ہربجن سنگھ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


ہربجن سنگھ

معلومات شخصیت
پیدائش 18 اگست 1920(1920-08-18)
لمڈنگ، اسام
تاریخ وفات 21 اکتوبر 2002(2002-10-21) (عمر  82 سال)
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دہلی یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ پنجابی شاعر، دانشور، ادیب، نقاد، ثقافتی مبصر اور مترجم
پیشہ ورانہ زبان پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت دہلی یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
سرسوتی اعزاز   (1994)
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ   (برائے:Na Dhuppe Na Chaanve ) (1969)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ان کے والد کا دق / ٹی بی کے عارضے میں انتقال اس وقت ہوا جب ہربجن سنگھ کی عمر بہت کم تھی۔ بھر وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی خالہ کے پاس اچھرہ ( لاہور) چلے گئے۔ وہ خاصے عرصے لاہور کے قدیم محلے گوالمنڈی میں بھی قیام پزیر رہے۔ ان کی زندگی کا ابتدائی حصہ غربت میں بسر ہوا۔ لڑکپن میں چھوٹے موٹے کام کیے۔ لاہور میں ایک ھومیوپیتھک کیماگر کے دکان پر بھی کام کیا۔ اسی دوران میں وہ لاہور کے "دیوا اسکول" میں داخل ہوئے۔ انھوں نے پورے پنجاب کے اسکولز میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ بھر وہ دہلی چلے گئے جہان انھوں نے حکومت ہند کے ایک دفتر میں لوئر ڈیویژن کلرک کی ملازمت اختیار کی۔۔ کچھ دنوں بعد دہلی کی خالصہ کتب خانے میں معاون لائبرین مقرر ہوئے۔ ھرنجن سنگھ نے امرتا پریتم کی مشاورت میں پنجابی شاعری میں انقلابی لہجے کو نیا اسلوب عطا کیا اس کے علاوہ انھوں نے ارسطو، نوجنز، سوفیکلز، رابندناتھ ٹیگور اور رگ وید پر تفصیل سے لکھا۔ ھربجن سنگھ نے دہلی یونیورسٹی سے ہندی اور انگریزی سے ڈگری حاصل کی، بعد میں انھوں نے اپنی ڈاکٹریٹ کی سند کے لیے "ہندی شاعری" کا انتخاب کیا۔ انھوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ گرمکہی رسم الخط میں لکھا۔ بھر ان کی علمی اور ادبی دلچسپیاں انگریزی، پنجابی اور ہندی میں منتقل ہو گئی۔ 1984 میں بحثیت مہمان پروفیسر سبکدوش ہوئے بھر بعد میں بحثیت مہمان پروفیسر کے انڈین انسیی ٹیوٹ، آف ٹیکنالوجی، گرونانک دیو یونیورسٹی، جمون یونیورسٹی اور گوہاٹی یونیورسٹی میں درس و تدریس سے متعلق رہے۔ ہربجن سنگھ جدید ہندوستانی زبانون کے بورڈ برائے بشریات اور لسانیات میں پروفیسر ہربچن سنگھ کے ساتھ کام کیا۔ وہ اپنے اساتذہ رحمان دین، لالہ سروج بھان، ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ اور ڈاکٹر نیگندرا سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے اور ان کی علمی قابلیت سے متاثر رہے۔ اس کے علاوہ وہ کئی مذھبی، علمی اور ادبی شخصیات مثلا گرونانک، گرو ارجن دیو، شاہ حسین مادہو لال، وارث شاہ، بلہے شاہ، میر تقی میر، لورکا، رابند ناتھ ٹیگور، ن۔ م راشد، فیض احمد فیض اور پورن سنگھ سے متاثر رہے۔۔۔ عطار سنگھ، ترلوک سنگھ کنور، اتما جیت سنگھ، منوہرکور گل اور سیندر سنگھ نے ان کی نگرانی ان کی نگرانی میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالات مکمل کیے۔ ہربجن سنگ نے انیس (19) تصانیف ادبی تاریخ پر اور ان چودہ (14)کتابیں دیگر موضوعات اور تراجم پر ہیں۔ ان کے سترہ (17) شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر ان کی پنجابی تخلیق "ریگستان وچ لکڑ ہارا" (ریگستان میں لکڑہارا) نے بہت شہرت پائی۔ ہربجن سنگھ بہت دھیمے مزاج کے انسان تھے۔ نہایت ہی سادہ طبعیت اور علم دوستی ان کی شخصیت کا خاصہ تہی۔ اردو دان طبقہ ان کے فکری، ادبی اور شعری کمالات سے بہت کم واقف ہے۔

یہ کون ہے[ترمیم]

پنجابی شاعر: ہربجن سنگھ

یہ کون ہے جو میرے دل میں داخل ہوتا ہے بانسری کی سیاہ رات ہم ایک پیار بھرے گیت کو گلے لگاتے تھے اور میرے خون میں سے ایک سورج نکل آیا تھا جو میرے دل و دماغ میں حدت روشن کردیتا ہے پرندے میری تمام شاخوں میں چہچہاہٹ ہیں خوشی میں چہچاہتے ھوئے ثنا خواں ہیں۔۔۔۔۔۔ (آزاد ترجمہ)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#PUNJABI — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2019