اوغوز نامہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اوغوز نامہ
مصنف رشید الدین فضل اللہ   ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان فارسی ،  ترکی   ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک ترکیہ   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع غز   ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اوغوز نامہ (انگریزی: OGHUZ-NAMA، ترکی: Oguznama) اوغوز ترک قبائل کی بہادری پر مبنی روایات پر مشتمل ادب کی ایک اصطلاح ہے جس کی دریافت اورخان اول کے زمانہ حکومت میں ہوئی تھی۔

تاریخ[ترمیم]

جامع التواریخ کا ایک منقش صفحہ۔

اوغوز نامہ دراصل اوغوز ترک قبائل کی بہادری پر مبنی زبانی روایات اور بعد ازاں تحریری روایات کا ایک مجموعہ ہے جسے ادب میں اوغوز ترک قبائل کی تاریخ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اوغوز نامہ سے اوغوز ترک قبائل کے ابتدائی دور اور اُن کے حکومت کرنے اور حکمرانوں سے متعلق تاریخی مواد فراہم ہوتا ہے۔ اوغوز نامہ کے متعلق تاریخی شواہد اورخان اول کے کتبوں سے ہوتی ہے اور یہیں سے اوغوز نامہ کا پہلی بار تحریری ادب میں پتا چلتا ہے۔ ساتویں صدی اور آٹھویں صدی میں کوک یا سلیشی ترک سلطنت کے زوال کے بعد اوغوز قبائل مغربی علاقے کی جانب نقل مکانی کرگئے۔ آٹھویں اور نویں صدی کے بعد سے اِن کے دریائے سیحوں کے سطحی اور بالائی طاس میں موجود قازقستان میں بحیرہ ارال اور جھیل بلکش کے درمیان میں آباد ہونے کا ثبوت ملتا ہے جہاں انھوں نے قبائلی وفاق قائم کر لیا تھا۔ سلجوقی بھی اِنہی کا حصہ تھے جنھوں نے گیارہویں صدی او ر اُس کے بعد کے دور میں ایران اور ایشیائے کوچک کو تاخت و تاراج کیا۔[1]

ادب میں مقام[ترمیم]

اوغوز قبیلہ کی یہ شجاعانہ روایات زمانہ قبل ازاسلام سے چلی آ رہی ہیں جن کا منبع دریائے سیحوں کا علاقہ ہے۔ عوامی شاعری اور نسلی روایات کی طرح یہ شجاعانہ روایات بھی شروع میں زبانی ہی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہی ہیں۔ اِن روایات کے افسانوی ہیرو کا نام اوغوز تھا، اِسی نسبت سے اِس ادب کو اوغوزنامہ کہا جانے لگا۔ اِن روایات کے راوی اوزن کہلاتے تھے جو کوپوز کے ساتھ مل کر انھیں پڑھتے اور گایا کرتے تھے۔ تحریری اوغوز نامہ کی ابتدا سلجوقی عہد میں یعنی کہ تیرہویں صدی سے ہوتی ہے لیکن امتدادِ زمانہ کے باعث اورغوز نامہ کا کوئی تحریری مخطوطہ سلجوقی عہد کا محفوظ نہیں رہ سکا ۔ جو قدیم ترین اوغوزنامہ ہم تک پہنچا ہے، وہ ایرانی النسل مؤرخ رشید الدین فضل اللہ ہمدانی کی تصنیف جامع التواریخ میں مذکور ہے جس کی ابتدا غازان خان کے عہد میں ہوئی اور اُس کے جانشین محمد خدابندہ اولجایتوکے عہد میں مکمل ہوئی۔ اوغوزنامہ کے مصنف نے حقائق اور زبانی روایات کو یکجا کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن کی روایت تاریخی حقائق کی بجائے عوامی روایات پر مبنی ہے۔ رشید الدین فضل اللہ ہمدانی کے اوغوز نامہ میں اگرچہ زمانہ قبل از اسلام کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں ، تاہم اِن میں سلجوقی سلطنت کے فتوحات کا ذِکر بھی ملتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اِن کا ترکی زبان سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے کیونکہ اِس کے الفاظ میں منگولی اور مشرقی ترکی لہجے کے لسانی اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ مصنف اوغوزنامہ نے قرآنی آیات ذِکر کرنے کے بعد فردوسی کے شاہنامہ سے بھی اشعار نقل کیے ہیں اور اپنے مدعا کو واضح کرنے کے لیے مثالیں بھی دی ہیں۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: ج 2 تکملہ ، ص 370۔ مطبوعہ لاہور
  2. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: ج 2 تکملہ ، ص 371۔ مطبوعہ لاہور