غوری خاندان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

غوری خاندان یا آلِ غوری( فارسی: دودمان غوریان‎؛ خود ساختہ نام: شنسبانی) ایک پشتون خاندان افغان قبیلہ تھا جس نے 10ویں صدی سے 1215 تک حکومت کی۔ غوریوں نے بتدریج زرتشت مذہب کو ترک کرکے اسلام قبول کیا۔ اپنے عروج کے زمانے میں غوری سلطنت کی حدود مغرب میں خراسان اور مشرق میں بنگال تک وسیع ہو گئیں تھی۔

مینار جام، غور

مقامی روایتیں[ترمیم]

انگریز مورخ اور مستشرق کلفورڈ ایڈمنڈ باس ورتھ نے غوریوں کے بارے میں لکھا ہے: ہم عام طور پر غوریوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور خاص طور پر شنسابیوں کے بارے میں ، ہم صرف یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ قدیم زمانے سے غور میں رہتے ہیں اور زیادہ مقامی ہیں۔ اس قول کی تائید اسکاٹش مورخ الفنسٹن نے بھی کی ہے۔ غوریوں کو شنسبانی یا ال شناسب کے بادشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس شہرت کی وجہ ملک شنسب نامی شخص کی طرف ان کا انتساب ہے جو کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں تھا اور علی ابن ابی طالب(رض) سے اسلام قبول کیا تھا۔

تاریخی دور[ترمیم]

منہاج سراج کا کہنا ہے کے امیر سوری بن محمد کے عہد تک غور کی امارت کا مفصل حال معلوم نہیں ہو سکا۔ امیر سوری کے عہد میں بعض علاقے مثلاً ولشان بالا و زیر ابی مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے اور ان میں باہم جھگڑے ہونے لگے۔ صفاریوں نے نیمروز سے بست و زمند کا قصد کیا۔ یعقوب لیث نے تگین آباد (رخج) کے امیر لک لک (لویک) پر حملہ کر دیا۔ غوریوں کے مختلف گروہ سنگان کی سرحد پر پہنچ گئے۔ (غالباً حملے کی وجہ سے ) اور وہاں سلامت رہے۔ لیکن ان کے لڑائی جھگڑے جاری رہے اور یہ لڑائی اہل اسلام اور اہل شرک کے درمیان تھی۔ چنانچہ گاؤں گاؤں میں جنگ جاری تھی۔ چونکہ غور کے پہاڑ بہت اونچے تھے اس لیے کسی غیر کو ان پر تسلط پانے کا شرف نہیں ملا۔

جب غزنہ کا مالک امیر سلطان محمود بن سبکتیگین ہوا تو اس وقت غوریوں کا امیر محمد بن سوری تھا۔ اس نے محمود کے ساتھ سرکشی کی تو سلطان محمد غزنوی بھاری شکر کے ساتھ حملہ آور ہوا اور محمد بن سوری کو گرفتار کر کے غزنہ لے جا رہا تھا کہ اس نے راستہ میں وفات پائی۔ محمود غزنوی نے اس کے بیٹے ابو علی کو غور کا حاکم مقرر کر دیا۔ جس کے خلاف محمد بن سوری بن شیش بن عباس نے اپنے چچا کے خلاف بغاوت کی اور اسے گرفتار کرکے خود غور کا حاکم بن گیا۔ عباس نے سلطان ابراہیم غزنوی کے خلاف سرکشی کی۔ اس پر سلطان ابراہیم نے غور پر لشکر کشی کی اور عباس کو گرفتار کر کے غزنہ لے گیا اور اس کے بیٹے محمد بن عباس کو غور کا حاکم مقرر کر دیا۔ عباس کے بعد اس کا بیٹا ملک قطب الدین غور کا حکمران بنا اور اس کے بعد عزالدین حسین مسند نشین ہوا۔

عروج[ترمیم]

عزالدین حسین کے سات بیٹے تھے جو حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئے۔ جو ذیل ہیں۔ (1) ملک شہاب الدین محمد (خرنک) رئیس مادین و غور (2) ملک فخر الدین مسعود امیر بامیان و طخارستان (3) سلطان علاؤ الدین حسین شاہ غقور و غزنی و بامیان (4) سلطان سیف الدین سوری بادشاہ غزنہ و غور (5) سلطان بہاء الدین سام بادشاہ غور (6) ملک الجبال قطب الدین محمد امیر غور و فیروز کوہ (7) ملک شجاع الدین امیر خراسان و غور۔ اس وجہ ہے ملک عزالدین ابو سلاطین کہلاتا ہے۔ اس نے سلجوقی سلطان ملک سنجر کی اطاعت اختیار کر لی تھی اس کے علاوہ اس کے سلاطین غزنہ سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ غوری حکمرانوں کا اب تک دور وہ تھا کہ سلطان محمود غزنوی کے غور کو مسخر 1010ء سے محمد بن سوری کے اخلاف غزنویوں کے زیر اقتدار رہے، جب غزنوی حکومت پر صعف طاری ہوا تو غوریوں کو آزادی کا زیادہ موقع ملا لیکن استقلال اور مستقل آزادی غزالدین کے بیٹوں نے اختیار کی۔

ملک غزالدین حسین کے سات بیٹوں میں سے بڑا ملک فخر الدین مسعود بڑا تھا، اس کی والدہ ایک لونڈی تھی۔ اس کے بعد دوسرا درجہ ملک الجبال قطب الدین محمد تھا۔ اس کی والدہ کا نسب بھی بلند نہیں تھا۔ اس لیے جب عزالدین کے انتقال کے بعد تخت پر سلطان سوری بیٹھا۔ اس نے باپ کا ملک تمام بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔

مرکزی شاخ فیروز کوہ کے حکمران[ترمیم]

اس تقسیم میں ملک الجبال (محمد قطب الدین) کو ورسار ملک دیا، جس نے میں قریبی ایک نیا مستحکم مقام فیروز کوہ کو دالریاست کے لیے چن لیا۔ ملک شہاب الدین خرنک کو مادین کا علاقہ دیا گیا۔ بہاء الدین سام کے خطہ سنگہ تجویز ہوا جو مندیش کا مرکز حکومت تھا۔ قلعہ و جیر سلطان جہاں سوز کے حوالے کیا گیا۔ لیکن جلدی ملک الجبال والی فیروز کوہ کی دوسرے بھائیوں سے ٹھن گیا، وہ بھائیوں سے ناراض ہو کر غزنہ چلا گیا جہاں بہرام شاہ حکمران تھا۔ ملک الالجبال کے خلاف شازش کی گئی اور اس کو بغاوت کے شبہ میں بہرام شاہ نے قتل کروا دیا۔ جب اس حادثہ کی خبر سلطان سیف الدین سوری کو ملی تو اس نے فوراً بدلے کا سوچا اور ایک لشکر فراہم کر کے غزنہ کی طرف روانہ ہوا۔ سیف الدین سوری نے غزنہ پر حملہ کیا تو بہرام غزنوی مقابلہ نہیں کرسکا اور غزنہ چھوڑ کر چلاگیا۔ سیف الدین سوری غزنہ کا بادشاہ بن گیا۔ اس نے اہل غزنہ سے اچھا سلوک کیا، یہاں تک کہ اس نے غور کا لشکر واپس کر دیا۔ اس کے بعد اہل غزنہ نے خفیہ خفیہ بہرام غزنوی کو کو بلالیا۔ سیف الدین سور نے اہل غزنہ سے مشورہ لیا تو وہ بولے کے بہرام غزنوی سے لڑنا چاہیے، حلانکہ سیف الدین غزنہ چھوڑ کر جانے کے لیے تیار تھا۔ سیف الدین سوری فوج لے کر مقابلے کے لیے نکلا تو پوری فوج بہرام غزنوی سے جاملی۔ سیف الدین سوری گرفتار ہو گیا اور قتل کرا دیا گیا۔ سلطان سیف الدین نے غزنہ روانہ ہوتے وقت اپنا قائم مقام سلطان بہاء الدین سام کو بنا دیا تھا۔ جب اس نے یہ سنا تو اس نے تو لشکر فراہم کر کے غزنہ روانہ ہو گیا کہ وہ بھائیوں کا بدلہ لے، لیکن راستہ میں وفات پائی۔ اس وقت علاء الدین جہاں سوز فیروز کوہ کا حکمران تھا۔ وہ غزنہ بھائیوں کا انتقام لینے کے لیے غزنہ روانہ ہوا۔ لڑائی چھڑی اور بہرام غزنہ نے شکست کھائی اور علاء الدین جہاں سوز غزنہ پر قابض ہو گیا۔ علاء الدین جہاں سوز نے غزنہ کو نذر آتش کر دیا ایشیا کا یہ مایا ناز شہر جس کو محمود غزنوی بے مثال بنا دیا تھا سات دن جلتا رہا دوسری طرف ہر نفس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس نے خاندان غزنوی کے علاوہ سلطان محمود غزنوی، سلطان مسعود اور سلطان ابراہیم کے علاوہ تمام بادشاہوں کی قبریں کھدوا کر ان کی نعیشوں کو نظر آتش کر دیا۔ سلطان علاء الدین فیروز کوہ کے تخت پر بیٹھا تو اس اپنے بھتیجوں غیاث الدین سام اور معزالدین سام جو شہاب الدین سام کے بیٹے تھے۔ قید کر دیا اور سلطان سنجر سے سرکشی اختیار کی۔ اس لیے سلطان سنجر نے غور پر لشکر کشی کی۔ لڑائی ہوئی تو سلطان علاء الدین جہاں سوز نے شکست کھائی۔

سلطان سنجر نے جلد ہی سلطان علاء الدین کو رہا کر دیا اور اسے غور کا ملک بھی واپس کر دیا۔ سلطان جہاں سوز نے آخر عمر میں باطنیت اختیار کرلی تھی۔ سلطان علاء الدین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان سیف الدین نے فیروز کوہ کا تخت سنبھالا۔ اس نے باطنیوں کے خلاف کارروائی کی اور اپنے چچیرے بھائیوں غیاث الدین سام اور معزالدین سام کو رہا کر دیا۔ سلطان سنجر کی حکومت ختم ہو چکی تھی اور غز خراسان کے مختلف حصوں پر قبضہ کرچکے تھے۔ انھوں نے غور میں بھی فساد برپا کر رکھا تھا، سلطان سیف الدین نے ان کے خلاف کروائی کرنے کے لیے روانہ ہوا لیکن غوریوں نے شکست کھائی اور سلطان سیف الدین مارا گیا۔

سلطان شہاب الدین کے لڑکوں جن کو سلطان سیف الدین نے رہا کر دیا تھا۔ غیاث الدین نے فیروز کوہ کے مزکز میں ہی سکونت اختیار کرلی تھی۔ یہ سیف الدین کے ساتھ ہی تھا، سیف الدین کے قتل ہونے کے بعد اس کو بادشاہ بن گیا۔ اس کا بڑا چچا فخر الدین مسعود جو بامیان کا والی تھا اور بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور صرف وہی زندہ بچا تھا اس کو فیروز کوہ کے تخت کی حرص ہوئی اور اس کے اس نے والی بلخ علاء الدین قماج اور والی ہرات تاج الدین یلدوز سے مدد طلب کی اور فیروز کوہ پر لشکر کشی کی۔ اس لڑائی میں قماج اور یلدوز مارے گئے اور فخر الدین مسعود کو شکست ہوئی، لیکن غیاث الدین نے اپنے چچا کو باعزت بامیان بھیج دیا۔ اس کے بعد سلطان غیاث الدین نے زمینداور اور گرم سیر پر قبضہ کیا اس کے چند سال کے بعد اس نے ہرات، قادس اور دوسرے علاقہ فتح کرکے اس نے غزنہ کا رخ کیا جس پر غز قابض تھے۔ غیاث الدین نے غزنہ غزوں سے خالی کرایا اور وہا اپنے بھائی سلطان معزز الدین کو تخت نشین کیا۔ پھر دو سال کے بعد اس نے غور و غزنہ کا لشکر تیار کر کے ہرات کو بہاء الدین طغرل سے آزاد کریا اس کے بعد فوشنج، نیم روز، سجستان خراسان، طالقان، اند خود (اند خوئی)، پنجدہ، مرو الرود دزق اور خلم سلطان کے تصرف میں آ گئے۔ پھر سلطان شاہ جلال الدین تکش شاہ خوانین خطا سے لشکر لے کر آیا اور مرو پر قابض ہو گیا۔ لیکن سلطان غیاث الدین نے انھیں شکست دی۔ اس کے بعد اس نے سلطان خسرو غزنوی اور اس کے بیٹے کو قتل کر کے اپنے اوپر ایک بدنما داغ لگوا لیا۔ 592ھ میں اس جب سلطان تکش خوارزم شاہ نے وفات پائی تو اس نے نیشاہ پور کا رخ کیا اور اس بھی فتح کر لیا۔ دوسرے سال اس نے مرو شاہجان کا رخ کیا اور اس بھی فتح کر لیا۔ اس طرح پورا خراسان اس کے قبضہ میں آ گیا۔ اس کے علاوہ اس کی فتوحات میں قنوج، بنارس، ملتان، اچہ، دہلی، میرٹھ، کالیون، ہرات قماج، زمینداور، فارس، فیوار، سیف برد، غرجستان، طالقان، جرزوان، (گرزوان)، جروم، نیم روز، تگین آباد، غزنہ، کابل، فوشنج، سجستان، فاریاب، پنجدہ، مردالرود، لاہور، نیشاپور، زابل شامل ہیں اور اس کی سلطنت دور دور تک پھیل گئی۔ مشرق میں ہندوستان اور سرحد چین و ماچین سے عیراق تک اور دریائے جیحوں سے ہرمز تک جو سمندر کے کنارے واقعی ہے، اسی سلطان کا خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ اس نے تنتالیس برس حکمرانی کی۔ بغداد سے خلیفہ مستضی بامر اللہ اور الناصر الدین اللہ خلعت فاخرہ سلطان کو بھیجے۔ ترسٹھ سال کی عمر میں 599ھ میں یہ جلیل قدر بادشاہ اس دار فانی سے کوچ کرگیا اور اس کی میت اس کے دارسلطنت ہرات میں اس کا مدفون ہے۔

زوال[ترمیم]

غیاث الدین کے انتقال کے بعد علاء الدین محمد جو اس کا چچا کا بیٹا تھا سلطان غازی معز الدین سام نے فیروز کوہ، غور، غرجستان اور زمینداور اس کے حوالے کر کے بادشاہ بنا دیا اور اس کا نام خطبہ میں شامل کر لیا گیا۔ جب سلطان معزز الدین نے شہادت پائی تو غیاث الدین محمود بن سلطان غیاث الدین بست سے زمینداور پہنچا، غور کے امیر اور سردار اس کے ساتھ مل گئے تو اس نے فیروز کوہ کا رخ کیا اور سلطان سلطان محمود نے اس سے قید کرنے کا حکم دیا۔ جب سلطان محمود نے شہادت پائی تو اس کو علاء الدین اتسز کے حکم سے قتل کر دیا گیا۔ سلطان محمود اپنے باپ اور چچا کی76 مملکت کا وارث تھا، اس نے سلطان بنے کے بعد سلطان تاج الدین یلدوز، سلطان قطب الدین ایبک نیز دوسرے ترک رئیس اور سرداروں کو آزادی کے پروانہ اور حکمرانی کے سرخ چتر دیے۔ اس کو محمد خوارزم شاہ کے بھائی علی شاہ کے حامیوں نے قتل کر دیا تھا، جس کو سلطان محمود نے محمد شاہ خوارزم کی درخواست پر قید کر دیا گیا تھا۔ سلطان محمود کے بعد اس کا چودہ سالہ بیٹا سلطان بہاء الدین بن محمود تخت پر بیٹھا۔ مگر ابھی تین مہینے ہی گذرے تھے کہ اس کا سلطان محمود کا چچا زات بھائی علاء لادین اتسز خوارزم شاہ سے سلطنت کے حصول کے لیے پہنچ گیا۔ خوارزم شاہ نے اس کی مدد کے ایک لشکر کو ساتھ کر دیا۔ اس لشکر نے فیروز کوہ کا محاصرہ کر لیا اور شہر پر قبضہ کر کے 706ھ کو غوری خاندان کی حکومت ختم کردی گئی اور سلطان بہاء الدین فرار ہو گیا اور اس نے خوارزم شاہ کے پاس پناہ لے لی۔ بعد میں جب چنگیز خان کا فتنہ برپا ہوا تو سلطان بہاء الدین اور اس کے بھائی شہاب الدین کو اور دوسرے شہزادوں اور رئیسوں کے ساتھ خوار زم شاہ کی والدہ نے اس ڈر کے ان کو دریائئے جیحوں میں ڈبو کر ہلاک کر دیے کہ چنگیز خان ان سب کی مملکتیں بحال کر دے گا اور محمد خوارزم شاہ کی ظمت خاک میں مل جائے گی۔ علاء الدین کی غور کے امرا نے اتسز کی اطاعت کرلی لیکن غزنہ کے امرا نے اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف لشکر کشی کی اور اتسز مارا گیا۔ اس کے علاء الدین محمد ابی علی کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ یہ پہلے غزنہ کا بادشاہ رہے چکا تھا۔ اس سے خوارزم شاہ نے ایک عہد نامے پر دستخط کروائے تھے کہ وہ کبھی خوارزم شاہ کے خلاف تلوار نہیں اٹھائے گا۔ اس نے غور میں ایک سال سے کچھ عرصہ زیادہ حکومت کی تھی کہ خوارزم شاہ نے عہد نامہ علاء الدین کے پاس بھیج دیا۔ چنانچہ علاء الدین نے 612ھ میں فیروز کوہ خوارزم شاہ کے کارکنوں کے حوالے کر دیا اور وہ اسے خوارزم لے گئے، جہاں یہ اپنی قضاء تک مقیم رہا۔

بامیان اور طخارستان کے غوری حکمران [ترمیم]

علاء الدین جہاں سوز نے جب اہل غزنہ سے بدلہ لے لیا تو اس نے بامیان اور طخارستان کو فتح کر کے اس پر اپنے بڑے بھائی فخر الدین مسعود کو حاکم مقرر کر دیا۔ اس بعد کا بیٹا شمس الدین حکمران ہوا جس نے غیاث الدین کے ساتھ اس کی فتوحات میں حصہ لیا اور بڑے بڑے کارنامے انجام دیے اس لیے سلطان غیاث الدین نے اسے اعزازات سے نوازا۔ شمس الدین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان بہاء الدین حکمران بنا۔ بہاء الدین علم اور عالموں کا قدردان اور مربی تھا، اس کے علاہ اس کی سیرت نیک تھی۔ اس لیے سلطان غازی معزالدین کی شہادت کے بعد امرا نے اس کو غزنہ کا بادشاہ چن لیا۔ چنانچہ جب یہ غزنہ پہنچا تو صرف انیس روز کے بعد ہی اس نے شکم کے عارضہ میں وفات پائی۔ سلطان شمس الدین کے دو بیٹے علاء الدین اور جلال الدین تھے اس لیے دونوں کو خطوط لکھے گئے کہ وہ غزنہ پہنچیں۔ دونوں بیٹے جب غزنہ پہنچے تو جلال الدین نے اپنے بھائی علاء الدین کو غزنہ کا حکمران بنا کر بامیان لوٹ گیا۔ مگر بعد میں اس نے غزنہ پر لشکر کشی کی مگر گرفتار ہو گیا، رہا کر دیا گیا تو وہ بامیان لوٹ گیا، جہاں اس کا چچا علاء الدین اس کی غیر موجودگی میں حکمران بن گیا تھا۔ اس نے ٹھوڑے سے آدمیوں کے ساتھ یورش کی اور چچا کو گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کی حکومت کو سات سال ہوئے تھے کہ سلطان محمد خوارزم شاہ نے بامیان پر حملہ کر دیا اور جلال الدین اس لڑائی میں مارا گیا اور غوریوں کی بامیان شاخ کا 609ھ میں خاتمہ ہو گیا۔

غزنہ کے غوری حکمران[ترمیم]

ملک لالجبال کے حادثہ کی خبر جب سیف الدین غور کو ملی تو اس نے بہرام غزنوی سے انتقام کی عرض سے غزنہ کا رخ کیا۔ سیف الدین سوری نے غزنہ پر حملہ کیا تو بہرام غزنوی مقابلہ نہیں کرسکا اور غزنہ چھوڑ کر چلاگیا۔ سیف الدین سوری غزنہ کا بادشاہ بن گیا۔ لیکن اہل غزنہ نے غداری کی اور بہرام شاہ کو بلالیا، سیف الدین سوری گرفتار ہو گیا اور قتل کر دیا گیا۔ اس وقت علاء الدین جہاں سوز فیروز کوہ کا حکمران تھا۔ وہ غزنہ بھائیوں کا انتقام لینے کے لیے غزنہ روانہ ہوا۔ لڑائی چھڑی اور بہرام غزنہ نے شکست کھائی اور علاء الدین جہاں سوز غزنہ پر قابض ہو گیا۔ علاء الدین جہاں سوز نے غزنہ کو نذر آتش کر دیا۔ علاء الدین جہاں سوز کے انتقال کے بعد سیف الدین بادشاہ غور بن گیا تو معزز الدین بامیان چلا گیا۔ سیف الدین کی شہادت کے بعد غیاث الدین باشاہ بن گیا تو معزز الدین بھی بھائی کے پاس فیروز کوہ پہنچ گیا تو غیاث الدین نے اس کے سپر ولایت قیصر ولایت کچوراں اس کے سپردکردی۔ جب گرم سیر کے تمام علاقہ اور تگین آباد کا شہر بھی اس کو دے دیا گیا۔ اس کی وجہ سے غوریوں اور غزنویوں میں کشمکش ہوئی اور غزنویوں کی تباہی کا باعث بنا۔ سلطان معزز الدین تگین آباد کا حاکم بن گیا تو غز قبیلے کے سردار خطا میں شکست کھانے کے بعد غزنہ آ گئے اور غزنہ پر قبضہ کر لیا اور غزوں کا غزنہ پر قبضہ بیس سال تک قبضہ رہا۔ سلطان معزز الدین نے غزوں کے خلاف کارروائی کی 569ھ میں اس نے غزنہ غزوں سے چھین لیا۔ غزنہ کی فتح کے بعد اس نے اپنی فتوحات کا دائرہ بڑھایا اور 570ھ میں اس نے گردیز فتح کر لیا اور تیسرے سال 175ھ میں اس نے ملتان پر فوج کشی کی اور اسے قرمطیوں کے چنگل سے چھڑایا۔ اس کے اگلے سال اس نے اچہ اور ملتان کے راستہ نہر والہ پر573ھ میں حملہ کیا۔ مگر اس نے وہاں کے راجا بھیم دیو سے شکست کھائی اور اسے ناکام لوٹنا پڑا۔ 575ھ میں اس نے پیشاور پر حملہ کیا اور اسے فتح کیا اور دوسال کے بعد 577ھ اس نے لاہور کی طرف توجہ کی اور خسرو ملک نے اپنے ایک بیٹے اور ہاتھی کو بھیج کر صلح کرلی۔ 578ھ میں اس نے دیول کی طرف توجہ کی اور اور سمندر کے کنارے تک کے جتنے علاقہ تھے ان پر قبضہ کر لیا۔ 580ھ میں لاہور آیا اور اسے لوٹا واپس ہوتے ہوئے اس نے سیالکوٹ میں ایک قلعہ بنانے کا حکم دیا اور حسین خرمیل کو وہاں کا حاکم بنانے کا حکم دے دیا۔ سلطان غازی کے لوٹنے کے بعد خسرو غزنوی نے ہندوستانی لشکر اور گکھڑوں کے لشکر نے سیالکوٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ 582ھ میں سلطان غازی لاہور پہنچا اور خسرو غزنوی کو معزول کر کے اپنے ساتھ لے گیا اور غزنہ سے خسرو ملک کو بھائی کے پاس فیروز کوہ بھجوا دیا جہاں اسے قید کر دیا گیا۔ اس طرح غزنوی خاندان کا سورج ڈوب گیا۔

پھر سلطان غازی نے ہند کا رخ کیا اور تبر ہندہ کو فتح کیا۔ جب وہ غزنہ واپس لوٹ رہا تھا تو اسے راستے میں خبر ملی کے رائے پرتھوی راج نذدیک آپہنچا ہے، لہذا اس نے غزنہ جانے کی بجائے پرتھوی راج سے مقابلے کے لیے ترائن چلا گیا۔ رائے پرتھوی راج سے مقابلے میں سلطان قاضی شدید زخمی ہو گیا۔ اس لیے اسلامی لشکر کو شکست ہوئی، مگر غوری لشکر بحفاظت غزنہ لوٹ گیا۔ مگر اگلے سال سلطان قاضی تیاری کے ساتھ واپس آیا اور پھر ترائن کے قریب لڑائی ہوئی اور اس دفعہ سلطان کو فتح حاصل ہوئی، اس نے اجمیر، سرستی علاقہ فتح کرلیے۔ اس نے قطب الدین ایبک کو کہرام کے تخت پر بیٹھا کر غزنہ لوٹ گیا۔ 590ھ میں سلطان غازی قنوج و بنارس کی تسخیر کے لیے ہندوستان آیا اور چندوال کی حدود میں اس رائے چند کو شکست دی۔ اس فتح کے بعد اس کے قبضہ میں اس کے ہاتھ تین سو ہاتھی آئے۔ ہندستان میں اس کے نائب قطب الدین نے مختلف علاقہ فتح کرلیے۔ ان میں نہر والہ، تھنکر، قلعہ کالیور اور بدایوں اس کے قبضہ میں آ گئے۔

جب اس کے بھائی غیاث الدین کی وفات ہوئی تو سلطان غازی اپنے بھائی کی تعزیت کے لیے ہرات پہنچا اور تمام رسمیں ادا کرنے کے بعد سلطان غازی نے مملکت غور کے مختلف حصہ سرداروں کے حوالے کیے۔ اپنے بھتیجے سلطان غیاث الدین کے بیٹے سلطان غیاث الدین محمود کو شہر بست، علاقہ فراہ و اسفرار دے دیا۔ ملک ضیاء الدین در غور کو جو دونوں سلطانوں کا چچا زاد بھائی نیز سلطان غیاث الدین کا داماد تھا، گرم سیر، غور، تخت فیروز کوہ، شہر رود اور زمینداور دیدیے، ملک ناصر الدین الپ غازی بن قرۃ ارسلان سلجوق کو جو دونوں سلطانوں کا بھانجہ تھا ہرات دے دیا۔

پھر سلطان غازی واپس غزنہ آیا اور خوارزم پر لشکر کشی کی تیاری کی۔ سلطان غازی نے حملہ کیا اور لشکر خوارزم کو شکست دے دی مگر خوارزم فتح نہ ہو سکا۔ اس اثنا میں لشکر خطا اور کفار ترکستان سے خوارزم شاہ کو مدد آگئی اس لیے سلطان غازی پیچھے ہٹ گیا اور ان مدد گاروں کو شکست دے دی۔ مگر لڑائی کا فیصلہ ہونے سے پہلے اس کا امیر حسین خرمیل پانچ ہزار سواروں کے ساتھ جزوان (گروان) چلا گیا۔ اب سلطان غازی کے پاس بہت کم سوار اور غلام رہے گئے تھے۔ غوری بڑے بے جگری سے لڑ رہے تھے مگر مخالف فوجیں کثیر تھیں اس لیے فتوحات میں ناکام رہے۔ اس لیے ترکستانی سردار جو مسلمان ہو چکے تھے بیچ بچاؤ کر کے صلح کروادی۔ سلطان واپس غزنہ لوٹ آیا۔ اس اثناء میں اسے خبر ملی کہ گکھڑاور کوہ جود باغی ہو گئے ہیں۔ سلطان غازی ان سزا دینے کے لیے ہندوستان جہاں ان کو سزا دی مگر جب یہ غزنہ واپس آ رہا تو دمیک کے مقام پرگکھڑوں ہاتھوں مارا گیا جن کے قبیلہ کے افراد شہاب الدین غوری کے حملہ میں ماری گئے تھے انھوں نے اسے قتل کر کے اپنے قبیلے کی تباہی اور اپنے افراد قبیلہ کی شہادت کا بدلہ لیا۔

سلطان غازی نے جو علاقہ فتح کیے وہ یہ ہیں، گردیز، سنقران، قرامطہ،، ملتان و غزو، اوچہ، پشاور، سیالکوٹ، لاہور، تبرہندہ (سرہند)، اجمیر، ہانسی، دہلی، سرستی، کہرام، میرٹھ، کول، تھنکر (بیانہ)، قنوج، کالنجر، اودھ، مالوہ (گولیار) و بہار، بہار، لکھنوتی (بنگال)، مرو الرود، نیشاپور، طوس، مرو، ابیورد، نساء، شارستان، سبزوار، جنا باد، خوارزم، اندخود، کوہ جود اور کھوکھر، سوالک، بنارس، غز و کوکران، غز و ترائین، مانپورای، بنوراک، کوکہ، باورد اور پنجدہ ہیں۔

سلطان غازی کی شہادت کے بعد سلطان بہاء الدین کے چھوٹے بیٹے علاء الدین محمد کو تخت پر بیٹھا دیا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد تاج الدین یلدوز نے غزنہ پر چھڑائی کی، علاء الدین کو ابتدا میں شکست ہوئی اور بعد میں شکست ہوئی اور بعد میں علاء الدین کو شکست ہوئی۔ تاج الدین یلدوز نے اسے بامیان جانے کی اجازت دے دی۔ علاء الدین اپنے بھائی جلال الدین کے ساتھ غزنہ کا تخت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے آیا۔ اس کے ساتھ غور و بامیان کے لشکروں کے علاوہ وخش و بدخشاں سے پیغو کے لشکر بھی ساتھ تھے۔ چنانچہ جلال ا؛لدین نے بھائی کو تخت پر بیٹھایا اور واپس بامیان لوٹ گیا۔ ملک تاج الدین یلدوز دوبارہ کرمان سے لشکر کے کر آیا۔ لشکر نے شکست کھائی اور علاء الدین قلعے میں محصور ہو گیا۔ اس اثناء میں بامیان سے جلال الدین بھائی کی مدد کو پہنچا۔ لڑائی میں دونوں بھائیوں نے شکست کھائی اور تاج الدین یلدوز نے دونوں بھائیوں سے عہد لیا اور انھیں بامیان بھیج دیا۔

غوری فرمانرواؤں کی مرکزی شاخ[ترمیم]

  • (1) غزالدین حسین 493ھ/1100* (2) سلطان سیف الدین سوری 544ھ/1149* (3) علاء الدین جہاں سوز 544ھ/1150* (4) سیف الدین محمد 556ھ/1161
  • (5) سلطان غیاث الدین محمد 558ھ/1163
  • (6) سلطان علاء الدین محمد 599ھ/1203
  • (ضیاء الدین در غور)
  • (7) سلطان سلطان غیاث الدین محمود 603ھ/1207* (8) بہاء الدین سام بن محمود (صرف تین مہنے)
  • (9) علاء الدین اتسز حسین 603ھ/1207* (10) سلطان علاء الدین محمد دوسری مرتبہ 607ھ/1210

(1212 میں خوارزم شاہ نے ملک پر قبضہ کر لیا)

بامیان شاخ کے حکمران[ترمیم]

(1) فخر الدین مسعود 540ھ/1146* (2) شمس الدین محمد 558ھ/1136* (3) جلال الدین علی 206ھ/6021* (612ھ/1215ء میں خوارزم شاہ نے جلال الدین علی کو قتل کرا دیا)

غزنہ شاخ کے حکمران[ترمیم]

  • (1) سیف الدین سوری 544ھ/1150* (2) سلطان معز الدین سام 569ھ/1174* (3) علاء الدین بامیانی 602ھ/1206* علاء الدین بامیانی کو تاج الدین یلدوز نے بے دخل کر دیا۔

ماخذ[ترمیم]

(افغانستان۔ معارف اسلامیہ)

  • (نعمت اللہ ہراتی۔ مخزن افغانی)
  • (منہاج سراج۔ طبقات ناصری جلد اول) * (عبد الحئی حبیبی۔ تقیلمات، طبقات ناصری جلد اول)