آل احمد سرور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آل احمد سرور
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1912  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بداؤں ضلع  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 فروری 2002 (89–90 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت Flag of India.svg بھارت (26 جنوری 1950–)
Flag of India.svg ڈومنین بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ علی گڑھ  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
Padma Bhushan Ribbon.svg پدم بھوشن 
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ  (برائے:نظر اور نظریہ)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
P literature.svg باب ادب

آل احمد اردو کے سر بر آوردہ نقاد تھے اور موجودہ نسل کے ادبی مذاق کو نکھارنے میں ان کے تنقیدی مضامین کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ سرور صاحب ایک کھلا ذہن رکھنے والے نقاد ہیں۔ انہوں نے خود کو کسی گروہ سے وابستہ نہیں کیا اور کبھی آزادی فکر و نظر کا سودا نہیں کیا۔ انقلاب روس کے نتیجے میں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو انہوں نے اس تبدیلی کو وقت کا تقاضا قرار دیا اور اس کا خیر مقدم کیا لیکن جب ترقی پسند ادب، ادب نہیں رہا تو وہ اس سے کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں ادب کا مقصد نہ ذہنی عیاشی سمجھتا ہوں اور نہ اشتراکیت کا پرچار۔ سرور صاحب کی تنقید کا ایک خاص وصف ان کا دلنشیں اسلوب ہے جس میں سادگی بھی ہے اور رعنائی بھی۔ ان کی تنقید اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کیے بغیر تخلیق کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے جس سے تنقیدی بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور ایک طرح کا ذہنی سرور بھی۔

اردو ادبی دنیا میں ایک اہم نام، جو نقاد اور شاعر تھے۔ آگرہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ وہاں سے لکھنؤ یونیورسٹی چلے گئے اور پھر علی گڑھ واپس آ گئے اور رشید احمد صدیقی کے وظیفہ یاب ہونے کے بعد صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ اشعار کے ایک مجموعہ سلسبیل اور تنقید کی چار کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی خود نوشت کا نام خواب باقی ہیں ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]