فتح اللہ گولن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فتح اللہ گولن
(ترکی میں: Fethullah Gülen ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (ترکی میں: Muhammed Fethullah Gülen ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 27 اپریل 1941ء (83 سال)[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ارض روم   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش سائلس برگ،پنسلوانیا   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ترکیہ (–2017)
ریاستہائے متحدہ امریکا   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب مسلم[4]
عملی زندگی
پیشہ سماجی کارکن ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ترکی [5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل الٰہیات ،  تصوف   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تصوف   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فتح اللہ گولن (پیدائش 27 اپریل 1941) ایک ترک مبلغ،[9] سابقہ امام[9][10]،مصنف[11] اور ایک سیاسی شخصیت ہیں۔[12] اس کے علاوہ وہ گولن تحریک (جسے ہزمت یا خدمت تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے) کے بانی اور اس کی سب سے بڑی شاخ ‘مشترکہ اقدار کے اتحاد‘ کی با اثر شخصیت ہیں۔ اس وقت وہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے امریکا کے شہر سائلس برگ، پینسلوانیا میں مقیم ہیں۔[13][14][15]

گولن حنفی اسلام کی تعلیم دیتے ہیں جو سنی عالم بدیع الزماں سعید نورسی سے متعلق ہیں۔ گولن کے اپنے الفاظ میں، وہ سائنس، اہلِ کتاب اور دیگر کے بین المذاہب مکالمہ اور کثیر جماعتی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔[16] انھوں نے ویٹی کن اور کئی یہودی تنظیموں سے ایسے مکالمے شروع بھی کیے۔[17]

ترک ریاست، اسلام اور جدید دنیا کی معاشرتی مباحث میں گولن پیش پیش رہتے ہیں۔ انگریزی زبان کے میڈیا پر انھیں ایک ایسے امام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ‘جو اسلام میں برداشت کو ترویج دیتا ہے اور اس کا زیادہ تر زور مکالمے، محنت اور تعلیم پر ہے‘ اور ‘دنیا کی اہم ترین مسلمان شخصیات میں سے ایک‘ ہے۔[16][18]

گولن اور ترکی کے موجودہ صدر طیب رجب اردگان 2013ء سے قبل تک اتحادی تھے۔[19][20][21][22][23] یہ اتحاد 2013ء میں ترکی میں ہونے والی بدعنوانی کے خلاف تحقیقات سے ختم ہو گیا۔[24] اردگان نے گولن پر الزام لگایا کہ وہ ان تحقیقات کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔ اس وقت گولن ترکی کے سب سے زیادہ مطلوب شخص ہیں اور ان پر ترکی میں ہونے والی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔[25][26] ترکی کی ایک عدالت نے گولن کے خلاف گرفتاری کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔[27][28] ترکی نے امریکا سے گولن کی ملک بدری کا بھی مطالبہ کیا ہے۔[20][29][30] تاہم اہم امریکی شخصیات کے خیال میں گولن کا کسی طور کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں۔[31][32][33]

سوانح[ترمیم]

فائل:Fethullah Gülen'in gençliği.png
نوجوان گولن

گولن کی پیدائش ارض روم کے قریب کرکوک کے گاؤں میں ہوئی۔[34] ان کے والد رمیض گولن ایک امام تھے۔[10] مصطفیٰ کمال کی حکومت کی طرف سے مذہبی تعلیم کی ممانعت کے باوجود ان کی والدہ گاؤں کے بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں۔[35] گولن نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی شروع کی مگر جلد ہی ان کا خاندان نقل مکانی کر گیا۔[36] انھوں نے ارض روم کے مدارس سے تعلیم حاصل کی اور پہلا رسمی خطاب 14 سال کی عمر میں کیا۔[37] گولن سعید نورسی کے خیالات سے متاثر تھے۔[38]

خاقان یاوُز کے مطابق اگر گولن اور نورسی سے متاثر رسالہ نور یا نور تحریک کے پیروکاروں کا مقابلہ کیا جائے تو گولن اپنی سوچ سے زیادہ ترک قوم پرست ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں ریاست پر زیادہ اعتبار ہے اور معاشی پالیسیوں کے بارے زیادہ سوچتے ہیں۔[39]

ان کے تجارت کے حق میں ہونے کی وجہ سے کئی لوگ[کون؟] ان کی تعلیمات کو اسلام کی کالوینیت شمار کرتے ہیں۔[40] اوکسفرڈ انالیٹیکا کے مطابق:

"گولن نے نورسی کے خیالات کو عملی شکل تب دی جب وہ ازمیر کی ایک مسجد کو 1966 میں منتقل ہوئے۔ ازمیر وہ شہر ہے جہاں سیاسی اسلام کبھی جڑ نہیں پکڑ سکا۔ تاہم کاروباری اور ماہرِ فن افراد پر مشتمل مڈل کلاس حکومتی پابندیوں سے اکتائی ہوئی تھی کہ انھیں پوری طرح کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ انھیں تاجر دوست پالیسیاں پسند تھیں اور کسی حد تک قدامت پرست زندگی کے طور طریقے بھی۔ یہ لوگ زیادہ تر مغرب اور بالخصوص امریکا سے متاثر تھے کہ ان کے اصرار پر 1950 میں ترکی میں پہلی بار آزادانہ انتخابات ہوئے۔ امریکی امداد سے ان کی معاشی ترقی کی رفتار بڑھی۔"[41]

گولن رسمی تبلیغی ذمہ داریوں سے 1981ء میں الگ ہوئے۔ 1988ء سے 1991ء تک انھوں نے بڑے شہروں کی مقبولِ عام مساجد میں خطبے دیے۔ 1994ء میں انھوں نے ‘صحافیوں اور لکھاریوں کی فاؤنڈیشن‘ بنائی[42] اور خود اس کے اعزازی صدر مقرر ہوئے۔[43] انھوں نے 1998ء میں ویلفیئر پارٹی کی تحلیل[44] یا 2001ء میں ورچو پارٹی کی تحلیل پر بھی کوئی تبصرہ نہ کیا۔‎[45] انھوں نے تانسو چیلر اور بلند اجود سے ملاقاتیں تو کیں مگر اسلامی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ہمیشہ کنارہ اختیار کیا۔[45]

1999ء میں گولن علاج کی غرض سے امریکا منتقل ہوئے۔[46] اندازہ ہے کہ انھیں اپنی کہی ہوئی بات سے پیدا ہونے والی مشکلات کا اندازہ تھا (یہ بات ان کی روانگی کے بعد ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی) اور ان کی یہ بات ایک اسلامی ریاست کے حق میں محسوس کی گئی۔[47] جون 1999ء کو گولن کی ترکی سے روانگی کے بعد بعض ترک ٹیلی ویژن چینلوں کو وڈیو ٹیپیں بھیجی گئیں جن میں گولن کو یہ کہتے سنا گیا:

"موجودہ نظام ابھی تک چل رہا ہے۔ ہمارے دوست جو مقننہ اور انتظامیہ میں موجود ہیں، وہ اس سے سبق سیکھیں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ اس نظام کو کیسے بدلا جا سکتا ہے تاکہ پورے ملک میں یہ نظام کیسے اسلام کے حق میں بدلا جا سکتا ہے۔ تاہم انھیں حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ یعنی ہمیں باہر نکلنے میں عجلت نہیں کرنی چاہیے۔"[48]

تاہم گولن کا اصرار ہے کہ ان کی باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا[49] اور ان کے حامیوں نے ان ٹیپوں کے مصدقہ ہونے پر بھی سوال اٹھائے[50] کیونکہ گولن نے ان ٹیپوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا تھا۔ گولن پر ان کی غیر حاضری میں 2000ء میں مقدمہ چلایا گیا اور 2008ء میں نئی جماعت انصاف و ترقی (اے کے پی) کی حکومت اور وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان کے دور میں انھیں الزامات سے باعزت بری کر دیا گیا۔[46][51]

گولن نے 2001 میں امریکا کا گرین کارڈ حاصل کیا۔[52]

19 دسمبر 2014 کو گولن کے حامی ایک میڈیا سے وابستہ 20 صحافیوں کی گرفتاری کے بعد ترک عدالت نے گولن کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔ گولن پر الزام تھا کہ انھوں نے ‘مسلح دہشت گرد گروپ‘ بنایا اور اسے چلا رہے ہیں۔[53]

عقائد[ترمیم]

گولن کسی نئے عقیدے پر عمل پیرا نہیں ہوتے بلکہ وہ اس حوالے سے پرانے اسلامی نظریات اور ان کی سوچ کو آگے بڑھاتے ہیں۔[54] اسلام کے بارے ان کے خیالات معتدل اور مقبول ہیں۔[55][56] اگرچہ وہ کبھی صوفی طریقت کے رکن نہیں رہے اور نہ ہی طریقت میں شمولیت کو مسلمانوں کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، بلکہ ان کے خیال میں ‘صوفی ازم اسلام کے اندر ایک سمت ہے اور بیرونی اور اندرونی سمتوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔[57]

ان کی تعلیمات میں دیگر اسلامی علما سے دو طرح سے فرق ہیں اور دونوں کا تعلق قرآن کی مخصوص آیات کے ترجمے سے ہے۔ ان کی تعلیمات کے مطابق ‘مسلمانوں کو اجتماعی اور ریاستی بھلائی کے لیے خدمت کرنی چاہیے[58] اور اس کا دائرہ دنیا بھر[59] کے مسلمانوں اور غیر مسلم تک پھیلانا چاہیے[60] اور دوسرا یہ بھی کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہلِ کتاب (یہودی اور مسیحی)، دیگر مذاہب اور ملحدوں اور لادین افراد سے بھی سے مکالمہ کریں۔

سرگرمیاں[ترمیم]

گولن تحریک بین الاقوامی سطح پر شہری معاشرتی تحریک ہے جو گولن کی تعلیمات سے متاثر ہے۔ ان کی تعلیمات میں ہزمت (عام بھلائی کے لیے کی گئی خدمت) کو نہ صرف ترکی بلکہ وسطی ایشیا کے علاوہ دنیا کے دیگر علاقوں سے بھی مقبولیت مل رہی ہے۔

تعلیم[ترمیم]

اپنے خطبات میں گولن کو بار بار کہتے سنا گیا: ‘طبیعیات، ریاضی اور کیمسٹری کی تعلیم حاصل کرنا دراصل عبادت کے مترادف ہے۔‘ گولن کے پیروکاروں نے دنیا بھر میں 1٫000 سے زیادہ تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔ ترکی میں گولن کے تعلیمی ادارے بہترین شمار ہوتے ہیں: ان میں جدید ترین سہولیات مہیا کی جاتی ہیں اور انگریزی زبان پہلی جماعت سے پڑھائی جاتی ہے۔ تاہم گولن کے پیروکاروں سے ہٹ کر دیگر سابقہ اساتذہ نے گولن تعلیمی اداروں میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور بتایا ہے کہ خواتین اساتذہ کو تنظیمی معاملات سے دور رکھا جاتا ہے اور انھیں محدود آزادی ہوتی ہے اور چھٹی جماعت اور اسے آگے تمام لڑکیوں کو لڑکوں اور مرد اساتذہ سے وقفوں اور کھانے کے دوران الگ رکھا جاتا ہے۔

بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمہ[ترمیم]

گولن تحریک کے شرکا نے دنیا بھر میں بہت سارے ادارے قائم کیے ہیں جو بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالموں کو ترویج دیتے ہیں۔ بعض علما کے برعکس گولن یہودیوں اور مسیحیوں کے متعلق مثبت جذبات رکھتے ہیں اور سامیت دشمنی کے خلاف ہیں۔ 1990 کی دہائی میں انھوں نے بین المذاہب برداشت اور مکالمے کی حمایت شروع کر دی۔ وہ خود ذاتی طور پر دیگر مذاہب کے بڑوں بشمول پوپ جان پال دوم، یونانی آرتھوڈکس چرچ کے سربراہ اور اسرائیلی سیفارڈک بڑے ربی ایلی یاہو بکشی ڈرون سے بھی ملاقات کی۔

گولن کے بقول وہ نہ صرف مختلف مذاہب کے درمیان بلکہ مذاہب اور لادینیت کے درمیان تعاون کے حامی ہیں۔

گولن نے ترکی کے علوی باشندوں کے چند مطالبات کی طرف ہمدردی دکھائی دیتی ہے جن میں ان کی عبادت گاہوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جانا اور سنیوں اور علویوں کے درمیان بہتر تعلقات اہم ہیں۔

عصرِ حاضر کے امور پر خیالات[ترمیم]

لادینیت[ترمیم]

گولن نے ترکی میں لادینیت پر تنقید کی ہے اور اسے محض مادیت پرستی کہا ہے۔ تاہم ماضی میں ان کا خیال تھا کہ لادینیت کا مطلب مذہب کی مخالفت نہیں ہے اور یہ بھی کہ مذہب اور عقائد کی آزادی اسلام میں موجود ہے۔

گولن کی پریس ریلیز کے مطابق جمہوری لادین ممالک میں 95 فیصد اسلامی شعائر پر عمل کیا جا سکتا ہے اور اس سے کوئی مسئلہ نہیں کھڑا ہوتا۔ باقی پانچ فیصد پر لڑائی کی ضرورت نہیں۔

ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت بارے[ترمیم]

گولن نے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے ارادے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔

خواتین کا کردار[ترمیم]

اراس اور جاہا کے مطابق گولن خواتین کے متعلق ‘ترقی پسندانہ‘ خیالات رکھتے ہیں۔ گولن کے مطابق، اسلام کی آمد نے خواتین کو تحفظ دیا ہے اور اسلام کے ابتدائی دور میں نہ تو خواتین گھروں تک محدود کر دی گئی تھیں اور نہ ہی انھیں دبایا جاتا تھا۔ تاہم ان کے خیال میں ضرورت سے زیادہ حقوقِ نسواں کی جماعتیں وغیرہ نامناسب ہیں اور ان کا اختتام مردوں سے نفرت پر منتج ہوتا ہے۔

دہشت گردی[ترمیم]

گولن نے دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ وہ شہریوں کے خلاف تشدد اور جارحیت کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ انھوں نے 11 ستمبر کے حملوں کے خلاف 12 ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ‘مسلمان کبھی دہشت گرد نہیں ہو سکتا اور نہ ہی دہشت گرد کبھی سچے مسلمان ہو سکتے ہیں۔‘ گولن نے دہشت گردوں کی جانب سے اس فعل کو اسلام پر حملہ قرار دیا۔

غزہ فلوٹیلا[ترمیم]

گولن نے اسرائیل کی اجازت کے بغیر ترکی کی جانب سے غزہ کو بحری بیڑا بھیجنے پر تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس پر اسرائیلی حملے کو خبروں میں دیکھا تھا۔ اس حملے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی۔ انھوں نے منتظمین سے اسرائیل سے پیشگی اجازت نہ لینے پر کڑی تنقید کی۔

شامی خانہ جنگی[ترمیم]

گولن نے ترکی کی جانب سے شام کی خانہ جنگی میں شمولیت کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ گولن شامی صدر کو ہٹانے کے لیے ترک حکومت کے اقدامات کی مذمت کی ہے مگر وہ آئی ایس آئی ایس کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں ہیں۔

ترک معاشرے اور سیاست پر اثر[ترمیم]

گولن کی تحریک کو ہزمت یا جماعت کہا جاتا ہے اور لاکھوں افراد اس کے پیروکار ترکی میں اور ترکی سے باہر بھی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترک کی پولیس اور عدلیہ میں گولن کے حامی خاصا اثر رکھتے ہیں۔ ترک اور غیر ملکی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ترک پارلیمان میں بھی گولن کے حامی مجوود ہیں اور یہ تنظیم قدامت پسند زمان اخبار بھی چلاتی ہے۔ اس کے علاوہ آسیہ بینک، سمان یولو ٹیلی ویژن سٹین اور دیگر بہت سارے میڈیا کے ادارے بھی شامل ہیں۔ مارچ 2011 میں ترک حکومت نے ایک تحقیقاتی صحافی احمت شِک کو گرفتار کیا اور اس کی کتاب ‘امام کی فوج‘ کو ضبط کر کے اس پر پابندی عائد کر دی۔ اس طرح گولن اور گولن کی تحریک سے متعلق شِک کی تحقیقات انجام کو پہنچیں۔

2005 میں گولن کی تحریک سے منسلک ایک فردایک پارٹی کے دوران امریکی سفیر کے پاس پہنچا اور انھیں ایک لفافہ تھمایا جس میں مبینہ فوجی بغاوت کی تفصیل درج تھی۔ تاہم جلد ہی تصدیق ہو گئی کہ یہ کاغذات جعلی تھے۔ گولن کے حامیوں نے بتایا کہ ان کی تحریک شہری نوعیت کی ہے اور اس کے کوئی سیاسی عزائم نہیں۔

اردگان سے علیحدگی[ترمیم]

گولن اور ان کے پیروکار دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی تحریک سیاسی نہیں مگر تجزیہ نگاروں کے مطابق ترک وزیرِ اعظم کے قریبی حلقوں سے بدعنوانی کے خلاف کی جانی والی گرفتاریاں دراصل گولن اور اردگان کے مابین طاقت کی کشمکش تھی۔ ان گرفتاریوں کا نتیجہ 2013 میں ترک بدعنوانی سکینڈل کی صورت میں نکلا جس میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے حامیوں اور مخالفین، دونوں نے الزام لگایا کہ یہ سب گولن کے کہنے پر ہو رہا ہے۔ دسمبر 2013 میں اردگان نے اس تحریک کے زیادہ تر پرائیوٹ اسکولوں کو ترکی بھر میں بند کر دینے کا حکم جاری کیا۔

اردگان حکومت نے بتایا ہے کہ بدعنوانی تحقیقات کا اصل مقصد گولن کا سیاسی ایجنڈا ہے تاکہ وہ دفاع، خفیہ ایجنسیوں اور انصاف کے محکموں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ تقریباً یہی الزامات گولن پر 2000 کے مقدمے کے دوران بھی لگائے گئے تھے جب اردگان حکومت میں آ رہے تھے۔ 2000 میں گولن کی غیر حاضری میں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور 2008 میں اردگان کی حکومت نے ان الزامات کو خارج کر دیا تھا۔

جنوری 2014 میں گولن نے وال سٹریٹ جرنل کو ای میل میں تبصرہ کیا: ‘ترک عوام پچھلے دو سالوں سے جمہوریت کو الٹے قدموں پھرتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو رہے ہیں‘۔ تاہم انھوں نے حکومت کے خلاف کسی بھی سازش میں حصہ لینے سے انکار کیا۔ بعد ازاں جنوری 2014 میں بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو کے دوران گولن نے کہا: ‘اگر میں لوگوں کو کچھ کہوں تو وہ یہ ہوگا کہ کہ آپ ان لوگوں کو ووٹ دیں جو جمہوریت، قانون کی بالادستی اور ساتھ چلنے والے لوگ ہوں۔ لوگوں کو کسی امیدوار یا کسی پارٹی کو ووٹ ڈالنے کا کہنا ان کی بے عزتی ہوگی۔ ہر انسان بخوبی جانتا ہے کہ اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔‘

2016 کی ترک بغاوت[ترمیم]

ترک حکومت کے مطابق 15 جنوری 2016 کی بغاوت گولن کی تیار کردہ تھی۔

کتب[ترمیم]

گولن کی اپنی ویب سائٹ میں ان کی 44 کتب کا ذکر ملتا ہے۔ تاہم یہ کتب سے زیادہ خطبات اور مضامین کے مجموعے لگتے ہیں جو کسی خاص موضوع پر لکھے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے بہت سارے موضوعات پر مقالے بھی لکھے ہیں جن میں معاشرتی، سیاسی اور مذہبی امور کے علاوہ فن، سائنس اور کھیل بھی شامل ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں صوتی اور بصری کیسٹیں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی فاؤنٹین، یعنی امیت وغیرہ جیسے مذہبی رسالوں میں اہم مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ ان کی کئی کتب کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔

  • پیغمبرِ خدا: محمد
  • قرآن کی تعلیمات: منتخب آیات کی تشریح
  • عالمی تہذیب، مذہب اور برداشت
  • بیج سے تن آور درخت تک: بچوں کی روحانی ضروریات کی تکمیل
  • دہشت گردی اور خود کش حملے: اسلامی نکتہ نظر
  • قابلِ عزت افراد تک کا سفر: قلب سے نکلی ذہانت کے قطرے
  • تقریر اور بیان کی طاقت
  • حضرت محمد کی منتخب دعائیں

اعزازات[ترمیم]

مارٹن لوتھر کنگ جونیر کے بین الاقوامی چیپل جو مور ہاؤس کالج میں ہے، نے 2015 میں گولن ک وگاندھی کنگ آئیکیڈا امن انعام دیا جو ان کی طرف سے امن کی تاحیات کوششوں کے اعتراف میں تھا۔

گولن 2008 میں دنیا کے سو عقلمند ترین انسانوں میں سرِ فہرست آئے اور انھیں سب سے زیادہ پراثر مفکر کہا گیا۔

گولن کو 2013 میں دنیا کی سو اہم ترین شخصیات میں سے ایک کہا گیا۔

2015 میں اوکلوہاما سٹی تھنڈر کے باسکٹ بال کھلاڑی اینس کینٹر نے دعویٰ کیا کہ انھیں باسکٹ بال کی قومی ٹیم سے محض اس لیے نکالا گیا کہ وہ گولن کے پرزور حامی تھے۔

گولن کو رائل اسلامک سٹرٹیجک سٹڈیز سینٹر، عمان، اردن نے دنیا کی 500 اہم ترین مسلمان شخصیات میں سے ایک قرار دیا۔

امن کے رنگ البم[ترمیم]

گولن کی شاعری اور تحریروں کو گانوں کی شکل میں پیش کرنے کے لیے ایک منصوبہ ‘امن کے رنگ‘ کے نام سے شروع کیا گیا۔ کچھ منتخب مجموعہ جات انگریزی میں ترجمہ کیے گئے۔ کل 50 نظمیں مسلم اور غیر مسلم گلوکاروں کو بھیجے گئے اور انھیں اجازت دی گئی کہ وہ انھیں اپنی مرضی سے جیسے چاہیں، گانوں کی شکل میں پیش کر سکتے ہیں اور پھر انھیں ایک البم کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ دو سال سے زیادہ عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور نیل پروڈکشن اور یونیورسل میوزک نے اسے پیش کیا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/gulen-fethullah — بنام: Fethullah Gülen
  2. Diamond Catalogue ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/4503 — بنام: Mohammad Fethullah Gülen
  3. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000028535 — بنام: Fethullah Gülen — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. Adis Duderija (2014)۔ Maqasid al-Shari’a and Contemporary Reformist Muslim Thought: An Examination۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015۔ Still, Gulen repeatedly states that he propagates neither tajdīd, nor ijtihād, nor reform and that he is just a follower of Islam, simply a Muslim. He is very careful about divorcing himself from any reformist, political, or Islamist discourse. Gulen's conscious dislike of using Islam as a discursive political instrument, which was a distinct trait in Nursi as well, indicates an ethicalized approach to Islam from a spiritual perspective. 
  5. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14500316s — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  6. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/137583203
  7. Erol Nazim Gulay, The Theological thought of Fethullah Gulen: Reconciling Science and Islam (St. Antony's College Oxford University May 2007). p. 57
  8. ^ ا ب Erol Nazim Gulay (May 2007)۔ "The Theological thought of Fethullah Gulen: Reconciling Science and Islam" (PDF)۔ St. Antony's College Oxford University۔ صفحہ: 56۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015 
  9. ^ ا ب "Fethullah Gülen's Official Web Site - Fethullah Gülen in Short"۔ En.fgulen.com۔ 2009-09-30۔ 15 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  10. ^ ا ب Helen Rose Fuchs Ebaugh, The Gülen Movement: A Sociological Analysis of a Civic Movement Rooted in Moderate Islam, p 26. ISBN 1-4020-9894-4
  11. "Fethullah Gülen's Official Web Site - Gülen's Works"۔ En.fgulen.com۔ 11 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  12. Dan Bilefsky، Sebnem Arsu (2012-04-24)۔ "Turkey Feels Sway of Fethullah Gulen, a Reclusive Cleric"۔ نیو یارک ٹائمز۔ ISSN 0362-4331۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مارچ 2016 
  13. "Photos: Muslim retreat center in Saylorsburg"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015 
  14. Los Angeles Times (20 January 2014)۔ "From his Pa. compound, Fethullah Gulen shakes up Turkey"۔ latimes.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015 
  15. Adam Taylor (18 December 2013)۔ "Fethullah Gulen's Pennsylvania Home - Business Insider"۔ Business Insider۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015 
  16. ^ ا ب "How far they have travelled"۔ دی اکنامسٹ۔ 6 March 2008۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2012 
  17. Fethullah Gulen (Author) (2010-03-16)۔ "Toward a Global Civilization of Love and Tolerance"۔ Amazon.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  18. "Profile: Fethullah Gulen's Hizmet movement"۔ BBC News۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2015 
  19. "Turkey challenged by terror in 2015"۔ TRT World (بزبان ترکی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جنوری 2016 
  20. ^ ا ب "Gulen faces life in prison on coup attempt charges"۔ TRT World (بزبان ترکی)۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016 
  21. "Turkey: Erdogan faces new protests over corruption scandal"۔ Digital Journal۔ 28 December 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2013 
  22. "İstanbul'da yolsuzluk ve rüşvet operasyonu"۔ 17 December 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2016 
  23. "Profile: Fethullah Gulen's Hizmet movement"۔ بی بی سی نیوز۔ 18 December 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2013 
  24. "The Gulen movement: a self-exiled imam challenges Turkey's Erdoğan"۔ The Christian Science Monitor۔ 29 December 2013۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2013 
  25. "Turkey issues list of most 'wanted' terrorists"۔ Anadolu Agency۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016 
  26. "Turkey puts Fethullah Gulen on most-wanted terrorist list"۔ International Business Times UK۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016 
  27. "Istanbul court issues new arrest warrant for Gulen"۔ Anadolu Agency۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016 
  28. "Turkish Court accepts prosecutors request of arrest warrant for Fethullah Gülen"۔ DailySabah۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016 
  29. "Turkey to demand extradition of Fethullah Gulen from US"۔ TRT World (بزبان ترکی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016 
  30. "Turkish prosecutors seek life sentence for Fetullah Gulen"۔ Anadolu Agency۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2016 
  31. "Prof. Dr. Henri Barkey: Nobody in Wash,DC believes that Gulen is terrorist"۔ aktif haber۔ 9 March 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مارچ 2016 
  32. "How does Washington view Gulen group"۔ medyascope.tv۔ 9 March 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مارچ 2016 
  33. "Turkey challenged by terror in 2015"۔ TRT World (بزبان ترکی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اپریل 2016 
  34. M. Hakan Yavuz, John L. Esposito, Turkish Islam and the Secular State: The Gülen Movement, p. 20
  35. Helen Rose Fuchs Ebaugh, The Gülen Movement: A Sociological Analysis of a Civic Movement Rooted in Moderate Islam, p. 24. ISBN 1-4020-9894-4
  36. "Gulen-Years of Education"۔ fgulen.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2014 
  37. "Who is Fethullah Gülen? - Early Life"۔ hizmetmovement.blogspot.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2014 
  38. "The Gulen Movement: Communicating Modernization, Tolerance, and Dialogue in the Islamic World."۔ The International Journal of the Humanities۔ Ijh.cgpublisher.com۔ صفحہ: 67–78۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  39. Religioscope – JFM Recherches et Analyses۔ "Religioscope: The Gülen Movement: a modern expression of Turkish Islam – Interview with Hakan Yavuz"۔ Religion.info۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  40. "| Qantara.de – Dialogue with the Islamic World"۔ En.qantara.de۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  41. "Gulen Inspires Muslims Worldwide"۔ Forbes۔ 21 January 2008۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2016 
  42. "The Journalists and Writers Foundation"۔ 17 نومبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2016 
  43. "About the Journalists and Writers Foundation"۔ 14 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2016 
  44. "آرکائیو کاپی"۔ 12 دسمبر 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2016 
  45. ^ ا ب "Clement M. Henry, Rodney Wilson, The politics of Islamic Finance, Edinburgh University Press (2004), p 236"۔ Eupjournals.com۔ 1970-01-01۔ 22 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  46. ^ ا ب
  47. "Turkish investigation into Islamic sect expanded"۔ BBC News۔ 21 June 1999۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2010 
  48. "Clement M. Henry, Rodney Wilson, ''The Politics of Islamic Finance'', (Edinburgh University Press 2004), p. 236"۔ Eupjournals.com۔ 1970-01-01۔ 22 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  49. "Gülen's answers to claims made based on the video tapes taken from some of his recorded speeches"۔ En.fgulen.com۔ 2001-09-24۔ 03 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  50. Dogan Koc, Strategic Defamation of Fethullah Gülen: English Vs. Turkish, p. 24. ISBN 0-7618-5930-6
  51. "آرکائیو کاپی"۔ 27 ستمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2016 
  52. "Turkey issues Fethullah Gulen arrest warrant"۔ BBC۔ 2014-12-19۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2014 
  53. Erol Nazim Gulay, The Theological thought of Fethullah Gulen: Reconciling Science and Islam (St. Antony's College Oxford University May 2007). p. 1
  54. "آرکائیو کاپی"۔ 06 فروری 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جولا‎ئی 2016 
  55. "Portrait of Fethullah Gülen, A Modern Turkish-Islamic Reformist"۔ Qantara.de۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  56. Guest Editor Zeki Saritoprak (Editor) (2005-01-01)۔ "Thomas Michel S.J., ''Sufism and Modernity in the Thought of Fethullah Gülen'', The Muslim World, Vol. 95 No. 3, July 2005, pp. 345-5"۔ Amazon.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  57. Mehmet Kalyoncu, A Civilian Response to Ethno-Religious Conflict: The Gülen Movement in Southeast Turkey (Tughra Books, 2008), pp. 19–40۔ Books.google.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  58. Guest Editor Zeki Saritoprak (Editor) (2005-01-01)۔ "Saritoprak, Z. and Griffith, S. Fethullah Gülen and the 'People of the Book': A Voice from Turkey for Interfaith Dialogue, The Muslim World, Vol. 95 No. 3, July 2005, p.337-8"۔ Amazon.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014 
  59. Berna Turam۔ "Berna Turam, Between Islam and the State: The Politics of Engagement (Stanford University Press 2006) p. 61"۔ Sup.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2014