ثمر دہلوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ثمر دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش 21 جون 1899ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
الہ آباد ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 31 اکتوبر 1978ء (79 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب مسیحیت
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

وکٹر آئی نیوٹن المتخلص بہ ثمر دہلوی (پیدائش: 21 جون 1899ء - وفات: 31 اکتوبر 1978ء) مسیحی شعرا میں استادوں کا درجہ رکھنے والے اردو زبان کے نمایاں شاعر تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

ثمر دہلوی 21 جون 1899ء کو الہ آباد، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام وکٹر آئی نیوٹن تھا لیکن تخلص ثمر کی وجہ سے شہرت حاصل۔ ان کے والد پادری ایم سی نیوٹن بھی شاعر تھے اور گل تخلص رکھتے تھے، اسی مناسبت سے وکٹر آئی نیوٹن نے ثمر تخلص رکھا۔ ثمر کی والدہ اردو، فارسی اور انگریزی داں تھیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنی ماں سے ہی حاصل کی۔ پھر مراد آباد میں بھی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں علم الٰہیات کی تحصیل کی اور ہندو مسلم فلسفہ کا بغور مطالعہ کیا۔ عمر کا بیشتر حصہ دہلی میں بسر کیا۔ اسی مناسبت سے دہلوی کہلائے۔ انگریز فوج میں اردو پڑھانے کے لیے میر منشی مقرر ہوئے۔ آخر عمر میں ڈیرہ دون میں مستقل سکونت اختیار کر لی، لیکن صاحبِ ثروت ہونے کے باوجود ضعیفی میں بے بسی اور کسمپرسی کی حالت میں بسر کرتے تھے۔ آخر 31 اکتوبر 1978ء کو امرتسر میں انتقال کر گئے۔[1]

وہ نہایت کہنہ مشق شاعر تھے۔ استادوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ انھیں اردو کے بلند پایہ شعرا اور ادیبوں کی ہم نشنیی کا فخر حاصل تھا۔ نادر شاہجہاں پوری سے تلمذ تھا۔ فنِ شاعری سے کماحقہ واقف تھے۔ زبان نہایت صاف، شستہ اور با محاورہ استعمال کرتے تھے۔ تخیل میں بلند پروازی، بندش چُست اور ترکیبیں دلآویز ہیں۔[1]

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

کہتا ہے ان کا شعلہ عارض حجاب میں ہم تو نہیں رہیں گے مقید نقاب میں
پھر ان کی یاد لیتی ہے سینہ میں چٹکیاںپھر درد سا اٹھا دلِ خانہ خراب میں
سب ختم کر دی اس نے محبت کی داستاںقاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
میرے سوالِ بوسہ پہ کیا سوچنے لگےتاخیر کیجیے گا نہ کارِ ثواب میں
وہ ان کا خوابِ ناز میں شورش فزا سکوںمیری خامشی کی روش اضطراب میں
اے غافلو ضرور ہے انفاس کا لحاظپری میں ذکر چاہیے عہدِ شباب میں
ہے کسمکش ہی زیست کی وجہ قیامِ زیستپنہاں سکوتِ قلب ہے پھر اضطراب میں
شکوہ بتوں سے جور کا ہے اے ثمر فضولمیں مبتلا ہون اپنے ہی دل کے عذاب میں[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب ڈی اے ہیریسن قربان، اردو کے مسیحی شعرا، جنوری 1983ء، ص 135
  2. ڈی اے ہیریسن قربان، اردو کے مسیحی شعراء، جنوری 1983ء، ص 137