محمد خدابندہ اولجایتو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد خدابندہ اولجایتو
 

شہنشاہ ایل خانی سلطنت
دور حکومت 11 مئی 1304ء16 دسمبر 1316ء
(12 سال 7 ماہ 5 دن)
تاج پوشی 11 مئی 1304ء
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1280
وفات 16 دسمبر 1316
سلطانیہ، موجودہ ایران
شہریت ایل خانی سلطنت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب شیعیت (سابقہ مسیحیت یا بدھ مت)
والد ارغون خان
بہن/بھائی
خاندان چنگیز خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان ایل خانی سلطنت
دیگر معلومات
پیشہ مقتدر اعلیٰ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد خدابندہ اولجایتو (منگولی زبان: ᠦᠯᠵᠡᠢᠲᠦ ᠺᠬᠠᠨ) (پیدائش: 1280ء— وفات: 16 دسمبر 1316ء) سلطنت ایل خانی فارس کا آٹھواں حکمران تھا۔ اولجایتو نے بحیثیت شہنشاہ فارس 1304ء سے 1316ء تک حکومت کی۔ اولجایتو ارغون خان کا بیٹا اور ہلاکو خان کا پڑپوتا تھا۔ اُس کے دورِ حکومت میں ایل خانی سلطنت کے تعلقات یورپ سے کافی خوشگوار رہے۔

سلطانیہ، ایران میں واقع گنبد سلطانیہ جو سلطان اولجایتو کا مدفن ہے۔
رشید الدین فضل اللہ ہمدانی کی جامع التواریخ میں اولجایتو کے عہد حکومت کے منگول سپاہیوں کو دکھایا گیا ہے۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

اولجایتو کی پیدائش 1280ء میں ہوئی۔ اُس کی والدہ اُرُک خاتون نے اُسے پوپ نکولس چہارم سے بپتمسہ دلوایا تھا اور اُس کا نام نکولیا رکھا گیا تھا۔[2] آغازِ شباب میں اُس کا نام خربندہ رکھا گیا۔ جب اولجایتو نے اسلام قبول کر لیا تو خربندہ بدل کر خدابندہ ہو گیا اور ذاتی نام محمد رکھا گیا۔ 1304ء میں تخت نشینی کے بعد اولجایتو نے غیاث الدین والدنیا کا لقب بھی اختیار کیا۔

غازان محمود اور اولجایتو

تخت نشینی[ترمیم]

11 مئی 1304ء کو محمود غازان فوت ہوا تو اولجایتو اُس وقت ایل خانی سلطنت کی ہندوستانی سرحد پر تھا، لیکن اُس کی عدم موجودگی میں جانشینی کی کوئی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ اُس کا چچازاد بھاَئی الفرنک جو تخت کا دعویدار بن سکتا تھا، وہ پہلے ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ 11 مئی 1304ء سے ہی اولجایتو کو ایل خانی سلطنت کا شہنشاہ تسلیم کر لیا گیا۔

فتوحات[ترمیم]

دار الحکومت کی تبدیلی[ترمیم]

1305ء میں اولجایتو نے اپنے بیٹے ابوسعید بہادر خان کی پیدائش کی خوشی میں ایل خانی سلطنت کا دار الحکومت سلطانیہ کو قرار دیا حالانکہ اس سے پہلے دار الحکومت تبریز تھا۔ اولجایتو تادمِ مرگ سلطانیہ میں مقیم رہا۔

ہرات کی فتح[ترمیم]

1307ء میں جب اولجایتو نے ہرات فتح کیا تو تب بھی لشکر ایل خانی میں فرانسیسی سپاہی موجود تھے۔[3] جب اولجایتو نے صوبہ گیلان کا محاصرہ کر لیا اور خوراک و رسد منقطع کردی گئی تو اُس وقت بھی فرانسیسوں نے اولجایتو کی مدد کی تھی۔ نتیجتاً آل کرت سے ہرات چھین لیا گیا اور آل کرت کے شاہی افراد کو قتل کر دیا گیا۔

مملوکوں کے خلاف آخری مہم[ترمیم]

1312ء/1313ء میں اولجایتو نے جس آخری مہم میں حصہ لیا وہ مملوکوں کے خلاف تھی مگر یہ مہم ناکام ہو گئی اور دمشق میں اولجایتو کو شکست ہوئی۔ آخرکار مملوکوں اور ایل خانیوں کے مابیں مدتِ دراز سے جاری یہ کشمکش 1322ء میں ختم ہو گئی جب اولجایتو کے بیٹے ابوسعید بہادر خان نے مملوکی سلطان الناصر محمد بن قلاوؤن سے حلب میں معاہدہ کر لیا جس کے تحت یہ مخالفت اور جنگوں کا طویل سلسلہ ختم ہو گیا۔

یورپی حکمرانوں سے تعلقات و روابط[ترمیم]

وینس سے تجارتی معاہدہ[ترمیم]

اولجایتو کے دورِ حکومت میں ایل خانی سلطنت کے تعلقات یورپ سے کافی خوشگوار ثابت ہوئے۔ اولجایتو نے 1306ء میں وینس کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کر لیا جس سے وینس کے تاجروں کی آمد ایل خانی دار الحکومت تبریز میں ہونے لگی۔ مارکو پولو نے بھی تبریز شہر میں یورپی تاجروں کی سکونت و قیام گاہوں اور اُن کی آمد کے متعلق لکھا ہے اور کہا ہے کہ یہ تاجر سونا، ریشم تبریز سے لے کر یورپ میں فروخت کرتے تھے۔[4]

عسکری اتحاد[ترمیم]

اولجایتو پہلا ایل خانی شہنشاہ تھا جس نے یورپ کے حکمرانوں کے ساتھ پہلی بار عسکری اتحاد قائم کیا، اِس کی بڑی وجہ مملوکوں سے مخالفت تھی۔ اولجایتو نے مغرب میں یورپی حکمرانوں سے روابط قائم رکھے تاکہ مملوکوں کی مشرق میں سرگرمیوں کو روک سکے۔ اُس کے پیشرو بھی مملوکوں سے رسرپیکار رہے تھے۔ یورپ میں اُس کے مسیحی حکمرانوں سے تعلقات اُس کے مسیحی سفیر توماس الدوچی (Thomas Ilduci) نے قائم کیے جو اولجایتو کو یورپی حکمرانوں کے سامنے مسیحی ثابت کرتا رہا۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ اولجایتو خود مسلمان ہوتے ہوئے مسیحی حکمرانوں سے روابط کو استوار کیے رہا جبکہ اُس کے مقابل مملوک بھی مسلمان تھے۔

1305ء کی یورپی سفارت[ترمیم]

ماہِ اپریل 1305ء میں اولجایتو نے یورپ کے حکمرانوں سے بہترین سفارتی تعلقات اُستوار کرنے کے لیے پہلی سفارت بھیجی جس کا سفیر بسکاریلو دی گیزولفی تھا اور یہ سفارت شاہِ فرانس فلپ چہارم، پوپ کلیمنٹ پنجم اور ایڈورڈ اول شاہ انگلستان کے شاہی درباروں کے لیے تھی۔ اِس سفارتکاری کا صرف ایک ہی خط محفوظ رہ سکا ہے جو فرانس کے عوامی کتب خانہ (نیشنل لائبریری آف فرانس) میں موجود ہے۔ اِس خط کا متن یوں ہے کہ:

ہم، سلطان اولجایتو، کلام کرتے ہیں۔ ہم آسمان کی طاقت پاتے ہیں اور تخت پر براجمان ہوتے ہیں۔ ہم چنگیز خان کے جانشین ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ فتوحات کے بغیر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ اگرکوئی فتح نہیں کرتا، وہ تم ہو یا تمہارے جیسا کوئی، نتیجتاً ہم دونوں کو اپنا اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے، فیصلہ آسمان کردے گا۔۔۔"[5]
اب ہم سب، تیمور خان، تچپار، توق طغا، توغبا، اور ہم۔ ہم سب چنگیز خان کے جانشین، ہم سب ایک ساتھ۔ جانشین اور بھائی۔ ایک دوسرے کے مشیر اور قوتِ الٰہی سے مدد پانے والے۔۔ ہماری سلطنت نانگکیان (چین) سے لے کر جھیل ڈالہ تک پھیلی ہے، لوگ متحد ہیں اور شاہراہیں کھلی ہیں۔۔۔"[6]
اولجایتو کی پہلی سفارتکاری کے دوران میں تحریر کیے گئے خط کا اطالوی زبان میں ترجمہ جو بسکاریلو دی گیزولفی کا تحریر کردہ ہے۔ (1305ء)

اِس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ اولجایتو کے فرانس سے سفارتی تعلقات دوسرے یورپی ممالک سے کہیں زیادہ بہتر طور پر اُستوار تھے۔

1307ء کی یورپی سفارت[ترمیم]

یورپ میں اولجایتو کی طرف سے دوسری سفارت 1307ء میں سفیر تھامس الدوچی کے ذریعے بھیج گئی تھی۔ سفیر کو الدوچی کا خطاب دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں: برہنہ تلوار۔ یہ سفارتکاری پوپ کلیمنٹ پنجم کے نام روانہ کی گئی۔ مورخین کے مطابق اِس سفارت کا خفیہ مقصد یہ تھا کہ مسیحیوں کو ارض مقدسہ میں داخلے کی اجازت مل جائے یا وہ ارض مقدسہ مسیحیت کے قبضہ میں چلا جائے، یہ صرف مملوکوں کی مخالفت میں بھیجی گئی تاکہ ارض مقدسہ مملوکوں کی سلطنت سے الگ ہو جائے۔ اِس سفارت سے ایل خانی سلطنت اور مسیحی دنیا ویٹی کن کے تعلقات پرجوش ہو گئے اور خان بالق میں مسیحیوں کو داخلے کی اجازت مل گئی۔

کلاسیکی منگولی طرز تحریر میں لکھا گیا فلپ چہارم، شاہ فرانس کے نام مکتوب جس پر عظیم خان ہلاکو خان کی سرخ شاہی مہر ثبت ہے - (1305ء)

1307ء میں جب اولجایتو نے پوپ کلیمنٹ پنجم کے پاس سفارت بھیجی تو تب مسیحی دنیا کے حکمران صلیبی جنگوں میں شریک ہونے کے لیے تیاری کر رہے تھے، لیکن یہ اتحاد چند ناگزیر وجوہات کے باعث تاخیر کا شکار ہوا۔ یہ صلیبی جنگ بلاد الشام پر مسیحی تسلط کے قیام کے لیے تھا جس کے لیے پوپ کلیمنٹ پنجم نے اولجایتو سے مدد چاہی۔

1308ء کی عسکری مہم[ترمیم]

1304ء سے قبل بازنطینی شہنشاہ ایندرونیکس دؤم نے اپنی ایک بیٹی کی شادی اولجایتو سے کی تھی اور اس لحاط سے بازنطینی سلطنت میں اولجایتو کی رشتے داری کافی بہتر تھی۔ جب سلطنت عثمانیہ کا پھیلاؤ شروع ہو تو بازنطینی شہنشاہ نے سلطنت عثمانیہ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اولجایتو سے مزاحمت کا مطالبہ کیا۔ 1305ء میں اولجایتو نے بازنطینی شہنشاہ سے وعدہ کیا کہ وہ چالیس ہزار سوار فراہم کرے گا لیکن 1308ء میں تعداد کم کرکے تیس ہزار رہ گئی۔ اولجایتو نے تیس ہزار فوجی فراہم کیے تاکہ ایندرونیکس دؤم بتھنیا کے قصبوں کو سلطنت عثمانیہ سے آزاد کروا سکے۔ یہ قصبے عثمان اول سے مقابلہ کرکے واپس لے لیے گئے۔[7]

1313ء کی یورپی سفارت[ترمیم]

4 اپریل 1312ء کو پوپ کلیمنٹ پنجم نے ویانا کونسل میں صلیبی جنگ کا اعلان کیا۔ اِسی دوران 1313ء میں اولجایتو نے ایک سفارت ایڈورڈ دوم شاہ انگلستان کے پاس بھیجی۔ فلپ چہارم، شاہ فرانس نے صلیبی جنگ کے واسطے لشکر تیار کیا اور صلیب مقدس کو اٹھایا اور لشکر لے کر بلاد الشام کو روانہ ہو گیا۔ صلیبی لشکر بلاد الشام میں پوپ کلیمنٹ پنجم کی آواز پر جمع ہو چکے تھے۔ 20 اپریل 1314ء کو پوپ کلیمنٹ پنجم کے اچانک انتقال کرجانے پر صلیبی لشکر انتشار کا شکار ہوا اور مملوکوں نے صلیبی لشکر کو شکست دے کر واپس لوٹ جانے پر مجبور کر دیا۔

عہد حکومت[ترمیم]

اولجایتو کے عہد حکومت کا 706ھ/ 1306ء میں ضرب کردہ سکہ جس پر کلمہ طیبہ کندہ ہے۔
اولجایتو کے عہد حکومت کا 706ھ/ 1306ء میں ضرب کردہ سکہ جس پر ائمہ اثناعشر کے اسماء اور درمیان میں اولجایتو کا شاہی نام کندہ ہے۔
سلطانیہ میں موجود ایک قدیمی مسجد کی محراب جس پر اولجایتو کے حکم پر نقاشی کی گئی اور چوبی منبر بنایا گیا تھا۔

اولجایتو نے تقریباً ساڑھے بارہ سال حکومت کی اور اِس کے بعد ایل خانی سلطنت زوال پزیر ہوتی گئی کیونکہ ایسا بیدار مغز حکمران دوبارہ ایل خانی سلطنت کو میسر نہیں آسکا۔ اولجایتو نے پیشرو حکمران محمود غازان کے قوانین کو دوبارہ اصلی صورت میں بحال کر دیا جس سے ایل خانی سلطنت میں پھیلی طوائف الملوکی کا خاتمہ ہو گیا۔ رشید الدین فضل اللہ ہمدانی کا بیان ہے کہ اولجایتو نے سلطنت میں مہنگائی پر ضرب لگائی اور اِن اقدامات سے خوش حالی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

وفات[ترمیم]

اولجایتو نے 12 سال 5 ماہ 7 دن حکومت کرنے کے بعد 36 سال کی عمر میں بروز جمعرات 28 رمضان 716ھ/ 16 دسمبر 1316ء کو سلطانیہ میں فوت ہوا۔ اولجایتو کی وفات کے بعد رشید الدین فضل اللہ ہمدانی پر الزام لگایا گیا کہ اُس نے اولجایتو کو زہر دیا، لیکن یہ الزام ثابت نہ ہو سکا اور رشید الدین فضل اللہ ہمدانی کو بری کر دیا گیا۔ اولجایتو کو سلطانیہ میں اُس کے اپنے تعمیر کردہ مقبرہ گنبد سلطانیہ میں دفن کیا گیا۔[8]

مذہبی رجحان[ترمیم]

اولجایتو کو پیدائش کے بعد مسیحیت کے مطابق بپتسمہ دیا گیا تھا۔ دورِ شباب میں اُس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام محمد خدابندہ تجویز کیا تھا۔ چند مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اولجایتو نے اپنی زوجہ کے اصرار پر اسلام قبول کیا تھا۔[9] ابن بطوطہ کے مطابق اُس نے سنی ہونے کا دعویٰ کیا لیکن بعد ازاں فقہ شافعی کو فروغ دیا لیکن اِس میں وہ ناکام رہا۔ ایل خانی سلطنت میں سربرآوردہ شیعہ علما کی صحبت سے متاثر ہوکر اُس نے مسلک شیعہ اختیار کر لیا۔ علامہ حلی اور شیخ میثم البحرانی سے وہ کافی متاثر رہا۔[10] 1306ء میں اولجایتو نے سلطانیہ شہر کی بنیاد رکھی جہاں بغداد سے شیعی علما کو بلوا کر آباد کیا۔ موسم سرما 1308ء میں اولجایتو نے شیعی عقائد آثناعشری عقائد اختیار کرلیے اور 1310ء میں اولجایتو نے باقاعدہ طور پر شیعہ عقائد اختیار کرلینے کا اعلان کیا۔ کچھ ذرائع کے مطابق وہ مرض وفات کے وقت تک سنی عقائد پر راسخ الاعتقاد تھا۔[11] اولجایتو کے عہدِ حکومت کے سکوں پر کلمہ طیبہ اور دوسری جانب ائمہ اثناعشر کے اسماء کندہ ہیں جن سے اُس کے شیعی عقائد پر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس اعتبار سے اولجایتو کو پہلا شیعی شہنشاہ ایل خانی سلطنت قرار دیا جا سکتا ہے ۔

علمی سرگرمیاں[ترمیم]

اولجایتو اپنے پیشرو شاہان ایل خانی سلطنت کے مقابلے میں آزاد پسند اور آزاد خیال حکمران ثابت ہوا۔ 1309ء میں اُس نے شیراز میں دارالسیدہ کی بنیاد رکھی جہاں علما پر بکثرت رقم صرف کی جاتی رہی۔ رصدخانہ مراغہ (موجودہ: صوبہ آذربائیجان شرقی) جو ہلاکو خان کے عہد حکومت میں نصیر الدین طوسی نے قائم کی تھی، میں اولجایتو نے کافی حد تک دلچسپی لی اور وہاں نصیر الدین طوسی کے بیٹے اصیل الدین کو شاہی منجم مقرر کیا۔ رشید الدین فضل اللہ ہمدانی کی ادبی و تاریخی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہا، علاوہ ازیں مؤرخ مذکور کی تاریخ گوئی سے بہت متاثر تھا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ربط : https://d-nb.info/gnd/123548985  — اخذ شدہ بتاریخ: 30 مارچ 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. yan, James D. (نومبر 1998)۔ "Christian wives of Mongol khans: Tartar queens and missionary expectations in Asia"۔ Journal of the Royal Asiatic Society۔ 8 (9): 411–421.
  3. Peter Jackson, The Mongols and the West, p.315
  4. Jackson, Peter, The Mongols and the West، Pearson Education,، p. 298
  5. Quoted in Jean-Paul Roux, Histoire de l'Empire Mongol، p.437
  6. Jean-Paul Roux, in Histoire de l'Empire Mongol ISBN 2-213-03164-9: "The Occident was reassured that the Mongol alliance had not ceased with the conversion of the Khans to Islam. However, this alliance could not have ceased. The Mamelouks, through their repeated military actions, were becoming a strong enough danger to force Iran to maintain relations with Europe."، p.437
  7. I. Heath, Byzantine Armies: AD 1118–1461, pp. 24–33
  8. اردو انسائیکلوپیڈیا آف اسلام: جلد 3، صفحہ 80۔ مطبوعہ لاہور، 1968ء۔
  9. The preaching of Islam: a history of the propagation of the Muslim faith By Sir Thomas Walker Arnold, pg. 197
  10. Al Oraibi, Ali (2001)۔ "Rationalism in the school of Bahrain: a historical perspective"۔ In Lynda Clarke. Shīʻite Heritage: Essays on Classical and Modern Traditions۔ Global Academic Publishing. p. 336.
  11. Curatola, Giovanni; Gianroberto Scarcia (2007)۔ Iran: The Art and Architecture of Persia۔ Perseus Distribution Services. p. 166.
شاہی القاب
ماقبل  ایل خانی سلطنت
11 مئی 1304ء16 دسمبر 1316ء
مابعد