المہند

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مغلیہ شاہی خاندان کے زوال کے بعد اسلام کے دشمن انگریز نے جب ہندوستان پر اپنی جابرانا حکومت قائم کرلی تو 1857ء میں علمائے حق اور حریت پسند طبقہ نے انگریزی حکومت کے خلاف آزادی کی زبردست جنگ لڑی۔ اس جہاد حریت میں علمائے اسلام کی قیادت حاجی مہاجر مکی کے ہاتھ میں تھی۔ اکابر دیوبند حضرت گنگوہی ؒ اور حضرت نانوتوی ؒ اور حضرت حافظ ضامن ؒ وغیرہ نے اس جہاد کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی پوری کوششیں صرف کر دیں، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1857ء کے اس قیامت خیز ہنگامہ میں انگریزی حکومت نے تیرہ ہزار سے زائد علمائے اسلام کو پھانسی پر لٹکایا اور بعض مجاہدین کو نہایت وحشیانه سزائیں دی گئیں۔ بعض مسلمانوں کے بدن پر خنزیر کی چربی ملی گئی۔ اور ان کو خنزیر کی کھالوں میں سی کر آگ میں زندہ جلا دیا گیا۔ اس سفاک دشمن نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ کر اہل ملک کو عموما اور مسلمانوں کو خصوصا بہت زیادہ کمزور کر دیا۔ ملک پر سیاسی ومادی تسلط پانے کے بعد انگریز کے ناپاک عزائم یہ تھے کہ مسلمانوں کے دل ودماغ سے بھی اسلامی نقوش و آثار مٹا دیے جائیں اور قرآنی تعلیمات کو بھی گہری سازش سے ختم کر دیا جائے چنانچہ لارڈ میکالے اور اس کی تعلیمی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حسب ذیل الفاظ لکھے: 1. ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہیے، جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے در میان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاج، رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو ۔ [1] مرحوم اکبر الہ آبادی نے اس حقیقت کو اس شعر میں بیان کیا

بہت یوں قتل میں بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالچ کی نہ سوجھی [2]

دار العلوم دیوبند کی بنیاد[ترمیم]

انگریزی حکومت کے عزائم اور اس کے فرعونی اقتدار کے خوفناک نتائج کا حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے اپنی قوت قدسیہ سے پہلے ہی ادراک کر لیا تھا 1857ء میں ناکامی کی تلافی اور اسلامی علوم و نظریات کے تحفظ کے لیے دیوبند میں ایک دینی عربی مدرسے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت کے اکابر اولیاء اللہ کی دعائیں اس مدرسہ کے شامل حال تھیں۔ چنانچہ اس عظیم الشان مدرسہ کا افتتاح بتاریخ 15 محرم 1283ھ، بمطابق 1867ء مسجد چھتہ میں انار کے مشہور درخت کے نیچے ہوا۔ اس تاریخی درسگاہ کے سب سے پہلے معلم حضرت علامہ محمود ؒ اور پہلے متعلم محمود الحسن ؒ تھے جو بعد میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن ؒ اسیر مالٹا کی تاریخی شخصیت سے جہان میں مشہور ہوئے۔ اللہ جل جلالہ کی رحمت و نصرت سے یہ دینی درسگاہ بعد میں دارلعلوم دیوبند کے نام سے عالم اسلام کے لیے سرچشمہ علوم و معارف بنی جس کے فیوض و برکات سے آج تک ایک عالم مستفید ہو رہا ہے۔ تاریخ دیوبند میں لکھا ہے کہ "حضرت مولانا رفیع الدین ؒ نقشبندی، مہتمم دار العلوم دیوبند کو خواب میں سرور کائنات ﷺ کی زیارت ہوئی آنحضرت ﷺ مدرسہ کے کنویں پرتشریف فرما ہیں اور کنواں دودھ سے بھرا ہوا ہے۔ ایک بڑا ہجوم لوگوں کا سامنے ہے۔ لوگوں کے پاس چھوٹے بڑے برتن ہیں اور ساقی کوٹر صلی اللہ علیہ وسلم سب کے برتنوں کو دودھ سے بھر رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر بزرگوں نے یہ نکالی کہ انشاء اللہ اس مدرسہ سے شریعت محمدیہ ﷺ کے علوم و فیوض کے چشمے جاری ہوں گے جن سے ایک جہان سیراب ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ اس دور میں دار العلوم دیوبند ایک مجدد کی حیثیت رکھتا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اس دار العلوم کے ذریعہ کتاب وسنت کے علوم و معارف کا جو فیضان اطراف عالم میں پھیلا ہے اس کی نظیر اس زمانہ میں نہیں مل سکتی عالم اسباب کے پیش نظر اگر دار العلوم کا وجود نہ ہوتا تو تمدن ہندوستان میں مذہب اہل السنت و الجماعت کا صرف نام ہی باقی رہ جاتا۔ لیکن اکابر دار العلوم کی اصلاح اور تجدیدی مساعی سے شرک والحاد کی ظلمتیں چھٹ گئیں اور توحید وسنت کے انوار پھیل گئے۔ بانی دار العلوم حضرت نانوتوی ؒ نے دار العلوم اور دیگر دینی مدارس کے لیے آٹھ بنیادی اصول وضع فرمائے جن پر دار العلوم کی علمی و دینی ترقیات موقوف ہیں۔ 1924ء میں بسلسلہ تحریک خلافت مشہور مسلم لیڈر مولانا محمد علی جوہر ؒ جب دیو بند تشریف لائے اور ان کو حضرت نانوتوی ؒ کے یہ آٹھ اصول بتائے گئے ، تو آپ رو پڑے اور فرمایا کہ یہ اصول تو الہامی معلوم ہوتے ہیں۔ [3]

دار العلوم نے اس صدی میں بلامبالغہ ہزاروں محدث، مفسر، فقیہ، صوفی، عارف اور مجاہد پیدا کیے ہیں حجتہ الاسلام حضرت نانوتوی ؒ  اور قطب الارشاد حضرت گنگوہی ؒ  کے فیض یافتہ تلامیذ و متوسلین میں سے سب سے جامع ترشخصیت امام انقلاب شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن ؒ  اسیر مالٹا کی ہے جو دار العلوم کے سب سے پہلے طالب علم ہیں [4]

حضرت شیخ الہند کے سینکڑوں تلامیذ و مسترشدین میں سے شیخ العرب والعجم، امیر المجاہدین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ، شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند ، جامع کمالات صوری و معنوی حضرت مولانامحمد انور شاہ کشمیری ؒ ، محدث و مفتی اعظم سند العلما حضرت مولانا کفایت اللہ صاحب دهلوی ؒ، شیخ الحدیث مدرسہ امینیه دہلی، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور بطل حریت، داعی انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ صاحب سندھی ؒ ، وہ ممتاز شخصیات ہیں جن کے ذریعہ اہل سنت احناف دیوبندی مسلک کو ہر شعبہ میں بہت زیادہ تقویت پہنچی۔ علاوه ازیں اکابر دیو بند میں سے حکیم الامت، امام طریقت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کو بھی حضرت شیخ الہند ؒ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ شیخ التفسیر، قطب زماں، صاحب کشف و کرامت مولانا احمد علی لاہوری اکثر کہا کرتے تھے کہ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر مدرس آج تک جامع الظاہر والباطن ہوئے ہیں۔ یہ بھی فرمایاکہ گیارہ مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری نصیب ہوئی ہے، جہاں روئے زمین کے اولیاء اللہ جمع ہوتے ہیں لیکن اتنی مدت میں نے وہاں حضرت مدنی جیسا جامع بزرگ نہیں دیکھا۔ علاوہ مذکورہ بزرگوں کے شیخ التاریخ العارف باللہ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائپوری ؒ اور قطب دوران، واصل باللہ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائپوری ؒ بھی حضرات اکابر دیوبند کے فیض یافتہ ہیں، جن کے انوار ولایت نے ہزاروں قلوب میں معرفت کے چراغ جلا دیے۔ امیر شریعت، مجاہد حریت ، بطل جلیل، خطیب امت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کا جمال و جلال بھی اکابر دیوبند ہی کا پر تو ہے جس نے ہزاروں نوجوانوں میں عشق ختم نبوت کی آگ لگادی ر

ایک تکفیری فتنہ[ترمیم]

انگریز ان مجاہدین حریت اور علمائے حق کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ جب اس نے دار العلوم دیوبند اوران کے اکابر کے علمی و دینی اثرات کو پھیلتے دیکھا تواس نے اس سرچشمہ اسلام کوختم کرنے کے لیے مختلف تدبیریں اختیار کیں۔ بعض دنیا پرست مولویوں اور پیروں کو خریدا گیا اور ان کے ذریعہ ان حضرات پر وہابیت کا الزام لگایا۔  اس سے پہلے بھی ان اکابر کے اسلاف امام المجاہدین حضرت سید احمد شہید بریلوی ؒ  اور عالم ربانی مجاور جلیل حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید  کی جاودانه قربانیوں کو اس وہایت کے الزام سے ناکام بنانے کی کوشش کی جا چکی تھی۔ خدا جانے وہ کون سے اسباب و عوامل تھے کہ برصغیر کے ایک فرقہ کے بانی بنام احمد رضا خان  نے اکابر دیوبند کے خلاف تکفیری مہم تیز کر دی۔

حسام الحرمین کی حقیقت[ترمیم]

 احمد رضاخاں نے 1323ھ  میں سفر حج اختیار کیا۔ حج سے فراغت کے بعد انھوں نے مکہ معظمہ میں ہی ایک رسالہ مرتب کیا جس میں اکابر دیو بند کی عبادات کو لفظی و معنوی تحریف کر کے درج کیا گیا اور طرہ یہ کہ ان محبت و اطاعت محمدی میں ڈوبی ہوئی شخصیتوں پر یہ الزام لگایا کہ معاذاللہ انھوں نے اپنی کتابوں میں خدا کو جھوٹا کہا ہے اور سرور عالم صلی الہ علیہ وسلم کی گستاخیاں کی ہیں ان کی ختم نبوت کا انکار کیا ہے  رسالہ کو اس طریق سے مرتب کیا کہ پہلے فرقہ قادیانیہ کے عنوان سے مرزا غلام احمد  قادیانی کی کفریہ عبارات  درج کیں اور اس کے بعد اکابر دیوبند کو فرقہ وہابیہ کذابیہ اور شیطانیہ کے قبیح عنوانات  کے تحت متعدد فرقوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ ناواقف لوگ یہ سمجھیں کہ فرقہ قادیانی کی طرح ہندوستان میں یہ بھی کوئی  جدید فرقے پیدا ہوئے ہیں۔ اس رسالہ میں اکابر دیوبند میں سے حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ،  قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ، فخر العارفین حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری ؒ  اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ  خلیفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر  مکی ؒ  کی عبارتوں کو توڑ موڑ کر پیش کر کے ان پر خارج از اسلام کا فتوی صادر کیا اور یہاں تک لکھا کہ جو شخص ان کو خارج از اسلام نہ کہے وہ بھی خارج از اسلام  ہے۔ علمائے حرمین شریفین سے اس فتوی کی تصدیقات حاصل کرنے کے لیے مختلف ذرائع و وسائل سے کام لیاگیا۔ یہ حضرات چونکہ اکابر دیوبند اور ان کی تصانیف سے پورے طور پر متعارف نہ تھے، اس لیے رسالہ کی مندرج عبارات کے پیش نظر جواب بعون السوال اپنی تصدیقات لکھ دیں۔ ان میں سے محتاط علما نے یہ لکھا کہ "اگرواقعی ان کے عقائد ایسے ہیں تو فتوی درست ہے"۔ جہاز سے واپسی پر کچھ عرصہ سکوت کرنے کے بعد  احمد رضاخان صاحب نے یہ رسالہ حسام الحرمین کے نام سے ہندوستان میں 1325ھ میں طبع کرایا۔ [5]

المہند علی المفند کی ضرورت[ترمیم]

ان ایام میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒ مدینه منورہ میں ہی قیام پزیر تھے اور مسجد نبوی میں آپ کا درس بہت عروج پر تھا لیکن حسام الحرمین کی کارروائی اس رازداری سے کی گئی کہ آپ کو اس وقت اس کا کچھ علم نہ ہو سکا۔ اس تکفیری سازش سے مطلع ہونے کے بعد حضرت مدنی ؒ نے اکابر علمائے حرمین شریفین کو حقیقت حال سے مطلع کیا۔ تو ان حضرات نے چھبیس سوالات قلمبند کر کے اکابر دیوبند کو جواب کے لیے ارسال کیے۔ اس وقت حضرت گنگوہی ؒ اور حضرت نانوتوی ؒ کا وصال ہو چکا تھا۔ مذکورہ سوالات کے جوابات فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ نے فصیح عربی زبان میں مرتب فرمائے جس پر اس وقت کے تمام مشاہیر دیوبند جن میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن ؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ، اسوة الصلحا حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری ؒ بقیه الاسلام حضرت مولانا حافظ محمد احمد ؒ مہتمم دار العلوم، حجت الاسلام حضرت نانوتوی ؒ ، عارف کامل حضرت مولانا عزیز الرحمن ؒ اور مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ ؒ شامل ہیں جنھوں نے اپنی تائیدات تحریر فرمائیں مشاہیر بند کے علاوہ حجاز، مصر اور شام وغیرہ اسلامی ممالک کے مقتدر علما اور مشائخ نے بھی اپنی تصدیقات سے اس کو مزین فرمایا چنانچہ یہ رسالہ 1325ھ میں تحریر ہوا اور المہند علی المفند کے نام سے ہندوستان میں شائع کیا گیا۔ اس مسئلہ میں مذکورہ سوالات کی روشنی میں اکابر دیوبند کے عقائد حقہ کی تشریح و توضیح کی گئی ہے جس سے مخالفین و معاندین کی تلبیسات کا پردہ چاک ہو کر بزرگان دیوبند کا حقانی و حقیقی مسلک واضح ہو جاتا ہے۔ گویا المہند اکابر دیوبند کی ایک ایسی متفق فیہ تاریخی دستاویز ہے جس میں اہل سنت احناف دیوبند مسلک کے عقائد و اصول کو مدون کر دیا گیا ہے۔ جس کی تصدیق حرمین، بلاد شام اور یندوستان کے تمام مذاہب اربعہ کے علما نے کی ہے کہ یہی اہل سنت کے اصل عقائد ہیں یہ امتیاز برصغیر میں اور کسی مکتب فکر کو حاصل نہیں ہے۔ کہ جن کے عقائد مدون ہوں اور ان پر تمام عالم اسلام سے مذاہب اربعہ کے علما کی مہر تصدیق ثبت ہو۔

علمائے حرمین کے سوالات کا پس منظر[ترمیم]

دشمنان اسلام نے ہر دور میں اور ہر اندازسے اسلام کو نقصان پہنچایا، برصغیر میں بھی اخیار امت محمدیہ ﷺ کو منتخب کر کے ان سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہا جیسے روافض نے امت کے خلفاء حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ کو منتخب کر کے ان کی تکفیر کی اور تبرا بازی و سب و شتم سے کام لیا۔ ایسے ہی اس وقت جو دین کے منتخب اور برگزیدہ جماعت کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ ان کو اپنے گھر کے دھوئیں سے مکدر کرنا چاہا۔

لیکن والله متم نوره وَلَوْكَرہ الْكَافِرُونَ..  تمام ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ فخر امت و معجزة من معجزات سيد المرسلين علیہ الصلواہ و التسلیم کے خاندان کو چنا گیا اور حضرت مولانا اسماعیل شهید ؒ  مرحوم و مظلوم نے اہل بدعت پر  بعض کلمات جو بدعات کے رد میں لکھے جن کی بدعات شرک کی حد تک پہنچ گئیں تھیں  تمام قرائن حالیہ اور سیاق و سباق سے قطع نظر کر کے اشتہارات نکالے اور ان پر تبری کیا، کفر لازم کیا اوران کو خارج از اسلام قرار دے کر فقہائے کرام کا فتوی چھاپ دیا مگر شاہ صاحب کے خاندان کی عظمت مسلم ہو چکی تھی ۔ اس وجہ سے مخالفین کو پوری کا میابی نہ ہوئی اور چونکہ اس زمانہ میں بدعت کی تباہی حضرت شاہ صاحب کے خاندان کے وارث حضرت مولانا محمد قاسم صاحب قدس سره العزیز، حجت اللہ تعالی فی الارض اور حضرت مولنا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی قدس اسرار ہم کے سپرد ہوئی اور حمایت سنت مصطفوی کا بلند جھنڈا انھی کے مقدس ہاتھوں میں دیا گیا جو مدرسہ عالیہ کی رفیع عمارت پر ان حضرات نے قائم فرمایا اور "مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ ۔ تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ" [6] کا تھا کی طرح جیسے آسمان سے باتیں کرتاتھا۔ اپنے استحکام میں ساتویں زمین تک بھی پہنچا ہوا تھا اور ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ روم، شام، عرب وعجم، کابل و قندھار، بخارا و خراسان، چین و ثبت وغیرہ، دنیا کے تمام گوشوں سے نظر آتا تھا اور عاشقان سنت اس کے سبز جھنڈے کو دور ہی سے دیکھ کر سنت نبوی ﷺ کی جھلک اس سے پالیتے تھے اور آنکھ بند کیے کھچے چلے آتے اور دیوبند کی گلیوں میں پھرتے نظر آتے اور یہاں کی خشک روٹی اور دال کو انگریزی تعلیم کے قورما پلاؤ پر ترجیح دیتے تھے  اور "بادشاہی سے بھی بہتر ہے گھائی تیری" کا نعرہ بلند کرتے تو یہ "یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ" [7]  کا یہ نظارہ دیکھ کر مخالفین  نے پوری توجہ ان  کے اثر مثانے کی طرف فرمائی۔ مخالفین نے حضرت شہید مظلوم پر کفر کا فقہائے کرام کا اجماعی قطعی فیصلہ قرار دے کر خود احتیاط کی تھی جن کی بنا پہ خود اپنے ہی فتوی  کے تحت کافر ہو گئے مگر حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ ، حضرت مولانا رشید احمد قدس سرہ اور حضرت  مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ  اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب دامت برکاتہم کی قطعی تکفیر کی اور یہ کہا کہ جو ان کے کافر کہنے میں تردد، تامل اور شک کرے وہ بھی مطلق کافر ہے حضرت مولانا نانوتوی ؒ  پر ختم نبوت کا انکار کرنے کا الزام لازم کیا اور حضرت مولانا گنگوہی ؒ  پر یہ افترا کیا کہ وہ خدا کے کذب بالفعل کے جائز رکھنے والے کو مسلمان سنی بتاتے ہیں حضرت مولانا خلیل احمد ؒ  کی جانب یہ عنایت فرمانی که ده براهین قاطعہ میں تصریح کرتے ہیں کہ ابلیس لعین کا علم رسول اللہ ﷺ  کے علم سے زیادہ ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب دامت بر کاتہم پر یه بہتان لگایا که حفظ الایمان میں تصریح کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم حاصل ہے اتنا تو ہر  بچے، مجنون و بہائم کو بھی حاصل ہے، مخالفین نے مضمون عربی عبارت کی کتاب "المعتمد المستند" میں لکھ کر اس کی تصدیق ائمہ حرمین شریفین سے کرائی اور اس کا نام حسام الحرمین رکھ کر اردو زبان میں تمام ہندوستان میں شور مچا دیا کہ علما حرمین شریفین نے ہمارے فلاں مخالف کی قطعی تکفیر کر دی، اب ان کے کفر میں کیا شک باقی رہا۔ حالانکہ یہ بالکل افتراء وبغض ہے جو کتب "السحاب المدرار" اور 'توضیح البیان" وغیرہ کے دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے۔ اس مجرمانہ کارروائی کی خبر بعض علمائے مدینه منورہ کو ہوئی تب ان حضرات نے یہ چھپیں سوالات حضرات علما دیوبند کی خدمت مبارک میں بھیجے کہ آپ کا ان میں کیا موقف ہے اس کو صاف لکھیے تاکہ حق و باطل واضح ہو جائے چنانچہ فخر العلماء والمسلمین حضرت مولانا مولوی خلیل احمد ؒ  مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور نے ان کے جواب لکھ کر حرمین شریفین کے علما کی خدمت مبارک میں پیش فرمائے اصلا حرمین شریفین زادبما لله شرفا و تکریما و عمار مصر و حلب و شام ودمشق نے ان کی تصحیح و تصدیق فرمائی اور یہ لکھ دیا کہ یہ عقاید صحیح ہیں، ان کی وجہ سے نہ کوئی کافر ہو سکتا ہے، نہ بدعتی اور نہ اہل السنت و الجماعت سے خارج۔

علمائے دیوبند کی براءت[ترمیم]

اہل اسلام کی اطلاع کی غرض سے علما حرمین شریفین و مصرو حلب و شام و دمشق کی تصدیقات بصورت رساله مسلط به المهند على المقتد معروف به تصدیقات لدفع التلبيسات مع ترجمہ المسمى به ماضي الشفرتين على خادع اهل الحرمین طبع کرا دیا گیا تاکہ اہل اسلام کو مخالفین کی خیانت پوری پوری طرح سے معلوم ہو جاوے، اب اہل ایمان مخالفین سے دریافت فرمائیں کہ آپ نے حسام الحرمین پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ یہ طائفے سب کے سب مرتد ہیں باجماع امت اسلام سے خارج ہیں اور بزازیہ اور دوراور غور اور فتاوی خیریہ اور مجمع الانتھر اور در مختار وغیرہ کتابوں میں ایسے کافروں کے حق میں فرمایا ہے کہ جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرنے خود کافر ہے، انتہی ۔ پھر صفحہ 23 پر ہے ، حمد و صلوۃ کے بعد میں کہتا ہوں کہ یہ طائفے جن کا تذکرہ سوال میں واقع ہے ، غلام احمد قادیانی اور رشید احمد اور جوان کے پیرو ہوں جیسے خلیل احمد انبیٹھی اور اشرف علی وغیرہ، ان کے کفر میں کوئی مشتبہ نہیں، نہ شک کی مجال ، بلکہ جو ان کے کفر میں شک کرے بلکہ کسی طرح کسی حال میں انھیں کافر کہنے میں توقف کرئے اس کے کفر میں بھی شک نہیں، انتہی ۔ اور حضرات علمائے حرمین شریفین و مصر و حلب و شام ان تمام حضرات کو مسلمان اور ان کے جملہ عقائد کو عقائد اہل سنت لکھ کر ان کی تصحیح و تصدیق فرماتے ہیں تو اب جناب کے فتوی کے موافق یہ تمام حضرات اور جملہ عرب وعجم و شام و مصر و عراق کیا کافر ہو گئے کیا جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے ، وہ بھی کافر ہے۔ معاذ اللہ العظیم یہ ہے مخالفین کی محبت سنت اور یہ ہیں وہ اہل السنت والجماعت کہ دنیا میں کسی کوبھی مسلمان نہ چھوڑا۔ بڑے بڑے کفار جو اسلام کے مٹانے کی تدابیر میں مصروف ہیں خان صاحب نے ایک فتوے سے کر دیا سب کی مرادیں پوری کرا دیں۔ مگر اسلام کا بٹا دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کوئی اپنا منہ دین دنیا میں کالا کرے مگر اسلام تو قیامت تک تاباں ہی رہے گا۔ چونکہ رئیس فرقه کی حسام الحرمین کی حقیقت منکشف ہو گئی کہ مولف نے جو کچھ لکھا تھا، وہ محض افترائے خالص تھا۔کہ جو علما کرام حضرات دیوبند کو کافر نہ کہے اور ان کے کفر میں کسی طرح شک و تردد و تامل کرے، وہ بھی قطعی کافر ہے۔ اس لیے اس مضمون کے دیکھنے سے واضح ہو جائے گا کہ علما حرمین شریفین زادهما الله شرفاً وتكريماً حضرات دیو بند کے عقائد کی تصحیح فرما ر ہے ہیں۔ پس اب دیکھنا ہے کہ خان صاحب اپنے قول سے رجوع کرتے ہیں یا علما دیوبند کے ساتھ تمام علما حرمین شریفین و مصر وحلب و شام و دمشق سب کی تکفیر کرتے ہیں کیون که تمام علما حضرات دیوبند کو مسلمان کہتے ہیں اور روس امام علی رؤوس المقام کہہ کر حضرات دیوبند ربانی و علامہ بتا ئے جا رہے ہیں، اب ہم دیکھیں کہ خان صاحب کے پاس کون سی ترکیب اور ہے جس سے علما دیوبند تو کافر ہیں اور علما حرمین شریفین و مصر وحلب و شام مسلمان بنے رہیں ان تصدیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات علما کرام دیوبند کے عقائد بالکل صحیح اہل السنت و الجماعت کے موافق ہیں اور جملہ اہل حق علمائے ربانی حضرات علما کے ساتھ ہیں نہ کہ اہل بدعت کے ساتھ۔ سو کوئی بات ایسی نہیں رہی جس کو اہل بدعت ان حضرات کی طرف منسوب کر کے وہابی کہہ سکیں۔ سازش کرنے والوں کا پول کھل گیا اور ان کی تدابیر کا خاتمہ ہو چکا۔ والحمد لله على ذلك : اہل بدعت فقط حضرات دیو بند اور خادمان سنت ہی کے مخالف اور دشمن نہیں ہیں۔ ان کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل سنت اور اسلام ہی کے دشمن ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو اہنے علاوہ سب کو گمراہ اور گستاخ اور دائرہ اسلام سے خارج کر دیں ۔ مگر اللہ تعالی اس دین کا حافظ ہے، اس لیے آسمان کا تھوکا حلق میں آتا ہے اور جو اس شریعت بیضا میں رخنہ اندازی کرتا ہے خود روسیاہ اور ذلیل و خوار ہوتا ہے۔

تمہید وعلت سوالات[ترمیم]

اے علمائے کرام اور سرداران عظام تمھاری جانب چند لوگوں نے وہابی عقائد کی نسبت کی ہے اور چند اوراق اور رسالے ایسے لائے ہیں جن کا مطلب غیر زبان ہونے کے سبب ہم نہیں سمجھ سکے۔ اس لیے امید کرتے ہیں، ہمیں حقیقت حال اور قول کی مراد سے مطلع کرو گے ۔ ہم تم سے چند امور ایسے دریافت کرتے ہیں جن میں وہابیت کا اہل سنت والجماعت سے خلاف مشہور ہے

جواب: شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان کرنے والا ہے اور اسی سے مدد اور توفیق درکار ہے اور اس کے قبضہ میں تحقیق کی باگیں ہیں حمد و صلوۃ و سلام کے بعد اس سے پہلے کہ ہم جواب شروع کریں جاننا چاہیے کہ ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمد الله فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت ؒ کے اور اصول و اعتقادیات میں پیرو ہیں امام ابو الحسن اشعری ؒ اور امام ابو منصور ماتریدی ؒ کے اور طریقہ صوفیہ میں ہم کو انتساب حاصل ہے سلسلہ عالیہ حضرات نقشبندیہ اور طریقہ ذکیہ مشائخ چشت اور سلمہ حضرات قادریہ اور طریقہ مرضیہ مشایخ سہروردیہ کے ساتھ۔ دوسری بات یہ کہ ہم دین کے بارے میں کوئی بات ایسی نہیں کہتے جس پر کوئی دلیل نه ہو قرآن مجید کی یا سنت کی یا اجماع امت یا قول کسی امام کا اور بایں ہمہ ہم دعوی نہیں کرتے کہ قلم کی غلطی

یا زبان کی لغزش میں سہو و خطا سے مبرا ہیں پس اگر ہمیں ظاہر ہو جائے کہ فلاں قول میں ہم سے خطا ہوئی، عام ہے کہ اصول میں ہو یا فروع میں، اپنی غلطی سے رجوع کر لینے میں حیا ہم کو مانع نہیں ہوتی اور ہم رجوع کا اعلان کر دیتے ہیں چنانچہ ائمہ مجتہدین سے ان کے بیشتر اقوال سے رجوع ثابت ہے حتی کہ امام حرم امام شافعی سے کوئی ایسا مسئلہ  منقول نہیں جس میں دو قول جدید و قدیم نہ ہوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اکثر مسائل میں دوسروں کے قول کی جانب رجوع فرمایا چنانچہ حدیث کی اتباع کرنے والے پر ظاہر ہے پس اگر کسی عالم کا دعوی ہے کہ ہم نے کسی حکم شرعی میں غلطی کی ہے سو اگر وہ مسئلہ اعتقادی ہے، تو اس پر لازم یے کہ وہ اپنا دعوی ثابت کرے علمائے اکرام کی تصریح سے اور اگر مسئلہ فروعی ہے تو اپنی بنیاد کی تعمیر کرے ائمہ مذاہب کے راجح قول پر جب ایسا کریگا تو انشا الله ہماری طرف سے  خوبی ہی ظاہر ہوگی اور دل وزبان سے غلطی قبول کرینگے اور قلب و اعضا سے شکر ادا کرینگے  تیسری بات یہ کہ ہندوستان میں لفظ وہابی کا استعمال اس شخص کے لیے تھا جو ائمہ کی تقلید چھوڑ بیٹھے پھر ایسی وسعت ہو گئی جو ان پر بولا جانے لگا جو سنت محمدیہ پر عمل کریں  اور بدعات سیئہ و رسوم قبیحہ کو چھوڑ دیں یہاں تک ہوا چلی کہ بمبئی اور اس کے گرد و نواح میں یہ مشہور ہو گیا کہ جو عالم اولیاء کی قبروں کو سجدہ اور طواف کرنے سے منع کرے وہ وہابی ہے بلکہ جو سود کی حرمت ظاہر کرے وہ بھی وہابی ہے گو کتنا ہی بڑا مسلمان کیوں نہ ہو اس کے بعد لفظ وہابی گالی بن گیا سو اگر کوئی ہندی شخص کسی کو وہابی کہتا ہے تو یہ مطلب نہیں کہ اس کا عقیدہ فاسد ہے بلکہ یہ مقصود ہوتا ہے کہ وہ سنی حنفی ہے سنت پر عمل کرتا ہے بدعت سے بچتا ہے اور معصیت کے ارتکاب میں اللہ تعالی سے ڈرتا یے چونکہ ہمارے مشائخ   احیائے سنت میں  سعی کرتے اور بدعت کی اگ بجھانے میں مستعد رہتے ہیں اس لیے شیطانی لشکر کو ان پر غصہ آیا اور ان کے کلام میں تحریف کر ڈالی اور ان پر بہتان باندھے، طرح طرح کے افترا اور خطاب وہابیت کے ساتھ ان کو متہم کیا مگر حاشا کہ وہ ایسے ہوں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ سنت اللہ ہے کہ جو خواص اولیاء میں ہمیشہ جاری رہی ہے چنانچہ اللہ نے اپنی کتاب میں خود ارشاد فرمایا ہے وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَؕ [8] اور اسی طرح وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاؕ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ [9]  ہم نے ہر نبی کے دشمن بنا دیے ہیں جن و انس کے شیاطین کہ ایک دوسرے کی جانب جھوٹی باتیں ڈالتے رہتے ہیں  دھوکا کے لیے اور اے محمد اگر تمھارا رب چاہتا تو یہ لوگ ایسا کام نہ کرتے سو چھوڑو ان کو اور ان کے افترا کو 

پس جب انبیا علیہم السلام کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہے تو ان کے جانشین اور قائم مقاموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم انبیا کا گروہ سب سے زیادہ موردبلا ہے پھر کم پھر اس سے کم تاکہ ان کا حظ وافر اور اجر کامل ہو جائے پس اہل بدعت جو افتراء و بدعات میں منہمک اور شبہات کی جانب مائل ہیں انھوں نے خواہش نفس کو اپنا معبود بنالیا ہے اور اپنے اپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا ہم پر جھوٹے بہتان باندھے اور ہماری جانب گمراہی کی نسبت کرتے رہتے ہیں جو صاحب اپ کی خدمت میں ہماری جانب منسوب کر کے کوئی مخالف مذہب قول بیان کیا کرے تو اپ اس کی طرف التفات نہ فرمایا کریں ہمارے ساتھ حسن ظن کام میں لائیں اور اگر طبع مبارک میں کوئی خلجان پیدا ہو تو ہمیں لکھ بھیجیں ہم ضرور واقعی حال اور سچی بات کی اطلاع دیں گے اس لیے کہ اپ حضرات ہمارے نزدیک مرکز دائرۃ الاسلام ہیں

عقیدہ زیارت روضہ اطہر ﷺ[ترمیم]

پہلا اور دوسرا سوال[ترمیم]

کیا فرماتے ہو. سید الکائنات علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کے لیے تمھارے نزدیک اور تمھارے اکابر کے نزدیک ان دو باتوں میں کون سا امر پسندیدہ و افضل ہے کہ زیارت کرنے والا بوقت سفر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ السلام کی زیارت کی نیت کرے یا مسجد نبوی کی بھی، وہابیہ کا قول ہے کہ مسافر مدینہ منورہ کو صرف مسجد نبوی کی نیت سے سفر کرنا چاہیے۔

جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک زیارت قبر سید المرسلین (ہماری جان اپ پر قربان) اعلی درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے بلکہ واجب کے قریب ہے گو مشقت مجاہدے اور جان و مال سے نصیب ہو اور سفر کے وقت اپ کی قبر اطہر کی زیارت کی نیت کریں اور ساتھ میں مسجد نبوی اور دیگر مقامات پر زیارت گاہ متبرکہ کی بھی نیت کریں بلکہ بہتر یہ ہے کہ جو علامہ ابن حمام ؒ نے فرمایا کہ خالص قبر شریف کی زیارت کی نیت کرے پھر جب وہاں حاضر ہوگا تو مسجد نبوی کی بھی زیارت حاصل ہو جائے گی اس صورت میں جناب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم زیادہ ہے اور اس کی موافقت خود حضرت ﷺ کے ارشاد سے ہو رہی ہے کہ جو میری زیارت کو ایا میری زیارت کے سوا کوئی حاجت اس کو نہ ہو تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کا شفیع بنوں اور ایسا ہی عارف ملا جامی سے منقول ہے کہ انھوں نے زیارت کے لیے حج سے علاحدہ سفر کیا اور یہی طرز مذہب عشاق سے زیادہ ملتا ہے اب وہابیہ کا یہ کہنا کہ مدینہ منورہ کی جانب سفر کرنے والے کو صرف نبی ﷺ کی نیت کرنی چاہیے اور اس قول پر اس حدیث کو دلیل لانا کہ کجاوے نہ کسے جائیں مگر تین مسجدوں کی جانب سو یہ فہم مردود ہے اس لیے کہ حدیث کہیں بھی زیارت قبر اطہر کی ممانعت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ صاحب فہم اگر غور کریں تو یہی حدیث بدلالت النص جواز پر دلالت کرتی ہے کیونکہ جو علت تین مساجد کے دیگر مساجد اور مقامات سے مستثنی ہونے کی قرار پاتی ہے وہ ان مساجد کی فضیلت ہی تو ہے اور یہ فضیلت زیادتی کے ساتھ روضہ پاک ﷺ میں موجود ہے اس لیے کہ وہ حصہ زمین جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضا مبارکہ کو مس کیے ہوئے ہے علی الاطلاق افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ عرش و کرسی سے بھی۔ فقہا نے اس کی تصریح فرمائی ہے اور جب فضیلت خاصہ کی وجہ سے تین مساجد عموم نہی سے مستثنی ہو گئیں تو درجہ اولی ہے کہ بقعہ مبارکہ فضیلت عامہ کے سبب مستثنی ہو

ہمارے بیان کے موافق بلکہ اس سے بھی زیادہ بسط کے ساتھ اس مسئلے کی تصریح ہمارے شیخ شمس العلماء حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ   نے اپنے رسالہ "زبدہ المناسک" کی فصل زیارت مدینہ منورہ میں فرمائی ہے نیز اسی بحث  میں ہمارے شیخ المشایخ مفتی صدر الدین دہلوی قدس سرہ کا ایک رسالہ تصنیف ہے جسے مولانا نے وہابیہ اور ان کے موافقین پر رد کیا ہے اور ان کے خلاف دلائل ذکر فرمائے ہیں اس کا نام "احسن المیعاد فی شرح حدیث لا تشدالرحال" ہے اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے

عقیدہ توسل، حیات النبی، آداب زیارت و درود شریف[ترمیم]

تیسرا اور چوتھا سوال[ترمیم]

کیا تمھارے نزدیک وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعاؤں میں توسل لینا جائز ہے یا نہیں؟ سلف صالحین یعنی انبیا صدیقین اور شہداء و اولیاء اللہ کا توسل بھی جائز ہے یا ناجائز؟

جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیا، صلحا، اولیاء، شہداء، صدیقین کا توسل جائز ہے ان کی حیات میں ہو یا بعد وفات، اس طور پر کہ یوں کہے یا اللہ میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت براری چاہتا ہوں ان ہستیوں سے کچھ نا مانگے ہمارے شیخ مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی ؒ  نے اس کی تصریح فرمائی ہے  پھر مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ  نے بھی اپنے فتاوی میں اس کو بیان فرمایا ہے جو چھپا ہوا ہے اج کل لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے۔ 
===پانچواں سوال===

کیا فرماتے ہو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں حیات کے متعلق کہ کوئی خاص حیات اپ کو حاصل ہے یا عام مسلمانوں کی طرح برزخی حیات ہے؟

جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور اپ کی حیات دنیا کی سی ہے بغیر احکام کا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت سے،  تمام انبیا علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو حاصل ہے تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو۔ چنانچہ علامہ سیوطی ؒ  نے اپنے رسالے میں بتصریح لکھا ہے کہ علامہ تقی الدین سبکی ؒ  نے فرمایا کہ انبیا و شہداء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسی علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے پس اس سے ثابت ہوا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی بھی ہے اور اس معنی کو برزخی بھی ہے کہ عالم برزخ میں حاصل ہے اور ہمارے شیخ مولانا محمد قاسم صاحب قدس سرہ کا اس بحث میں ایک مستقل رسالہ بھی ہے جو بہت دقیق اور انوکھے طرز کا ہے اس کا نام آب حیات ہے 

چھٹا سوال[ترمیم]

کیا جائز ہے مسجد نبوی میں دعا کرنے والے کو یہ سورت کہ قبر شریف کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور حضرت کا واسطہ دے کر حق تعالی سے دعا مانگے؟

جواب: اس میں فقہا کا اختلاف ہے جیسا کہ ملا علی قاری   نے "مسلک منقسط" میں ذکر کیا ہے فرماتے ہیں جان رکھو کہ ہمارے بعض مشائخ ابواللیث ؒ  اور ان کے پیرو کرمانی وسروجی ؒ  وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ زیارت کرنے والے کو قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہیے جیسا کہ امام حسن ؒ  نے امام ابو حنیفہ   سے روایت کیا ہے اس کے بعد ابن حمام ؒ  سے نقل کیا ہے کہ ابواللیث کی روایت نامقبول ہے اس لیے کہ امام ابو حنیفہ   نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ سنت یہ ہے کہ جب تم قبر شریف پر حاضر ہو تو قبر اطہر کی طرف منہ کر کے اس طرح کہو کہ اپ پر سلام نازل ہو اے نبی اور اللہ تعالی کی رحمت و برکات نازل ہوں پھر اس کی تائید میں دوسری روایت لائے ہیں جس کو مجدالدین لغوی ؒ  نے ابن مبارک ؒ  سے نقل کیا وہ فرماتے ہیں میں نے ابو حنیفہ ر کو اس طرح فرماتے سنا کہ جب ابو ایوب سختیانی ؒ  مدینہ منورہ میں ائے تو میں وہیں تھا میں نے کہا میں ضرور دیکھوں گا یہ کیا کرتے ہیں سو انھوں نے قبلہ کی طرف پشت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف اپنا منہ کیا اور بلاتصنع  روئے پھر اس کو نقل کر کے علامہ قاری ؒ  فرماتے ہیں اس حساب سے ظاہر ہے کہ یہی صورت امام صاحب کی پسندیدہ ہے ہاں پہلے ان کو تردد تھا پھر علامہ ؒ  نے یہ بھی کہا کہ دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے غرض اس سے ظاہر ہو گیا کہ جائز دونوں صورتیں ہیں مگر اولی یہی ہے کہ زیارت کے وقت چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہیے اور یہی ہمارے نزدیک معتبر ہے اور اسی پر ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عمل ہے اور یہی حکم دعا مانگنے کا ہے جیسا کہ امام مالک ؒ  سے مروی ہے جبکہ ان کے کسی خلیفہ نے ان سے مسئلہ دریافت کیا تھا اور اس کی تصریح مولانا گنگوہی ؒ اپنے رسالے "زبدۃ المناسک" میں کر چکے ہیں۔ 

ساتواں سوال[ترمیم]

 کیا فرماتے ہیں آپ رسول ﷺ  پر کثرت درود بھیجنے اور دلائل الخیرات اور دیگر اوراد کے پڑھنے کے بارے میں؟ 

جواب: ہمارے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت مستحب اور نہایت موجب اجر و ثواب و اطاعت ہے خواہ دلائل الخیرات پڑھتا ہو یا درود شریف کے دیگر رسائل سے ہو لیکن افضل ہمارے نزدیک وہ درود ہے جس کے لفظ بھی حضرت ﷺ سے منقول ہیں گو غیر منقول کا پڑھنا بھی فضیلت سے خالی نہیں اور بشارت کا مستحق ہو ہی جائے گا جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا حق تعالی اس پر 10 مرتبہ رحمت بھیجے گا خود ہمارے شیخ حضرت مولانا گنگوہی ؒ اور دیگر مشائخ دلائل الخیرات پڑھا کرتے تھے اور مولانا حضرت حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی ؒ نے اپنے ارشادات میں تحریر فرما کر مریدین کو امر بھی کیا ہے کہ دلائل کا ورد بھی رکھیں اور ہمارے مشائخ ہمیشہ دلائل کو روایت کرتے رہے اور مولانا گنگوہی ؒ بھی اپنے مریدین کو اجازت دیتے رہے

عقیدہ تقلید وتصوف[ترمیم]

اٹھواں نواں اور دسواں سوال[ترمیم]

تمام اصول و فروع میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کا مقلد بن جانا درست ہے یا نہیں؟ درست ہے تو مستحب ہے یا واجب اور تم کس امام کے مقلد ہو؟
جواب:  اس زمانہ میں نہائت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک ہی کی تقلید کی جائے بلکہ واجب ہے کیونکہ ہم نے تجربہ کیا ہے کہ ائمہ کی تقلید چھوڑنے اور اپنے نفس و ہوا کے اتباع کرنے کا انجام الحاد و زندقہ کے گڑھے میں جاگرنا ہے اللہ پناہ میں رکھے اور بائیں وجہ ہم اور ہمارے مشائخ تمام اصول و فروع میں امام اعظم ابو حنیفہ ؒ  کے مقلد ہیں خدا کرے اسی پر ہماری موت ہو اسی زمرہ میں ہمارا حشر ہو اور اس بحث میں ہمارے مشائخ کی بہترین تصانیف دنیا میں مشہور اور شائع ہو چکی ہیں

11واں سوال[ترمیم]

کیا صوفیہ کے اشغال میں مشغول اور ان سے بیعت ہونا تمھارے نزدیک جائز اور اکابر کے سینہ اور قبر کے باطنی فضان پہنچنے کے تم قائل ہو یا نہیں اور مشائخ کی روحانیت سے اہل سلوک کو نفع پہنچتا ہے یا نہیں؟

جواب ہمارے نزدیک مستحب ہے کہ انسان جب عقائد کی درستی اور شرح کے مسائل ضروریہ کی تحصیل سے فارغ ہو جائے تو ایسے شیخ سے بیعت ہو جو شریعت میں راسخ القدم ہو دنیا سے بے رغبت ہو اخرت کا طالب ہو نفس کی گھاٹیوں کو طے کر چکا ہو اور نجات دھندہ اعمال کا خوگر ہو اور تباہ کن افعال سے علاحدہ رہے خود بھی کامل ہو دوسروں کو بھی کامل بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو ایسے مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دیکھ کر اپنی رائے اس کی نظر کے مقابلے میں حقیر رکھے اور صوفیا کے اشغال یعنی ذکر و فکر اور اس میں فناء تام کے ساتھ مشغول ہو اور اس نسبت کا اکتساب جو نعمت عظمی و غنیمت کبری ہے جس کو شرح میں احسان کے ساتھ تعبیر کیا گیا یے اور جس کو یہ نعمت میسر نہ ہو یہاں تک نہ پہنچ سکے اس کو بزرگوں کے سلسلہ میں شامل ہو جانا ہی کافی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ادمی اس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ اسے محبت ہو یہ ویسے ہی لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا محروم نہیں رہ سکتا اور بحمد اللہ ہم اور ہمارے مشائخین حضرات کی بیعت میں داخل اور ان کے اشغال کے درپے رہے ہیں الحمد للہ علی ذالک۔ اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض پہنچنا سو بے شک صحیح ہے مگر اس طریقے سے جو اس کے اہل و خواص کو معلوم ہے نہ کہ اس طرح سے جو عوام میں رائج ہے۔

مذاہب اربعہ سے خارج[ترمیم]

بارھواں سوال[ترمیم]

محمد بن عبد الوہاب نجدی  مسلمانوں کے خون اور ان کے مال و آبرو کو حلال سمجھتا تھا اور تمام لوگوں کو  شرک کی جانب منسوب کرتا تھا اور سلف کی شان میں گستاخی کرتا تھا اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے اور کیا سلف اور اہل قبلہ کی تکفیر کو تم جائز سمجھتے ہو؟ 

جواب: ہمارے نزدیک ان کا حکم وہی ہے جو صاحب در مختار نے فرمایا ہے "اور خوارج ایک متشدد جماعت تھی جنھوں نے امام پر چڑھائی کی تھی تاویل سے کہ امام کو باطل یا ایسی معصیت کے مرتکب سمجھتے تھے جو قتال کو واجب کرتی ہے اسی طرح سے یہ لوگ ہماری جان و مال کو حلال سمجھتے اور ہماری عورتوں کو قید بناتے" اگے فرماتے ہیں 'ان کا حکم باغیوں کا ہے" پھر یہ بھی فرمایا کہ "ہم ان کی تکفیر اس لیے نہیں کرتے کہ یہ فعل تاویل سے ہے اگرچہ باطل ہی سہی" اور علامہ شامی نے اس کے حاشیہ میں فرمایا ہے "جیسا کہ ہمارے زمانے میں عبد الوہاب کے تابعین سے سرزد ہوا کہ نجد سے نکل کر حرمین شریفین پر غالب ہوئے اپنے آپ کو حنبلی مذہب بتاتے تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں جو ان کے عقیدہ کے خلاف ہیں وہ مشرک ہیں اور اسی بنا پر انھوں نے اہل سنت اور علما اہل سنت کا قتل مباح سمجھ رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کی شوکت توڑ دی میں کہتا ہوں کہ عبد الوہاب اور اس کا تابع کوئی شخص بھی ہمارے کسی سلسلہ مشائخ میں نہیں نہ تفسیر و فقہ و حدیث کی اصول میں نا علمی سلسلہ میں نا تصوف میں"

اب رہا مسلمانوں کے جان و مال و آبرو کو حلال سمجھنا سو یا تو یہ ناحق ہوگا یا حق ہوگا اگر ناحق ہے تو یا بلا تاویل ہوگا جو کفر اور خارج از اسلام ہوتا ہے اور اگر ایسی تاویل ہے جو شرعا جائز نہیں تو فسق ہے اور اگر حق ہو تو جائز بلکہ واجب یے باقی رہا  سلف اسلام کو غیر مسلم کہنا  تو حاشا ہم ان میں سے کسی کو خارج از اسلام نہیں کہتے نہ سمجھتے ہیں بلکہ یہ فعل ہمارے نزدیک رفض اور دین میں اختراع ہے ہم تو ان بدعتیوں کو بھی جو اہل قبلہ ہیں جب تک دین کے کسی واضح حکم کا انکار نہ کریں خارج از اسلام نہیں کہتے ہاں جس وقت دین کے کسی ضروری امر کا انکار ثابت ہو جائے گا تو خارج از اسلام سمجھیں گے اور احتیاط کریں گے یہ طریقہ ہمارے اور ہمارے جملہ مشائخ کا ہے

عقیدہ استوی، اثبات قدرت و تنزیہ امکان وقوع کذب[ترمیم]

تیرھواں اورچودھواں سوال[ترمیم]

کیا کہتے ہو اللہ تعالی کے اس قسم کے قول میں کہ رحمان عرش پر مستوی ہوا کیا جائز سمجھتے ہو باری تعالی کے لیے جہت و مکان کا ثابت کرنا؟

جواب: اس قسم کی ایات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص وحدود کی علامات سے مبرہ ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہے اور ہمارے متاخرین اماموں نے ان ایات میں جو صحیح اور لغت و شرح کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں مثلا یہ کہ ممکن ہے استوی سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت تو یہ ابھی ہمارے نزدیک حق ہے البتہ جہت و مکان کا اللہ کے لیے ثابت کرنا جائز نہیں سمجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ جہت مکان اور جملہ علامات حدوث سے منزہ و عالی ہے۔

23واں سوال[ترمیم]

کیا  مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ  نے کہا ہے کہ حق تعالی نعوذ باللہ جھوٹ بولتا ہے اور ایسا کہنے والا گمراہ نہیں ہے یا یہ ان پر بہتان ہے اگر بہتان ہے تو بریلوی مولوی کی اس بات کا کیا جواب ہے  کہ اس کے پاس مولانا مرحوم کے فتوے کا فوٹو ہے جس میں یہ سب لکھا ہے؟ 
جواب: مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ  کی طرف مبتدعین نے جو یہ منسوب کیا ہے کہ اپ نعوذ باللہ اللہ تعالی کے جھوٹ بولنے اور ایسا کہنے والے کو گمراہ نہ کہنے کے قائل تھے یہ بالکل اپ پر جھوٹ بولا گیا اور منجملہ انہی جھوٹے بہتانوں کے ہے جن کی بندش جھوٹے دجالوں نے کی ہے پس خدا ان کو ہدایت دے  جناب مولانا اس زندقہ و الحاد سے بری ہیں اور ان کی تکذیب خود مولانا کا فتوی کر رہا ہے جو جلد اول فتاوی رشیدیہ کے صفحہ 119 پر طبع ہوا ہے تحریر اس کی عربی میں ہے جس پر تصحیح علما مکہ مکہ مکرمہ ثبت ہیں سوال کی صورت یہ تھی "بسم اللہ الرحمن الرحیم اپ کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ اللہ تعالی صفت کذب کے ساتھ متصف ہو سکتا ہے یا نہیں اور جو یہ عقیدہ رکھے کہ خدا جھوٹ بولتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟  جواب: بے شک اللہ تعالی اس سے منزہ ہے کہ کذب کے ساتھ متصف ہو اس کے کلام میں ہرگز کذب کا  شائبہ نہیں جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ 'اللہ سے زیادہ سچا کون ہے' اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے نکالے کہ اللہ تعالی جھوٹ بولتا ہے وہ کافر قطعی ملعون اور کتاب و سنت اور اجماع امت کا مخالف ہے ہاں اہل ایمان کا یقین ضرور ہے کہ حق تعالی نے قران میں فرعون ہامان ابو لہب کے متعلق جو یہ فرمایا ہے کہ وہ دوزخی ہے تو یہ حکم قطعی ہے اس کے خلاف کبھی نہ کرے گا لیکن اللہ ان کو جنت میں داخل کرنے پر قادر ضرور ہے عاجز نہیں ہاں البتہ اپنے اختیار سے ایسا کرے گا نہیں وہ فرماتا ہے 'اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو ہدایت دے دیتے لیکن میرا قول ثابت ہو چکا کہ ضرور دوزخ بھروں گا جن و انس دونوں سے' پس اس ایت سے ظاہر ہو گیا کہ اگر اللہ چاہتا تو سب کو مومن بنا دیتا لیکن وہ اپنے قول کے خلاف نہیں کرتا اور یہ سب بااختیار ہے بامجبوری نہیں کیونکہ وہ فاعل مختار ہے جو چاہے کرے یہی عقیدہ تمام علمائے امت کا ہے جیسا کہ بیضاوی نے قول باری تعالی 'وان تغفرلھم' کی تفسیر کے تحت میں کہا ہے کہ مشرک کا نا بخشنا وعید کا متقاضی ہے پس اس میں لذاتہ امتناع نہیں ہے واللہ اعلم بالصواب کتبہ احقر رشید احمد گنگوہی عفی عنہ۔ 
مکہ مکرمہ زاد اللہ شرفہ کے علما کی تصحیح کا خلاصہ بھی یہی ہے 'حمد اسی کو زیبا ہے جو اس کا مستحق ہے اور اس کی اعانت و توفیق درکار ہے علامہ رشید احمد کا جواب مذکور حق ہے جس سے مفر نہیں یو سکتا اور صل اللہ علی خاتم النبیین وعلی آلہ وصحبہ وسلم لکھنے کا امر فرمایا خادم شریعت امیدوار لطف خفی محمد صالح خلف صدیق کمال حنفی مفتی مکہ مکرمہ کان اللہ لہما نے لکھا امیدوار کمال نیل محمد سعید نے حق تعالٰی ان کو اور ان کے مشائخ کو اور جملہ مسلمانوں کو بخش دے  امیدوار عفو انہ واہب العطیہ محمد عابد بن شیخ حسین مفتی مالکیہ  
درود و سلام کے بعد جو کچھ علامہ رشید احمد نے جواب دیا ہے کافی ہے اس پر اعتماد ہے بلکہ یہی حق ہے جس سے مفر نہیں لکھا حقیر خلف بن ابراہیم حنبلی خادم افتاء مکہ مشرفہ نے"
اور جو یہ بریلوی مولوی کہتا ہے کہ اس کے پاس مولانا کے فتوی کا فوٹو ہے جس میں ایسا لکھا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ مولانا پر بہتان باندھنے کو یہ جال ہے جس کو گھڑ کر اپنے پاس رکھ لیا اور ایسے جھوٹ اور جعل اسے اسان ہیں کیونکہ وہ اس میں استادوں کے استاد ہے زمانہ کے لوگ اس کے چیلے ہیں کیونکہ تحریف و تلبیس اور دجل و مکر کی اس کو عادت ہے اکثر مہریں بنا لیتا ہے مسیح قادیانی سے کچھ کم نہیں اس لیے کہ وہ رسالت کا کھلم کھلا مدعی تھا اور یہ مجددیت کو چھپائے ہوئے ہیں علما امت کو کافر کہتا ہے جس طرح محمد بن عبد الوہاب کے وہابی چیلے امت کی تکفیر کرتے تھے خدا ان سب کو ہدایت دے

24 سوال[ترمیم]

کیا تمھارا یہ عقیدہ ہے کہ حق تعالی کے کسی کلام میں وقوع کذب ممکن ہے 

جواب: ہم اور ہمارے مشائخ اس کا یقین رکھتے ہیں کہ جو کلام بھی حق تعالی سے صادر ہوا یا ائندہ ہوگا وہ یقینا سچا اور بلا شبہ واقعہ کے مطابق ہے اس کے کسی کلام میں کذب کا شائبہ اور خلاف کا وہمہ بالکل نہیں اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے یا اس کے کسی کلام میں کذب کا وہم کرے وہ کافر ملحد اور زندیق ہے اس میں ایمان کا شائبہ بھی نہیں

25واں سوال[ترمیم]

کیا تم نے اپنی کسی تصنیف میں اشاعرہ کی طرف امکان کذب منسوب کیا ہے اور اگر کیا ہے تو اس سے مراد کیا ہے اور اس مذہب پر تمھارے پاس معتبر علما کی کیا کوئی سند ہے؟

جو اب:  اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اور ہندی منطقیوں اور بدعتیوں کے درمیان اس مسئلہ میں نزاع ہوا کہ حق تعالی نے جو وعدہ فرمایا یا خبر دی یا ارادہ کیا اس کے خلاف پر اس کو قدرت ہے یا نہیں سو وہ تو یوں کہتے ہیں کہ ان باتوں کا خلاف اس کی قدرت قدیمہ سے خارج اور عقلا محال ہے ان کا مقدور خدا ہونا ممکن ہی نہیں اور حق تعالی پر واجب ہے کہ وعدہ اور خبر اور ارادہ اور علم کے مطابق کریں
اس معاملہ میں ہماری ان کی مثال معتزنہ اور اہل سنت کی سی ہے کہ معتزلہ نے عاصی کو بجائے سزا کے ثواب اور مطیع کو سزا دینا قدرت قدیمہ سے خارج اور ذات باری پر عدل واجب بتا کر اپنا نام اصحاب عدل وطنزیہ رکھا اور علما اہل سنت والجماعت کی جور اور تعصب کی طرف نسبت کی اور علما اہل سنت والجماعت نے ان کی جہالتوں کی پروا نہیں کی اور قول مذکور میں حق تعالی شانہ کی جانب عجز کا منسوب کرنا جائز نہیں سمجھا بلکہ قدرت قدیمہ کو عام کہہ کے ذات کاملہ سے نقائص کا ازالہ جناب باری کے کمال تقدس و تنزیہ کو یوں کہہ کر ثابت کیا کہ نیکوکار کے لیے عذاب اور بد کار کے لیے ثواب کو تحقیق قدرت باری تعالی ماننے سے نقص کا گمان کرنا محض شاہ شنیعہ کی  حماقت ہے اس طرح ہم نے بھی ان کو جواب دیا کہ وعدہ و خبر و صدق وعدہ کے خلاف کو صرف تحت قدرت ماننے سے حالانکہ دونوں طرح سے وقوع ممتنع ہے نقص کا گمان کرنا تمھاری جہالت کا ثمرہ اور منطق و فلسفہ کی بلا ہے پس بدعتیوں نے تنزیہ  کے لیے جو کچھ کیا حق تعالی کی عام اور کامل قدرت کا اس میں لحاظ نہ رکھا اور ہمارے سلف اہل سنت والجماعت نے دونوں امر ملحوظ رکھے حق تعالی شانہ کی قدرت عام رہی اور تنزیہ تام
یہ ہے وہ مختصر مضمون جس کو ہم نے براہین میں بیان کیا ہے اب اصل مذہب کے متعلق معتبر کتابوں کی بعض تصریحات میں سن لیجیے 

1۔ شرع مواقف میں مذکور ہے کہ تمام معتزلہ اور خوارج نے مرتکب کبیرہ کے عذاب کو جب کہ بلا توبہ مر جائے واجب کہا ہے اور جائز نہیں سمجھا کہ اللہ اسے معاف کرے اس کی دو وجہ بیان کی ہیں اول یہ کہ حق تعالی شانہ نے کبیرہ گناہ پر عذاب کی خبر دی اور وعید فرمائی ہے پس اگر عذاب نہ دے اور معاف کر دے تو وعید کے خلاف اور خبر میں کذب لازم اتا ہے اور یہ محال ہے اس کا جواب یہ ہے کہ خبر وعید سے زیادہ سے زیادہ عذاب کا وقوع لازم آتا ہے نہ کہ وجوب جس میں گفتگو ہے کیونکہ بغیر وجوب کے وقوع عذاب میں نہ خلف ہے نہ کذب۔ کوئی وہ نہ کہے کہ اچھا خلف اور کذب کا جواز لازم ائے گا اور یہ بھی محال ہے کیونکہ ہم اس کا محال ہونا نہیں مانتے اور محال کیوں کر ہو سکتا جبکہ خلف اور کذاب ان ممکنات میں داخل ہیں جن کو قدرت باری تعالی شامل ہے 2۔ شرح مقاصد میں علامہ تفتازانی نے قدرت کی بحث کے اخر میں لکھا ہے کہ قدرت کے منکر چار گروہ ہیں ایک نظام اور اس کے تابعین جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی جہل اور کذب و ظلم و نیز کسی فعل قبح پر قادر نہیں کیونکہ ان افعال کا پیدا کرنا اگر اس کی قدرت میں داخل ہو تو ان کا حق تعالی سے صدور بھی جائز ہوگا اور صدور ناجائز ہے کیونکہ اگر باوجود علم قبح کے بے پروائی کے سبب سے صدور ہوگا تو سفہ (نادانی) لازم ائے گا اور علم نہ ہوگا تو جہل لازم ائے گا جواب یہ ہے کہ حق تعالی کی جانب نسبت کر کے کسی شے قبح ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں اس لیے کہ اپنے ملک میں تصرف کرنا قبیح نہیں ہو سکتا اگر مان بھی لیں گہ قبیح کی نسبت قبیح ہے تو قدرت حق امتناع صدور کے منافی نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ فی نفسہ تحت قدرت ہو مگر مانع کے موجود یا باعث صدور مفقود ہونے کے سبب اس کا وقوع ممتنع ہو 3۔ مسائرہ اور اس کی شرح مسامرہ میں علامہ کمال بن حمام حنفی اور ان کے شاگرد ابن ابی الشریف مقدسی شافعی یہ تصریح فرما رہے ہیں پھر صاحب العمدہ نے کہا حق تعالی کو یوں نہیں کہہ سکتے کہ وہ ظلم وسفہ اور کذب پر قادر ہے کیونکہ ہو سکتا ہے جبکہ خلف وکذب کی ان ممکنات میں داخل ہیں جن کو قدرت باری تعالی شامل ہے کیونکہ محال قدرت کے تحت میں داخل نہیں ہوتا یعنی قدرت کا تعلق اس کے ساتھ صحیح نہیں اور معتزلہ کے نزدیک افعال مذکورہ پر حق تعالی قادر تو ہے مگر کرے گا نہیں (صاحب العمدہ کا کلام ختم ہوا)

اپ کمال الدین فرماتے ہیں کہ صاحب العمدہ نے جو معتزلہ سے نقل کیا الٹ پلٹ ہو گیا کیونکہ اس میں شک نہیں کہ افعال مذکورہ سے قدرت کا سلب کرنا عین مذہب معتزلہ ہے اور افعال مذکورہ پر قدرت تو ہو  مگر با اختیار خود ان کا وقوع نہ کیا جائے یہ قول مذہب اشاعرہ کے زیادہ مناسب ہے بنسبت معتزلہ کے اور ظاہر ہے کہ اسی قول مناسب کو تنزیہ باری تعالی میں زیادہ دخل بھی ہے بے شک ظلم و سفہ و کذب سے باز رہنا باب تنزیہات سے ہے ان قبائح سے جو اس مقدس ذات کے شایان نہیں پس عقل کا امتحان لیا جاتا ہے کہ دونوں صورتوں میں کسی صورت کو حق تعالی کی تنزیہ عن الفحشا میں زیادہ دخل ہے ایا اس صورت میں کہ ہر سہ افعال مذکور پر قدرت پائی جائے مگر بااختیار و ارادہ ممتنع الوقوع کہا جائے زیادہ تنزیہ ہے یا اس طرح ممتنع الوقوع ماننے میں زیادہ تنزیہ ہے کہ حق تعالی کو افعال پر قدرت ہی نہیں پس جس صورت کو تنزیہ میں زیادہ دخل ہو اس کا قائل ہونا چاہیے اور وہی ہے جو اشاعرہ کا مذہب ہے یعنی امکان بالذات و امتناع بالاختیار 

4 محقق دوانی کی شرح عقائد عضدیہ کے حاشیہ کلبنوی میں اس طرح منصوص ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کلام لفظی میں کذب کا بے بایں معنی قبیح ہونا کہ نقص و عیب ہے اشاعرہ کے نزدیک مسلم نہیں اور اسی لیے شریف محقق نے کہا ہے کہ کذب منجملہ ممکنات کے ہے اور جبکہ کلام لفظی کے مفہوم کا علم قطعی حاصل ہے اس طرح کہ کلام الہی میں وقوع کذب نہیں ہے اور اس پر علما انبیا علیہم السلام کا اجماع ہے تو کذب کے ممکن بالذات ہونے کے منافی نہیں جس طرح جملہ علوم عادیہ قطعیہ باوجود امکان کذب بالذات حاصل ہوا کرتے ہیں اور یہ امام رازی کے قول کا مخالف نہیں ہے

5۔ صاحب فتح القدیر امام ابن حمام کی تحریر الاصول اور ابن امیر الحاج کی شرح تحریر میں اس طرح منصوص ہے اور اب یعنی جبکہ یہ افعال حق تعالی پر محال ہوئے جن میں نقص پایا جاتا ہے ظاہر ہو گیا کہ اللہ تعالی کا کذب وغیرہ کے ساتھ متصف ہونا یقینا محال ہے۔  نیز اگر فعل باری کا قبح کے ساتھ اتصاف محال نہ ہو تو وعدہ اور خبر کی سچائی پر اعتماد نہ رہے گا اور نبوت کی سچائی یقینی نہ رہے گی اور اشاعرہ کے نزدیک حق تعالی کا کسی قبیح کے ساتھ یقینا متصف نہ ہونا ساری مخلوق کی طرح بالاختیار ہے عقلا محال نہیں چنانچہ تمام علوم جن میں یقین ہے کہ ایک نقیض کا وقوع ہے وہاں دوسری نقیض محال ذاتی نہیں کہ وقوع مقدر نہ ہو سکے مثلا مکہ بغداد کا موجود ہونا یقینی ہے مگر عقلا محال نہیں کہ موجود نہ ہوں اور اپ یعنی جب یہ صورت ہوتی تو امکان کذب کے سبب اعتماد کا اٹھنا لازم نہ ائے گا کہ عقلا کسی شخص کا جواز مان لینے سے اس کے عدم پر یقین نہ رہنا لازم نہیں اتا اور یہی استحالہ وقوعی و امکان عقلی کا خلاف معتزلہ اور اہل سنت میں ہر نقیض میں جاری ہے کہ حق تعالی کو ان پر قدرت ہی نہیں جیسا کہ معتزلہ کا مذہب ہے یا نقیض کو قدرت حق تعالی شامل ضرور ہے مگر ساتھ ہی اس کے یقین ہے کہ کرے گا نہیں جیسا کہ اہل سنت کا قول ہے بھئی اس نقیض کے عدم فعل کا یقین ہے اور اشاعرہ کا مذہب جو ہے بیان کیا ہے ایسا ہی قاضی عضد نے شرح مختصر الاصول میں اور اصحاب حواشی نے حاشیہ پر اور ایسا ہی مضمون شرح مقاصد اور حلیبی کے حواشی مواقف وغیرہ میں مذکور ہے اور ایسی ہی تصریح علامہ قوشجی نے شرح تجرید میں اور قونومی وغیرہ نے کی ہے جن کی نصوص بیان کرنے سے تطویل کی اندیشہ سے ہم نے اعراض کیا ہے اور حق تعالی ہی ہدایت کا متولی ہے

عقیدہ فضیلت نبی ﷺ[ترمیم]

15واں سوال[ترمیم]

کیا تمھاری رائے یہ ہے کہ مخلوق میں سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی افضل ہے؟

جواب: ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا مولانا و حبیبنا و شفیعنا محمد رسول اللہ صلیلہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے افضل اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بہتر ہیں اللہ تعالی سے قرب و منزلت میں کوئی شخص اپ کے برابر تو کیا قریب بھی نہیں ہو سکتا اپ سردار ہیں جملہ انبیا اور رسول کے اور خاتم ہیں سارے برگزیدہ گروہ کے جیسا کہ نصوص سے ثابت ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی دین و ایمان

17واں سوال[ترمیم]

کیا تم اس کے قائل ہو کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر ایسی فضیلت ہے جیسے بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے اور کیا تم میں سے کسی نے کسی کتاب میں یہ مضمون لکھا ہے؟
جواب:  ہم  اور ہمارے بزرگوں میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں ہے اور ہمارے خیال میں کوئی ضعیف الایمان بھی ایسی خرافات زبان سے نہیں نکال سکتا اور جو اس کا قائل ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر بس اتنی فضیلت ہے جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے تو اس کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ دائرہ ایمان سے خارج ہے اور ہمارے تمام  گذشتہ اکابر کی تصنیفات میں اس عقیدہ واہیہ کا خلاف  ہے اور وہ حضرات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات اور وجوع فضائل تمام امت پر بے  اس قدر بیان کر چکے اور لکھ چکے ہیں کہ سب تو کیا ان میں سے کچھ بھی مخلوق میں سے کسی شخص کے لیے ثابت نہیں ہو سکتے اگر کوئی شخص ایسے واہیات و خرافات کام پر ہمارے بزرگوں پر بہتان باندھے وہ بے اصل ہے اور اس کی طرف توجہ بھی مناسب نہیں اس لیے کہ حضرت کا افضل و بشر اور تمام مخلوقات سے اشرف اور جمیل پیغمبروں کا سردار اور سارے نبیوں کا امام ہونا ایسا قطعی عمل ہے جس میں ادنی مسلمان بھی تردد نہیں کر سکتا باوجود اس کے بھی اگر کوئی شخص ایسی خرافات ہماری جانب منسوب کرے تو اسے ہماری تصنیفات  میں موقع محل بتانا چاہیے تاکہ ہم ہر سمجھدار منصف پر اس کی جہالت و بد فہمی اور الحاد و بدینی ظاہر کریں

عقیدہ علوم نبوت[ترمیم]

اٹھارہواں سوال[ترمیم]

کیا تم اس کے قائل ہو کہ نبی علیہ السلام کو صرف احکام شریعہ کا علم ہے یا اپ کو حق تعالی شانہ کی ذات و صفات و افعال اور مخفی اسرار و حکمت ہائے الہیہ وغیرہ کے اس قدر علوم عطا ہوئے ہیں جن کے پاس تک مخلوق میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا؟

جواب:  ہم زبان سے قائل اور قلب سے معتقد ہیں اس امر کے کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مخلوقات سے زیادہ علوم عطا ہوئے ہیں جن کو ذات و صفات اور تشریعات یعنی احکام عملیہ و حکم نظریہ اور حقیقت حقہ اور اسرار مخفیہ وغیرہ سے تعلق ہے کہ مخلوق میں سے کوئی بھی ان کے پاس تک نہیں پہنچ سکتا نہ مقرب فرشتہ نہ کوئی اور نبی رسول اور بے شک اپ کو اولین و اخرین کا علم عطا ہوا اور اپ پر حق تعالی کا فضل عظیم ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں اتا کہ اپ کو زمانہ کی ہر ان میں حادث و واقع ہونے والا واقعات میں سے ہر جزئیے کی اطلاع و خبر ہو کہ کہ اگر کوئی واقعہ اپ کے مشاہدہ شریفہ سے غائب رہے تو اپ کے علم اور معارف میں ساری مخلوق سے افضل ہونے اور وسعت علمی میں نقص ا جائے اگرچہ اپ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس جزئیے سے اگاہ ہو جیسا کہ سلیمان علیہ السلام پر واقعہ عجیبہ مخفی رہا کہ جسے ہدہد کو اگاہی ہوئی اس سے سلیمان علیہ السلام کے افضل ہونے میں کوئی کمی نہیں ائی چنانچہ ہدہد کہتی ہے کہ میں نے ایسی خبر پائی جس کی اپ کو اطلاع نہیں اور شہر سبا میں سے ایک سچی خبر لے کر ائی ہوں

19واں سوال[ترمیم]

کیا تمھاری یہ رائے ہے کہ ملعون شیطان کا علم سید الکائنات علیہ السلام کے علم سے زیادہ اور مطلقا وسیع تر ہے اور کیا یہ مضمون تم نے اپنی کسی تصنیف میں لکھا ہے اور جس کا یہ عقیدہ ہو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب: اس مسئلے کو ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم حکم و اسرار وغیرہ کے متعلق مطلقا تمام ہی مخلوقات سے زیادہ ہے ہمارا یقین ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلم ہے وہ خارج از اسلام ہے اور ہمارے حضرات اس شخص کے خارج از اسلام ہونے کا فتوی دے چکے ہیں جو یوں کہے کہ شیطان ملعون کا علم نبی علیہ السلام زیادہ ہے پھر ہماری کسی تصنیف میں یہ مسئلہ کہاں پایا جا سکتا ہے ہاں کسی جزئی حادثہ حقیر کا حضرت کو اس لیے معلوم نہ ہونا کہ اپ نے اس کی طرف توجہ نہیں فرمائی اپ کے عالم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کر سکتا جبکہ ثابت ہو چکا کہ اپ ان شریف علوم میں جو اپ کے منصب اعلی کے مناسب ہیں ساری مخلوق سے بڑھے ہوئے ہیں جیسا کہ شیطان کو بھی بہت سارے حقیر حادثوں کی اتفاق کے شدت التفات کے سبب اطلاع مل جانے سے اس مردود کو کوئی شرافت اور علمی کمال حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ ان پر فضل و کمال کا مدار نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ یوں کہنا کہ شیطان کے علم سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے ہرگز صحیح نہیں جیسا کہ کسی ایسے بچے کو جسے کسی جزوی کی اطلاع ہوئی ہے ہوں کہنا صحیح نہیں کہ فلاں بچے کا علم اس متبحر و محقق مولوی سے زیادہ ہے جس کو جملہ علوم و فنون معلوم ہیں مگر یہ جزئی معلوم نہیں اور ہم ہدہد کا سیدنا سلمان علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والا قصہ بتا چکے اور یہ آیت پڑھ چکے کہ مجھے وہ اطلاع ہے جو اپ کو نہیں اور کتب حدیث و تفسیر اس قسم کی مثالوں سے لبریز ہیں نیز حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ افلاطون و جالینوس وغیرہ بڑے طبیب ہیں جن کو دواؤں کی کیفیت و حالات کا بہت زیادہ علم تھا حالانکہ یہ بھی معلوم ہے کہ نجاست کے کیڑے نجاست کی حالتوں اور مزے اور کیفیتوں سے زیادہ واقف ہیں تو افلاطون و جالینوس کا ان ردی حالت سے ناواقف ہونا ان کے عالم ہونے کو مضر نہیں اور کوئی عقلمند یا احمق بھی یہ کہنے پر راضی نہ ہوگا کہ کیڑوں کا علم افلاطون سے زیادہ ہے حالانکہ ان کا نجاست کے احوال سے افلاطون کی نسبت زیادہ واقف ہونا یقینی امر ہے ہمارے ملک کے مبتدعین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمام شریف و ادنی، اعلی و اسفل ثابت کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ جب انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری مخلوق سے افضل ہیں تو ضرور سب کے علوم جزئی ہوں یا کلی اپ کو معلوم ہوں گے اور ہم نے بغیر کسی معتبر نص کے محض اس فاسد قیاس کی بنا پر اس علم کلی و جزوی کی ثبوت کا انکار کیا مسلمان کو شیطان پر فضل و شرف حاصل ہے پس اس قیاس کی بنا پر لازم ائے گا کہ ہر امتی بھی شیطان کے ہتھکنڈوں سے اگاہ ہو اور لازم ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر ہو اس واقعہ کی جسے ہدہد نے جانا اور افلاطون وجالینوس واقف ہوں کیڑوں کی تمام واقفیتوں سے اور یہ سارے لوازم باطل ہیں چنانچہ مشاہدہ ہو رہا ہے یہ ہمارے قول کا خلاصہ ہے جو براہین قاطعہ میں بیان کیا گیا ہے جس نے کند ذہنوں بد ذہنوں کی رگیں کاٹ دی اور دجال ومفتری گروہ کی گردنیں توڑ دی سو اس میں ہماری بحث صرف بعض حادثات جزی میں تھی اور اسی لیے اشارہ کا لفظ ہم نے لکھا تھا تاکہ دلالت کرے کہ نفی و اثبات سے مقصود صرف یہی جزیات ہیں لیکن مفسدین کلام میں تعریف کرتے ہیں اور شہنشاہی محاسبہ سے نہیں ڈرتے اور ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ جو شخص اس کا قائل ہو کے فلاں کا علم نبی علیہ السلام زیادہ ہے وہ خارج از اسلام ہے اور جو شخص ہمارے بیان کے خلاف ہم پر بہتان باندھے اس کو لازم ہے کہ شہنشاہ روز جزا سے خائف بن کر دلیل بیان کرے اور اللہ ہمارے قول پر وکیل ہے

بیسواں سوال[ترمیم]

کیا تمھارا یہ عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم زید و بکر اور چوپاؤں کے علم کے برابر ہے یا اس قسم کے خرافات سے تم بری ہو اور۔کیا مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اپنے رسالہ حفظ الامان میں یہ مضمون لکھا ہے یا نہیں اور جو یہ عقیدہ رکھے اس کا حکم کیا ہے؟

جواب میں کہتا ہوں کہ یہ بھی مبتدعین کا ایک افترا اور جھوٹ ہے کہ کلام کے معنی بدل دے اور مولانا کی مراد کے خلاف ظاہر کرے خدا ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ علامہ تھانوی ؒ  نے اپنے ایک رسالہ حفظ الایمان میں ان سے پوچھے گئے  تین سوالات کا جواب دیا ہے پہلا مسئلہ قبور کو تعظیمی سجدہ کے بارے میں ہے اور دوسرا قبور کے طواف میں اور تیسرا یہ کہ لفظ عالم الغیب کا اطلاق سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جائز ہے یا نہیں مولانا نے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جائز نہیں گو تاویل ہی سے کیوں نہ ہو کیونکہ یہ شرک کا وہم کرتا ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ  قران میں صحابہ کو راعنا کہنے کی ممانعت اور مسلم شریف کی حدیث میں غلام یا باندی کو عبدی اور امتی کہنے کی ممانعت ہے کیونکہ ان میں دونوں احتمال آتے ہیں  بات یہ ہے کہ اطلاقات شریعہ میں وہی غیب مراد ہوتا ہے جس پر کوئی دلیل نہ ہو اور اس کے حصول کا کوئی وسیلہ و سبیل نہ ہو اسی بنا پر حق تعالی نے فرمایا کہ "وہ نہیں جانتے جو اسمان اور زمین میں ہیں غیب کو مگر اللہ"  نیز ارشاد ہے "اگر میں غیب جانتا تو ساری بھلائیاں جمع کر لیتا" اور اگر کسی تاویل سے اس اطلاق کو جائز سمجھا جائے تو لازم اتا ہے کہ خالق رازق معبود مالک وغیرہ ان صفات کا جو ذات باری کے ساتھ خاص ہیں اسی تاویل سے مخلوق پر اطلاق صحیح ہو جائے نیز لازم اتا ہے کہ دوسری تاویل سے عالم غیب کی نفی حق تعالی سے ہو سکے اس لیے کہ اللہ تعالی بالواسطہ اور بالعرض عالم الغیب نہیں ہے پس کیا اس نے نفی اطلاق کی کوئی دین دار اجازت دے سکتا ہے حاشا وکلا  پھر یہ کہ حضرت کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا اطلاق اگر بقول سائل صحیح ہو تو ہم اسی سے دریافت کرتے ہیں کہ اس غیب سے مراد کیا ہے یعنی غیب کا ہر جزو یا بعض غیب؟  پس اگر بعض غیب مراد ہے تو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی تخصیص نہ رہے کیونکہ بعض غیب کا علم اگرچہ تھوڑا سا ہو زید و عمر بلکہ ہر بچہ اور دیوانہ بلکہ جملہ حیوانا ت اور چوپاؤں کو بھی حاصل ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نے کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے کو نہیں ہو تو اگر سائل کسی پر لفظ عالم الغیب کا اطلاق بعض غیب کے جاننے کی وجہ سے جائز رکھتا ہے تو لازم اتا ہے کہ اس اطلاق کو مذکورہ تمام حیوانات پر جائز سمجھیں اور اگر سائل نے اس کو مان لیا تو یہ اطلاق کمالات نبوت میں سے نہ رہا کیونکہ سب شریک ہو گئے اور اگر اس کو نہ مانے تو وجہ فرق پوچھی جائے گی اور وہ ہرگز بیان نہ ہو سکے گی۔ 

خدا ان کے حال پر رحم فرمائے ذرا مولانا کا کلام ملاحظہ فرماؤ بدعتیوں کے جھوٹ کا کہیں شائبہ بھی نہیں پاؤ گے حاشا کہ کوئی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو زید و بکر و بہائم کے علم کے برابر کہے بلکہ مولانا تو بطریق الزام یوں فرماتے ہیں کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض غیب جاننے کی وجہ سے عالم الغیب کے اطلاق کو جائز سمجھتا ہے اس پر لازم اتا ہے کہ جمیع انسان و بہائم پر بھی اسی اطلاق کو جائز سمجھے پس کہاں یہ اور کہاں وہ علمی مساوات جس کا مبتدعین نے مولانا پر افترا باندھا ہمارے نزدیک متیقن ہے کہ جو شخص نبی علیہ السلام کے علم کو زید و بکر بہائم و مجنون کے علم کے برابر سمجھے یا کہے وہ قطعا کافر ہے اور حاشا کے مولانا ایسی واہیات منہ سے نکالیں یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے

عقیدہ ذکر ولادت[ترمیم]

21واں سوال[ترمیم]

کیا تم اس کے قائل ہو کے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ولادت شرعا قبیح سیئہ حرام ہے؟ 
جواب: حاشا کہ ہم تو کیا کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ اپ کی جوتیوں کے غبار اور اپ کی سواری کے گدھے کے پیشاب کا تذکرہ بھی قبیح و بدعت سیئہ یا حرام کہے وہ جملہ حالات جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا بھی علاقہ ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہائت پسندیدہ اور اعلی درجے کا مستحب ہے خاص ذکر ولادت شریفہ ہو یا اپ کے بول و براز نشست و برخاست اور بیداری خواب کا تذکرہ ہو جیسا کہ ہمارے رسالہ براہین قاطعہ میں متعدد جگہ صراحت سے مذکور اور ہمارے مشائخ کے فتوی میں لکھا ہے چنانچہ شاہ محمد اسحاق صاحب دہلوی مہاجر مکی ؒ  کے شاگرد مولانا  احمد علی محدث سہارن پوری ؒ کا فتوی عربی میں ترجمہ کر کے ہم نقل کرتے ہیں تاکہ سب تحریروں کا نمونہ بن جائے مولانا سے کسی نے سوال کیا کہ مجلس معراج شریف کس طریقے سے جائز ہے اور کس طریقے سے ناجائز ہے مولانا نے اس کا یہ جواب لکھا کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریف کا ذکر صحیح روایات سے ان اوقات میں جو عبادت واجبہ سے خالی ہوں ان کیفیات سے جو صحابہ کرام اور اہل قرون ثلاثہ جن کے خیر ہونے کی شہادت حضرت نے دی ہے کے طریقے کے خلاف نہ ہوں ان عقیدوں سے جو شرک و بدعت کے موہم نہ ہوں ان اداب کے ساتھ جو صحابہ کی سیرت کے مخالف نہ ہوں جو حضرت کے ارشاد ہے ما انا علیہ و اصحابی کی مصداق ہیں   ان مجالس میں جو منکرات شریعہ سے خالی ہو سبب خیر و برکت ہے بشرطیکہ صدق نیت، اخلاص اور اس عقیدہ سے کیا جائے یہ بھی منجملہ دیگر اذکار حسنہ کے ذکر حسن ہے کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں پس جب ایسا ہوگا تو ہمارے علم میں کوئی مسلمان بھی اس کی ناجائز یا بدعت ہونے کا حکم نہ لگائے گا اس سے معلوم ہو گیا کہ ہم ولادت شریفہ کے منکر نہیں بلکہ ان ناجائز امور کے منکر ہیں جو اس کے ساتھ مل گئے ہیں جیسا کہ ہندوستان کی مولود کی مجلسوں میں اپ نے خود دیکھا ہے کہ واہیات موضوع روایات بیان ہوتی ہیں مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے چراغوں کے روشن کرنے اور دوسری ارائشوں میں  فضول خرچی ہوتی ہے اور اس مجلس کو واجب سمجھ کر جو شامل نہ ہوں ان پر طعن و تکفیر ہوتی ہے اس کے علاوہ اور منکرات شریعہ ہیں جن سے شاید ہی کوئی مجلس میلاد خالی ہو پس اگر مجلس مولود منکرات سے خالی ہو تو حاشا کہ ہم یوں کہیں کہ ذکر ولادت شریف نا جائز اور بدعت ہے اور ایسے قول کا کسی مسلمان کی طرف کیوں کر گمان ہو سکتا ہے پس ہم پر یہ بہتان جھوٹے دجالوں کا افترا ہے خدا ان کو ہدایت دے

22واں سوال[ترمیم]

کیا تم نے کسی رسالہ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت ﷺ ولادت کا ذکر کنھیا کے جنم اشٹمی کی طرح ہے یا نہیں؟

جواب: یہ بھی مبتدعین اور دجالین کا بہتان ہے ہم پر اور ہمارے بڑوں پر ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ حضرت ﷺ کا ذکر ولادت محبوب ترین اور افضل ترین مستحب ہے پھر کسی مسلمان کی طرف کیوں کر گمان ہو سکتا کہ معاذ اللہ یوں کہے کہ ذکر ولادت شریفہ فعل کفار کے مشابہ ہے پس اس بہتان کی بندش مولانا گنگوہی ؒ کی اس عبارت سے کی گئی ہے جس کو ہم نے براہین کی صفحہ 141 پر نقل کیا ہے اور حاشہ کے مولانا ایسی واہیات بات فرمائیں ان کی مراد اس سے کوسوں دور ہے جو ان کی طرف منسوب ہوا ہمارے بیان سے عنقریب معلوم ہو جائے گا اور حقیقت حال پکار اٹھے گی جس نے اس مضمون کو ان کی طرف نسبت کیا وہ جھوٹا اور مفتری ہے مولانا نے ذکر ولادت شریفہ کے وقت قیام کی بحث میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت ﷺ کی روح پرفتوح عالم ارواح سے عالم دنیا کی طرف اتی ہے اور مجلس مولود میں نفس ولادت کے وقوع کا یقین رکھ کر وہ برتاؤ کرے جو واقعی ولادت کی گذشتہ ساعت میں کرنا ضروری تھا تو یہ شخص غلطی پر یا تو مجوس کی مشابہت کرتا ہے اس عقیدہ میں کہ وہ بھی اپنے معبود یعنی کنھیا کی ہر سال ولادت مانتے اور اس دن وہی برتاؤ کرتے ہیں جو کنھیا کی حقیقت ولادت کے وقت کیا جاتا یا روافض اہل ہند کی مشابہت کرتا ہے امام حسین اور ان کے تابعین شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ برتاؤ میں کیونکہ روافض بھی ان ساری باتوں کی نقل اتارتے ہیں جو قولا و فعلا عاشورہ کے دن میدان کربلا میں ان حضرات کے ساتھ کیا گیا چنانچہ نعش بناتے کفناتے اور قبور کھود کر دفناتے ہیں جنگوں و قتال کے جھنڈے چڑھاتے کپڑوں کو خون میں رنگتے اور ان پر نوحے کرتے ہیں اسی طرح دیگر خرافات ہوتی ہیں جیسا کہ ہر وہ شخص اگاہ ہے جس نے ہمارے ملک میں ان کی حالت دیکھی ہے مولانا کی اردو عبارت یہ ہے "قیام کی یہ وجہ بیان کرنا کہ روح شریف عالم ارواح سے عالم شہادت کی جانب تشریف لاتی ہے پس حاضرین مجلس اس کی تعظیم کو کھڑے ہو جاتے ہیں یہ بھی بے وقوفی ہے کیونکہ یہ وجہ نفس ولادت شریفہ کے وقت کھڑے ہو جانے کو چاہتی ہے اور ظاہر ہے کہ ولادت شریفہ بار بار نہیں ہوتی پس ولادت شریفہ کا اعادہ یا ہندوؤں کے فعل کے مثل ہے کہ وہ اپنے معبود کنھیا کی اصل ولادت کی پوری نقل اتارتے ہیں یا رافضیوں کے مشابہ ہے کہ ہر سال شہادت اہل بیت کی قولا و فعلا تصویر کھینچتے ہیں پس معاذ اللہ بدعتیوں کا یہ فعل واقعی ولادت شریفہ کی نقل بن گیا اور یہ حرکت بے شک و شبہ ملامت کے قابل اور حرمت و فسق ہے بلکہ ان کا یہ فعل ان کے فعل سے بھی بڑھ گیا کہ وہ تو سال بھر میں ایک ہی بار نقل اتارتے ہیں اور یہ لوگ اس فرضی خرافات کو جب چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور شریعت میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں کہ کسی امر کو فرض کر کے اس کے ساتھ حقیقت کا سا برتاؤ کیا جائے بلکہ ایسا فعل شرعا حرام ہے پس اے صاحبان عقل غور فرمائیے شیخ ؒ تو ہندی جاہلوں کے اس جھوٹے عقیدے پر انکار فرمایا ہے کہ جو ایسے واہیات فاسد خیالات کی بنا پر قیام کرتے ہیں اس میں کہیں بھی مجلس ذکر ولادت شریفہ کو ہندو یا رافضیوں کے فعل سے تشبیہ نہیں دی گئی حاشا کہ ہمارے بزرگ ایسی بات کہیں لیکن ظالم لوگ اہل حق پر افترا کرتے ہیں

عقیدہ ختم نبوت[ترمیم]

16واں سوال[ترمیم]

کیا کسی نبی کا وجود جائز سمجھتے ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حالانکہ اپ خاتم النبیین ہیں اور معنا درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے اپ کا یہ ارشاد کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اس پر اجماع امت منعقد ہو چکا ہے اور جو شخص باوجود ان نصوص کے کسی نبی کا وقوع جائز سمجھے اس کے متعلق تمھاری رائے کیا ہے اور کیا تم میں سے یا تمھارے اکابر میں سے کسی نے ایسا کہا ہے؟

جواب ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے سردار وآقا پیارے شفیع محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے  لیکن محمد اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور یہی ثابت ہے بکثرت حدیثوں سے جو معنا حد تواتر تک پہنچ گئی ہیں اور نیز اجماع امت سے سوحاشا کہ ہم میں سے کوئی اس کے خلاف کہے کیونکہ جو اس کا منکر ہے وہ ہمارے نزدیک خارج از اسلام ہے اس لیے کہ منکر ہے نص صریح قطعی کا بلکہ ہمارے شیخ و مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ  نے اپنی دقت نظر سے عجیب وقیق مضمون بیان فرما کر اپ کی حقانیت کو کامل وتام ظاہر فرمایا ہے جو کچھ مولانا نے اپنے رسالہ تہذیر الناس میں بیان فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ خاتمیت ایک جنس ہے جس کے تحت میں دو نوع داخل ہے ایک خاتمیت بہ اعتبار زمانہ وہ یہ کہ اپ کی نبوت کا زمانہ تمام انبیا کی نبوت کے زمانہ سے متاخر ہے اور اپ بحیثیت زمانہ کے سب کی نبوت کے خاتم ہیں اور دوسری نوع خاتمیت بہ اعتبار ذات جس کا مطلب یہ ہے کہ اپ ہی کی نبوت ہے جس پر تمام انبیا کی نبوت ختم ومنتھی ہوئی اور جیسا کہ اپ خاتم النبیین ہیں بے اعتبار زمانہ اسی طرح خاتم النبیین ہیں بالذات کیونکہ ہر وہ شے جو  بالعرض ہو ختم ہوتی ہے اس پر جو بالذات ہو اس سے اگے سلسلہ نہیں چلتا جبکہ اپ کی نبوت بالذات ہے اور تمام انبیا علیہم السلام کی نبوت بالعرض ہے اس لیے کہ سارے انبیا کی نبوت اپ کی نبوت کے واسطے سے ہے اور اپ ہی فرد اکمل و یگانہ اور دائرہ رسالت و نبوت کے مرکز اور عقد نبوت کے واسطہ ہیں پس اپ خاتم النبیین ہوئے ذاتا بھی اور زمانا بھی اور اپ کی خاتمیت صرف زمانہ کے اعتبار سے نہیں ہے اس لیے کہ یہ کوئی بڑی فضیلت نہیں کہ اپ کا زمانہ انبیا سابقین کے زمانہ سے پیچھے ہے بلکہ کامل سرداری اور غایت رفعت اور انتہا درجے کا شرف اسی وقت ثابت ہوگا جب کہ اپ کی خاتمیت بالذات اور زمانہ دونوں اعتبار سے ہو ورنہ محض زمانہ کے اعتبار سے خاتم الانبیا ہونے سے اپ کی سیادت و رفعت نہ مرتبہ کمال کو پہنچے گی اور نہ اپ کو جامعیت کا فضل کلی کا شرف حاصل ہوگا اور یہ دقیق مضمون جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت اور رفعت شان و عظمت کے بیان میں مولانا کا مکاشفہ ہے ہمارے خیال میں علما متقدمین اور اذکیا متبحرین میں سے کسی کا ذہن اس میدان کے انواع تک بھی نہیں پہنچا ہاں ہندوستان کے بدعتیوں کے نزدیک کفرو ضلال بن گیا یہ مبتدعین اپنے چیلوں اور تابعین کو یہ وسوسہ دلاتے ہیں کہ یہ تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار ہے افسوس در افسوس قسم ہے اپنی زندگی کی کہ ایسا کہنا پرلے درجہ کا افترا ہے اور بڑا جھوٹ اور بہتان ہے جس کا باعث محض کینہ و عداوت و بغض اہل اللہ اور اس کے خاص بندوں کے ساتھ اور سنت اللہ اسی طرح جاری ہے انبیا اور اولیاء میں 

26واں سوال[ترمیم]

کیا کہتے ہو قادیانی کے بارے میں جو مسیح اور نبی ہونے کا مدعی ہے کیونکہ لوگ تمھاری طرف نسبت کرتے ہیں کہ تم اس سے محبت رکھتے ہو اور اس کی تعریف کرتے ہو

تمھارے مکارم اخلاق سے امید ہے کہ ان مسائل کا شافی بیان لکھو گے تاکہ قائل کا صدق وکذب واضح ہو جائے اور جو شک لوگوں کے مشوش کرنے سے ہمارے دلوں میں تمھاری طرف سے پڑ گیا ہے وہ باقی نہ رہے

جواب:  ہم اور ہمارے مشائخ سب کا مدعی نبوت ومسیحیت قادیانی کے بارے میں یہ قول ہے کہ شروع شروع میں جب تک اس کی بد عقیدگی ہمیں ظاہر نہ ہوئی بلکہ یہ خبر پہنچی کہ وہ اسلام کی تائید کرتا ہے اور تمام مذاہب کو بدلائل باطل کرتا ہے تو جیسا کہ مسلمان کو مسلمان کے ساتھ زیبا ہے ہم اس کے ساتھ حسن ظن رکھتے اور اس کے بعض ناشاستہ اقوال کو تاویل کر کے محمل حسن پر عمل کرتے رہے اس کے بعد جب اس نے نبوت اور مسیحیت کا دعوی کیا اور عیسی مسیح کے اسمان پر اٹھائے جانے کا منکر ہوا اور اس کا خبیث عقیدہ اور زندیق ہونا ہم پر ظاہر ہوا تو ہمارے مشائخ نے اس کے کافر ہونے کا فتوی دیا قادیانی کے کافر ہونے کے بابت ہمارے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ  کا فتوی شائع ہو چکا ہے بکثرت لوگوں کے پاس موجود ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر چونکہ مبتدعین کا مقصود یہ تھا کہ ہندوستان کے جہلا کو ہم پر برافروختہ کریں اور حرمین شریفین کے علما و مفتی اشراف اور قاضی و رؤسا کو ہم پر متنفر بنائیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب ہندی زبان اچھی طرح نہیں جانتے بلکہ ان تک ہندی رسائل و کتابیں پہنچتی بھی نہیں اس لیے ہم پر جھوٹے افترا باندھے
سو خداہی سے مدد درکار ہے اور اسی پر اعتماد ہے اور اسی کا تمسک جو کچھ ہم نے عرض کیا یہ ہمارے عقیدے ہیں اور یہی دین و ایمان ہے سو اگر اپ حضرات کی رائے میں یہ درست ہوں تو اس پر تصحیح لکھ کر مہر سے مزین کر دیجیے اور اگر غلط و باطل ہوں تو جو کچھ اپ کے نزدیک حق ہو وہ ہمیں بتائیے ہم انشاء اللہ حق سے اعراض نہ کریں گے اور اگر ہمیں اپ کے ارشاد میں کوئی شبہ لاحق ہوگا تو دوبارہ پوچھ لیں گے یہاں تک کہ حق ظاہر ہو جائے اور ابہام نہ رہے
اور ہماری اخری دعا یہ ہے کہ سب تعریف اللہ کو ذیبا ہے جو پالنے والا ہے تمام جہان کا اور اللہ کا درود و سلام نازل ہو اولین و اخرین کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی اولاد و صحابہ و ازواج و ذریات سب پر 

زبان سے کہا اور قلم سے لکھا خادم الطلبہ کثیر الذنوب حقیر خلیل احمد نے خدا ان کو توشہ اخرت کی توفیق عطا فرمائے 18 شوال 1325 تمام شد

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ التعلیم، میجر باسو، ص 105
  2. نقش حیات جلد اول مواقفه شیخ الاسلام مولانا مدنی
  3. خاموش راہنما، دار العلوم دیوبند، مولف حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم
  4. اسیر مالٹا مولف شیخ الاسلام مدنی
  5. الشہاب الثاقب مصنفہ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحت اللہ علیہ
  6. سورہ ابراہیم آیت 24،25
  7. سورہ حج، آیت27
  8. سورہ الفرقان، آیت 31
  9. سورہ الانعام آیت112