣﺐ تھا اس کے علاوہ تخت ہزارہ کی وجہ شہرت مشہور پنجانی داستان ہیر رانجھا میں ایساکردار ہے جسے تاریخ رانجھا کے نام سے یاد کرتی ہے رانجھا کا تعلق اِسی تخت ہزارہ سے تھا

(مغل شہزارہ) شاہ شجاع[ترمیم]

سرگودھا شہر سے چند کلو میڑ کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا قصبہ دھریمہ ہے تاریخ میں ملتا ہے کہ اک مغل شہزادہ شاہ شجاع جو شاہجہان کا بیٹا تھا اِس نے اپنے سوتیلے بھائی اورنگ زیب کے ہاتھوں شکت کھانے کے بعد اس قصبے دھریمہ میں آ کر پناہ لی اوراِس جگہ موجود اک بزرگ جن کا نام حبیب سلطان ناگہ تھا اُن کے ساتھ اپنی بقیہ عمر گزاری دی اسی جگہ پہ شاہ شجاع کی قبر بھی موجود ہے

تاریخی جامع مسجد بھیرہ اور مسجد حافظانی[ترمیم]

سن 1540 میں جب ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے ہاتھو شکت کھائی تو وہ بھاگا اور بھیرہ پہنچ کر دم لیا لیکن اُس کا تعاقب کرتے ہوئے شیر شاہ سوری اس کے پیچھے بھیرہ آیا لیکن تب تک ہمایوں بھیرہ سے جا چکا تھا پر بھیرہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی شہر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا شیر شاہ سوری نے خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے بھیرہ شہر کو دوبارہ سے تعمیر کروایا اُن تعمیرات کی بہرین نشانی بھیرہ میں موجود جامع مسجد بھیرہ ہے جو شیر شاہ سوری نے تعمیر کروائی تھی اس کے ساتھ ساتھ بھیرہ شہر میں اک مسجد حافظانی بھی موجود ہے جسے محلہ حافظاں میں اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کراویا تھا

نوری اصحاب کی قبریں[ترمیم]

مشہور روایت ہے کہ سرگودھا سے چند کلو میڑ کے فاصلہ پہ اک قصبہ دھیریمہ میں دو اصحابِ رسول کی قبریں موجود ہیں جو اشاعتِ اسلام کی غرض سے عرب سے ہجرت کر کے برصغیر ہندوستان آئے اور پھر اسی قصبہ دھریمہ میں مقیم ہوئے اوریہاں پہ ہی وفات پائی دھریمہ کے قبرستان میں ان اصحاب کی قبریں آج بھی موجود ہیں جو نوری اصحاب کے نام سے مشہور ہیں

ریلوے[ترمیم]

سرگودھا ریلوے اسٹیشن پاکستان ریلویز کی لالہ موسیٰ - شور کوٹ برانچ ریلوے لائن پر سرگودھا کے درمیان واقع ہے۔ یہاں تمام اکسپريس ٹرینیں روکتیں ہیں۔ یہ سرگودھا - خوشاب برانچ ریلوے لائن کا جنکشن بھی ہے۔

لکڑی کا کام[ترمیم]

سرگودھا کی تحصیل سلاانوالی میں کیا جانے والا لکڑی کا کام دنیا بھر میں مشہور ہے

مشہور شخصیات[ترمیم]

آب و ہوا[ترمیم]

آب ہوا معلومات برائے سرگودھا (1960–2012)
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
اوسط بلند °س (°ف) 20
(68)
22
(72)
26
(79)
32
(90)
38
(100)
39
(102)
38
(100)
37
(99)
36
(97)
32
(90)
26
(79)
22
(72)
30.6
(87.1)
اوسط کم °س (°ف) 8
(46)
11
(52)
15.5
(59.9)
19
(66)
25
(77)
27
(81)
26
(79)
26
(79)
25
(77)
20
(68)
14
(57)
9
(48)
18.8
(65.8)
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) 18
(0.71)
36
(1.42)
24
(0.94)
13
(0.51)
17
(0.67)
48
(1.89)
82
(3.23)
87
(3.43)
43
(1.69)
9
(0.35)
11
(0.43)
12
(0.47)
400
(15.74)
اوسط عمل ترسیب ایام (≥ 1.0 mm) 5 4 5 4 3 3 7 7 4 1 1 1 45
ماخذ: Weather2,[3]

اخبار و رسائل[ترمیم]

  • روزنامہ ساہو (مدیر مہدی حسن نتھوکہ)

مزید دیکھیے[ترمیم]

فہرست گنجان شہر بلحاظ آبادی[ترمیم]

کراچی
لاہور
فیصل آباد
Rawalpindi
گوجرانوالہ
پشاور
ملتان
حیدرآباد، سندھ
اسلام آباد
کوئٹہ
درجہ شہر آبادی
(مردم شماری 2017ء)[4][5][6]
آبادی
(1998 کی مردم شماری)[4][7][6]
تبدیلی صوبہ
1 کراچی 14,916,456 9,339,023 &10000000000000059721803+59.72%  سندھ
2 لاہور 11,126,285 5,209,088 &10000000000000113593723+113.59%  پنجاب، پاکستان
3 فیصل آباد 3,204,726 2,008,861 &10000000000000059529504+59.53%  پنجاب، پاکستان
4 راولپنڈی 2,098,231 1,409,768 &10000000000000048835198+48.84%  پنجاب، پاکستان
5 گوجرانوالہ 2,027,001 1,132,509 &10000000000000078983213+78.98%  پنجاب، پاکستان
6 پشاور 1,970,042 982,816 &10000000000000100448710+100.45%  خیبر پختونخوا
7 ملتان 1,871,843 1,197,384 &10000000000000056327711+56.33%  پنجاب، پاکستان
8 حیدرآباد 1,734,309 1,166,894 &10000000000000048626096+48.63%  سندھ
9 اسلام آباد 1,009,832 529,180 &10000000000000090829585+90.83%  وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد
10 کوئٹہ 1,001,205 565,137 &10000000000000077161467+77.16%  بلوچستان
11 بہاولپور 762,111 408,395 &10000000000000086611246+86.61%  پنجاب، پاکستان
12 سرگودھا 659,862 458,440 &10000000000000043936392+43.94%  پنجاب، پاکستان
13 سیالکوٹ 655,852 421,502 &10000000000000055598787+55.60%  پنجاب، پاکستان
14 سکھر 499,900 335,551 &10000000000000048978843+48.98%  سندھ
15 لاڑکانہ 490,508 270,283 &10000000000000081479412+81.48%  سندھ
16 شیخوپورہ 473,129 280,263 &10000000000000068816076+68.82%  پنجاب، پاکستان
17 رحیم یار خان 420,419 233,537 &10000000000000080224370+80.02%  پنجاب، پاکستان
18 جھنگ 414,131 293,366 &10000000000000041165302+41.17%  پنجاب، پاکستان
19 ڈیرہ غازی خان 399,064 190,542 &10000000000000109436239+109.44%  پنجاب، پاکستان
20 گجرات 390,533 251,792 &10000000000000055101432+55.10%  پنجاب، پاکستان

حوالہ جات[ترمیم]

  1. archINFORM location ID: https://www.archinform.net/ort/49163.htm — اخذ شدہ بتاریخ: 27 جنوری 2024
  2.   ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں"صفحہ سرگودھا في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مارچ 2024ء 
  3. "Weather2 – Sargodha"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2012 
  4. ^ ا ب
  5. ^ ا ب "PAKISTAN: Provinces and Major Cities"۔ PAKISTAN: Provinces and Major Cities۔ citypopulation.de۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2020 
  6. "AZAD JAMMU & KASHMIR AT A GLANCE 2014" (PDF)۔ AJK at a glance 2014.pdf۔ AZAD GOVERNMENT OF THE STATE OF JAMMU & KASHMIR۔ 11 February 2017۔ 30 جون 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2020 

بیرونی روابط[ترمیم]

٭ سرگودھا یونیورسٹیآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ uos.edu.pk (Error: unknown archive URL) ٭ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، سرگودھاآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bisesargodha.edu.pk (Error: unknown archive URL)

دیکئھے, مرد علم میدان عمل میں, مولانا ملک اوعوان