قرآن اور بحریات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قرآن اور بحریات (Oceanology) دراصل قرآن میں جدید بحریات کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف بحریات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آبیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطامبقت رکھتی ہے۔[1][2]

میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ[ترمیم]

مَرَجَ الْبَحْرَ یْنِ یَلْتَقِیٰنِ ہ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خُ لَّا یَبْغِیٰنِ ہ[3]
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکائوٹ یا آڑ (partition ) کے ہے۔ تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتاہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لیے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دومختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکائوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔[4] آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔ جس سے گذر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ مظہر درج ذیل آیت قرآنی میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَا جِزً ا ط[5]
ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردیے۔ یہ مظہر متعدد مقامات پر وقوع پزیر ہوتا ہے جن میں جبل الطارق (جبرالٹر) کے علاقے میں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے ملنے کا مقام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح کیپ پوائنٹ اور کیپ پینسولا جنوبی افریقہ میں بھی (پانی کے بیچ) ایک سفید پٹی واضح طور دیکھی جا سکتی ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے۔
لیکن جب قرآن پاک تازہ اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ (آڑ) کا تذکرہ کرتا ہے تو اس آڑ کے ساتھ ایک ممنوعہ علاقے کے بارے میں بھی بتاتا ہے:
وَ ھُوَ الَّذِ یْ مَرَ جَ الْبَحْرَ یْنِ ھٰذَا عَذْ بُ فُرَا تُ وَّ ھٰذَا مِلْحُ اُ جَا جُ وَ جَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خًا وَّ حِجْرً ا مَّحْجُوْ رًا ہ[6]
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا کر رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ایک رکاوٹ ہے جو انھیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی (سمندری) مقامات پر جہاں (دریا کا)تازہ (میٹھا) اور (سمندرکا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندروں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت کہ کھاڑیوں (سمندر کا شاخ) میں تازہ پانی کو کھاری پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ پایکنو کلائن زون (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی ہے (یعنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے) جو (کھاری اور تازہ پانی کی) مختلف پرتوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔[7][8]
اس رکاوٹ (یعنی علاقہ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تنا سب (شوریت) تازہ پانی اور کھاری پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل بحیرہ روم میں گرتا ہے۔
قرآن پاک میں بیان کیے گئے ان سائنسی مظاہر کی تصدیق ڈاکٹر ولیم ہے' (Dr. William Hay) نے بھی کی ہے، جو کولوراڈو یونیورسٹی امریکا کے مشہور ماہر بحریات اور علوم ارضی کے پروفیسر ہیں۔

سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا[ترمیم]

پروفیسر درگارائو (Darga Rao) دنیا کے جانے پہچانے ماہربحری ارضیات ہیں اور وہ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ (سعودی عرب) میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے درج ذیل آیت مبارکہ پر تبصرہ کرنے کے لیے کہاگیا۔
اَوْکَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍلُُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْج مِّنْ فَوْ قِہ مَوْج مِّنْ فَوْقِہ سَحَاب ط ظُلُمٰت بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ ط اِذَآاَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرٰ ہَا ط وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہُ نُوْرًافَمَالَہُ مِنْ نُّوْرٍ [9]
ترجمہ:۔ یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہوجس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو۔ اس کے اوپر ایک اور موج آ رہی ہو اور اس کے اوپر بادل ہو، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ اللہ جسے نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔
پروفیسر رائونے کہا کہ سائنس دان صرف حال ہی میں جدید آلات کی مدد سے یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ 20یا 30میٹر سے زیادہ گہرائی میں اضافی سازو سامان اور آلات سے لیس ہوئے بغیر غوطہ لگا سکے۔ علائو ازیں، انسانی جسم میں اتنی قوت برداشت نہیں کہ جو 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں پڑنے والے آبی دبائو کا سامنا کرتے ہوئے زندہ بھی رہ سکے۔ یہ آیت تمام سمندروں کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ ہر سمندر کو پرت در پرت تاریکی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ یہ آیت مبارک بطور خاص گہرے سمندروں کی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی اس آیت میں بھی وسیع اور گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ دیا گیا ہے، گہرے سمندر کی یہ تہ در تہ تاریکی دو اسباب کا نتیجہ ہے ۔

1۔ عام روشنی کی ایک شعاع سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ سات رنگ با ترتیب، بنفشی، کاسنی، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی اور سرخ ہے۔ روشنی کی شعاع جب پانی میں داخل ہوتی ہے تو انعطاف (Refrection) کے عمل سے گزرتی ہے اوپر کے دس سے پندرہ میٹر کے دوان پانی میں سرخ رنگ جذب ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر کوئی غوطہ خود پانی میں پچیس میٹر کی گہرائی تک جا پہنچے اور زخمی ہو جائے تو وہ اپنے خون میں سرخی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ سرخ رنگ کی روشنی اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح 30سے 50میٹر تک کی گہرائی تک آتے آتے نارنجی روشنی بھی مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے۔ پیلی روشنی 50 سے 110میٹر تک، سبز روشنی 100سے 200میٹر تک، نیلی روشنی 200میٹر سے کچھ زیادہ تک جبکہ کاسنی اور بنفشی روشنی اس سے بھی کچھ زیادہ گہرائی تک پہنچتے پہنچتے مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہیں۔ پانی میں رنگوں کے اس طرح ترتیب وار غائب ہونے کی وجہ سے سمندر بھی تہ در تہ کرکے باریک ہوتا چلا جاتا ہے، یعنی اندھیرے کا ظہور بھی روشنی کی پر توں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ 1000میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے۔[10]

2۔ دھوپ کی شعاعیں بادلوں میں جذب ہوتی ہیں۔ جو نسبتاً روشنی کی شعا عوں کو اِدھر اُدھربکھیرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بادلوں کے نیچے تاریکی کی ایک پرت (تہ) سی بن جاتی ہے۔ یہ تاریکی کی پہلی پرت ہے جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو وہ (سمندری) لہروں کی سطح سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں اور جگمگانے کا ساتاثردیتی ہیں، لہٰذا یہ (سمندری) لہریں ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں تاریکی کی وجہ بنتی ہیں۔ غیر منعکس شدہ روشنی، سمندر کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ لہٰذا سمندر کے دو حصّے ہوئے، سطح کی امتیازی علامت روشنی اور گرمی ہیں۔ جب کہ اندھیرا سمندری گہرائیوں کی وجہ سے ہے۔ علاوہ ازیں گہرے سمندر اور سطح سمندر کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والی چیز بھی لہریں ہی ہیں۔
اندرونی موجیں سمندر کے گہرے پانیوں کا احاطہ کرتی ہیں کیونکہ گہرے پانیوں کی کثافت اپنے اوپر موجود کم گہرائی والے پانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اندرونی پانیوں میں تاریکی کا راج ہوتا ہے۔ سمندر کی اتنی گہرائی میں مچھلیاں بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ روشنی کا واحد ذریعہ خود ان کے جسم ہوتے ہیں۔
اسی بات کو قرآن پاک نہایت جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔
ترجمہ:۔ مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں، جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھاہو۔ بالفاظ دیگر ان لہروں کے اوپر مزید اقسام کی لہریں ہیں یعنی وہ لہریں جو سمندر کی سطح پر پائی جائیں۔ اسی تسلسل میں یہ آیت مبارکہ فرماتی ہے۔پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غرض اندھیروں میں جواوپر تلے پے درپے ہیں۔ جیسا کہ وضاحت کی گئی یہ بادل وہ پے در پے رکاوٹیں ہیں۔ جو مختلف سطحوں پر روشنی کے مختلف رنگ جذب کرتے ہوئے اندھیرے کو بڑھا وا دیتی چلی جاتی ہیں۔ پروفیسر درگاائونے یہ کہتے ہوئے اپن بات مکمل کی 1400سال پہلے کوئی عام انسان اس مظہرکو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ معلومات یقیناً کسی مافوق الفطرت(super natural) ذریعے سے آئی ہیں۔
ترجمہ:۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔[11]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قرآن اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحہ 21
  2. قرآن، بائبل اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 223
  3. القرآن، سورة الرحمٰن سورة 55آ یت 20تا 19
  4. پرنسپلز آف او شو گرافی از ڈیوس صفحہ 92تا93
  5. القرآن، سورة النمل سورة نمبر27آیت61
  6. القرآن، سورة الفرقان سورة 25آیت 53
  7. انٹروڈکٹری او شنوگرافی، ازتھر میں صفحہ 300 تا301
  8. اوشنوگرافی، صفحہ244
  9. القرآن، سورة النور سورة 24آیت 40
  10. اوشنز از ایلڈ اور پرنیٹا صفحہ 27
  11. القرآن، سورة الفرقان 25آیت 54