مندرجات کا رخ کریں

باسفورس پل

متناسقات: 41°02′43″N 29°02′04″E / 41.04528°N 29.03444°E / 41.04528; 29.03444
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
باسفورس پل Bridge
15 Temmuz Şehitler Köprüsü
The Bosphorus Bridge in استنبول spans the آبنائے باسفورس strait and connects یورپ اور ایشیا
سرکاری نام15 July Martyrs Bridge
دیگر نامFirst Bridge
برائے6 lanes of او-1
پارآبنائے باسفورس آبنائے
مقاماستنبول
دیکھ بھالGeneral Directorate of Highways
نقشہ نویسGilbert Roberts
William Brown
Michael Parsons
انجینرنگ نقشہFreeman Fox & Partners
Enka Construction & Industry
Cleveland Bridge & Engineering Company
Hochtief AG
طرزSuspension bridge
موادفولاد
کل لمبائی1,560 میٹر (5,118 فٹ)[1]
چوڑائی33.40 میٹر (110 فٹ)[1]
اونچائی165 میٹر (541 فٹ)[1]
طویل ترین1,074 میٹر (3,524 فٹ)[1]
آغاز تعمیر20 February 1970
تعمیر ختم1 June 1973
افتتاح30 October 1973
چنگی47 ترکی لیرہ (€1.25 as of 13 January 2025)[2]
روزانہ نقل و حمل200,000[3]
متناسقات41°02′43″N 29°02′04″E / 41.04528°N 29.03444°E / 41.04528; 29.03444
ایشیائی جانب سے پل کا دلکش منظر

باسفورس پل (ترکی زبان: Boğaziçi Köprüsü) استنبول، ترکی میں آبنائے باسفورس پر قائم ایک پل ہے۔ یہ شہر کے یورپی علاقے اورتاکوئے اور ایشیائی حصے بے لربئی کو ملاتا ہے اور باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔ یہ پل 1510 میٹر طویل ہے جبکہ اس کی عرصے کا عرض 39 میٹر ہے۔ اس کے دونوں برجوں کے درمیان فاصلہ 1074 میٹر ہے اور سڑک کی سطح سے بلندی 105 میٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 64 میٹر بلند ہے اور 1973ء میں تکمیل کے بعد دنیا کا چوتھا سب سے بڑا سسپنشن پل بن گیا تاہم یہ ریاستہائے متحدہ امریکا سے باہر دنیا کا سب سے بڑا سسپنشن پل ہے۔

تاریخ

[ترمیم]

آبنائے باسفورس پر پل کی تعمیر کا فیصلہ پہلی بار 1957ء میں عدنان میندریس کے دور حکومت میں کیا گیا۔ اس کے نقشے کے لیے برطانیہ کے ادارے فری مین فاکس اینڈ پارٹنرز کے ساتھ 1968ء میں معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ پل کا نقشہ معروف برطانوی ماہر تعمیرات سر گلبرٹ رابرٹس نے تیار کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1970ء میں ہوا جس میں اُس وقت کے صدر جودت سونے اور وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل نے بھی شرکت کی۔ تعمیراتی کام ترک ادارے انکا انسات و صناعی نے انجام دیا۔ اس کام میں برطانیہ اور جرمنی کے دو ادارے میں شامل تھے۔ منصوبے پر 35 مہندسین اور 400 افراد نے کام کیا۔ پل کی تعمیر جمہوریہ ترکی کے قیام کی 50 ویں سالگرہ کے صرف ایک روز بعد 30 اکتوبر 1973ء کو مکمل ہوئی۔ اس کا افتتاح صدر فہری کوروترک اور وزیر اعظم نعیم تولو نے کیا۔ باسفورس پل کی تعمیر پر 200 ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی۔

آمدورفت

[ترمیم]
باسفورس پل

روزانہ تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار گاڑیاں اس پل سے گذرتی ہیں۔ 29 دسمبر 1997ء کو اس پل سے ایک اربویں گاڑی گذری۔ اس پل کو استعمال کرنے کے لیے محصول دینا پڑتا ہے اور اس عمل کے لیے پل کی ایشیائی جانب ٹول پلازہ واقع ہے۔ محصول صرف یورپ سے ایشیا کی جانب آنے پر ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ مخالف سمت میں جانے پر کوئی محصول نہیں۔

دیگر استعمالات

[ترمیم]
  • بین البراعظمی استنول یوریشیا میراتھن کے شرکا بھی اسی پل کے ذریعے آبنائے باسفورس پار کرتے ہیں۔ یہ دوڑ ہر سال اکتوبر میں منعقد ہوتی ہے جس کا آغاز استنبول کے ایشیائی حصے سے ہوتا ہے اور یورپی حصے میں اختتام پزیر ہوتی ہے۔ اس دوران پل کو گاڑیوں کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔
  • علاوہ ازیں پل سے کود کر خودکشی کرنے کا رحجان بھی موجود ہے اور 2001ء میں باسفورس پر واقع دو پلوں سے کود کر 146 افراد نے خودکشی کی کوشش کی جس میں 24 اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2002ء میں 190 اقدام خودکشی میں 38 افراد ہلاک ہوئے۔

دلچسپ معلومات

[ترمیم]
باسفورس پل اور بیلربے محل
  • 15 مئی 2005ء کو امریکا کی معروف ٹینس کھلاڑی وینس ولیمز نے باسفورس پل پر مقامی کھلاڑی کے ساتھ نمائشی مقابلہ کھیلا جو تاریخ کا پہلا مقابلہ تھا جو دو براعظموں میں منعقد ہوا۔ اس مقابلے کا اہتمام 2005ء استنبول کپ کے انعقاد سے قبل تشہیر کے لیے کیا گیا تھا اور یہ مقابلہ 5 منٹ تک جاری رہا۔ نمائشی مقابلے کے بعد دونوں کھلاڑیوں نے آبنائے باسفورس میں گیندیں پھینکیں۔
  • 17 جولائی 2005ء کو معروف برطانوی فارمولا ون ڈرائیور ڈیوڈ کولٹ ہارڈ نے اپنی تیز رفتار کار اس پل پر دوڑائی اور اپنی مہارت سے شائقین کو محظوظ کیا۔ انھوں نے اپنی گاڑی دولماباخچی محل کے ایک باغیچے میں کھڑی کی۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ ت
  2. "{{subst:PAGENAME}} Temmuz Şehitler ve Fatih Sultan Mehmet Köprüleri Geçiş Ücretleri Tarifesi" (PDF)۔ General Directorate of Highways۔ 12 جنوری 2025۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-28
  3. Bernd Nebel۔ "{{subst:PAGENAME}}ÜCKEN - Architektur, Technik, Geschichte"۔ www.bernd-nebel.de۔ 2016-01-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-30