ڈاونچی کوڈ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ڈاونچی کوڈ
(انگریزی میں: The Da Vinci Code ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کتاب کا سررق

مصنف ڈین براؤن
زبان انگریزی
اصل زبان انگریزی
ملک امریکا
ادبی صنف سازشی فکشن،  سراغ رسانی فکشن،  جرم فکشن،  سنسنی خیز  ویکی ڈیٹا پر (P136) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناشر ڈبل ڈے (امریکا)
تاریخ اشاعت اپریل 2003ء
صفحات
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فرشتے اور شیطان،  ڈیسپشن پوائنٹ  ویکی ڈیٹا پر (P155) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دی لوسٹ سمبل  ویکی ڈیٹا پر (P156) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

دی ڈاونچی کوڈ 2003ء میں امریکی مصنف ڈین براؤن کا تحریر کردہ ایک پراسرار جاسوسی ناول ہے۔ اس سے قبل وہ اس سلسلہ کا پہلا ناول اینجلز اینڈ ڈیمنز تحریر کرچکے ہیں اور اس ناول کے بعد اسی تسلسل میں ان کے دو مزید ناول دی لوسٹ سمبل اور انفرنو بھی منظر عام پہ آ چکے ہیں۔ اس سلسلے کے علاوہ ان کے دو ناول ڈیسپشن پوائنٹ اور ڈیجیٹل فوٹریس بھی شائع ہوئے ہیں۔

ناول ڈاونچی کوڈ کا آغاز ناول کے کردار ماہرِ علم علامیات رابرٹ لینگڈن اور ماہرِ علمِ رمزیات سوفی نیویو کے پیرس لُؤرے میوزیم میں ہوئے ایک قتل کی تحقیقات سے ہوتا ہے، یہ تحقیقات انھیں اپوس دئی اور صیون کی خانقاہ کے درمیان میں ہونے والی سرد جنگ تک لے جاتی ہیں، ان دونوں تنظیموں کے درمیان میں یہ جنگ ان امکانات پر تھی کہ شاید یسوع نے میری میگڈالین سے شادی کی تھی۔

اس ناول کی ابتدا میں قتل ہونے والا شخص پیرس کے لؤرے میوزیم کی گرینڈ گیلری میں برہنہ پایا جاتا ہے اور وہ لیونارڈو ڈاونچی کی مشہور ڈرائنگ، دی ووٹرین مین (عہد اگسٹس کے رومی معمار وٹروویس کی طرز کا انسان)، جیسے انداز میں پڑا تھا، اس کے سینے پر ایک پانچ کونے والا تارہ اس کے اپنے خون سے بنا ہوا تھا اور اس کے جسم کے علاوہ زمین پر ایک پراسرار پیغام، ایک کوڈ بھی تحریر پایا جاتا ہے۔

ناول متبادل مذہبی تاریخ کی ریسرچ پر مشتمل ہے، جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے میری میگڈالین سے شادی کی تھی اور فرانس کے مروونژی بادشاہ کا خاندان دراصل یسوع مسیح اور میری میگڈالین کی اولاد سے تھا، ناول کے مرکزی خیالات کلائیو پرنس کے ناول دی ٹیمپلر ریویلیشن (1997ء) اور مارگریٹ اسٹاربرڈ کی کتابوں کے علاوہ کتاب ہولی بلڈ اینڈ ہولی گریل (مقدس خون اور مقدس جامِ مسیح) (1982ء) سے بھی لیے گئے ہیں۔

ناول پر تنازع[ترمیم]

مصنف ڈین براؤن کے اس ناول میں مذہبی تاریخ، یورپی ثقافت اور آرٹ کی دنیا سب شامل ہیں اور یہ ایک سنسنی خیز کہانی ہے جو پیرس کے مشہور میوزیم لوؤر میں ہونے والے ایک قتل سے شروع ہوتی ہے۔ قتل ہونے والا شخص ژاک سونئیر لوؤر میں آرٹ کا ایک اہم ماہر تھا اور مرنے سے پہلے وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر روبرٹ لینگڈن کے لیے ایک پیغام چھوڑتا ہے۔ لینگڈن کو شک ہوتا ہے کہ سونئیر ایک قدیم خفیہ سوسائٹی کا فرد تھا اور اس کو اسی وجہ سے قتل کیا گیا۔ اس معما کو حل کرنے میں اس کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے اور وہ مختلف ممالک میں چھپتا پھرتا ہے۔ کتاب میں صدیوں پرانی خفیہ سوسائٹی کا مرکزی خیال یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے میری میگڈالین سے شادی کر لی تھی اور ان کی نسل آج بھی زندہ ہے۔ ناول ایک بہت ہی تیزی سے آگے بڑھنے والے تھِرلر کے انداز میں لکھا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لوگوں میں اتنا مقبول ہوا ہے۔ لیکن ہر لمحہ سسپنس پیدا کرنے والے اس ناول کی ایک اور خاص بات ہے: اس میں یورپی تاریخ اور ثقافت کا اہم کردار اہے اور کئی تاریخی مقامات کو ایک نئی روشنی میں دیکھا گیا ہے۔[1]

کلیسائے روم کو چونکانے والی کئی چیزیں اس کہانی میں شامل ہیں۔ اول تو کلیسائے روم کی ایک بنیاد پرست اور انتہائی امیر فرقے ’اوپس ڈئی‘ کے بارے میں بہت تفصیل بتائی گئی ہے۔ دوسرا یہ کہ کہانی میں بتایا گیا ہے ویٹیکن اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے حضرت عیسیٰ کی زندگی کے بارے میں ہر نئی تحقیق کو دبانے کی کوشش کرتی ہے چاہے اس کوشش میں کسی کو ہلاک بھی کرنا پڑے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ’دا وِنچی کوڈ‘ میں صدیوں پرانی خفیہ سوسائٹی کا یہ مرکزی خیال کہ حضرت عیسی نے میری میگڈالین سے شادی کر لی تھی اور ان کی نسل آج بھی زندہ ہے۔ ناول میں بتایا گیا ہے کہ مشہور اطالوی مصور لیوناردو دا وِنچی کا بھی اس خفیہ سوسائٹی سے تعلق تھا اور ان کی زیادہ تر پینٹنگز میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔ کتاب میں ہر موڑ پر کوئی چیز ’کوڈ‘ میں ملتی ہے اور لینگڈن اور سونئیر کی نواسی اس کو مل کر بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دونوں یورپ کے ایک تاریخی مقام سے دوسرے کی طرف بھاگتے پھرتے ہیں جن میں لندن کے ویسٹمنسٹر ایبی اور سینٹ پالز کیتھیڈرل اور پیرس کے ساکرا کیغ شامل ہیں۔[1]

ناول میں مقدس جامِ مسیح (ہولی گریل) کی روایت اور مسیحیت کی تاریخ میں میری میگڈالین کے کردار کے بارے میں کی گئیں قیاس آرائی کو بڑے پیمانے پر رومن کیتھولک چرچ پر حملے کے طور پر کئی مسیحی فرقوں کی طرف سے مذمت کی گئی ہے، اس ناول کو تاریخی اور سائنسی غلط بیانی کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ناول باوجود دنیا بھر میں مذمت کے بیسٹ سیلر بن گیا اور 2009ء تک اس ناول کی 80 ملین کاپیاں فروخت اور 44 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ 2006ء میں اس ناول پر ایک فلم بھی بنائی گئی جس پر مسیحی فرقوں اور کلیسا کی جانب سے بڑی مذمت ہوئی۔۔[2]

کردار[ترمیم]

ناول کے کردار[ترمیم]

رابرٹ لینگڈن: (مرکزی کردار) ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر، جو مذہبی، علامات، اشارات، شبیہوں کے علم کے ماہر ہیں۔

ژاک ساؤنیرے: پیرس کے لوؤر میوزیم کا مہتمم اور خفیہ طور پر صیون کے خانقاہ کا گرینڈ ماسٹر، سوفی نیویو کا دادا۔

سوفی نیویو: ایک ماہرِ رمزیات، ساؤنیرے کی پوتی اور حضرت عیسی اور مریم میگڈالین کی وارث۔

بینزُو فاشے: ساؤنیرے قتل کیس کی تحقیقات کرنے والا فرانس کی مرکزی نظامت جوڈیشل پولیس کا کپتان،

سیلاس: برص نما زرد اور سفید رنگت رکھنے والا ایک مسیحی راہب، ساؤنیرے کا قاتل۔

مینوئل آرنیگاروسہ: کلیسائی پادری اور خفیہ تنظیم اوپس ڈئی کا رکن۔ سیلاس کا استاد۔

سسٹر سینڈرائن: سینٹ سلپائس چرچ کی راہبہ اور خفیہ تنظیم صیون کے خانقاہ کی چار میں سے ایک سرپرست، جو سیلاس کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔

اندرے ورنٹ: زیورخ ڈپازٹ بینک کے صدر،

سر لیہ ٹی بنگ: ایک برطانوی رائل مورخ، ہولی گریل پر تحقیق کرنے والے سکالر اور ہارورڈ کے پروفیسر رابرٹ لینگڈن کے دوست، جو خود بھی کیسٹون ہتھیانا چاہتے ہیں۔

ریمی لیگالوڈِک: لیہ ٹی بنگ کا بٹلر۔

جیروم کولیٹ: فرانس کی مرکزی نظامت جوڈیشل پولیس کے لیفٹیننٹ اور بینزُو فاشے کے نائب۔

میری چاؤیل سینٹ کلیر: روزلین چیپل کی گارجین، سوفی کی دادی اور ژاک ساؤنیرے کی بیوہ۔

پامیلا گیٹم:کنگز کالج میں مذہبی سیکشن کی لائبریرین، جو لائبریری کے ڈیٹابیس کے حصول میں رابرٹ کی مدد کرتی ہے۔

تاریخی کردار[ترمیم]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام:

مریم میگڈالین:

قسطنطینِ اعظم:

لیونارڈو ڈاونچی:

آئزک نیوٹن:

تنظیم و مقامات[ترمیم]

اپوس دئی: رومن کیتھلک سوسائٹی کی تنظیم جو مسیحی آدرشوں کے احیا کے لیے اسپین میں 1928ء میں قائم کی گئی۔

صیون کی خانقاہ: یورپ کی تنظیم جو 1099ء میں بنائی گئی۔ جسے 1956ء میں کالعدم کر دیا گیا۔ لیکن ناول کے مطابق آج بھی خفیہ طور پر جاری ہے۔

کہانی کا خلاصہ[ترمیم]

لُؤرے عجائب گھر کے مُہتمم اور صیون کی خانقاہ کے گرینڈ ماسٹر ژاک سونئیر کو میوزیم میں ایک رات گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے، ہلاک کرنے والا شخص سیلاس نامی برص نما سفید رنگت والا ایک کیتھولک راہب ہے جو صرف اپنے پادری کے حکم سے یہ کام کر رہا ہے، جسے ایک کیسٹون کی تلاش ہے جو حضرت عیسیٰ کے مقدس پیالہ کی تلاش کے لیے ایک اہم سراغ ہے۔

پولیس کو سونئیر کی لاش لیونارڈو ڈاونچی کی مشہور پینٹنگ ووٹیرین مین (عہد اگسٹس کے رومی معمار وٹروویس کی طرز کا انسان) کے انداز میں پڑی ملتی ہے، بالکل برہنہ اور اس کے سینے پر ایک پانچ کونے والا تارہ اس کے اپنے خون سے بنا ہوا ہوتا ہے اور اس کے جسم کے علاوہ زمین پر ایک پراسرار کوڈ بھی تحریر پایا جاتا ہے اور ساتھ ایک پیغام بھی کہ ’’پروفیسر رابرٹ لینگڈن کو ڈھونڈو‘‘۔

پروفیسر رابرٹ لینگڈن ان دنوں لیکچر کے سلسلے میں پیرس شہر میں ہی ہوتے ہیں، قتل کی تحقیقات کرنے والے پولیس کپتان بینزوُ فاشے، سونئیر کی زندگی کے آخری منٹ کے دوران میں چھوڑے خفیہ پیغام کی وضاحت میں مدد کے لیے رابرٹ لینگڈن کو طلب کرتے ہیں، فاشے کا کہنا تھا کہ سونئیر شیطان کا پجاری ہے مگر لینگڈن وضاحت کرتا ہے کہ پانچ کونی تارہ شیطان کی نہیں مقدس دیوی کی پرستش کی علامت ہے اور زمین پر لکھے نمبر فبونیسی ترتیب کا ایک کوڈ ہے۔

اسی دوران میں ایک رَمز نویس، سوفی نیویو اس تحقیقات پر پہنچتی ہے اور خفیہ طور پر وہ لینگڈن پر ظاہر کرتی ہے کہ وہ سونئیر کی پوتی ہے جو برسوں پہلے ان سے الگ ہو گئی تھی اور یہ کہ پولیس کپتان فاشے، اس کے دادا کے چھوڑے نوٹ ’’رابرٹ لینگڈن کو ڈھونڈو‘‘ کی وجہ سے لینگڈن کو قاتل سمجھتا ہے۔ جو فاشے نے لینگڈن کی آمد سے پہلے مٹا دیا تھا۔ سوفی کا خیال تھا کہ اس کا دادا کسی خفیہ ملحد گروپ میں ملوث تھا، تاہم وہ سمجھتی تھی کہ اس کے دادا نے آخری نوٹ اس ارادہ سے لکھا تھا کہ ان کے خفیہ کوڈ کو لینگڈن ہی سمجھ سکتا ہے۔

فبونسی کوڈ کی مدد سے لینگڈن کو میوزیم میں ایک چابی ملتی جو پیرس میں زیورخ بینک کی برانچ میں موجود ایک ڈپازٹ باکس کی ہے، سوفی اور لینگڈن پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو جاتے ہیں اور زیورخ بینک سے وہ ڈپازٹ باکس حاصل کر لیتے ہیں جس میں انھیں وہ کیسٹون ملتا ہے، ایک خفیہ تحریر کا مخطوطہ، سلینڈر کی مانند ایک چھوٹا سا باکس جس میں پانچ مساوی الابعاد گھومنے والے ڈائل نمبر ہیں، مناسب طریقے سے درست پاس ورڈ کی تشکیل ہی اسے کھول سکتی ہے، اس باکس میں ایک تیزاب سے بھری شیسی بھی ہے جو اس باکس کو زبردستی کھولنے سی ٹوٹ سکتی ہے اور اندر لکھے کوڈ کے کاغذ کو جلا سکتی ہے۔

لینگڈن، نیویو کے ساتھ اس کیسٹون کو لے کر اپنے دوست سر لیہ ٹی بنگ کے پاس پہنچتا ہے جو مقدس جامِ مسیح کے متعلق علم میں ماہر رہے ہیں۔ گفتگو کے دوران میں ٹی بنگ وضاحت کرتا ہے کہ مقدس جامِ مسیح ایک پیالہ نہیں بلکہ ایک شخصیت ہے ایک عورت، مریم میگڈالین جو حضرت عیسٰی کی بیوی تھی اور ان سے اولاد بھی ہوئیں، مگر کلیسا اس بات کو دبانا چاہتی ہے۔ اس دوران میں سیلاس ٹی بنگ کے گھر میں گھس کر کیسٹون حاصل کرنے کے لیے حملہ کرتا ہے، مگر ٹی بنگ کا ملازم بٹلر اس پر قابو پالیتا ہے اسی دوران میں پولیس لینگنڈن اور صوفی کو کھوجتی ہوئی ٹی بنگ کے گھر تک پہنچ جاتی ہے اور تینوں کو ٹی بنگ کے پرائیویٹ جہاز پر فرار ہونا پڑتا ہے۔

دورانِ پرواز صوفی اپنے دادا سے علیہدگی کے متعلق بتاتی ہے کہ دس سال پہلے جب صوفی یونیورسٹی سے غیر متوقع طور پر گھر پہنچی، تو اس نے چوری چُھپے اپنے دادا کو ان کے خفیہ تہ خانے میں کسی عورت کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پایا اور ان کے اردگرد ماسک پہنے ہوئے لوگ کسی دیوی کی تعریف میں کوئی منتر جاپ رہے تھے، وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے اور گھر سے فرار ہو کر سونئیر کے ساتھ تمام رابطے ٹوڑ دیتی ہے۔ لینگڈن اندازہ لگاتا ہے کہ وہ لوگ ہیروس گیموس یا "مقدس شادی" کی طرح کی ایک مذہبی رسم کر رہے تھے۔

لینگڈن کیسٹون پر صوفی کا نام کا ہجہ SOFIA تحریر کرتا ہے تو کیسٹون کھل جاتا ہے اس کے اندر ایک اور چھوٹا کیسٹون نکلتا ہے۔ اس میں ایک پہیلی بھی نکلتی ہے جسے سلجھانے پر لینگڈن کو پتا چلتا ہے کہ اگلا سراغ آئزک نیوٹن کے مقبرے پر ملے گا۔

جہاز کے ویسٹ منسٹر پہنچنے کے بعد لینگڈن پر انکشاف ہوتا ہے کہ ٹی بنگ بھی مقدس جامِ مسیح کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ وہ ویٹیکن کلیسا کو برباد کر سکے۔ اپنا راز کھلنے کے بعد ٹی بنگ بندوق کی نوک پر لینگڈن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ دوسرے کیسٹون کا پاس ورڈ حل کرے، مگر لینگڈن اس کیسٹون کو ٹی بنگ کے سامنے تباہ کر دیتا ہے مگر اس سے پہلے ہی وہ اس پاسورڈ کو حل کرچکا ہوتا ہے جو لفظ APPLE ہوتا ہے۔ عین موقع پر پولیس کپتان فاشے وہاں پہنچ کر ٹی بنگ کو گرفتار کر لیتا ہے اور لینگڈن بے گناہ ثابت ہوجاتا ہے۔

دوسری جانب سیلاس کی تلاش میں پولیس اوپس ڈئی کے ایک مرکز جاپہنچتی ہے جہاں وہ بشپ آرنگاروسہ جو سیلاس کو قتل کرنے کا استعمال کرتا ہے، کے پاس چھپا ہوتا ہے، حادثاتی طور پر گولی چلنے آرنگاروسہ زخمی ہوجاتا ہے اور سیلاس مارا جاتا ہے۔

دوسرے کیسٹون سے نکلے آخری پیغام کی مدد سے لینگڈن اور سوفی روزلین چیپل کی جانب جاتے ہیں جہاں انکشاف ہوتا ہے کہ روزلین کا استاد (ڈوسینٹ) سوفی کا گمشدہ بھائی ہے، سوفی کے دادا نے اسے جھوٹ کہا تھا کہ اس کے والدین اور بھائی برسوں پہلے کار حادثے میں مارے گئے۔ روزلین چیپل کی گارجین میری چاؤیل سینٹ کلیر سوفی کی دادی اور ژاک ساؤنیرے کی بیوہ ہیں۔ اور یہ سوفی یسوع مسیح اور مریم مگدلینی کے خاندان سے ہے اور صیون کے خانقاہ نامی خفیہ تنظیم نے اس کی زندگی کے لیے ممکنہ خطرات سے اس کی حفاظت کے لیے اس کی شناخت چھپا رکھا تھا۔

آخر میں لینگڈن پرانکشاف ہوتا ہے کہ روزلین چیپل کی طرح پیرس کی روزلین بھی اسی پہلی کا ایک اشارہ ہے، جو سیدھے لؤُرے میوزیم کی گلاس پرامڈ کے نیچے چھوٹے پرامڈ تک جاتی ہے اور حقیقی معنی میں مقدس جامِ مسیح یعنی مریم میگڈالین کی باقیات دراصل اسی پیرامڈ کے نیچے دفن ہیں۔ وہ اس پہیلی کو سلجھا چکا ہے مگر وہ اس کے بارے میں کسی پر ظاہر نہیں کر سکتا۔

ناول سے اقتباس[ترمیم]

لیونارڈو ڈا ونچی کی تصویر آخری عشائیہ (لاسٹ سپر) کی جزئيات

باب 55

لینگڈن کے پہلو میں دیوان پر بیٹھی سوفی نے چائے کا گھونٹ بھرا اور کیفین کے خوشگوار اثرات محسوس کرنے لگی۔ سرلیہ ٹی بنگ آتش دان کے سامنے ڈگمگاتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ ان کی ٹانگوں پر چڑھے آہنی شکنجے کی آواز پتھر کے فرش پر گونج رہی تھی۔

’’مقدس جام ‘‘ ٹی بنگ نے خطیبانہ لہجے میں کہا : ’’اکثر لوگ مجھ سے صرف اس کے مقام کے متعلق پوچھتے ہیں اور شاید اس کا جواب میں کبھی نہ دے پاؤں گا۔‘‘ وہ مڑا اور براہِ راست سوفی کی طرف دیکھا۔ ’’تاہم اس سے کہیں زیادہ متعلقہ سوال یہ ہے کہ مقدس جام ہے کیا؟‘‘

سوفی نے اپنے دونوں مرد ساتھیوں میں علمی تجسس پیدا ہوتے محسوس کیا۔ ’’جام کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے‘‘، ٹی بنگ نے بات جاری رکھی، ’’ہمیں پہلے بائبل کو سمجھنا چاہیے۔ تم عہدنامہ جدید کے متعلق کس حد تک جانتی ہو؟‘‘

سوفی نے کندھے اچکائے۔ ’’حقیقتاً کچھ بھی نہیں۔ دراصل میری پرورش ایسے شخص نے کی ہے جو لیونارڈو ڈاونچی کا پجاری تھا‘‘۔

ٹی بنگ بہ یک وقت متحیر اور مسرور دکھائی دیا۔ ’’ایک منور روح، شاندار۔ پھر تو تمھیں علم ہوگا کہ لیونارڈو ڈاونچی مقدس جام کے راز کے آشناؤں میں سے ایک تھا اور اس نے اپنے فن میں اس کے سراغ چھپائے تھے‘‘۔

اس حد تک رابرٹ نے مجھے بتایا ہے۔

’’اور عہدنامہ جدید کے متعلق ڈاونچی کے نظریات؟‘‘

’’مجھے کوئی اندازہ نہیں۔‘‘

ٹی بنگ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کمرے کے دوسرے سرے پر رکھے بُک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔’’رابرٹ، تم تکلیف کروگے؟ سب سے نیچے شیلف میں۔ لیونارڈو کی کہانیاں( La Storia di Leonardo)‘‘۔ لینگڈن کمرے کے دوسرے سرے پرگیا۔ ایک بڑی سی آرٹ کی کتاب ڈھونڈی اور واپس لاکر دونوں کے بیچ میز پر رکھ دی۔ کتاب کا رخ سوفی کی طرف گھماکر ٹی بنگ نے وزنی جلد کھولی اور پس ورق پر لکھے متعدد اقوال کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ڈاونچی کی یوں مکس اینڈ سپیکیولیشن کے دفتر سے ’’۔ اس نے خصوصاًایک قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ تمھیں موضوعِ گفتگو کے متعلق محسوس ہوگا۔‘‘

سوفی نے الفاظ پڑھے: ’’بہت سے لوگوں نے احمقوں کو دھوکا دیتے ہوئے جھوٹے معجزوں اور فریب کاریوں کی تجارت کی ہے۔‘‘ لیونارڈو ڈاونچی

’’یہ ایک اور رہا۔‘‘ ٹی بنگ نے ایک دیگر قول کی طرف اشارہ کیا: ’’اندھی جہالت مہیں گمراہ کرتی ہے۔ اے بدنصیب فانیو! آنکھیں کھولو!‘‘ لیونارڈو ڈاونچی

سوفی کو سردی سی محسوس ہوئی۔ ’’ڈاونچی بائبل کے متعلق کہہ رہا ہے؟‘‘

ٹی بنگ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’بائبل کے متعلق لیونارڈو کے محسوسات کا تعلق براہِ راست مقدس جام سے ہے۔‘‘

درحقیقت ڈاونچی نے حقیقی جام کو مصور بھی کیا ہے جو میں ابھی تمھیں دکھاؤں گا، لیکن پہلے بائبل پر بات ہونی چاہیے۔ ٹی بنگ مسکرایا۔ ’’اور ہر وہ چیز جو بائبل کے متعلق تمھیں جاننا چاہیے، اس کا خلاصہ عظیم ڈاکٹر مارٹن پرسی نے یوں کہا ہے، ‘‘ ٹی بنگ نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا: ’’بائبل آسمان سے بذریعہ فیکس نہیں اتری‘‘۔

’’میں معافی چاہتی ہوں‘‘۔

’’بائبل میری عزیز! انسان کی تخلیق ہے، خدا کی نہیں۔ بائبل جادوئی طریقے سے آسمان سے نہیں ٹپکی تھی۔ انسان نے پرآشوب دور کا تاریخی ریکارڈ رکھنے کے لیے اسے تخلیق کیا تھا اور یہ بے شمار ترجموں، اضافوں اور نظر ثانیوں کے بعد وجود میں آئی ہے۔ تاریخ میں کبھی اس کتاب کا کوئی مصدقہ نسخہ نہیں رہا‘‘۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘

’’ عیسیٰ مسیح غیر معمولی موثر تاریخی شخصیت تھے، شاید دنیا کے سب سے پراسرار اور اثر انگیز راہ نما۔ بطور مسیح موعود، عیسیٰ نے شہنشاہوں کے تخت الٹے، لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور نئے فلسفوں کی بنیاد رکھی۔ شہنشاہ سلیمان اور شہنشاہ داؤد کی نسل سے ہونے کے ناتے عیسیٰ یہودیوں کے بادشاہ کے تخت کے جائز حق دار بھی تھے۔ قابلِ فہم طور پر ان کے حالاتِ زندگی علاقے کے ہزا رہا پیروکاروں نے محفوظ کیے‘‘۔

ٹی بنگ چائے کاگھونٹ بھرنے کے لیے رکااور پھر کپ واپس مینٹل پر رکھا۔ ’’عہدنامہ جدید کے لیے اسّی سے زیادہ اناجیل پر غور کیا گیا اور صرف چند متعلقہ اناجیل کو شمولیت کے لیے چنا گیا جن میں متی، مرقس، لوقا اور یوحنا بھی تھے۔‘‘

’’شمولیت کی اناجیل کا انتخاب کس نے کیا؟‘‘ سوفی نے پوچھا۔

’’آہا!‘‘ ٹی بنگ نے جوش میں کہا۔ ’’مسیحیت کا بنیادی تضاد۔ بائبل، جس انداز میں ہمیں آج ملتی ہے، اس کی تالیف ملحد رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم نے کی تھی۔‘‘

’’میرے خیال میں تو قسطنطین مسیحی تھا۔‘‘ سوفی نے پوچھا۔

’’ بہ مشکل‘‘۔ ٹی بنگ کھکارا۔’’ وہ تاحیات ملحد رہا جسے بستر مرگ پر بپتسمہ دیا گیا۔ وہ اتنا نحیف ہو چکا تھا کہ احتجاج بھی نہ کرسکا۔ قسطنطین کے عہدمیں روم کا سرکاری مذہب سورج پرستی تھا، یعنی ناقابلِ تسخیر سورج کا مذہب cult of sol Invictus اور قسطنطین اس کا بڑا پروہت تھا۔ اس کی بدقسمتی سے مذہبی انتشار روم کو گرفت میں لے رہا تھا۔ عیسیٰ کے مصلوب کیے جانے کے صدیوں بعد عیسیٰ کے پیروکاروں میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ مسیحیوں اور ملحدوں میں لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ روم کی تقسیم کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ قسطنطین نے سوچا کہ کچھ کرنا پڑے گا۔ 325ء میں اس نے روم کو ایک مذہب، مسیحیت کے تحت متحد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

سوفی بہت حیران ہوئی۔ ’’لیکن ایک ملحد بادشاہ نے سرکاری مذہب کے طور پر مسیحیت کا انتخاب کیوں کیا؟‘‘

ٹی بنگ ہنسا۔ ’’قسطنطین بڑا اچھا کاروباری تھا۔ اس نے دیکھا کہ مسیحیت عروج حاصل کر رہی ہے۔ لہٰذا اس نے جیتنے والے گھوڑے پر داؤ کھیل دیا۔ یہ بات آج بھی مؤرخین کو ورطۂ حیرت می ڈالے ہوئے ہے کہ قسطنطین نے کس عمدگی سے سورج پرست ملحدوں کو مسیحیت کی طرف مائل کیا۔ ملحدانہ علاقوں، تاریخوں اوررسموں کو پھیلتی ہوئی مسیحی روایت میں ملاکراس نے ایسا دوغلا مذہب بنایا جو ہر دو فریقین کے لیے قابلِ قبول تھا۔‘‘

لینگڈن نے کہا: ’’مسیحی شعائر میں ملحدانہ مذہب کے سراغ ناقابلِ تردید ہیں۔ مصریوں کا کرۂ سورج کیتھولک سینٹ کا ہالہ بنا۔ معجزانہ طور پر پیدا ہونے والے بیٹے ہورس کو دودھ پلاتی ہوئی آئسس (isis) کی شبیہ ہمارے ننھے یسوع اور کنواری مریم میں بدل گئی اور درحقیقت کیتھولک رسوم کے سارے عناصر، بشپ کی کلاہ، قربان گاہ، حمد ربانی، عشائے ربانی، خدا خوری کا عمل، براہِ راست ملحدانہ باطنی مذاہب سے لیے گئے ہیں۔‘‘

ٹی بنگ نے گہری آواز میں کہا: ’’ اس ماہر علامات کو مسیحی آئی کنز کے متعلق نہ چھیڑ لینا، مسیحیت میں کچھ بھی حقیقی نہیں، قبل از مسیحیت خدا متھراس جسے خدا کا بیٹا اور نورِ جہاں کہا جاتا ہے، 25 دسمبر کو پیدا ہوا، مرا، ایک چٹانی مقبرے میں دفنایاگیا اور پھر تین دن بعد دوبارہ زندہ ہوا۔ برسبیل تذکرہ، 25 دسمبر، اوسائیرس، اڈنس اور ڈائی اونیسس کی بھی تاریخِ پیدائش ہے۔ نومولود کرشن کو بھی تحفۃً سونا اور عود و لوبان پیش کیے گئے تھے، حتیٰ کہ مسیحیوں کو ہفتہ وار مقدس دن بھی ملحدوں سے چرایا گیا تھا۔‘‘

’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘

’’دراصل‘‘، لینگڈن بولا، ’’مسیحیت بھی یہودیوں کے ہفتہ کے سبت کا احترام کرتی تھی۔ لیکن قسطنطین نے ملحدوں کے سورج کی تعظیم کے دن سے مطابقت کے لیے اسے بدل دیا۔‘‘ وہ رکا، مسکرایا۔ ’’تاحال زیادہ تر گرجا جانے والے اتوار کی صبح عبادت میں شریک ہوتے ہیں، اس بات سے قطعی لاعلم کہ وہ ملحدوں کے سورج دیوتا کی ہفتہ وار تعظیم کے دن کی بنیاد پر آئے ہیں‘‘۔

سوفی کا سر گھوم رہا تھا۔ ’’اور سب کا تعلق مقدس جام سے ہے؟‘‘

بالکل۔ ٹی بنگ نے کہا۔ ’’ذرا متوجہ رہنا۔ اس مذہبی ادغام کے دوران میں قسطنطین کو مسیحی روایت کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔ عالمی مسیحی اتحاد کے لیے اس نے مشہور اجتماع کیا جو کونسل آف نقایہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘‘

سوفی اس سے محض نقایہ کے اعتقادنامہ (Nicene creed) کی جائے پیدائش کے حوالے سے واقف تھی۔

’’اس اجتماع میں‘‘ ٹی بنگ نے کہا، ’’مسیحیت کے بہت سے پہلوؤوں پر بحث اور رائے شماری ہوئی۔ مثلاً قیامِ مسیح کی تاریخ، بشپس کا کردار، مذہبی رسوم کا طریقہ اور ہاں، یسوع کی الوہیت بھی‘‘۔

’’میں سمجھی نہیں، ان کی الوہیت؟ ‘‘

’’ میری عزیز!‘‘ ٹی بنگ نے کہا، ’’تاریخ کے اس لمحے تک، یسوع کے پیروکار انھیں ایک فانی نبی کے طور پر ہی دیکھتے تھے، ایک عظیم اور طاقتور آدمی، لیکن بہر حال ایک آدمی، ایک فانی۔‘‘

’’خدا کا بیٹا نہیں؟‘‘

’’صحیح‘‘۔ ٹی بنگ نے کہا۔ ’’یسوع بطور'خدا کا بیٹا' کونسل آف نقایہ میں سرکاری طور پر تجویز کیا گیا اور رائے شماری کروائی گئی۔‘‘

’’ذرا ٹہریں، آپ کہہ رہے ہیں کہ یسوع کی الوہیت رائے شماری کا نتیجہ تھی؟‘‘

’’نسبتاً کافی قریب تناسب سے ‘‘۔ ٹی بنگ نے بات بڑھائی۔ ’’یوں بھی مسیح کی الوہیت رومی سلطنت اور نئے مرکز طاقت ویٹی کن کے مزید اتحاد کے لیے اہم تھی۔ سرکاری طور پرعیسیٰ کو خدا کا بیٹا قراردے کر قسطنطین نے عیسیٰ کو ایک ایسی روحانی شخصیت بنادیا جو انسانی دنیا سے ماورا تھی۔ ایسی ذات جس کی طاقت ناقابلِ تسخیر تھی۔ جس نے مسیحیت پر مزید ملحدانہ چیلنجوں کی راہ مسدود کردی۔ لیکن اس سے عیسیٰ کے پیروکاروں کے پاس نجات کے لیے صرف ایک ہی طے شدہ مقدس ذریعہ رہ گیا، رومن کیتھولک چرچ۔‘‘

سوفی نے لینگڈن پر نظر ڈالی اور اس نے تائید کے طور پر سر کو جنبش دی۔

’’ یہ سب کچھ طاقت کے حصول کے لیے تھا۔ عیسیٰ بطور مسیحا، چرچ اور ریاست کی کارکردگی کے لیے بے حد اہم تھا۔‘‘ ٹی بنگ نے بات جاری رکھی۔ ’’بہت سے علما کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی چرچ نے حقیقی معنوں میں عیسیٰ کو ان کے پیروکاروں سے چرالیا۔ ان کے انسانی پیغام کے اغوا کے بعد اسے الوہیت کے ناقابلِ عبور لبادے میں لپیٹ دیا گیا اور اسے اپنے طاقت کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔ میں نے اس موضوع پر بہت سی کتب تحریر کی ہیں۔‘‘

’’اور میراخیال ہے کہ سرگرم مسیحی روزانہ آپ کو نفرت آمیز خطوط ارسال کرتے ہوں گے۔ ‘‘

’’وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟‘‘ ٹی بنگ نے جواب دیا۔ ’’پڑھے لکھے مسیحیوں کی تعداد اپنے مذہب کی تاریخ سے واقف ہے۔ بے شک یسوع ایک عظیم اور طاقتور شخصیت تھے۔ قسطنطین کی خفیہ سیاسی چالیں بھی حیاتِ عیسیٰ کی عظمت کم نہیں کرسکیں۔ کوئی نہیں کہتا عیسیٰ دھوکے باز تھے۔ نہ کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ اس زمین پر چلتے پھرتے تھے اور انھوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری کے اثرات مرتب کیے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ قسطنطین نے عیسیٰ کے رسوخ اور اہمیت سے فائدہ اٹھایا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے مسیحیت کو وہ شکل دی جس میں ہم آج اسے دیکھتے ہیں۔‘‘

سوفی نے سامنے رکھی آرٹ کی کتاب پر نظر ڈالی۔ اس کے دل میں صفحے الٹ کر ڈاونچی کی ’’مقدس جام‘‘ کی تصویر دیکھنے کا اشتیاق تھا۔

’’اس میں دلچسپ بات یہ ہے‘‘، ٹی بنگ نے تیز بولتے ہوئے کہا ’’کہ قسسطنطین نے عیسیٰ کی وفات کے چارصدیوں بعد ان کا مرتبہ بڑھایا تھا، مگر تب تک بطور انسان کے ان کی ہزاروں سوانحی دستاویزات لکھی جاچکی تھیں۔ قسطنطین کو علم تھا کہ تاریخ کی کتب کو ازسرنو لکھنے کے لیے بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے مسیحیت کی تاریخ کا سب سے اہم لمحہ جو وقوع پزید ہوا۔‘‘ ٹی بنگ رکا اور سوفی کو دیکھا۔ ’’قسطنطین نے نئی بائبل کے لیے کمیشن بٹھایا اور سرمایہ فراہم کیا جس نے ان تمام اناجیل کو حذف کر دیا جن میں عیسیٰ کے انسانی خصائل کا ذکر تھا اور ان اناجیل کو سجا سنوار کر پیش کیا گیا جو انھیں خدا کا مثل بتاتی تھیں۔ سابقہ اناجیل کو متروک قرار دے کر اکھٹا کرکے نذر آتش کر دیا گیا۔‘‘

’’ایک دلچسپ بات۔ ‘‘ لینگڈن نے ا ضافہ کیا۔ ’’جس نے قسطنطین والی اناجیل کی بجائے ممنوعہ اناجیل کا چناؤ کیا، اسے بدعتیHERETIC قراردیا گیا۔ اور تاریخ میں بدعتی کا لفظ وہاں سے رائج ہوا۔ لاطینی لفظ Heareticas کا مطلب ہے انتخاب۔ وہ لوگ جنھوں نے عیسیٰ کی حقیقی تاریخ کا انتخاب کیا، دنیا کے پہلے بدعتی تھے۔‘‘

’’مؤرخین کی خوش قسمتی سے ‘‘، ٹی بنگ بولا، ’’ان اناجیل میں سے جنہیں قسطنطین نے مٹانے کی سعی کی تھی، کچھ بچ گئیں۔ بحرِ مردار کے طومار The Dead Sea Scrolls جو 1950ء میں صحرائے یہودا میں قمران کے قریب واقع ایک غار سے دریافت ہوئے تھے، ان کے علاوہ 1945ء میں نجع حمادی سے ملنے والے coptic scrolls بھی تھے۔ جام کی اصل کہانی بیان کرنے کے علاوہ عیسیٰ کے انسانی خصائل بھی بیان کرتے تھے۔ ویٹی کن نے گمراہ کنی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ان طوماروں کو دبانے کی کوشش کی اور ایسا کیوں نہ کرتے؟ ان طوماروں نے اظہر من الشمس تاریخی تضادات اور خودساختہ کہانیوں کو کھول کررکھ دیا اور اس بات پر مہر ثبت کردی کہ جدید بائبل ان لوگوں نے مرتب کی ہے جن کا واضع سیاسی ایجنڈا تھا۔ جو ایک بشر یسوع مسیح کی الوہیت کو فروغ دے کر ان کے اثر کو اپنے مرکز قوت کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔‘‘

’’لیکن پھر بھی‘‘، لینگڈن نے دفاع کیا، ’’یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ان طوماروں کو چھپانے کی چرچ کی خواہش ان کے عیسیٰ کے متعلق نظریات پر مخلصانہ اعتقاد کی بنیاد پر تھی۔ ویٹی کن انتہائی نیک لوگوں پر مشتمل ہے جو ایمانداری سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ متضاد دستاویزات جھوٹ کا پلندہ ہیں‘‘

ٹی بنگ، سوفی کے مقابل کرسی میں دراز ہوتے ہوئے ہنسا۔ ’’جیسا کہ تم دیکھ سکتی ہو کہ روم کے لیے میری نسبت ہمارا پروفیسر کہیں زیادہ نرم گوشہ رکھتا ہے۔ تاہم اس حد تک وہ درست ہے کہ جدید قسیس CLERGY ان مخالف دستاویزات کو جھوٹ سمجھتی ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے۔ قسطنطین کی بائبل صدیوں سے ان کے لیے سچائی بنی ہوئی ہے۔ بنیاد رکھنے والے سے زیادہ بنیاد پرست کوئی نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’اس کا مطلب ہے‘‘، لینگڈن نے کیا ’’کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے خداؤوں کی پرستش کرتے ہیں؟‘‘

’’میرا مطلب یہ ہے‘‘ ٹی بنگ نے وضاحت کی ’’کہ ہمارے آباؤاجداد نے جو کچھ بھی ہمیں عیسیٰ کے متعلق بتایا، وہ جھوٹ ہے۔ بالکل مقدس جام کی کہانیوں کی طرح۔‘‘

سوفی نے پھر سامنے پڑے ڈاونچی کے قول کو دیکھا۔ ’’اندھی جہالت مہیں گمراہ کرتی ہے۔ او بدنصیب انسانو! اپنی آنکھیں کھولو۔‘‘

ٹی بنگ نے کتاب اٹھائی اور وسط کے صفحے الٹنے لگا۔ ’’اور آخر میں قبل اس کے کہ میں تمھیں ڈاونچی کی بنائی ہوئی مقدس جام کی تصویر دکھاؤں، میں چاہوں گا کہ تم اس پر ایک سرسری نظر ڈال لو۔‘‘ اس نے کتاب کی دو صفحوں پر پھیلی خوش رنگ تصویر کھولی۔ ’’میرا خیال ہے کہ تم اس فریسکو کو پہچانتی ہو۔‘‘

’’وہ مذاق کر رہے ہیں، ہے نا؟‘‘ سوفی دنیا کے مشہور ترین فریسکو کو ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہی تھی۔ آخری عشائیہ، میلان کے سانتا ماریہ دلہ کلیسا کی دیوار پر بنی ڈاونچی کی دیومالائی شہرت کی اس لمحہ کی تصویر جس میں عیسیٰ اپنے حواریوں کے ہمراہ بیٹے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک حواری ان سے غداری کرے گا۔ ’’ہاں میں، اس فریسکو کو جانتی ہوں‘‘

’’تو پھر شاید تم میرے ساتھ ایک چھوٹے سے کھیل میں شریک ہونا چاہوگی۔ مناسب سمجھو تو ذرا آنکھیں بند کرو۔‘‘ سوفی نے ہچکچاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔

’’یسوع کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ ٹی بنگ نے پوچھا۔

’’وسط میں ۔‘‘

’’بہت اچھے اور وہ اور ان کے حواری کون سی غذا کے لقمے توڑ کر کھا رہے ہیں؟‘‘

’’روٹی۔ ظاہر ہے۔‘‘

’’واہ۔ اور ان کا مشروب؟‘‘

’’انگور کی شراب۔ انھوں نے وائن پی تھی۔‘‘

’’کیا بات ہے! اور اب آخری سوال۔ میز پر شراب کے کتنے گلاس ہیں؟‘‘

سوفی رکی۔ اسے احساس ہوا کہ یہ الجھاؤ والا سوال ہے۔ اور عیشائے کے بعد، اپنے حواریوں کے ساتھ بانٹتے ہوئے عیسیٰ نے شراب کا گلاس اٹھایا۔ ’’ایک گلاس‘‘، اس نے کہا۔ ’’the Chalice، عیسیٰ کا پیالہ، مقدس جام۔ عیسیٰ نے شراب کا واحد جام ہی پھرایا تھا، جیساکہ آج کل عشائے ربانی کے موقع پر کرتے ہیں۔‘‘

ٹی بنگ نے لمبی سانس لی۔ ’’اپنی آنکھیں کھولو۔‘‘

اس نے ایسا ہی کیا۔ ٹی بنگ شرارت سے مسکرا رہا تھا۔ سوفی نے نیچے تصویر پر نگاہ ڈالی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ عیسیٰ سمیت میز پر ہر شخص کے پاس جام شراب تھا۔ تیرہ کپ، مزید یہ کہ یہ کپ چھوٹے، بے تلے کے اور شیشے کے تھے۔ تصویر میں کوئی پیالہ کوئی مقدس جام نہیں تھا۔

ٹی بنگ کی آنکھیں چمکیں۔ ’’تھوڑا عجیب ہے نا؟ کیا خیال ہے؟ ذرا سوچو، ہماری بائبل اور ہماری مروجہ جام کی کہانی اسی لمحہ کو مقدس جام کی آمد کے طور پر مناتی ہے۔ حیران کن طور پر ڈاونچی عیسیٰ کا پیالہ مصور کرنا بھول گیا ہے۔‘‘

’’یقیناً ماہرینِ فن نے اس بات پر غور کیا ہوگا۔ ‘‘

’’تمھیں یہ جان کر صدمہ ہوگا کہ جو غیر از معمول باتیں ڈاونچی نے شامل کی ہیں، زیادہ تر ماہرینِ فن کو یا تو دکھائی نہیں دیں یا محض نظر انداز کردی گئیں۔ یہ فریسکو دراصل مقدس جام کے راز کی مکمل کلید ہے۔ آخری عشائیہ میں ڈاونچی نے ہر بات کھول کر آگے رکھ دی ہے۔‘‘

سوفی نے غور سے فن پارے کا جائزہ لیا۔ ’’کیا یہ فریسکو جام کی حقیقت بتاتی ہے؟‘‘

’’یہ نہیں کہ وہ کیا ہے۔‘‘ ٹی بنگ نے آہستگی سے کہا۔ ’’یہ کہ وہ کون ہے۔ مقدس جام کوئی شے یا چیز نہیں ہے، یہ دراصل ایک شخصیت ہے۔‘‘ [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب "کلیسائے روم کو چونکا دینے والی کتاب"۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام۔ 13 اکتوبر 2004ء 
  2. "کلیسا میں فلمبندی پر احتجاج"۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام۔ 16 اگست 2005ء 
  3. "موجودہ مسیحیت کی تشکیل تاریخی حقائق کی روشنی میں"۔ ماپنامہ الشریعہ۔ فروری 2010ء 

بیرونی روابط[ترمیم]

ڈاونچی کوڈ ناول، مصنف ڈین براؤن کی آفیشل ویب گاہ

ڈاونچی کوڈ ناول، مصنف ڈین براؤن کی آفیشل برطانوی ویب گاہ

ڈاونچی کوڈ فلم، سونی پکچرز کی آفیشل ویب گاہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ sonypictures.com (Error: unknown archive URL)