قرآن اور آبیات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قرآن اور آبیات (Hydrology) دراصل قرآن میں جدید آبیات کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف آبیات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آبیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطامبقت رکھتی ہے۔[1][2]

آبی چکر: (water cycle)[ترمیم]

آج ہم جس تصور کو آبی چکر (water cycle ) کے نام سے جانتے ہیں، اسے پہلے 1580ء میں برنارڈپیلیسی (Bernard Pallissy) نامی ایک شخص نے پیش کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ سمندر وں سے کس طرح پانی بخارات میں تبدیل ہوتی ہے اور کس طرح وہ سرد ہو کر بادلوں کی شکل میں آتا ہے۔ پھر یہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں، بلند تر ہوتے ہیں ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ یہ پانی جھیلوں، جھرنوں، ندیوں اور دریائوں کی شکل میں آتا ہے اور بہتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتا ہے اس طرح پانی کا یہ چکر جاری رہتا ہے ۔
ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلس (Thallas) نامی ایک یونانی فلسفی کو یقین تھا کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار (اسپرے) پیدا ہوتی ہے۔ تیز ہوا اسی پھوار کو اٹھالیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کر برسا دیتی ہے۔ یہی بارش ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں، پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین میں پانی کا ماخذ کیا ہے۔ انکا خیال تھا کہ ہوا کی زبردست قوت کے زیراثر سمند ر کی پانی براعظموں (خشکی) میں اندرونی حصوں میں چلاآتا ہے۔ انھیں یہ یقین بھی تھا کہ یہ پانی ایک خفیہ راستے یا عظیم گہرائی سے آتا ہے، سمند ر سے ملا ہوا یہ تصوراتی راستہ افلاطون کے زمانے سے ٹار ٹار س کہلاتا تھا۔ حتی کے اٹھاویں صدی کے عظیم مفکّر ڈسکارٹس (Descartus) نے بھی انہی خیالات سے اتفاق کیا ہے۔
انسیویں صدی عیسوی تک اوسطو (Aristotle) کا نظریہ ہی زیادہ مقبو ل و معروف رہا۔ اس نظریے کے مطابق پہاڑوں کے سرد غاروں میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور وہ زیر زمین جھیلیں بناتا ہے جو چشموں کا باعث بنتی ہیں ۔
آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ بارش کا پانی زمین پر موجود دراڈوں کے راستے رس رس کر زیر زمین پہنچتا ہے اور چشموں کی وجہ بنتا ہے۔ درج ذیل آیات قرآنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔
اَ لَمْ تَرَ اَ نَّ اللّٰہَ اَنْزَ لَ مِنَ السَّمَا ئِ مَآ ئً فَسَلَکَہ یَنَا بِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِ جُ بِہ زَرْ عًا مُّخْتَالِفًا اَلْوَ انُہ ہ[3]
ترجمہ:۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعے سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں۔
وَّ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئَ فَیُحْی بِہِ الْاَ رْضَ بَعْدَ مَوْ تِھَا ط اِ نَّ فِیْ ذٰ لِکَ لَاٰ یٰتٍٍ لِّقَوْ مٍٍ یَّعْقِلُوْ نَ ہ[4]
ترجمہ:۔ وہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
وَ اَنْزَ لْنَا مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً بِقَدَرٍٍ فَاَ سْکَنّٰہُ فِی الْاَرْ ضِ وَاِ نَّا عَلٰی ذَ ھَا بٍٍ بِہ لَقٰدِ رُوْ نَ ہ[5]
ترجمہ:۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اسے جس طرح چاہے غائب کر سکتے ہیں۔

تبخیر (Evaporation)[ترمیم]

وَا لسَّمَآ ئِ ذَاتِ الرَّ جْعِ ہ [6]
ترجمہ:۔ قسم ہے آسمان کی جو (پانی )کو لوٹاتا ہے (اپنے چکر میں)

بادلوں کو بار آور کرتی ہوائیں[ترمیم]

وَ اَرْ سَلْنَا الرِّ یٰحَ لَوَ ا قِحَ فَاَ نْذَ لْنَا مِنَ السَّمَآ ئِ مَا ئً فَاَ سْقَیْنٰکُمُوْ ہ [7]
ترجمہ:۔ اور ہم ہی ہوائوں کو بار آور بنا کر چلاتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں۔
یہاں عربی لفظ لواقح ّاستعمال کیا گیا ہے، جو لاقح کی جمع ہے اور لاقحہ سے نکلا ہے، جس کا مطلب بار آور کرنا یا پھر دیناہے، اسی سیاق و سباق میں، بار آور سے مراد یہ ہے کہ ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی تو ضیحات، قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں:
اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُذْ جِیْ سَحَبًا ثُمَّ یُئَو لِّفُ بَیْنَہ ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَا مًا فَتَرَ ی الْوَ دْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ وَ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ئِ مِنْ جِبَا لٍٍ فِیْھَا مِنْ بَرَ دٍٍ فَیُصِیْبُ بِہ مَنْ یَّشَآ ئُ وَ یَصْرِ فُہ عَنْ مَّنْ یَّشَا ئُ ط یَکَا دُ سَنَا بَرْ قِہ یَذْ ھَبُ بِا لْاَ بْصَا رِ ہ [8]
ترجمہ:۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالٰی بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف (Condense)ابربنا دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں جیسے (بادلوں)سے اولے برساتا ہے۔ پھر جسے چاہتا ہے انکا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔
اَ للّٰہُ الَّذِیْ یُرْ سِلُ الرِّ یٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَا بًا فَیَبْسُطُہ فِیْ السّمَآ ئِ کَیْفَ یَشَآ ئُ یَجْعَلُہ کِسَفًا فَتَرَ ی الْوَ دْ قَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ فَاِ ذَآ اَصَا بَ بِہ مَنْ یَّشَآ ئُ مِنْ عِبَا دِ ہ اِ ذَ ا ھُمْ یَسْتَبْشِر [9]
ترجمہ:۔ اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے، جس طرح چاہتا ہے اور انھیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تودیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکا یک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں۔
آبیات (ہائیڈرولوجی Hydrology:) پر دستیا ب، جدید معلومات بھی قرآن پاک میں بیان کردہ متعلقہ وضاحتوں کی پوری طرح تائید کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد د آیات مبارکہ میں آبی چکر کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ مثلاً ملا خطہ ہو: سورة 7آیت 57، سورة 13آیت 17، سورة 25آیات 48تا 49، سورة 35آیت 9، سورة3آیت 34، سورة 45آیت 5، سورة 50آیات 9تا 11، سورة 56آیات 68تا70اور سورة 67آیت 30،

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قرآن اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحہ 16
  2. قرآن، بائبل اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 125
  3. القرآن، سورة 39آیت 21
  4. القرآن، سورة 30 آیت 24
  5. القرآن، سورة 23آیت 18
  6. القرآن ،سورة 86آیت11
  7. القرآن ،سورة 15آیت 22
  8. القرآن ،سورة نمبر24آیت 43
  9. القرآن، سورة نمبر30آیت 48