استاد دامن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
استاد دامن
معلومات شخصیت
پیدائش 1 جنوری 1910ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 دسمبر 1984ء (74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن باغبانپورہ  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر،  غنائی شاعر،  نغمہ نگار،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

چراغ دین دامن (پیدائش: 4 ستمبر 1910ء— وفات: 3 دسمبر 1984ء) پنجابی زبان کے مشہور شاعر۔ چراغ دین نام اور دامن تخلص تھا۔

ولادت[ترمیم]

4 ستمبر 1911ء (سینچروار، 18 پوہ، 18 ذو الحجہ 1327ھ) کو چوک متی لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد میراں بخش درزیوں کا کام کرتے تھے۔ بچپن ہی میں استاد دامن نے گھریلو حالات کے پیش نظر تعلیم کے ساتھ ٹیلرنگ کا کام بھی کرنا شروع کیا۔ جب استاد دامن کی عمر 13 سال ہوئی تو ان کا خاندان چوک متی سے باغبانپورہ منتقل ہو گیا۔ انھوں نے باغبانپورہ میں درزیوں کی دکان شروع کی اور دیوسماج اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انھیں شاعری کا شوق تو بچپن ہی سے تھا لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا اور مختلف جلسوں اور مشاعروں میں اپنا پنجابی کلام سنانے لگے۔

شہرت[ترمیم]

1940 میں میاں افتخار الدین کی صدارت میں ہو نے والے میونسپل کمیٹی لاہور کے اجلاس میں کمیٹی کارکردگی پر تنقیدی نظم پیش کی اور خوب داد حاصل کی۔ ان کے بعد ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور انھوں نے سیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھنے کا آغاز کیا۔ آپ کی شاعری زبان زدعام وخاص ہو گئی اور آپ ہر مکتب فکر کے لوگوں میں ہر دلعزیز شاعر کی حیثیت سے متعارف ہوئے ۔

مالی مشکلات[ترمیم]

پاکستان کی آزادی کے بعد ہو نے والے فسادات میں آپ کی دکان لوٹ لی گئی جس کے سبب آپ زبردست مالی بحران کا شکار ہو کر باغبانپورہ سے بادشاہی مسجد کے قریب حجرے میں منتقل ہو گئے۔ آپ کے پاس کل اثاثہ ان کی چند کتابیں تھیں۔ 1949ء میں آپ ٹکسالی گیٹ میں واقع اس حجرے میں منتقل ہو گئے جس میں شاہ حسین (مادھولال حسین)بھی مقیم رہے تھے اور تادم مرگ یہی حجرہ ان کا مسکن ٹھہرا۔ اسی دور میں استاد دامن کی شادی ہوئی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ان کا کم سن بیٹا اور بیوی انتقال کر گئے اور پھر تمام عمر شادی نہ کی ۔

شاعری[ترمیم]

استاد دامن نے شاعری کا آغاز کیا تو ہمدم تخلص کرتے تھے لیکن جلد ہی اسے ترک تخلص کرنے لگے۔ پنجابی شاعری میں استاد ہمدم کے شاگرد ہو ئے اور ان کی شاگردی کو اپنے لیے باعث فخر تصور کرتے۔ دامن نے پنجابی شاعری کی فنی خوبیوں پر ملکہ رکھنے کی بدولت اہل علم وفن افراد سے استاد کا خطاب حاصل کیا۔ استاد دامن مزدوروں 'کسانوں 'غریبوں اور مظلوموں کے شاعر تھے۔ انھوں نے ان طبقوں کی حمایت اور حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور ہمیشہ استحصالی طبقات کی مذمت کرتے رہے۔ انھوں نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے گرانقدر خدمات سر انجام دیں اور ادبی تنظیم پنجابی ادبی سنگت کی بنیاد رکھی اور تنظیم کے سیکریٹری رہے۔ استاد دامن کے چاہنے والوں میں بھارتی اداکاروں کا شمار بھی ہوتا ہے جن میں اوم پرکاش، پران اور شیام کے نام نمایاں ہیں۔ اوم پرکاش کی فرمائش پر ہی استاد نے نور جہاں کی زیر ہدایات بننے والی فلم چن وے کے ایک ایک گیت کا مکھڑا لکھا۔ چنگا بنایا ای سانوں کھڈونا
آپے بناؤونا تے آپے مٹاؤنا

فی البدیہہ گوئی[ترمیم]

استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فی البدیہہ گوئی تھی۔ خدا نے انھیں ایسے ذہن اور فکر سے نوازا تھا کہ وہ موقع کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کی مالا پرو دیتے تھے اور حاضرین کے لیے تسیکن کے ساتھ ساتھ حیرت کے اسباب بھی پیدا کر دیتے تھے۔ آزادی کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے دلی میں منعقد مشاعرے میں یہ فی البدیہہ نظم پڑھی : جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او، سوئے اسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی او، روئے اسیں وی آں

اس نظم کی سماعت پر حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے۔ اس وقت مشاعرے میں پنڈت جواہر لعل نہرو (وزیر اعظم بھارت )بھی موجود تھے، انھوں نے استاد دامن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام فرمائیں لیکن انھوں نے جواب دیا کہ اب میرا وطن پاکستان ہے میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں ۔

محب وطن[ترمیم]

اس محب وطن شاعر نے ساری زندگی کسمپرسی کی حالت میں گزاری مگر مرتے دم تک اپنے وطن سے محبت کے گیت گاتا رہا۔ اس دھرتی کو نفرتوں، بے ایمانیوں اور عیاریوں سے پاک کرنے کے لیے محبتوں کے پھول بکھیرتا رہا اور ان برائیوں کی علانیہ نشان دہی اور مذمت کرتے رہا۔ استاد دامن نے آزادی کے بعد رونما ہونے والے سیاسی زوال پر سیا ست دانوں کی کوتاہیوں کی نشاندی کرتے ہوئے ان پر بھرپور تنقید کی اور عوامی شعور کو بیدار کیا۔ وہ وطن عزیر کی ترقی کے خواہاں تھے۔ اس ملک کے دن بدن زوال کی تصویر کشی کرتے ہوئے استاد دامن کہتے ہیں : بھج بھج کے وکھیاں چور ہوئیاں
مڑ کے و یکھیا تے کھوتی بوہڑ ہیٹھاں استاد دامن اپنی شاعری میں زبان کے تکلف سے ہٹ کر اپنے خیالات اور نظریات کے پرچار پر زیادہ زور دیتے۔ وہ عام بول چال کی زبان میں اپنا خیال پیش کرکے سامعین و قارئین کے دلوں کی گہرائیوں کو چھو لیتے۔ یہی ان کا مدعا تھا اور یہی ان کا مقصد حیات کہ بات دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے۔ اس مقصد میں انھیں بھر پور کامیابی حاصل ہوئی ۔

پنجاب کی ثقافت[ترمیم]

استاد دامن نے پنجابی شاعری کے ذریعے پنجاب کی ثقافت کے تمام رنگوں کو اجاگر کیا۔ پنجاب کی ثقافت سے مزین ان کی لوک شاعری نے لوگوں کو خصوصی طور پر اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کے لہجے میں طنز و مزاح تھا۔ انھوں نے مزاح کے انداز میں لوگوں کو معاشرتی برائیوں سے آگاہ کیا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ سچ کی تائید اور جھوٹ کی تردید کی ۔

موضوعات[ترمیم]

استاد دامن کی شاعری میں لوک رنگ، تصوف، سیاسی موضوعات، روایتی موضوعات کے علاوہ روز مرہ زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی خوبیوں سے مالامال ہے اور انسانی زندگی کی خوبصوت عکاس ہے۔ استاد دامن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف اس عہد کے عظیم اور منفرد شاعر فیض احمد فیض نے ایک نجی محفل میں یہ کہہ کر کیا کہ میں پنجابی میں صرف اس لیے شاعری نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین 'وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں۔ بلاشبہ استاد دامن پنجابی ادب کا انمول خزانہ ہے ۔

[ترمیم]

استاد دامن کی ایک خوبی ان کے حافظے کی تیزی تھی۔ ان کی یاد داشت بہت زیادہ تھی۔ جب قیام پاکستان کے بعد کچھ شر پسند عناصر نے ان کی ذاتی لائبریری اور دکان کو آگ لگا دی تو ان کی ذاتی تحریریں 'ہیر کا مسودہ جسے وہ مکمل کر رہے تھے اور دوسری کتابیں جل کر راکھ ہو گئیں تو انھوں نے دل برداشتہ ہو کر اپنا کلام صفحات پر محفوظ کرنا چھوڑ دیا اور صرف اپنے حافظے پر بھروسا کرنے لگے۔ اس وجہ سے ان کا زیادہ تر کلام ضائع ہو گیا لیکن ان کی یاد میں قائم ہونے والی استاد دامن اکیڈمی کے عہدیداروں نے بڑی محبت وکاوش سے ان کے مختلف ذہنوں میں محفوظ اور ادھر ادھر بکھر ے ہوئے کلام کو یکجا کر کے دامن وے موتی کے نام سے ایک کتاب ہمارے سامنے پیش کی ۔استاد دامن اکیڈمی کی اس کاوش سے جہاں پنجابی ادب کو بہت فائدہ ہوا اور اس کے شعری سرمائے میں اضافہ ہوا وہاں شعری ذوق رکھنے والے افراد کو بھی استاد دامن کی شاعری سے فیض یاب ہو نے کا مو قع ملا۔ استاد دامن نے فلموں کے لیے بھی گیت لکھے۔ ان کا فلم غیرت تے نشان میں شامل یہ گیت بہت مشہور ہو ا۔ منیو ں دھرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات
نہ میں سونے دی نہ چاندی دی میں پتل بھری پرات

پنجابی کی خدمت[ترمیم]

استاد دامن، پنجابی کے علاوہ اردو سنسکر ت 'ہندی اور انگریزی زبانوں پر بھی دسترس رکھتے تھے لیکن انھوں نے وسیلہ اظہار اپنی ماں بولی زبان پنجابی ہی کو بنایا۔ استاد دامن بلھے شاہ اکیڈمی کے سرپر ست 'مجلس شاہ حسین کے سرپرست اور ریڈ یو پاکستان شعبہ پنجابی کے مشیر بھی تھے۔ ان مختلف حیثیتوں میں انھوں نے پنجابی زبان و ادب کی ناقابل فر امو ش خدمت سر انجام دیں ۔

فیض، ابن صفی اور جالب[ترمیم]

استاد دامن کہا کرتے تھے کہ اگر کسی نے میرا اردو ایڈیشن دیکھنا ہو تو وہ حبیب جالب کو دیکھ لے۔ استاد دامن کو فیض اور جالب سے محبت تھی۔ 80 کی دہائی میں جب ان کے منہ بولے بیٹے سٹارعلائوالدین کا انتقال ہوا تو گویا استاد دامن کی کمر ٹوٹ گئی۔ بستر پر ہی پڑے رہتے ،کبھی ہسپتال اور کبھی گھر، پھر تھوڑے ہی عرصے کے بعد فیض صاحب بھی خالق حقیقی سے جاملے۔ استاد سے محبت کرنے والوں نے لاکھ روکا وہ نہ مانے اور اپنے یار دیرینہ کے جنازے پر پہنچ گئے۔ لوگوں نے استاد دامن کو پہلی بار دھاڑیں مارتے ہوئے دیکھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ گویا تقسیم سے لے کر آج تک ٹوٹنے والی ساری قیامتوں کی اذیت فیض صاحب کے جانے کے بعد ہی ان تک آئی ہے۔ فیص صاحب کا انتقال 20 نومبر 1984ء کو ہوا اور اسی شام دامن کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ ایسے ٹوٹے کے صرف تیرہ دن کے وقفے کے بعد فیض صاحب کے قدموں کے نشان چنتے چنتے رہی ملک عدم ہو گئے۔

استاد دامن، اردو جاسوسی ادب کے عظیم مصنف ابن صفی صاحب کو بھی پڑھا کرتے تھے۔ نئے افق میگزین 1981 کے ایک شمارے میں ذکر ہے کہ محمد بدر منیر صاحب نے جب ان سے ملاقات کی تو استاد دامن نے ابن صفی صاحب کے ایک کردار کیپٹن حمید کا ذکر کیا تھا اور ابن صفی صاحب اور ان کے ناولوں کے متعلق محمد بدر منیر سے بات چیت کی تھی۔

انتقال[ترمیم]

استاد دامن کو فیض احمد فیض کی موت کا بہت صدمہ ہوا، ان کے جنازے پر دھاڑیں مار کر روتے رہے اور کہتے رہے اگلا نمبر میرا ہے اور ٹھیک 13 دن بعد ہی آپ رخصت ہو گئے۔[1] عوام سے پیار کرنے والا یہ عوامی شاعر 3 دسمبر 1984ء ( سوموار / 18 مگھر / 19 ربیع الاول 1405ھ) کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا اور اپنی وصیت کے مطابق اسی شاہ حسین (مادھو لال حسین)مزار کے احاطے میں واقع قبر ستان میں دفنایا گیا جس نے پنجاب کو جذب و مستی کی نئی کیفیات سے روشناس کیا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "استاد دامن"۔ Fruit Chat۔ 12-1-2023