مندرجات کا رخ کریں

تبادلۂ خیال صارف:محمد شہزاد انصاری جاگووالہ

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

خوش آمدید![ترمیم]

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں: اور

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید

جناب محمد شہزاد انصاری جاگووالہ کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 207,191 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس () زریہ پر طق کریں۔


ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 03:42، 8 نومبر 2022ء (م ع و)

شکریہ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:52، 8 نومبر 2022ء (م ع و)

تعارف[ترمیم]

محمد شہزاد انصاری ضلع گوجرانوالہ کے گاٶں جاگووالہ نو میں 10فروری 1986 کو پیدا ہوۓ۔ اپنے گاٶں کے پراٸمری سکول سے پنجم جماعت کا امتحان 1997 میں امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ قریبی گاٶں ببر کے گورنمنٹ ہاٸی سکول میں داخلہ لیا اور 2002 میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔جاری ہے محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:50، 8 نومبر 2022ء (م ع و)

اپنا تعارف[ترمیم]

میرا پورا نام محمد شہزاد ہے ۔ 10فروری 1986 کو گوجرانوالہ کی تحصیل نوشہرہ ورکاں کے نواحی گاٶں جاگووالہ نو میں آنکھ کھولی۔والد محترم کا نام تاج دین اور والدہ محترمہ کا نام بشیراں بی بی ہے۔ اپنے گاٶں کے پراٸمری سکول سے 1997 میں پنجم جماعت کا امتحان پاس کیا۔ ٹاٸیفاٸیڈ بخار ہونے کی وجہ سے اپریل کی بجاۓ ستمبر 1997 میں گورنمنٹ ہاٸی سکول ببر میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا۔ 2002 عیسوی میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اپنے گاٶں میں موجود نجی اداروں میں پڑھانا شروع کیا ساتھ پراٸیویٹ F.A کا امتحان 2004 میں فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اپنے ہی گاٶں میں پنجاب پبلک سکول جاگووالہ کے نام سے اپنا نجی سکول کھول لیا۔ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے بطور پراٸیویٹ امیدوار 2007 میں بی اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔2008 میں ٹیچر کے لیے درخواست دی اور 2009 میں بطور ESE بھرتی ہوا۔ 2011 میں بطور ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹر بھرتی ہوا اور 2017 تک اپنے فراٸض منصبی احسن انداز میں سرانجام دیے۔ 2017 سے بطور ہیڈٹیچر گورنمنٹ پراٸمری سکول منج والی میں کام کر رہا ہوں۔

نا مکمل تعارف محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:08، 27 نومبر 2022ء (م ع و)

استادِ محترم ۔۔۔۔ عبدالغنی گجر صاحب[ترمیم]

❤❤استادِ محترم عبدالغنی گجر ۔۔۔۔۔۔مختصر تعارف❤❤

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

آج جس معزز استاد محترم کے بارے میں صفحہ قرطاس پر دلی جذبات کی ترجمانی کرنا چاہ رہا ہوں ان کا اسم گرامی ہے محترم جناب عبدالغنی گجر صاحب آپ نٹھر کے گاٶں سے تعلق رکھتے ہیں آپ نے میٹرک گورنمنٹ ہاٸی سکول اجنیانوالہ ضلع شیخوپورہ سے پاس کیا۔انٹر کا امتحان پاس کر کے آپ نے معلمی پیشہ اختیار کیا۔ حدیث نبوی ﷺ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔ پر عمل کرتے ہوۓ تدریس کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور دوران ملازمت ایم ۔ اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔

آپ ایک سادہ انسان ۔طلبہ سے محبت کرنے والے اورخلق خدا کی خدمت کرنے والے انسان ہیں۔ آپ کو ہمیشہ دوسروں کی عزت کرتے ہوۓ پایا یہاں تک کہ آپ اپنے شاگردوں سے بھی عزت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔ آپ نے اپنی سروس کا آغاز بطور S.V گورنمنٹ بوائز ہاٸی اسکول ببر تحصیل نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ سے1987 سےکیا ۔2008 میں آپ کا تبادلہ گورنمنٹ بواٸز ایلیمنٹری سکول جاگووالہ میں ہوا۔ 2014 میں آپ بطور SST ترقی پا کر گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول کولو وال تحصیل نوشہرہ ورکاں میں تعینات ہوۓ۔ یہ سکول بیرونی مداخلت اور سٹاف کی گروپ بندی کا گڑھ تھا ۔ آپ نے اپنے حسن تدبر اور خداداد انتظامی صلاحیت سے بیرونی مداخلت اور سٹاف کی گروپ بندی کو احسن طریقہ سے ختم کیا اور مزکورہ سکول کو تحصیل نوشہرہ ورکاں کا ایک خوب صورت سکول بنا دیا۔آپ کی بہترین ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے نۓ داخلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اور اہل علاقہ کی نظر میں اساتذہ اور سکول کے وقار میں اضافہ ہوا۔ 2015 میں آپ کا تبادلہ اپنے گاٶں کے قریب ایلیمنٹری سکول فتح کی میں ہوا۔ سکول کی ظاہری حالت انتہاٸی ناگفتہ بہ تھی۔ آپ نے معززین علاقہ اور سٹاف کی معاونت سے سکول کو ایک خوب صورت درس گاہ میں تبدیل کیا۔آپ اسی سکول میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے 2022 میں تقریباً 35 سال سروس کرنے کے بعد شاندار ماضی اور خوب صورت یادوں کے ساتھ ریٹائر ہوئے۔

آپ کے بہت سے طالب علم اس وقت پاکستان کے مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔محکمہ تعلیم میں بھی آپ کے شاگردوں کی فوج ظفر موج اس وقت بادشاہ گری کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔(راقم بھی آپ کا شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔) آپ کی ایک خوبی ہے کہ آپ طلباءمیں اعتماد کو بہت زیادہ بحال کرتے۔1996 سے 1999 تک میں ان سے گورنمنٹ ہاٸی سکول ببر میں پڑھتا رہا ہوں آپ کے ساتھ تب محترم رانا اشتیاق صاحب، محترم مختار علی سرا صاحب، محترم سید صفدر شاہ صاحب ، محترم حافظ افتخار احمد شاکر صاحب ، محترم رانا محمد ادریس صاحب اور محترم ریاض احمد صاحب پڑھایاکرتے تھے۔ ان تمام اساتذہ کی محبت اور شفقت سے آج اس مقام پر ہوں کہ طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہوں۔

آپ طلبہ کے ساتھ دوستوں جیسا رویہ رکھتے۔ان کو عزت دیتے۔طلبہ کو فیوچر گائیڈ لائن دیتے۔ راقم کی بطور ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹر جب بھی ان سے ملاقات ہوٸی انھوں نے ہمیشہ مخلص مشوروں سے نوازا۔ اگر آپ کا کوئی شاگرد کوئی اچھا کام کرے اور آپ کو معلوم ہو تو آپ مکمل سپورٹ کرتے ۔یہ وصف آپ کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ میں بطور شاگرد آپ کو سلام پیش کرتا ہوں اور صحت سے بھرپور عمر خضر کے لیے دعا گو ہوں۔ دعا گو محمد شہزاد انصاری ایم فل اردو، ایم ایڈ سابق ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجو کیٹر ہیڈ ٹیچر گورنمنٹ پراٸمری سکول منج والی تحصیل نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:04، 26 نومبر 2022ء (م ع و)

ٹھیک ہے میں متق ہوں محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:04، 26 نومبر 2022ء (م ع و)

مضمون[ترمیم]

❤❤استادِ محترم عبدالغنی گجر ۔۔۔۔۔۔مختصر تعارف❤❤

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

آج جس معزز استاد محترم کے بارے میں صفحہ قرطاس پر دلی جذبات کی ترجمانی کرنا چاہ رہا ہوں ان کا اسم گرامی ہے محترم جناب عبدالغنی گجر صاحب آپ نٹھر کے گاٶں سے تعلق رکھتے ہیں آپ نے میٹرک گورنمنٹ ہاٸی سکول اجنیانوالہ ضلع شیخوپورہ سے پاس کیا۔انٹر کا امتحان پاس کر کے آپ نے معلمی پیشہ اختیار کیا۔ حدیث نبوی ﷺ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔ پر عمل کرتے ہوۓ تدریس کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور دوران ملازمت ایم ۔ اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔

آپ ایک سادہ انسان ۔طلبہ سے محبت کرنے والے اورخلق خدا کی خدمت کرنے والے انسان ہیں۔ آپ کو ہمیشہ دوسروں کی عزت کرتے ہوۓ پایا یہاں تک کہ آپ اپنے شاگردوں سے بھی عزت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔ آپ نے اپنی سروس کا آغاز بطور S.V گورنمنٹ بوائز ہاٸی اسکول ببر تحصیل نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ سے1987 سےکیا ۔2008 میں آپ کا تبادلہ گورنمنٹ بواٸز ایلیمنٹری سکول جاگووالہ میں ہوا۔ 2014 میں آپ بطور SST ترقی پا کر گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول کولو وال تحصیل نوشہرہ ورکاں میں تعینات ہوۓ۔ یہ سکول بیرونی مداخلت اور سٹاف کی گروپ بندی کا گڑھ تھا ۔ آپ نے اپنے حسن تدبر اور خداداد انتظامی صلاحیت سے بیرونی مداخلت اور سٹاف کی گروپ بندی کو احسن طریقہ سے ختم کیا اور مزکورہ سکول کو تحصیل نوشہرہ ورکاں کا ایک خوب صورت سکول بنا دیا۔آپ کی بہترین ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے نۓ داخلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اور اہل علاقہ کی نظر میں اساتذہ اور سکول کے وقار میں اضافہ ہوا۔ 2015 میں آپ کا تبادلہ اپنے گاٶں کے قریب ایلیمنٹری سکول فتح کی میں ہوا۔ سکول کی ظاہری حالت انتہاٸی ناگفتہ بہ تھی۔ آپ نے معززین علاقہ اور سٹاف کی معاونت سے سکول کو ایک خوب صورت درس گاہ میں تبدیل کیا۔آپ اسی سکول میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے 2022 میں تقریباً 35 سال سروس کرنے کے بعد شاندار ماضی اور خوب صورت یادوں کے ساتھ ریٹائر ہوئے۔

آپ کے بہت سے طالب علم اس وقت پاکستان کے مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔محکمہ تعلیم میں بھی آپ کے شاگردوں کی فوج ظفر موج اس وقت بادشاہ گری کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔(راقم بھی آپ کا شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔) آپ کی ایک خوبی ہے کہ آپ طلباءمیں اعتماد کو بہت زیادہ بحال کرتے۔1996 سے 1999 تک میں ان سے گورنمنٹ ہاٸی سکول ببر میں پڑھتا رہا ہوں آپ کے ساتھ تب محترم رانا اشتیاق صاحب، محترم مختار علی سرا صاحب، محترم سید صفدر شاہ صاحب ، محترم حافظ افتخار احمد شاکر صاحب ، محترم رانا محمد ادریس صاحب اور محترم ریاض احمد صاحب پڑھایاکرتے تھے۔ ان تمام اساتذہ کی محبت اور شفقت سے آج اس مقام پر ہوں کہ طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہوں۔

آپ طلبہ کے ساتھ دوستوں جیسا رویہ رکھتے۔ان کو عزت دیتے۔طلبہ کو فیوچر گائیڈ لائن دیتے۔ راقم کی بطور ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹر جب بھی ان سے ملاقات ہوٸی انھوں نے ہمیشہ مخلص مشوروں سے نوازا۔ اگر آپ کا کوئی شاگرد کوئی اچھا کام کرے اور آپ کو معلوم ہو تو آپ مکمل سپورٹ کرتے ۔یہ وصف آپ کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ میں بطور شاگرد آپ کو سلام پیش کرتا ہوں اور صحت سے بھرپور عمر خضر کے لیے دعا گو ہوں۔ دعا گو محمد شہزاد انصاری ایم فل اردو، ایم ایڈ سابق ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجو کیٹر ہیڈ ٹیچر گورنمنٹ پراٸمری سکول منج والی تحصیل نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:08، 26 نومبر 2022ء (م ع و)

متفق محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:15، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

انگریزی الفاظ اردو میں[ترمیم]

انگریزی الفاظ اردو میں - از شمس الرحمن فاروقی english-words-in-urdu

اردو میں بہت سے انگریزی (یا مغربی زبانوں کے) الفاظ مستعمل ہیں۔ ان کو حسب ذیل گروہوں میں رکھا جا سکتا ہے: (1) وہ الفاظ جو پوری طرح کھپ گئے ہیں اور ان پر غیرزبان ہونے کا گمان نہیں گذرتا۔ مثلاً ٹکٹ، اسٹیشن، ڈالر، پارٹی، واٹ (watt)، انسپکٹر، بجٹ، ٹیکس، ہال، پروفیسر، لیکچرر۔ لیمپ، بلب وغیرہ۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا تلفظ ہم لوگوں نے بدل لیا ہے، جیسے پاؤنڈ (Pound) کی جگہ 'پونڈ'، پینٹلونس (Pantaloons) کی جگہ 'پتلون' وغیرہ۔ اس گروہ میں جو الفاظ ہیں، ان کے مرادف اردو میں عام طور پر نہیں ہیں۔

(2) وہ الفاظ جن کے اردو مرادف ہیں، لیکن وہ اب کم بولے جاتے ہیں۔ مثلاً ٹمپریچر بجائے درجۂ حرارت، ایر پورٹ بجائے ہوائی اڈا ، والو (valve) بجائے کھلمندن، کلاس بجائے درجہ، پنسل بجائے قلم سرمہ، ٹی کوزی بجائے چائے پوشی ، وغیرہ۔

(3) وہ الفاظ جن کے اردو مرادف موجود ہیں، لیکن انہیں زیادہ تر تحریر ہی میں برتا جاتا ہے۔ عام بول چال میں انگریزی لفظ سننے میں آتا ہے۔ مثلاً الکشن (Election) بجائے انتخاب یا چناؤ، میجارٹی (Majority) بجائے اکثریت، فلائٹ (Flight) بجائے اڑان، ڈیماکریسی (Democracy) بجائے جمہوریت، پنشن (Pension) بجائے وظیفہ، فارن ایکسچنج (Foreign Exchange) بجائے زر مبادلہ، پاورٹی لائن (Poverty Line) بجائے خط افلاس، وغیرہ۔

(4) کمپیوٹر اور دوسرے جدید سائنسی علوم سے متعلق الفاظ، جن کے اردو مرادف بن سکتے ہیں، یا تجویز کئے جا سکتے ہیں لیکن ابھی انگریزی اصطلاح ہی قائم رکھی گئی ہے، یا قائم رکھی جا رہی ہے۔

مندرجہ بالا طرح کے تمام الفاظ میں سے کچھ تو اردو میں دخیل ہیں، اور کچھ بھی دخیل ہونے کے مختلف مراحل میں ہیں، اور ہمیں ان سے کچھ نہیں کہنا ہے۔ مشکل وہاں آ پڑتی ہے جہاں اردو کے اچھے خاصے الفاظ موجود ہیں، اور وہ مستعمل بھی ہیں لیکن پھر بھی ان کو ہٹا کر انگریزی لفظ لایا جارہا ہے۔ مثلاً ۔۔۔ غلط : صحیح سیریز : سلسلہ لیکچر : خطبہ / تقریر گروپ : گروہ / جرگہ / طبقہ ورکر : کارکن والنٹیر : رضاکار ٹیچر : استاد / استانی / معلم / معلمہ اس سے بدتر یہ ہے کہ ان لفظوں کی جمع بھی انگریزی لکھی جائے۔

غلط اور قبیح: لکچرس / لکچرز، گروپس، ورکرز / ورکرس، والنٹیرز / والنٹیرس، ٹیچرز / ٹیچرس

جاننا چاہیے کہ غیرزبان کے وہ الفاظ، جو ہماری زبان میں پوری طرح دخیل ہو گئے ہیں اور وہ بھی ، جو ابھی پوری طرت دخیل نہیں ہوئے، جب جمع کی شکل میں آئیں گے تو ان کی جمع اردو قاعدے سے بنے گی۔ عربی فارسی الفاظ کی بات اور ہے۔ ہم نے بہت سے عربی فارسی الفاظ ان زبانوں سے مع جمع اٹھا لیے ہیں، بلکہ یوں کہیں کہ جب ہم نے ایک لفظ لیا تو کبھی کبھی اس کے ساتھ اس کی جمعیں بھی حاصل کر لیں۔ یعنی ایک کی جگہ دو یا تین لفظ لے لیے۔ کبھی کبھی برعکس بھی کیا، کہ لفظ لے لیا لیکن جمع نہیں لی۔ اور کبھی کبھی صرف جمع لے لی، اصل (واحد) لفظ نہیں لیا۔ بعض اوقات یہ ہوا کہ عربی جمع کے ساتھ فارسی جمع بھی لے لی، یا لفظ عربی کا لیا اور اس کی جمع فارسی کے اعتبار سے بنائی یا فارسی لفظ کی جمع عربی قاعدے سے بنائی۔ علاوہ بریں، اکثر و بیشتر ہم نے عربی فارسی الفاظ کی عربی فارسی جمع اپنے ہی قاعدے سے بنائی۔ یہ سب پیچیدہ عمل ہماری زبان میں مدتوں سے ہوتے رہے ہیں اور ان کی نہج قائم ہو چکی ہے۔

انگریزی الفاظ کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اردو میں انگریزی لفظ کثرت سے آئے ، اور آمد کی یہ لے انیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے بہت تیز ہو گئی۔ اب کم ہے، لیکن آج کی بول چال میں انگریزی کے الفاظ اواخر انیسویں صدی کے مقابلے میں بہت زیادہ رائج ہیں۔ لیکن انگریزی الفاظ کو ان کی جمع کے ساتھ کبھی نہیں لیا گیا۔ اب بھی یہی اصول برقرار ہے۔ جو لوگ اس کے خلاف کرتے ہیں وہ زبان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ انگریزی الفاظ کی جمع انگریزی ہی کے قاعدے سے بنانا انگریزی کو ایک طرح کی مراعات (Privilege) دینا ہے۔ اس کی وہ کسی بھی طرح مستحق نہیں ہے۔ علامہ کیفی نے عمدہ بات کہی ہے کہ: اول تو یہی کیا کم زیادتی ہے کہ انگریزی کا لفظ اردو میں لایا جائے ، چہ جائے کہ اس کی جمع بھی بدیسی قاعدے سے بنائی جائے۔

"دخیل" الفاظ - ماخوذ از کتاب: لغات روز مرہ (تیسرا ایڈیشن)

درج ذیل متن شکریہ کے ساتھ نقل کیا گیا: نیا سویرا ڈاٹ نیٹ، نئی دہلی غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں "دخیل" کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔

جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ اردو میں عملاً اس اصول کی پابندی تقریباً ہمیشہ ہو ئی ہے۔ لیکن شاعری میں اکثر اس اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف و نحو کی کتابوں میں بھی بعض اوقات اس اصول کے خلاف قاعدے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط اور افسوسناک ہیں۔ نحوی کا کام یہ ہے کہ وہ رواج عام کی روشنی میں قاعدے مستنبط کرے، نہ کہ رواج عام پر اپنی ترجیحات جاری کرنا چاہے۔ شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ حتی الامکان رواج عام کی پابندی کرتے ہوئے زبان کی توسیع کرے، اس میں لچک پیدا کرے نہ کہ وہ رواج عام کے خلاف جا کر خود کو غلط یا غیر ضروری اصولوں اور قاعدوں کا پابند بنائے۔

اردو میں دخیل الفاظ بہت ہیں اور دخیل الفاظ کے ذخیرے سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایسے الفاظ کا ہے جو دخیل الفاظ پر تصرف کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ یہ تصرف کئی طرح کا ہو سکتا ہے۔

(1) غیر زبان کے لفظ پر کسی اور زبان کے قاعدے سے تصرف کر کے نیا لفظ بنانا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

  • فارسی لفظ "رنگ" پر عربی کی تاے صفت لگا کر "رنگت" بنا لیا گیا۔
  • فارسی "نازک" پر عربی قاعدے سے تاے مصدر لگا کر "نزاکت" بنا لیا گیا۔
  • عربی لفظ "طرفہ" پر فارسی کی علامت فاعلی لگا کر "طرفگی" بنایا گیا۔
  • فارسی لفظ "دہ /دیہہ" پر عربی جمع لگا کر "دیہات" بنایا اور اسے واحد قرار دیا۔
  • عربی لفظ "شان" کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقۂ کیفیت لگایا اور "شاندار" بنا لیا۔
  • عربی لفظ "نقش" پر خلاف قاعدہ تاے وحدت لگا کر "نقشہ" بنا یا، اس کے معنی بدل دیے، اور اس پر فارسی لاحقے لگا کر "نقشہ کش/نقش کشی؛ نقشہ نویس/ نقشہ نویسی؛ نقشہ باز" وغیر بنا لیے۔
  • عربی لفظ "تابع" پر فارسی لاحقہ "دار" لگا لیا اور لطف یہ ہے معنی اب بھی وہی رکھے کیوں کہ "تابع" اور "تابع دار" ہم معنی ہیں۔

(2) غیر زبان کے لفظ پر اپنی زبان کے قاعدے سے تصرف کرنا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

  • عربی "حد" پر اپنا لفظ "چو" بمعنی "چار" اضافہ کیا ، پھر اس پر یاے نسبتی لگا کر "چو حدی" بنا لیا۔
  • عربی لفظ "جعل" کے معنی تھوڑا بدل کے اس پر اردو کی علامت فاعلی لگا کر "جعلیا" بنایا گیا۔ فارسی کی علامت فارعلی لگا کر "جعل ساز" بھی بنا لیا گیا۔
  • عربی لفظ "دوا" کو "دوائی" میں تبدیل کر کے اس کی جمع اردو قاعدے سے "دوائیاں" بنی۔
  • فارسی لفظ "شرم" پر اپنا لاحقۂ صفت بڑھا کر "شرمیلا" بنا لیا۔
  • فارسی لفظ "بازار" پر اردو لفظ "بھاؤ" لگا کر اردو قاعدے کی اضافت بنا لی گئی؛ "بازار بھاؤ"۔

(3) اپنی زبان کے لفظ پر غیر زبان کا قاعدہ جاری کر کے نیا لفظ بنا لینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

  • "اپنا" میں عربی کی تاے مصدری اور اس پر ہمزہ لگا کر "اپنائیت" بنایا گیا۔ لکھنؤ میں "اپنایت" بولتے تھے لیکن بعد میں وہاں بھی "اپنائیت" رائج ہوگیا۔ "آصفیہ" میں "اپنائیت" ہی درج ہے۔
  • اردو کے لفظ پر "دار" کا فارسی لاحقہ لگا کر متعدد لفظ بنائے گئے؛ "سمجھ دار، چوکیدار، پہرے دار" وغیرہ۔
  • اردو کے لفظ "دان" کا لاحقہ لگا کر بہت سے لفظ بنا لیے گئے ، جیسے:" اگردان، پیک دان، پان دان " وغیرہ۔

(4) غیر زبان کے لفظ سے اپنے لفظ وضع کرلینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:

  • مصدر "گرم" سے "گرمانا"؛"شرم" سے "شرمانا" وغیرہ۔
  • اسم "نالہ" سے "نالش"؛ "چشم" سے "چشمہ(بمعنی عینک)" وغیرہ۔
  • صفت "خاک" سے "خاکی" (رنگ، انگریزی میں Khaki کا تلفظ "کھیکی")

(5) غیر زبان کے طرز پر نئے لفظ بنا لینا۔ مثلاً حسب ذیل لفظ فارسی / عربی میں نہیں ہیں، اردو والوں نے وضع کیے ہیں:

  • بکر قصاب؛ دل لگی؛ دیدہ دلیل؛ ظریف الطبع؛ قابو پرست؛ قصائی؛ ہر جانہ؛ یگانگت وغیرہ۔

(6) اپنا اور غیر زبان کا لفظ ملا کر، یا غیر زبان کے دو لفظ ملا کر اپنا لفظ بنا لینا، مثلاً: آنسو گیس (اردو، انگریزی)؛ بھنڈے بازار (اردو، فارسی)؛ خچر یاتری (اردو ، انگریزی)؛ خود غرض (فارسی، عربی)؛ گربہ قدم (فارسی، عربی) وغیرہ

جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے، دخیل الفاظ ، چاہے وہ براہ راست دخیل ہوئے ہوں یا ان کے زیر اثر مزید لفظ بنے ہوں، سب ہمارے لیے محترم ہیں۔ کسی دخیل لفظ، کلمے یا ترکیب کو، یا اس کے رائج تلفظ یا املا کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جس زبان سے یہ لیا گیا ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو اس کے غلط یا درست ہونے کا معیار ہماری زبان،اس کے قاعدے، اور اس کا روز مرہ ہوں گے نہ کہ کسی غیر زبان کے۔

ہمارے یہاں یہ طریقہ عام ہے کہ کسی لفظ یا ترکیب یا اس کے معنی کے لیے فارسی سے سند لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ فارسی میں ایسا ہے، اس لیے اردو میں بھی ٹھیک ہے۔ یہ طریقہ صرف اس حد تک درست ہے جب تک فارسی کی سند ہمارے روزمرہ یا ہمارے رواج عام کے خلاف نہ پڑتی ہو۔ "فارسی میں صحیح ہے اس لیے اردو میں صحیح ہے"، یہ اصول بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ اصول کہ "فارسی [یا عربی] میں غلط ہے، اس لیے اردو میں بھی غلط ہے۔" مثال کے طور پر "مضبوط" کو جدید فارسی میں "مخزون" کے معنی میں بولتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مثلاً "یہ کتاب نیشنل لائبریری میں مخزون ہے"۔ یہاں فارسی والا "مضبوط" کہے گا۔ ظاہر ہے کہ فارسی کی یہ سند اردو کے لیے بے معنی ہے۔

یہ بات صحیح ہے کہ اردو نے فارسی /عربی سے بے شمار الفاظ ، محاورات اور تراکیب حاصل کیے ہیں۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر اردو میں کسی عربی/فارسی لفظ کے بارے میں کوئی بحث ہو تو ہم عربی/فارسی کی سند لا کر جھگڑا فیصل کرلیں۔ لیکن شرط یہی ہوگی کہ عربی /فارسی کی سند ہمارے رواج عام یا روزمرہ کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً لفظ "کتاب" کی جنس کے بارے میں اختلاف ہو تو یہ سند فضول ہوگی کہ عربی میں "کتاب"مذکر ہے، لہٰذا اردو میں بھی یہ لفظ مذکر ہوگا/ہونا چاہیے۔ اسی طرح، اگر یہ سوال اٹھے کہ "طشت از بام ہونا" صحیح ہے کہ نہیں، تو یہ استدلال فضول ہوگا کہ فارسی میں "طشت از بام افتادن" ہے، لہٰذا اردو میں بھی "طشت از بام گر پڑنا" ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں یوں بولتے ہیں، "سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا"، جب کہ فارسی میں یہ محاورہ "طشت" کے حوالے سے بولتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں:"طشت از بام افتاد"۔ ظاہر ہے کہ یہ ضد کرنا بھی غلط ہے کہ اردو میں بھی یوں ہی بولنا چاہیے۔

یا مثلاً اردو میں "لطیفہ" کے معنی ہیں، "کوئی خندہ آور چھوٹی سی کہانی یا چٹکلا"۔ یہ معنی نہ فارسی میں ہیں نہ عربی میں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اردو میں رائج معنی کو اس بنا پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کوئی شخص "لطیفہ" کو اردو میں "سخن خوب و نیکو" ، یا "اچھی چیز، اچھائی" کے معنی میں استعمال کرے اور کہے کہ (مثلاً) "مقدمہ شعر و شاعری لطیفوں [یا لطائف] سے بھری ہوئی ہے" درست استعمال ہے ، کیوں کہ فارسی میں "لطیفہ"بمعنی "سخن خوب" اور عربی میں بمعنی "اچھی چیز" وغیرہ ہے، تو اس کی بات قطعی غلط قرار دی جائے گی۔ لہٰذا بنیادی بات یہی ہے کہ جو استعمال، لفظ ، ترکیب، کلمہ ، اردو کے قاعدے یا رواج کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو پر غیر زبانوں، خاص کر عربی /فارسی کے قاعدے جاری کرنا درست نہیں ہے، اس لے کو جتنا دھیما کیا جائے ، اچھا ہے۔

ماخوذ از کتاب: لغات روز مرہ (چوتھا ایڈیشن) تصنیف: شمس الرحمٰن فاروقی۔ سنہ اشاعت چہارم: 2012 محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:03، 27 نومبر 2022ء (م ع و)

تنقید کیا ہےتنقید اور تخلیق کا باہمی تعلق[ترمیم]

تنقید کیا ہے۔ تنقید اور تخلیق کا رشتہ

تنقید کیاہے تنقید عربی کا لفظ ہے جو نقد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ” کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا “ ہے۔ اصطلاح میں اس کامطلب کسی ادیب یا شاعر کے فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہے۔ خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر کے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر یا ادیب نے موضوع کے لحاظ سے اپنی تخلیقی کاوش کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے مختصراً فن تنقید وہ فن ہے جس میں کسی فنکار کے تخلیق کردہ ادب پارے پر اصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل ، صحیح و غلط اور اچھے اور برے کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔ اس پرکھ تول کی بدولت قارئین میں ذوق سلیم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انگریزی میں Criticismکہتے ہیں۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ Krinien ہے۔ویسے مختلف نقادوں نے اس کی مختلف تعریف و توصیحات کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں

١۔ کسی ادب پارے میں فن پارے کے خصائص اور ان کی نوعیت کا تعین کرنا نیز کسی نقاد کے عمل یا منصب یا وظیفہ ۔

٢۔تنقید کامل علم و بصیرت کے ساتھ اور موزوں اور مناسب طریقے سے کسی ادب پارے یا فن پارے کے محاسن و معائب کی قدر شناسی یا اس بارے میں فیصلہ صادر کرنا ہے۔

٣۔ تنقید اس عمل یا ذہنی حرکت کا نام ہے جو کسی شے یا ادب پارے کے بارے میں ان خصوصیات کا امتیاز کرے جو قیمت رکھتی ہے۔ بخلاف ان کے جن میں قیمت نہیں۔

٤۔ محدود معنوں میں تنقید کا مطلب کسی ادب پارے کی خوبیوں اور خامیوں کا مطالعہ ہے وسیع تر معنوں میں اس میں تنقید کے اصول قائم کرنا اور ان اصولوں کو تنقید کے لئے استعما ل کرنا بھی شامل ہے۔

٥۔تنقید کا کام کسی مصنف کے کام کاتجزیہ ، اس کی مدلل توضیح کے بعد اس کی جمالیاتی قدروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرناہے۔

٧۔ سچی تنقید کا فرض ہے کہ وہ زمانہ قدیم کے عظیم فن کاروں کی بالترتیب درجہ بندی اور رتبہ شناسی کرے اور زمانہ جدید کی تخلیقات کا بھی امتحان کرے۔ بلند تر نوع تنقید یہ بھی ہے کہ نقاد کے انداز و اسلوب کا تجزیہ کرے اور ان وسائل کی چھان بین کرے جن کی مدد سے شاعر اپنے ادراک و کشف کو اپنے قارئین تک پہنچاتا ہے۔

٩۔ تنقید ،فکر کا وہ شعبہ ہے جو یا تو یہ دریافت کرتا ہے کہ شاعری کیا ہے؟ اس کے مناصب و وظائف اور فوائد کیا ہیں؟ یہ کن خواہشات کو تسکین پہنچاتی ہے؟ شاعر شاعر ی کیوں کرتاہے؟ اور لوگ اسے کیو ں پڑھتے ہیں؟ یا پھر یہ اندازہ لگاتا ہے کہ کوئی شاعری یا نظم اچھی ہے یا بری۔ ایلیٹ

تنقید اور تخلیق کا رشتہ:۔

تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شاعر یا ادیب فن کی تخلیق سے پہلے کسی نہ کسی مفہوم میں ناقد ہوتا ہے۔ اسی طرح ناقد کو بھی تنقید سے پہلے فن پارے میں مضمر تاثرات و تجربات سے اسی طرح گزرنا ہوتا ہے جس طرح اس فن پارے کا خالق پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔ یعنی فنکار اپنے تجربات و تاثرات کے انتخاب اور ترتیب میں ناقدانہ عمل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں فن کی روایت اور تکنیک سے بھی اس کی واقفیت ضروری ہے، جس کے باعث وہ خود اپنے فن پر تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔ جس طرح فن کی تخلیق سے پہلے فن کار اپنے مواد کے رد و قبول اور روایت فن کے بارے میں تنقیدی عمل سے گزرتا ہے اسی طرح فن کی تخلیق کے بعد بھی اسے ناقد بننا پڑتا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ فن پارے کو بہ حیثیت ناقد دیکھتا ہے۔ اس کے حسن و قبح پر نظر ڈالتا ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کی تخلیق سے پہلے اور فن کی تخلیق کے بعد تخلیقی فن کار ناقد کا رول ادا کرتا ہے۔ ناقد کو بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال درپیش ہوتی ہے۔ وہ تنقید کرنے سے پہلے کسی فن پارے کے مشاہدات و تخیلات ، تجربات و تاثرات سے اسی طرح گذرتا ہے جیسے فنکار گزرا تھا۔ وہ تخلیقی فن پارے کو اپنی ذات کا مکمل تجربہ بنا کر ہی اس کے حسن و قبح کا اندازہ کر سکتا ہے۔ کسی نظم کا تجزیہ کرنے سے پہلے وہ اسے اپنی ذات میں حل کر تا ہے۔ یہاں تک کہ فن کار کا تاثر اس کا اپنا تاثر اور فن کار کے جذبات اور احساسات اس کے اپنے جذبات اور احساسات بن جاتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ فن پارے کی ہمدردانہ وضاحت نہیں کر سکتا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ناقد کو تخلیقی فن کار کی طرح مشاہدے اور تجربات کی وسعت اور جذبات کی شدت کا حامل ہونا چاہیے ورنہ وہ فن پارے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔ اور اس کے لئے وہ ہمہ وقت مطالعے اور مشاہدے سے اپنے ذوق کی تربیت کرتا ہے۔ وہ فن کا ر کی طرح فن کی روایت اور تکنیک سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اور کم از کم ہر اچھے ناقد سے ہم ان تمام صلاحیتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت ہے، اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لئے ممدو معاو ن ہوتی ہیں۔ تنقید ی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لئے جاتے ہیں تو آیندہ فنی تخلیق کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنی کتاب بوطیقا میں فن کے جو اصول پیش کئے ہیں ، وہ اس نے یونان کے عظیم ڈرامہ نگاروں کو سامنے رکھ کروضع کئے تھے۔ لیکن ارسطو کی بوطیقا صدیوں تک تخلیق فن کے لئے مشعل راہ بنی رہی اور آج بھی مستند ہے۔ بسا اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ انگلستان میں سڈنی کی تنقید کے اخلاق اور اصلاحی پہلو سے متاثر ہو کر دور ِ ایلزبتھ کے مشہور شاعر سپنسر نے اپنی تمثیل فیری کوئین لکھی ۔ ہمار ے اپنے ادب کے لئے آزاد کے لیکچر اورحالی کا مقدمہ اردو شاعری کی ایک انقلابی رو کی بنیاد ٹھہرے ۔ آزاد اورحالی نے اپنے تنقیدی تصورات کے ذریعے اردو شاعری میں موضوع اور تکنیک کے لئے نئے راستے ہموار کئے اور اس طرح ہماری زبان میں نئے شعری تجربات کی بنیاد ڈالی۔ اس کے باوجود تنقیدجلد ہی ایک قسم کا تعصب بھی بن جاتی ہے ۔ معاشرے کے بندھے ٹکے اصولوں کی طرح یہ ہر فنی تخلیق کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں تخلیق ایک انقلابی رول ادا کرتی ہے۔ یعنی یہ تنقید کے پرانے اصولوں کو توڑ کر اپنے پرکھے جانے کے لئے نئے معیارات اور نئی کسوٹیاں بنواتی ہے۔ ورڈزورتھ اور ٹی ایس ایلیٹ کا جو اپنے زمانے کے عظیم نقاد اور عظیم شاعر مانے جاتے ہیں،کا یہ کہنا ہے کہ ہر عظیم فن پارہ اپنے تنقیدی اصولوں کو لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم کسی ایسی تخلیق کوجو فی الوقعی نئی ہو اور ساتھ کسی عظمت کی حامل ہو تنقید کی پرانی کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے ۔ اس طرح ہمیں کسی عظیم شاعر کی عظمت دیکھنا ہو تو ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آیاو ہ اپنے سے پہلے کے تنقیدی اصولوں میں ترمیم و تنسیخ کے لئے جواز پیدا کرتا ہے یا نہیں۔ ایسا شاعر جو اپنے زمانے کے تنقیدی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترے وہ اچھا شاعر توہو سکتا ہے عظیم شاعر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس مقام پر ہمیں تھوڑا سا چوکنا ہو جانا چاہیے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر ایسی تخلیق کو جو محض اچھنبھا پیدا کرے یا ادب کی دنیا میں خلفشار اور انتشار کا باعث ہو عظیم شاعری کے زمرے میں شمار کر رہے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی تخلیقات کو سرے سے فن پارہ ماننے سے انکار کر دیں اس لئے کہ تخلیق کے معنی بنانے کے ہیں ، بگاڑنے کے نہیں ، فن بنیادی طور پر تعمیری عمل ہے اور اس کا تخریب و انتشار سے کوئی تعلق نہیں۔

نقاد کا منصب یا فرائض:۔

نقاد کے فرائض یا منصب مندرجہ زیل ہیں۔

تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنا:۔

نقاد فن پاروں کا مطالعہ کرکے تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنقید کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ ادب کیا چیز ہے ؟ یہ زبان کی دوسری صورتوں اور اظہار و بیان کی دیگر قسموں سے کس طرح مختلف ہے؟ اور فنون لطیفہ میں اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ نقادکا کام چونکہ تجزیاتی ہوتا ہے اس لئے وہ ادب کی ماہیت معلوم کرنے کے لئے دیگر علوم سے بھی مدد لیتا ہے۔ ارسطو وہ پہلا نقاد ہے جس نے اپنی شہر آفاق کتاب ”بوطیقا“ کی شکل میں سب سے بڑا تنقیدی کارنامہ انجام دیا ہے اس نے فلسفیانہ انداز میں ادب کی ماہیت سے متعلق حقائق دریافت کئے ہیں۔ اور استقرائی طریق کار اختیار کرکے اکثر فن پاروں میں مشترک خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔ کولرج کے نزدیک بھی تنقید کا منصب فلسفیانہ ہے وہ کہتا ہے۔ ” تنقید کا آخری مقصد دوسروں کی تخلیقات کا محاکمہ کرنا نہیں بلکہ تخلیقی ادب کے اصول دریافت کرنا ہے۔“ اس منصب کے مطابق ایک نقاد فن کو معروضی نقط نظر سے دیکھ کر ایک سائنس دان کی طرح اس کے عناصر ترکیبی معلوم کرنے کی سعی کرتا ہے۔

فن کار کے لئے درس و ہدایت:۔

تنقید فن کو سنوارتی ہے اور فنکار کی رہنمائی اور اصلاح کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔ نقاد اپنے تجربات سے فن کار میں تخلیق کا بہتر شعور اور فن سے دلچسپی رکھنے والوں کو متاثر کرکے ان میں صحیح مذاق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نقاد چونکہ فن کی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے اس لئے اس کی تنقید کا مقصد ہمیشہ مثبت اور تعمیر ی ہوتا ہے۔ وہ مصنف کی تضحیک نہیں اڑاتا اور نہ اس کی تصنیف کی بے قدری کرتا ہے بلکہ اسے فنکار سے ایک گونہ ہمدردی ہوتی ہے۔ وہ اس کی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے محاسن و معائب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے اس کا مقصد فنکار کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ، رہنمائی اور اصلاح پیش نظر ہوتی ہے۔

تخلیقی تجربے کی باز آفرینی:۔

نقاد ایک لحاظ سے تخلیقی بھی ہوتا ہے اس کی تنقید میں فن کار کے تخلیقی تجربے اور عمل کی صدائے بازگشت ہوتی ہے۔ جب وہ کسی فن پارے کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو وہ صرف فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ ہی نہیں کرتا بلکہ اس میں یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ قارئین بھی اس تخلیق سے بہرہ مند ہوں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ مصنف نے اپنے فن پارے کو کن جذبات و احساسات اور حالات و واقعات کے تحت تخلیق و تشکیل کی صورت عطا کی ہے۔ کن الفاظ اور کس انداز سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اور اسے اپنے مقصد میں کس حد تک کامیابی یا ناکامی ہوئی ہے۔ یہی احساس نقاد کو ایک گونہ مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ اور وہ قارئین کو بھی اپنی مسرت میں شریک کرنے کی سعی کرتا ہے۔ بقول آرنلڈ، ” قوت تخلیق سے بہر مند ی کا احساس بڑا مسرت افزاءاور صحت بخش ہوتا ہے اور ایک کامیاب نقاد جو زندہ دل مصلح ہوتا ہے اس سے یقینا محروم نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے اس احساس مسرت میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے۔“ گویا نقاد فنکار کے خواب کی بھی تشریح و تعبیر بیان کرتا ہے اور کسی فن پارے کے تجزیہ سے حاصل شدہ تاثرات و تجربات سے صاحبان ذوق کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

تخلیق فن کے لئے سازگار فضا پید ا کرنا:۔

بقول آرنلڈ نقاد کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ” اعلیٰ و ارفع افکار و خیالات حاصل کرکے ان کی ترویج و اشاعت کرے۔“ اس عمل سے وہ معاشرے میں ایسے عنصر پیدا کرنے میں کامیا ب ہو جائے گا۔ جو تخلیقی ذہن کو جلا بخش کر تخلیق فن کا موجب بنیں گے اور اس طرح معاشرے کے لئے درس و ہدایت کا سامان فراہم کرے گا جس سے معاشرے میں اچھی صحت مند روایات قائم ہو جائیں گی۔ اس طرح تنقید ادب معاشرتی اصطلاح کا ایک موثر ذریعہ بن جائے گی۔ اور نقاد کو ایک مصلح اور معلم اخلاق کا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا جو والٹ وٹیمن کے نزدیک تنقید کی رفعت اور نقاد کا اعلیٰ و ارفع نصب العین ہے۔

فن پاروں کی تشریح و توضیح:۔

بقول ایلیٹ ”تنقید کا مقصد فن پاروں کی تشریح و توضیح کرنا ہے۔“ نقاد نقد و جرح کرتے وقت صرف کسی فن پارے کے محاسن و معائب ہی بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی معنویت کو بھی اس طرح عیاں اور واضح کردیتا ہے کہ اس کی تفہیم میں قاری کو بڑی مدد ملتی ہے۔ اور وہ اس کی اثر انگیزی سے بڑا متاثر ہوتا ہے۔ اور یہی وہ فنی تاثر ہے جو نقاد کی کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ کومز لکھتا ہے کہ ”ایک اچھا نقاد ، جہاں تک اس سے ہو سکتا ہے، اپنے سوچے سمجھے تاثر کو جو اس نے کسی مصنف کسی ڈرامے، کسی ناول ، کسی نظم، کسی مضمون وغیرہ سے حاصل کیا ہوتا ہے ممکن اور واضح طور پر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اس طرح فن پارے کی اس تفہیم اور لطف اندوزی کے عمل میں مدد بہم پہنچاتا ہے جو اسے تجربے سے حاصل ہوتی ہے ، جو فن پارے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور اس کی پرکھ تول کر کے ان عناصر کا انکشاف کرتا ہے جنہوں نے مل کر اس فن پارے کو مخصوص صفت عطا کی ہے۔“ ڈیوڈ ڈایشز بھی لکھتاہے کہ ” نقاد ادب کے بارے میں کئی قسم کے سوالات اٹھاتا ہے ۔ تاہم اگر وہ کوئی سوال نہ بھی اُٹھائے تو فن کی مختلف طریقوں سے شرح و بسط کرکے قاری کی تحسین فن میں اضافہ کر دیتا ہے۔“ مختصراً تشریحی نقاد فن پارے کی ساخت اور تکنیک کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے معنی و مفاہیم کو واضح کرتا ہے اور یوں وہ اس سے پیدا ہونے والے لطف و سرور کا ابلاغ کرتا ہے اور قارئین کو زندگی سے متعلق شعور عطا کر تا ہے۔

معائب و محاسن کو بیان کرنا:۔

ٹی ۔ ایس ۔ایلیٹ کے خیال کے مطابق ” جہاں تنقید کا منصب فن پاروں کی تشریح و توضیح ہے وہاں فن کی تحسین ، تخلیق کے قریب چیز بھی ہے۔ تحسین کاکام چیزوں کو اجاگر اور روشن کرنا، تحریک دینا اور استحسان ( ذوق ادب) کے لئے ہماری ذہانت کو جلا بخشنا ہے۔ “ اور ایڈسن کے خیال میں ”ایک سچا نقاد کسی ادیب یاکسی ادب پارے کی خامیوں پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اس کی خوبیوں پر۔“ ہڈسن لکھتا ہے کہ ” اگر ادب مختلف صورتوں میں تشریح حیات ہے تو تنقید ادب کی اس تشریح کی تشریح ہے۔“ ان نقادوں کی آرا ءسے یہ مترشح ہوتا ہے کہ نقاد کا کام صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہے اور اسے اس کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ تحریر کے عیوب اور اظہار و بیان کے انداز کے معائب بے نقاب کئے بغیر محاسن کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے تنقید کا منصب صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے معائب کوبھی قارئین کے سامنے لانا ہے۔ کیونکہ محاسن و معائب کے ایک ساتھ بیان سے نقاد فن کار کی رہنمائی کرتا ہے اور فن کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ نقاد کا ایسا بے لاگ اور متوازن بیان عام قارئین کے ذوق ادب میں اضافہ اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔

شاعروں کو دوبارہ زندہ کرنا:۔

ٹی۔ایس ۔ ایلیٹ کے خیال میں تنقید کا ایک منصب ان شاعروں کو زندہ کرنا بھی بتایا ہے جو عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں ہوں ۔ بعض اوقات یو ں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی شہرت اس کی چند ایک نظموں کی وجہ سے ہوتی ہے یا اس کی شاعری میں اس کے فن کی بلندی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ جواس کی شہرت دوام کا موجب نہیں بن سکتی ۔ ایلیٹ لکھتا ہے کہ تنقید کا یہ کام بھی ہے کہ وہ ان شاعروں کو ازسرنو زندہ کرے ۔ ان کے کلام میں جتنے بھی محاسن موجود ہیں انہیں عوام کے سامنے پیش کرے ہو سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں سے بعض ایسی چیزیں مل جائیں جن کا موجودہ زمانے کوعلم نہ ہو۔

تنقید روح عصر کی عکاس :۔

ڈرائیڈن اور شیگل کا خیال ہے کہ شاعر روح عصر ( ماحول اور زمانہ ) کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مزاج میں اس کی نسل و قوم کو بھی دخل ہوتا ہے جو کسی فن پارے کی تخلیق پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ گویا ادب اس طرح روح عصر کا عکاس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نقاد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت ان تمام عوامل (نسلی ، سماجی، سیاسی، واقعاتی) کا جائز ہ لے جو کسی عصر (دور) کا مزاج متعین کرتے ہیں اور فن پارے کی تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

تنقید اور ادب کے نامیاتی عمل کا شعور:۔

بقول ایلیٹ ، ” ہر ملک کاادب ایک عضویاتی کل کی طرح ہوتا ہے اور زندہ شے کی طرح نشوونما پاتا ہے۔ “ اس کے مطا بق ”ہر شاعر کو ادب سے متعلق اس حقیقت کا کامل شعور ہونا چاہیے جب وہ حقیقی تخلیق کر سکتا ہے۔ نقاد اس زندہ روایت کے حوالے سے ہر ادیب اور فن پارے کا جائزہ لیتا ہے۔ “ مطلب یہ کہ نقاد نقاد کا فرض بنتا ہے کہ ادب کے اس تصور کو خود حاصل کرے اور پھر قارئین کے سامنے وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ اس طرح نہ صرف قارئین کے عام تصور ادب کی اصلاح ہوتی ہے بلکہ تخلیقی فن کاروں کے لئے بھی یہ تصور علم و ہدایت او ر اصلاح و رہنمائی کا سبب بنتا ہے اور وہ خود کو اور اپنے فن کو ادب کی اس زند ہ روایت کی روشنی میں دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ا ن تمام باتو ں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناقد کا فرض ہے کہ اس کا علم وسیع ہو اور ذہن تیز ہو ۔ عدل سے کام لے۔ تعصب جانبداری سے کام نہ لے ۔ جذبات سے بالاتر ہو کر بے لاگ تجزیہ کے بعد کسی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ رائے متوازن معیاری اور صحت مند سمجھی جائے ۔ وہ اپنے ان فرائض کو مکمل دیانتداری سے بجالائے تاکہ فن کا معیار بلند ہو ادیب و قاری کے ذوق سلیم میں اضافہ ہو۔ وہ ذاتیات اور پسند و ناپسند کا غلام نہ بنے ۔ اس کے علاوہ اسے مصنف کے احساسات اور جذبات سے آشنا ہونا چاہیے تاکہ وہ فن پارے کا صحیح طریق سے جائزہ لے سکے ورنہ اس کے تاثرات بے ربط اور بے معنی ہوں گے۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:16، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک میں فرق[ترمیم]

علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک میں فرق جواب دونوں الگ نظریوں کی تحاریک ہیں جس نقطہ پے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ نقط مقصدیت ہے۔۔۔۔مگر دونوں کے مقصد الگ ہے۔۔۔سرسید تحریک کا مقصد معاشرے خاص کر مسلمان معاشرے کا اصلاح کرنا مقصد تھا اور معاشرتی پہلووں میں اخلاق پے زیادہ زور دے رہے تھے۔۔۔اس وقت کے تمام ادیبوں کی تخلیقات اس کے عمدہ مثالیں ہیں۔۔۔دوسری اہم بات یہ کہ اس تحریک کے پیچھے سرسید کا مدلل انداز اور سائنسی عناصر(جدید علوم )بھی موجود ہیں اور اسی کے ذریعے وہ اصلاح کے خواہشند تھے۔۔۔۔ ترقی پسند تحریک کے پیچھے ایک ٹھوس نظریہ تھا کہ مزدور ۔مظلوم اور ظالم و جابر کا احتساب کرنا۔۔۔اور انہی مظلوم لوگوں کے حق کے لیے اواز اٹھانا. ۔۔یہ مارکسی انقلاب کا اثر تھا جو ہمارے ادیبوں نے بھی قبول کیا۔۔دونوں تحاریک کے ادیبوں کی تخلیقات پر نظر ڈالی جاے تو سب واضح ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:19، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

علی گڑھ یونی ورسٹی اور مسلم نیشنل یونی ورسٹی میں فرق[ترمیم]

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اورمسلم نیشنل یونیورسٹی علی گڑھ کافرق، جامعہ ملیہ کاقیام اورحضرت شیخ الہندمولانامحمودحسن کاکردار (ایک تاریخی غلط فہمی کاازالہ)

برطانیہ نے بیسویں صدی کے شروع میں خلافت عثمانیہ ترکی کو کمزور اور پھر ختم کرنے کی خوفناک سازشیں شروع کردی تھیں، جب اس کے آثارِ بد ظاہر ہونا شروع ہوئے تو متحدہ ہندوستان میں خلافت کی حمایت میں تحریکِ خلافت اور اس کو مؤثر بنانے کے لیے انگریزوں کے خلاف تحریک ترکِ موالات شروع ہوئی۔حضرت شیخ الہند جون١٩٢٠ء میں جب مالٹا کی اسارت سے رہا ہوکر ہندوستان پہنچے توآپ نے اس تحریک کی حمایت میں فتویٰ دیا( نقشِ حیات ج٢ص٦٧٤)

انہی ایام میں حضرت مولانامفتی محمد کفایت اللہ صاحب دہلوی کی تحریک پر خلافت کمیٹی نے آپ کو شیخ الہند کاخطاب دیا ۔اس کے بعد تو یہ مبارک لقب آپ کی پہچان ہی بن گیا ۔ سر سیداحمدخان کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اس وقت انگریزوں کی مکمل حمایت میں تھی ، مگر اسی یونیورسٹی میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے ہمنواوں کی قیادت میں ایک طبقہ انگریز کی غلامی سے بیزار تھاجس نے تحریکِ خلافت میں بھرپور حصہ لیا اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی اعلیٰ قیادت سے حضرت شیخ الہندکے فتوی کی بنیاد پر تحریک ترکِ موالات کی حمایت کا مطالبہ کیا ۔مگر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس سے انکار کردیا۔ یہ اختلاف یہاں تک بڑھا کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اس انگریز دشمن طبقہ نے مولانا محمدعلی جوہر کی قیادت میں انگریز کے اثرات سے پاک متوازی طورپر مسلم نیشنل یونیورسٹی علی گڑھ کے قیام کا فیصلہ کیا اوراس کے تاسیسی اجلاس کی صدارت کے لیے حضرت شیخ الہند کو دعوت دی ۔ حضرت شیخ الہندنے باوجود علالت و نقاہت کے یہ کہہ کر دعوت قبول فرمائی کہ اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی تومیں اس جلسے میں ضرور شریک ہوں گا چنانچہ آپ علی گڑھ تشریف لے گئےاور تاسیسی اجلاس کی صدارت فرمائی ۔ خطبہ صدارت آپ کی طرف سے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھا ۔حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ اس کے بعد علی گڑھ سے دہلی تشریف لے گئے اور ایک ماہ بعد دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔

اس نئی مسلم نیشنل یونیورسٹی کے چانسلر حکیم محمد اجمل خاں اور وائس چانسلر مولانا محمد علی جوہربنائے گئے ۔ بعد میں مولانا ابو الکلام آزاد نے اس کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ  تجویز کیااور پھر یہ اسی نام ہی سے معروف ومشہورہوئی۔ اسی مناسبت سے بہت سے مقامات پر حضرت شیخ الہند کاایک خطبۂ صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس کی طرف کی گئی ہے،بعدازاں ١٩٢٥ء میں یہ نئی یونیورسٹی علی گڑھ سے دہلی منتقل کردی گئی  جوکہ  جامعہ ملیہ کے نام سے دہلی میں اب بھی قائم ہے اور اس کے فضلاء جامعی کہلاتے ہیں۔
 یہ غلط فہمی عام ہے کہ حضرت شیخ الہند علماء اور جدید طبقے کی وحدت کی خاطر علی گڑھ یونیورسٹی تشریف لے گئے تھے اور خطبہ صدارت ارشاد فرمایا تھا۔ جبکہ علی گڑھ یونیورسٹی کا نام آتے ہی ذہن فوراً سرسید کی قائم کردہ مسلم یونیورسٹی کی جانب جاتاہے اور ساتھ ہی یہ کہ حضرت شیخ الہندکی میزبان یہی سرسید کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تھی ، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ۔بلکہ حضرت شیخ الہند تو سرسید کی قائم کردہ یونیورسٹی کے باغیوں کی سرپرستی اور ان کی نئی یونیورسٹی کی تاسیس کے لیے گئے تھے اور یہی لوگ حضرت کے میزبان تھے ۔  اس نئی مسلم نیشنل یونیورسٹی میں مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ جو طبقہ تھا وہ بھی اصلاً سرسید یونیورسٹی علی گڑھ ہی سے تھا، اس لیے یہ کہنا بیجانہ ہوگا کہ حضرت شیخ الہندنے جذبۂ حریت وسیاست شرعیہ کے اعتبار سے دیوبند اور علی گڑھ میں سیاسی قبلہ کی وحدت پیدا کردی تھی ، جس کے نتیجہ میں جدیدعلوم سے آراستہ طبقہ کی ایک تعداد نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا اور علماء کے قرب کی وجہ سے بہت سے مسٹر مولانا کہلائے۔  
    مولانامحمد عابد مدظلہ جامعہ خیر المدارس ملتان   (الجمعیة نومبر2015ء) محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:21، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

ترقی پسند تحریک اور ناول[ترمیم]

ترقی پسند تحریک اور اردو ناول


اردو ادب خاص طور سے اردو نثر علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک کے احسان سے بے حد گراں بار ہے۔ ترقی پسند تحریک نے جوادب کی خدمات انجام دی، وہ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ ترقی پسند تحریک نے محنت کش انسانوں کو ادب کا ہیرو بنایا اور شہزادے کے سر سے تاج اتار کر مزدور کے سر پر سجاد یا۔ اس تحریک کے ذریعہ ہمارے ادب میں کھیتوں اور کھلیانوں کی سوندھی خوشبو بس گئی اور کسان ومزدور کا پسینہ اس کی طراوت کا سامان بن گیا۔ یہاں اس تحریک کو تاریخ عالم کے پس منظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ کارلؔ مارکس مشہور جرمن مفکر تھا۔ اس نے محنت اورسرمایہ کے مسائل پر غور کیا اور اپنے افکار اپنی معرکہ آرا تصنیف’’سرمایہ‘‘ میں پیش کیا۔اس نے سرمایہ دار کو ظالم اور مزدور کو مظلوم قرار دیا، کیونکہ محنت کش یعنی مزدور کو سرمایہ دار پیداوار میں اس کا حصہ نہیں دیتا حالانکہ پیداوار میں اس کی محنت کو سرمایہ سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ کارل مارکس کے نزدیک دولت کی یہ غیر مساوی یعنی نابرابر تقسیم ہی دنیاکی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ لینن ایک بلند حوصلہ بیباک روسی رہنما تھا۔ اس نے محنت کشوں کی رہنمائی کا حق ادا کیا۔ اس زمانے میں روسی بادشاہ زار کی زیادتیاں انتہاء کو پہنچ کی تھیں۔ اس لیے وہاں کارل مارکس کے افکار کا گہرا اثر ہوا۔ لینن اور پلیخوف خاص طور پر مارکس سے متاثر ہوئے۔ آخر کار محنت کشوں نے متحدہو کر ۱۹۱۷ء میں زار روسی کی قوت کو شکست دے دی اورحکومت کی باگ ڈور خود سنبھال لی۔ حکمراں جماعت کا نیانام’’روسی کمیونسٹ پارٹی‘‘ قرار پایا۔ اس انقلاب نے ساری دنیا پر یہ حقیقت روشن کر دی کہ مشقت کرنے والے فولادی ہاتھ اگرایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوں تو ظالموں کی مضبوط سے مضبوط حکومت بھی ان آگے ٹھہر نہیں سکتی۔۱۹۳۳ء میں ہٹلر کے آمرانہ رویہ نے دنیا بھر کے دانشوروں اور ادیبوں کو جو عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ حساس اور نبض شناس ہوتے ہیں ،یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اب مظلوموں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے۔

اس زمانے میں کچھ دردمند محب وطن ہندوستانی نوجوان لندن میں زیر تعلیم تھے۔ ان میں چنداہم حضرات کے نام ہیں: سجاد ظہیر، ملک راج آنند، جیوتی گھوش، پرمودسین گپتا اور محمد دین تاثیر۔ انہوں نے آپس میں مل کر باربار غور و فکر کیا کہ ان حالات میں ہندوستان کے ادیب اور دانشو رکس طرح اپنا فرض پورا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے لندن میں ہم خیال دوستوں کو متحد کیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے نام سے لندن میں ایک انجمن قائم ہوئی۔ اس کی طرف سے ایک اعلان نامہ بھی شائع کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اب پرانے خیالات کی جڑیں ہل رہی ہیں اور ایک نیا سماج جنم لے رہا ہے۔ ایسے میں ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ اس تبدیلی کو اپنی تحریروں کے ذریعہ اجاگر کریں اور ملک کو ترقی کے راستے پر لانے میں مدد دیں۔ ادب کو عوام کے نزدیک لائیں، اس میں حقیقت کا رنگ بھریں، اسی کو ہم ترقی پسند کہتے ہیں۔ یہ اعلان نامہ ہندوستان کے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں کو بھیجا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ اسے ملک میں عام کریں۔ اسی سال سجاد ظہیر بھی تعلیم مکمل کرکے ہندوستان لوٹ آئے جس سے انجمن کی سرگرمیاں اور بھی تیزہوگئیں۔ الہ آباد یونیورسٹی میں احمد علی انگریزی کے لکچرر تھے ۔ان کا گھر انجمن کادفتر بن گیا۔ ادھر حیدرآباد میں سبط حسن اور بنگال میں ہیرن مکھرجی نے ادب کی اس ترقی پسند تحریک کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر راجندر نے ہندوستان اکادمی الہ آباد کی طرف سے اردو ہندی کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلائی جس میں ترقی پسند مصنفوں کی انجمن کا تعارف کرایا گیا۔ اس کانفرنس میں پریم چند، مولوی عبدالحق، جوش ملیح آبادی اور دوسرے بلند پایہ ادیب اور شاعر موجود تھے۔ مناسب سمجھا گیا کہ انجمن کے اعلان نامہ پر مختلف زبانوں کے عالموں اور ادیبوں کے دستخط کرائے جائیں۔ لوگوں نے بخوشی اس پر دستخط کردیے جس سے انجمن کو تقویت حاصل ہوئی۔۱۹۳۶ء میں لکھنؤ میں انجمن کی ایک کل ہند کانفرنس ہوئی۔ پریم چند نے خطبۂ صدارت پیش کیا۔ مولانا حسرت موہانی، کملادیوی چٹوپادھیائے اور دیگر اہل علم نے تقریریں کیں۔ سجاد ظہیر انجمن کے سکریٹری مقرر ہوئے۔ اس کانفرنس میں انجمن کے دستور اساسی کو منظوری دی گئی۔ اس کے بعد ملک میں جابجا انجمن کے جلسے اور کانفرنسیں ہوتی رہیں اور ترقی پسندوں کا یہ کارواں قدم سے قدم ملا کر اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا۔ کرشن چندر،سعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری ، اوپندرناتھ اشک ،بلونت سنگھ وغیرہ اس تحریک کے زیر اثر افسانے اور ناول وغیرہ لکھتے رہے۔اسرارالحق مجاز، معین احسن جذبی ، فیض احمد فیض، اخترانصاری، فراق گورکھپوری، مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری ، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، احمد ندیم قاسمی، اخترالایمان ،ساحرلدھیانوی اور پرویز مشاہدی وغیرہ انجمن ترقی پسند تحریک کے پرچم تلے شاعری کر رہے تھے۔ سجاد ظہیر ، اخترحسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر عبدالعلیم، آل احمد سرور، احتشام حسین، عزیز احمد ، ممتاز حسین، جیسے نقادوں نے تنقیدی مضامین کے ذریعہ تحریک کے خدوخال نمایاں کرنے کی اہم ذمہ داری قبول کی۔ احمد ندیم قاسمی ،سردار جعفری، فراق اور فیض تخلیق کار تھے مگر انہوں نے بھی تنقیدنگاری کی طرف توجہ کی۔ اردو ناول اردو داستان کی ایک ارتقائی شکل ہے اور اسی کی کوکھ سے اس نے جنم لیا ہے مگر ہمارے ادب پر مغرب کا بھی احسان ہے کہ ہمارے بزرگ ادیبوں کی نگاہیں ادھر اٹھیں اور انہوں نے مغربی ادب سے کسب فیض کیا۔ پریم چند کے زمانے میں ہی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس تحریک نے محنت کشوں کے مسائل کو ادب میں داخل کیااور زندگی سے ادب کا رشتہ مستحکم کیا۔ اس تحریک کے زیر اثر جو ناول لکھے گئے ان میں سجاد ظہیر کا ’’لندن کی ایک رات‘‘، قاضی عبدالغفار کا’’ لیلیٰ کے خطوط‘‘ عصمت چغتائی کا ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ ،قرۃ العین حیدر کا ’’ آگ کا دریا‘‘،کرشن چندرکا’’ شکست‘‘ اور عزیز احمد کا’’ گریز ‘‘قابل ذکر ہیں۔ عزیز احمد نے کرداروں کی ذہنی کشمکش کوبڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔ قاضی عبدالغفار نے بھی یہی انداز اختیار کیا۔عصمت نے بھی تحلیل نفسی کا طریقہ اپنایا۔ انہوں نے متوسط مسلمان گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کے جنسی مسائل کا انتخاب کیا۔ کرشن چندر نے زیادہ جوش و خروش سے اشتراکی خیالات کا پرچار کیا۔ اسی دور میں عزیز احمد نے ایسی بلندی ایسی پستی ،گریز اور ہوس جیسے کامیاب ناول لکھے۔ قرۃ العین حیدر نے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے اردو ناول کو ایک نئی تکنیک’’شعور کی رو‘‘ سے روشناس کیا۔ آگ کا دریا، میرے بھی صنم خانے، آخر شب کے ہم سفر، چاندنی بیگم، گردش رنگ چمن عینی آپاکے مقبول عوام و خواص ناول ہیں۔ اردو ناول کے نقطۂ نظر سے موجودہ دور خاص طورپر زرخیز دور ہے۔تقسیم ملک کے بعد نئی سرحدوں کی دونوں طرف کشت و خون کا جوبازار گرم ہوا۔ اس نے فنکاروں کو ہلاکے رکھ دیا۔ ان کی تخلیقات میں اس خونیں داستان نے جگہ پائی۔ یہ دائرہ پھیلتا گیا اور عہد حاضر کے مسائل و مصائب ناول پر حاوی ہوتے گئے۔ انداز پیشکش بھی بدلا۔ انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں، ذہنی کشمکش رفتہ رفتہ اردو ناول میں زیادہ جگہ پاتی گئیں اور فن میں زیادہ گہرائی آتی گئی۔ اس دور میں عبداللہ حسین کا ’’اداس نسلیں، اور’’باگھ‘‘، شوکت صدیقی کا ’’خدا کی بستی‘‘، خدیجہ مستور کا ’’آنگن‘‘حیات اللہ انصاری کا ’’لہوکے پھول‘‘ راجندربیدی کا’’ایک چادر میلی سی‘‘ بلونت سنگھ کا’’ معمولی لڑکی‘‘،قاضی عبدالستار کا’’شب گزیدہ‘‘ ،مہندرناتھ کا’’ارمانوں کی سیج‘‘ جمیلہ ہاشمی کا’’ تلاش بہاراں، اور’’ روحی‘‘، جیلانی بانو کا’’ایوان غزل‘‘ انورسجاد کا ’’خوشیوں کا باغ‘‘ انتظار حسین کا’’بستی‘‘سلیم اختر کا ’’ضبط کی دیوار‘‘ جیسے معرکہ آرا ناول وجودمیں آئے۔ ترقی پسند تحریک کی کل ہند کانفرنس کی صدارت پریم چند نے کی تھی۔ اگر ان کو اس تحریک میں شامل کر لیا جائے تو آپ کے ناول کے بارے میں لکھناہی بہت سے صفحات کو رنگین کرنا ہے۔ الغرض پریم چندنے بہت ہی عمدہ اور صاف ستھرا ماحول کی عکاسی کے لیے ناول لکھے جواصناف ناول میں عظیم کارنامہ کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ آپ کے شہرت یافتہ ناولوں میں سے گؤدان، میدان عمل، بازار حسن، گوشۂ عافیت، چوگان ہستی ہیں۔ پریم چند نے فن ناول کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا اور اپنے ناول میں حقیقت نگاری اور دیہاتی زندگی پیش کر کے اردو ناول کے دامن کو وسعت دی۔ ترقی پسند تحریک کی ایک اہم ناول نگار عصمت چغتائی ہیں۔ عصمت نے کئی مشہور و کامیاب ناول تحریر کیا ۔ عصمت کے ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نفسیات کی کشمکش کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ نفسیات کا مطالعہ شروع سے عصمت کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے بہت سی کتابیں پڑھیں اور عملی زندگی میں انسانوں کی نفسیات پر غور کیا۔ خود ایک جگہ تحریر کرتی ہیں کہ لکھنے کے لیے میں نے دنیا کی عظیم ترین کتاب یعنی زندگی کو پڑھا ہے اور اسے بے حد دلچسپ و مؤثر پایا ہے۔ نفسیات کے علم سے عصمت نے کتنا فائدہ اٹھایا اور اپنے ناولوں میں کتنے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ کامیابی کے ساتھ پیش کیا، یہ دیکھنا ہو تو عصمت کے ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس میں کئی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ نظر آتا ہے۔ ان میں سے سب سے اہم کردار شمن ہے۔ یہ ناول شمن کی ذہنی الجھنوں اور ان الجھنوں سے پیدا ہونے والے نتائج کی داستان ہے۔ جنسی حقیقت نگاری عصمت کے ناولوں اور افسانوں کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ انہوں نے جنسی مسائل کو عام طورپر موضوع بنایا اور بے باکی سے ان پر لکھا۔ ان پر باربار فحاشی اور عریانی کے الزام میں مقدمے چلے، جنسی مسائل سے آگہی تو انہیں کم عمری میں ہی حاصل ہوگئی تھیں۔ ان کے بچپن میں محلے کی عورتیں دوپہر کو جمع ہو کر راز کی باتیں کیا کرتی تھیں۔ اس زمانے کے گھٹے ہوئے ماحول کی عورتیں جنس کے علاوہ اور کس موضوع پر گفتگو کرسکتی تھیں۔ لڑکیوں کو پاس پھٹکنے کی اجازت نہیں تھی مگر نوعمر عصمت کو ان باتوں میں بہت دلچسپی تھی۔ پلنگ کے نیچے چھپ کر ، کواڑکی اوٹ میں کھڑے ہو کر وہ یہ سب سن ہی لیتی تھیں۔ بچپن کے اس دور میں دوسری تربیت جو عصمت نے حاصل کی وہ بے باکی اور صاف گوئی کی تھی۔ جب ہمارے ملک میں جدید تعلیم اور مغربی تہذیب کے اثر سے کسی تجربے کے جڑپکڑ لینے سے جھوٹی مذہبیت اور مصنوعی اخلاق کی گرفت ڈھیلی پڑی تو جنسی معاملات پر اظہار خیال کا رجحان عام ہوا۔ یہ بھی احساس ہوا کہ جنسی جذبات پر توجہ کیے بغیر انسانی ذہن کی گرہیں نہیں کھولی جاسکتیں۔ گویا نفسیات اور جنسیات کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ اس طرح اردو میں جنسی حقیقت نگاری کا آغاز ہوا۔ انگارے کے افسانہ نگاروں کے بعد وادئ پر خار میں قدم رکھنے والے ہمارے پہلے بڑے فنکار منٹو اور عصمت تھے۔ دونوں پر فحاشی کے الزام میں مقدمے چلائے گئے لیکن آخر کار اہل نظر کو اعتراف کرنا پڑا کہ دونوں حق بجانب تھے۔ عصمت کی زبان ان کے ناول کی دلکشی کا سب سے بڑاسبب ہے۔ جس طبقے کو انہوں نے اپنی تخلیقات کا خاص طورپر موضوع بنایا، اس طبقے کی زبان پر بھی انہیں پوری دسترس حاصل تھی۔ عورتوں کی زبان پر ان کی قدرت بے مثال ہے، یہ زبان انہوں نے اپنے خاندان سے اور کچھ علی گڑھ میں تعلیم کے دوران کالج کی لڑکیوں سے سیکھی ۔ آخر صاف ستھری زبان، ایسی اجلی جیسے ابھی شبنم میں نہا کر نکلی ہو، خاص طور پر عورتوں کی زبان اس طرح ان کے دائرۂ اختیار میں آگئی کہ جس طرح چاہیں استعمال کریں اور اپنے فن کو چار چاند لگائیں۔ ان کے مشہور ناول ٹیڑھی لکیر پر کچھ تبصرہ حاضر خدمت ہے : ٹیڑھی لکیر کو عصمت کے فن کی معراج کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک کامیاب نفسیاتی ناول ہے جو ’’ضدی ‘‘ کے تین سال بعد۱۹۴۴ء میں تحریر کیا گیا۔ شمن اس کا مرکزی کردار ہے۔ حالات نے پے درپے اس لڑکی کو ایسے چر کے لگائے کہ اس کے مزاج میں ٹیڑھی پیدا ہوگئی اور اس کی فطرت مسخ ہو کر رہ گئی۔ شمن اپنے ماں باپ کی دسویں بیٹی ہے۔ اس کی پیدائش پر سب کو غم ہوتا ہے کہ بدبخت لڑکیوں نے بس یہی ایک گھر دیکھ لیا ہے۔ بے توجہی سے اس کی پرورش ہوتی ہے جس سے وہ محرومی اور تنہائی کے کرب میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ تخریبی عناصر اس کے ذہن میں سراٹھانے لگتے ہیں۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ چیزوں کو توڑے پھوڑے اور جو سامنے آئے اسے پیٹ ڈالے۔ شمن کی بڑی بہن بیوہ ہو کر اپنی بیٹی نوری کے ساتھ باپ کے گھر آجاتی ہے۔ اس بچی کو شمن سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے شمن کے دل میں نفرت کے شدید جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسکول میں شمن کو ایک استانی مس چرن سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ ہم جنسی کے مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے بعد رسول فاطمہ اور نجمہ سے اس کی دوستی ہوتی ہے۔ یہ دونوں بھی اسی لعنت میں گرفتار ہیں۔چھوت کا یہ مرض آخر شمن کو بھی لگ ہی جاتا ہے۔ آخر بلقیس اسے بتاتی ہے کہ لڑکیوں کو لڑکوں پرمرنا چاہیے تو وہ بلقیس کے بھائی رشید پر مرنے لگتی ہے مگر وہ ایک امیر زادی پر مرمٹتا ہے۔ ایک بار پھر شدید تنہائی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور شمن پھر نفرت کی آگ میں دہکنے لگتی ہے۔ کالج میں تعلیم کے دوران اس کی ملاقات پکی عمر کے رائے صاحب سے ہوتی ہے اور وہ ان سے اظہار محبت کربیٹھتی ہے۔ اس قدم سے اس میں شرم کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ زمین میں سما جائے۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں اعجاز آتا ہے پھر افتخار آتا ہے جو ایک دن اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آکر اسے پھر محرومی کے غار میں ڈھکیل دیتا ہے۔ آخر گمراہ ہو کر بہت سے لوگوں سے رشتہ جوڑ لیتی ہے۔ آخر وہ ایک آئرش نوجوان رونی ٹیلر سے شادی کر لیتی ہے۔ نباہ اس سے بھی نہیں ہوتی اور تعلق منقطع ہوجاتا ہے مگر اب اس کی کوکھ آباد ہے۔ یہ احساس اس کی زندگی کو بدل ڈالتا ہے۔ زندگی کے یہ نشیب و فراز شمن کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اس کی نفسیات میں ایک ایسی کجی پیدا ہوجاتی ہے جو صرف آخر میں جاکر ہی دور ہوتی ہے۔ پھر ہم سجاد ظہیر کے مشہور زمانہ ناول’ لندن کی ایک رات ‘پر تھوڑ سی روشنی ڈالنے کی سعی کرتے ہیں۔لندن کی ایک رات اردو ناول نگاری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے ناول نگاری کی ایک نئی روایت شروع ہوتی ہے،جو مواد اور ہےئت دونوں ہی اعتبار سے ایک نیا فنی افق پیش کرتی ہے اور نئے امکانات کے لیے راہیں ہموار کرتی ہے۔ یہ ناول اپنے زمانے کی فکری تبدیلی، ذہنی کشمکش اورسماجی و سیاسی اور معاشرتی انقلابات کو بڑے ہی فنکارانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس ناول کے کردار وہ ہندوستانی طلبہ ہیں جو لندن میں زیر تعلیم ہیں۔ سجاد ظہیر نے ان طلبہ کی ذہنی و جذباتی کشمکش کی عکاسی کی ہے۔ انہوں نے ان طلبہ کی نفسیاتی کیفیات کا بھی جائزہ لیا ہے جس میں اس زمانے کا نوجوان طبقہ گرفتار تھا۔ یہ تمام نوجوان حساس تھے اور اپنی کھلی آنکھوں سے مغربی تہذہب کے جگمگاتے ہوئے منظر اور سرمایہ دارانہ نظام کے تضادوں کو دیکھ رہے تھے۔ اس خارجی ٹکراؤ کے دھماکے وہ اپنے اندر بھی محسوس کررہے تھے۔ ان محسوسات کو اس ناول نے فنکارانہ انداز میں اپنے اندر محفوظ کرلیا ہے۔ اس ناول کے کردار مختلف ذہنی سطح اور متضاد رجحانات والے نوجوان تھے۔ ان میں کوئی نعیم جیسا بے فکرا ہے جس کی زندگی کا کوئی نصب العین نہیں، کوئی اس ناسازگار ماحول میں بھی محبت کے نغمے گانے والا ہے۔مس جین کی محبت میں سرشار اعظم، کوئی عارف جیسا نوجوان ہے جو اعلیٰ تعلیم اور بلند عہدہ پر فائز ہونے کا خواب دیکھ چکا ہے اور اس لیے حکومت کا مداح اور برطانوی جمہوریت کو ایک مثالی نظام سمجھنے والا گردانتا ہے ، کوئی احسان کی طرح اشتراکی نظریات کے زیر اثر مارکس اور اینجلز کو اپنا رہبر ماننے والا ہے تو کوئی لاؤ کی طرح ذہین و حساس ہوتے ہوئے بھی حالات کے تقاضوں کو سمجھنے سے عاری و قاصر۔ مختلف النوع ذہنی و جذباتی سطح رکھنے والے یہ نوجوان کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ نوجوان دراصل پورے ہندوستان کے نوجوانوں کی ذہنی و جذباتی کیفیت کو پیش کرتے ہیں۔ وہ نوجوان جو قدیم و جدید قدروں کے دوراہے پر کھڑے فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ کدھر جائیں۔ الغرض صرف سواسوصفحات پر مشتمل یہ ناول ایک مخصوص عہد کی تہہ در تہہ جذباتی اور نفسیاتی زندگی کی پیچیدگیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس دور کی ہندوستانی زندگی کے مختلف رجحانات و مسائل، تہذیبوں کی شکست و ریخت اور نوجوانوں کی ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی کیفیت کا اندازہ اس ناول سے لگایا جاسکتا ہے۔ سجاد ظہیر نے تہذیب ، جنس اور سیاست سے متعلق مختلف النوع موضوعات کو علمی نقطۂ نظر سے دیکھا، پرکھا اور سنجیدہ انداز میں پیش کرنے کی حتی المقدور کوشش بھی کی ۔ ترقی پسند تحریک کی ایک اہم شخصیت راجندرسنگھ بیدی بھی تھے۔ انہوں نے بھی افسانے اور ناول تحریر کیے۔پیش ہے ان کے مخصوص و منفرد لب و لہجہ کے ناول’’ایک چادر میلی سی ‘‘ پر ہلکی سی جھلک۔ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں جو کہانی پیش کی گئی ہے وہ بہت مختصر اور سیدھی سادی ہے۔ تلوکا یکہ چلاتا ہے اور چودھری کے لیے بہلا پھسلا کر عورتوں کو لاتا ہے۔ ایک روز جاترن کا بھائی اسے قتل کردیتا ہے۔ اس کی بیوی رانوکی شادی اس کے چھوٹے بھائی منگل سے کر دی جاتی ہے۔ اس مختصر سی کہانی کا تعلق سکھ معاشرے کی رسم ’’چادر ڈالنے ‘‘ سے ہے۔ یہ پنجاب میں شادی کی ایک رسم ہے ۔ عورت پر چادر ڈال کر مرد اس کا شوہر بن جاتا ہے۔ اس مختصر سی گھریلو کہانی کے ضمن میں گناہ ، نفرت ، عورت، عیاشی، سماجی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کا بھی ذکر آگیا ہے۔ بیدی نے ان تمام باتوں کا ذکر اتنے فطری انداز میں کیا ہے کہ وہ ہمیں اپنے حقیقی روپ میں نظر آتی ہیں۔ اس ناول میں بیان کیے گئے واقعات ہمیں اس لیے متاثر کر تے ہیں کہ ان میں کوئی فرضی داستان نہیں بیان کی گئی ہے بلکہ زندگی کی جیتی جاگتی حقیقتوں کو ناول نگار نے جیسا کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اسے اسی انداز میں پیش کر دیا ہے۔ زندگی کی کھردری حقیقتوں اور ڈھکے چھپے ناسوروں کے بیان نے ناول کی اثر آفرینی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اس طرح یہ ناول زندگی کا ایک مرقع ہے۔ یہ ناول اپنے اسلوب اور انداز بیان کی وجہ سے بھی کافی اہم مانا جاتا ہے۔اس ناول میں ان کا اشاراتی انداز کافی نکھرا ہوا نظر آتاہے۔ چھوٹے چھوٹے معنی خیز جملوں، استعاروں اور اساطیری انداز نے اس ناول کی معنویت اور اثر آفرینی میں مزید اضافہ کردیا ہے اس ناول کا جملہ ا ور تشبیہ و استعارہ نہایت ہی دلکشی پیش کرتا ہے۔ الغرض یہ ناول بیدی کی فنی بصیرت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ بیدی کی نظر بہت گہری ہے۔ واقعات کی معمولی جزئیات کو بھی وہ نظر انداز نہیں کرتے۔ اس جزئیات نگاری نے ناول میں محاکات کا لطف پیدا کر دیا ہے۔ پلاٹ کا تانا بانا ایک خاص ترتیب سے تیار کیا گیا ہے۔ واقعات اورکرداروں میں ایک خاص ربط ہے جس کی وجہ سے کہانی بڑے فطری انداز میں ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔ اس طرح ناول اپنے فنی محاسن کی وجہ سے افسانوی ادب میں زندہ جاوید رہے گا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کئی اہم ناول لکھے گئے اور اس تحریک سے تعلق رکھنے والوں نے اس صنف میں کئی اہم اور بڑے کارنامے انجام دیے اور کئی مصنفین نے اچھاو عمدہ ناول لکھ کر اردو ادب کی خدمات میں کارہائے نمایاں انجام دیا ۔ اس صنف میں ان کارنامے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ترقی پسند تحریک کے بینر تلے لکھے گئے تمام ناولوں کی تفصیلات کو اس مختصر سے مضمون میں پیش نہیں کیا جاسکتا ۔البتہ اختصار کے ساتھ پوری بات کہنے کی کوشش کی ضرور کی گئی ہے۔ مأخذ و مراجع: اردو نثر کا نتقیدی مطالعہ، اردو ادب کی تاریخ، ناول کا فن، اردو اصناف و نظم و تدریس ،وغیرہ بشکریہ محمد خوشتر محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:23، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

عصمت چغتاٸی کی برسی پر[ترمیم]

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر مشہور کہانی "لحاف" لکھنے والی عصمت چغتائی کی آج 31 ویں برسی ہے. وہ 21 اگست 1911ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں اور 24 اکتوبر 1991ء کو بمبئی میں انتقال ہوا. . عصمت چغتائی نے بدایوں، بھوپال، آگرہ، لکھنؤ، بریلی،جودھ پور،علی گڑھ اور بمبئی میں زندگی گزاری۔ والد مرزا قسیم بیگ چغتائی جج تھے۔ چھ بھائیو ں اور چار بہنوں میں عصمت کا دسواں نمبر تھا۔ ان کے ایک بھائی عظیم بیگ چغتائی بھی مشہور ادیب تھے ۔

بچپن ہی سے عصمت کے مشاغل لڑکوں جیسے تھے،  پتنگ بازی اور بنٹے کھیلنا وغیرہ ۔ ان کی سوچ  باغیانہ تھی ۔1942میں عصمت کی فلم ساز شاہد لطیف سے شادی ہوئی،جس سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔  پہلے تدریس کا شعبہ اختیار کیا، پھر مکمل طور پر ادب اور فلم سے وابستہ ہوگئیں۔
عصمت چغتائی  ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل تھیں ۔ ان کا کہنا تھا ایسا ادب جو انسان کی بھلائی چاہے، جو انسان کو پیچھے نہ دھکیلے۔ جو انسان کو صحت، علم اور کلچر حاصل کرنے میں مدد دے اور جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔ انسان کی بھلائی چاہے۔  اندھیرے میں جانے کی بجائے اجالے کی طرف آئے۔ قصہ، کہانی، نظم، غزل  جن سے انسان کی فلاح و بہبود مقصود ہو وہی ترقی پسند ادب ہے۔ 

عصمت چغتائی کا پہلا افسانہ ”گیندا“ تھا۔ "چوتھی کا جوڑا" عصمت چغتائی کا نمائندہ افسانہ ہے۔عصمت چغتائی کے ناولوں میں ضدی، ٹیڑھی لکیر، معصومہ، سودائی، عجیب آدمی،جنگلی کبوتر، ایک قطرۂ خوں شامل ہیں، ’’کاغذی ہے پیرہن ‘‘ کے نام سے آپ بیتی بھی لکھی۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں کلیاں، ایک بات، چوٹیں، دو ہاتھ، چھوئی موئی، بدن کی خوشبو اور آدھی عورت آدھا خواب شامل ہیں انہوں نے کئی معروف ادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے،جن میں اسرارالحق مجاز، سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، کرشن چندر، سجادظہیر، پطرس بخاری، میراجی،جاں نثار اختر شامل ہیں۔اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ’’دوزخی‘‘ کے نا م سے لکھا جسے منٹو نے بہت سراہا. ان کی بہن اقبال نے اس پر تنقید کی تو کہا کہ ’’ اگر تم ایسا ہی خاکہ مجھ پر لکھنے کا وعدہ کرو تو میں آج ہی مرنے کو تیار ہوں۔‘‘

عصمت چغتائی کا افسانہ’’ لحاف‘‘ جو خواتین میں ہم جنس پرستی کے بارے میں تھا، سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنا لیکن انہوں نے کبھی یہ کہانی لکھنے پر افسوس کا اظہار نہ کیا، ان کے بقول یہ نوابی سماج کی ایک عام بات تھی۔ اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ لحاف کا لیبل اب بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا ہے۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔

"لحاف" پر ڈائریکٹر راحت کاظمی نے فلم بنائی. لحاف پہ ہی  ہدایت کار وشال بھردواج  بھی "ڈیڑھ عشقیہ‘‘  بنا چکے ہیں جس میں نصیرالدین شاہ اور مادھوری کے ساتھہ ارشد وارثی بھی تھے۔

قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کی معاصرانہ چشمک سب جانتے ہیں۔ عصمت نے قرۃ العین حیدر کے بارے میں ’’ پوم پوم ڈارلنگ ‘‘ کےعنوان سے مضمون لکھا، جس کا جواب قرۃ العین حیدر نے ’’لیڈی چنگیز خان‘‘ لکھ کر دیا۔

عصمت چغتائی نے تقریباً 14 فلموں کے لیے سکرپٹ اور مکالمے لکھے۔1948 میں فلم ضدی لکھی ۔ 1950 میں فلم آرزو کی کہانی، ڈائیلاگ اور اسکرین پلے اور 1958 ء میں فلم سونے کی چڑیا کی کہانی لکھی۔ فلم جنون اور فلم محفل کے بھی ڈائیلاگ تحریر کئے۔ 'جنون' میں خود بھی اداکاری کی۔1974 ء میں بننے والی فلم "گرم ہوا" عصمت چغتائی کے ایک افسانے پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم کے ڈائیلاگ اور اسکرین پلے کیفی اعظمی اور شمع زیدی نے تحریر کئے.

عصمت چغتائی کا 24 اکتوبر 1991 کو بمبئی میں انتقال ہوا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کیا گیا ۔ یہ ان کا آخری حرف بغاوت تھا !

ممتاز ناول نگار فاروق خالد بتاتے ہیں.. 1985ء میں یا اس کے آس پاس جب مَیں اپنی پہلی (ولندیزی) بیوی کے ساتھ ممبئی گیا تو ٹیلی فون کر کر کے ہم دونوں عصمت چغتائی صاحبہ کے گھر گئے۔ دوران گفتگو ن- م- راشد کا ذکر آیا تو ان کے کلام کی تعریف کے علاوہ عصمت صاحبہ نے ان کے مرنے کے بعد نذرِ آتش ہونے کو بھی بہت سراہا تھا۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:24، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

معمارِ قوم ۔۔۔۔ عبدالغنی صاحب[ترمیم]

❤❤استادِ محترم عبدالغنی گجر ۔۔۔۔۔۔مختصر تعارف❤❤

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

آج جس معزز استاد محترم کے بارے میں صفحہ قرطاس پر دلی جذبات کی ترجمانی کرنا چاہ رہا ہوں ان کا اسم گرامی ہے محترم جناب عبدالغنی گجر صاحب آپ نٹھر کے گاٶں سے تعلق رکھتے ہیں آپ نے میٹرک گورنمنٹ ہاٸی سکول اجنیانوالہ ضلع شیخوپورہ سے پاس کیا۔انٹر کا امتحان پاس کر کے آپ نے معلمی پیشہ اختیار کیا۔ حدیث نبوی ﷺ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔ پر عمل کرتے ہوۓ تدریس کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور دوران ملازمت ایم ۔ اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔

آپ ایک سادہ انسان ۔طلبہ سے محبت کرنے والے اورخلق خدا کی خدمت کرنے والے انسان ہیں۔ آپ کو ہمیشہ دوسروں کی عزت کرتے ہوۓ پایا یہاں تک کہ آپ اپنے شاگردوں سے بھی عزت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔ آپ نے اپنی سروس کا آغاز بطور S.V گورنمنٹ بوائز ہاٸی اسکول ببر تحصیل نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ سے1989 سےکیا ۔1999 میں آپ کا تبادلہ گورنمنٹ بواٸز ایلیمنٹری سکول جاگووالہ میں ہوا۔ 2014 میں آپ بطور SST ترقی پا کر گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول کولو وال تحصیل نوشہرہ ورکاں میں تعینات ہوۓ۔ یہ سکول بیرونی مداخلت اور سٹاف کی گروپ بندی کا گڑھ تھا ۔ آپ نے اپنے حسن تدبر اور خداداد انتظامی صلاحیت سے بیرونی مداخلت اور سٹاف کی گروپ بندی کو احسن طریقہ سے ختم کیا اور مذکورہ سکول کو تحصیل نوشہرہ ورکاں کا ایک خوب صورت سکول بنا دیا۔آپ کی بہترین ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے نۓ داخلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اور اہل علاقہ کی نظر میں اساتذہ اور سکول کے وقار میں اضافہ ہوا۔ 2016 میں آپ کا تبادلہ اپنے گاٶں کے قریب ایلیمنٹری سکول فتح کی میں ہوا۔ سکول کی ظاہری حالت انتہاٸی ناگفتہ بہ تھی۔ آپ نے معززین علاقہ اور سٹاف کی معاونت سے سکول کو ایک خوب صورت درس گاہ میں تبدیل کیا۔آپ اسی سکول میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے 2022 میں تقریباً 33 سال سروس کرنے کے بعد شاندار ماضی اور خوب صورت یادوں کے ساتھ ریٹائر ہوئے۔

آپ کے بہت سے طالب علم اس وقت پاکستان کے مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔محکمہ تعلیم میں بھی آپ کے شاگردوں کی فوج ظفر موج اس وقت بادشاہ گری کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ جن میں ماہر مضمون اردو،ہیڈ ماسٹرز اور SST ان گنت ٹیچرز تعلیم کی شمع روشن کیے ہوۓ ہیں۔(راقم بھی آپ کا شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔اور بطور ڈسٹرکٹ ٹیچرایجوکیٹر اور ماسٹر ٹرینر کام کر چکا ہے۔اب ہیڈٹیچر کے عہدے پر کام کر رہا ہے )

آپ کے بچوں سے متعلق ذکر کیا جاۓ تو آپ کے بیٹے سرکاری اداروں میں کلیدی عہدوں پر فاٸز ہیں ۔ جن میں MBBS ڈاکٹر، انجنٸیر اور ایکسٸین واپڈا جیسے عہدے شامل ہیں۔ بات کی جاۓ آپ کی انتظامی صلاحیت کی تو آپ نے ہمیشہ افراد کو اکٹھے رکھنے کا درس دیا اور آپ کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوۓ۔ زمانہ طالب علمی یعنی 1985 سے آپ اپنے خاندان کی سربراہی کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور اب تک آپ کا خاندان ایک لڑی کی طرح ہے ۔ اورآج کے دن تک آپ کا خاندان اکٹھے رہ رہا ہے اور اکٹھے ایک ہی چولھے پر ہے۔ تقریبا 60 نفوس پر مشتمل خاندان کو اکٹھے رکھنا آپ کے حسن تدبر اور خداداد انتظامی صلاحیت کی زندہ مثال ہے۔میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پورے پنجاب بلکہ پوری دنیا سے ایسی ایک مثال لانا ناممکنات میں سے ہے۔

آپ کی ایک خوبی ہے کہ آپ طلباءمیں اعتماد کو بہت زیادہ بحال کرتے۔1996 سے 1999 تک میں ان سے گورنمنٹ ہاٸی سکول ببر میں پڑھتا رہا ہوں آپ کے ساتھ تب محترم رانا اشتیاق صاحب، محترم مختار علی سرا صاحب، محترم امداداللہ کاہلوں صاحب، محترم سید صفدر شاہ صاحب ، محترم حافظ افتخار احمد شاکر صاحب ، محترم رانا محمد ادریس صاحب اور محترم ریاض احمد صاحب پڑھایاکرتے تھے۔ ان تمام اساتذہ کی محبت اور شفقت سے آج اس مقام پر ہوں کہ طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہوں۔

آپ طلبہ کے ساتھ دوستوں جیسا رویہ رکھتے۔ان کو عزت دیتے۔طلبہ کو فیوچر گائیڈ لائن دیتے۔ راقم کی بطور ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹر جب بھی ان سے ملاقات ہوٸی انھوں نے ہمیشہ مخلص مشوروں سے نوازا۔ اگر آپ کا کوئی شاگرد کوئی اچھا کام کرے اور آپ کو معلوم ہو تو آپ مکمل سپورٹ کرتے ۔یہ وصف آپ کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ آپ تدریسی امور کے ساتھ ساتھ صلح جو اور امن پسند شخصیت رکھتے ہیں ۔ علاقہ بھر میں عموماً اور نٹھرکے گاٶں کے قریبی دیہات میں لڑاٸی جھگڑوں میں پڑے ہوۓ کٸ خاندانوں میں صلح کروا چکے ہیں۔ الحَمْدُ ِلله آپ کی کرواٸی گٸ صلح قاٸم و داٸم اور برقرار رہتی ہے۔ میں بطور شاگرد آپ کو سلام پیش کرتا ہوں اور صحت سے بھرپور عمر خضر کے لیے دعا گو ہوں۔ دعا گو محمد شہزاد انصاری ایم فل اردو، ایم ایڈ ہیڈ ٹیچر گورنمنٹ پراٸمری سکول منج والی تحصیل نوشہرہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ 0346-6267687 محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:26، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

ڈاکٹر محمد دین تاثیر[ترمیم]

ڈاکٹر محمد دین تاثیر کا یوم وفات

ترقی پسند تحریک کے سرخیل،رسالہ "کارواں" کے مدیر،انگلینڈ سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے برصغیر کے پہلے ادیب.

مختصر تعارف

ڈاکٹر محمد دین تاثیر ۲۸ فروری، ۱۹۰۲ ءکو قصبہ اجنالہ امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ایم اے تک تعلیم لاہور سے حاصل کی اور پھر کیمبرج سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کیا‘ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ ڈاکٹر تاثیر ایک طویل عرصے تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ وفات کے وقت وہ اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل تھے۔ وہ ایک اچھے غزل گو تھے ڈاکٹر تاثیر اردو میں آزاد نظم کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی شاعری کا مجموعہ آتش کدہ اور نثری مجموعے مقالات تاثیر اور نثر تاثیر کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ڈاکٹر محمد دین تاثیر ۳۰ نومبر ۱۹۵۰ ءکو وفات پاگئے۔ فیض احمد فیض آپ کے ہم زلف اور پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر آپ کے صاحبزادے تھے غازی علم دین شہید کے جسد مبارک کے لیے صندوق و بانس کا اہتمام ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کیا تھا.

ڈاکٹر محمد دین تاثیر کا یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطورِ خراج عقیدت.

داور حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تری نیم کش نگاہیں ترا زیر لب تبسم یونہی اک ادائے مستی یونہی اک فریب سادہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں بھی دیکھ کہ ہم آرزو کے صحرا میں کھلے ہوئے ہیں کسی زخم آرزو کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔ دل نے آنکھوں سے کہی آنکھوں نے دل سی کہہ دی بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ڈر ہے قافلے والو کہیں نہ گم کر دے مرا ہی اپنا اٹھایا ہوا غبار مجھے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دلیل خوش دلی ہے مرے واسطے نہیں ہے وہ دہن کہ ہے شگفتہ وہ جبیں کہ ہے کشادہ ۔۔۔۔۔۔۔ تم کیا گئے کہ سارا زمانہ چلا گیا وہ رات دن نہیں ہیں وہ شام و سحر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ توجہ دیں تو ہو آراستہ بزم حیات وہ نگاہیں پھیر لیں تو انجمن برہم کریں ۔۔۔۔۔۔۔ کیسی تلاش راہ کہ منزل میں آپ ہیں کیسی رجا و بیم کہ خود مدعا ہیں ہم ۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح ہم نے راتیں کاٹی ہیں اس طرح ہم نے دن گزارے ہیں. محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:08، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

معراج فیض آبادی ۔۔۔۔ یوم وفات[ترمیم]

آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے :-

اج ۔  30 /نومبر 2013ء 💐
یومِ وفات ۔ اردو مشاعروں کے سب سے مقبول شاعر” معراجؔ فیض آبادی ✨

نام ۔ سیّد معراج الحق ۔ المعروف ۔ معراجؔ فیض آبادی۔ 2 جنوری 1941ء کو ۔ فیض آباد ۔ کے معروف قصبے ۔ کولا شریف ۔ میں پیدا ہوئے۔ جامعہ لکھنؤ سے انہوں نے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔ سنّی وقف بورڈ میں انہوں نے ملازمت کی اور 2013ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ میر انیسؔ ، معراج فیض آبادی کے پسندیدہ شاعر تھے ۔ ان کا مجموعہ ۔ ناموس ۔ 2004ء میں شائع ہوا ۔ وہ دنیا بھر کے مشاعروں میں بڑی عزت کے ساتھ بلائے جاتے تھے ۔ 30 نومبر 2013ء ۔ کو ۔ معراجؔ فیض آبادی ۔لکھنؤ ۔ میں انتقال کر گئے ۔

  منتخب اشعار  :-

.. ہم غزل میں ترا چرچا نہیں ہونے دیتے تیری یادوں کو بھی رسوا نہیں ہونے دیتے --- اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا ---

  • زندگی دی ہے تو جینے کا ہنر بھی دینا
  • پاؤں بخشیں ہیں تو توفیق سفر بھی دینا

--- زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے --- ایک ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم --- اے یقینوں کے خدا شہر گماں کس کا ہے نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے --- اے دشتِ آرزو مجھے منزل کی آس دے میری تھکن کو گردِ سفر کا لباس دے --- ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب پڑھی ہے باپ کے چہرے کی جھریاں ہم نے ---

  • مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
  • میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

--- پیاس کہتی ہے چلو ریت نچوڑی جائے اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا --- آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے ---

  • گفتگو تو نے سکھائی ہے کہ میں گونگا تھا
  • اب میں بولوں گا تو باتوں میں اثر بھی دینا

... محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:13، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

اصغر گونڈوی[ترمیم]

اصغر گونڈوی کا یوم وفات

تغزل میں تصوف کو سمو کر اپنا ایک منفرد رنگ پیدا کرنے والے اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی نے کلاسیکی دور سے جدید عہد تک اپنی شاعری کو رنگِ تغزّل اور تصوّف سے یوں‌ بہم کیا کہ یہی ان کی انفرادیت اور وجہِ شہرت ٹھہرا،

مختصر تعارف

اصغر گونڈوی اردو کے اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے حُسن و عشق، لالہ و گُل، نسرین و نسترن، ہجر و وصال، آہ و زاری، داد و فریاد، جفا اور وفا جیسے خالص عشقیہ موضوعات کو بھی اس ڈھب سے برتا اور اپنے اشعار سے ایک مسرت افزا، نشاط انگیز فضا پیدا کی جس نے یاسیت اور آزردہ دلی کا زور گھٹایا ان کا کلام عصری شعور اور وارداتِ قلبی کا وہ امتزاج ہے جس میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے اور ان کا دل کش پیرایۂ اظہار اور مسرت افزا بیان سبھی کو بھایا اصغر گونڈوی نے ۱۸۸۴ء میں گورکھ پور میں آنکھ کھولی۔ یہ ان کا آبائی وطن تھا، لیکن روزگار کے سلسلے میں‌ والد کے ساتھ گونڈہ منتقل ہوگئے تھے جہاں مستقل قیام رہا اور وہ اصغر گونڈوی مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام اصغر حسین تھا ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ انھیں شروع ہی سے علم و ادب کے مطالعے کا شوق تھا اور اپنی اسی دل چسپی کے سبب شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے منشی جلیل اللہ وجد بلگرامی اور منشی امیرُ اللہ تسلیم سے اصلاح لی تھی۔ اصغر گونڈوی ایک رسالے “ہندوستانی” کی ادارت بھی کرتے رہے اصغر گونڈوی کا کلام شستہ اور پاکیزہ خیالات کا مجموعہ ہے، جس مین فنی نزاکتوں کے ساتھ رومان پرور جذبات اور اخلاقی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں اصغر گونڈوی ۳۰ نومبر ۱۹۳۶ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

اصغر گونڈوی کا یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت.

چھٹ جائے اگر دامن کونین تو کیا غم لیکن نہ چھٹے ہاتھ سے دامان محمد ۔۔۔۔۔۔۔ چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی فریب سے ہیں کچھ درد عاشقی کے ہم مر کے کیا کریں گے کیا کر لیا ہے جی کے ۔۔۔۔۔۔۔ نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ روداد چمن سنتا ہوں اس طرح قفس میں جیسے کبھی آنکھوں سے گلستاں نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے. محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:27، 30 نومبر 2022ء (م ع و)

کومل جوٸیہ ایک تعارف[ترمیم]

تم نے دیکھے نہیں فرصت سے خدوخال مرے جب میں تصویر میں ہوتی ہوں بہت بولتی ہوں ✍ کومل جوئیہ

9 نومبر 1983ء یوم پیدائش کومل جوئیہ عصر حاضر کی ایک بہترین شاعرہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی معروف پاکستانی شاعرہ اور افسانہ نگار کومل جوئیہ صاحبہ 9 نومبر 1983ء میں کبیروالہ میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا اصل نام شازیہ علی ہے اور جوئیہ قبیلے سے تعلق ہے ، کومل تخلص اور قلمی نام کومل جوئیہ ہے ۔

     انہوں نے 15 سال کی عمر میں 1998ء میں شاعری شروع کی اس کے علاوہ افسانہ نگاری بھی کرتی ہیں ۔ شادی کے بعد وہ گوجرانوالہ منتقل ہو گئیں ،  پیشے کے لحاظ سے وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کی شاعری میں ہجر و فراق اور معصومیت کم نازو انداز ، شوخی اور بےباکی زیادہ ہے۔ وہ اپنی شاعری میں ملکی اور معاشرتی و سماجی مسائل کو بھی موضوع سخن بناتی ہیں ۔ ان کی شاعری نوجوان نسل میں زیادہ مقبول ہے ۔ کومل صاحبہ کا پہلا شعری مجموعہ " ایسا لگتا ہے تجھ کو کھو دوں گی" 2013 میں شائع ہو چکا ہے جبکہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ " کاش" طباعت کے مرحلے میں ہے۔ 

غزل💞

سبز موسم کو بھی تحریرِ خزاں بولتے ہیں آج کل پیڑ اداسی کی زباں بولتے ہیں

بعض اوقات مکینوں کی خموشی سے ڈری کھڑکیاں شور مچاتی ہیں ، مکاں بولتے ہیں

کون کرتا ہے ترے بعد ترے جیسا سخن ہم ترے بعد کسی سے بھی کہاں بولتے ہیں

اونچی آواز میں عادت تو نہیں بولنے کی ضبط جب توڑ دیا جائے تو ہاں ، بولتے ہیں

جس جگہ مان رکھا جائے خطابت کا اے دوست ہم انا زاد بہت کھل کے وہاں بولتے ہیں

کیا غلط کرتے ہیں ہم فرطِ عقیدت سے کبھی تیری آنکھوں کو اگر سارا جہاں بولتے ہیں

اس قدر جھوٹ ، ملاوٹ ہے مری بستی میں دھول ملبے کی اڑی ہو تو دھواں بولتے ہیں

اشعار💞

تم نے دیکھے نہیں فرصت سے خدوخال مرے جب میں تصویر میں ہوتی ہوں بہت بولتی ہوں 💞 لوگ محروم بصارت ہیں تری بستی کے اور ہم خواب ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں 💞 اپنی مرضی ہوگی " کومل " آئے گی نیند کسی کے باپ کی تھوڑی ہے!!! 💞 کومل جوئیہ💞 محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:45، 2 دسمبر 2022ء (م ع و)

فراق کی شاعری[ترمیم]

فراق_کا_فن_شاعری

    شاعری میں فراق کی پسند سب کو چھوڑ کر غزل تھی اور اسی کو اپنا محبوب مشغلہ بھی بنائے رکھا جس کے سبب فراق نے اردو غزل کو لا زوال شہرت بخشی غزل کی محبوبیت اتنی غالب تھی کہ غزل کے بارے میں یہاں تک کہہ گیے ؛ "غزل شاعری نہیں عطر شاعری ہے" فراق کا یہ بیان کسی حد تک ممکن بھی ہے کہ غزل جس میں ہم اپنے جذبات و احساسات، تخیلات و تفکرات اور اپنے وارداتِ قلبی کے رجحانات اور اپنے ذہنی شعور کی تکنیک بروئے کار لا کر پیش کرتے ہیں تو وہ کسی حد تک شاعری کی جان بھی ضرور ہوگی اور کچھ ایسے ہی امتیازات غزل اردو شاعری میں رکھتی ہے اسی لیے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے فراق کہتے ہیں؛  کہ "غزل انتہاؤں کا ایک سلسلہ ہے" اور یہ بات بلکل حقیقت ہے کہ غزل میں جتنے موضوع سموئے جائیں کم پڑ جائیں  گویا غزل اردو شاعری کا ایک بحر بے کنار ہے جس کی وسعت و گہرائ میں اتر پانا ممکن نہیں
  فراق غزل کی خوبصورتی میں اور چار چاند لگاتے ہوئے غزل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ؛ کہ "غزل مختلف پھولوں کی مالا ہے" 
    بہت سے نقاد اور شاعروں نے بھی فراق کو شاعری کا اہم ستون تسلیم کیا ہے۔ مرزا واجد حسین یگانہ جو غالب کو اپنے سامنے کچھ نہیں رکھتے اور کہتے تھے؛ کہ "میں ٹھوکر مارتا ہوں ایسی عزت کو جو غالب پرستی کے صدقے ملے" وہ بھی فراق کو اردو غزل میں ایک مہتم بالشان غزل گو شاعر تسلیم کرتے ہیں جب کہ یگانہ کی شاعری بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جب کسی مشاعرے میں یگانہ کہ آمد ہوتی تو پورا مجمع لوگوں سے پُر ہو جاتا یگانہ غزل میں فراق کو اہم ستون سمجھ کر کہتے ہیں؛  کہ "دنیا سے جاتے ہوئے غزل کو میں فراق کے ذمہ کیے جا رہا ہوں"
   فراق کی ابتدائ شاعری کا جائزہ لیا جائے تو سب کا یہ ماننا تھا کہ فراق کی شاعری کچھ دیر کے لیے ہے بس جس کے بعد اس کا نام و نشاں اور اس کے ساتھ ہی اس کا دور شاعری بھی ختم ہو جائے گا مگر فراق کی شاعری کا سوز و گداز، اس کی چاشنی اور دلکش طرز ادا اور ان کے وسیع مطالعات و مشاہدات دیکھ کر سب یہ کہنے پر مجبور ہو گیے کہ "یہ دور فراق کا دور ہے" محمد حسن عسکری اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛  کہ "دس سال کے عرصے میں فراق کی شاعری اور تنقید نے اردو پڑھنے والوں کی طبیعت اور ان کے ذوق بلکہ طرز احساس کو بدل کر رکھ دیا ہے" اور یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ فراق کی شاعری اپنے اچھوتے اسلوب بیاں اور حسن و عشق کی پُرکاری سے لبریز نظر آتی ہے ایک جگہ محمد حسن عسکری نے فراق کو ایک مکمل ادارے کی حیثیت دے کر ان کی شان کو دوبالا کرتے ہوئے لکھا ہے ؛ کہ "فراق کی شاعری نے اردو میں ایک ادارے کی حیثیت اختیار کر لی ہے"

اور عسکری کے اس قول کی صداقت کو سمجھنے کے لیے فراق کی مکمل شاعری جو ہزارہا صفحات میں موتیوں کی طرح بکھری ہوئ ہے گہرا مطالعہ کرکے طرز ادا کا اندازا لگا کر سمجھی جا سکتی ہے۔۔۔

 فراق نے اردو شاعری میں بے بہا کارنامے چھوڑے ہیں  شاعری میں ایک خصوصیت بہت اہم پائ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے عام طور سے شاعری میں اپنے اساتذہ کی شاعری کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنا الگ راستہ اپنایا اور یہی خصوصیت ان کے قبول عام کا سبب بنی اگر فراق کی شاعری کو دیکھیں تو سرعت شعر بیانی میں مصحفی کے گرویدہ نظر آتے ہیں جو فوری طور پر بہت کچھ لکھ دیتے ہیں اور پھر نظر ثانی کی فرصت مشغولیت کی وجہ سے ہاتھ نہیں آتی جو کلام کی غیر معتدلیت کی طرف لیے جاتا ہے
       فراق نے اپنی غزل کا اصل محور عورت کو رکھا ہے جس کے نشیب و فراز اور خد وخال خوبیاں نت نئے انداز اور پُر لطف طریقے سے بیان کرتے ہیں۔۔

وہ تمام روئے نگار ہے، وہ تمام بوس و کنار ہے

وہ ہے چہرہ چہرہ جودیکھئے، وہ جو چومیے تو دہن دہن

اشعار میں ہیں عارض و کاکل کے وہ جلوے

ہاں دیکھ کبھی تو مری غزلوں کی شبِ ماہ

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

    فراق سے ایسے ہی بڑی بڑی ہستیاں متاثر نہیں ہوئیں بلکہ ان کے فکری تخیل اور بلند قامت ہمہ گیر عقل و خرد کو دیکھ کر ہی ہر فرد ان سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا اسی لیے محمد حسن نے فراق کو "اردو ادب کا جانسن"کہا جس طرح جانسن اپنے زمانے میں انگریزی ادب کا منفرد اور عدیم المثل شاعر رہا ہے یہی حال فراق کا بھی ہے کہ اپنے عہد کے شعراء میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ایک جگہ محمد حسن نے فراق کو "اردو شاعری کا آسکر وائلڈ" کہا ہے
      جمالیات پرستی، جسمانیت میں روحانیت کی تلاش اور حسن مذہب و عشق بنا لینا،فراق کو اگر ایک طرف آ سکر وائلڈ سے ملا تو دوسری طرف قدیم ہندی ادب کی روایات کا فیض ہے۔

ڈاکٹر محمد حسن نے اپنے ایک مضمون "فراق کا طرز احساس" میں اسی بات کو یوں کہا ہے۔ "فراق ہندوستانی ہیں اور اردو شاعری کی روایت کے با شعور وارث، اس لئے فراق کے کلام میں یہ رچاؤ ایک طرف ہندو آرٹ سے آیا جس میں پیکر تراشی مادی کثافت سے روحانی لطافت پیدا کرنے کی کوشش روایت کا جز بن چکی ہے اور دوسری طرف اردو کے شعری ورثے سے جسمیں داخلیت، سپردگی اور لہجے کی نرمی کو درجہ امتیاز حاصل ہے"۔۔۔

     فراق کی غزل گوئی کے علاوہ ان کی نظم گوئ کا بھی اب بادیُ النظر سے مطالعہ کرتے ہیں کہ فراق نے غزل کے ذریعے بہت کچھ کہ ڈالا پر پھر بھی کچھ چیزیں ایسی تھیں جس میں فراق کو نظم کا سہارا لینا پڑا اور غزل کی طرح اس میں بھی شہرت حاصل کی۔


"تلاش حیات" فراق کی یہ نظم بتاتی ہے کہ وطن میں آزادی کے بعد کیسا خوشگوار موسم رچا بسا تھا اور مادر وطن پر کیسی کیفیات طاری تھیں ان کو اتنے پر لطف انداز میں نظم کے ذریعے بیان کیا ہے جو غزل کے ذریعے ممکن نہ تھا

ہند کے گھونگھٹوں تلے کتنی سہانی آگ ہے صبح کو ماں کے ماتھے پر آج نیا سہاگ ہے

    "آدھی رات کو" یہ نظم دوسری جنگ عظیم کے تعلق سے لکھی ہے جو ایک اہم نظم ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں انہوں نے جنگ عظیم کے حالات کے بجائے اپنے تاثرات پیش کیے ہیں

سیاہ پیٹر ہیں اب آپ اپنی پر چھائیں زمیں سے تامہ و انجم سکوت کا مینار

زمانہ کتنی لڑائی کو رہ گیا ہو گا مرے خیال میں اب ایک بج رہا ہو گا

      فراق کی ایک خوبصورت اور المیہ نظم "جگنو" ہے اس میں ایک بیس سالہ نوجوان کے غم کی عکاسی کی جس کی ماں کا انتقال اسی دن ہو گیا تھا جس دن وہ پیدا ہوا تھا۔

مری حیات نے دیکھی ہیں بیس بر ساتیں مرے جنم ہی کے دن مر گئی تھی ماں میری


     "ھنڈولہ " اس نظم میں فراق نے اپنے بچپن کے احوال و کوائف اور اپنے جذبات قلم بند کیے ہیں

میرے مزاج میں پنہاں تھی ایک جدلیت

رگوں میں چھوٹتے رہتے تھے بے شمار انار

     "داستان آدم" فراق کی یہ نظم ایک تاریخی نظم ہے جس میں انہوں نے ما قبل تاریخی دور سے آج تک کے انسانی تاریخی، تدریجی اور انقلابی ترقی پر روشنی ڈالی ہے

القصہ زمانے کو پڑی اس کی ضرورت

بٹ جائے گی طبقوں میں انسان کہ ملت تہذیب بڑھے اس لئے وہ جن کی ہے کثرت گردن پہ جواں بار غلامی کا دھریں گے ہم زندہ تھے ہم زندہ ہیں ہم زندہ رہیں گے

    "پرچھائیاں" فراق کی یہ نظم ان کے جمالیاتی اور ان کے عشقیہ احساس کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے۔

یہ چھب یہ روپ یہ جو بن یہ سج دھج یہ لہک چمکتے تاروں کی کرنوں کی نرم نرم پھوار یہ رسمساتے بدن کی اٹھان اور یہ ابھار فضاء کے آئینے میں جیسے لہلہائے بہار کیف و رنگ نظارہ یہ بجلیوں کی لپک

    فراق نے بہت سی رباعیاں بھی کہی ہیں "روپ" فراق کی جمالیاتی رباعیوں کا مجموعہ ہے تقریبا ۴٢۰ سے زیادہ رباعیات کہیں 

لہرائی ہوئی شفق میں اوشا کا یہ روپ یہ نرم دمک مکھڑے کی سج دھج ہے انوپ تیرا بھی اڑا اڑا سا آنچل زر تار گھونگھٹ سے وہ چھنتی ہوئی رخساروں کی دھوپ

     شاعری میں فراقؔ کی غزل اور ان کی رباعی کاانداز سب سے الگ ہے ۔ انہوں نے رباعی کی صنف کو ہندوستانی ثقافت کا ترجمان بنادیا۔
      فراق جمالیاتی احساس کے شاعر ہیں۔ عشق کی جمالیات سے لے کر انقلاب کی جمالیات تک فراق کی شاعری سبھی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:47، 2 دسمبر 2022ء (م ع و)

دو پھولوں کی کاٸنات ازہر ندیم کی کتاب پر سمیراحمید کا تبصرہ[ترمیم]

محترم ازہر ندیم صاحب کی کتاب "دو پھولوں کی کائنات " پر پیاری دوست سمیرا حمید صاحبہ نے بہت شاندار تبصرہ تحریر فرمایا ہے ۔ جس میں انہوں نے شاعر اور ان کی شاعری کے موضوعات سمیت تمام پہلوؤں کا بخوبی احاطہ کیا ہے ۔

زندہ رہنے کی خاطر اک مجبوری ہو جاتی ہے نظم ضروری ہو جاتی ہے

ایم اے انگریزی نے ایک کام تو بہرحال اچھا کیا کہ ارسطو کی Poesy اور شیمس ہینی کی Redress of Poetry پڑھوا دی تاکہ اندازہ ہو کہ شاعری کو، خواہ کسی بھی دور کی ہو اسے زبردستی دوسرے شعرا سے تقابل کئے بغیر کیسے پرکھا جائے۔ criticism میں شاعر کے اپنے دور اور اردگرد کے ماحول کی اندرونی کیفیت سے ملاپ کی صورت کو الفاظ کی ساخت اور اسکے اثرات پر ہی پرکھا جاتا ہے۔

خیر نظم اور اس کی اصناف پہ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہیں اور آتی رہیں گی کیونکہ یہ ناگزیر ہے اور ہر دور کا شاعر اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں بہت سے مایہ ناز شعراء ہیں جنکی شاعری میں خیالات کی پختگی اور زباندانی پہ کوئی شک نہیں وہیں نوجوان شعرا نے بھی مختلف اسالیب پہ کام کیا اور مفلسی، انصاف، معاشرتی ناہمواری، تلخ حقائق اور اخلاقی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کے قاری کی سوچ کا رخ بدلا تو کچھ حضرات نے صرف الفاظ کی تندی و تیزی، فحش کلامی، داخلی موضوعات میں غیر ضروری دخل در اندازی اور خاص کر عورت کے جسمانی خدوخال سے چھیڑ خانی کو ہی اپنا موضوع بنایا وہیں کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جنھوں نے شاعری کی لطافت کو زندہ رکھا۔ انھی میں سر ازہر ندیم صاحب بھی شامل ہیں۔ ازہر صاحب کی شاعری سے میرا تعارف ان کے پہلے دو مجموعوں سے ہوا۔ تیسری کتاب " دو پھولوں کی کائنات " کا انتظار تھا اور اس خوبصورت تحفے پہ میں آپ کی شکر گزار ہوں۔ آپ کے پہلے مجموعے پڑھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ شاعری پہ جو مشکل وقت آن پڑا ہے اس میں آپ کی نظمیں ابھی بھی مرہم کا کام کرتی ہیں۔ نظم اگر آپ کو مسکرانے پہ مجبور کر دے تو سمجھیں حق ادا ہو گیا کیونکہ شاعری جذبات کے ایسے اظہار کا نام ہے جس سے زندگی اور نا آسودگی کا دکھ تو محسوس ہوتا ہے مگر پچھتاوا نہیں۔اپ کی نظمیں محبت کرنا نہیں محبت محسوس کرنا سکھاتی ہیں۔ بقول کیٹس A poem must strive for the infinite and that there is a real world of mortality and an ideal world of permanence. ان نظموں میں موضوع پر تسلسل سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے عنوان " دو پھولوں کی کائنات " کو سمجھنے کے لئے اسی نظم کو پڑھنا ضروری ہے جو موضوع، وزن، خیال میں نہایت جامع اور مکمل ہے۔

'دو پھولوں کی کائنات میں ہر اک چیز مکمل ہے'

' زندگی کی طرح شاعری اور محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔'

ازہر صاحب کے انداز کی خوبصورتی ہے کہ تینوں مجموعوں میں قدرتی مناظر اور کائناتی مظاہر کو جس قدر خوبصورتی سے انسانی جذبات کے ساتھ جوڑا ہے کہ انسان اپنے آپ کو قدرت کا حصہ محسوس کرتا ہے۔

یقین مانئے آپ کی نظموں میں آواز، ہنسی، خوشبو، ستاروں، رنگ، ہوا،، پھولوں، جھرنوں کا وجود الفاظ کی بنت میں اس قدر ہے کہ ان نظموں کو آواز دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کیٹس بھی کہتا ہے Poetry of Earth never ceases. "کسی آبشار کی جلترنگ ہے تیری ہنسی میں بسی ہوئی "

ان نظموں میں محبوب مادیت سے کہیں پرے رنگ اور روشنی کا استعارہ بن جاتا ہےکہ بالآخر محبت، محبوب اور نظم کی ثلیث ناگزیر ہو جاتی ہے۔ خودسپردگی کی سرشاری ایسی ہے کہ انسان انکاری نہ ہو۔ " تحیر ختم ہو جب بھی" نظموں میں حسن تجریدی ہے تو احساسات خود بخود کسی وجود میں ڈھل جاتے ہیں۔ "محبت " کے عنوان سے ان کی نظم اس کا ثبوت ہے۔

منظر نگاری اس قدر واضح ہے کہ گداز و لطیف جذبات جب کائناتی استعاروں کا لباس پہننے ہیں تو پورا منظر جاگ اٹھتا ہے۔ " آنسو اور ستارہ" " بونسائی پھولوں کا گیت"

' آج کل کی جبلی شاعری کے برعکس ازہر صاحب کی نظموں میں عورت جسم سے کہیں زیادہ ایک احساس ہے جسے حسن سے زیادہ ایک شاعر کی ضرورت ہے جو اسے ڈیفائن کرے۔ ' مسافتوں کے سبھی صحیفے تھکن کی شدت بیان کرنے سے منحرف ہیں کبھی بھی لفظوں میں درد سارا نہیں اترتا مگر مرا عہد ہے یہ تم سے ۔میں اپنے باطن کو، روح کو گواہ کرکے کہا ہوا بھی اور ان کہا بھی سبھی سنوں گا مجھے بتانا

بہت سی نظمیں محبوب کی بجائے انسان کے کائناتی وجود کو کمال طریقے سے بیان کرتی ہیں۔ انسان کی توصیف ہو۔ 'یہ خوشبو، رنگ، ہوا، تتلی اس دنیا کی تعبیریں ہیں جو سب کی سانجھی دنیا ہے ہر انساں اس کا مالک ہے یہ سانسیں ایک امانت ہیں یہ ہونا سب کا ہونا ہے'

' رات آسان ہوتی ہے ستاروں جیسے خوابوں بھری آسمان پر کہانیوں کے لفظ لکھے جاتے ہیں آنکھ اندر اور باہر دیکھ سکتی ہے ایک مہربان کل کا وجود تشکیل پاتا ہے روشنی کا اپنا غرور ہوتا ہے راستے انتظار کرتے ہیں مسکراتی ہوئی صبح آنگن میں اترتی ہے تمہیں سوچنے کی آزادی ہے۔'

' گیان زادی یقین مانو تمھارے رستے پہ آگہی کے گلاب تازہ جو منتظر ہیں وہ اپنے رنگوں کی معنویت سے داستاں کو نکھار دیں گے۔"

نارسائی کے ناگزیر دکھ کو بھی " کاش " کے دائرے میں گھومتے دیکھا ہے۔ ' ہم سیدھی سادھی زندگی گزارنے کے لئے پرانے لفظوں کے پہناوے پہنتے گئے اور بے وجہ الجھی گئے۔'

شاعر کا اپنی کیفیت کو جس کاملیت سے قاری تک پہنچانے کا سلیقہ ناصرف اس کی زباندانی پر عبور کو ظاہر کرتا ہے بلکہ وہ قاری کو اپنی مسند پہ بیٹھ کر انھیں محسوس کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

' یہ میرے خواب کے موسم زمین و آسماں کی وسعتوں سے بھی کہیں آگے ٹھکانہ ڈھونڈ آئیں گے۔'

'وہ رنگ نہیں تھے خواہش تھی جو بیل کی صورت لپٹی تھی وہ ایک شرارت لفظوں کی وہ پل تھا میرے ہونے کا۔'

' یہ درد سارا تمھارا کب ہے اب اس رفاقت میں نظم گو کا بھی ایک حصہ لکھا گیا ہے

بہت نوکدار الفاظ ہر طرح کی کیفیت کے لئے موزوں نہیں ہوتے ، عام حالات میں گلاب کے لئے آپ مخمل کا لفظ ہی منتخب کریں گے نہ کہ ٹاٹ کا، ویسی ہی ایک معصوم نظم ہے " ہو سکتا ہے"

کچھ سطریں ایسی ہیں کہ آپ رک کر انھیں اپنی خامشی دان کرتے ہیں۔

' ڈھلتی عمروں کی دیوانگی کچھ مناسب نہیں '

' ہم اپنے لفظوں کی نارسائی کا کرب ایسے لئے ہوئے ہیں کہ یہ ہماری اجاڑ شامیں کلام کرنے سے منحرف ہیں۔'

کچھ ہلکے اچھوتے، لبھاتے خیالات آپ کو می ملینگے۔"آج اک نظم کوئی اور کہے" اور " اگر وہ شخص چاہے تو" کے عنوان سے نظم ہے جو شاعری ہی کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کرتی محسوس ہوتی ہے۔

اس کتاب میں ازہر صاحب کا اپنے والد، والدہ اور اہلیہ کو پیش کیا گیا خراج تحسین قابل ستائش ہے۔

'یہ قطرہ قطرہ جو میں آگہی کو پی رہا ہوں تمھارا جیون ہی جی رہا ہوں۔'

نظم تو جیسے صنف شاعری کی تشریح کر رہی ہے کہ ایک شاعر ایک آئیڈیا ایک تصور کو کیسے تخلیق کرتا ہے۔

' وہ بات کہ جس کے اندر ایک زمانہ ہو وہ بات اگر تم لکھ ڈالو وہ بات تمھارا افسانہ وہ بات مجھے جلدی بھیجو وہ بات مری پھر نظم بنے۔'

"اگر" جب شرط ٹھہرے تو " میں ہوتا تو تمھیں رونے نہیں دیتا" جیسی نظم ہی حرف تسلی بنتی ہے۔

بنا کسی مبالغہ آرائی کے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ دل تو کرتا ہے سبھی نظمیں یہاں لکھ ڈالوں اور ان پہ بات کروں مگر کتاب کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ مختصرا ازہر ندیم صاحب نے اپنی شاعرانہ خوبی سے پہلے دو مجموعوں کی طرح تیسرے مجموعے میں بھی نظم کی صنف، محبت کے رنگ، حسن و عشق، قدرتی و کائناتی مظاہر سے جو احساسات کشید کر کے انھیں ایسے ٹھنڈے میٹھے لفظوں کا جامہ پہنایا ہے کہ بقول انھی کی نظم کے ' کوزہ و کوزہ گر ایک ہو جاتے ہیں '

سمیرا حمید محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:49، 2 دسمبر 2022ء (م ع و)

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال[ترمیم]

شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال یومِ ولادت 9 نومبر پر زندگی کے چند اوراق

حکیمُ الامت، شاعرِ مشرق ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری سے دنیا واقف ہے اور ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ علّامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں مصوّرِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔علّامہ اقبال ایک شاعر ہی نہیں عظیم مفکر، مدبّر، قانون دان بھی تھے جس نے برصغیر کے مسلمانوں، خصوصاً نوجوانوں کی راہ نمائی کی اور انھیں ایک سمت میں آگے بڑھتے ہوئے منزل تک پہنچنے کا راستہ دکھایا۔9 نومبر 1877ء کو شیخ نور محمد کے گھر آنکھ کھولنے والے محمد اقبال عہد شناس اور عہد ساز شاعر مشہور ہوئے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور پھر مشرق کو اس کی بدحالی اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو ان کی کم زوریوں اور خامیوں پر خبردار کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کی اصلاح کرتے ہوئے علم و عمل کی جانب راغب کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان نوجوان کو حیات و کائنات کو مسخر کرنے اور اسلاف کے فراموش کردہ کردار اور ورثے کو پانے اور اس کا احیا کرنے کی طرف متوجہ کیا۔اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے محض 17 سال کی عمر میں اپنے کلام سے اس وقت کے جیّد شعراء کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوامِ مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔علّامہ اقبال کا کلام دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ان کے کلام کے کئی مجموعے شایع ہوئے۔ان کا یہ شعر دیکھیے جس میں انھوں نے ایک آفاقی پیغام دیا ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:50، 2 دسمبر 2022ء (م ع و)

علامہ اقبال[ترمیم]

تحریر وتحقیق حضرت علامہ مولانا پیرمحمد عاصم ندیم چشتی صاحب

  • شاعرِ مشرق ڈاکٹرعلّامہ محمد اقبال رحمةاللہ علیہ:*

حکیمُ الامت، شاعرِ مشرق، مفکّرِ پاکستان،عظیم عاشقِ رسول، ڈاکٹر علّامہ محمد اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری سے دنیا واقف ہے اور ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ علّامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں مصوّرِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ علّامہ اقبال ایک شاعر ہی نہیں عظیم مفکر، مدبّر، ماہرقانون دان بھی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں، خصوصاً نوجوانوں کی راہنمائی کی اور انھیں ایک سمت میں آگے بڑھتے ہوئے منزل تک پہنچنے کا راستہ دکھایا۔

9 نومبر 1877ء کو شیخ نور محمد کے گھر آنکھ کھولنے والے محمد اقبال عہد شناس اور عہد ساز شاعر مشہور ہوئے۔ انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور پھر مشرق کو اس کی بدحالی اور خاص طور پر مسلمانانِ ہند کو ان کی کم زوریوں اور خامیوں پر خبردار کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کی اصلاح کرتے ہوئے علم و عمل کی جانب راغب کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان نوجوان کو حیات و کائنات کو مسخر کرنے اور اسلاف کے فراموش کردہ کردار اور ورثے کو پانے اور اس کا احیا کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے محض 17 سال کی عمر میں اپنے کلام سے اس وقت کے جیّد شعراء کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ وہ اپنے کلام سے اقوامِ مشرق پر چھائی کاہلی اور جمود کو توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ عشق، عقل، مذہب، زندگی اور فن کو اک مخصوص زاویہ سے دیکھتے تھے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانانِ عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیرِ مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ علامہ محمد اقبال كے كلام كى اصل روح اور امت مسلمه كو پيغام ﺩﯾﺎﺭِ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ ! ﻧﯿﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ, ﻧﺌﮯ ﺻﺒﺢ ﻭ ﺷﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ ﺧﺪﺍ ﺍﮔﺮ ﺩﻝِ ﻓﻄﺮﺕ ﺷﻨﺎﺱ ﺩﮮ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﮑﻮﺕِ ﻻ ﻟﮧ ﻭ ﮔﻞ ﺳﮯ ﮐﻼﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ ﻣِﺮﺍ ﻃﺮﯾﻖ ﺍﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﻘﯿﺮﯼ ﮨﮯ ﺧﻮﺩﯼ ﻧﮧ ﺑﯿﭻ، ﻏﺮﯾﺒﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:52، 2 دسمبر 2022ء (م ع و)

برقی اعظمی کی اردو شاعری[ترمیم]

برقی اعظمی کی اردو شاعری از : اسرار احمد رازی، قاسمی ڈاکٹر احمد علی برقی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ موصوف 1977 سے تا حال دہلی میں مقیم ہیں۔ ان کا تعلق ہندوستان کی مردم خیز سرزمین اعظم گڑھ شہر کے محلہ باز بہادر کے ایک علمی گھرانے سے ہے۔ شاعری کا ذوق و شوق انہیں ورثے میں ملا ہے۔ موصوف کے والد ماجد رحمت الٰہی برق اعظمی مرحوم ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر رحمت علی اکمل، ڈاکٹر شوکت علی شوکت اعظمی اور برکت علی برکت اعظمی بھی شعر و سخن سے شغف رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر برقی نے اعظم گڑھ سے ابتدائی تعلیم اور شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد دہلی میں جواہر لال نہرو یونورسٹی سے1996 میں فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی میں ملازت اختیار کرلی۔ ڈاکٹر احمد علی برقی کی شاعری کا دائرہ بہت وسیع ہے- ایک طرف ان کی شاعری میں موضوعات کا تنوع قارئین و ناظرین کو متوجہ کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی شعری خصوصیات اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر بنا لیتی ہیں۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کے جذبوں کی صداقت، کلام کی شیرینی و ملاحت اور عرض ہنر میں دیدہ و دل کی بصارت جگہ جگہ جلوہ افروز نظر آتی ہے۔ وہ نہ تو مافوق العادت اوہام و تخیلات کے اسیر ہیں اور نہ ہی ماورائیت کے دلدادہ بلکہ زمین پر ننگے پاؤں چل کر زمینی حقیقتوں کا بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں اور ان سے بے باکانہ آنکھیں ملا کر باتیں کرتے ہیں۔ ان کے افکار و خیالات میں قدامت یا باسی پن کا کوئی احساس نہیں ہوتا، تازہ کاری ان کا وصف خاص ہے۔ وہ عصر حاضر کے بیحد ترقی یافتہ سماج میں کلبلاتے درد سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وہ امن و سکون کو غارت کرنے والی جنگوں سے اجتناب کی دعوت تو دیتے ہیں لیکن زندگی کی جنگ علم و حکمت سے جیتنے کی وکالت بھی کرتے ہیں احمد علی برقی کی شاعری میں اپنائیت لئے آفاقی احساسات کچھ اس انداز میں جلوہ گر ہوتے ہیں کہ قاری انہیں اپنے دل سے بہت قریب پاتا ہے۔ برقی اعظمی کی شاعری میں وسعت، زبان و بیان کی دلکشی، لہجہ اور طرز ادا کی شیرینی، انداز بیان کی شگفتگی اور فکر و خیال کی رعنائی کے علاوہ لکھنے والوں کے لئے اس میں بہت کچھ ہے،خصوصاً موضوعات کا تنوع محققین کو راغب کرنے کے لئے کافی ہے- ان کی شخصیت کی عبقریت پر بہت سے دلائل شاہد عد ل ہیں کیونکہ انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن کا اردو ادب کی آبیاری میں بہت بڑا کردار ہے۔ ان کا قلم بے تکان لکھتا ہے، خوب لکھتا ہے اور بہت تفصیل سے لکھتا ہے ان کا اپنا رنگ ہے اپنا زاویہ نگاہ اور الگ شناخت ہے۔ ان کے کلام کی خصوصیات پر کچھ لکھناسورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ تسلسل، تغزل، انداز بیان، روانی الفاظ وترکیبات کی جیسے ایک جوئے شیریں رواں دواں نظر آتی ہے۔ وہ انتہائی زود گو، خوش گو، بسیار گو شخصیت کے مالک ہیں۔ فکر و فن کی باریکیاں ان کے آگے طفل مکتب نظر آتی ہیں بلا شبہ برقی اعظمی ایک عبقری شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی مجموعی شاعری سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک مخصوص دھارے میں بندھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ تنوع ان کی فطرت میں شامل ہے۔ ان کی غزلیں تغزل سے بھر پور اور فنکارانہ حسن کاری سے مزین ہوتی ہیں۔ تراکیب کی خوبصورتی، تشبیہات کی ندرت، الفاظ کا جادوئی دروبست، نرم وخوشنما قافیوں کے موتی، مشکل اضافتوں کے باوجود مصرعوں کی روانی اور ان سب پر مستزاد آپ کی کسر نفسی دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کی غزلیں نہایت خوبصورت ردیفوں میں طرز ادا کی خوشنمائی کے ساتھ ساتھ انفرادی طر زِفکر اور جدت پسندی کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ تجربات کی دلکشی کو کلام کی روح میں سموکر احساس کی خوشبو جگاتے ہیں اور قاری کے دل و دماغ کومتاثر کر کے جمالیاتی شعور کی آبیاری کرتے ہیں۔ ان کی سخنوری، طبیعت کی موزونیت اور روانی ہمیشہ ہی قائل کرتی ہے۔ ان کے ان اوصاف کا ہر شخص مداح ہے۔ برقی اعظمی کی موضوعاتی اور فی البدیہہ شاعری: شعر گوئی ایک بہت خوبصورت فن ہے۔ ایک اچھا شعر یا ایک خوبصورت غزل کہنے کے بعد شاعر کو روحانی فرحت و انبساط اور قلبی راحت و طمانیت کا احساس ہوتا ہے تاہم فی البدیہہ شاعری اکثر شعراء کے لئے مشکل اور ایک بہت کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ در اصل شاعر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو ”فطری شاعر“ اور دوسرے وہ لوگ جو فن شعر و شاعری سے استفادے کے بعد بالقصد یعنی ارادتاً شاعری کرتے ہیں۔ فطری شاعر پیدائشی شاعر ہوتے ہیں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی کمسن یا بالغ شخص نے کہ جس نے فن عروض یا شعر و شاعری کے بارے میں کبھی نہ کچھ پڑھا اور نہ ہی کسی سے سنا لیکن اس کی زبان سے منظوم کلام جاری ہوگیا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے شعراءکا نام محفوظ ہے جنہوں نے فن عروض سے استفادے کے بغیر لاجواب شاعری کی اور عصر حاضر میں بھی ایسے بہت سے شعراء موجود ہیں جو فطری شاعرہیں یعنی وہ بہ تکلف شاعری نہیں کرتے بلکہ شعر خود بخود ان کی زبان پر جاری ہوجاتا ہے تاہم عہد حاضر میں شعراء کی ایک تیسری قسم بھی پائی جاتی ہے جو نہ فطری شاعر ہیں اور نہ ہی ارادی شاعر ہیں ہم انہیں ”متشاعر“ کے نام سے جانتے ہیں جو بہ تکلف بھی شاعری پر قدرت نہیں رکھتے نتیجتاً انہیں کئی مواقع پر منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ برقی اعظمی کی بداہت گوئی ان کی موضوعاتی شاعری میں بہت کھل کر سامنے آئی ہے۔ وہ شاعری جو کسی خاص عنوان یا موضوع کے تحت کی جائے اسے موضوعاتی شاعری کہتے ہیں۔ ادبی شخصیات سے متعلق تعارفی تحریروں میں برقی صاحب نے اپنے ذاتی تاثرات کے علاوہ ان کی خصوصیات، کارناموں اور اختصار کے ساتھ ان کی "حیات و خدمات" پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے جو بلاشبہ ان کی قابل قدر خدمت ہے- ہماری اہم ترین ادبی شخصیات سے نوجوان نسل کو متعارف کرانے کا یہ نہایت خوبصورت اور دلپذیر انداز ہے جس کی ہند وپاک کے ادبی حلقوں میں پذیرائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے بے شمار موضوعات پر شاعری کی ہے- آج ہماری نئی نسل میں فلم، ٹی وی، موبائل اور انٹرنیٹ کے تئیں بڑھتے کریز کی وجہ سے کتابوں کی طرف سے رجحان بالکل ختم ہوتا جا رہا ہے جو علماء اور دانشوروں کے لئے لمحہ فکریہ اور پورے معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کی موضوعاتی شاعری سے متعلق ڈاکٹر غلام شبیر رانا رقمطراز ہیں ”اردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ قلی قطب شاہ سے لے کر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی تک اردو میں موضوعاتی شاعری نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال پرور اور فکر انگیز شاعری سے بے پناہ تقویت ملی۔ آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد کی مساعی سے اردو میں موضوعاتی شاعری کو ایک اہم مقام ملا۔ اس کے بعد یہ روایت مسلسل پروان چڑھتی رہی۔ عالمی شہرت کے حامل نامور شاعر محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ "موضوعاتی شاعری " کے نام سے آج سے پندرہ برس پہلے شائع ہو چکا ہے۔ اس سے یہ صداقت معلوم ہو تی ہے کہ روشن خیال ادیبوں،دانشوروں اور شاعروں نے موضوعاتی شاعری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ممتاز ادیب،شاعر،دانشور،نقاد اور محقق ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے اردو کی موضوعاتی شاعری پر بھر پور توجہ دی ہے۔ ان کی شاعری کے متعدد نمونے میرے سامنے ہیں۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اسے لا زوال بنا دیتے ہیں۔ ان کا اختصاص یہ ہے کہ وہ عظیم تخلیق کاروں کو منظوم خراج تحسین پیش کر کے ان کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پرواں چڑھانے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ اس میدان میں ان کی مساعی اپنی مثال آپ ہیں۔ جس انداز میں وہ اپنے موضوع پر طبع آزمائی کرتے ہیں اوروں سے وہ تقلیدی طورپر بھی ممکن نہیں۔ اس لا زوال اور ابد آشنا شاعری میں کوئی ان کا شریک اور سہیم دکھائی نہیں دیتا۔ مرزا اسداللہ خان غالب،میر تقی میر،احمد فراز،پروین شاکر،فیض احمد فیض،سید صادقین نقوی،مظفر وارثی اور متعدد عظیم تخلیق کاروں کو ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے جس خلوص اور دردمندی سے خراج تحسین پیش کیا وہ نہ صرف ان کی عظمت فکر کی دلیل ہے بلکہ اس طرح ان کا نام جریدہ عالم پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات ہے۔ وہ انسانی ہمدردی کے بلند ترین منصب پر فائز ہیں۔ کسی کا دکھ درد دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے ہیں اور فی البدیہہ موضوعاتی شاعری کے ذریعے وہ تزکیہ نفس کی متنوع صورتیں تلاش کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں۔ ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق کسی ایک فرد،علاقے یا نظریے سے ہرگز نہیں ان کی شاعری میں جو پیغام ہے اس کی نوعیت آفاقی ہے اور وہ انسانیت کے ساتھ روحانی وابستگی اور قلبی انس کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کے بار احسان سے اردو داں طبقے کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ انھوں نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو اشعارکے قالب میں ڈھال کر وہ معرکہ آرا کارنام انجام دیا ہے جو تاریخ ادب میں آب زرسے لکھا جائے گا“ یادِرفتگاں کے عنوان سے مرحوم ادباء، شعراء و دیگر مختلف ادبی، مذہبی، سیاسی، سماجی، فلمی اوراسپورٹس سے وابستہ شخصیات پر فی البدیہہ شاعری کی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے غالب، میر، نظیر اکبر آبادی،شاد عظیم آبادی، شکیل بدایونی، محمد رفیع، مجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی، ناصر کاظمی، پروین شاکر کے علاوہ شبلی نعمانی، سرسید، سجاد حیدر یلدرم، رحمت الٰہی برق اعظمی، اسرار الحق مجاز، جوش ملیح آبادی، جگر مرادآبادی، عبدالعزیز یاس چاند پوری،امتیاز علی تاج، ابن صفی، وزیر آغا، ابن انشاء،پروفیسر امیر حسن عابدی،ڈاکٹر قمر رئیس، مقبول فدا حسین اور نواب پٹودی جیسی تمام اہم میدانوں کی قد آور شخصیات پر انہوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے موصوف کی موضوعاتی نظمیں گلوبل وارمنگ، ماحولیات پولیو، ایڈز، سائنس اور مختلف عالمی دنوں جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس قبیل کی اب تک تحریر کردہ ان کی کاوشوں سے کئی ضخیم مجموعے تیار ہو سکتے ہیں اور یہ گرمیّ تحریر تا دم تحریر جاری ہے۔ موضوعاتی شاعری کے تحت ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے ماحولیات، سائنس، بین الاقوامی دنوں، اور آفات ارضی و سماوی وغیرہ پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ جس کا علاحدہ مجموعہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ 2010 میں جناب اعجاز عبید نے موصوف کی 50 موضوعاتی نظموں کا انتخاب ”برقی شعائیں “ کے نام سے برقی کتاب کی شکل میں شائع کیا تھا۔ موصوف برقی اعظمی نے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ "سائنس" میں 6 سال تک ہر ماہ مسلسل موضوعاتی نظمیں لکھی ہیں- مزید برآں ڈاکٹر برقی اعظمی آج بھی کئی ویب سائٹوں جیسے اردو انجمن، اردو جہاں، اردو گلبن، اردو بندھن، شام سخن، اردو دنیا، آبجو، شعر وسخن وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ آج بھی ان کی بداہت گوئی کا یہ عالم ہے کہ وہ فیس بک، اردو لٹریری فورم، محاسن ادب، انحراف ادبی گروپ، فن اور فنکار،جدید ادبی تنقید، محمد معز خان صاحب کی محفل مشاعرہ و دیگر ویب سائٹوں اور ادبی فورموں کی ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہانہ اور سہ ماہی نشستوں میں اپنی فی البدیہہ طرحی، غیر طرحی اور عام تخلیقات شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فی البدیہہ منظوم تبصرے بھی رقم فرماتے ہیں۔ وہ آج بھی فیس بک پر اور دنیا بھر کی کئی ویب سائٹوں پرفی البدیہ طرحی اور عام مشاعروں میں پابندی سے شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے درجنوں کتب پر بھی اپنے تاثرات اور تبصروں کو منظوم شکل میں پیش کیا ہے۔ موصوف نے اپنے زیر ترتیب شعری مجموعے ” روحِ سخن“ پر اپنا منظوم پیش لفظ بھی تحریر فرمایا ہے۔ ڈاکٹر برقی اعظمی کی فی البدیہہ شاعری اس وقت اپنے شباب پر ہے۔ فی الحال وہ کئی ویب سائٹوں، انٹر نیٹ کے فورموں اور بلاگوں کے لئے فی البدیہہ لکھ رہے ہیں۔ بداہت گوئی کے لحاظ سے ڈاکٹر برقی اعظمی کا فیس بک پر روز شائع ہونے والا کلام بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ کبھی کسی انگریزی نظم کا اردو میں فی البدیہہ ترجمہ پیش کردیتے ہیں، کبھی کسی مشہور و معروف شخصیت کے انتقال پر ملال پر منظوم تعزیتی پیغام اپ لوڈ کر دیتے ہیں، کبھی کسی صاحب ہنر کو اعزاز و اکرام سے نوازے جانے پر اس کی زندگی کی حصولیابیوں پر فی البدیہہ مختصر سوانح اور کارناموں پر مشتمل پرزور نظم پیش کردیتے ہیں۔ الغرض سارا دار مدار اپیلنگ پر ہے جو چیز ان کو اپیل کرتی ہے اس کے بارے میں اپنے تاثرات، خیالات، تجزیات فی الفور منظوم صورت میں حاضر کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ رسمی طور پر فیس بک پراحباب اپنی مختلف تخلیقات میں برقی صاحب کو ٹیگ کرتے ہیں جن پر اپنا مختصر تبصرہ بھی وہ اکثر اشعار کی صورت میں پیش کرتے ہیں جوان کی فی البدیہہ شاعری کی ایک بہت بڑی دلیل اور جیتی جاگتی مثال ہے۔ ان سب کے باوجودان کی گمنامی کی سب سے بڑی وجوہات میں کچھ ان کی گوناں گوں مصروفیات اور کچھ مخصوص اداروں کی بے توجہی کار فرما رہی۔ جس کی وجہ سے وہ زمینی سطح پر بہت کم آمیز واقع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر برقی اعظمی تقریبا 28 سالوں سے آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے منسلک ہیں۔ اتنے طاقتور سوشل میڈیا سے طویل وابستگی کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اس کا استعمال اپنے ذاتی مقاصد کے لئے نہیں کیا۔ حالانکہ فن شاعری میں ان کے اعلی مقام کے پیش نظر اگر وہ چاہتے تو آج پوری اردو دنیا میں برقی اعظمی کا طوطی بولتا مگر اپنی خودداری، قناعت پسندی اور عزلت پسندی کے پیش نظر وہ گوشۂ گمنامی میں قید رہے اس تلخ حقیقت کے درد کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا اسی کرب کو ایک جگہ وہ یوں بیان کرتے ہیں ویب سائٹوں پر لوگ ہیں خوش فہمی کا شکار نا آشنائے حال ہیں ہمسائے بھی مرے ایک جگہ یوں فرماتے ہیں فصیل شہر سے باہر نہیں کسی کو خبر بہت سے اہل ہنر یوں ہی مر گئے چپ چاپ یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے نمائش سے قطع نظر عزلت پسندی اور گوشہ گیری کو ترجیح دی حالانکہ وہ چاہتے تو آل انڈیا ریڈیو کی ”اردو سروس“ اور” ارددو مجلس“ کی ماہانہ نشستوں میں شریک ہوکر اپنے کلام کے جوہر دکھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اتنے پاور فل میڈیا سے وابستگی کے باوجود انہوں نے خود کو پروجیکٹ کرنے سے گریز کیا اور وہ آج بھی اپنی اسی روش پر قائم ہیں۔ اب وقت آگیا ہے اور یہ ہماری صحافتی برادری کی اب مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ”حق بحق دار رسد “ کے تحت اردو ادب میں ڈاکٹر برقی اعظمی کے مقام کا تعین کیا جائے اور ان کی خدمات کا دل کھول کر اعتراف کیا جائے۔ میدان شعروسخن میں وہ آج بھی سرگرم سفر ہیں- دہلی کی مقامی ادبی نشستوں میں پابندی سے شریک ہوتے ہیں- فیس پر موجود ان کے البم میں ایک ہزار سے زائد غزلیں اور نظمیں دیکھی جا سکتی ہیں علاوہ ازیں ان کی تخلیقات دیگر ویب سائٹوں، رسائل و اخبارات مثلا بزم سہارا، راشٹریہ سہارا، نئی دنیا، گواہ حیدر آباد، اردو لنک شکاگو، لمس کی خوشبو حیدر آباد وغیرہ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ برقی اعظمی کی شاعرانہ خصوصیات و محاسن کا احاطہ اس مختصر مضمون میں نہایت دشوار ہے میں بس اسی پر اکتفا کروں گا کہ دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسن تو بسیار محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:52، 2 دسمبر 2022ء (م ع و)

ریاض الرّحمٰن ساغر[ترمیم]

یومِ پیدائش جناب ریاض الرحمن ساغر السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ

ریاض الرحمان ساغر یکم دسمبر، 1941ء کو مولوی محمد عظیم اور صدیقاں بی بی کے ہاں بھٹنڈہ، ریاست پٹیالہ، صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے۔۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، راستے میں قافلے پر شرپسندوں کے حملے کے دوران ان کے والد جاں بحق ہو گئے۔ مزید برآں ان کا دو سال کا چھوٹا بھائی بھی دورانِ سفر بھوک اور پیاس کی وجہ سے انتقال کر گیا۔ ریاض الرحمان اور ان کی والدہ لٹے پٹے قافلے کے ہمراہ والٹن کیمپ میں پہنچے، یہاں سے ملتان چلے گئے۔ ریاض الرحمان کی والدہ نے محنت مشقت کر کے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ انہوں نے ملت ہائی اسکول ملتان سے میٹرک اور ایمرسن کالج سے بی اے (فاضل پنجابی) کیا۔ ریاض الرحمان نے نویں کلاس میں ایک انگلش نظم کا بہترین اردو ترجمہ کیا تو ان کے ٹیچر ساغر علی نے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی بہت تعریف کی اور پوری کلاس کے سامنے بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ ریاض الرحمان کو داد پانے کا یہ آسان طریقہ بہت اچھا لگا۔ چنانچہ انہوں نے استاد کے نام ہی کو اپنا تخلص رکھ کر شاعری شروع کر دی۔ ساتھ ہی ساتھ استاد شعرأ کے کلام کا مطالعہ بھی شروع کر دیا۔ یوں کالج پہنچنے تک ساغر کو قدیم و جدید شعرأ کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد ہو چکے تھے۔ ایمرسن کالج ملتان میں سیکنڈ ائیر میں طالب علموں کو جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری سنانے پر کالج سے نکال دیا گیا جن میں ریاض الرحمان بھی شامل تھے۔ 1956ء میں لاہور آ گئے اور یہاں فیض صاحب سے ملاقات ہوئی، انہیں اپنا احوال زندگی گوش گزار کیا، انہوں نے شفقت فرماتے ہوئے نوکری پر رکھ لیا، لیکن کچھ عرصہ بعد روزنامہ نوائے وقت میں روزگار کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آخری دم تک جاری رہا

تخلیقات

۔[1]کیمرا، فلم اور دنیا ( سات ملکوں کا سفر نامہ) لاہور تا بمبئی براستہ دہلی ( بھارت کا سفر نامہ) سرکاری مہمان خانہ ( جیل یاترا کااحوال) میں نے جو گیت لکھے (گیت) چلو چین چلیں (منظوم سفر نامہ) چاند جھروکے میں (شاعری) پیارے سارے گیت ہمارے (شاعری) سر ستارے (شاعری) آنگن آنگن تارے (بریاض الرحمان ساغر

وفات

یکم جون، 2013ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ۔اللّـٰهِ تعالیٰ جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

نمونہ کلام

محبت کے رد میں

پانی سی ایک چیز تھی آنکھوں کی مشک میں اس کو بھی ایک دشت میں جا کر بہا دیا

تھی آخری وہ عشق کی آیت جو یاد تھی پھر رحل ذہن سے اسے اک دن گرا دیا

اک رات کی جھلک تھی نگاہوں کے آس پاس اس کو بھی طاق ہجر پہ لا کر سجا دیا

پلکوں پہ ناچتی تھی ہمیشہ لہو کی بوند اس کو بھی عین رقص میں جا کر گرا دیا

جاگے ہوئے تھے خواب جوانی کے عہد کے تعبیر کا پلا کے نشہ پھر سلا دیا

اک باد یاد تھی کہ جو رکتی نہ تھی کبھی نسیاں کے اک دیے کو مقابل جلا دیا

وہ شخص جس کو اپنی وفاؤں پہ ناز تھا آئینہ بے وفائی کا اس کو دکھا دیا

جم کر برس رہا تھا مرے آس پاس وہ پیاسی زمیں نے اس کو بھی ٹھینگا دکھا دیا

غزل

دریا میں آنکھ آنکھ میں دریا کی پیاس ہے لگتا ہے ساتوں سمت میں صحرا کی پیاس ہے

دیکھا ہے جب سے اس کو۔ دریچے کی اوٹ سے سارے بدن میں چشم تماشا کی پیاس ہے

آنکھوں میں ساونوں کی جھڑی ہے لگی ہوئی پوروں کو ایک حسن سراپا کی پیاس ہے

گو شہر ناسپاس میں عمریں گذر گئیں کاسے میں دل کے آج بھی دنیا کی پیاس ہے

دامن دریدہ خاک بسر پھر رہے ہیں لوگ جیسے ہر ایک شخص کو لیلی کی پیاس ہے

اپنے بھرے کٹورے لئے جا رہی ہیں وہ لگتا ہے ندیوں کو بھی دریا کی پیاس ہے

                                گیت

کبھی تو نظر ملاؤ، کبھی تو قریب آؤ جو نہیں کہا ہے، کبھی تو سمجھ بھی جاؤ ہم بھی تو ہیں تمہارے، دیوانے ہو دیوانے کبھی تو نظر ملاؤ، کبھی تو قریب آؤ

ہم نے تم کو دیکھتے ہی دل دیا تم بھی سوچو تم نے ہم سے کیا کیا میرا دل نہ توڑو، کبھی دل سے دل ملاؤ ہم بھی تو ہیں تمہارے، دیوانے ہو دیوانے کبھی تو نظر ملاؤ، کبھی تو قریب آؤ جو نہیں کہا ہے، کبھی تو سمجھ بھی جاؤ ہم بھی تو ہیں تمہارے، دیوانے ہو دیوانے کبھی تو نظر ملاؤ، کبھی تو قریب آؤ

دل یہ چاہے، تیری زلفیں چوم لوں سوچتا ہوں اور تم سے کیا کہوں کوئی فیصلہ لو، کبھی تو گلے لگاؤ ہم بھی تو ہیں تمہارے، دیوانے ہو دیوانے کبھی تو نظر ملاؤ، کبھی تو قریب آؤ جو نہیں کہا ہے، کبھی تو سمجھ بھی جاؤ ہم بھی تو ہیں تمہارے، دیوانے ہو دیوانے کبھی تو نظر ملاؤ، کبھی تو قریب آؤ ریاض الرحمٰن ساغر محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 02:57، 3 دسمبر 2022ء (م ع و)

محبوب خزاں[ترمیم]

آج اردو کے منفرد غزل گو جناب محبوب خزاں کا یوم وفات ہے .

محبوب خزاں کااصل نام محمد محبوب صدیقی تھا۔ وہ موضع چندا دائر، ضلع بلیہ، اترپردیش میں محمد یوسف نامی ایک معزز ہستی کے گھرانے میں یکم جولائی 1930 ءکو پیداہوئے تھے۔ان کی عمر بارہ برس تھی جب ان کے والد محمد یوسف صدیقی کا انتقال 1942ءمیں ہوگیا۔ان کے برادربزرگ محمد ایوب صدیقی نے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی محبوب صاحب نے الہ آباد یونی ورسٹی سے 1948ءمیں گریجویشن کیا اور اس کے بعد پاکستان آگئے یہاں آکے انہوں نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا۔قیام پاکستان کے بعد آپ نے لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے 1957ءتک خدمات سرانجام دیں ۔1957ءمیں آپ ڈھاکا مشرقی پاکستان بھیج دیے گئے جہاں ڈپٹی اے جی پی آر کے عہدے پر فائز کیے گئے ۔1960ءمیں ڈھاکا سے واپس کراچی آگئے اور کچھ دنوں بعد آپ کو تہران کے سفارتی مشن پاکستان میں تعینات کیا گیا۔معروف شاعر ن،م،راشد تہران میں یونیسکو کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے محبوب صاحب سے ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ راشد کی کتاب ایران میں اجنبی پر دونوں میں تبادلہ ِ خیال بھی ہوتا رہا۔ ایک برس بعد محبوب خزاں واپس کراچی آئے اور 1990ءمیں جب اے جی پی آر سے ریٹائر ہوئے تو یہاں محب عارفی، قمر جمیل،احمد ہمدانی وغیرہ کے ساتھ شعروادب کی محفلوں میں جاتے رہے۔2000 ء میں اسلام آباد چلے گئے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ”اکیلی بستیاں“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ ان کی یہ کتاب تین کتابیں نامی ایک کتاب میں بھی شامل تھی جسے جون 1963ءمیں مکتبہِ آسی، جوہرآباد کراچی سے شائع کیا گیا تھا ۔اس کتاب میں قمر جمیل کی خواب نما اور محب عارفی کی گل آگہی بھی شامل تھیں ۔اکیلی بستیاں ایک مختصر سا مجموعہ کلام تھا لیکن اپنے معیار و انتخاب و انفرادیت میں ہزاروں صفحات کی کلیات پر بھاری تھا ۔ محبوب خزاں کا غیر مدون کلام عدنان بشیر نے تلاش رائیگاں کے نام سے ترتیب دیا ہے۔

محبوب خزاں کا انتقال 3 دسمبر 2013ء کو کراچی میں ہوا۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 09:56، 3 دسمبر 2022ء (م ع و)

یوسف ظفر[ترمیم]

یوسف ظفر کا یوم پیدائش

اردو زبان کے ممتاز شاعر مشہور ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں شامل ہیں، انھوں نے زندگی میں نامساعد حالات کا سامنا کیا، لیکن علم و ادب سے جڑے رہے اور نام و مقام بنایا۔

مختصر تعارف

نام محمد یوسف اور تخلص ظفر تھا۔ یکم دسمبر ۱۹۱۴ء کو کوہ مری میں پیدا ہوئے۔ وطن گوجرانوالہ تھا۔ تعلیم راولپنڈی اور لاہور میں حاصل کی۲۳جولائی۱۹۲۹ء کا دن یوسف ظفر صاحب کی زندگی میں انتہائی صدمے کا دن ثابت ہوا، اس دن کو شائد ہی وہ کبھی بھلا سکے ہوں کیونکہ اسی روز ان کے والد شیخ غلام رسول انتقال کا ہوا اور اسی روز انکی بڑی ہمشیرہ والد کی رحلت کا صدمہ برداشت نہ کرپائیں بے ہوش ہوئیں اور پھر خالق حقیقی سے جا ملیں یعنی ۲۳جولائی ۱۹۲۹ء کو یوسف ظفر صاحب کے گھر سے دو جنازے اٹھے شائد اسی لمحے کیلئے انہوں نے یہ شعر کہا تھا کہ پانی کو آگ کہہ کے مکر جانا چاہئے پلکوں پہ اشک بن کے ٹھہر جانا چاہئے اور پھر ان کا ایک اورشعر انکے جذبات کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ شہر لگتا ہے بیابان مجھے کہیں ملتا نہیں انسان مجھے والد اور بڑی بہن کی اچانک وفات یوسف صاحب کیلئے غم کا پہاڑ ثابت ہوئی ، والد کے انتقال سے صرف ۱۵ سال کی عمر میں گھر کی ذمہ داری انکے ناتواں کندھوں پر آ پڑی اور بڑی بہن سے جدائی کا صدمہ انہیں اندر ہی اندر کھاتا رہا۔ انتہائی نامساعد حالات میں زندگی بسر کرنیوالے یوسف ظفرمصائب اور مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے ، زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن اور کچھ کر دکھانے کی دھن تھی ۔ اپنے اردگرد کے حالات پر بھی گہرے نظر رکھتے تھے ، حساس طبیعت کے مالک تھے ، کسی کو کرب میں مبتلا دیکھتے تو اند ر ہی اندر کڑھتے رہتے لیکن بے بسی کو اپنے پر حاوی نہیں ہونے دیا ۱۹۳۶ء میں بی اے کیا۔ ۱۹۳۷ء میں وہ روزگار کی تلاش میں دہلی گئے۔ جوش ملیح آبادی سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے اپنے رسالہ’’کلیم ‘‘ کا منیجر مقرر کردیا۔ ۱۹۳۸ء میں وہ محکمۂ نہر ، لاہور میں کلرک کی اسامی پر کام کرنے لگے۔ ۱۹۴۲ء میں رسالہ’’ہمایوں‘‘ سے منسلک ہوئے۔ ۱۹۴۷ء کے اواخر میں وہ رسالہ’’ہمایوں‘‘ سے علیحدہ ہوگئے۔ ۱۹۴۸ء میں حبیب بینک، ملتان کے منیجر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں پاکستان فضائیہ میں ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۴۹ء میں ریڈیو پاکستان اسکرپٹ رائٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں راول پنڈی اسٹیشن سے وابستہ ہوئے۔ وہ دو تین دفعہ حلقہ ارباب ذوق کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔ رسالہ ’’کلیم ‘‘ کی منیجری کے زمانے میں جوش کے زیر اثر نظم کی طرف رجوع کیا۔ ۷؍ مارچ,۱۹۷۲ء کو راولپنڈی میں انتقال کرگئے راولپنڈی میں فوجی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’زنداں‘‘، ’’زہرخند‘‘، ’’نواے ساز‘‘، ’’صدا بہ صحرا‘‘ ، ’’عشق پیچاں‘‘، ’’حریم وطن‘‘۔ ڈاکٹر تصدق حسین راجا نے ’’کلیات یوسف ظفر ‘‘ مرتب کردی ہے۔

یوسف ظفر کا یوم پیدائش پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت.

ہم گرچہ دل و جان سے بیزار ہوئے ہیں خوش ہیں کہ ترے غم کے سزا وار ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی محفل میں ظفر لوگ مجھے چاہتے ہیں وہ جو کل کہتے تھے دیوانہ بھی سودائی بھی ۔۔۔۔۔۔۔ آ مرے چاند رات سونی ہے بات بنتی نہیں ستاروں سے ۔۔۔۔۔۔۔ سانس لینے کو ہی جینا نہیں کہتے ہیں ظفر زندگی تھی جو ترے وصل کا امکاں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ تھک کے پتھر کی طرح بیٹھا ہوں رستے میں ظفر جانے کب اٹھ سکوں کیا جانیے کب گھر جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے یہ طویل و سرد راتیں اور ایک حیات مختصر میں ۔۔۔۔۔۔۔ پانی کو آگ کہہ کے مکر جانا چاہئے پلکوں پہ اشک بن کے ٹھہر جانا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ باتوں سے سوا ہوتی ہے کچھ وحشت دل اور احباب پریشاں ہیں مرے طرز عمل سے ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں میں ترے جلوے لیے پھرتے ہیں ہم لوگ ہم لوگ کہ رسوا سر بازار ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بھیگی راتوں میں ظفر پھرتا ہے تنہا تنہا آہ وہ سوختہ دل سوختہ جاں آوارہ. محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:24، 3 دسمبر 2022ء (م ع و)

سجاد حیدر یلدرم سے متعلق سوال نامہ[ترمیم]

1-سجاد حیدر یلدرم کب پیدا ہوئے؟ 1880 2-یلدرم کس زبان کا لفظ ہے؟ ترکی زبان کا‛ جس کا معنی ہے تیز روشنی۔ 3- سجاد حیدر یلدرم کو کن زبانوں پر عبور تھا؟ انگریزی‛ عربی‛ فارسی‛ ترکی‛ اردو۔ 4-یلدرم راجہ صاحب محمود آباد کے سیکرٹری کب مقرر ہوئے؟ 1914 5- 1920 میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے رجسٹرار مقرر ہونے کے بعد انھوں نے یہاں کس شعبہ کی بنیاد ڈالی؟ شعبہ اردو کی۔ اور ترکی کلاس بھی کھولی۔ 6- یلدرم نے کب وفات پائی؟ 11 اپریل 1943 7- یلدرم نے افسانہ نگاری کا آغاز کب کیا؟ 1900 میں 8- ان کے زیادہ تر افسانے کس ادب سے ماخوذ ہیں؟ ترکی کی کہانیوں سے۔ 9- یلدرم کے افسانوں کا پہلا مجموعہ کون سا ہے؟ خیالستان 1910 10- خیالستان کو پنجاب یونی ورسٹی بی۔ اے اردو کے نصاب میں کس نے شامل کروایا؟ علامہ اقبال نے؟ 11- یلدرم کے افسانوں اور مضامین کا دوسرا مجموعہ کون سا ہے؟ حکایات و احتساسات 12-یلدرم کی کتاب "ثالث بالخیر" کون سا نثری مجموعہ ہے؟ ناول محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:53، 4 دسمبر 2022ء (م ع و)

ٹارزن کردار[ترمیم]

"#ٹارزن" ٹارزن (Tarzan) ایک افسانوی کردار ہے جو پہلی بار 1912ء میں امریکی مصنف ایڈگر رائس بورس (1875ء – 1950ء) نے کہانی “بندروں کا ٹارزن” (Tarzan of the Apes) میں متعارف کرایا، جس نے اس وقت بہت مقبولیت حاصل کی۔ بعض لوگ اسے افسانوی کرداروں میں سے سب سے مقبول کردار قرار دیتے ہیں۔ کہانی کی اشاعت کے بعد ٹارزن فلموں، بچوں کی کہانیوں، ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں، تیل کے اشتہاروں، بچوں کے کھلونوں، کپڑوں اور کھیلوں کے جوتوں پرنظر آیا، ٹارزن پر 1918ء سے لے کر 2014ء تک 200 فلمیں بنائی جا چکی ہیں، یہ شخصیت اتنی مقبول ہوئی کہ بعض لوگ اسے ایک حقیقی کردار سمجھنے لگے، ٹارزن پر امریکی مصنف فلپ فارمر جو سائنسی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں نے ایک نظریہ وضع کیا جس کے مطابق برطانیہ میں 13 دسمبر 1795ء کو ورلڈ نیوٹن نامی شہر پر ایک شہاب ثاقب گرتا ہے جس کے اثر سے جائے حادثہ کے قریب رہنے والے لوگوں میں وراثتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلی ان لوگوں کی آگے کی نسل میں غیر طبعی طاقتیں پیدا کردیتی ہے۔ فارمر کے مطابق اس شہر کے لوگوں کی نسل سے غیر طبعی طاقتوں کی حامل سب سے مشہور شخصیات ٹارزن، شرلاک ہولمز اور جیمز بانڈ ہیں۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ تاریخ کو اس چھوٹے سے شہر میں واقعی ایک شہابِ ثاقب گرا تھا، تاہم فارمر کا نظریہ صرف ایک فرضی مفروضہ ہے جسے انہوں نے اپنی کہانیوں میں استعمال کیا۔

(مصنف ایڈگر رائس بورس) ٹارزن کی کہانی لکھنے سے پہلے مصنف اپنی زندگی میں کئی ناکام مرحلوں سے گزرا، 1895ء میں میچگن سے عسکری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ گھوڑوں کی نمبر 17 ٹیم کا رکن بنا جس کا کام شمالی امریکا کے اصل رہائشیوں “اباٹچی” کا پیچھا کرنا تھا، لیکن اس کی عسکری زندگی اس وقت اچانک ختم ہو گئی جب اس کے دل کے ایک وال میں خرابی پائی گئی، فوج چھوڑنے کے بعد اس نے کئی دوسرے کام کیے، آخر کار سٹیشنری فروخت کرنے والا بن گیا، ایک دن جب وہ اپنی کمپنی جس کے لیے وہ کام کرتا تھا کا مال فروخت کرنے کے لیے ایک دکان والے کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک میگزین پر پڑی جس میں تصویری کہانیاں چھپی تھیں، مصنف کی یاداشتوں کے مطابق اس نے با آواز بلند اس میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا تھا “اگر لکھاری ایسی خرافات لکھنے کے لیے رقم وصول کر سکتے ہیں تو میں اس سے اچھی خرافات لکھ سکتا ہوں”. کہانی کے واقعات جو ٹارزن کی جانوروں اور جزیرے کے اصل باشندوں سے لڑائی سے بھرپور ہے سال 1908ء کے آس پاس وقوع پزیر ہوتے ہیں، مصنف ٹارزن کو ایک ایسے انسان کی شکل میں پیش کرتا ہے جو کسی حد تک ایک قدیم یونانی بت سے مشابہت رکھتا ہے اور اس کی آنکھوں کا رنگ بھورا ہوتا ہے، وہ اپنے بالوں کو وقتاً فوقتاً ایک چھری سے کاٹتا رہتا ہے جو اس کا باپ مرنے سے پہلے چھوڑ گیا تھا جب وہ شیر خوار بچہ تھا، اس کی شخصیت وحشی ہوتی ہے، بحری جہاز میں لڑائی کی وجہ سے جب بحری جہاز ایک افریقی جزیرے پر لگتا ہے، تو اس کے والدین اس جزیرے پر ایک جھونپڑی بناتے ہیں جس میں جان کلایٹن یعنی ٹارزن پیدا ہوتا ہے، ایک سال کے بعد اس کی ماں مرجاتی ہے اور اس کا باپ ایک بڑے بندر کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ اگرچہ ٹارزن سلسلے کی ابتدائی کہانیوں اور فلموں نے منقطع النظیر کامیابیاں حاصل کیں لیکن بعد کا کام ابتدائی کہانیوں اور فلموں کے درجہ تک کبھی نہیں پہنچ سکا، ساٹھ کی دہائی کے آخر اور ستر کی دہائی کے شروع میں بعض لوگوں نے ٹارزن کی کہانی کو سرے سے ایک انتہا پسند کہانی قرار دیا جس کی وجہ بعض کے خیال میں ٹارزن کا نام ہی ہے جس کا مطلب بندروں کی خیالی زبان میں “سفید چمڑی والا” بنتا ہے، جبکہ بعض کے خیال میں کہانی میں سفید کو کالے افریقیوں سے برتر جبکہ افریقیوں کو وحشی دکھایا گیا ہے، اس کے علاوہ خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی بعض تنظیموں نے ٹارزن کی شخصیت کو مرد کی عورت پر برتری کا ایک کردار قرار دیا۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:00، 6 دسمبر 2022ء (م ع و)

عبیر ابوذری[ترمیم]

بابا عبیر ابوذری کو رخصت ہوئے پچیس برس ہوگئے

پنجابی اور اردو کے مقبول شاعر عبیر ابوذری کا 7 دسمبر 1997 کو کبیر والا میں انتقال ہوا۔ عبیر ابوذری کا اصل نام شیخ عبدالرشید تھا ۔ وہ 1914ء میں جنڈیالہ گرو، ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم صرف پرائمری تک حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آ گئے اور گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے بعد ازاں لائلپور (موجودہ فیصل آباد) میں رہائش اختیار کی اور پھر ساری زندگی وہیں بسر کی، وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ شاعری نوعمری میں ہی شروع کردی تھی اور جلد ہی پنجابی کے اہم شاعروں میں شمار ہونے لگا۔۔

عبیر ابوذری کی شاعری کی چار کتابیں "پانی وچ مدھانی"، "جلیبیاں"، "رخصتی" اور "پاپڑ کرارے" شائع ہوئیں۔ 1992ء میں 'مسعود کھدر پوش' ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ پیرانہ سالی کے باوجود خود خوش رہتے اور دوسروں کو ہنساتے ۔ ان کی شاعری سن کر پہلے تو ہنسی آتی ہے مگر جب ان پر غور کریں تو آنکھیں بھیگ سی جاتی ہیں اور یہی بابا جی کی شاعری کا کمال ہے۔

نمونۂ کلام ۔۔۔

رویا ہوں تری یاد میں، دن رات مسلسل ایسے کبھی ہوتی نہیں برسات مسلسل

کانٹے کی طرح ہوں میں ‌رقیبوں کی نظر میں رہتے ہیں میری گھات میں چھ سات مسلسل

چہرے کو نئے ڈھب سے، سجاتے ہیں وہ ہر روز بنتے ہیں مری موت کے، آلات مسلسل

اجلاس کا عنوان ہے، اخلاص و مروَّت بد خوئی میں مصروف ہیں، حضرات مسلسل

ہم نے تو کوئی چیز بھی، ایجاد نہیں کی آتے ہیں نظر ان کے، کمالات مسلسل

کرتے ہیں مساوات کی، تبلیغ وہ جوں جوں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، طبقات مسلسل

ہر روز کسی شہر میں، ہوتے ہیں دھماکے رہتی ہے مرے دیس میں، شبرات مسلسل

ہر روز وہ ملتے ہیں، نئے روپ میں مجھہ کو پڑتے ہیں مری صحت پر، اثرات مسلسل

پُلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی جھاڑو نال بناون مور تے فیدہ کی بُوتھی ہو جائے ہور دی ہور تے فیدہ کی کولوں پان، بناون چور تے فیدہ کی پھڑ کے اندر دین دھسور تے فیدہ کی

اک سو تو وچ پھڑ دے نیں تے پھڑ دے رہن ست اِکونجا جڑ دے نیں تے جڑ دے رہن خلق دے پتے جھڑ دے نیں تے جھڑ دے رہن ویکھن والے سڑ دے نیں تے سڑ دے رہن

میں جے چیکاں پاواں شور تے فیدہ کی پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی

بساں لٹیاں جاندیاں نیں تے صبر شکر سنگھیاں گھٹیاں جاندیاں نیں تے صبر شکر گتاں پٹیاں جاندیاں نیں تے صبر شکر عزتاں لٹیاں جاندیاں نیں تے صبر شکر

جے میں آکھ دیاں کجھ ہور تے فیدہ کی پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی کلی پُلس دے وچ اے رشوت خوری نیں کہڑا شعبہ اے جتھے ایہہ کمزوری نیں کہڑے مال گودامے ہندی چوری نیں کہڑے امبر سر وچ گنج دی موری نیں افسرے جے نہ ورتن زور تے فیدہ کی پُلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی

ایک مشاعرے میں وہ یہ نظم سنا رہے تھے، فہمیدہ ریاض نے فراز صاحب سے پوچھا ،اس کا ترجمہ کیا ہے۔ فراز صاحب نے کہا ، ’’اس کا ترجمہ نہیں، تجربہ ہو سکتا ہے‘‘

ہم صورتِ حالات سے آگے نہ جا سکے گویا کہ اپنی ذات سے آگے نہ جاسکے

مدت ہوئی ہے گولڈن دن کی تلاش میں تاحال کالی رات سے آگے نہ جا سکے

ہم کو بھی اچھی قسم کے کھانوں کی ریجھہ ہے پر اپنے ساگ پات سے آگے نہ جا سکے

کوشش تو ہم نے بہت کی اونچے مقام کی گھر کے بنیرا جات سے آگے نہ جاسکے

غیروں نے ایجادات سے دنیا کو سُکھہ دیے ہم ہیں کہ مسئلہ جات سے آگے نہ جاسکے

آگے نہ جانے دیں گے نہ ہم خود ہی جائیں گے ہم ان بکھیڑا جات سے آگے نہ جا سکے

چسکا پڑا ہوا ہے ہمیں شعر کا تبھی ہم فعل و فاعلات سے آگے نہ جا سکے

ایہہ قوم نہ جاگی

پورا ٹِل لگایا پر ایہہ قوم نہ جاگی چُونڈیاں وَڈھ جگایا پر ایہہ قوم نہ جاگی

وَن سوَنیاں چونڈیاں نوں کئی تڑکے لائے جی شریف کنجاہی کئی تیز مصالحے پائے

پنڈ دے ٹانگے چڑھ کے پاسے وی بھنوائے پُھوک وی ماری، ٹونے شونے کم نہ آئے

انگلاں نال ہلایا پر ایہہ قوم نہ جاگی چُونڈیاں وَڈھ جگایا پر ایہہ قوم نہ جاگی

سُتی ہوئی ایس قوم دے اُتّے پسو چھڈے ڈاکٹر وی منگوائے گئے اسپیشل وڈے

ڈنڈا پیر ورھایا بھنے توڑے ہڈے پیڑھی تھلے پھیریا سوٹا آنے اڈے

ساری قوم کلہنی ہونی گھوک سلایا کوشش نال علامیاں نوں وی ہوش نہ آیا

بھئیوں بھئیوں جُتی سو سو گنڈا نال کھوایا سگریٹ دے کش لا لا ناسیں دھوں چڑہایا

گدڑ کُٹ کرایا پر ایہہ قوم نہ جاگی چُونڈیاں وَڈھ جگایا پر ایہہ قوم نہ جاگی

میں تیرے انشائیاں اتوں صدقے ویرا تیرے جئی پنجابی کتھے ارشد میرا

ہر ہر لفظ تیرا اے ٹوم، ہر نقطہ ہیرا پوہندا نہیں ایس قوم نوں گاؤزبان خمیرا

سو نسخہ ازمایا پر ایہہ قوم نہ جاگی چونڈھیاں وڈھ جگایا پر ایہہ قوم نہ جاگی

سہرا

ذِمّے داریاں دی ایہہ گٹھڑی سہرا ای برخوردارا جیوں جیوں بِھجدا جا سی کمبل ہُندا جانائیں بھارا

اج توں کنّاں سوہناں لگنائیں ، کنّاں لگنائیں پیارا ویلا ، تِیر ، جوانی جا کے مڑدے نئیں دوبارہ

سہرے والیا ، گھڑسوارا، چوتھی گُٹھہ دیا راہیا چودھویں رات دے چنّاں ، ماہیا، واگاں کھِچ سپاہیا

بہتر سی کجُھ ہور دیہاڑے رکھدوں سانبھ جوانی بہتر سی کجھ ہور دیہاڑے نہ کردوں نادانی محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:01، 7 دسمبر 2022ء (م ع و)

پطرس بخاری مختصر تعارف[ترمیم]

پطرس بخاری کا یوم وفات

پاکستان سے تعلق رکھنے والے اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں کے قادرالکلام انشا پرداز افسانہ نگار، مترجم، شاعر، معلم ماہر تعلیم ، انشائیہ نگار بلند پایہ نقاد اور ایک کام یاب مترجم ۔گلشن ِاُردو ادب میں طنز و مزاح کے رنگ بھرنے والے

براڈکاسٹر اردو ادب میں مزاح نگاری کے لئے مشہور اس کے علاوہ  اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

مختصر تعارف.

پروفیسر احمد شاہ بخاری یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایوان ادب کے پطرس بخاری، میدان تعلیم کے پروفیسر بخاری، جہان نشریات کے بڑے بخاری، دیوان سفارت کے ایمبیسڈر، اقوام متحدہ کے پروفیسر اے ایس بخاری پاکستان کے شہر پشاور میں یکم اکتوبر ۱۸۹۸ کو پیدا ہوئے

اُن کے والد سید اسد اللہ شاہ پشاور میں ایک وکیل کے منشی تھے پطرس بخاری صحیح معنوں میں ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت ایک منفرد مزاح نگار، ایک باضمیر صحافی، اعلیٰ ماہر تعلیم، عمدہ مترجم، زیرک نقّاد، قابل براڈ کاسٹر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار تھے۔
اردو ، فارسی، پشتو اور انگریزی پر انہیں سکول ہی کے زمانے میں خاصی دسترس حاصل ہوگئی تھی۔ انگریزی اتنے درست تلفّظ کے ساتھ بولتے تھے کہ سکول کی ایک تقریب میں صوبہ سرحد کے انگریز چیف کمشنر سر جارج کیمپل بے اختیار کہہ اٹھے : ’کاش میں بھی اس روانی اور مہارت سے انگریزی بول سکتا‘ پطرس بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور میں معروف اساتذہ کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی اور کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بعد میں سول اور ملٹری گزٹ کے مضامین کی اشاعت شروع ہوئی اعلیٰ تعلیم کیلئے جب کیمبرج گئے تو انگریزی شعروادب کو اس کے اصل ماحول میں جانچنے، پرکھنے کا موقعہ ملا۔ یہیں انہیں یہ خیال آیا کہ انگریزی کے چیدہ چیدہ ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا چاہئے۔ ہندوستان واپس آکر انہوں نے کئی قریبی دوستوں کو ترجمے اور تالیف کے کام کی طرف راغب کیا۔ انہیں اس بات کا شدید احساس رہتا تھا کہ: ’گیسوئے اردو ابھی منّت پذیرِ شانہ ہے‘ لیلیٰءِ اردو کے گیسو سنوارنے کی فکر انہیں اس لئے بھی دامن گیر رہتی کہ وہ اس زبان کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے اور اس کیلئے ضروری تھا کہ اردو میں جدید علوم وفنون کا خزانہ موجود ہو۔ دراصل ان کے ذہن میں حیدرآباد دکن کی طرز کا ایک ادارہ تھا جو کہ اردو کیلئے اسی طرح کی خدمات پنجاب میں سرانجام دے سکے۔ اس مقصد کیلئے انہیں فیض احمد فیض، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، حفیظ جالندھری اور پروفیسر منظور حسین جیسے عمائدین کا مکمل تعاون بھی حاصل تھا ۱۹۳۷ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا، تو پطرس کی خدمات مستعار لی گئیں اور وہ قریباً ۷ برس تک بطور ِڈائریکٹر ریڈیو سے منسلک رہے ۔قیامِ پاکستان کے بعد پطرس، لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج، لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔ ۱۹۵۰ء میں اُن کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمایندہ بنا کر بھیجا گیا۔وہ اس عہدے پر ۱۹۵۴ء تک فائز رہے۔ پطرس دسمبر ۱۹۵۷ ء میں ریٹائر ہونے والے تھے اور کولمبیا یونی ورسٹی میں پروفیسری قبول کرچکے تھے ، مگر موت نے اُنھیں مہلت نہ دی اور پطرس بخاری ۰۵ دسمبر ۱۹۵۸ء کی صبح نیویارک میں حرکت ِقلب بند ہو جانے کے باعث انتقال کر گئے پطرس بخاری کو نیویارک کے کینسیکو قبرستان میں سینکڑوں مداحوں، دوستوں اور سفارتی نمائندوں کی موجودگی میں قبر میں اُتار دیا گیا. موت کے پینتالیس برس بعد پطرس بخاری کو حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا ہے دیر آید درست آید کے مصداق اگرچہ اس اعزاز کو علمی و ادبی حلقوں میں خوش آمدید کہا گیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ پطرس کی شخصیت ایسے اعزازات سے ماوراء تھی۔ یہ فخر تو خود ’ہلال امتیاز‘ کو ہونا چاہئے کہ اسے پطرس جیسی عظیم شخصیت کے سینے پر سجنے کا موقعہ ملا. پاکستان پوسٹ نے یکم اکتوبر ۱۹۹۸ء میں پطرس بخاری کی گرانقدر ادبی، تعلیمی، ثقافتی اور سفارتی خدمات کے صلے میں آپ کے سو سالہ جشن پیدائش کے یادگار کے موقع پر ۵ روپے کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:47، 7 دسمبر 2022ء (م ع و)

عدیم ہاشمی[ترمیم]

عدؔیم ہاشمی اور پورٹریٹ۔۔۔۔۔

کم لوگ جانتے ہوں گے کہ معروف شاعر جناب فصیح الدین عدؔیم ہاشمی قادر الکلام شاعِر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے مُصوّر بھی تھے۔۔۔۔جناب شہزاد احمد کے ساتھ بہت قربت تھی۔۔۔۔عدؔیم ہاشمی نے بہت خلوص کے ساتھ شہزاد احمد کی ایک تصویر بنا کر ۔۔۔۔۔ شہزاد صاحب کو تحفے میں دی تھی۔۔۔۔۔۔۔ان کا بنایا ہُوا یہ پورٹریٹ جناب شہزاد احمد کے گھر آویزاں تھا ۔۔اس پورٹریٹ پہ عدؔیم نے شہزاد کا ہی یہ ایک مصرع لِکھا ہُوا تھا۔۔ "مَیں اس لئے ہُوں کہ ایک شخص دیکھتا ہے مجھے"

جناب شہزاد احمد اس پورٹریٹ کو بہت محبت کے ساتھ دیکھتے۔۔۔۔ اور کہا کرتے تھے کہ۔۔۔"مُجھے اس میں عدؔیم ہاشمی دکھائی دیتا ہے"۔۔۔۔جناب شہزاد احمد اکثر فرماتے کہ اپنے ہم عصر شعراء میں عدؔیم ہاشمی کی آواز۔۔۔۔ بہت نمایاں ہے۔۔۔شہزاد احمد ان حقائق سے بھی واقف تھے جو عدؔیم اور ندیم کے مستقل اختلاف کا باعِث بنے۔۔۔وہ اس تناظر میں عدؔیم ہاشمی کو درست قرار دیتے تھے۔

ہم جناب شہزاد احمد کی صاحب زادی محترمہ صاٸمہ کے شُکر گُزار ہیں کہ انہوں نے جناب عدؔیم ہاشمی کے بنائے ہوئے اس پورٹریٹ کا عکس ہمیں عطاء فرمایا۔۔۔۔۔۔ہم جناب شہزاد احمد اور جناب عدؔیم ہاشمی کے کلام کے ہمراہ نذرِ قارئین کر رہے ہیں(حکیم خلیق الرحمٰن)

جناب شہزاد احمد 👎

رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا

شہزادؔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب عدؔیم ہاشمی 👎

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیمؔ ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا ۔۔۔۔(تحریر و اِنتخاب حکیم خلیق الرحمٰن )۔۔۔۔۔۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 13:19، 7 دسمبر 2022ء (م ع و)

مرزا عبدالقادر بیدل[ترمیم]

آج فارسی کے عظیم شاعر ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل کا یوم وفات ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرزا عبدالقادر بیدل 1644ء میں عظیم آباد پٹنہ میں پیدا ہوئے اور عمر کا بیشتر حصہ وہیں بسر کیا۔ تصوف سے بڑی رغبت تھی۔ سلوک و معرفت کے سلسلے میں جن شخصیات سے فیض حاصل کیا ان میں میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی کے نام قابل ذکر ہیں۔

وہ ابتدا میں رمزی تخلص کرتے تھے بعدازاں انہوں نے اسے بدل کر بیدل کرلیا۔

ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیط اعظم، عرفان، طلسم حیرت، طور معرفت، گل زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔

مرزا عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں فارسی کے عظیم شعرا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غزلیات، مثنویوں،قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے تھے۔

غالب اور اقبال ان سے بے حد متاثر تھے۔ غالب کا ایک مشہور شعر ہے:

طرز بیدل میں ریختہ کہنا اسد اللہ خاں قیامت ہے

5 دسمبر 1720 میں وفات پائی آپ دہلی میں آسودۂ خاک ہیں۔

علامہ اقبالؒ فرماتے تھے کہ

ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل اور ورڈزورتھ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، مرزا غالب، عبدالقادر بیدل اور ورڈزورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیا کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمولینے کے باوجود، اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں اور ورڈزورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتخب اشعار

تین صدیوں بعد بیدل کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ سید نعیم حامد علی الحامد نے "بہارِ ایجادی بیدل" کے زیرعنوان کیا ہے۔ نعیم حامد خود بھی اعلیٰ درجہ کے شاعر ہیں لہذا بیدل کے خیالات و احساسات کو گرفت میں لینے میں وہ کامیاب رہے۔ مشہور اردو نقاد پروفیسر انور مسعود نے کہا ہے کہ : اردو زبان اصلی فارسی متن کے صحیح معنوں کے اظہار کی اہلیت نہیں رکھتی اسی وجہ سے ترجمہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ پروفیسر انور مسعود نے اعتراف کیا کہ نعیم حامد کی طرف سے بیدل کے کلام کا اردو ترجمہ طبع زاد شاعری کی مثال بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس ترجمہ کیلئے نعیم حامد نے 20 برس صرف کئے ہیں۔

ساری تخیلاتی بلندیوں ، مسکراہٹوں اور خیالات کی گہرائیوں کو برقرار رکھتے ہوئے ، اور دونوں زبانوں کے مانوس اور عام الفاظ کو بھی ان کی اصل شکل میں جوں کا توں رکھتے ہوئے مطالب کی پیشکشی کا کارنامہ ایک قابل قدر کام بن گیا ہے۔

چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بےگناہ جب بھی سرِ دار نظر آتے ہیں ایک نئے دور کے آثار نظر آتے ہیں سرفرازی کے سب آثار نظر آتے ہیں اہل حق دار پہ سردار نظر آتے ہیں کسی صورت میں میرا سر تری ٹھوکر میں کیا ہوگا یہ ممکن ہے کہ تیرا تاج ہوگا میری ٹھوکر میں

لالچی محترم نہیں ہوتا شرم آتی نہیں بھکاری کو شوخی بادِ صبا کی کارفرمائی کو دیکھ اس نے گلشن کا ہر اک تنکا سنہری کر دیا کوئی بھی مغموم دنیا میں نہیں میری طرح عمر پنجرے میں کٹی دیکھا نہیں صیاد کو

دل بیاد پرتو جلوہ مجسم آگ ہے سامنے سورج کے آئینہ مجسم آگ ہے

--- احمد الدین اویسی کے انگریزی مقالے (ترجمہ : رفعت صدیقی) سے انتخاب۔ (بشکریہ روزنامہ منصف ، حیدرآباد دکن) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مَشَو بیدل کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔ ———— بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔ ———— چنیں کُشتۂ حسرتِ کیستَم من؟ کہ چوں آتش از سوختن زیستَم من میں کس کی حسرت کا کشتہ ہوں کہ آتش کی طرح جلنے ہی سے میری زیست ہے۔ اگر فانیَم چیست ایں شورِ ھستی؟ و گر باقیَم از چہ فانیستَم من؟ اگر میں فانی ہوں تو پھر یہ شور ہستی کیا ہے اور اگر باقی ہوں تو پھر میرا فانی ہونا کیا ہے۔ نہ شادم، نہ محزوں، نہ خاکم، نہ گردوں نہ لفظَم، نہ مضموں، چہ معنیستم من؟ نہ شاد ہوں نہ محزوں ہوں، نہ خاک ہوں نہ گردوں ہوں، نہ لفظ ہوں، نہ مضموں ہوں، (تو پھر) میرے معانی کیا ہیں میری ہونے کا کیا مطلب ہے۔ ———— رباعی بیدل رقمِ خفی جلی می خواھی اسرارِ نبی و رمزِ ولی می خواھی خلق آئنہ است، نورِ احمد دَریاب حق فہم، اگر فہمِ علی می خواھی بیدل، تُو پنہاں اور ظاہر راز (جاننا) چاہتا ہے، نبی (ص) کے اسرار اور ولی (ع) کی رمزیں جاننا چاہتا ہے۔ (تو پھر) خلق آئینہ ہے، احمد (ص) کا نور اس میں دیکھ، اور حق کو پہچان اگر علی (ع) کو پہچاننا چاہتا ہے۔ ———— حاصِلَم زیں مزرعِ بے بَر نمی دانم چہ شُد خاک بُودَم، خُوں شُدَم، دیگر نمی دانم چہ شُد اس بے ثمر کھیتی (دنیا) سے نہیں جانتا مجھے کیا حاصل ہوا، خاک تھا، خوں ہو گیا اور اسکے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ کیا ہوا۔ دی مَن و صُوفی بہ درسِ معرفت پرداختیم از رقم گم کرد و مَن دفتر نمی دانم چہ شُد کل (روزِ ازل؟) میں اور صوفی معرفت کا سبق لے رہے تھے، اُس نے لکھا ہوا گم کر دیا اور میں نہیں جانتا کہ وہ درس (تحاریر، دفتر) کیا تھا۔ ———— دل خاکِ سرِ کوئے وفا شُد، چہ بجا شُد سر در رہِ تیغِ تو فدا شُد، چہ بجا شُد (ہمارا) دل، کوئے وفا کی خاک ہوگیا، کیا خوب ہوا، اور سر تیری راہ میں تیری تلوار پر فدا ہوگیا، کیا خوب ہوا۔ ———— با ہر کمال اندَکے آشفتگی خوش است ہر چند عقلِ کل شدۂ بے جنوں مباش ہر کمال کے ساتھ ساتھ تھوڑی آشفتگی (عشق، دیوانگی) بھی اچھی (ضروری) ہے، ہر چند کہ تُو عقلِ کُل ہی ہو جائے، جنون کے بغیر مت رہ۔ ———— عالم بہ وجودِ من و تو موجود است گر موج و حباب نیست، دریا ھم نیست یہ عالم میرے اور تیرے وجود کی وجہ سے موجود ہے، اگر موج اور بلبلے نہ ہوں تو دریا بھی نہیں ہے۔ ———— بسازِ حادثہ ہم نغمہ بُودن آرام است اگر زمانہ قیامت کُنَد تو طوفاں باش حادثہ کے ساز کے ساتھ ہم نغمہ ہونا (سُر ملانا) ہی آرام ہے، اگر زمانہ قیامت بپا کرتا ہے تو تُو طوفان بن جا۔ ———— اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل کسے جُز کافر ایمانی ندارَد بیدل اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔ ———— چہ لازم با خِرَد ھم خانہ بُودَن دو روزے می تواں دیوانہ بُودَن کیا ضروری ہے کہ ہر وقت عقل کے ساتھ ہی رہا جائے (عقل کی بات ہی سنی جائے)، دو روز دیوانہ بن کر بھی رہنا چاہیئے۔ اور اسی شعر کا پر تو اقبال کے اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ———— بُوئے گُل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل ہر کہ از بزمِ تو برخاست، پریشاں برخاست غالب نے کہا تھا کہ طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا اسد اللہ خاں قیامت ہے لیکن بیدل کے اس شعر کے ساتھ مرزا نے عجب ہی قیامت ڈھائی ہے کہ ہو بہو ترجمہ لکھ ڈالا، یعنی بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 17:19، 8 دسمبر 2022ء (م ع و)

ناصر کاظمی[ترمیم]

  1. 8دسمبر1925یوم_پیداٸش_ناصر_کاظمی۔
  1. تعارف

ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبیدار میجر تھے اور والدہ اک پڑھی لکھی خاتون انبالہ کے مشن گرلز اسکول میں ٹیچر تھیں۔ ناصر نے پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ماں کی نگرانی میں گلستاں، بوستاں، شاہنامہؑ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانہؑ آزاد، الف لیلٰیٰ، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں پڑھیں۔ بچپن میں پڑھے گئے داستانوی ادب کا اثر ان کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ ناصر نے چھٹی جماعت نیشنل اسکول پشاور سے، اور دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ انھوں نے بی اے کے لئے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا تھا، لیکن تقسیم کے ہنگاموں میں ان کو تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں پاکستان پہنچے تھے۔ ناصر نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

شاعری میں ان کے ابتدائی ماڈل میر تقی میر اور اختر شیرانی تھے۔ ان کی شاعری میں عشق کی بڑی کار فرمائی رہی۔ مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔ چنانچہ وہ پوری طرح جوان ہونے سے پہلے ہی گھائل ہو چکے تھے۔ ان کا بیان ہے "عشق، شاعری اور فن یوں تو بچپن سے ہی میرے خون میں ہے، لیکن اس ذوق کی پرورش میں ایک دو معاشقوں کا بڑا ہاتھ رہا" پہلا عشق انھوں نے تیرہ سال کی عمر میں حمیرہ نام کی اک لڑکی سے کیا ۔اور اس کے عشق میں دیوانے ہو گئے۔ ان کے کالج کے ساتھی اور دوست جیلانی کامران کا بیان ہے، "ان کا پہلا عشق حمیرہ نام کی اک لڑکی سے ہوا۔ ایک رات تو وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے کاریڈور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور دیواروں سے لپٹ رہا تھا اور حمیرہ حمیرہ کہہ رہا تھا۔ یہ 1944 کا واقعہ ہے" لیکن اس کے بعد انھوں نے جس لڑکی سے عشق کیا اس کا سراغ کسی کو نہیں لگنے دیا۔ بس وہ اسے سلمیٰ کے فرضی نام سے یاد کرتے تھے۔ یہ عشق درد بن کر ان کے وجود میں گُھل گیا اور زندگی بھر ان کو گھُلاتا رہا۔ 1952 میں انھوں نے بچپن کی اپنی اک اور محبوبہ شفیقہ بیگم سے شادی کر لی جو ان کی خالہ زاد تھیں۔ ناصر کا پچپن لاڈ پیار میں گزرا تھا اور کوئی محرومی ان کو چھو بھی نہیں گئی تھی۔ کبوتر بازی، گھوڑ سواری، سیر سپاٹا، ان کے مشاغل تھے لیکن جب پاکستان پہنچ کر ناصر کی زنگی یکسر بدل گٸی انبالہ میں اک بڑی کوٹھی میں رہنے والے ناصر کو لاہور میں پرانی انارکلی کے اک خستہ حال مکان میں دس برس رہنا پڑا۔ ہجرت کے بعد وہ بیروزگار اور بے یار و مددگار تھے۔ ان کے والدین تقسیم کی ہولناکیوں اور اس کے بعد کے مصائب زیادہ دن نہیں جھیل سکے اور چل بسے۔ ناصر نے محکمہؑ بہبود اور محکمہؑ زراعت میں چھوٹی موٹی نوکریاں کیں۔ پھر ان کے اک ہمدرد نے ضابطوں میں رعایت کرا کے ان کو ریڈیو پاکستاں میں ملازمت دلا دی اور وہ باقی زندگی اسی سے وابستہ رہے۔ ناصر نے جتنی ملازمتیں کیں، بے دلی سے کیں۔ محنت کرنا انھوں نے سیکھا ہی نہیں تھا، اسی لئے رغبت اور شوق کے باوجود وہ میوزک اور مصوری نہیں سیکھ سکے۔ وہ اک آزاد پنچھی کی طرح فطرت کے حسن میں ڈوب جانے اور اپنے داخل و خارج کی کیفیات کے نغمے سنانے کے قائل تھے۔ وہ شاعری کو اپنا مذہب کہتے تھے۔ شادی کی پہلی رات جب انھوں نے اپنی بیوی کو یہ بتایا کہ ان کی اک اور بیوی بھی ہے تو دلہن کے ہوش اڑ گئے پھر انھوں نے ان کو اپنی کتاب "برگ نے" پیش کی اور کہا کہ یہ ہے ان کی دوسری بیوی۔ یہی ان کی طرف سے دلہن کی منہ دکھائی تھی۔

  1. تصانیف۔

برگِ نَے" ”دیوان“ اور ”پہلی بارش“ ناصر کاظمی کی غزلوں کے مجموعے اور ”نشاطِ خواب“ نظموں کا مجموعہ ہے۔ سٔر کی چھایا ان کا منظوم ڈراما ہے۔ برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔

  1. وفات۔

1971ء میں معدہ کا کینسر ہو گیا اور 2 مارچ 1972 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

  1. ناصرکاظمی #NasirKazmi #یوم_پیداٸش #تعارف #8دسمبر #8dec محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 06:37، 9 دسمبر 2022ء (م ع و)

مولانا محمد علی جوہر[ترمیم]

  1. یوم_پیداٸش_مولانا_محمد_علی_جوہر 🌼🌸❤

مولانا محمد علی جوہر رام پور کے معزز وممتاز خاندان میں 10 دسمبر 1878 میں پیدا ہوئے، دو برس کی عمر میں ہی ان کے والد عبد العلی خاں کا انتقال ہوگیا، انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد ۸؍سال علی گڑھ میں گزار کر بی اے کی ڈگری حاصل کی، ان کے بڑے بھائی شوکت علی نے انتظامات کرکے انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ دلوادیا، جہاں سے انہوں نے تاریخ جدید میں بی اے آنرز کی سند حاصل کی، ان کی ذھنی وفکری تربیت میں ان کی والدہ بی اماں کا بڑا کردار تھا، مولانا محمد علی کے دل میں ملت اسلامیہ کا بڑا درد تھا، ان کی خدمات کئی لحاظ سے قابل قدر ہیں، ملک کی آزادی کی جد وجہد، تحریک خلافت، اشاعت تعلیم، فروغ اردو، عوامی بیداری بذریعہ صحافت، اور اپنی ان مخلصانہ کوشش وکاوش میں وہ بہت کامیاب رہے۔

9 جنوری 1920 کو مولانا ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دہلی پہنچے تو چاندنی چوک پر ان کا شاندار استقبال ہوا، خواجہ حسن نظامی نے استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ :

’’ دہلی کی سر زمین پر کتنے ہی عظمت وجلال والے تاجدار اور شاہزادے اور حکام بلند مقام آئے اور چلے گئے لیکن سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے بعد سے آج تک اس خلوص وعقیدت کے ساتھ شاید ہی کسی شخص کا خیر مقدم کیا گیا ہو‘‘

ان کی مشہور زمانہ اور تاریخی تقریر کے وہ الفاظ جو انہوں نے گول میز کانفرنس لندن میں کی تھی۔

’’میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ بشرطیکہ وہ آزاد ملک ھو۔ پس اگر ہندوستان میں تم ھمیں آزادی نہ دوگے تو یہاں میرے لئے ایک قبر تو تمہیں دینی پڑے گی‘‘

4 جنوری1931 کو صبح ساڑھے نو بجے لندن میں جہاں ان کا قیام تھا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اولین شیخ الجامعہ ، ہندوستان کا صف اول کا رہنما اپنے وطن سے دور دیار غیر میں ابدی نیند سوگیا، مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی خواہش کا احترام کیا گیا، جنہوں نے مولانا کے جسد خاکی کو بیت المقدس میں دفن کرنے کی تمنا ظاہر کی تھی۔ اور اس طرح مولانا کے جسد خاکی کو پیغمبروں کے مدفن اور قبلۂ اول میں دفن کیا گیا، مولانا کی قبر کے کتبے پر انہیں کا ایک شعر لکھا ھوا ھے۔

                جیتے جی تو کچھ نہ دکھلائی بہار
                 مر کے جوہرؔ آپ کے جوہر کُھلے

برطانوی ادیب ایم جی ویلز کا محمد علی کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ھے کہ ’’محمد علی نے بیک وقت برک کی زبان، میکالے کا قلم، اور نپولین کا دل پایا ھے‘‘

  1. منتخب_کلام

دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد

جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد

اک شہر آرزو پہ بھی ہونا پڑا خجل ھل من مزید کہتی ہے رحمت دعا کے بعد

لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

غیروں پہ لطف ہم سے الگ حیف ہے اگر یہ بے حجابیاں بھی ہوں عذر حیا کے بعد

ممکن ہے نالہ جبر سے رک بھی سکے اگر ہم پر تو ہے وفا کا تقاضا جفا کے بعد

ہے کس کے بل پہ حضرت جوہرؔ یہ روکشی ڈھونڈیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توحید تو یہ ھے کہ خداحشر میں کہہ دے یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ھے

کیا ڈر ھے جو ھو ساری خدائی بھی مخالف 

کافی ھے اگر ایک خدا میرے لئے ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ھے سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تو آتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ھے اسلام زندہ ھوتا ھے ھر کربلا کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی دن ہے ہماری عید کا دن جو تری یاد میں گزرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سودائی ھے اب مرا ہوش میں آنا تری رسوائی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر سینہ آہ ھے ترے پیکاں کا منتظر ھو انتخاب اے نگہ یار دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 06:02، 10 دسمبر 2022ء (م ع و)

انتظار حسین[ترمیم]

آج مشہور و معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار جناب انتظار حسین کا یوم پیدائش ہے نوٹ ان کی تاریخ پیدائش پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ واللہ و عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتظار حسین کی زندگی کا بھید بھائو اور اس کے گردتحقیق طلب پُراسرار ہالہ ان کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اس عالم رنگ وبو میں وارد ہوئے ہوں گے لیکن کب اور کہاں؟اس کے بارے میں بھی اتنی روایتیں ہیں کہ جتنی ان کے افسانوں کی تشریح کی کوششیں اور ظاہر ہے کہ انتظار حسین نے اس بھید کو مٹانے میں خود کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ وکی پیڈیا کے مطابق ان کی سالگرہ 7 دسمبر ہے بمقام ڈبائی‘ ضلع بلند شہر‘ صوبہ جات متحدہ آکرہ واودھ ہندوستان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتظار حسین کے والد کا نام منظر علی تھا۔ ان کے دادا کا نام امجد علی تھا۔ انتظار حسین کی والدہ کا نام صغریٰ بیگم اور نانا کا نام وصیت علی تھا۔

تعلیم انتظارحسین نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی رسمی تعلیم کا آغاز ان کے والد کے معتقدات اور زمانے کے تقاضوں کے درمیان کشمکش کا ایک سبب بن گیا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ روایتی مذہبی تعلیم حاصل کریں اور اسکول جانے کے سخت خلاف تھے۔ ان کی بڑی بہن نے اصرار کرکے ان کو اسکول میں داخل کروایا اور باقاعدہ تعلیم کے سلسلے کا آغاز کروایا۔ انتظار حسین نے 1942 ء میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ اور 1944 ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔

آغازِ کار اب اس بات پر مشکل سے یقین آتا ہے کہ انتظار حسین نے جب آغازِ کار میں قلم اٹھایا تو ان کا ارادہ افسانہ نگاری کا نہیں تھا۔ یہ میدان انہوں نے اپنے ایک دوست کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ خود ان کا ارادہ شاعری کرنے اور تنقید لکھنے کا تھا۔

شاعری سے افسانے تک انتظار حسین نے اپنی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے کی ۔ ن م راشد کی ’’ماورا‘‘ سے گہرا اثر قبول کیا اور اس انداز میں آزاد نظمیں لکھنے کا آغاز کیا۔ لیکن جلد ہی وہ شاعری سے افسانہ نگاری کی طرف آگئے۔

پہلی گم شدہ کتاب انتظار حسین نے اپن پہلی کتاب تقسیم اور ہجرت سے قبل مکمل کرلی تھی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کتاب کا موضوع لسانیات تھا۔ ایک گفتگو کے دوران انتظار حسین نے راقم الحروف کو بتایاکہ ایم اے کی تکمیل کے دوران ان کو لسانیات سے دلچسپی ہوگئی اور انہوں نے اردو لسانیات کے بارے میں پوری ایک کتاب لکھ ڈالی۔ وہ اس کتاب کے مسودے کے ساتھ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پاس گئے جن سے وطنی تعلق کی نسبت بھی تھی۔ مولوی عبدالحق نے ریاض الحسن کو مسودہ دکھانے کا مشودہ دیا‘ اس کتاب کے بعض حصے ایک یا دو مضامین کی صورت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے رسالے ’’جامعہ‘‘ میں شائع ہوئے۔ انتظار حسین نے اس کتاب کے مسودے ان مضامین کی کوئی نقل بھی محفوط ںہ رکھی اور لسانیات سے ان کی دلچسپی بھی اس کے ساتھ ختم ہوگئی۔

اساتذہ اپنے کالج کے زمانے کے اساتذہ میں انتظار حسین نے خصوصیت کے ساتھ پروفیسر کرار حسین کا ذکر کیا ہے کہ جن سے انہوں نے گہرا اثر قبول کیا۔ انتظار حسین کے معنوی اساتذہ میں اہم نام محمد حسن عسکری کا ہے جو افسانہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے جدید اردو ادب کا اہم نام ہیں۔ عسکری صاحب سے ان کی ملاقات میرٹھ میں ہوئی اور ان سے تعلقات کی روداد وہ ایک شخصی خاکے کی صورت میں قلم بند کرچکے ہیں۔ عسکری صاحب کے بلاوے پر ہی انہوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی و تشکیلی ادوار میں انہوں نے محمد حسن عسکری سے گہرا اثر قبول کیا۔ ان کے ابتدائی مضامین میں یہ اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے اختلاف‘ فسادات کے افسانوں کے بارے میں نقطۂ نظر او رپاکستانی ادب جیسے معاملات میں وہ محمد حسن عسکری کی اختیار کردہ راہ کے مسافر نظر آتے ہیں اور ان کے خیالات سے دور نہیں جاتے۔ لاہور میں اپنے ابتدائی دنوں میں بھی وہ محمد حسن عسکری کے زیر سایہ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ جس کا احوال انہوں نے ’’چراغوں کا دھواں‘‘ میں درج کیا ہے۔ عسکری صاحب کے توسط سے وہ ناصر کاظمی سے بھی ملے جو ان کے گہرے دوست بن گئے۔

ہجرت کے سفر سے قیام تک انتظار حسین کے سوانح اور ادبی زندگی ‘ دونوں میں ایک اہم مرحلہ پاکستان کی نوآزاد مملکت میں ان کی ہجرت ہے۔ میرٹھ سے لاہور آنے کے لیے فوری محرک محمد حسن عسکری ثابت ہوئے جنہوں نے لاہور آکر ریڈیو اکستان کے اعلانات کے ذریعے سے پیغام بھیجا اور یہاں آنے کی دعوت دی۔ اس مشورے کو قبول کرکے انتظار حسین ایک نئے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔یہ عمل چاہے کتنا بھی اضطراری رہا ہو‘ اس کے نتائج بہت دور رس نکلنے تھے اور انہوں نے ہی انتظار حسین کے آئندہ کام کو تشکیل دیا۔

ہجرت کی بازدید ہجرت انتظار حسین کے لیے کوئی سادہ سوال نہیں رہی۔ انہوں نے اس کی سیاسی تاویل بھی دہرائی ہے مگر وہ اس کو بنیادی طور پر ایک ادبی تجربے کی حیثیت سے دیکھتے آئے ہیں۔ ہجرت کا یہ عمل ایک ادبی تصو رکے طور پر بھی آغاز کار سے ہی ان کے ساتھ وابستہ ہوگیا تھا۔ یہ بہرحال ان کا after-thought ہے۔ ہجرت کا تجربہ ان کے یہاں بڑی تفصیل سے سامنے آتا ہے اور ان کی بہت سی تحریروں میں رنگ بھرتا ہے جہاں براہ راست اس کا بیان نہیں وہاں بھی اس کے مضمرات موجود ہیں۔

اچے برج لاہور دے‘‘ لاہور مں ان کا قیام عارضی ثابت نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے لیے اسی شہر کو پسند کیا۔ میرٹھ سے بڑھ کر لاہور اب ان کی ادبی شناخت کا حصہ ہے اور ’’چراغوں کا دھواں‘‘ لکھ کر تو وہ دور جدید میں اس شہر کے سب سے بڑے وقائع نگار بن گئے ہیں جنہوں نے ان کے بدلتے ہوئے در و دیوار‘ رنگ ڈھنگ اور موسم اور اس کی سبھا سجانے والے افراد کا ایک پورا نگار خانہ اپنی کتاب کے اوراق میں زندہ کر دکھایا ہے۔

حلقہ یاراں لاہور کے ابتدائی دنوں ۃیں ایک ایک کرکے وہ لوگ ملتے گئے جن سے انتظار حسین کا شب و روز کا ساتھ رہا۔

ملازمت پاکستان آنے کے بعد انتظار حسین نے پہلے پہل ہفت روزہ ’’نظام‘‘ میں مدیر کے طور پر ملازمت اختیار کی۔ اس کے بعد سے ان کا ذریعہ معاش بڑی حد تک صحافت ہی رہا۔ انہوں نے جن اخبارات مین ملازمت کی ان کی تفصیل یہ ہے۔ روزنامہ ’’امروز ‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر 1949 ء تا 1953 ء روزنامہ ’آفاق‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر او رکالم نگار 1955 ء تا 1957 ء روزنامہ ’’مشرق‘‘لاہور بہ حیثیت کالم نگار 1963 ء تا 1988 ء ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کی ادارت اس کے علاوہ ہے۔ انتظار حسین کی طویل ترین وابستگی روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے رہی جہاں وہ شہر کے حوالے سے مستقل کالم اور ادبی فیچر لکھتے رہے۔ ان تحریروں کا انتخاب کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ 1988 ء میں وہ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے ریتائر ہوگئے اور ان کے بعد آزاد قلم صحافی و ادیب کے طور پر کالم لکھتے آئے ہیں۔

انگریزی کالم نگاری اردو کے علاوہ انتظار حسین انگریزی میں بھی کالم لکھتے آئے ہیں۔ پہلے 1962 ء میں لاہور کے روزنامہ “Civil and Military Gazzette” میں ’’دیوجانس‘‘(Diogenes) کے نام سے لکھے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ لاہور کے روزنامہ Frontier Post میں 1989 ء سے فروری 1994 ء تک ہفتہ وار کالم لکھتے رہے۔ اس کالم کا عنوان Point Counter Point تھا۔ 1994 ء سے انہوں نے کراچی کے روزنامہ Dawn کی ہفتہ وار اشاعت کے لیے Point of view کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس عنوان کے تحت وہ ادبی مسائل نئی کتابیں اور اہم شخصیات کے حوالے سے لکھتے آئے ہیں۔

شادی انتظار حسین کی شادی مارچ 1966 ء میں عالیہ بیگم سے لاہور میں ہوئی۔ شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب انتظار حسین کی والدہ اور بڑی بہن نے کیا۔ عالیہ بیگم گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ گفتگو کے دوران راقم الحروف کو بتایاکہ شادی سے پہلے انہوں نے انتظار صاحب کے افسانے نہیں پڑھے تھے مگر ’’مشرق‘‘ اخبار میں ان کا کالم دیکھ کر سوچا کرتی تھیں کہ یا اللہ‘ یہ شخص کیا کبھی گھر میں بھی ٹکتا ہے۔ اس وقت انہیں اندازہ نہیں تھا کہ گھر میں نہ ٹکنے والے اس آدمی کا گھر انہی کو بسانا ہے۔ عالیہ بیگم نے اس مکان کی تعمیر میں بہت دلچسپی لی جس میں انتظار حسین کا قیام ہے۔ انتظار حسین نے اپنے کالموں کے مجموعے میں ذکر کیا ہے کہ ان کے تراشے ان کی بیگم نے سنبھال کر رکھے تھے۔ آخر عمر مین ان کی صحت گر گئی تھی۔ طویل علالت کے بعد جنوری 2005 ء میں بیگم عالیہ انتظار حسین کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تجہیز و تکفین لاہور میں ہوئی۔

غیرملکی سفر انتظار حسین نے کئی ممالک کے سفر کیے ہیں۔ سفر کے شیدائی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے سفر کے مواقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ ہندوستان‘ نیپال‘ ایران‘ ترکی‘ عرب امارات‘ جرمنی‘ ناروے‘ انگلستان‘ امریکا اور کینیڈا کا سفر کرچکے ہیں او ران میں سے بیشتر کے بارے میں وہ اپنے تاثرات کسی نہ کسی حد تک قلم بند کرچکے ہیں۔

ﺗﺼﺎﻧﯿﻒ

ﻧﺎﻭﻝ

ﺁﮔﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮨﮯ ﺑﺴﺘﯽ ﭼﺎﻧﺪ ﮔﮩﻦ ﺩﻥ ۔ ‏( ﻧﺎﻭﻟﭧ ‏)

ﺍﻓﺴﺎﻧﮯ

ﺁﺧﺮﯼ ﺁﺩﻣﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﭘﻨﺠﺮﮦ ﺧﯿﻤﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﭽﮭﻮﮮ ﮐﻨﮑﺮﮮ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﮯ ﺁﭖ ﺑﯿﺘﯽ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺩﻟﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ

ﺩﯾﮕﺮ

ﺟﻞ ﮔﺮﺟﮯ ‏( ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ‏) ﻧﻈﺮﺋﯿﮯ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ‏( ﺗﻨﻘﯿﺪ ‏) ‏

ﺍﻋﺰﺍﺯﺍﺕ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ، ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ۔ ﺳﺘﻤﺒﺮ 2014 ﺀ ، ﺁﻓﯿﺴﺮ ﺁﻑ ﺩﯼ ﺁﺭﮈﺭ ﺁﻑ ﺁﺭﭨﺲ ﺍﯾﻨﮉ ﻟﯿﭩﺮﺯ ، ﺣﮑﻮﻣﺖِ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ سے ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺣﺴﯿﻦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺩﯾﺐ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﻦ ﺑﮑﺮ ﭘﺮﺍﺋﺰ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺷﺎﺭﭦ ﻟﺴﭧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺎﺩﻣﯽ ﺍﺩﺑﯿﺎﺕ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﺩﺑﯽ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮐﻤﺎﻝ ﻓﻦ ﺍﺩﺏ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺗﮭﺎ۔

ﻭﻓﺎﺕ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﺎ 2 ﻓﺮﻭﺭﯼ 2016 ﺀ ﮐﻮ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻋﻼﻟﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ 3 ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﭙﺮﺩ ﺧﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ خالد محمود محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:25، 10 دسمبر 2022ء (م ع و)

فرعون سے متعلق[ترمیم]

فرعون، دراصل مصر کے صاحبانِ اقتدار کا شاہی لقب تھا اور یہ کوئی ایک مخصوص شخصیت نہ تھی _ اس وقت کے فرعون سر پر ایک خاص پہناوا پہنتے تھے جس پر ایک سانپ کے پھن کا تاج خاص انداز میں رکھا ہوتا تھا جو ان صاحبانِ اقتدار کے لازوال رعب و دبدبے کا استعارہ یا علامت سمجھی جاتی تھی _ میں اکثر یہ بات کہا کرتا ہو‌ں کہ آج ویسے پہناوے اور سانپ کے پھن دکھانے کا فیشن یا دور تو چلا گیا لیکن ذرا غور کرنے پر مجھے (معاذ اللہ معاذ اللہ) ہر زمینی خدا کی شخصیت سے خدائی دعوے کی بدبو محسوس ہوتی ہے _ اکثر یہ رویے معاشرے میں روپے پیسے، مال و دولت کی بہتات کی بدبو سے لے کر طاقت، جلالت، مرتبت، صحت اور حادثاتی علم کی متکبرانہ صورت میں نظر آتے ہیں _ خدائے ذوالجلال و بابرکت نے حقیقتاً انسان کو اتنا کمزور پیدا کیا ہے کہ ذرا سے تاپ (بخار) کی صورت میں وہ بالکل لاچار نظر آنے لگتا ہے _ ذرا سا غم اسے مار ہی ڈالتا ہے، ذرا سی پریشانی دراصل انسانی عمارت کی بنیادیں ہی ہلا دیتی ہے لیکن حد یہ ہے کہ یہ انسان گھمنڈی بنا پھرتا ہے _ بابرکت قرآن کریم میں اللہ عز و جل شانہ نے کیا صاف فرمایا کہ اے انسان کبھی غور کیا ہے کہ تمہاری پیدائش کا پس منظر کیا ہے _ میں سوچتا ہوں کہ اللہ کریم انسان کی پیدائش کا کوئی اور طریقہ بھی مقرر کر سکتے تھے لیکن شاید یہ حکمت کا کوئی حصہ ہوگا کہ انسان کی پیدائش وہاں سے کی جو ازخود کسی "مغرور انسان یعنی حیوان" کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے _ استغفراللہ دوستو گواہ رہنا کہ میں نے اپنی ذات کو اپنے آپ میں روند ڈالا __ ایک شعر اسی تناظر میں پیش کرتا رہتا ہوں کہ

ہر ایک ایک بشر جیسے ایک خدا ہے کوئی زمیں کے ایسے خداؤں سے اب بچائے خدا

دعا کرتا ہوں کہ اللہ کریم مجھے اور آپ کو حقیقی انسان بنے رہنے کا موقع عطا کرے تاکہ ہم اس پاک پرودگار عالم کی حقیقی بندگی کا لطف اٹھا سکیں _

عامرشریف محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:31، 11 دسمبر 2022ء (م ع و)

ایک داستان ادھوری سی[ترمیم]

اقتباس..... ایک داستان ادھوری سی مصنف: عامرشریف

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی میں رونما ہوئے بہت سے واقعات انسانی یادداشت سے آہستہ آہستہ بے دخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً وہ واقعات اور کردار بس چند شہ سرخیوں کی مانند اکا دکا کہیں ذہن میں رہ جاتے ہیں _ کبھی کہیں کسی کتاب میں ہم طالب علموں کو "یاغستان سے واپسی" پڑھایا گیا تھا جس میں مصنف اپنی سرگزشت کو اس مہارت سے قلم بند کر گیا گویا کہ جب تک میں وہ خود نوشت پڑھتا رہتا، خود کو اسی کہانی میں مجذوب اور مرکزی کردار محسوس کرتا رہتا __ یہی درحقیقت زندہ تحریر کا ایک معجزہ ہوا کرتا ہے __ کردار، اسباب، موضوعات، واقعات، حادثات بے شک علیحدہ علیحدہ نوعیت کے ہوں لیکن مشکلات کے دوش بدوش تجربات اور ان کی تاثیر تمام انسانوں کے لئے یکساں مضر اور بھیانک محسوس ہوا کرتی ہے __ تیرہ برس کی عمر میں والد صاحب کی وفات کے بعد میرے سر سے باقاعدہ سرپرستی اور راہنمائی کا سایہ اٹھ چکا تھا _ اب جو کچھ بھی مجھے سیکھنا تھا، زیادہ تر معاشرے، تجربات، غلطیوں اور اپنے وقت سے ہی سیکھنا تھا لہذا میں اس کم سن عمر میں بیک وقت نت نئے تجربات غرض ایک ایک لمحے سے زندگی میں آنے والے وقت کی راہنمائی کے لئے عرق ریزی کے مسلسل عمل سے گزر رہا تھا _ والد صاحب کے انتقال کے بعد میں کافی لاپرواہ واقع ہو چکا تھا یعنی اپنی روز مرہ زندگی جس میں کہ سب سے اہم میری تعلیم تھی، سراسر غافل ہو چکا تھا __ جس انداز میں والد صاحب مجھے پڑھایا کرتے تھے، جس نگرانی اور سنجیدگی سے میری دیکھ بھال فرمایا کرتے تھے، میں ان کی اچانک وفات کے بعد ان کے سکھائے ہوئے اصولوں کو اسی ذمہ داری کے ساتھ نبھانے کی بجائے کھیل کود، آوارہ گردی میں نسبتاً زیادہ دلچسپی لینے لگا __ اسی ناجائز آزادی کے سبب کئی ایک واقعات رونما ہوئے جن میں ایک واقعہ یوں بھی ہوا کہ ہم دوستوں میں کرکٹ کا ایک میچ طے ہوا جو کہ دراصل سکول کے دو سیکشنز کے مابین ہونا تھا __ میچ بروز جمعرات ہمارے اسکول سے نزدیک ایک وسیع و عریض آرمی گراؤنڈ میں کھیلا جانا طے پایا _ ویسے تو میں اسکول کی تمام تقریبات اور اس قسم کی مصروفیات سے راہ فرار ہی حاصل کیا کرتا تھا لیکن اس روز جب یہ میچ طے پا رہا تھا تو میں نے بھی اس میچ میں شمولیت اختیار کرنے لیے اپنے دوست زلفی سے شرماتے شرماتے استدعا کی__ میں اپنی جماعت میں ڈرا سہما، پڑھائی کو بوجھ شمار کرتے ہوئے بس سکول سے چھٹی کی نوید کے خواب دیکھا کرتا تھا تاہم اس روز میں نے معمول سے ہٹ کر میچ کھیلنے کا ارادہ کر لیا اور میری درخواست فوراً قبول کر لی گئی ___ پورا ہفتہ انتظار کے بعد میں بروز جمعرات جبکہ اسکول سے آدھی چھٹی ہوا کرتی تھی، اپنی سائیکل پر تقریبا پندرہ کلو وزنی بستہ باندھ کر دوستوں کے ہمراہ اس وسیع آرمی گراؤنڈ کی طرف نکل گیا __ اسکول میں بروز جمعرات آدھی چھٹی لگ بھگ ساڑھے گیارہ بجے تک ہو جاتی تھی، جمعۃ المبارک کی پوری چھٹی اور باقی دنوں میں دوپہر دو بجے چھٹی ہوا کرتی تھی __ اس اعتبار سے جمعرات کا دن میرے لئے باعث انبساط ہوا کرتا تھا ___ مئی جون کی سخت گرمی کا وہ دن اپنے پورے جوبن پر تھا اور تپتا سورج اپنے پورے غیظ و غضب کے ساتھ عین سر پر منڈلانے کو آ ہی رہا تھا __ اس روز بھی میں ہمیشہ کی طرح بغیر ناشتہ کیے، بھوکے پیٹ، سفید شلوار کرتے میں ملبوس، پیروں میں سخت چمڑے کی بنی دو کلو کی پشاوری چپل، خالی جیب، بھوکے پیٹ اس دن کے شدید تپتے سورج کے ساتھ دراصل کسی یدھمان کی طرح ایک سنگھرش، ایک یدھ کرنے نکل چکا تھا __

باقی آئندہ محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:46، 18 دسمبر 2022ء (م ع و)

بیاد فیض شاعر احمد فراز[ترمیم]

"بیادِ فیض"

فیض صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے اور انکی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے کیلئے احمد فراز نے "بیادِ فیض" کے نام سے ایک نظم لکھی جو آپ سب کے ساتھ شیئر کرنے جا رہی ہوں۔

قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں میں تیری بات کہ دنیا کا تذکرہ لکھوں

لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں

جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کربلا لکھوں

ترے بغیر ہے ہر نقش "نقشِ فریادی" تو پھول "دستِ صبا" پر ہے آبلہ لکھوں

مثالِ "دستِ تہہِ سنگ" تھی وفا ان کی سو کس طرح انہیں یارانِ با صفا لکھوں

حدیثِ کوچۂ قاتل ہے نامۂ زنداں سو اس کو قصۂ تعزیرِ ناروا لکھوں

جگہ جگہ ہیں "صلیبیں مرے دریچے میں" سو اسمِ عیسیٰ و منصور جا بجا لکھوں

گرفتہ دل ہے بہت "شامِ شہر یاراں" آج کہاں ہے تُو کہ تجھے حالِ دلبرا لکھوں

کہاں گیا ہے "مرے دل مرے مسافر" تُو کہ میں تجھے رہ و منزل کا ماجرا لکھوں

تو مجھ کو چھوڑ گیا لکھ کے "نسخہ ہائے وفا" میں کس طرح تجھے اے دوست بے وفا لکھوں

"شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں" خدا نکردہ کہ میں تیرا مرثیہ لکھوں.

احمد فراز محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:01، 18 دسمبر 2022ء (م ع و)

حفیظ جالندھری[ترمیم]

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی:-

آج ۔ 21 ۔ دسمبر ۔ 1982ء💐 یومِ وفات ۔ قومی ترانے کے خالق اور عظیم شاعر ۔ جناب حفیظ جالندھری ✨

21 دسمبر 1982ء کو پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری وفات پاگئے۔ حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اورسوزو ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر1982ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں۔ منتخب کلام بطورِ خراجِ تحسین:- .. عرض ہنر بھی وجہ شکایات ہو گئی چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی

دشنام کا جواب نہ سوجھا بجز سلام ظاہر مرے کلام کی اوقات ہو گئی

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

یا ضربت خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا یا پتھروں کو معرفت ذات ہو گئی

یاران بے بساط کہ ہر بازئ حیات کھیلے بغیر ہار گئے مات ہو گئی

بے رزم دن گزار لیا رتجگا مناؤ اے اہل بزم جاگ اٹھو رات ہو گئی

نکلے جو میکدے سے تو مسجد تھا ہر مقام ہر گام پر تلافئ مافات ہو گئی

حد عمل میں تھی تو عمل تھی یہی شراب رد عمل بنی تو مکافات ہو گئی

اب شکر ناقبول ہے شکوہ فضول ہے جیسے بھی ہو گئی بسر اوقات ہو گئی

وہ خوش نصیب تم سے ملاقات کیوں کرے دربان ہی سے جس کی مدارات ہو گئی

ہر ایک رہنما سے بچھڑنا پڑا مجھے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی گھات ہو گئی

یاروں کی برہمی پہ ہنسی آ گئی حفیظؔ یہ مجھ سے ایک اور بری بات ہو گئی محمد شہزاد انصاری جاگووالہ (تبادلۂ خیالشراکتیں) 23:16، 23 دسمبر 2022ء (م ع و)