تبادلۂ خیال صارف:ڈیوا جٹ بھٹی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خوش آمدید![ترمیم]

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں: اور

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید

جناب ڈیوا جٹ بھٹی کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 205,316 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس () زریہ پر طق کریں۔


ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 02:16، 18 نومبر 2020ء (م ع و)

قلعہ ڈیراوڑ[ترمیم]

قلعہ ڈیراور (ڈیوااوور )کی مختصر تاریخ تدوین وتحقیق ملک حسن امتیاز ڈیوا جٹ بھٹی 03003536780 تاریخ دانوں کے مطابق چونکہ ریاست جیسل میر اور موجودہ بہاولپور ریاست کے قدیم جٹ بھٹی راجپوت حاکم راول دیو راج بھٹی نے 800 عیسوی میں اس کی تعمیر کرائی۔ اسی لیئے اس کا نام دیو راول قلعہ تھا جو بگڑ کر ڈیوا راوڑ اور اب ڈیراور ہو گیا ہے۔ ۔ ایک اور روایت کے مطابق شری کرشن جی مہاراج جنکا جنم چندر بنسی قبیلے میں ہوا اورچندر بنسی اصلا اور نسلا جاٹ بن سندھ بن حام بن نوح علیہ اسلام کی آل میں سے ہیں کی ہی نسل سے ایک انتہاٸی خوش بخت اور جنگجو راجہ بھٹی کا جنم ہوا جو اصلاً اور نسلاُ جٹ ہی تھا مگر بعدازاں وسیع وعریض راج پاٹ کی بدولت تاریخ میں راجپوت مشہور ھوا۔ اور اس راجہ جٹ بھٹی کی نسل سے یکے بعد دیگرے کثیرالتعداد راجے مہاراجے ہوۓ جن میں سے ایک راجےکا نام راول دیو راج جٹ بھٹی بھی تھا جو کہ وادی ہاکڑہ (چولستان) کا عظیم الشان حکمران ہوگزراہے۔ اس خطے کی قدیم زبان وہی تھی جسے آجکل سراٸیکی کا نام دیا گیا ہے۔ اور سراٸیکی کے بہت سے الفاظ میں حرف” د“ عموماً حرف ”ڈ“کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔مثلاً دادا سے ڈاڈا،دانت سے ڈند،درانتی سے ڈاتری ،دینا سے ڈینا ،دیوا سے ڈیواوغیرہ وغیرہ لہازہ راجہ دیوا بھٹی کو راجہ ڈیوا بھٹی بھی کہا جاتا تھا نیز یہانپر میں آپکو یہ بھی بتاتا چلوں کہ لفظ دیوا دراصل سنسکرت یا ہندی کے لفظ دیوتا کا اختصار ہے اور اسکی مزید مختصر صورت لفظ دیو ہے۔ چنانچہ راجہ دیو نے چولستان (وادیٍ ہاکڑہ)میں جو قلعہ تعمیر کیا تھا اس دور میں اسے دیو اوور یا ڈیوا اوور کہا جاتا تھا۔”اوور“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکے معنی قلعہ/کوٹ/فورٹ کے ہیں اسی طرح ڈیوا اوور سے مراد راجہ ڈیوا بھٹی کا قلعہ ہے۔جو بعدازاں قلعہ ڈیراوڑ /ڈیراول مشہور ہوا۔ (جو بعد میں راجہ ڈیوا کے خاندان سے حاکم بہاولپور صادق خاں عباسی کےخاندان کی ملکیت بنا اور آجکل جسمیں بہاور لپور کے حکمران عباسی خاندان کے بزرگوں کے مقبرے یا مزارات ہیں ) بالکل اسی طرح جسطرح راجہ کہر یا راجہ کیہار جٹ بھٹی نے اس دور میں دریاٸے بیاس اور ستلج کے سنگم پر ایک قلعہ تعمیر کیا تھا جسے اس دور میں ”کہراوور“ (راجہ کہر جٹ بھٹی کا قلعہ)کہا جاتا تھا جو بعد میں کہروڑ اور پھر کہروڑ پکا مشہور ہوا ۔ جیسے راجہ لہو اور راجہ کسو کے قلعے ”لہواوور“,”کسواوور“ بعدازاں لاہور اور قصور مشہور ہوٸے۔ ڈیوا جٹ بھٹی 12 ترامیم


تمام مواد CC BY-SA 3.0 کے تحت میسر ہے، جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔ اخفائے راز کے اصول شرائط استعمالڈیسک ٹاپ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:17، 21 نومبر 2020ء (م ع و)

اوچ شریف کی تاریخ[ترمیم]

خطہ ٕچولستان کے قدیم شہر اچ شریف کی تاریخ

تحقیق و تدوین =ملک حسن امتیاز ڈیواجٹ بھٹی۔

پاکستان میں ملتان ، سیہون ، ٹھٹہ ، اوچ اور مٹھن کوٹ کا شمار ملک کے قدیم ترین تہذیب یافتہ اور اولیاٸے کرام کے شہروں میں ہوتا ہے . قدیم ترین شہروں کے باعث یہ ماضی میں کٸی قدیم ترین تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز اور گہوارہ رہے ہیں . ملتان ، سیہون ، ٹھٹہ اور اوچ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں ہزاروں بلکہ لاکھوں اولیاٸے کرام و بزرگانِ دین کے مزارات ہیں . ملتان کو تو اولیاٸے کرام کی کثرت کے باعث مدینتہ الااولیا ٕ بھی کہا جاتا ہے . اولیاٸے کرام کے مساکن ان قدیم شہروں نے کٸی عروج و زوال دیکھے ہیں اور یہ شہر کٸی بار آباد اور برباد ہوتے رہے ہیں . تاریخ و تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کے حامل اولیاٶں کی سرزمین میں سے ایک شہر اوچ شریف کی تاریخ کا مختصر احوال یہاں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے .

پنجاب کے ضلع بہاولپور کا یہ شہر ماضی میں قدیم تہذیبوں ، تمدنوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے . علم و ادب اور رشد و ہدایت کا بھی یہ شہر سرچشمہ رہا ہے . اس شہر پر مختلف ادوار میں مختلف قباٸل نے حکمرانی کی ہے جن میں سب سے زیادہ عرصہ تک جٹ بھٹی قبیلے کی حکمرانی رہی ہے . جب 325 ق م میں سکندر اعظم نے اس شہر پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں پر جٹ بھٹی قبیلہ کا راجہ بادشاہ تھا ۔ جنہوں نے سکندر اعظم کی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا . اس شہر کی خوش بختی اس وقت شروع ہوٸی جب سلطان ناصر الدین قباچہ نے اوچ کو اپنی سلطنت کا دارالحکومت اور تخت گاہ بنایا . اس دور میں اس کی تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا اور اس سے اس شہر کی خوب شہرت ہوٸی اور اس کی یہ شہرت دور دور تک پھیل گٸی . اوچ کی شہرت اور ترقی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رح ٦٤٣ ھ میں بخارا سے بھکر ہوتے ہوٸے یہاں تشریف لاٸے . اس وقت بھی اوچ پر جٹ بھٹی قبیلے کا راجہ دیو سنگھ المعروف ڈیوا سنگھ جٹ بھٹی حکمران تھا۔ اور یہ شہراسی کی نسبت سے دیو گڑھ کے نام سے منسوب تھا . حضرت شیر شاہ سرخ پوش بخاری رح نے راجہ ڈیوا سنگھ یا راجہ دیو سنگھ کو اسلام کی دعوت دی جو اس نےقبول نہیں کی مگر اس کی راجکماری بیٹی اوچاں رانی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان ہو گٸی . حضرت سرخ پوش رح نے سعادت مند اوچاں رانی کے نام کو دوام بخشنے کی غرض سے دیوا گڑھ کو اوچاں رانی کی نسبت سے اوچ کا نام دے دیا جو کہ بعد میں حضرت سرخ پوش رح کی وفات کے بعد یہاں مدفن ہونے اور ان کی نسبت سے اوچ شریف کے نام سے مشہور ہو گیا .

اوچ شریف میں سیکڑوں اولیاٸے کرام کی ابدی آرام گاہیں اور مزارات و مقبرے ہیں جن کی زیارت کی غرض سے ملک بھر سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اور مریدین آ کر حاضری دیتے ہیں . اوچ شریف میں جو اولیاٸےکرام مدفن ہیں ان میں حاجی سید بہاول حلیم رح ، سید محمود سید بہاوالدین ، سید محمد غوث شاہ بخاری ، سید ابو سعید سلطان سید احمد کبیر ، سید صدرالدین راجن قتال اور سید ناصر الدین محمود رح و دیگر صاحبِ کشف و کرامات شامل ہیں اور اس وقت سب سے زیادہ حضرت سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت رح اوچ شریف شہر کی وجہ شہرت بنے ہوٸے ہیں اور ان کا مزار مبارک مرجع خلاٸق بنا ہوا ہے . . اوچ شریف کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں حضرت بلھے شاہ رحمتہ علیہ نے بھی ایک کلام تخلیق کیا جو بہت مشہور ہوا لیکن مجھے صحیح یاد نہیں ہے تاہم اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے

تساں اوچے تواڈا شہر وی اوچا تساں اوچ شہر دے واسی

اساں قصوری اساڈا شہر وی قصور اساں شہر قصور دے واسی۔ نیز ایک دوسری روایت کے مطابق اولیا کرام کی سر زمین اوچشریف سابق ریاست بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے مغرب کی جانب 21 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ تاریخی شہر مذہبی ، ثقافتی ، تجارتی و علمی و روحانی حیثیت کا حامل رہا ہے قبل از مسیح یہ شہر بہت بڑا تجارتی اور فوجی مرکز ہونے کے باوجود 36 مربع میل حدودِ اربعہ کا شہر ہوتا ہوگا، مگر اب یہ ایک اجڑا دیار ہے۔ جہاں یہ خطہ فاتحین کی عتابی نگاہوں کے پیشِ نظر رہا وہاں یہ سر زمین خیر کے داعی انسانوں ، راموں ، گروؤں ، لاماؤں ، گیانیوں ، سادھوؤں اور طلوعِ اسلام کے بعد اولیا کرام کی توجہ کا مرکز رہی۔ حضور ختم المرتبت ﷺ کی آل اطہار جتنی کثرت سے اس سر زمین پر آ کر آباد ہوئی ، زمانے کے کسی اور خطے میں نہیں ہوئی۔ اگر اس کو تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت نوح علیہ اسلام کے بیٹے یافث نے ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح اس شہر کی بنیاد رکھی۔ اوچ شریف کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہےیہ شہر حملوں اور قدرتی آفتوں کی زد میں رہا ہے۔ شکست و ریخت اس کا مقدر بنی۔ ہر فاتح اس شہر کو فتح کرنے کے بعد آگ لگا دیتا تھا اور اس کو بگڑتے سنورتے کئی عرصے لگ جاتے ۔ سونے کی چڑیا ہونے کی وجہ سے ہر آنے والے حکمران کی نظریں اس شہر پر جمی رہیں ۔ وسیع حدودِ اربعہ رکھنے کے باوجود اب یہ شہر گلیوں کوچوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہزاروں سال سے آباد اس شہر کا وجود ابھی تک قائم ہے تاہم حکمرانوں کی باہمی جنگ و جدل سے ہونے والی تباہی کے اثرات ۔اورشہر کی تباہ کاریوں کی کہانیاں صدیوں پرانی چلی آ رہی ہیں ۔ ماضی میں اس کے مختلف نام رہے۔ اچھ، اوچ ، اوسا، الیگزینڈرہ۔

ایک اور روایت کے مطابق بارہویں صدی میں یہاں کا ہندو راجہ جے پال جٹ بھٹی تخت نشین تھا ۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں ۔ ایک کا نام اوچھا رانی جس کے نام پر اوچ آباد کیا گیا ۔دوسری بیٹی کا نام سیتا رانی تھا ، جس کے نام پر سیت پور آباد ہوا (جو کہ اب بھی موجود ہے)

جب حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری ؒ اوچشریف تشریف لائےتو اوچ کا نام دیو گڑھ تھا۔کیونکہ اس وقت بھی اوچ پر جٹ بھٹی قبیلے کا راجہ دیو سنگھ المعروف ڈیوا سنگھ جٹ بھٹی حکمران تھا۔ اور یہ شہراسی کی نسبت سے دیو گڑھ کے نام سے منسوب تھا .اور موجودہ چولستانی قلعہ ڈیراوڑ بھی اسوقت راجہ ڈیوا جٹ بھٹی کی نسبت سے ”ڈیوا اوور“ مشہور تھا ”اوور“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکے معنی قلعہ کے ہیں۔جسطرح راجہ کہر یا راجہ کیہار جٹ بھٹی نے اس دور میں دریاٸے بیاس اور ستلج کے سنگم پر ایک قلعہ تعمیر کیا تھا جسے اس دور میں ”کہراوور“(راجہ کہر جٹ بھٹی کا قلعہ)کہا جاتا تھا جو بعد میں کہروڑ اور پھر کہروڑ پکا مشہور ہوا ۔ جیسے راجہ رام کے بیٹے راجہ لہو اور راجہ کسو کے قلعے ”لہواوور“,”کسواوور“ بعدازاں لاہور اور قصور مشہور ہوٸے۔ مشہور سیاح ابنِ بطوطہ بھکر سے ہوتا ہوا جب اوچشریف پہنچا تو اسے تجارتی شہر پایا ۔ (یہاں تجارتی سلسلہ دریائی ہوتا تھا)ابنِ بطوطہ یہاں سے ہوتا ہوا دریائی راستوں سے عرب چلاگیا۔ سینکڑوں دفعہ اس شہر کے محا صرے ہوئے ۔ تباہی اور بربادی سے ہزاروں مکان ٹیلوں کی شکل اختیار کر گئے۔ لاکھوں انسان موت کی نذر ہو گئے۔تاریخی آثار آج بھی اس کی بربادی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ دھرم شالے ، پریم مندر ، شمشان بھومی وغیرہ کے آثارِ قدیمہ اور کھنڈرات وضح طور پر محسوس ہوتے ہیں ۔ خدا جانے اسے کتنی بار اجاڑا گیا ۔ کتنے مکین دفن ہوئے ، کتنے بے گناہ انسان زندہ جلا دئیے گئے۔ یہاں پر 2 ہزار سال پرانی قبریں ، انسانی ڈھانچے ، کھوپڑیاں ، ہڈیاں ان ٹیلوں نما دیواروں میں پیوست نظر آتی ہیں ۔ بعض اوقات بارش کے بعد پرانے مکانوں کی بنیادیں واضح طور پر نظر آجاتی ہیں، اور کئی پرانے سکے ، پارنی چیزیں ان ملبوں سے مل جاتی ہیں ۔ خبر نہیں تہہ نشین ان ٹیلوں میں کتنے نوادرات دفن ہیں ۔ اگر آثارِ قدیمہ والے توجہ دیں تو موہنجوداڑو ، ہڑپہ جیسی چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں ایک روایت ہے کہ سندھ کے قدیم نسلاًجٹ اور مذہباً بدھ مت حاکم راۓ ڈیوا جی خاندان کے بعد آنیوالے ہندو برہمن حاکم راجہ چچ نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس شہر کو ملتان پہنچنے کے دوران محاصرہ کر کے اپنے قبضے میں لے لیا۔ جبکہ پانچ سو سال قبل حسن ارغونی نے اس شہر کو جلا کر راکھ کر دیا ۔ اس وقت اوچ شریف قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ سکندرِ اعظم کی فتح کے بعد اوچ کو سکندریہ کے نام سے پکارا جانے لگا ۔ جب سکندر یہاں سے واپس لوٹا تو اس نے اس شہر کو کچھ معاہدوں کے تحت ایک جٹ راجے پورس کے حوالے کیا ۔ 1005ء میں سلطان محمود غزنوی نے اس شہر پر حملہ کیا، اور راجہ جے پال بھٹی کو شکست دی۔ 1075ء میں شہاب الدین غور ی نے اس شہر پر اپنا تسلط قائم کیا۔ سلطان جلال الدین شاہ خوارزم 1221 ھ چنگیز خان سے شکست کھا کر دریائے سندھ عبور کرکے فرار ہوا ۔ سندھ پہنچنے کے بعد ناصر الدین قباچہ اور شمس الدین التمش سے مدد کی درخواست کی لیکن بے سود۔جب ناامید واپس جانے لگا تو شہر اوچ کو آگ لگا دی ۔ گیارہویں صدی عیسوی کے آخر میں جنوبی ہند کے بہت مشہور شہروں میں اوچ شریف کا شمار ہونے لگا ۔ اس کے بعد یہ شہر جٹ بھٹی خاندان کے بادشاہوں کے زیرِ اقتدار رہا۔ جنہیں بعد کے مورخین نے راجپوت حکمران بھی لکھا۔درحقیقت یہ بھٹی حاکمین نسلاً خالصتاً جٹ ہی تھے اور راجپوت لفظ بطور لقب/ ٹاٸٹل یا خطاب کے استعمال کرتے تھے۔

سادات کرام کی اوچ شریف میں آمد:۔ روایت ہے کہ پہلے سادات عظام کی آمد ساحلِ مکران پر ہوئی ۔ سندھ کے جٹ بھٹی حکمرانوں اور عباسی حکمرانوں صادقین نے انھیں از حد عزت و توقیر اور پذیرائی دی ، تو یہ سلسلہ مکران سے لے کر اوچ اور ملتان اور اس کے بعد ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا ۔ اوچشریف میں سب سے پہلے بزرگ سیدنا صفی الدین حقانی گارزونی تشریف فرما ہوئے ۔ پھر اولیا کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:26، 21 نومبر 2020ء (م ع و)

ڈیوا جٹ بھٹی قبیلہ[ترمیم]

ڈیوا (جٹ بھٹی) خاندان کا تاریخی پس منظرٰ:

تمام مورخین اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ بھٹی قبیلہ ہندووں کے اوتار شری کرشن جی مہاراج کی آل سے ہے ۔ کرشن دیوتا کا جنم چندر بنسی خاندان میں ہوا اور چندر بنسی اصلاً ونسلاً جاٹ تھے جوکہ سندھ بن حام بن نوح علیہ اسلام کی نسل سے ہیں ۔جنکاسب سے بڑا کسب کاشتکاری تھا جو انھیں اپنے جد اعظم بابا آدم سے ورثے میں ملا تھا ۔بابا آدم علیہ اسلام کو کاشتکاری خود خداٸے بزرگ وبرتر نے الہامی طریقے سے سکھاٸی تھی۔زمین پر سب سے پہلے کاشتکاربابا آدم ہی ہیں۔ بعض لوگ کاشتکار کو جٹ کہتے ہیں اگر انکی بات کو درست تسلیم کر لیا جاٸے تو زمین پر سب سے پہلے جٹ حضرت آدم علیہ اسلام ہی بنتے ہیں۔جبکہ درحقیقت جٹ یا جاٹ نامی بزرگ سندھ بن حام بن نوح کی نسل سے تھا۔مگر کہچھ مورخین کے نز دیک حضرت جاٹ بن سندھ سام بن نوح علیہ اسلام کی نسل سے تھا۔نیز ہندھ اور سندھ دونوں سگے بھاٸی تھے اور یہی دونوں برصغیر پاک و ہند کے تمام جٹ اور راجپوت قباٸل کے اصل اجداد ہیں اور یہی اس خطے کے قدیم ترین حقیقی باشندے ہیں۔جاٹ بن سندھ کی نسل سے نکلنے والے انگنت قباٸل نے آپ راجی دور میں کثیر علاقوں پر راج کیا جسکی وجہ سے وہ جٹ قباٸل بعدازاں تاریخ میں بطور راجپوت مشہور ہوٸے۔اس دور میں بہت سے غیر جٹ قباٸل نے بھی راج پاٹ کیا اور وہ بھی تاریخ میں بعدازاں راجپوت مشہور ہوٸے جو نسلًا جٹ راجپوتوں سے الگ ہیں۔ شری کرشن کی ہی نسل سے ایک انتہاٸی خوش بخت اور جنگجو راجہ بھٹی کا جنم ہوا جو اصلاً اور نسلاُ جٹ ہی تھا مگر بعدازاں وسیع وعریض راج پاٹ کی بدولت تاریخ میں راجپوت مشہور ھوا۔ اور اس راجہ جٹ بھٹی کی نسل سے یکے بعد دیگرے کثیراتعداد راجے مہاراجے ہوۓ جن میں سے ایک راجہ دیو جٹ بھی وادی ہاکڑہ (چولستان) میں ہوا اس خطے کی قدیم زبان وہی تھی جسے آجکل سراٸیکی کا نام دیا گیا ہے۔ اور سراٸیکی کے بہت سے الفاظ میں حرف” د“ عموماً حرف ”ڈ“کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔مثلاً دادا سے ڈاڈا،دانت سے ڈند،درانتی سے ڈاتری ،دینا سے ڈینا ،دیوا سے ڈیواوغیرہ وغیرہ لہازہ راجہ دیوا بھٹی کو راجہ ڈیوا بھٹی بھی کہا جاتا تھا نیز راجہ دیو نے چولستان (وادیٍ ہاکڑہ)میں جو قلعہ تعمیر کیا تھا اس دور میں اسے دیو اوور یا ڈیوا اوور کہا جاتا تھا۔”اوور“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکے معنی قلعہ/کوٹ/فورٹ کے ہیں اسی طرح ڈیوا اوور سے مراد راجہ ڈیوا بھٹی کا قلعہ ہے۔جو بعدازاں قلعہ ڈیراوڑ /ڈیراول مشہور ہوا۔ (جو بعد میں راجہ ڈیوا کے خاندان سے حاکم بہاولپور صادق خاں عباسی کےخاندان کی ملکیت بنا اور آجکل جسمیں بہاور لپور کے حکمران عباسی خاندان کے بزرگوں کے مقبرے یا مزارات ہیں ) بالکل اسی طرح جسطرح راجہ کہر یا راجہ کیہار جٹ بھٹی نے اس دور میں دریاٸے بیاس اور ستلج کے سنگم پر ایک قلعہ تعمیر کیا تھا جسے اس دور میں ”کہراوور“ (راجہ کہر جٹ بھٹی کا قلعہ)کہا جاتا تھا جو بعد میں کہروڑ اور پھر کہروڑ پکا مشہور ہوا ۔ جیسے راجہ لہو اور راجہ کسو کے قلعے ”لہواوور“,”کسواوور“ بعدازاں لاہور اور قصور مشہور ہوٸے۔ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:30، 21 نومبر 2020ء (م ع و)

جٹ راجپوت کی حقیقت[ترمیم]

جٹ راجپوت کی حقیقت تحریر# ڈاکٹر و محقق ملک حسن امتیاز ڈیوا جٹ بھٹی ساکن چیلے واہن تحصیل کہروڑ پکا ضلع لودھراں بھائ جی جٹ ایک جدی قبیلہ تھا جو کہ طاقت غیرت اور حکمرانی میں اپنی مثال آپ تھا جسکا جد اعظم حضرت جٹ بن سندھ تھا علامہ طبری کیمطابق سندھ بن کوش بن حام بن نوح علیہ ا سلام ہے جبکہ امام ابن خلدون کیمطابق ہند اور سندھ کا سام بن نوح علیہ اسلام کی نسل سے تھے جبکہ راجپوت ایک قبائلی لقب ہے کوئ مخصوص جدی قبیلہ ہرگز ہرگز نہیں جٹوں کے بہت سے قبائل اک مخصوص دور میں اپنے اپنے علاقوں کے حکمران تھے تو اس مخصوص دور میں کسی بھی حاکم کو راجہ کہا جاتآ تھا.چناچہ اس دور میں حکمرانی کرنے والے تمام جٹ قبائل راجپوت کے طور پر مشہور ہوئے مگر وہ اپنے جدی قبیلے جٹ کو بھی نہ بھولے چنانچہ جٹ حکمران قبائل جٹ راجپوت کے طور پر آجتک مشہور چلےآتے ہیں جٹ انکا قبیلہ جبکہ راجپوت انکا قبائلی لقب ہے .اسی طرح دیگر قبائل کے جو حکمران اس دور میں گزرے ہیں وہ بھی راجہ کہلاتے تھے اور انکی تمام اولاد راجپوت کہلائ (راجہ تو خود حاکم ہوتا تھا جبکہ راجپوت اسکی اولاد کا خطاب ہوتا تھا) چونکہ اس دور میں بیشتر حکمران قبائل جٹ ہی تھے اسلیئے زیادہ تر جٹ قبائل راجپوت ہی ہیں.اور باقی قبائل کے راجپوت, جٹ راجپوت نہیں کہلا سکتے.جٹ ایک نہایت قدیم قبیلہ ہے جسکا آغاز حضرت نوح علیہ اسلام کی چوتھی یا پانچویں پشت سے ہوتا ہے چنانچہ یہ قبیلہ قدیم الایام ہونے کیوجہ سے کثیر التعداد ہو کر دیگر بیشمار ذیلی قبائل یا پاڑوں اور پھلیوں میں منقسم ہوتا جا رہا ہے اسی جٹ قبیلے سے چندر بنسی ,سورج بنسی, یادیو بنسی اور بھٹی قبائل کا آغاز ہوتا ہے. ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:55، 21 نومبر 2020ء (م ع و)

جٹ برادری[ترمیم]

جٹ برادری May 16, 2016, 6:17 am


گنگا جمنا کے دوآبے اور راجپوتانے میں یہ جاٹ کہلاتے ہیں اور پنجاب میں یہ جٹ مشہور ہیں۔ اس طرح یہ جیٹ، جٹ، زت کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ پنجاب سے لے کر مکران کے ساحل تک گنگاکے کنارے تک جاٹ کثیر تعداد میں اور پنجاب میں ان کی اکثریت ہے۔ گو اب یہ مسلمان ہیں اور شمالی ہند میں یہ دوسری اقوام سے اور رجپوتانہ میں نصف کسان جاٹ ہوں گے۔ دریائے سندھ کے کنارے ان کی بہت سی قومیں مسلمان ہوچکی ہیں۔ غیر مستقیم پنجاب میں راوی کے مغربی اضلاع میں بیشتر جاٹ مسلمان تھے۔ لیکن وسطی پنجاب میں وہ اکثر سکھ اور جنوبی پنجاب میں وہ اکثر ہندو ہیں۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ بلوچ بھی جاٹ نسل ہیں۔ بلوچ اور ان کا ایک بڑا قبیلہ جتوئی کی اصل جاٹ ہے۔ کیوں کہ بلوچ روایات کے مطابق میر جلال خان کی لڑکی جاتن سے منسوب ہے۔ جاتن جات کا معرب ہے۔ اس طرح جٹ اور جاٹ کے علاوہ جتک، جدگال اور دوسرے قبائل کی اصیلت جاٹ النسل ہے۔ یہ اگرچہ خود کو جاٹ نہیں مانتے ہیں اور بلوچ کہتے ہیں۔ سندھ کے سماٹ قبائل کی اکثریت جاٹ النسل ہے۔جٹوں کا پھیلاؤ جاٹ نسل

ایک مسلم جاٹ شتربان

جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے ان کی اصل یوٹی یا جوٹی ہے اور ان کا اصل وطندریائے جیحوں اور دریائے سیحوں کے درمیان تھا، جہاں سے یہ نکل کر برصغیر تک پھیل گئے۔ وسطی ایشیا کے رہنے والے جاٹ اب مسلمان ہیں۔تیمور لنگ نے ان کے بڑے خان کوکل تاش تیمور کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ یہ اس وقت بت پرست تھے اور بعد میں تیمور خود ان کا بڑا خان منتخب ہوگیا۔ مزید براں وہ کہتا ہے کہ جاٹ، تکشک یعنی ناگ بنسی اور چندر بنسی کے ہم نسل ہیں۔

لی بان کا کہنا ہے کہ یہ پنجاب و سندھ میں سب سے باوقت قوم ہے۔ ان میں شاز و نادر خارجی میل سے ٹھوڑا بہت تغیر پیدا ہوا ہے۔ تاہم ان کا عام ڈھانچہ حسب ذیل ہے۔ قد لمبا کاٹھی مظبوط چہرے سے ذہانت نمودار، جلد کس قدر سیاہ، ناک بڑی اور اونچی اور بعض اوقات خم دار اور ان کی آنکھیں چھوٹی اور سیدھی، گال کی ہڈیاں کم ابھری ہوئیں ہیں، بال سیاہ اور کثرت سے ڈاھاڑیاں چگی اور کم بالوں کی، بلند قامت خوش نظر، ان کی چال سیدھی اور شاندار۔ جٹ دراز قد ہوتے ہیں ان کا جسم گھٹا ہوا اور مظبوط ہوتا ہے اور رنگ سانولہ ہوتا ہے۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ جاٹ نسل کے لحاظ سے وہ آریا ہیں۔ اگرچہ بعض مصنفین نے انہیں اصل کے اعتبار کے لحاظ سے سیتھائی آریائی قرار دیا ہے۔ جس کی بڑی شاخ میں آگے چل کر مختلف قبائل کی آمزش ہوگئی ہے۔

اگرچہ جنرل کنگم کا کہنا ہے کہ جاٹ اندوسیتھک ہیں اور سکندر کے بعد آئے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تورانی یا اندوسیتھک نہ ڈراویڈوں سے زیادہ ملی نہ آریوں سے۔ تاہم اس میل کا اثر جو وقوع میں آیا ہے، وہ جاٹوں میں موجود ہے۔ مثلاً بعض ان میں سیاہ فام ہیں اور بعض کا رنگ قدر صاف ہے، جیسا کہ راجپوتوں کا۔ کورو کی ایک شاخ جارٹیکا کے نام سے مشہور تھی اور پنجاب میں آباد تھی۔ یہ غالباً جٹوں کے اسلاف تھے۔ جیمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ جاٹوں کی روایات کے مطابق وہ پانچویں صدی عیسویکے مابین دریائے سندھ کے مغرب سے آکر پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔ جاٹ اگرچہ راجپوتوں کی چھتیس راج کلی میں شامل ہیں، لیکن راجپوت نہیں کہلاتے ہیں اور نہ ہی راجپوت جاٹوں سے شادی بیاہ کرتے ہیں۔ ان کا شمار نچلی اقوام میں ہوتا ہے۔ ان سے لڑکی لے لی جاتی ہے لیکن لڑکی نہیں دی جاتی ہے۔

جٹوں کے متعلق نظریات

ایک سکھ جاٹ

لی بان کا کہنا ہے کہ خطۂ پنجاب کے اصل باشندے تورانی الاصل ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تورانی جات آریوں کی چڑھائی کے وقت سارے ملک کے مالک تھے اور باآسانی یہ ان کے محکوم ہوگئے۔ آریا فاتحین نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کو درمیانی ذات ویش یا تجارت پیشہ ذات میں ان کو شامل کردیا۔ برخلاف اس ملک کے اصل باشندوں کو شودر بنا دیا۔ گویا جاٹوں کی رضامندی سے آریا اس ملک کے حاکم بن گئے۔ اس باہمی رضامندی کا پتہ تخت نشینی کی رسم میں ملتا ہے۔ کیوں کہ بادشاہ تاج جاٹوں کے ہاتھوں سے لیتا تھا۔

ویمرے کا کہنا ہے کہ جیتی نام ان منگولوں کا تھا، جو منگولیا کی سرحد پر رہتے تھے۔ ان کی نسل کے جو لوگ ہیں وہ بروتی ہیں۔ وسط ایشیا میں اب ان منگولوں کو چیتے مغل (سرحدی مغل) کہتے ہیں۔ ترکی میں جیت سرحد کو اور منگول کو مغل کہتے ہیں۔

بی ایس ڈاہیا کہا کہنا ہے کہ جٹ یہ لفظ بدزات خود بہادری عمل اور پیش قدمی کی علامت ہے شمشیر زنی اور ہل لانے کے ماہر جاٹوں نے مشرق میں منگولیا سے چین سے لے کر مغرب میں اسپین اور انگلستان تک شمال میں سکنڈے نیوبا اور نوڈ گروڈ سے لے کر جنوب میں پاک و ہند ایران اور مصر تک ایشیا اور یورپ کی سرزمین پر تیر و تبر سے اپنا نام رقم کیا۔ برصغیر ایران روس اور جٹ یا جاٹ اور ترکی و مصر میں جاٹ عرب ممالک میں زظ یا جظ، منگولوں کی زبان میں جٹیہ سویڈن اور ڈنمارکمیں گوٹ اور جرمنی اور دیگر زبانوں میں گوٹھ یا گوٹ، ینی میں یوچی (جس کا تلفظ گٹی ہے) کہلاتے ہیں۔ جینی مصنف وردھمان شاکا اور جرٹ قبائل کا ذکر کرتا ہے چندر گومن نے لکھا ہے کہ جاٹوں نے ہن قبائل کو شکست دی یشودھرمن اور گپت فرمانروا جاٹ تھے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے ہنوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اگرچہ ہن خود بھی جاٹ تھے۔

شاکا، کشان، ہن، کیداری، خیونی (چیونی) اور تکھر (تخار) جنیں الگ الگ نسل شمار کیا جاتا ہے، گو وسطی ایشائی میدانوں میں انہیں بعض اوقات ایک دوسرے کا پڑوسی ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی نسل تھی جاٹ، مگر ان کے حکمران خاندانوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اپنا قبائلی نام اختیار کیا۔ وسط ایشیا کا علاقہ آریائی اقوام کا اصل وطن ہے۔ یہی وجہ کہ برصغیر کی تمام روایات میں اس کے ساتھ تقدس وابستہ ہے۔ ویدی ادب سے لے کر تمام تحریروں میں شمال میں دیوتاؤں کی سرزمین ہے۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ انڈو ایرانی، ساکا اور یورپی سیھتی ایک ہی تھے۔ ہسٹری آف ورلڈ کے مطابق سیتھی وسط ایشا اور شمالی یورپ کے ان قبائل کا نام ہے جو ہمیشہ اپنے پڑوسی نسلوں سے سرپیکار رہتے تھے۔ سیتھہ ایک قدیم علاقہ کا نام ہے جو جو بحیرہ اسود کے مشرق اوردریائے جیحوں و سیحون (دریائے آمو و سیر) کی وادی سے لے کر دریائے ڈینیوب اور دریائے ڈان تک پھیلا ہوا تھا۔ ہیروڈوٹس کہتا ہے کہ مساگیٹے سیتھی قوم کی اولاد ہیں۔

پی سائیکس گتی کہلانے والوں کا ذکر کرتا ہے۔ جنہوں نے 2600 م ق میں سمیر اور اسیریا وغیرہ پر قبضہ جما لیا تھا۔ چینی ماخذ میں بیان کیا گیا ہے کہ وی قبائل کی تاریخ 2600 ق م تک پیچھے جاتی ہے۔ چین کے وی، ایران کے داہی، یونان کے دائے اور موجودہ دور کے داہیا جاٹ ایک ہی ہیں جنوبی ایشیا کے کے جاٹ وہی لوگ ہیں جو ایران کی تاریخ میں گتی اور چینیوں کے یوچی (جس کا چینی تلفظ گتی ہے) کے طور پر سامنے آتے ہیں ان کا اصل وطن سرحدات چین سے لے کر بحیرہ اسود تک وسط ایشیا ہے۔ ہیروڈوٹس اور دیگر یونانی مورخ انہیں گیتے یا مساگیتے کہتے ہیں۔ موخر الذکر نام انہی قبائل کا بڑا عنصر۔

ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل، راٹھور، پوار، اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ چاروں قبائل اصل میں جاٹ ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بناء پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر (شاہ کا بیٹا) سے ہے۔ ولسن انہیں غیر ملکی تسلیم کرتا ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔

جاٹوں کا کردار

ایک جاٹ کسان

جاٹوں نے کبھی برہمنی مذہب کی برتری اور بالادستی قبول نہیں کی اور یہی وجہ ہے انہوں نے رسمی انداز میں باقائدہ ہندومت قبول نہیں کیا۔ یہی پس منظر تھا جس میں برہمنوں نے اور ان کی تقلید میں دوسری ذاتوں نے جاٹوں کو کشتریوں کا نچلا طبقہ بلکہ شودر خیال کرتے ہیں۔ لیکن جاٹوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی اور کتاب ہندو قبائل اور ذاتوں میں برصغیرٖٖٖٖٖٖٖٖ کی قدیم چھتیس راج کلی میں جاٹوں کا نام ضرور ملتا ہے لیکن کہیں بھی انہیں راجپوت ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ اس آخری جملے میں بنیاد یہ ہے کہ راجپوت رسمی طور پرہندو مذہب میں داخل ہونے والے جاٹ اور گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انہیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ، گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں۔ اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی اولاد بیواہ کی دوبارہ شادی کا طریقہ اپنالے تو وہ جاٹ بن جائے گا۔ یہ مسلے کا اصل نقطہ ہے ایک راجپوت اور جاٹ میں صرف بیواہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیواہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارہ نہ تھا۔ بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کہ کوہ آبو کی قربانی کے موقع پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود جاٹ کہلائے۔

سلطان محمود غزنوی کو ہند پر حملوں کے دوران بڑا تنگ کیا۔ چنانچہ ایک حملہ خاص طور پر ان کے خاتمہ کے لئے کیا اور چھ سو کی تعداد میں خاص قسم کی کشتیاں تیار کرائیں جس میں تین تین برچھے لگے ہوئے تھے۔ ان کشتیوں کو دریائے سندھ میں ڈال کر ہر کشتی پر بیس بیس سپاہی تعنات کئے اور باقی ماندہ فوج کو دریائے سندھ کے کنارے پیدل چلنے کا حکم دیا۔ جاٹوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بیوی بچے کسی جزیرے پر بھیج کرکوئی چار ہزار یا آٹھ ہزار کشتیوں پر سوار ہوکر محمود غزنوی کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ باوجود کثرت کے کثیر تعداد میں جاٹ مارے گئے۔ محمود غزنوی نے جزیرے پر پہنچ کر جاٹوں کے اہل و عیال کو گرفتار کرلیا۔

اورنگزیب جس زمانے میں دکن میں مصروف تھا، جاٹوں نے غنیمت جان کر اپنے سرداروں کی قیادت میں عام آبادی پر حملے کئے۔ یہاں تک انہوں نے اکبر کے مقبرے کو توڑنے کی کوشش کی۔ اورنگ زیب نے ان کی سرکوبی کے لئے مقامی فوجداروں کو مقرر کیا۔ لیکن جب اورنگ زیب کے بعد سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا تو بھرت پور اور اس گرد نواح کے جاٹوں نے اپنے سردار سورج مل کی سردگی میں آگرہ اور دہلی کے درمیانی علاقہ میں دہشت پھیلادی۔ ان کے ظلم و ستم سے غضبناک ہوکر احمد شاہ ابدالینے ان کی گوشمالی کی۔ لیکن ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کرسکا۔ بعد میں رنجیت سنگھ ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ریاست مختصر عرصہ کے لئے قائم ہوئی تھی۔

سکھ جو اٹھارویں صدی کے آخر تک پنجاب کے حاکم بن چکے تھے۔ ان کی سلطنت کے قیام میں نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے بھر پور مدد دی اور ان حملوں کی بدولت مغلیہ سلطنت نہایت کمزور ہوگئی، اور سکھ ایک قوت کے ساتھ ابھرے اور انہوں نے مغلیہ سلطنت کے ذوال کو اس کے انجام تک پہنچایا۔ سکھوں کی اکثریت جاٹوں پر مشتمل تھی اور جاٹوں کا عمل دخل بہت تھا۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں انگریزوں کے خلاف تحریک جلی جس کا مشہور سلوگن جٹا پگڑی سنھال جٹا تھا۔ اس تحریک میں حصہ لینے والے بھی سکھ تھے۔ اس کا روح رواں مشہور انقلابی بھگت سنگھ کا چچا۔

جاٹوں کے خصائص جاٹ گنوار پنے اور بے وقوفی میں ضرب مثل ہیں اور لین دین میں سادہ لوح ہوتے ہیں۔ اپنے ہم جنسوں کے مقابلے میں بھینسوںاور گایوں کا انہیں زیادہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا پیشہ زیادہ تر کاشکاری ہے۔ وہ نہ صرف دلیر واقع ہوئے ہیں بلکہ اچھے سپاہی واقع ہوئے ہیں۔ محمد بن قاسم کے مقابلے میں انہوں نے مزاحمت کی تو محمد بن قاسم نے ان کی بڑی تعداد گرفتار کرلیا اور انہیں حجاج بن یوسف کے پاس بھجوا دیا۔ ہندو جاٹوں میں ایک سے زائد شادی کا رواج تھا۔ ۔ ۔ چچ نے جٹوں پر اچھوتوں کی طرح پابندیاں عاعد کیں تھیں۔ اس کے متعلق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ جاٹ سندھ کے قدیم باشندے تھے۔ چچ نامہ میں ہے کہ چچ نے لوہانہ کے جٹوں سے جو شرائط منوائیں ان میں مصنوعی تلوار کے علاوہ کسی قسم کا ہتھیار نہیں باندھیں گے، قیمتی کپڑے اور مخمل نہیں پہنیں گے، گھوڑے پر بغیر زین کے بیٹھیں گے، ننگے سر اور ننگے پیر رہیں گے، گھر سے باہر نکلتے وقت کتے ساتھ رکھیں گے، گورنر کے مطبخ کے لئے لکڑی کے علاوہ رہبری اور جاسوسی کے کام انجام دیں گے۔

مذہب جاٹوں میں تین مذہب کے لوگ ہیں۔ مسلمان جو دریائے سندھ کے نچلے والے حصہ میں رہتے ہیں، سکھ پنجاب میں اور ہندو جو راجپوتانہ میں رہتے ہیں۔

جاٹ قبائل

ایک جاٹ

، ابر = ایلاوت، اندار، آنتل، آریہ، ایساکھ، اتوال، عطری، اولکھ، اونکھ، اوہلان، اوجھلان، اوجلہ، اتار، اوہلان، اوڈھران ، ببر، بگداوت، بجاد، باجوہ، بل، بلہن، بلہار، بان، بینس / ونیس، بسی، باٹھ، بلاری، بنہوال، بھنگال/ بھگو، بھنڈر، بھلی، بیلا، بسرا، بھیڈی، بھوپارائے، بھلر، بھڑنگ، بسلا، برار، بدھوار، بورا، بسرا، بھمبو ، پاہل پ، لاول، پنکھال، پائے سر، پنیچ، پنوں، پنیگ، پریہار، پرودا، پھور، پھاروے، پھوگٹ، پھلکا، پیرو، پوتالیا، پونیا، پنگال، پلکھا، پرادا ، پوتل/پوتلیا، تنوار، تور، تھنڈ ، ٹکھرٹاہلان، ٹنگ، ٹک، ٹاٹڑان، ٹبواتھیا، ٹھاکران، ٹوانہ، ٹسارٹومر ، جکھد، جگلین جلوٹا، جنجوعہ، جہل، جنوار، جٹاسرا، جڑانہ، جھاجھریا، جوئیہ، جون/ ہون، جوڑا، جاکھڈ ، چاہل، چھٹہ، چوہان/چوہان، چبک، چیمہ، چھلڑ، چھکارا، چھونکر، چھینا، چمنی، چدھڑ، ، دباس /دواس، ڈاگر/ داگر، دھاما، ڈھا/ ڈہایا، دلال، ڈھیل/ول، ڈالتا، ڈانگی، دراد، ڈسوالاس، دیول، ڈیوا،دھامی/دھاما، ڈھالیوال، ڈھاکا، دھنکھڈ، ڈھانچ، ڈھانڈا، دھنویا، دھارن، ڈھلون، ڈھنڈسا، دھنڈ وال، ڈھونچک، دھل، دوہان، ڈاہیا ، رائے، رانا، رانجھا، راٹھی، راٹھول، راٹھور، رندھاوا، راپادیا، راوت، ریڈھو، ریار، راج، روہیل/روہیلہ، راسٹری ، سانولا، سہوتا، سہروت، سلار، سلکان، سامل، سمرا، سہن پال، سنگا، سنگدا، سنگوان، سنسوار، سندھو، سپرا، سرن، سروہا/ سروہی، سراٹھ، ساسیسیکھون، سیوچ، سیوکند، سیوران، شاہی، شیر، گل سویاسنگروت، سدھو، کاوار، سوہل، سولگی، سولنگی، سوہاک، سیال، ، کھنگس، کادیان، کجلا، کاک، کاکڑاں / کاکڑ، کاٹھیا، کلان، کاہلون، کلکل، کانگ رائے،کھرل، کٹاری، کشوان، کھر، کھیر، کھرپ/ کھرب، کھتری، کھٹکل، کھوکھر، کلیر، کوہاد، کلار، کوندو، کنتل، کٹاریا/کٹار

، گالان، گتھوال، گورایہ، گزوا، گھمن، گور/ گوریا، گریوال، گلیا، گوہیل، گمر ،گرلات، گوندل، گسر، گوپی رائے، گکلن، گل/گیلانی، گزوا، گوھا

، ہالا، ہنس، ہیر، ہدا، ہینگا ، لالی، لکھن پال، لامبا، لاتھر، لتھ وال، لوچب، لوہان، لوہاریا، لنگڑیال ، مچھر/ ماتھر، مدیرنا، مدھان، ماہل، ملک، مل، ملھی، منکا/ مان، منگٹ، مند/منڈ، مندر، ماولا، موہلا، منہاس، مردھا، مٹھا، موکھر، مور، مانگٹ، مدرا ، مدیرنا ، ناپال، نلوہ، ناندل، نین، نیپال، نروال، نوہار، ناصر، ناہر، نجار، نونیا/ نون ، ورک، ورائچ، وٹ دھن، وَلہ


Kumhar کمہار June 25, 2014, 1:35 pm

کمہار کو پنجاب میں اکثر گھمیار بهی کہا جاتا هے ـ یه کوزه گر اور اینٹیں پکانے والا هے ـ حصار اور سرسا میں اس کی کافی تعداد ملی ـ وهاں اوردامن کوه اور وسطی اضلاح میں وه اکثر کاشتکار هے ـ زیریں دریائے سنده پر ان کی کچھ تعداد نے آپنا اندراج بطور جٹ کرایا ـ کمہار رواجی معاوضه لے کرخدمات سر انجام دینے والا حقیقی خدمت گذار ہے جن کے بدلے میں کمہار گھریلو استعمال کے لئیے مٹی کے تمام برتن اور (جہاںرہٹ استعمال هوتا هے)مٹی کی ٹنڈیں بهی فراہم کرتا ہے ـ پنجاب کي ذاتوں میں صرف کمہارہی گدهے پالتا ہےاور گاؤں کي حدود میں اناج کی نقل حمل کرنا اور اس کے بدلے میں اپنے موّکلوں سےدیگر اشیاء مثلاَ بیج یا کهانا لے کر آنا اس کا کاروبار هے ـ لیکن کمہار اناج گاؤں کے باہربلا معاوضه لے کر نہیں جاتا ـ گاؤں اور قصبات میں کمہار چهوٹا موٹا حمال هے ـ بعد میں وه مٹی کهاد کوئله اور اینٹیں بهی لادنے اور لے کر جانے کا کام کرنے لگا ـ اس کا مذہب علاقے کاغالب مذہب هی نظر آتا هے ـ کمہار کی سماجی حثیت بہت پست ہےهی ـ کیونکه گدهے جیسے ناپاک جانور کے ساتھ اس کا موروثی تعلق اس کو بهی آلوده کر دیتا هےـ گدها چیچک کی دیوی سیتلا کا مقدس جانور ہے ـ اس طرح کهاد اور کوڑا کرکٹ لے جانے پر اس کی آمادگی بهی اس کم حثیت بنانے کا سبب ہے ـوه پنجاب کا خشت ساز بهی ہے کیونکه صرف وهی بھٹوں کا کام سمجهتا هے ـ کوزے اور اینٹیں پکانے کے لئے بطور ایندهن جلانے میں کوڑاکرکٹ استعمال هونے کی وجه سے اس کا تعلق غلاظت سے بهی هو گیا هے ـ مجهے یقین ہے که کمہار سانچے والی اینٹیں بهی بناتا هے لیکن سوکهی مٹی سے گاؤں میں تیار کی جانے والي عام اینٹیں عموماَقلی یا چمار بناتا ہے ـ کوزه گر بهی کہا جاتا هے ـ(Kiln burner)کمہار کو پزاواگر اور موخرالذکر اصطلاح کا استعمال عام طور پر صرف ان کے لئیے ہوتا ہےجو نہایت عمده قسم کے برتن بناتے هیں ـ سرحد پر کمہار گلگو نظر آتا هے ـ ہندو اور مسلمان کمہار دونوں پائے جاتے هیں ـ ہندو کمہار کو پرجا پتی یعنی خالق دیوتا بهی کہاجاتا ہے ـ کیونکه کمہار مٹی سے چیزیں تخلیق کرتا هے ـ نابها میں کمہار برہما کی نسل سے ہونے کا دعوی کرتے هیں ـ رام ذات کا رانگڑ ، کرشن ایک آهیر ،برہما ایک کمہار اور شیو ایک فقیر ـ کہانی یوں هے که ایک مرتبی برهما نے آپنے بیٹوں میں کچھ گنے تقسیم کئے ـ کمہار کے سوا سب نے آپنے آپنے حصے کا گنّا کها لیا ،لیکن کمہار نے اسے ایک مٹی بهرے برتن میں لگا کر پانی دیا جس نے جڑ پکڑ لی ـ کچھ ریز بعدبرهما نے بیٹوں سے کنّے بارے پوچها تو صرف کمہار هي اسے گنّا دونے کے قابل هو سکا ـ تب برهما نے خوش هو کر کمہار کو پرجا پتی یعنی دنیا کی شان کا لقب دیا ـ لیکن برهما کے دیگر ٩ بیٹوں کو بهی خطابات ملے ـ ایک روایت بهگت کُبا کو کمہاروں کا جدامجد بتاتی هے ـ دہلی کے کمہار سبهی دیوتاؤں اور اولیاء کی عبادت کرتے هیں ـ وه شادیوں کے موقع پربهی پیروں کو کچھ نذر کرتے هیں ـ ڈیره غازی خان کے کمہار ،جوسب کے سب مسلمان هیں ،تونسه پیر کو مانتے هیں ـ لاہور کے کمہار ہولی کا تہوار دیگر ذاتوں هي کي طرح دهوم دهام سے مناتےهیں ـ مسلمان کمہاروں کے دو علاقائی گروپ بهی هیں جنڈ نابها اور ملیر کوٹله میں دیسي اور ملتانی ـ دیسی عورتیں سیتلا کو مانتی هیں لیکن ملتانی عورتیں نہیں ـ گورداس پور میں پنجابی اور کشمیری کمہار ، سیالکوٹ اور گجرات میں کشمیری اور دیسی کمہار هیں ـ مسلمان کمہاروں کے کوئی ذیاده اهم پیشه ورانه گروپ نہیں هیں ، ماسوائے گجرات کے کلالوں کے جو پیشے کے اعتبار سے گانے ناچنے والے هیں اور کمہاروں کي شادیوں پر خدمات انجام دیتے هیں ـ آگرچه دیگر کمہار انہیں به نظر حقارت دیکهتے هیں ،مگر انہیں آپني بیٹیوں کے رشتے بهی دے دیتے هیں ـ میانوالی کے کمہار برتن سازی کے ساتھ ساتھ کاشت کاری بهی کرتے هیں،اور چند ایک کوّیے اور زمیندار قبیلوں کے مغنی بهی هیں ـ لیّه کے کمہار جلال باقری کی نسل سے هونے کا دعوی کرتے هیں ـ گوجرانواله میں کمہار پیغمبر دانی ایل پر یقین اور کام شروع کرنے سے پہلے اسی کا نام لیتے هیں ـ لباس کے حوالے سے بهی مختلف علاقوں کے کمہاروں میں فرق پایا جاتا ہے ـ کانگڑا میں ہندو دیسي کمہار عورتیں سونے کی نتهلی پہنتی هیں ـ مالیر کوٹله میں مسلمان ملتانی کمہار عورتیں آپنے پاجاموں کے اُوپرایک لمبا چولا زیب تن کرتی هیں جو کمر تک آتا هے ـ ملتان میں همدو اترادهی خواتین ناک میں نتھ پہننے کی عادی هیں ـ مسلمان ذیاده تر ملتانی کمہار عورتیں ساری ذندگی پیراہن یا چولا پہنتي هیں ـ میانوالی تحصیل میں لڑکیاں شادی کے بعد چولا پہنتی هیں ـ

موجودہ دور میں کمیار قوم نے بہت ترقی کی ہیں خاص طور پر پنجاب پاکستان کے ضلع منڈی بہاوالدین میں انکی کافی تعداد پائی جاتی ہے اور کاروباری پیشہ سے منسلک ہیں

Hookah حقہ June 20, 2014, 2:56 pm


حقہ پنجاب میں ایک بہت عام چیز ہے جو زیادہ تر گھروں میں نظر آتا ہے منڈی بہاوالدین میں حقے کا بہت زیادہ استعمال ہوتا آرہا ہے اس کے علاوہ منڈی بہاوالدین میں تمباکو کی کاشت بھی کافی ہوتی ہے

اب نوجوان نسل زیادہ تر سیگریٹ کی طرف آ گئی ہے مگر بزرگ اب بھی زیادہ حقے کا استعمال کرتے ہیں

حقہ (ہندی: हुक़्क़ा، عربی: شيشة) ایک نالی یا ایک زائدنالیوں پر مشتمل تمباکو نوشی کے لئے استعمال کیا جانے والا ایک قدیم آلہ ہے۔ جس کا آبائی وطن انڈیا کو قرار دیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، خصوصاً عرب دنیا میں۔ اردو میں موجودہ مستعمل لفظ فی الحقیقت عربی ہی سے آیا ہے اور وہاں اسکو حـق سے ماخوذ کیا جاتا ہے، یعنی یوں کہہ سکتے ہیں کہ حقہ کی اصل الکلمہ (etymology) حق ہے۔ اردو میں حق عام طور پر سچائی پر ہونے کے معنوں میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ حق کے ان دونوں مفاہیم میں افتراق کی وجہ اعراب کے استعمال سے انکا تلفظ الگ کرنے کی ہے؛ سچائی کے لیۓ جو عربی کا حق استعمال ہوتا ہے اس میں ح پر زبر لایا جاتا ہے جبکہ حقہ کے لیۓ جو حق آتا ہے اس میں ح پر پیش کو لایا جاتا ہے جس کے معنی ظرف ، چلم ، حوض اور جوف وغیرہ کے آجاتے ہیں اور اسی ظرف کے تصور سے جو کہ حقے کی چلم سے مترادف ہے حقے کا لفظ اخذ کیا گیا ہے۔ ایک حقہ پانی کی پالائش اور بلاواسطہ حرارت کی مدد سے کام کرتا ہے۔ اس کو مختلف جڑی بوٹیوں اور غذائی ذائقوں میں بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ علاقے اور دستیابی کے بناء پر بہت سے عرب، بھارتی، ایرانی اور ترک علاقوں میں حقے کے کئی نام ہیں۔ اسی طرح اس کا ایک نام نرگیلا (Nargila ) جو کہ لبنان، شام، عراق، اردن، اسرائیل، البانیا، بوسنیا، مصر، ترکی، آرمینیا، بلغاریہ اور رومانیہ میں رائج ہے حالانکہ عموماً لفظ کی ابتداء میں N یا ن کا استعمال عربی میں ساکن پڑھا جاتا ہے۔ نرگیلا فارسی لفظ (nārgil ) نارگیل سے نکلا ہے، جس کے معنی ناریل کے ہیں جبکہ سنسکرت میں اس کو نرکیلا (नारिकेला) کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ابتدائی دنوں میں حقہ ناریل کے چھلکوں سے بنایا جاتا تھا۔ اسی طرح عربی میں حقہ کے لئے لفظ شيشة استعمال کیا جاتا ہے جوکہ فارسی کے لفظ شہشہ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی کانچ کے ہیں اور حقے کے لئے یہ لفظ مصر اور خلیج فارس کے ممالک (بشمول کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب) اور مراکش، تیونس، صومالیہ اور یمن میں بکثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایران میں حقے کو غلیون، قلیون اور قلیان بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں اس کو حقہ کہا جاتاہے۔ حقے کے لئے انگریزی میں “ہبل ببل“ "hubble-bubble" اور “ہبلی ببلی“ "hubbly-bubbly" کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، جس کی وجہ اس کو پیتے وقت گڑ گڑ کی آواز ہے جو کہ بلبلوں کے پیدا ہونے سے بننے والی آواز سے مشابہت رکھتی ہے۔ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 01:27، 22 نومبر 2020ء (م ع و)

تحصیل کہروڑ پکا" کی تاریخ اضافہ و تر میم شدہ/ 12/09/2023[ترمیم]

"تحصیل کہروڑ پکا" کی تاریخ

اضافہ و تر میم شدہ 12/09/2023

تحریر وتحقیق= ملک حسن امتیاز ڈیوا(جٹ بھٹی)

ضلع لودھراں کی ایک تہصیل ہے.

اس تحصیل کا صدر مقام کہروڑ پکا ہے.

وجہءتسمیہ:-

کہروڑ پکا  " راجہ کہر جٹ بھٹی "  کے نام سے مشہور چلا آتا ہے.

تاریخ راجھستان کے صفحہ نمبر 474  پر تاریخ دان  شریمان پرمانند جی نے راجہ کہر بھٹی کے بارے میں لکھا ہے کہ راجہ رتن سی بھٹی کے دو بیٹے گرسی اور کنیر تھے۔

جب بادشاہ تیمور مغل نے دہلی پر حملہ کیا تو گرسی بھٹی کی بہادری سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے دوبارہ اپنا ملک جیسلمیر آباد کرنیکی اجازت دیدی -

راجہ گرسی کے بعد دیو راج بھٹی (جسے چولستانی راجہ ڈیوا جٹ بھٹی بھی کہتے تھے اور جسکے نام سے چولستانی قلعہ ڈیواوور/ڈیراوڑ مشہور چلا آتا ہے) کا ایک  بیٹا " کہر بھٹی " نامی تخت نشین ہوا

جسکے بعد اسکا بیٹا کیلون بھٹی گدی نشین ہوا ۔

اس راجہ کیلون بھٹی نے اپنے باپ کی یاد میں ایک قلعہ بنامی " کہر اوور " تعمیر کروایا-

" اوور" سنسکرت کا لفظ ہے جسکے معنی" قلعے"  کے ہین -

چنانچہ "کہر اوور"  کا مطلب ہوا " کہر (بھٹی) کا قلعہ" -

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ " کہر اوور"  سے " کہروڑ "  ہو گیا۔ جسطرح کسواوور سے قصور ,لہواوور سے لاہور اور ڈیوااوور سے ڈیراوڑ بن گیا۔

اور انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں جب یہاں ریلوے اسٹیشن بنوایا تو اسکا نام "کہروڑپکا"  رکھا-

(بستی " پکا " ) چونکہ ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ہے

اسلیے اسکا نام " کہروڑ " کے ساتھ ملادیا گیا تاکہ پہچان میں آسانی رہے-

اس میں 24 یونین کونسلیں ہیں!

1۔ پٹواریاں والا

2۔ بخشی والا

3۔ ظفرآباد

4۔ دیانت پورہ

5۔ علی پور کانجو

6۔ گاہی ممڑ

7۔ برہان پور

8۔ فرید آباد

9۔ کہروڑ

10۔ ٹبی وڈاں

11۔ شاہ پورپھل

12۔ نصیر دی واہن

13۔  آمیر پورسادات

14۔ رپڑ

15۔ جمرانی واہ

16۔ چوکی مستی خان

17۔ دھنوٹ

18۔ بہاول گڑھ

19۔ نور شاہ گیلانی

20۔ راناواہن

21 ۔ ڈھکنہ گھاڑو

22۔ نوقابل واہ

23۔ مسہ کوٹھہ

24۔ چیلے واہن شریف (ڈیواں والا)

(چونکہ ایک چیلے واہن تہصیل خیر پور ٹامیوالی میں بھی واقع ہے۔

جہان پر اسراء بھٹی قبیلہ آباد ہے۔

جسکا نام اسی چیلے واہن سے عقیدت کی بنا پر رکھا گیا ہے۔

کیونکہ یہانپر انکے بزرگوں کا مزار مبارک ہے۔

نیز وہ اپنے مردے بھی یہیں دفن کرتے ہیں۔

ان بزرگوں کا قبیلہ بھی اسراء بھٹی ہی ہے)

اس تحصیل میں درج ذیل قبیلے آباد ہیں!

1,غیر جٹ قباٸل

2,جٹ قباٸل

3,راجپوت قباٸل

1,غیر جٹ قباٸل :

شیخ -آرائیں - بلوچ,مغل -پٹھان- قریشی- سادات  اور انکی ذیلی شاخیں مثلاََ:

 اعوان لودھی پٹھان - عباسی قریشی - ہاشمی قریشی - جبلہ قریشی- نیکو کارہ قریشی ؛کوریجہ قریشی , - بخاری سادات -قفالی سادات - گیلانی سادات وغیرہ-

 2,جٹ قباٸل:

جٹ بھٹی قباٸل :-

اسراء بھٹی , اتیرا بھٹی , ڈیوا  بھٹی , کلاسن بھٹی , بھابھہ بھٹی  پھل بھٹی ؛کلیار بھٹی ؛چنڑ بھٹی , کانجو بھٹی , عاربی بھٹی , مرالی بھٹی

نون بھٹی , وگن بھٹی , وٹو بھٹی , وڈ بھٹی-نول بھٹی ۔ڈال بھٹی

۔یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ بھٹی قبیلہ اور اسکی تمام ذیلی شاخیں جنگجوٸی میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں نیز بھٹی برضغیر کا ایک کثیر التعداد قبیلہ ہے جسکی بیشمار ذیلی شاخیں ہیں۔

اور نیز تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنیوالے  اکثر بھٹی گروہ جات جنکی مادری زبانیں پنجابی؛  

ہریانوی/رانگڑی؛میواتی  وغیرہ ہیں  خود کوراجپوت بھٹی کہلواتے ہیں مگر درحقیقت تمام   بھٹی گروہ جات یا شاخیں ایک ہی جد امجد سے تعلق رکھتی ہیں نسلی لحاظ سے تمام بھٹی گروہ اور شاخیں جٹ ہی ہیں یعنی Same Blood Line ہی ہیں۔  اور لفظ راجپوت بھٹی قبیلہ کا شاہی خطاب (Surname) ہے۔راجپوت بذاط خود کوٸی یک جدی قبیلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مختلف الاجداد قباٸل کا شاہی خطاب ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کہروڑپکا کی مشہور جٹ بھٹی شخصیت مولانا معین الدین مسلم جٹ بھٹی ہو گزرے ہیں جنکی آل سے اسوقت میاں نور جٹ بھٹی میاں۔ شوکت حسین جٹ بھٹی وغیرہ مشہور ہیں نییز کہروڑ پکا کی یونین کونسل چیلے  واہن میں دو مشہور جٹ بھٹی شاخیں قیام پزیر ہیں جن میں سے اسرإ جٹ بھٹی جو صاحب دربار اور گدی نشین شاخ ہے اور میاں بطور لقب یا خطاب استعمال کرتے ہیں   اور دوسری ڈیوا جٹ بھٹی جو بھٹیوں کی ایک ذیلدار و نمبر دارشاخ ہے نیز ملک بطور لقب یا خطاب استعمال کرتے ہیں مشہور شاخیں ہیں.

جٹ جوِئیہ قباٸل:- ( مسوانہ جوِئیہ , واہگہ جوِئیہ , بلوانہ جوِئیہ ,جلوانہ جوِئیہ , الپہ/الپیرا ,گندراہ جوِئیہ )-

- بریار جٹ - اریا جٹ - ڈیسی جٹ - ڈال جٹ- ڈھڈ ی جٹ- رڈ جٹ -پنوار جٹ - پٹوار جٹ- سوروجٹ ؛کھوکھر جٹ - کھیڑا جٹ -حسام جٹ-  چوہان جٹ - کھچی جٹ - لنگاہ ۔ مغل - چغتائی -

راہگو -  واگی جٹ- وگھہ مل جٹ - غوری - افغان -

رتھ جٹ- بھٹہ جٹ- جونہی جٹ - سھو جٹ- راندو جٹ - اثڑ جٹ- بوکا جٹ- گڈن جٹ - ملانہ جٹ - وجن جٹ-

مہا رجٹ- پریار جٹ - پرہاڑ جٹ -  چنا جٹ-

سندھو جٹ- سرویہ جٹ -  وریاہ جٹ-  - گھلو جٹ - لودھرا جٹ -ریحان - چودھن جٹ-  چوہڑ جٹ -  سہوترہ جٹ- گھاڑو - گررڑ - گنب جٹ -  - گھمن جٹ - کلال جٹ - آہیر جٹ - نائچ جٹ -

جس جٹ - جیسل جٹ - سیکر جٹ - سوہلہ جٹ - ڈھکو جٹ - -  - پن جٹ - ہانس جٹ - چیمہ جٹ  -  جھنجھ جٹ - ڈمرہ جٹ -  - سہول جٹ- لیل جٹ - سیرانی جٹ- کریالہ جٹ - پہی جٹ-

گمبول جٹ - جلولہ جٹ - کہنوں جٹ - کلہوٹہ جٹ- چھینہ جٹ - کھور جٹ- ماہنی جٹ - باٹی جٹ - واندر جٹ- دھریجہ جٹ - سمیجہ جٹ - چکلیار جٹ - لس جٹ وغیرہ -

3,راجپوت قباٸل:

مندرجہ بالا جٹ قباٸل میں اکثر جٹ قباٸل راجپوت بھی گنے جاتے ہیں کیونکہ ان جٹ قباٸل نے ازمنہ قدیم میں آپ راجی دور میں اپنے اپنے مختلف علاقوں پر راج یا حکمرانی کی تھی جس وجہ سے بہت سے نسلی جٹ قباٸل بطور خطاب راجپوت بھی پکارے یا پہچانے جاتے ہیں۔نیز تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنیوالے  اکثر راجپوت گروہ جات جنکی مادری زبانیں پنجابی؛  

ہریانوی/رانگڑی؛میواتی  وغیرہ ہیں  خود کوراجپوت  کہلواتے ہیں مگر درحقیقت تمام  گروہ جات یا شاخیں ایک ہی جد امجد سے تعلق رکھتی ہیں نسلی لحاظ سے اکثر جٹ اور راجپوت  اور انکے ذیلی قباٸل؛ گروہ اور شاخیںsame same  ہی ہیں یعنی Same Blood Line ہی ہیں۔  اور لفظ ”راجپوت“ جٹ اور غیر جٹ حکمران قباٸل کا شاہی خطاب (Surname) ہے۔راجپوت بذاط خود کوٸی یک جدی قبیلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مختلف الاجداد  قدیم حکمران قباٸل کا شاہی خطاب ہے۔جبکہ جٹ ایک یک جدی قبیلہ ہے تاہم فی زمانہ بہت سے غیر جٹ کاشتکار قباٸل نے بھی خود کو جٹ کہلوانا شروع کر دیا ہے۔

کہروڑ پکا کے مشہور سیاسی خاندان

کانجو  -  نون - بھٹی -جوئیہ - نیکوکارہ  اور عباسی ہیں۔ 154.80.126.81 14:46، 14 نومبر 2023ء (م ع و)

وادی ہاکڑہ چولستان کا اک عظیم حکمران راول دیو راج راول ڈیوا جٹ بھٹی[ترمیم]

راول ڈیوا جٹ بھٹی (راول دیو/ راول ڈیوا بن بجے راٸے جٹ بھٹی بن راٸے تنو بن راٸے کہر/ کیہار بن ماجم راٸے بن منگل راٸے بن راجہ بھٹی بن راجہ بلند بن راجہ سالباہن بن راجہ گج بن راجہ رجھ بن راجہ سباھو بن راجہ باہو بن راجہ باہو بلی  بن راجہ پرتھی باہو بن نابھہ بن واجرا بن انیرودھا بن پریدمنا بن شری کرشن مہاراج بن واسو دیوا بن دیوا میدھا بن ہردیکا  بن بھوجا بن  شنی  بن شورا بن ودوراتھا بن بھاجمانہ بن  آندھاکا ۔۔۔۔۔۔۔۔از۔ یادیوا۔۔۔۔۔۔۔از ۔۔۔۔۔۔۔ جاٹ بن سندھ ۔۔۔۔۔از حام یا سام بن نوح از ۔۔۔۔۔۔۔شیث  بن آدم) کی والدہ  بھٹہ قبیلے  کے سردار بوٹا بان  کی بیٹی تھی ۔وادی ہاکڑا کے حاکم  بجے راٸے جٹ بھٹی کے ایک خوش بخت اور جنگجو بیٹے کا نام دیوراج تھا جو سالباہن جٹ بھٹی (AD=16;S;72 ) کی پیڑھی سے تھا نیز جو  اسوقت راجہ ڈیوا جٹ  بھٹی کے نام سے مشہور تھا   اور اسکا گدی نشین بیٹا راول مونڈ جٹ بھٹی نامی تھا۔

حکم سنگھ پنوار بھرت پور کے حاکموں کا شجرا بیان کرتے ہوٸےیادیو جاٹوں سے شروع کرتا ہےاور پھر انکی

8 3ویں  پیڑھی پر  راجہShini شنی کا تزکرہ کرتا ہےاور واسو دیوا کو 42ویں پیڑھی پر لکھتا ہے نیز  کرشن جی مہاراج کو 43ویں پیڑھی پرلکھتا ہے اور یوں واجرا Vajra جٹ کا نام سیریل نمبر 46 پر لاتا ہے ۔

From Naba at S.No. 47 onward we follow James Tod who has based on records of Brahman Sukhdharma of Mathura.

1. Yadu → → → → 34. Andhaka → 35. Bhajmana → 36. Viduratha → 37. Shura → 38. Shini → 39. Bhoja → 40. Hardika → 41. Devamidha → 42. Vasudeva → 43. Krishna → 44. Pradyumna → 45. Aniruddha → 46. Vajra →

47. Naba → 48. Prithibahu → 49. Bahubal (w.Kamlavati Puar) → 50. Bahu → 51. Subahu → 52. Rijh → 53. Raja Gaj (founded Ghazni in Yudhishthira 3008= BC 93) → 54. Salivahana (S.72 = AD 16) → 55. Raja Baland → 56. Raja Bhatti → 57. Mangal Deo → 58. Majam Rai (Kullarsi, Moondraj, Seoraj, Phool, Kewala) → Rai Kehar → Rai Tano (Founded Tanot: S. 787 = 731 AD) → Biji Rai (Founded Bijnot: S. 813 = 756 AD, r.814-836) →  Rawal Deoraj (Founded Deogarh or Deorawal: S. 909 = 853 AD) → Rawal Moond → Bachara → Dusaj (1043 AD) → Rawal Jaisal (Lodrawa - founded Jaisalmer: S. 1212 = 1155 AD) → Kailan and Salivahan II

Jat Gotras

History

Location of Derawar Fort and Bijnot

For detailed History starting from Yadu you may see Rawal Jaisal.

Raja Tano having, by the interposition of the goddess Beejasenni, discovered a hidden treasure, erected a fortress, which he named Bijnot; and in this he placed a statue of the goddess, on the 13th, the enlightened part of the month Megsir, the Rohini Nikhitra, S. 813 (A.D. 757). He died after ruling eighty years.

تنو جٹ بھٹی نے چھپا ہوا خزانہ دریافت کیا  تو اسنے ایک عالیشان قلعہ تعمیر کروایا جسکا نام اسنے قلعہ بجنوٹ رکھا۔بجے راٸے جٹ بھٹی814 عیسوی میں گدی نشین ہوااسنے اپنے عہد کا آغاز ٹکہ دور سے کیا اور892 میں بھارا قبیلہ کے اپنے ازلی دشمنوں سے لڑتے ہوٸے انکو  شکست فاش دی ۔

بھٹہ جٹ قبیلہ کی اک رانی کے بطن سےراجہ بجے جٹ بھٹی کا ایک بیٹا راول دیوراج نامی تھا جو اسکا جانشین بنا بھارا اور لنگاہ قبیلہ کے لوگوں نے ایک مرتبہ پھر اتحاد کر کے جٹ بھٹی بادشاہ پر حملہ کر دیا مگر اس مرتبہ بھی انھیں عبرتناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔جب انھیں یہ اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ وہ میدان جنگ میں جٹ بھٹی بادشاہ کو مات نہیں دے سکتے تو انہوں نے ملکر ایک سازشی پلان بنایا کہ ہم جٹ بھٹی بادشاہ  سے اپنی دیرینہ دشمنی کو ختم کر کے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور بھارا قبیلے کے سردار کی بیٹی کا رشتہ راجہ بجے کے بیٹے دیو راج کو دینے پر آمادہ ہیں بجے راٸے بھٹی اپنے آٹھ سو رشتہ داروں کیساتھ وہاں پنہچا تو  انہوں نے قلعہ کے دروازوں  کو بند کر کے حملہ کر دیا اور بجے راٸے بھٹی اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ مارا گیا۔ مگر شہزادہ دیوا موقع پاکر چپکے سے انکے پروہیت برہمنوں کے گھر میں کھسک گیا انہوں نے اسکا پیچھا کیا بچنے کی کوٸی صورت ممکن نظر نہ آٸی تو برہمنوں نے اسکا بھیس بدل کر اسکے گلے میں برہمنی مالا پہنا دی  اور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شامل کر لیا تاکہ شک کی کوٸی گنجاٸش نہ رہے۔ یوں ڈیوا بھٹی  شہزادہ  قتل ہونے سے بچ گیا اپنی دانست میں انہوں نے جٹ بھٹی قبیلہ کا نام لیوا بھی نہیں چھوڑا تھا۔

ڈیوا بھٹی شہزادہ؛ بھارا قبیلے کے علاقہ میں روپوش رہا پھر اک روز وہ اپنے ننھیال جٹ بھٹہ قبیلے  کی رہاٸشگاہ اپنے نانا بوٹا بان جٹ بھٹہ کے ہاں جا پہنچا جہاں پر وہ اپنی ماں سے ملکر  بہت خوش ہوا۔ ڈیوا جٹ بھٹی  شہزادے نے فوری طور پر اپنے لیٸے اک مضبوط قلعہ کی تعمیر کاآغاز کیا جسے اسنے853ٕٕٕٕ اپنے نام کی مناسبت سے دیواوور/ ڈیوااوور کا نام دیا۔جو کہ وادی ہاکڑہ (چولستان) میں تھا اس خطے کی قدیم زبان  “جٹکی/جاٹکی” تھی جسے آجکل سراٸیکی کا نام دیا گیا ہے۔ اور سراٸیکی کے بہت سے الفاظ میں حرف” د“  عموماً حرف ”ڈ“کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔مثلاً دادا سے ڈاڈا،دانت سے ڈند،درانتی سے ڈاتری  ،دینا سے ڈینا ،دیوا سے ڈیواوغیرہ وغیرہ لہازہ

راول دیوا بھٹی کو راجہ ڈیوا بھٹی بھی کہا جاتا تھا نیز راول دیو نے چولستان (وادیٍ ہاکڑہ)میں جو قلعہ تعمیر کیا تھا اس دور میں اسے دیو اوور یا ڈیوا اوور کہا جاتا تھا۔”اوور“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکے معنی قلعہ/کوٹ/فورٹ کے ہیں اسی طرح ڈیوا اوور سے مراد راول ڈیوا بھٹی کا قلعہ  ہے۔جو بعدازاں قلعہ ڈیراوڑ /ڈیراول مشہور ہوا۔ (جو بعد میں راجہ ڈیوا کے خاندان سے حاکم  بہاولپور صادق خاں عباسی کےخاندان کی ملکیت بنا اور آجکل جسمیں بہاور لپور کے حکمران عباسی خاندان کے بزرگوں کے مقبرے یا مزارات ہیں ) بالکل اسی طرح جسطرح راجہ کہر یا راجہ کیہار  جٹ بھٹی نے اس دور میں دریاٸے بیاس اور ستلج کے سنگم پر ایک قلعہ تعمیر کیا تھا جسے اس دور میں ”کہراوور“

(راجہ کہر جٹ بھٹی کا قلعہ)کہا جاتا تھا جو بعد میں کہروڑ اور پھر کہروڑ پکا مشہور ہوا ۔

جیسے راجہ لہو اور راجہ کسو کے قلعے ”لہواوور“,”کسواوور“ بعدازاں لاہور اور قصور مشہور ہوٸے۔

قلعہ ڈیوااوور (ڈیراوڑ) کے جنوب میں جٹ لودھرا قبیلے کی بودوباش تھی اور انکی راج گدی بارہ دروازوں والے مضبوط قلعہ نما شہر ”لودروا “میں تھی انکا خاندانی پروہیت انسے ناراض ہو کر  راجہ ڈیوا بھٹی کی پناہ میں آیا  اور اسے اپنے پرانے آقاووں (لودھراقبیلہ) کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیٸے اکسایا۔اور پھر انہوں نے لودھرا قبیلے کے سردار نرپ بھان سے راجہ ڈیوا جٹ بھٹی کے لیٸے اسکی بیٹی کا ہاتھ مانگا ڈیوا بھٹی کی اس آفر کو راجہ لودھرا نے قبول کر لیا راجہ ڈیوا جٹ بھٹی نے اپنے بارہ سو جنجگو گھڑ سواروں کو لودروا شہر کی طرف روانہ کیا۔جیسے ہی دلہے کی بارات پہنچی شہر کے دروازوں کو کھول دیا گیا مگر جیسے ہی  دلہا ڈیوا بھٹی اپنی سپاہ کے ساتھ اندر داخل ہوا تو انہوں نے اپنی تلواروں کو میان سے نکال لیا ڈیوا بھٹی نے شہر پر قبضہ کر کے لودھرا سردار کی بیٹی سے شادی کی اور اپنی دلہن کو لیکر اپنے قلعہ ڈیواوور آگیا اور لودروا میں اپنی فوج کا ایک گریژن چھوڑ آیا ۔شہزادہ ڈیوا بھٹی اب پچاس ہزار گھوڑوں اور ایک لاکھاونٹوں کا مالک بن چکا تھا ۔بادشاہ ڈیوا جٹ بھٹی کے دو مشہور بیٹے تھے ایک شہزادہ مونڈ لودھرا قبیلے کی بیوی کےبطن سے اور دوسرا شہزادہ چاڈو بھارا قبیلے کی بیوی کے بطن سےہوا۔

شہزادہ چاڈا کے پانچ بیٹے ہوٸے جنکی نسل چاڈا جٹ اور چاڈا راجپوت کہلاتی ہے۔بادشاہ یا راجہ ڈیوا جٹ بھٹی نے بہت ساری وسیع و عریض جھیلیں اپنے علاقے میں بنواٸیں اور کٸی ایک قلعے بھی تعمیر کرواٸے انمیں سے ایک جھیل جو تنوٹ میں واقع ہے جو تنوسر کہلاتی ہے اور دوسری اسکے نام کی مناسبت سے دیوسر کہلاتی ہے۔ راجہ ڈیوا بھٹی اک روز اپنی مختص سی جماعت کیساتھ جنگل کیطرف شکار کھیلنے کے لیۓ گیا تو جنگل میں چھپے چنہ جٹ قبیلہ کے ایک گروہ نے انپر زوردار حملہ کر دیا تو وہ اپنے چھبیس ساتھیوں سمیت مارا گیا۔راجہ ڈیوا بھٹی نے 50سال تک حکمرانی (راج) کی تو ہندو برہمنوں اور انگریز مورخین نے اس جٹ بادشاہ کا تذکرہ اپنی اپنی تاریخوں میں بطور راجہ کیا اور اسکی آل اولاد راجپوت کہلاٸی کیونکہ بادشاہ فارسی زبان کا لفظ ہے اورمقامی ہندی زبان میں بادشاہ کا مترادف لفظ راجہ اور شہزادوں کا مترادف لفظ راجپوت ہے اسلیٸے مقامی زبان میں تمام جٹ حکمرانوں یابادشاہوں کو راجہ اور انکی آل واولاد کو راجپوت کہا جاتا تھا۔چونکہ درحقیقت بھٹی اصلی اور نسلی جٹ قبیلہ ہی  ہے جو کہ راجپوت لفظ کو بطور لقب یا خطاب کے استعمال کرتا ہے  بھٹی نسلی لحاظ سے جٹ اور سماجی سٹیٹس کے لحاظ سے راجپوت ہے ہاں مگر یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ راجپوت بذاط خود ایک یک جدی اصلی یا نسلی قبیلہ ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ راجپوت ایک ایسا لقب یا خطاب ہے جسے بہت سے مختلف الاجداد قباٸل نے  اک مخصوص دور میں  اپنی حکمرانی اور راج پاٹ کی بدولت استعمال کیا جنمیں بہت سارے جٹ نسل سے تعلق رکھنے والے قباٸل یا پاڑے شامل تھے  اسی لیٸے بہت سارے نسلی لحاظ سے جٹ حکمران قباٸل راجپوت کہلاتے رہےہیں اورچونکہ بہت سارے  غیر جٹ قباٸل نے بھی مختلف ادوار میں مختلف علاقوں پر راج یا حکمرانی کی تو وہ غیر جٹ حاکم قباٸل بھی راجپوت کہلاتے ہیں جو نسلی لحاظ سٕے جٹ راجپوتوں

سے الگ ہیں یوں راجپوت قبا ٸل دو قسم کے ہیں:

 1= جٹ راجپوت

2=غیر جٹ راجپوت

موجودہ دور میں نسلی لحاظ سے مختلف الاجداد  انگنت  قباٸل جنہیں  فی الوقت اپنی نسلی بنیاد کا علم نہیں ہے اور وہ خود کو صرف جٹ یا صرف راجپوت کہلاتے ہیں۔ مگر دراصل ہر راجپوت یا ہر جٹ   اپنے اصلی اور نسلی تعلق یا قبیلے کے بارے میں ضرور  جانتا ہے اور جو جٹ یا راجپوت آدمی اپنا نسلی تعلق یا قبیلہ بتا ہی نہیں سکتا وہ دراصل نقلی جٹ یا راجپوت  ہوتا ہے جو کسی کمی قبیلہ سےبعد میں کسی بھی دوسرے جٹ یا راجپوت قبیلے میں چور دروازے سے شامل ہو جاتا ہے اور وہ احساس کمتری یا احساس محرومی کی بدولت اپنی نسلی شناخت کو چھپاتا ہے اور انکی آنیوالی نسلیں پھر اپنی اصلیت سے لا علم رہتی  ہیں  پھر ایسے لوگوں سے انکی نسلی شناخت  پوچھی جاٸے تو اپنی اصلیت ونسلیت کا علم تو انھیں ہوتانہیں ہے اور یوں وہ اپنی بغلیں جھانکنے یا  ادھر اودھر کی مارنے لگتے ہیں  اور بعض مرتبہ اپنا کمین پن اپنی فحش زبانی  سے ظاہر کربیٹھتے ہیں  جبھی تو کہا جاتا ہے انسان کی اصلیت کبھی چھتی نہیں ہے مثل مشہور ہے کہ ڈوم بجاٸے جپنی ذات بتاٸے اپنی یعنی انسان  اپنی حرکات و سکنات؛ وضع قطع اورگفتگو سے اپنی اصلیت کا پتہ  دیتا ہے لہازہ ان چیزوں سے انسان کو پرکھ  لینابالکل مشکل نہیں ہے اس لیٸے  انکےساتھ فضول بحث سے سےاجتناب کرنا چاہیے کیونکہ جو خود ہی اپنی حرکتوں اور رویوں سے کمی کمین یا کم ظرف ثابت ہو جاٸیں پھر ان سے  بحث کیسی۔ چونکہ وہ خود تو اپنی ہی اصلیت کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں اور نہ ہی انکے باپ دادا اپنی اصلیت کے  بارے میں جانتے تھے اگر وہ جانتے تو اپنی اولاد کو ضرور بتاتے اور یوں مجہول النسب لوگ القاب وخطابات کو ہی اپنی  قوم یا قبیلہ بتاتے ہیں اور اسی پہ بضد رہتے ہیں۔ قباٸلی تاریخ کے علم سے لا علم یہی لوگ سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں جو اپنی طرح سب کو مجہول النسب بنانا چاہتے ہیں درحقیقت جو خود ہی کہچھ نہیں جانتا وہ کہچھ نہیں مانتا۔  

1= جٹ راجپوت قباٸل:

؎اب بیآن کرتے ہیں جٹ اور راجپوت کی اصل حقیقت:

دوستواصل حقیقت یہ ہے کہ جٹ  اک خالص نسلی یا جدی قبیلہ ہی ہے جسکا آغاز امام طبری کیمطابق حضرت حام بن نوح علیہ کی نسل سے ہوتا ہے جبکہ ابن خلدون  اور حاجی خان چاچڑ جاموٹ کیمطابق سام بن نوح علیہ اسلام کی نسل سے ہوتا ہے ۔اسکے علاوہ عظیم حکمران حضرت سندھ اور ہندھ  کے یادو بنسی اور شری کرشن جی مہاراج بن  واسو دیوا کا تعلق بھی اسی قدیم جٹ قبیلے سے ہی ہے نیز بعد میں راجہ چندر اور راجہ سورج دونوں سگے بھاٸیوں کی نسل یا بنس جو تاریخ میں چندر بنسی اور سورج بنسی راجپوت کے  طور پر مشہور چلے آتے ہیں درحقیقت جٹ بلڈ لاٸن سے ہی ہیں اسمیں کوٸی شک نہیں  کہ  بہت سے جٹ قباٸل نے زمانہ قدیم میں اور آپ راجی دور میں بہت سے علاقوں پر حکمرانی یا راج کیا جسکی وجہ سے وہ جٹ قباٸل بعد ازاں تاریخ میں بطور راجپوت ذکر ہوۓ اور راجپوت ان جٹ حکمرانوں یا راجاٶں کا محض ٹاٸٹل یا خطاب ہی تھا جبکہ انکا نسلی قبیلہ یا بلڈ لاٸن  جٹ ہی رہا۔ جٹ قباٸل کے علاوہ دیگر بلڈ لاٸن قباٸل سے تعلق رکھنے والے قباٸل نے بھی مختلف علاقوں پہ راج یا حکمرانی کی اور وہ بھی تاریخ میں راجپوت کہلاۓ مگر انکا نسلی تعلق یا بلڈ لاٸن جٹ راجپوتوں سے الگ ہے ۔

2=غیر جٹ راجپوت :

یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ راجپوت بھی دیگر بہت سے قباٸلی یا علاقاٸ  خطابات مثلا ملک ؛مہر؛ میاں؛ راۓ؛راول؛رانا؛ راٶ ؛ سردار ؛ خان؛مخدوم ؛رٸیس؛ جام  وغیرہ وغیرہ کیطرح  محض اک ٹاٸٹل یا خطاب ہی  ہے مگر جٹ بھی اک خطاب ہی ہے اور کوٸ نسل یا قبیلہ نہیں  تو یہ بات بالکل غلط ہے تاریخ اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ جٹ اک یک جدی نسلی قبیلہ یا بلڈ لاٸن ہے  جو قدیم الایام سے اپنی کثرت کیوجہ  دیگر کٸی پاڑوں پھلیوں یا ذیلی قبیلوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جا رہا ہے اوریہ سلسلہ یونہی قیامت تک جاری رہے  گا۔اور ہاں مگر جہانتک کاشتکار جٹ کا تعلق ہے  تو کاشت کاری جٹ قبیلے کا اولین پیشہ اور پہچان ہے  اور یہ بھی سچ ہے کہ بعد میں دیگر قباٸل نے کاشتکاری شروع کی تو وہ بھی جٹ کہلاۓ مگر در حقیقت انکا نسلی جٹ؛ بلڈ لاٸن سے کوٸ تعلق نہیں تھا اور یوں ازاں بعد لفظ جٹ کو کاشتکار کے معنی پہنانے کی انگریز مورخین نے کوشش کی تاکہ جٹ اور راجپوت کو توڑ کر الگ الگ کر کے انکی طاقت کو تقسیم کیا جاۓ لاتعداد جٹ حکمران قباٸل آج تک راجپوت ذکر کیۓ اور پہچانے جاتے ہیں۔


۔

External links

References

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.218-220

↑ The Jats:Their Origin, Antiquity and Migrations/Appendices/Appendix No.1

↑ Yadu Vamsavali of Bharatpur given by Ganga Singh in his book 'Yadu Vamsa', Part 1, Bharatpur Rajvansa Ka Itihas (1637-1768), Bharatpur, 1967, pp. 19-21

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.196-201

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.211

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.211

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.211

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.212

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.214-215

↑ James Tod: Annals and Antiquities of Rajasthan, Volume II, Annals of Jaisalmer, p.215-216

؎

Rawal Moond was a Bhatti Chief and great grandfather of Rao Jaisal (1155 AD). He was son of Deoraj in the ancestry of Salivahana (S.72 = AD 16).[1] ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:46، 24 مارچ 2024ء (م ع و)

کسر یا کسرا قبیلہ کی تاریخ[ترمیم]

کسر/کسرا یہ ایک مغل ماخذ قبیلہ ہے  جسکا جد امجد بابا امیر تیمور قاآن کو مانا جاتا ہے  کشمیر اور ہندوستان کے علاوہ اسکی بیشتر آبادی پاکستان  کےصوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں بھی موجود ہے۔اس قبیلے کے افراد  ملک؛ چوہدری؛ سردار وغیرہ جیسے الفاظ بطور لقب یا خطاب استعمال کرتے ہیں  اس قبیلے کی مشہور شخصیات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1 پاکستان آرمی کے سابق جنرل فیض حمید  کسر صاحب

2سردار ذولفقار علی خان کسر آف دلہہ تحصیل و ضلع چکوال سابق ممبر قومی اسمبلی

3 جناب ایاز امیر  کسرمشہور صحافی.

4 چوہدری عبدالخالق کسر آف منوال ضلع چکوال مشہور سیاسی و سماجی شخصیت

5 ڈاکٹرملک عامر بشیر  ولد بشیر احمد کسرا ریٹائر پٹواری آف گاؤں درستی والا ضلع لودھراں ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 03:45، 25 مارچ 2024ء (م ع و)

ملک سرویہ قبیلہ کی تاریخ[ترمیم]

ملک سرویہ/سروہا قبیلہ کا تاریخی پس منظر;

جٹ لینڈ وکی ساٸیٹ سے ماخوذ:

ترجمہ نیز اضافہ وترمیم= ملک حسن امتیاز ڈیوا جٹ بھٹی

سکنہ چیلے واہن تحصیل کہروڑپکاضلع لودھراں۔

03003536780

یہ قبیلہ نسلاًچندر بنسی جٹ گردانا جاتا ہے۔یہ قبیلہ انڈیا میں ضلع ہریانہ اتر پردیش مدھیہ پردیش راجھستان اور گجرات میں مقیم ہے اور پاکستان میں بھی آباد ہے۔

اس قبیلے کا پورا نام چودھرانہ سروہا ہے نیز یہ لفظ سگروہا سے ماخوذ ہے۔ہندی مورخ رام سروپ جون کیمطابق سروہا یا سروہی، ملک ،گھتوال، بورا ،ٹانک اور سگروہاایک ھی خاندان سے نکلے ہیں ۔زبانی روایات کے مطابق گھتوال بعدازاں غزنی سے نقل مکانی کر کےملتان میں دریاٸے ستلج کے کنارے آکر آباد ہوتے گٸے۔اور چراگاہوں کے ساتھ ساتھ بسنے لگے جنمیں سے کحچھ لوگوں نےمیراثیوں اور ناٸیوں کے پیشے بھی اپنا لیٸے۔

ہندوستان پر سکندر اعظم کے حملہ کے وقت ملک اور گھتوال قبیلے کے لوگ کاٹھیا ریاست میں آباد تھے بعد میں وہ جھنگ اور بہاولپور میں بھی جا بسے۔

انہوں  نے ہانسی کے قریب دیپالپور پر بھی حکمرانی کی۔

قطب الدین ایبک نے شکست دیکر انھیں وہاں سے بھی نکال دیا ۔

جسکے بعد وہ ضلع روہتک اور مظفر نگر میں جابسے.

انہوں نے پنوار اور مدھن راجپوت قباٸل کیخلاف اپنی لڑاٸی جاری رکھی ۔

ضلع روہتک میں 35 گاٶں انکی ملکیت میں ہیں

۔۔چوہدری بچہ رام 160گاوٶں کے رہنما مانے جاتے ہیں جنمیں سےضلع حصار کے گاٶں اورمیروت کے گاٶں اور مظفر نگر کے52 گاوں اسکے علاوہ ہیں نیزانکے کہچھ گاوں ہماچل پردیش میں بھی ہیں ۔بوراس اور سروہی اسوقت راجھستان, کار مچ, بوڑ ھاکھیڑا, جند اور کرنال بارہ گاٶں کے مالک ہیں جنمیں کھوسرا بھادر گیرانا شامل ہیں اسکے علاوہ چھ گاٶں پٹیالہ اور ایک گاٶں سید پوراور آٹھ دوسرے گاٶں ضلع اتر پردیش میں بلند شہر کے آس پاس موجود ہیں سگروہا لفظ بھی لفظ سروہا سے ہی ماخوذ ہے نیز ایک الگ گوت کے طور پر بھی اپنی پہچان رکھتا ہے۔

سروہا : سرویا (سروآ) سروہ (سروہ) گوترا جاٹ مدھیہ پردیش، ہریانہ، اتر پردیش، راجستھان اور گجرات اور پاکستان میں رہتے ہیں۔ انہیں شیوگوتری سمجھا جاتا ہے۔ ساگروہ لفظ سروہا سے مشتق ہے اور ایک الگ گوتر کے طور پر موجود ہے۔ ملک، گٹھ والا، ٹانک، بورا اور سگروہا ایک ہی خاندان کے گوتر ہیں۔ للہ، سروہا یا سروہی، گٹھ والا اور ملک (مدرکہ کی شاخ) کے بارے میں: ملک، گٹھ والا، ٹانک، بورا اور سگروہا ایک ہی خاندان کے گوتر ہیں۔ گٹھ والا کے بارڈز کے مطابق، غزنی سے نکالے جانے کے بعد، ملتان اور دریائے ستلج کی طرف چلے گئے۔ ان کے ساتھ ان کے بارڈ بھی تھے، جن میں سے کچھ ڈوم اور حجام بن گئے۔ سکندر کے حملے کے وقت پنجاب میں ملک اور گٹھ والا (کاٹھ) جمہوریہ موجود تھے۔ وہ بعد میں ریاست جھنگ اور بہاولپور میں بھی مقیم رہے۔ وہ ہانسی کے قریب دیپالپور پر حکومت کرتے تھے۔ قطب الدین ایبک نے انہیں شکست دی اور ان کے دارالحکومت سے باہر نکال دیا۔ بعد میں وہ روہتک اور مظفر نگر اضلاع میں پھیل گئے۔ وہ پنوار اور مڈھن راجپوتوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ روہتک ضلع میں ان کے 35 گاؤں ہیں۔ چودھری باچا رام کو 160 دیہاتوں کے ایک بڑے کھاپ (جمہوریہ) کے رہنما سمجھا جاتا ہے اس کے علاوہ ریاست جند کے 10 گاؤں، ضلع حصار میں، 2 میرٹھ، 52 مظفر نگر اور کچھ ہماچل پردیش میں ہیں۔ موجودہ راجستھان، کرمچ، برہکھیرا، جند اور کرنال، اور 12 دیگر دیہاتوں جیسے کھوسرا، بھدور اور گرانہ میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پٹیالہ میں چھ گاؤں، ایک گاؤں سید پور، اور یوپی کے بلند شہر ضلع میں 8 دیگر گاؤں ہیں۔ سگروہا لفظ 'سروہہ' سے مشتق ہے اور ایک الگ گوترا کے طور پر موجود ہے۔ مقبول زبان میں، ٹانک سروہوں کا ذکر 'داہیا ڈباس' اور 'سدھو برار' کے امتزاج کی طرح ملتا ہے۔ ٹونک کے شہر سروہی ہیں۔ کسی زمانے میں پورے پنجاب کو ٹانک دیسا کہا جاتا تھا، چینی یاتریوں کی رپورٹیں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں، اصل میں وہ شیو کے سانپ کے پتلے کے پوجا کرنے والے تھے، اس لیے انہیں ناگا بھی کہا جاتا تھا۔ H.A. روز[7] لکھتے ہیں کہ ضلع سیالکوٹ کا رواجی قانون (Voliune XIV) p, 3، سرویا کو اعوان ذیلی طبقات کی فہرست میں دیتا ہے۔ سرویا کنفیڈریسی کے ذیلی ڈویژنبھیم سنگھ دہیا[8] ہمیں ان جاٹ قبیلوں کی فہرست فراہم کرتا ہے جو سیاسی عروج حاصل کرتے وقت سرویا کے حامی تھے۔ مندرجہ ذیل جاٹ قبیلوں نے بڑھتے ہوئے قبیلہ سرویا کی حمایت کی اور ایک سیاسی اتحاد کا حصہ بن گئے:[9]: 1۔ بلرا، 2. بھور، 3. گھنگاس، 4. ہنجراواں، 5. کجلا، 6. کالیراوان، 7. کھوت، 8. سراوت، 9. سرویا، 10. سوری۔ ~ پنڈت امی چندر شرما[10] نے جاٹ قبیلوں کی فہرست فراہم کی ہے جو سرویا کے سب ڈویژن تھے: 1۔ بلیرا، 2. گٹھ والا، 3. حجرا، 4. جاکھڑ، 5. کدیان، 6. کجلا، 7. کالیروان، 8. کھوت، 9. مہوری، 10. سنگوان، 11. سراوت، 12. سروہا، 13. سوری، تقسیم ہریانہ میں تقسیم سونی پت ضلع کے دیہات راد دھنا (، بیاان پور ، لہرارا ؛جگدیش پور روہتک ضلع کے دیہات ~پاکسما(پاکسما) فرید آباد ضلع کے دیہات دیال پور جنڈ ضلع کے گاؤں دل والا کروکشیتر ضلع کے گاؤں سرسما باگپت ضلع کے U P دیہاتوں میں تقسیم کاکور کلاں، لوہارا، لمبا، سبگا، شیرپور لوہارا، شاملی ضلع کے دیہات درگاہ پور، پورمفی، راجستھان میں تقسیم ضلع ٹونک کے گاؤں ضلع ہوشیار پور کے گاؤں

ضلع ہوشیار پور میں سارویا کو پنجاب میں ایک گوٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ضلع نواں شہر کے گاؤں گوجرانوالہ، لاہور اور فیصل آباد میں پائے گئے۔

قابل ذکر افرا:د

اجیت سنگھ سروہا، ٹورنٹو، اونٹاریو، کینیڈا میں بیرسٹر۔ آس پاس کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور خود حقیقت پسند افراد میں سے ایک۔

اقبال سنگھ سروہا IPS دہلی نریندر سنگھ سروہا _

راد دھنا گاؤں سے سافٹ ویئر انجینئر راج سنگھ سروہا (اے ایس آئی) ہریانہ پولیس ڈاکٹر وجے سروہا ایم بی بی ایس، ایم ڈی (ایم اے ایم سی دہلی) چودھری رندھیر سنگھ سابق ایم پی، فریڈم فائٹر رگھویر سنگھ شاستری (ساروہا) سابق ایم پی

اور باگپت ضلع کے کاکور کلاں سے سماجی مصلح یو پی پون کمار پہلوان۔ اس نے 20 نومبر 2016 کو ریسلر گیتا پھوگاٹ سے شادی کی۔

گاؤں راٹھ دھنا سے صنعت کار۔ سوامی سواتنترانند (سوامی آزادانند) سروہا گوترا ۔

امیت کمار سروہا پیرا اولمپیا اور ارجن ایوارڈ 2013،

بیاان پور گاؤں، سونی پت ضلع، ہریانہ سے۔ راہول سروہا IAS2014، درجہ 476۔

روبل سروہا: IRS (C&CE) 2014 بیچ، سونی پت سے، M: 8587091106 پہلوان کرشن سروہا بیاان پور سونی پت ہرپال سنگھ آروش (ساروہا) ہندی سنستھان اتر پردیش 27 فروری 2009 کو انہیں 'رام چندر شکل سمان' سے نوازا گیا۔

ملک سرویہ یا سروہا قبیلے ک بارے میں اک تحریر فیس بک پر نظر سے گزری جسکے آخر میں اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے کٸی لوگوں کے کمنٹس لکھے تھے جنکو میں نے یہاں پر کاپی پیسٹ کیا ہے  چونکہ یہ قبیلہ ضلع لودھراں کی تحصیل کہروڑ پکا کی یوسی چیلے واہن میں بھی آباد ہے جو ملک سرویہ کہلاتے ہیں  تقسیم ہند کے بعد اس جگہ آکر آباد ہوٸے ہیں یہاں پر یہ لوگ ملک تیلی اور ملک سرویہ بھی کہلاتے ہیں اور پنجاب کے بعض دوسرے مقامات پر  یہ قبیلہ سروہی  سرویا سروہا سگروہا وغیرہ وغیرہ مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ پہلے وہ کمنٹس درج کرتا ہوں اور بعد میں جٹ لیڈ ساٸیٹ کی اس قبیلہ کے بارے میں تحقیق جسکا ترجمہ میں نے خود کیا ہے  جسمیں غلطی اور درستگی کا امکان ہو سکتا ہے۔:

؎”سرویا جٹ قوم کا سورج بنسی قبیلہ ہے ۔۔سرویا کٸی سوجٹ قبیلوں کا باپ قبیلہ ہے۔

سرویا قبیلہ کی اولاد میں ڈھلوں۔گوراٸیہ۔۔ملہی ناٸچ بھٹہ ڈھر۔شجرہ۔۔ہنجرا وغیرہ۔۔

؎سرویا سوریاونسی جاٹوں کی شاخ ہے۔۔۔۔ بہت قدیم ہیں یہ لوگ ان کی  برانچز بھی کافی بڑی ہیں جس میں ملہی بھٹہ لنگاہ ہنجراء بسراء سپراء اور بھی بہت سے شاخیں ہیں ۔ہریانہ اترپردیش مدیہ پردیش ہماچل، ملتان خانیوال  میں زیادہ آباد ہیں۔۔

اور سرویا لوگ وہ بھی ہیں جن نے سکندر یونانی کے خلاف بغاوت کی تھی۔

؎میرا گاؤں نارنگ منڈی میں ہے اور میرے کافی رشتےدار سرویا ہیں جو کے کرتار پور آباد ہیں۔

؎Saroya jatt hoty hein. Sahiwal,chichwatni,vehri,burewala is sdie py bht hn division Faislabd my b hn

ساہیوال،  پاکپتن روڈ پر بھی ہیں کافی خاندان

یہ راجپوت اور جاٹ کی مشترکہ گوت ہے.راجپوتوں کی کیسے۔جٹ تو اس خطے کی قدیم  باشندے ہیں۔راجپوت تو کہیں بعد کی پیداوار ہیں ۔

؎لفظ ملک چونکہ اکثریتی طور پر جٹ قباٸل کا ہی لقب یا خطاب ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک سرویہ اک خالصتا جٹ قبیلہ ہی ہے۔

؎آپ کے گاوں کا نام کیا ہے میں بھی جٹ سرویا ھوں میں کامونکے کا رھائشی ھوں ھمارے کافی گھر ھیں اور کئی پشتوں سے یہاں آباد ھیں یہ قبیلہ بہت بڑا ھے جس میں سے بےشمار قبیلوں نے جنم لیا ھے اس میں مختلف مزاھب مسلمان ھندو سکھ عیسائی  شامل ھیں اور مختلف پیشوں کے لوگ بھی شامل ہیں یہ دنیا میں پھیلے۔ ھوے ہیں ۔

؎یہ لوگ جٹ ہیں اور سیالکوٹ نارووال مریدکے میں بھی آباد ہیں اور جاٹوں میں ہی شادی کرتے ہیں۔

؎Choudry Imran Khokhar: hamary qareeb villages Mai jitny b saroye hai wo jatt kahlaty hai ur unho ny jatto ki dusri families jasy virk ghuman Mai shadiya b ki huii hai“ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:04، 25 مارچ 2024ء (م ع و)

کلیار جٹ بھٹی قبیلہ کی تاریخ[ترمیم]

کلیار جٹ قبیلہ کی تاریخ

کلیار جٹ" راجا راج وردھن بھٹی جٹ "

کی اولاد ہیں _

رہائش پذیر

کلیار جٹ بھٹی قبیلہ کی اکثریت پنجاب میں

ساندل بار اور کیرانہ بار میں پائی جاتی ہے _

سندھ میں بھی یہ قبیلہ مخصوص تعداد میں پایا جاتا ہے _

بھارت میں امرتسر ، بھٹنڈہ اور بیکانیر میں بھی اس جٹ قبیلہ کی آبادی موجود ہے _

کلیار ابتدائی طور پر ضلع لودھراں کی یو سی چھمب کلیار میں آباد ہوئے جو کہ آدم واہن کے پاس ہے۔

اس کے بعد اس کی اولاد نے کرانہ بار میں ہجرت کی ۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، کلیار اب بھی بنیادی طور پر ضلع سرگودھا کرانہ بار میں پائے جاتے ہیں۔

کیرانہ بار کے اہم دیہاتوں میں چوکیرا (چک 79 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)، ٹانگووالی، سیدوانہ، ساموراں والی (تحصیل سرگودھا میں) اور موضع کلیار شامل ہیں۔ تحصیل شاہ پور میں ان کے دیہات میں فیروز مکی، صالح آباد، کوٹ گل اور میر احمد شیر گڑھ شامل ہیں۔ کلیار کی دیگر اہم بستیوں میں کلیار، چک 205، چک شامل ہیں۔ 206، ضلع جھنگ میں چک 207، روڈو سلطان کے قریب موضع ڈیرہ، ضلع فیصل آباد میں جھوک کلیار اور وزیر آباد قصبے کے قریب بھٹکے۔ قصبہ چمب کلیار قبیلے کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تقریباً کلیار شمال کی طرف کیرانہ بار کی طرف ہجرت کر گئے، ضلع بہاولپور میں بھی چند دیہات ہیں جیسے چنی گوٹھ، ان کے گاؤں نواب شاہ کے ضلع میں بھی ہیں اور حیدرآباد، کراچی سندھ میں بھی رہتے ہیں۔

کلیار سے منسوب علاقے

انکے بارے میں درج ہے راجا کلیار اپنے والد راجا راج وردھن کے ساتھ ہجرت کرکے گجنی(غزنی) شہر سے پنجاب آئے اور یہاں انہوں نے "چھمب کلیار" کا علاقہ آباد کیا _

سرگودھا میں کلیار ٹاؤن کا محلہ بھی اس قبیلے کے نام سے منسوب ہے _

پیشہ

کلیار جٹ بھٹی قبیلہ کی اکثریت زراعت پیشہ ہے لیکن عسکری لحاظ سے بھی کلیار باقی جٹ قبائل سے کم نہیں _

پنجاب کے جنگجو جٹ قبائل میں کلیار بھی شامل ہیں _

زبان اور ثقافت

کلیار جٹ قبیلہ جہاں موجود ہیں علاقائی زبانیں مثلاً سراٸیکی۔ پنجابی اور سندھی بولتے ہیں _

ہر جٹ قبیلہ کی طرح کلیار بھی علاقائی لباس اور بڑی مونچھیں رکھتے ہیں _

مذاہب

کلیار جٹ قبیلہ کی اکثریت مسلمان ہے لیکن سر ای ڈی میکلیگن کے مطابق یہ سکھ مت اور ہندو مت مذاہب میں بھی موجود ہیں _

اس قبیلہ نے حضرت شیر شاہ جلال آف اچ شریف کے دست مبارک پہ اسلام قبول کیا _

جنگ و جدل کا سلسلہ

کلیار جٹ قبیلہ تاریخی لحاظ سے ایک جنگجو قبیلہ ہو گزرا ہے جس نے دوسرے جٹ قبائل مثلاً بھٹہ جٹ اور لنگاہ جٹ کے ساتھ جنگیں کیں _

ذیلی قبائل

کلیار جٹ بھٹی کی ذیلی گوتوں میں

کانجوں جٹ بھٹی ،

اترا جٹ یا اتیرا جٹ بھٹی اور

حطار جٹ بھٹی یا ہتیار جٹ بھٹی

شامل ہیں _

قدیم تاریخی تذکرات:

سر ایچ اے روز کی کتاب میں درج ہے کہ

"کلیار شاہ پور کا ایک زراعت پیشہ جٹ قبیلہ ہے" _

سر ای ڈی میکلیگن کی کتاب میں درج ہے کہ

"کلیار پنجاب کے بھٹی جٹوں کا ایک اہم جٹ قبیلہ ہے" _

سر ڈینزل ابسٹن نے اپنی کتاب میں کہا

"پنجاب کے جٹ عمدہ ، طاقتور اور لڑاکے لوگ ہیں اور اپنے جٹ ہونے پر اور اپنے خون پر بہت فخر کرتے ہیں "_

لقب اور خطاب

کلیار جٹ قبیلہ کی اکثریت اپنے نام کے ساتھ" رائے" کا لقب استعمال کرتے ہیں _

اس کے علاوہ کلیار جٹ قبیلہ کے لوگ اپنے نام کے ساتھ "خان ، ملک ، سردار اور چوہدری" کے خطاب بھی استعمال کرتے ہیں _

مشاہیر شخصیات

رائے نور محمد کلیار متحدہ پنجاب کے کم عمر ترین ذیلدار ہو گزرے ہیں _

رائے سموں خان کلیار

خان صاحب اور خان بہادر کے خطاب حاصل کرنے کے علاوہ متحدہ پنجاب کے سب سے بڑے ذیلدار ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے ۔

کلیار جٹ بھٹی قبیلے کے دیگر مشہور ذیلداروں میں

رائے محمد خان کلیار

رائے رستم خان کلیار

خان بہادر راجا خان صاحب کلیار

رائے نور محمد کلیار ( کرنل صالح محمد کلیار کے والد ، مرحوم کرنل صالح محمد کلیار صاحب بذات خود ایک قابل اور شریف النفس انسان تھے ) میاں صالح محمد کلیار ،

میاں شمشیر علی کلیار - ( میاں صالح محمد کلیار مرحوم کے دوسرے فرزند میاں محمد حیات کلیار مرحوم ہیں ) _ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:18، 25 مارچ 2024ء (م ع و)

میلسی کی تاریخ[ترمیم]

میلسی کی تاریخ

تحقیق و تدوین= ڈاکٹر ملک حسن امتیاز  ڈیوا (جٹ بھٹی)

میلسی کا شمار ملتان کے قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جس کا نام مورخین کے مطابق ’ملہی‘ قوم کے نام سے اخذ کیا گیا ہے۔ ’ملہی‘ قوم ملتان میں رہتی تھی۔

320 قبل مسیح میں جب سکندرِ اعظم نے ملتان پر حملہ کیا تو ملہی قوم کے بہت سے لوگ دریائے ستلج کے شمال میں آ کر آباد ہو گئے جہاں مَلہی قوم کے رہنے کی وجہ سے میلسی کہلانے لگا۔

محمد بن قاسم نے 712ء میں ملتان پر حملہ کیا تو اس وقت میلسی بھی موجود تھا لیکن یہاں پرتھوری راج کی حکومت تھی۔ شہاب الدین غوری نے 1292ء میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دی۔

اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں بننے والی ملک واہن اور جلہ جیم کی بادشاہی مسجد اور مزار خواجہ ابو بکر وراق کا مزار موجود ہیں۔

تقسیم سے پہلے میلسی کی آبادی تقریباً 20 ہزار نفوس پر مشتمل تھی جس میں 50 فیصد مسلمان، 30 فیصد ہندو اور 20 فیصد سکھ اور مسیحی آباد تھے۔

تحصیل کا درجہ

پہلی دفعہ میلسی کو تحصیل کا درجہ 1849ء میں ملا تب یہ ضلع ملتان کا حصہ تھی۔ 1935ء میں میلسی کو سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا لیکن سات سال بعد 1942ء میں درجہ کم کر کے دوبارہ تحصیل بنا دیا گیا۔

قیام پاکستان 1947ء کے بعد بدستور ملتان کی ہی ایک تحصیل کا درجہ حاصل رہا۔

1976ء میں جب وہاڑی کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو میلسی کو وہاڑی کی تحصیل بنا دیا گیا۔ تحصیل میلسی کے دیہی علاقہ کو 38 یونین کونسلز اور شہری حلقہ کو میونسپل کمیٹی کے 12 وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے۔میلسی کا اسٹیشن 1929 میں بنایا گیا

اسٹیشن کے ساتھ ایک ڈسپنسری بھی بنائی گئی جسے بعد میں ریلوے ہسپتال بنا دیا گیا.

محلِ وقوع

تحصیل میلسی لاہور سے تقریباً 346 کلومیٹر

مغرب کی طرف، قدیم شہر ملتان سے 84 کلومیٹر جنوب کی طرف اور وہاڑی سے 42 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔

میلسی کے جنوب میں کہروڑ پکا، مشرق میں حاصل پور، مغرب میں خانیوال، ملتان اور شمال میں وہاڑی شہر آباد تحصیل میلسی ضلع وہاڑی، پنجاب، پاکستان کی تین تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے۔ اس تحصیل کا صدر مقام میلسی ہے۔ اس میں 31 یونین کونسلیں ہیں ۔

میلسی بلاک

گڑھا موڑ

110/WB چک نمبر

124/WBچک نمبر

151/WBچک نمبر

335/WBچک نمبر

86/WBچک نمبر

88/WBچک نمبر

چک نمبر 1کوٹ قادر

عالم پور

علی واہ

بورانہ خاص

جہان پور

کرم پور

الہ آباد

سکندر آباد

بستی گوجیاں

کھرالہ

لال سگو

لاٸل پور

میلسی شرقی

میلسی غربی

  خانپور

مترو

محمد شاہ سرگانہ

سنڈھل

سرگانہ

سحر

احمدپور

شتاب گڑھ

ٹبہ سلطان پور

ظہیر آباد شہید

دورہٹہ

جلہ جیم بلاک

جلہ جیم شرقی

جلہ جیم غربی

  ویرسی واہن

بلند پور

  ککری خورد

فتح پور

  آراٸیں واہن

گنواں چھتانی

نیاز پور

آبادی

1998ء کی مردم شماری کے مطابق تحصیل میلسی کی کل آبادی سات لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں58 فیصد خواتین اور 42فیصد مرد ہیں۔

میلسی میں 35 فیصد آبادی شہری علاقوں میں اور65 فیصد آبادی دیہاتی علاقوں میں مقیم ہے۔

برادریاں

میلسی میں مختلف برادریوں میں جٹ جوئیہ، جٹ بھٹی؛راجپوت بھٹی؛ شیخ بورانہ ؛بھابھہ جٹ بھٹی؛ مرالی جٹ بھٹی ؛مترو جٹ بھٹی ؛سنڈھل ؛ آرائیں، راجپوت، کھچی، لودھرا جٹ؛پنوار جٹ؛ رتھ جٹ پٹھان، سید برادریوں کے لوگ آباد ہیں۔ ہیں۔نیز تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنیوالے  اکثر راجپوت گروہ جات جنکی مادری زبانیں پنجابی؛  

اس تحصیل میں درج ذیل قبیلے آباد ہیں!

1,غیر جٹ قباٸل

2,جٹ قباٸل

3,راجپوت قباٸل

1,غیر جٹ قباٸل :

شیخ -آرائیں - بلوچ,مغل -پٹھان- قریشی- سادات   غوری - افغان اور انکی ذیلی شاخیں مثلاََ:

  اعوان؛ لودھی پٹھان - عباسی قریشی - ہاشمی قریشی ۔ نیکو کارہ قریشی ؛کوریجہ قریشی , - بخاری سادات ؛ گیلانی سادات وغیرہ-

  2,جٹ قباٸل:

٧جٹ بھٹی قباٸل :-

, ڈیوا  بھٹی , کلاسن بھٹی , بھابھہ بھٹی  پھل بھٹی ؛کلیار بھٹی ؛چنڑ بھٹی , کانجو بھٹی , عاربی بھٹی , مرالی بھٹی

نون بھٹی , وگن بھٹی , وٹو بھٹی , وڈ بھٹی-نول بھٹی ۔ڈال بھٹی؛ کلیار  بھٹی ؛ کھمان بھٹی؛مترو  بھٹی؛  مے بھٹی لکھن بھٹی؛ سرپال بھٹی ، کلیاربھٹی، مہاربھٹی، جکھڑبھٹی، چھمبھڑبھٹی، دھاریوال بھٹی، سمبڑیال، مانگٹ، بھٹی، اتراء بھٹی، پہوڑ بھٹی، سنپال بھٹی،سدھوبھٹی براڑ بھٹی پھل بھٹی اور ۔یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ بھٹی قبیلہ اور اسکی تمام ذیلی شاخیں جنگجوٸی میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں نیز بھٹی برضغیر کا ایک کثیر التعداد قبیلہ ہے جسکی بیشمار ذیلی شاخیں ہیں۔

اور نیز تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنیوالے  اکثر بھٹی گروہ جات جنکی مادری زبانیں پنجابی؛  

ہریانوی/رانگڑی؛میواتی  وغیرہ ہیں  خود کوراجپوت بھٹی کہلواتے ہیں مگر درحقیقت تمام   بھٹی گروہ جات یا شاخیں ایک ہی جد امجد سے تعلق رکھتی ہیں نسلی لحاظ سے تمام بھٹی گروہ اور شاخیں جٹ ہی ہیں یعنی Same Blood Line ہی ہیں۔  اور لفظ راجپوت بھٹی قبیلہ کا شاہی خطاب (Surname) ہے۔راجپوت بذاط خود کوٸی یک جدی قبیلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مختلف الاجداد قباٸل کا شاہی خطاب ہے۔

جٹ جوِئیہ قباٸل:-

سلدیرہ جوٸیہ؛گندراہ جوٸیہ ؛بھڈیرہ جوٸیہ؛لالیکا جوٸیہ لکھویرہ جوٸیہ؛دولتانہ جوٸیہ؛ مسوانہ جوِئیہ , واہگہ جوِئیہ , بلوانہ جوِئیہ ,الپہ/الپیرا ,گندراہ جوِئیہ ؛ساہوکا جوٸیہ؛اکوکاجوٸیہ

جٹ قباٸل:

- بریار جٹ - اریا جٹ - ڈیسی جٹ - ڈال جٹ- ڈھڈ ی جٹ- رڈ جٹ -پنوار جٹ - پٹوار جٹ- سوروجٹ ؛کھوکھر جٹ - کھیڑا جٹ -حسام جٹ-  چوہان جٹ - کھچی جٹ - لنگاہ

  سنڈھل جٹ؛ سگو جٹ ؛  بھٹہ جٹ،  ڈاھے(ڈاھا)جٹ ؛ڈاہر  جٹ؛ گجر، جٹ، ں راہگو جٹ -  واگی جٹ- پچار جٹ۔  

رتھ جٹ- بھٹہ جٹ- جونہی جٹ - سھو جٹ- راندو جٹ - اثڑ جٹ- بوکا جٹ- گڈن جٹ - ملانہ جٹ - وجن جٹ-

مہا رجٹ- پریار جٹ - پرہاڑ جٹ -  چنا جٹ- حطار جٹ   

سندھو جٹ- سرویہ جٹ -  وریاہ جٹ-  - گھلو جٹ - لودھرا جٹ -ریحان جٹ - چودھن جٹ-  چوہڑ جٹ -  سہوترہ جٹ-  - گنب جٹ - گھمن جٹ - کلال جٹ - آہیر جٹ - نائچ جٹ -

جس جٹ - جیسل جٹ - سوہلہ جٹ - ڈھکو جٹ - پن جٹ  ہانس جٹ - چیمہ جٹ  -  جھنجھ جٹ - ڈمرہ جٹ -  سہول جٹ- لیل جٹ - سیرانی جٹ- کریالہ جٹ - پہی جٹ-

گمبول جٹ - جلولہ جٹ - کہنوں جٹ - کلہوٹہ جٹ- چھینہ جٹ - کھور جٹ- ماہنی جٹ - باٹی جٹ - واندر جٹ- دھیر جٹ؛ دھریجہ جٹ - سمیجہ جٹ - چکلیار جٹ - لس جٹ وغیرہ -

3,راجپوت قباٸل:

مندرجہ بالا جٹ قباٸل میں اکثر جٹ قباٸل راجپوت بھی گنے جاتے ہیں کیونکہ ان جٹ قباٸل نے ازمنہ قدیم میں آپ راجی دور میں اپنے اپنے مختلف علاقوں پر راج یا حکمرانی کی تھی جس وجہ سے بہت سے نسلی جٹ قباٸل بطور خطاب راجپوت بھی پکارے یا پہچانے جاتے ہیں۔نیز تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنیوالے  اکثر راجپوت گروہ جات جنکی مادری زبانیں پنجابی؛  

ہریانوی/رانگڑی؛میواتی  وغیرہ ہیں  خود کوراجپوت  کہلواتے ہیں مگر درحقیقت تمام  گروہ جات یا شاخیں ایک ہی جد امجد سے تعلق رکھتی ہیں نسلی لحاظ سے اکثر جٹ اور راجپوت  اور انکے ذیلی قباٸل؛ گروہ اور شاخیںsame same  ہی ہیں یعنی Same Blood Line ہی ہیں۔  اور لفظ ”راجپوت“ جٹ اور غیر جٹ حکمران قباٸل کا شاہی خطاب (Surname) ہے۔راجپوت بذاط خود کوٸی یک جدی قبیلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مختلف الاجداد  قدیم حکمران قباٸل کا شاہی خطاب ہے۔جبکہ جٹ ایک یک جدی قبیلہ ہے تاہم فی زمانہ بہت سے غیر جٹ کاشتکار قباٸل نے بھی خود کو جٹ کہلوانا شروع کر دیا ہے۔

میلسی کے مشہور سیاسی اور با اثر خاندان:

کھچی چوہان جٹ؛منیس جٹ بھٹی ؛بھابھہ جٹ بھٹی؛ مترو جٹ بھٹی ؛یوسفزٸی پٹھان ؛ بادو زٸی پھان

زراعت

میلسی کا قابلِ کاشت رقبہ تقریباً چار لاکھ پانچ ہزار چار سو 83 ایکڑ ہے جہاں گندم، کپاس، گنا، دھان، چارہ جات، تِل دار اجناس کے لیے اراضی زرخیز ہے۔

کاٹن فیکٹریاں

میلسی میں ایک سو کے قریب کاٹن فیکٹریاں موجود تھیں ان میں اب صرف تقریباً 20 فیکٹریاں باقی ہیں۔

لوگوں کا روز گار جننگ فیکٹریوں میں کام کرنا تھا۔ فیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے زیادہ تر مزدور ملتان، لاہور، فیصل آباد اور کراچی میں مزدوری کے لیے منتقل ہو گئےہیں۔

میلسی کے چند مشہور مقامات:

جھنڈیر لائبریری

میلسی کے موضع جھنڈیر میں بین الاقوامی جھنڈیر لائبریری کو ایشیاء کی ساتویں بڑی لائبریری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

میلسی سائفن

میلسی کی مشہور نہریں سندھنائی میلسی لنک کنال، ڈھمکی کینال، میلسی بہاول کنال، کرم برانچ کنال اور پاکپتن کنال ہیں۔

1962ء میں دریائے ستلج کے مقام پر سائفن تعمیر کیا گیا جہاں دریا اور نہر کے پانی کو الگ الگ گزارا جاتا ہے جو ایک تفریحی مقام کی حثیت رکھتا ہے۔

قدیم آبادیاں

میلسی شہر خاص کی قدیم آبادیوں میں نام شنکر پورہ، دھرمپورہ، مدینہ ٹاون، کچا کوٹ ہیں۔

اہم بازار

میلسی شہر خاص کےاہم بازاروں میں تحصیل بازار، پیپل بازار، فدہ بازار اور تھانہ بازار ہیں جبکہ جہاں ٹِلو پورہ (محلہ صدیقِ اکبر)، رسولپورہ، محمدی محلہ اور ریاض آباد شامل ہیں۔

سکولز

میلسی میں پہلا گورنمنٹ پرائمری سکول 1864ء میں بنایا گیا جسے 1890ء تک ہائی سکول کا درجہ مل گیا۔ تحصیل میلسی میں 596 سرکاری سکول موجود ہیں۔

کالجز

1976ء میں بوائز کالج، 1980ء میں لڑکیوں کا کالج بنایا گیا جنہیں 1995ء میں ڈگری کالج کا درجہ دے دیا گیا۔

ہسپتال

میلسی کا تحصیل ہسپتال ڈسٹرکٹ بورڈ نے 1918ء میں ڈسپنسری کی صورت میں شروع کیا جسے 1932ء میں ہسپتال بنا کر یہاں میڈیکل آفیسر متعین کیے گئے اور 12 بستر کا وارڈ بنا دیا گیا بعدازاں مختلف ادوار میں اس کی اپ گریڈیشن ہوتی رہی پہلے 60 بیڈ کا ہسپتال بنا پھر ہسپتال کو 90 بیڈ کا ہسپتال بنا دیا گیا۔

تحصیل کا درجہ

پہلی دفعہ میلسی کو تحصیل کا درجہ 1848ء میں ملا تب یہ ضلع ملتان کا حصہ تھی۔ اس سے قبل میلسی کا علاقہ ریاست بہاولپور کا حصہ تھا . 1935ء میں میلسی کو سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا لیکن سات سال بعد 1942ء میں درجہ کم کر کے دوبارہ تحصیل بنا دیا گیا۔

قیام پاکستان 1947ء کے بعد بدستور ملتان کی ہی ایک تحصیل کا درجہ حاصل رہا۔

1976ء میں جب وہاڑی کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو میلسی کو وہاڑی کی تحصیل بنا دیا گیا۔

حالیہ الیکشن میں ہونے والی حلقہ بندیوں میں تحصیل میلسی کے دیہی علاقہ کو 38 یونین کونسلز اور شہری حلقہ کو میونسپل کمیٹی کے 12 وارڈز میں تقسیم کیا گیا ہے۔

محلِ وقوع

میلسی ملتان سے 90 کلومیٹر مشرق اور وہاڑی سے 42 کلومیٹر جانب جنوب اور بھاولپور سے 84 کلومیٹر جانب جنوب مشرق واقع ہے۔

میلسی کے جنوب میں کہروڑ پکا 33 کلومیٹر ھے ، مشرق میں حاصل پور، مغرب میں خانیوال، ملتان اور شمال میں وہاڑی شہر آباد ہے۔

آبادی

؎سیاسی شخصیات:

سابقہ ایم این اے اورنگزیب خان کھچی ہیں اور سابقہ ایم پی اے جہانزیب خان کھچی تحریک انصاف سے کا میاب ہوئے ہیں اور منسٹر ٹرانسپورٹ ہیں جن کے والد احمد نواز خان عرف دلاور خان متعدد باز ایم این اے میلسی رہے. ان سے پہلے سعید احمد خان منیس جٹ بھٹی مسلم لیگ ن سے ایم این اے اور تحریک انصاف کے جہانزیب خان کھچی ایم پی اے تھے.

میاں محفوظ نواز آرائیں پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم پی اے رھے۔ بعد میں مختلف ادوار میں ان کے بیٹے میاں زاہد نوازارائیں اور میاں ماجد نواز ارائیں بھی ایم پی اے رہے۔

ارشاد احمد خان پٹھان میلسی کے ایم این اے کے بعد میں انکے بیٹے محمود حیات عرف ٹوچی خاں ایم این اے رھے.

عطاء حسین خاکوانی رکن مغربی پاکستان اسمبلی، میاں ممتاز خان بھابھہ چار بار ایم این اے اور ایک بار ضلع کونسل کے ناظم رہے۔

غلام حیدر احمد خان کچھی میلسی کے پانچ بار ایم پی اے رہے۔نعیم خان بھابھہ( جٹ بھٹی) آف دھلو

نور محمد خان بھابھہ( جٹ بھٹی )سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری اور تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے کوارڈی نیٹر بھی رہ چکے ہیں۔

؎ریلوے اسٹیشن

میلسی میں ریلوے اسٹیشن 1929ء میں بنایا گیا اور ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ساتھ ڈسپنسری بنائی گئی جسے پھر ریلوے ہسپتال کا درجہ دے دیا گیا۔

؎ مختلف شہروں سے میلسی کا فاصلہ :

یہ ملتان سے 84 کلومیٹر، کراچی سے 915 کلومیٹر، لاہور سے 348 کلومیٹر، فیصل آباد سے 251 کلومیٹر، بہاولپور سے 94 کلومیٹر، حاصل پور سے 60 کلومیٹر، وہاڑی سے 42 کلومیٹر، بورےوالاسے 73 کلومیٹر، عارف والا سے 115 کلومیٹر اور پاکپتن سے 148 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دریائے ستلج شہر کے مشرق میں بہتا ہے۔

رقبہ شہر

5 کلومیٹر2 (2 میل مربع)

آبادی 7,04,878

• شہر

• کثافت

3,550/کلومیٹر2 (9,200/میل مربع)

• شہری 88,992

منطقۂ وقت

پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)

• گرما (گرمائی وقت)

PDT (UTC+5)

ٹیلی فون کوڈ

067

ویب سائٹ

http://www.mailsi.com.pk

میلسی کی ثقافت پنجابی و سرائیکی ہے اور لوگوں کا عام لباس شلوار قمیض ہے لیکن پینٹ شرٹ بھی مقبول ہے ثقافت میں ملتانی رنگ نمایاں ہے لوگ ملتانی طرز کے کھانے ہی عام طور پر پسند کرتے ہیں

زبان

سکولوں اور دفاتر میں زیادہ تر اردو اور انگریـزی رائج ہے۔ یہاں بولی جانے والی زبانوں میں اکثریتی زبان سرائیکی اور پنجابی شامل ہیں۔ اردو قومی زبان کے طور پر ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ انگریزی پڑھے لکھے طبقے میں مقبول ہے۔

تعلیمی ادارے

اورنگذیب دور میں بننے والی ملک واہن میں بادشاہی مسجد ودرسگاہ

آرمی اسکول اینڈ کالج میلسی

گورنمنٹ ڈگری کالج میلسی

پنجاب گروپس آف کالج میلسی

پاکستان کالج آف ٹیکنالوجی

دی ایجوکیٹر اسکول میلسی

ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میلسی

وسٹا کالج میلسی

ورچوئل یونیورسٹی میلسی ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:19، 27 مارچ 2024ء (م ع و)

عورت مرد اور محبت[ترمیم]

عورت کا لفظ عورہ سے نکلا ہے جس کے معنی “چهپی ہوئی چیز” کے ہیں۔عورت الله رب العزت کی بہت ہی پیاری پیدا کردہ مخلوق ہے۔ایک مومن عورت بالکل اسی طرح قیمتی ہے جیسے کسی سیپ میں چهپا ہوا انمول موتی۔ سیپ کے باہر مٹی ہو یا پانی صاف ہو یا گندا اس سے موتی کی حیثیت خراب نہی ہوتی نہ اس پر کوئی آنچ آتی کیونکہ وہ تو الله کے دئیے ہوئے محفوظ پردے میں ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک مومن عورت اگر خود کو انمول سمجھ کر الله کے حکم کی تعمیل کرے تو وہ اس انمول موتی سے بڑھ کر انمول ہو سکتی ہے۔ ؎عورت کی تربیت عورت ہی سے مشروط ہے ماں جیسی ہوگی بیٹی بھی وہی کچھ کرے گی مگر بہتر تعلیم اور تربیت ایک بہترین عورت پیدا کرتی ہے۔ ؎مرد اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے یا نہ کرے عورت کے لئے اسلام پردے کا حکم دیتا ہے۔ اور عورت پردہ کرے یا نہ کرے۔ اسلام مرد کو اپنے نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیتا ہے اسلام ہمیں جو علم دیتا ہے اس میں " وہ" اور میں " کا بہانہ نہیں چلتا۔ عورت کی عزت اپنے شوہر کے ساتھ رہنے میں ہی ہوتی ماں باپ یا بہن بھائیوں کے گھر ذلت بھری زندگی تو گزار سکتی ہے  عزت والی زندگی ہرگز ہیں نہیں ۔Maa dy ge Roti ......... Shohar dy ga boti.......... ؎ایک عورت کی میچورٹی یہ ہے کہ اسے یہ علم ہو کہ مضبوط اور باکردار ہونا خوبصورت ہونے سے لاکھ درجے بہتر ہے. ؎.غیر محرم کے معاملے میں عورت کا بد اخلاق ہونا ہی ایک اچھا اخلاق ہے ۔ ؎عورت کی بربادی کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب اُسے اپنے شوہر کے علاوہ مختلف مردوں سے اپنی تعریف سُننے کی عادت پڑ جائے۔ ؎دانشور و ذہین عورت کے ساتھ چائے پینا مرد کی خواہش ہے ۔۔ مگر گھر بسانا مردکی تمنا نہیں ۔ ؎غیرت مند عورت حالات بدلتی ہے  شوھر نہیں۔ ؎مرد مرچ کی طرح تیز ہوتا ہیے مگر مرد جتنا بھی تیز ہو عورت اس کا اچار ڈال دیتی ہیے۔؎مرد  ہمیشہ  لالچی  عورتوں کو ذہنی مریض بناتے ہیں ، دلہن نہیں۔ ؎اک مخلص عورت ہزار خوبصورت عورتوں سے زیادہ پیاری ہوتی ہے ۔ ؎اک عورت کا اک دھوکے باز مرد کو  چھوڑ کر بار بار نٸے مرد سے دھوکاکھانے سے بہتر ہے کہ ایک ہی مرد سے بار بار دھوکا کھایا جاٸے کیونکہ بار بار دھوکا دینے والا اکروز تماشہ بن جاتا ہے ورنہ ہر بار نٸے بندے سے دھوکا کھانیوالے کا ہی تماشہ بن جاتا ہے۔ ؎مرد کو اگر اس کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت سے عزت اور وفا مل جائے تو وہ کبھی دوسری عورت کو دل میں جگہ نہیں دیتا....‏ ؎عورت ميں اللّٰہ نے آٹو میٹک حيا رکھی ہے اور جس عورت ميں حيا نہيں ہوتی وہ سہی معنوں ميں عورت نہيں ہوتی۔ ؎یونانی ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎﻧﭗ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﮯ۔

ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﺎ کہنا ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻭ ﻓﺴﺎﺩ کی ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺑﻮﻧﺎ ﻭﭨﯿﻮﮐﺮ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﺑﭽﮭﻮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮈﻧﮓ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﻼ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﻮﺣﻨﺎ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺷﺮ ﮐﯽ بیٹی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ۔ ﺭﻭﻣﻦ ﮐﯿﺘﮭﻮﻟﮏ ﻓﺮﻗﮧ کی تعلیمات ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻼﻡِ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮔﺮﺟﺎ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ سب ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺭﻭﻣﺘﮧ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ لونڈیوں ﺳﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺗﮭﯽ، ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ یورپ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮﻥ ﺁﻑ ﺁﺭﮎ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﺭِ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﯿﺎ جاتا ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ تھے۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت ﮐو وہ مقام عطا فرمایا جو آج تک کسی مذہب میں حاصل نہیں  اب اگر عورت ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت بیٹی ہے تو بخشش کا زریعہ بیوی ہے تو ایمان کی تکمیل کا زریعہ بہن ہے تو غیرت کا زریعہ.. ؎اُس مرد سے بڑا نامرد کوئی نہیں ہے جس پر ایک عورت بھروسہ کرے  اور وہ اُس عورت کی عزت کو سرِ بازار رُسوا کر دے۔🥺؎مرد کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے ایک لبرل عورت دوست کے روپ میں چاہئیے، اور ایک مذہبی عورت بیوی کے روپ میں... ؎" غیبت عورتوں کا میوہ ہے"حسن بصری رحمہ اللّٰہ ؎مرد محبت جسم کی خاطر کرتا ہے اُسے جسم کی طلب ہوتی ہے یہ اُس کی مجبوری  بھی کہی جا سکتی ہے لیکن عورت فریبی ہے دھوکہ دینے کے لیے محبت کرتی ہے اُسے جسم سے غرض نہیں  اُسے اپنی عیاشی سے غرض  ہوتی ہے کہتے ہیں مرد عیاش پرست ہے نہیں۔۔۔ مرد عیاش پرست ظاہر ہوتا ہے لیکن عیاشی عورت کو چاہیے مرد آوارہ ظاہر ہوتا ہے لیکن آوارگی عورت کو چاہیے مرد جسم کو پانے کے لیے  عورت کا دھوکہ دینا بھی منظور ہوتا ہے وہ جانتا ہے عورت دھوکہ دے گی پھر بھی عورت کی طلب کرتا ہے کیونکہ مرد کو عورت کی ضرورت ہے پر عورت کو کسی کی ضرورت نہیں ۔ ؎عورت باپ کے گھر بہت صبر والی ہوتی ہے اور شوہر کے گھر کیوں بے صبری ہو جاتی ہے ۔ باپ کی غریبی قبول شوہر کی نہیں۔مرد کا امتحان عورت ہے اور عورت کا امتحان پیسہ ہے ۔فیثا غورث؛ ؎غریبی مرد کو ننگا کر دیتی ہےاور پیسہ عورت کو. ؎عورت کی دوستی صرف عورت کے ساتھ جچتی ہے مرد کے ساتھ تو عورت صرف نکاح میں اچھی لگتی ہے🌸🥀 ؎عورت مرد ایکدوسرے کو اگرپسند کر کے تسلیم کر لیں تو بلاوجہ ‏پارسائی میں سُلگنے سے کہیں بہتر ہے کہ ملکر ایک دوســرے کے وجود  سے لطف اندوز  ہوکر اپنی جنسی بھوک کو مٹا لیا جاٸے۔۔ ؎!عورت ہار تب قبول کرتی ہے جب ہار سونے کا ہو۔ ؎مرد کا بہترین اخلاق طوائف کو بھی باحیا بنا سکتا ہے اور بداخلاق مرد ایک باحیا عورت کو بھی سر عام  رسوا کر دیتا ہے. ؎کمال کی تقدیر پائی ہے نا اس شخص نے جس نے تم سے محبت بھی نہیں کی اور تمھیں حاصل بھی کر لیا. ؎عورت سے جتنا پیار کرو یہ اتنا اذیت دیتی ہے. ؎عورت کا حسن ایک ایسا نشہ ہے جو ایک مولوی سے لے کر پنڈت تک سب کا ایمان خراب کر دیتا ہے۔ ؎عورت ایک بنجر زمین کی طرح ہے جسے اچھی طرح صرف اسکا پسندیدہ مرد ہی سیراب کرتا ہے.

؎نایاب ہوتے ہیں وہ مرد جن کے کردار کی خوشبو پاکر  عورت خود ان سے اظہارِ محبت کرتی ہے. ؎شرٹ کے ٹوٹے بٹن سے لے کر مرد کے ٹوٹے دل کو جوڑنے کا ہنر رکھتی ہے عورت۔ ؎عورت کی ناک بھی بہہ رہی ہو تو اایسا لگتا ہے نتھلی میں ہیراا چمک رہا ہے۔ ؎اگر  اپ اپنی گرل فرینڈ کے  ساتھ۔۔  رہ کر آپ اپنی ہوس پر قابو پا سکتے ہیں ۔ ۔۔۔تو یا آپ فرشتہ ہیں  یا نامرد ۔ ؎مجھے عورت کے دوغلے پن کی سمجھ اُس وقت آئی جب  مجھے پتہ چلا کہ وہ انجکشن لگوانے سے تو ڈرتی ہے ، لیکن ہنی مون پر جانے سے نہیں ۔ مشتاق یوسفی ۔

؎عورت کی سازش تو شادی کے دن سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔25 ہزار کا میک اپ کروا کر شادی والی تصویر کو محفوظ کر لیتی ہے اور پھر 15 سال بعد اپنے بچوں کو دکھاتی ہے اور کہتی ہے کہ دیکھو میں پہلے کیسی تھی اور اب تمہارے باپ نے کیا حال بنادیا ہے۔

🙂محبت بے مثال تب ہوتی ہے  جب چاہنے والا بے شمار عزت دے۔ ❤️اصل مرد حالات سے لڑتا ھے جبکہ کمزور مرد گھر کی عورتوں سے۔۔۔۔ ؎۔بیوی اللہ کی بہترین نعمتین میں سے ایک نعمت ھے لہذا اللہ سے نعمت میں اضافہ طلب کرتے رھنا چاھیے

😄محبت تب ہوتی ہے ،جب آپ کو چھوڑنے کی ہزار وجوہات مل جاتی ہیں، لیکن آپ ٹھہرے رہیں۔

؎ہمیشہ ایسی عورت کی قربت تلاش کرو

 جس کے آنچل سے " ادب " کی خوشبو آئے❤️ بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ 

مرد آنکھوں سے محبت کرتا ہے اور عورت کانوں سے محبت کرتی ہے مطلب مرد اس عورت سے محبت کرتا ہے جو خوبصورت ہو اور عورت اس مرد سے محبت کرتی ہے جو باتیں دلفریب کرتا ہے!!

؎عورت جان بوجھ کر اس آدمی کو ستاتی ہے 

جب اسے پتا چلے کہ وہ مجھ پہ مرتا ہے،

؎پرانی عمارتیں، پرانی گاڑیاں، پرانی موسیقی اور بڑی عمر کی عورتیں باذوق لوگوں کواپنی جانب کھینچتی ہیں!

؎مرد کی سچی محبت کی حقدار صرف اور صرف وھی عورت بنتی ھے جو مرد کے حصار میں رھتی ھے 

جہاں سے وہ منع کرتا ھے  وہ منع ھو جاتی ھے 

وہ جن باتوں سے روکتا ھے وہاں سے رک جاتی ھے 

اور اپنے آپکو اس کے کنٹرول اور حفاظت میں دے دیتی ھے 

تو ایسی عورت دنیا کی خوش  نصیب اور وفادار عورت ھوتی ھے .

؎جس عورت کو کپڑوں میں اپنے جسم کے اُبھار نمایاں کر کے دکھانے کا سلیقہ آ جائے وہ کسی بھی مرد کے کپڑے اتروا سکتی ہے.

؎بستر پر مچھلتی ہوئی عورت دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہوتی ہے۔_

؎من پسند عورت اگر مرد کے اعصاب اور رائے سلب کرنے کی قوت نہیں رکھتی تو وہ  نا ہی من پسند اور نا ہی محبوبہ ہے ۔۔۔۔۔

بلکہ مرد کی غلط فہمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نری خوش فہمی ہے ۔۔۔؎عورت ایسی معصوم مخلوق ہے خود ہی غلط فیصلہ کرنے کے بعد خود ہی مظلوم بن کے روتی ہے۔۔‏

؎محبتیں بھی مقدر میں درج ہوتی ہیں

‏کسی کا رزق کسی اور کو نہیں ملتا .

؎بدنیت روحیں بدنیت ہی رہتی ہیں چاہے آپ انہیں بہت زیادہ پیار دیں..." ال پیکینو

؎عورت کو پیسے والا مرد کبھی بوڑھا نہی لگتا نا بدشکل لگتاہے۔‏ ؎جب عورت بہکانے پہ تل جائے تو مرد کی کیا اوقات جو پاکباز رہے۔ ؎کچھ عورتیں محبوب کو قدموں میں لانے کے چکر میں  پیر صاحب کو سینے سے لگا لیتی ہیں ۔۔۔! ؎!عورت جب کسی مرد سے محبت کرتی ہے تو دل کا دروازہ باقی سارے مردوں کے لیے بند کر دیتی ہے . ؎اور پھر عورت کی محبت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ مرد کے ساتھ جنت کی حوروں کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔۔! ؎!محبت کی ابتدا بھی ہمیشہ عورت کرتی ہے اور اختتام بھی عورت ہی کرتی ہے.

؎عورت باپ کی غربت سہہ لیتی ہے ۔۔مگر شوہر کی نہیں۔


؎میں اپنی زندگی کا ایک حصہ عورت کے پیچھے بھاگتا رہا اور عورت کو تلاش کرتا رہا۔

اب میں نے اپنی زندگی کے دوسرے حصے میں پیر رکھا ہے۔اور مجھے احساس ہوا میں غلط تھا مجھے عورت کی بجائے دولت کے پیچھے بھاگنا چاہیے تھا اور دولت کی تلاش کرنی چاہیے تھی دولت پا لیتا تو عورتیں میرے پیچھے خود بھاگ رہی ہوتیں۔

؎عورت صرف جھوٹے اور چالاک مرد کے ساتھ مخلص رہ سکتی ہے۔

" ؎عورت کی طبیعت میں ایک عجیب طرح کا تضاد ہوتا ہے ٬ کہ وہ غریب شوہر سے پیسے مانگتی ہے اور پیسے والے شوہر سے پیار مانگتی ہے "

؎سخت مزاج مردعورت کی دلکش شرارتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔

؎ﺣﺎﻣﻠﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﭘﯿﭧ ﺩﯾﮑﮫﮐﺮﺍﯾﮏ:ﻟﮍﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ

ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ 

ﺣﺎﻣﻠﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻞ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽﻣﺴﺘﺮﯼ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮﺑﮭﯿﺞﺩﻭﮞ.


؎مرد کبھی بھی عورت کی خوبصورتی پہ نہیں مرتا اگر خوبصورتی پہ مرتا ہوتا تو ایک عورت کبھی بھی اس کیلئے کافی نہ ہوتی ۔ مرد ہمیشہ عورت کی وفا پہ مرتا ہے ، عورت کی حیا پہ مرتا ہے.

؎زندگی ایک حسین بدکار عورت کی طرح ہے.

بس جو کوئی اس کی بدکاری دیکھ لیتا ہے وہ اسکے حُسن سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔

؎سب سے بڑا بزدل وہ مرد ہے جو عورت کی محبت کو جگاتا ہے لیکن اس سے محبت کرنے کی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔

؎مجھے اچھی لگی اُس کی ادا..!!

چار دن عشق اور پھر الوداع..!

؎ہمیں دوسری محبت ان لوگوں سے ہو جاتی ہے جنہیں ہم پہلی محبت کا قصہ سنا رہے ہوتے ہیں.


؎ ‏محبت سیکھنے کے لئے کسی کا قرب ضروری ہے 

آپ کتابوں کہاوتوں، روایات اور کہانیوں سے محبت نہیں سیکھ سکتے. 

اس کے لئے ایک زندہ وجود لازم ہے۔۔!!

؎محبت تابع کر دیتی ہے، جس سے بھی ہوخالق سے یا مخلوق سے۔

" ؎عورت 

ہو صبر پہ آمادہ تو سہہ جائے ہر اک غم

ہو جائے مخالف تو پلٹ دے صف عالم

پابند وفا ہو تو دل و جان لٹا دے

آ جائے بغاوت پہ تو دنیا کو ہلا دے

؎عورت کسی خاص عمر میں نہیں، بلکہ ایک خاص مرد کے ساتھ کِھلتی ہے.

؎مذہبی محبوبہ،ان پڑھ بیوی،اور دیہاتی دوست تینوں وفادار ہوتے ہیں

؎جب محبوب کی توجہ کسی اور جگہ منتقل ہو جائے تو سچے عاشق کو اس طرح پتا چلتا ہے جیسے فرشتوں کو انسان کی نیکی اور بدی کا.

؎ اس عورت کو کبھی مت کھونا جس نے تمہارے سارے عیب دیکھے ہوں پھر بھی تم سے محبت کرے.

؎ کوئی پرفیکٹ نہیں ہوتا"

لگاؤ ہو تو ہم خوبیاں تلاش کر لیتے ہیں

اور بیزاری ہو تو خامیاں...!!

؎جب نفــــس کــــی بھــــوک بــــڑھ جــــائے

تب ہــــر جــــائز نـاجــــائز مــــن بھــــاتا ہــــے

؎رومانساوی عورت ہمیشہ بے رحم مرد کو اپنے جلوے دیکھاتی ہے۔

؎محلہ میں ایک عورت خراب اور بدنام ہو تو ہر مرد اس تک رساٸی چاہتا ہے مگر اگر اک مرد بدنام ہو تو کمینی سے کمینی عورت بھی اس سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔

؎مرد کی زندگی خوراک سے زیادہ 

سوراخ کی تلاش میں گزر جاتی ہے۔

؎ایک امیر آدمی ٹوٹی ہوئی عورت کی زندگی بدل سکتا ہے۔‏‏' جبکہ ایک امیر عورت ٹوٹے ہوئے آدمی کی طرف دیکھے گی بھی نہیں۔

؎اظہار سے نہیں انتظار سے پتا چلتا ہے محبت کتنی گہری ہے۔

؎اپنی محبت کے ساتھ جنسی تعلقات کی خوبصورتی کا تجربہ کرنے سے پہلے کبھی نہ مریں"گیبریل گارسیا 

؎اگر تمہاری زبان نرم اور اسلحہ سخت ہو 

تو مجال ہی نہیں کہ عورت تمہیں چھوڑ کر کہیں اور  متوجہ ہو۔

؎عورت ملکیت کے نہیں بلکہ محبت کے حصار میں جینا پسند کرتی ہے۔

؎جب متبادل مل جائیں تو لوگ تبدیل کر لیتے ہیں ۔۔

راستہ بھی ،مزاج بھی ، رشتہ بھی ،کتاب بھی اور الفاظ بھی ۔۔

؎تُو کبھی تھا ہی نہیں ایسی جگہ کے لائق

دل کا نقصان کیا ہے تجھے دل میں رکھ کر

؎ہم  اس معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں عورت کے ساتھ نکاح کے وقت شیعہ، سنی اور زنا کے وقت مناسب جگہ دیکھی جاتی ھے.

؎سیرتوں  کا حسن  کیا جانیں 

صورتوں کے پجاری لوگ .


اور اگر مرد بدنام ہو تو شریف تو دور کی بات ہے وہ بری عورت بھی اس سے اجتناب کرتی ہے

؎محبت محسوس کرنے کا پہلا طریقہ جلن ہے _

؎مرد صرف عزت دیتا ہوا اچھا لگتا ہے یہ بنگلہ,گاڑی , عورت, کا نصیب ہے.‏

؎عورت  کو ایسے مرد کی ضرورت ہوتی جو معاشرے میں اسکی عزت اور حیا کا خیال رکھے اور تنہائ میں اسکے اندر موجود فاحشہ کو  اجاگر کرے۔

؎عورت کے بہک جانے کی بڑی وجہ عورت کے اندر تعریف کی بھوک ہے جو بڑھ کر غیر فطری ہو جائے تو پلے بوائے اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور تعریف میں اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ عورت اپنا آپ اسے سونپ دیتی ہے شوہر سے بےوفائی کر جاتی ہے والدین کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ عورت شہوت یا دولت سے زیادہ تعریف کی بھوک کی وجہ سے مکار مردوں کا شکار بنتی ہے.

؎مرد کےلیے بد زبان عورت کےمقابلے میں 

بد کردارعورت کے ساتھ زندگی گزارنا نسبتا آسان ہوتاہے۔ 

؎مرد کی کوئی پسندیدہ عورت نہیں ہوتی جو عورت مرد کو موقع دے مرد اس عورت کو پسند کرتا ہے۔

؎وہ لذّتیں جو ؛ لَمسِ محبوب سے ملِیں 

 ‏کہاں  موجود  مُشک و کَستوری  میں


؎عورت وفا اور قربانی کاپیکر سمجھی جاتی ہے۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک مرد اپنی پیدائش سے لے کر موت تک جتنی قربانیاں دیتا ہے۔ ایک عورت دس بار پیدا ہوکر بھی اسکی برابری نہیں کر سکتی۔

؎مکمل ننگی عورت کے مقابلے میں ایسی عورت جس نے لباس تو پورا پہنا ہوا ہو لیکن اس کے جسم کا ایک ایک ابھار اور اس کے جسم کی ایک ایک لکیر اس لباس میں سے واضح ہورہے ہوں ایسی عورت کو دیکھ کر مرد کے ہوش و حواس قابو میں نہیں رہتے۔

؎مرد پر عورت کی لاش کے بارے میں بھی بھروسا نہیں کیا جا سکتابہتر یہ ہے کہ عورت کی لاش کو بھی مرد سے دور رکھا جائے۔

؎مرد ایک ایسی مخلوق ہے جسے ایک عورت بار بار دھوکہ دے،پھر بھی وہ کچھ وقت بعد اس پر پہلے جیسا یقین کر لیتا ہے ۔

؎!!عورت کو اپنے شوہر کے سامنے کبھی اونچا نہیں بولنا چاہیے یہی وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کو خوش رکھنے کے لیے اکثر باہر گالیاں سنتا ہے یقین مانیں بہت مشکل ہوتا ہے باتیں سننا ایک آپ پر اس کی حکمرانی ہوتی ہے تو کر لینے دیا کریں۔اپنے مرد کو ہر لمحہ یہ احساس دلاٸیں کہ وہ بادشاہ ہے ملکہ تو آپ خود بن جاٸیں گی۔

؎مرد کی فطرت ایسی ہے کہ اسے پوری عورت میسر ہو تو اس کا دل بھر جاتا ہے۔ اگر تھوڑی میسر ہو تو اسے پانے کے لیے حدیں پار کر دیتا ہے۔

 توجہ نہ دو تو پل پل مرتا ہے، توجہ دو تو پل پل مار دیتا ہے۔ مرد کو آج تک یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ عورت حاصل کرنی ہے یا لاحاصل رکھنی ہے۔”

؎جب کوہی عورت یہ کہتی ہے نہ کہ مجھے دنیا کے سارے مردوں سے نفرت ہےاس کا یہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس نے دنیا کہ سارے مرد آزمالیے ہیں بلکہ اس نے جس مرد کو آزمایا ہے وہ ہی اس کی دنیا تھا۔

؎ ‏ایک میچور عورت کا نشہ اور ذائقہ، دو جوان لڑکیوں  سے زیادہ دیر پا اور  تیز ہوتا ہے کیونکہ اسکا تجربہ اور طریقہ مرد کو سرور اور لزت کی آخری حد تک لے جاتا ہے۔“

؎من پسندعورت بھلے ٹرک جتنی وزنی ہو مرد کو گلاب کی  پنکھری لگتی  ہے‏

؎ایک قلم فروش صحافی، جسم فروش عورت سے زیادہ بدکردار ہوتا ہے ۔،~سعادت حسن منٹو

؎ریاست پر حکومت کرنا عورت پر حکومت کرنے سے زیادہ آسان ہے،

؎دنیا گواہ ہے کہ عورت اس مرد سے بور ہو جاتی ہے 

جو مرد اس سے سچی محبت کرتا ہو۔

؎بھٹکی ہوئی عورت بڑی شدت پسند ہوتی ہے  وہ تمہارے لیے خدا تک جاسکتی ہے!

؎!‏مردانگی ایک فن ہے۔

جو سارے مردوں کو نہیں آتا۔اورنسوانیت ایک ذوق ہے

جو ساری عورتوں کے پاس نہیں ہوتاجب فن ذوق سے ملتا ہے تب زندگی جنم لیتی ہے۔

۔ا؎گر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی عورت آپ کو بھول جائے، اسے اپنی غربت کے بارے میں، بھوک کے بارے میں، یتیمی کے بارے میں بتائیں، وہ آپ کی دوست بن جائے گی اور آہستہ آہستہ وہ آپ کی بہن بن جائے گی اور پھر وہ بادلوں کی طرح مٹ جائے گی۔ عورت اس آدمی سے محبت نہیں کرتی جس پر اسے  ترس آتا ہو۔

؎ عورت کا جسم دنیا کی واحد چیز ہے جس کی ڈیمانڈ ہر سیزن میں ایک جیسی رہتی ہے.

؎اصلی مرد عورت کے حسن سے نہیں۔

بلکہ اسکے جذبے سے متاثر ہوتا ہے۔۔۔

؎اگر کسی عورت سے وفا چاہتے ہو تو 

اسے وقت دو؛ محبت دو؛ بھروسہ دو 

اور سب سے زیادہ اگر عزت دوگے 

تو وہ عورت تمہارے لیے اپنی جان 

تو دے دے گی مگر کبھی بے وفائی نہیں کرے گی .

؎سونے چاندی کی لذتیں صرف عورت سمجھ سکتی ہے۔ اور عورت کی لذتیں صرف ایک صحت مند مرد ہی سمجھ سکتا ہے۔

؎عورت کی محبت کا مزہ صرف وہ شخص لے سکتا ہے جسے عورت چاہتی ہو"

؎عورت میں آگ ہے اگر اچھی طرح پیار کیا تو سارا گھر گرم کر دے گی، زیادتی ہوئی تو جلا دے گی۔"

؎عورت کی شادی اُس کی مرضی کے بغیر کروانا ایسا ہے جیسے اسے غیر مرد کو پوری زندگی ریپ کرنے کے لیے سونپ دیا گیا ہو۔۔

پھر جو عورت اپنے ماں باپ کا حکم اس لیے مانتی ہے کہ وہ گنہگار نہ ہو اور ان کی مرضی کے خلاف نہیں جاتی وہ اپنے ماں باپ کو ساری زندگی کے لیے گنہگار بنا رہی ہے۔۔

؎عورت جتنی نخرے والی ہو گی 

اتنا ہی اس میں نشہ ہو گا

؎عورت کے وجود پر مرد کا رومانس کرنا غذا کی طرح اثر کرتا ہے۔ مرد جتنی شدت سے محبوبہ کو پیار کرتا ہے۔ محبوبہ کے حسن میں اتنا ہی زیادہ نکھار پیدا ہوتا ہے۔

؎مختصر سا قصہ ہم نے جانا تو محض یہ جانا کہ__ہر دلکش عورت عمر میں ہم سے بڑی ہے.

؎یہ جو محبت ہوتی ھے ناں یہ بڑی لاڈلی ہوتی ھے۔

یہ بس لاڈ اٹھوانا جانتی ھے جو اس کی انگلی پکڑ لیتا ھے  یہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ھے۔

اس کے لاڈ بڑے انوکھے ہوتے ہیں یہ دل کو موہ لیتی ھے۔

یہ پوری پوری رات رلا کر سکون کی نیند سلا دینے میں ماہر ھے۔یہ انسان کے اندر کی" میں " کو دھکے دے کر باہر پھینک دیتی ھے۔

اسے انسان کا دل ہی نہیں اسے انسان کے عارضی وجود سے لے کر روح تک کا قبضہ چاہیے ہوتا ھے -

یہ پہلے " انا" کو مار کر غصے کی طرف آتی ھے

محبت کی غصے سے بنتی نہیں ھے اسی لیے یہ غصے کی جگہ آنکھوں میں آنسووں بھر کر عاجزی سے جھکا دیتی ھے۔

کوئی اس کا ہاتھ چھڑوا کر بھاگنے کی کوشش کرے تو یہ اس کو جکڑ کر باندھ دیتی ھے_

اور بھاگنے والوں سے نیند چھین لیتی ھے

یہ توڑ کر جوڑتی ھے اور جوڑ کر توڑتی ھے یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ ھے جو اسے بہت پسند ھے جو اس کے مشغلے کو سمجھ جاتا ھے ناں وہ ہر وقت تو ہی تو کی صدا لگاتا رہتا ھے

یہ پھر اس کو رب کے سامنے جا کر کھڑا کردیتی ھے

تاکہ رب جو محبت کا سب سے انوکھا روپ ہے وہ تعمیر کر سکے ایسا تعمیر کہ کوئی دنیا کی.طاقت اسے توڑ نہ سکے

یہ محبت کا انوکھا لاڈ ہوتا ھےاسی لیے محبت سے ضد نہ کریں محبت پر بسم اللہ کہیں ؛بسم اللہ کہنا ہی تو محبت ھے_

؎_!میں نے پھر ویسا ہی بنا لیا خود کو

جیسا ہونے کا الزام لگایا تھا اس نے۔

؎بیمار ذہنوں کو خود مختار عورتیں بد کردار نظر آتی ہیں.

؎۔جس عورت کو مرد کی فطرت اور طبعیت کے مطابق چلنا نہیں آتا وہ بیوی ہو یا معشوقہ 

ہمیشہ ذلیل ہوتی ہے مرد کے ہاتھوں۔

؎آپ چاہتے ہیں کہ وہ محسوس نہ کرے کہ آپ بدل رہے ہیں۔۔۔

عورت تو لپ اسٹک کے رنگوں میں فرق کرسکتی ہے پھر وہ آپ کے بدلتے ہوئے رنگ کیسے نہ پہچانے۔

؎مرد خود سے جُڑی عورت کو زمانے کی حوس سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے جبکہ عورت اس چیز کو بے جا پابندیوں کا نام دے کر خود کو زمانے کے حوالے کر دیتی ہے۔۔!

؎!عورت کے ساتھ خوش رہنے کے لیے ایوب کا صبر اور یعقوب کا سا نابینا  ہونا ضروری ہے اور اسے خوش کرنے کے لیے لقمان کی حکمت اور قارون کا مال تمہارے  پاس ہونا چاہے .‏

؎عورت ہمیشہ اپنی مرضی سے مرد کے قابو میں آتی ہے اسکی مرضی کے بغیر اسے چھونا تو بڑی دور کی بات ہے محض ٹکٹکی باندھ کے تکنے پر بھی ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے۔۔

؎!میرے عشق دے وچ معشوق نہ ھو،

نہیں آج تک غلط نگاھ کیتی،

تیری ھر ملاقات میں انج کیتی،

جیویں موسی نال خدا کیتی،

نہیں فرق کیتا تیری پوجا وچ،

نہیں خطراں دی پرواہ کیتی،

ایک تینوں رب نہ کہہ سکدی،

 باقی ساری رسم ادا کیتی۔۔

بلھے شاہ

؎وہ عورت بدکردار نہیں جو کسی خاص مرد کے لیے اپنی شرم و حیا کی ساری حدیں ختم کردے۔ بدکردار وہ ہوتی ہے جو ہر مرد کو اس قابل سمجھ لے۔

؎اگر شطرنج میں ایک مہرہ عورت کا ہوتا، تو یقیناً کھیل کے دوران بادشاہ کو اُس سے عشق ہوجانا تھا، اور پھر شاہ کی مات اور موت کا سبب یہی" عشق "بنتا،

لیکن کوئی بھی نہیں جانتا کہ شطرنج میں بادشاہ کے ہوتے ہوئے ملکہ کا مہرہ کیوں نہیں ہے، وہ اس لیے کہ عورت کھیلنے کے لیے تخلیق نہیں کی گئی!!

؎*بدصورتی کبھی بھی کسی کے نقوش، چہرے یا رنگت میں نہیں ہوتی، ہر وہ انسان بدصورت ہے جس کا کردار بدصورت ہے*

  • اور میں نے عورت سے زیادہ خوبصورت اللہ کی کوئی مخلوق نہیں دیکھی*

؎مرد میں ایسا کچھ بھی اضافی نہیں ہوتا جس کی بنا پر عورت اُس کے پیچھے جائے ، سوائے اُس کے کردار کے.

؎وفادار ؛عورت بدصورت ہی سہی مگر کئی حسیناؤں سے بہترین ہوتی ہے .

؎اگر صرف ایک مرد عورت کی قدر نہ کرے۔ جس مرد سے عورت اپنی عزت اور قدر کی توقع رکھے۔

 تو عورت اس مرد کا بدلہ دنیا کے ہر مرد سے لیتی ہے

؎قابل  مرد  ہمیشہ " عورت"  کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے ۔

 اپنے لئے نہیں بلکہ اس کے لئے کہ وہ کہاں  جائے  گی  اور   یہی  ہوتی ہے پیار کی ڈور جو  احساس پر  لپٹی  ہوتی ہے.

؎معاشرے کے جس حصے میں بھی عورت کا حصہ ہے 

وہیں پہ وفا اور محبت کا انمول قصہ ہے .

؎عورت کے لیے اس سے بڑی اذیت اور کوئی نہیں، کہ وہ اس مرد کے قبضے میں آجائے جسے وہ پسند نہیں کرتی.

؎عورت کی جنسی زندگی مشکل جبکہ مرد کی آسان ہوتی ہے کیونکہ عورت اپنی پسند کے مرد کے ساتھ سونا چاہتی ہے جبکہ مرد ہر دستیاب عورت کے ساتھ.

؎جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی

جن کی وجہ سے ہم دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔

؎جو عورت آپکی قربت خود چاہتی ہے وہی عورت آپکی زندگی بڑھا سکتی ہے ، ورنہ آپ کسی بھی عورت سے تعلق رکھ لیں ،محنت ہے ، بس یکطرفہ محنت تھکن ہے سکون نہیں.‏

؎ہر مرض زمانے سے ہو جاۓ اگر رخصت

دنیا میں رہیں گے پر بیمار محبت کے

تم ہاتھ چھڑاؤ گے وہ ہاتھ چھڑا لیں گے

کچھ لوگ تو ہوتے ہیں خوددار محبت کے

؎اگر اکیلی عورت کے ساتھ رہ کر آپ اپنی ہوس پر قابو پا سکتے ہیں ۔۔۔ 

تو یا آپ فرشتہ ہے یا نامرد ۔۔۔۔ !

؎محبت واحد پھول ہے جو موسموں کی مدد کے بغیر بڑھتا اور پھولتا ہے۔  خلیل جبران

؎آج کل "میرا پیچھا مت کرو" سے لے کر "جان پیچھے سے کرو" تک کا سفر محبت ہے.

؎مرد ہوا میں اُڑتا ایک عقاب ہے جو اپنے سے نیچے والوں پر حکمرانی کرتا ہے۔۔۔ بہرحال عورت! وہ تو محض ایک کُوکتی ہوئی بُلبُل ہے، مگر جب یہی عورت کُوکتی ہے تو دِلوں پر سلطنت کرتی ہے... وِکٹر ہیوگو ❤️

؎ پرانی شراب اور بڑی عمر کی عورت کا نشہ ایک سا ہوتا ہے سر چڑھ کے بولتا ہے 🔥

٧🙂مرد عورتوں کے خلاف ہیں اور عورتیں مردوں کے خلاف، سمجھ نہیں آرہی آبادی میں اتنا اضافہ کیسے ہو رہا ہے ۔

😬زباں زباں پہ مُحبت کا وِرد ہے لیکن دِلوں میں محض وقت کا گزارا ہے💔

عورت مرد اور محبت قسط نمبر 1

عورت کا لفظ عورہ سے نکلا ہے جس کے معنی “چهپی ہوئی چیز” کے ہیں۔عورت الله رب العزت کی بہت ہی پیاری پیدا کردہ مخلوق ہے۔ایک مومن عورت بالکل اسی طرح قیمتی ہے جیسے کسی سیپ میں چهپا ہوا انمول موتی۔ سیپ کے باہر مٹی ہو یا پانی صاف ہو یا گندا اس سے موتی کی حیثیت خراب نہی ہوتی نہ اس پر کوئی آنچ آتی کیونکہ وہ تو الله کے دئیے ہوئے محفوظ پردے میں ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک مومن عورت اگر خود کو انمول سمجھ کر الله کے حکم کی تعمیل کرے تو وہ اس انمول موتی سے بڑھ کر انمول ہو سکتی ہے۔

؎عورت کی تربیت عورت ہی سے مشروط ہے ماں جیسی ہوگی بیٹی بھی وہی کچھ کرے گی مگر بہتر تعلیم اور تربیت ایک بہترین عورت پیدا کرتی ہے۔

؎مرد اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے یا نہ کرے عورت کے لئے اسلام پردے کا حکم دیتا ہے۔ اور عورت پردہ کرے یا نہ کرے۔ اسلام مرد کو اپنے نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیتا ہے اسلام ہمیں جو علم دیتا ہے اس میں " وہ" اور میں " کا بہانہ نہیں چلتا۔

عورت کی عزت اپنے شوہر کے ساتھ رہنے میں ہی ہوتی ماں باپ یا بہن بھائیوں کے گھر ذلت بھری زندگی تو گزار سکتی ہے  عزت والی زندگی ہرگز ہیں نہیں

۔Maa dy ge Roti .........

Shohar dy ga boti..........

؎ایک عورت کی میچورٹی یہ ہے کہ اسے یہ علم ہو کہ مضبوط اور باکردار ہونا خوبصورت ہونے سے لاکھ درجے بہتر ہے.

؎.غیر محرم کے معاملے میں عورت کا بد اخلاق ہونا ہی ایک اچھا اخلاق ہے ۔

؎عورت کی بربادی کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب اُسے اپنے شوہر کے علاوہ مختلف مردوں سے اپنی تعریف سُننے کی عادت پڑ جائے۔

؎دانشور و ذہین عورت کے ساتھ چائے پینا مرد کی خواہش ہے ۔۔ مگر گھر بسانا مردکی تمنا نہیں ۔

؎غیرت مند عورت حالات بدلتی ہے  شوھر نہیں۔

؎مرد مرچ کی طرح تیز ہوتا ہیے

مگر مرد جتنا بھی تیز ہو عورت اس کا اچار ڈال دیتی ہیے۔؎مرد  ہمیشہ  لالچی  عورتوں کو ذہنی مریض بناتے ہیں ، دلہن نہیں۔

؎اک مخلص عورت ہزار خوبصورت عورتوں سے زیادہ پیاری ہوتی ہے ۔

؎اک عورت کا اک دھوکے باز مرد کو  چھوڑ کر بار بار نٸے مرد سے دھوکاکھانے سے بہتر ہے کہ ایک ہی مرد سے بار بار دھوکا کھایا جاٸے کیونکہ بار بار دھوکا دینے والا اکروز تماشہ بن جاتا ہے ورنہ ہر بار نٸے بندے سے دھوکا کھانیوالے کا ہی تماشہ بن جاتا ہے۔

؎مرد کو اگر اس کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت سے عزت اور وفا مل جائے تو وہ کبھی دوسری عورت کو دل میں جگہ نہیں دیتا....‏

؎عورت ميں اللّٰہ نے آٹو میٹک حيا رکھی ہے اور جس عورت ميں حيا نہيں ہوتی وہ سہی معنوں ميں عورت نہيں ہوتی۔

؎یونانی ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎﻧﭗ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﮯ۔

ﺳﻘﺮﺍﻁ ﮐﺎ کہنا ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻭ ﻓﺴﺎﺩ کی ﻧﮩﯿﮟ۔

ﺑﻮﻧﺎ ﻭﭨﯿﻮﮐﺮ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﺑﭽﮭﻮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ

ﺟﻮ ﮈﻧﮓ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﻼ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔

ﯾﻮﺣﻨﺎ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺷﺮ ﮐﯽ بیٹی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ۔

ﺭﻭﻣﻦ ﮐﯿﺘﮭﻮﻟﮏ ﻓﺮﻗﮧ کی تعلیمات ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻼﻡِ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮔﺮﺟﺎ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔

ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ سب ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺭﻭﻣﺘﮧ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ لونڈیوں ﺳﮯ ﺑﺪﺗﺮ ﺗﮭﯽ،

ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔

یورپ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮﻥ ﺁﻑ ﺁﺭﮎ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺟﻼ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺩﻭﺭِ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺏ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﯿﺎ جاتا ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ تھے۔

ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت ﮐو وہ مقام عطا فرمایا جو آج تک کسی مذہب میں حاصل نہیں

اب اگر عورت ماں ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت بیٹی ہے تو بخشش کا زریعہ بیوی ہے تو ایمان کی تکمیل کا زریعہ بہن ہے تو غیرت کا زریعہ..

؎اُس مرد سے بڑا نامرد کوئی نہیں ہے جس پر ایک عورت بھروسہ کرے

اور وہ اُس عورت کی عزت کو سرِ بازار رُسوا کر دے۔🥺؎مرد کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے ایک لبرل عورت دوست کے روپ میں چاہئیے، اور ایک مذہبی عورت بیوی کے روپ میں...

؎" غیبت عورتوں کا میوہ ہے"حسن بصری رحمہ اللّٰہ

؎مرد محبت جسم کی خاطر کرتا ہے اُسے جسم کی طلب ہوتی ہے یہ اُس کی مجبوری  بھی کہی جا سکتی ہے لیکن عورت فریبی ہے دھوکہ دینے کے لیے محبت کرتی ہے اُسے جسم سے غرض نہیں  اُسے اپنی عیاشی سے غرض  ہوتی ہے

کہتے ہیں مرد عیاش پرست ہے نہیں۔۔۔ مرد عیاش پرست ظاہر ہوتا ہے لیکن عیاشی عورت کو چاہیے مرد آوارہ ظاہر ہوتا ہے لیکن آوارگی عورت کو چاہیے مرد جسم کو پانے کے لیے  عورت کا دھوکہ دینا بھی منظور ہوتا ہے وہ جانتا ہے عورت دھوکہ دے گی پھر بھی عورت کی طلب کرتا ہے کیونکہ مرد کو عورت کی ضرورت ہے پر عورت کو کسی کی ضرورت نہیں ۔

؎عورت باپ کے گھر بہت صبر والی ہوتی ہے اور شوہر کے گھر کیوں بے صبری ہو جاتی ہے ۔ باپ کی غریبی قبول شوہر کی نہیں۔مرد کا امتحان عورت ہے اور عورت کا امتحان پیسہ ہے ۔فیثا غورث؛

؎غریبی مرد کو ننگا کر دیتی ہےاور پیسہ عورت کو.

؎عورت کی دوستی صرف عورت کے ساتھ جچتی ہے

مرد کے ساتھ تو

عورت صرف نکاح میں اچھی لگتی ہے🌸🥀

؎عورت مرد ایکدوسرے کو اگرپسند کر کے تسلیم کر لیں تو

بلاوجہ ‏پارسائی میں سُلگنے سے کہیں بہتر ہے کہ ملکر ایک دوســرے کے وجود  سے لطف اندوز  ہوکر اپنی جنسی بھوک کو مٹا لیا جاٸے۔۔

؎!عورت ہار تب قبول کرتی ہے جب ہار سونے کا ہو۔

؎مرد کا بہترین اخلاق طوائف کو بھی باحیا بنا سکتا ہے اور بداخلاق مرد ایک باحیا عورت کو بھی سر عام  رسوا کر دیتا ہے.

؎کمال کی تقدیر پائی ہے نا اس شخص نے جس نے تم سے محبت بھی نہیں کی اور تمھیں حاصل بھی کر لیا.

؎عورت سے جتنا پیار کرو یہ اتنا اذیت دیتی ہے.

؎عورت کا حسن ایک ایسا نشہ ہے جو ایک مولوی سے لے کر پنڈت تک سب کا ایمان خراب کر دیتا ہے۔

؎عورت ایک بنجر زمین کی طرح ہے جسے اچھی طرح صرف اسکا پسندیدہ مرد ہی سیراب کرتا ہے.

؎نایاب ہوتے ہیں وہ مرد جن کے کردار کی خوشبو پاکر

عورت خود ان سے اظہارِ محبت کرتی ہے.

؎شرٹ کے ٹوٹے بٹن سے لے کر مرد کے ٹوٹے دل کو جوڑنے کا ہنر رکھتی ہے عورت۔

؎عورت کی ناک بھی بہہ رہی ہو تو اایسا لگتا ہے نتھلی میں ہیراا چمک رہا ہے۔

؎اگر  اپ اپنی گرل فرینڈ کے  ساتھ۔۔

رہ کر آپ اپنی ہوس پر قابو پا سکتے ہیں ۔

۔۔۔تو یا آپ فرشتہ ہیں  یا نامرد ۔

؎مجھے عورت کے دوغلے پن کی سمجھ اُس وقت آئی جب  مجھے پتہ چلا کہ وہ انجکشن لگوانے سے تو ڈرتی ہے ، لیکن ہنی مون پر جانے سے نہیں ۔

مشتاق یوسفی ۔

؎عورت کی سازش تو شادی کے دن سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔25 ہزار کا میک اپ کروا کر شادی والی تصویر کو محفوظ کر لیتی ہے اور پھر 15 سال بعد اپنے بچوں کو دکھاتی ہے اور کہتی ہے کہ دیکھو میں پہلے کیسی تھی اور اب تمہارے باپ نے کیا حال بنادیا ہے۔

🙂محبت بے مثال تب ہوتی ہے

جب چاہنے والا بے شمار عزت دے۔

❤️اصل مرد حالات سے لڑتا ھے جبکہ کمزور مرد گھر کی عورتوں سے۔۔۔۔

؎۔بیوی اللہ کی بہترین نعمتین میں سے ایک نعمت ھے لہذا اللہ سے نعمت میں اضافہ طلب کرتے رھنا چاھیے

😄محبت تب ہوتی ہے ،جب آپ کو چھوڑنے کی ہزار وجوہات مل جاتی ہیں، لیکن آپ ٹھہرے رہیں۔

؎ہمیشہ ایسی عورت کی قربت تلاش کرو

جس کے آنچل سے " ادب " کی خوشبو آئے❤️

بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ

مرد آنکھوں سے محبت کرتا ہے اور عورت کانوں سے محبت کرتی ہے مطلب مرد اس عورت سے محبت کرتا ہے جو خوبصورت ہو اور عورت اس مرد سے محبت کرتی ہے جو باتیں دلفریب کرتا ہے!!

؎عورت جان بوجھ کر اس آدمی کو ستاتی ہے

جب اسے پتا چلے کہ وہ مجھ پہ مرتا ہے،

؎پرانی عمارتیں، پرانی گاڑیاں، پرانی موسیقی اور بڑی عمر کی عورتیں باذوق لوگوں کواپنی جانب کھینچتی ہیں!

؎مرد کی سچی محبت کی حقدار صرف اور صرف وھی عورت بنتی ھے جو مرد کے حصار میں رھتی ھے

جہاں سے وہ منع کرتا ھے  وہ منع ھو جاتی ھے

وہ جن باتوں سے روکتا ھے وہاں سے رک جاتی ھے

اور اپنے آپکو اس کے کنٹرول اور حفاظت میں دے دیتی ھے

تو ایسی عورت دنیا کی خوش  نصیب اور وفادار عورت ھوتی ھے .

؎جس عورت کو کپڑوں میں اپنے جسم کے اُبھار نمایاں کر کے دکھانے کا سلیقہ آ جائے وہ کسی بھی مرد کے کپڑے اتروا سکتی ہے.

؎بستر پر مچھلتی ہوئی عورت دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہوتی ہے۔_

؎من پسند عورت اگر مرد کے اعصاب اور رائے سلب کرنے کی قوت نہیں رکھتی تو وہ  نا ہی من پسند اور نا ہی محبوبہ ہے ۔۔۔۔۔

بلکہ مرد کی غلط فہمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نری خوش فہمی ہے ۔۔۔؎عورت ایسی معصوم مخلوق ہے خود ہی غلط فیصلہ کرنے کے بعد خود ہی مظلوم بن کے روتی ہے۔۔‏

؎محبتیں بھی مقدر میں درج ہوتی ہیں

‏کسی کا رزق کسی اور کو نہیں ملتا .

؎بدنیت روحیں بدنیت ہی رہتی ہیں چاہے آپ انہیں بہت زیادہ پیار دیں..."

ال پیکینو

؎عورت کو پیسے والا مرد کبھی بوڑھا نہی لگتا نا بدشکل لگتاہے۔‏

؎جب عورت بہکانے پہ تل جائے تو مرد کی کیا اوقات جو پاکباز رہے۔

؎کچھ عورتیں محبوب کو قدموں میں لانے کے چکر میں

پیر صاحب کو سینے سے لگا لیتی ہیں ۔۔۔!

؎!عورت جب کسی مرد سے محبت کرتی ہے تو دل کا دروازہ باقی سارے مردوں کے لیے بند کر دیتی ہے .

؎اور پھر عورت کی محبت کا تو یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ مرد کے ساتھ جنت کی حوروں کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔۔!

؎!محبت کی ابتدا بھی ہمیشہ عورت کرتی ہے اور اختتام بھی عورت ہی کرتی ہے.

؎عورت باپ کی غربت سہہ لیتی ہے ۔۔مگر شوہر کی نہیں۔

؎میں اپنی زندگی کا ایک حصہ عورت کے پیچھے بھاگتا رہا اور عورت کو تلاش کرتا رہا۔

اب میں نے اپنی زندگی کے دوسرے حصے میں پیر رکھا ہے۔اور مجھے احساس ہوا میں غلط تھا مجھے عورت کی بجائے دولت کے پیچھے بھاگنا چاہیے تھا اور دولت کی تلاش کرنی چاہیے تھی دولت پا لیتا تو عورتیں میرے پیچھے خود بھاگ رہی ہوتیں۔

؎عورت صرف جھوٹے اور چالاک مرد کے ساتھ مخلص رہ سکتی ہے۔

" ؎عورت کی طبیعت میں ایک عجیب طرح کا تضاد ہوتا ہے ٬ کہ وہ غریب شوہر سے پیسے مانگتی ہے اور پیسے والے شوہر سے پیار مانگتی ہے "

؎سخت مزاج مردعورت کی دلکش شرارتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔

؎ﺣﺎﻣﻠﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﭘﯿﭧ ﺩﯾﮑﮫﮐﺮﺍﯾﮏ:ﻟﮍﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ

ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ

ﺣﺎﻣﻠﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻞ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽﻣﺴﺘﺮﯼ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮﺑﮭﯿﺞﺩﻭﮞ.

؎مرد کبھی بھی عورت کی خوبصورتی پہ نہیں مرتا اگر خوبصورتی پہ مرتا ہوتا تو ایک عورت کبھی بھی اس کیلئے کافی نہ ہوتی ۔ مرد ہمیشہ عورت کی وفا پہ مرتا ہے ، عورت کی حیا پہ مرتا ہے.

؎زندگی ایک حسین بدکار عورت کی طرح ہے.

بس جو کوئی اس کی بدکاری دیکھ لیتا ہے وہ اسکے حُسن سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔

؎سب سے بڑا بزدل وہ مرد ہے جو عورت کی محبت کو جگاتا ہے لیکن اس سے محبت کرنے کی کوئی ہمت نہیں رکھتا۔

؎مجھے اچھی لگی اُس کی ادا..!!

چار دن عشق اور پھر الوداع..!

؎ہمیں دوسری محبت ان لوگوں سے ہو جاتی ہے جنہیں ہم پہلی محبت کا قصہ سنا رہے ہوتے ہیں.

؎ ‏محبت سیکھنے کے لئے کسی کا قرب ضروری ہے

آپ کتابوں کہاوتوں، روایات اور کہانیوں سے محبت نہیں سیکھ سکتے.

اس کے لئے ایک زندہ وجود لازم ہے۔۔!!

؎محبت تابع کر دیتی ہے، جس سے بھی ہوخالق سے یا مخلوق سے۔

" ؎عورت

ہو صبر پہ آمادہ تو سہہ جائے ہر اک غم

ہو جائے مخالف تو پلٹ دے صف عالم

پابند وفا ہو تو دل و جان لٹا دے

آ جائے بغاوت پہ تو دنیا کو ہلا دے

؎عورت کسی خاص عمر میں نہیں، بلکہ ایک خاص مرد کے ساتھ کِھلتی ہے.

؎مذہبی محبوبہ،ان پڑھ بیوی،اور دیہاتی دوست تینوں وفادار ہوتے ہیں

؎جب محبوب کی توجہ کسی اور جگہ منتقل ہو جائے تو سچے عاشق کو اس طرح پتا چلتا ہے جیسے فرشتوں کو انسان کی نیکی اور بدی کا.

؎ اس عورت کو کبھی مت کھونا جس نے تمہارے سارے عیب دیکھے ہوں پھر بھی تم سے محبت کرے.

؎ کوئی پرفیکٹ نہیں ہوتا"

لگاؤ ہو تو ہم خوبیاں تلاش کر لیتے ہیں

اور بیزاری ہو تو خامیاں...!!

؎جب نفــــس کــــی بھــــوک بــــڑھ جــــائے

تب ہــــر جــــائز نـاجــــائز مــــن بھــــاتا ہــــے

؎رومانساوی عورت ہمیشہ بے رحم مرد کو اپنے جلوے دیکھاتی ہے۔

؎محلہ میں ایک عورت خراب اور بدنام ہو تو ہر مرد اس تک رساٸی چاہتا ہے مگر اگر اک مرد بدنام ہو تو کمینی سے کمینی عورت بھی اس سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔

؎مرد کی زندگی خوراک سے زیادہ

سوراخ کی تلاش میں گزر جاتی ہے۔

؎ایک امیر آدمی ٹوٹی ہوئی عورت کی زندگی بدل سکتا ہے۔‏‏' جبکہ ایک امیر عورت ٹوٹے ہوئے آدمی کی طرف دیکھے گی بھی نہیں۔

؎اظہار سے نہیں انتظار سے پتا چلتا ہے محبت کتنی گہری ہے۔

؎اپنی محبت کے ساتھ جنسی تعلقات کی خوبصورتی کا تجربہ کرنے سے پہلے کبھی نہ مریں"گیبریل گارسیا

؎اگر تمہاری زبان نرم اور اسلحہ سخت ہو

تو مجال ہی نہیں کہ عورت تمہیں چھوڑ کر کہیں اور  متوجہ ہو۔

؎عورت ملکیت کے نہیں بلکہ محبت کے حصار میں جینا پسند کرتی ہے۔

؎جب متبادل مل جائیں تو لوگ تبدیل کر لیتے ہیں ۔۔

راستہ بھی ،مزاج بھی ، رشتہ بھی ،کتاب بھی اور الفاظ بھی ۔۔

؎تُو کبھی تھا ہی نہیں ایسی جگہ کے لائق

دل کا نقصان کیا ہے تجھے دل میں رکھ کر

؎ہم  اس معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں عورت کے ساتھ نکاح کے وقت شیعہ، سنی اور زنا کے وقت مناسب جگہ دیکھی جاتی ھے.

؎سیرتوں  کا حسن  کیا جانیں

صورتوں کے پجاری لوگ .

اور اگر مرد بدنام ہو تو شریف تو دور کی بات ہے وہ بری عورت بھی اس سے اجتناب کرتی ہے

؎محبت محسوس کرنے کا پہلا طریقہ جلن ہے _

؎مرد صرف عزت دیتا ہوا اچھا لگتا ہے یہ بنگلہ,گاڑی , عورت, کا نصیب ہے.‏

؎عورت  کو ایسے مرد کی ضرورت ہوتی جو معاشرے میں اسکی عزت اور حیا کا خیال رکھے اور تنہائ میں اسکے اندر موجود فاحشہ کو  اجاگر کرے۔

؎عورت کے بہک جانے کی بڑی وجہ عورت کے اندر تعریف کی بھوک ہے جو بڑھ کر غیر فطری ہو جائے تو پلے بوائے اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور تعریف میں اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ عورت اپنا آپ اسے سونپ دیتی ہے شوہر سے بےوفائی کر جاتی ہے والدین کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ عورت شہوت یا دولت سے زیادہ تعریف کی بھوک کی وجہ سے مکار مردوں کا شکار بنتی ہے.

؎مرد کےلیے بد زبان عورت کےمقابلے میں

بد کردارعورت کے ساتھ زندگی گزارنا نسبتا آسان ہوتاہے۔

؎مرد کی کوئی پسندیدہ عورت نہیں ہوتی جو عورت مرد کو موقع دے مرد اس عورت کو پسند کرتا ہے۔

؎وہ لذّتیں جو ؛ لَمسِ محبوب سے ملِیں

‏کہاں  موجود  مُشک و کَستوری  میں

؎عورت وفا اور قربانی کاپیکر سمجھی جاتی ہے۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایک مرد اپنی پیدائش سے لے کر موت تک جتنی قربانیاں دیتا ہے۔ ایک عورت دس بار پیدا ہوکر بھی اسکی برابری نہیں کر سکتی۔

؎مکمل ننگی عورت کے مقابلے میں ایسی عورت جس نے لباس تو پورا پہنا ہوا ہو لیکن اس کے جسم کا ایک ایک ابھار اور اس کے جسم کی ایک ایک لکیر اس لباس میں سے واضح ہورہے ہوں ایسی عورت کو دیکھ کر مرد کے ہوش و حواس قابو میں نہیں رہتے۔

؎مرد پر عورت کی لاش کے بارے میں بھی بھروسا نہیں کیا جا سکتابہتر یہ ہے کہ عورت کی لاش کو بھی مرد سے دور رکھا جائے۔

؎مرد ایک ایسی مخلوق ہے جسے ایک عورت بار بار دھوکہ دے،پھر بھی وہ کچھ وقت بعد اس پر پہلے جیسا یقین کر لیتا ہے ۔

؎!!عورت کو اپنے شوہر کے سامنے کبھی اونچا نہیں بولنا چاہیے یہی وہ شخص ہوتا ہے جو آپ کو خوش رکھنے کے لیے اکثر باہر گالیاں سنتا ہے یقین مانیں بہت مشکل ہوتا ہے باتیں سننا ایک آپ پر اس کی حکمرانی ہوتی ہے تو کر لینے دیا کریں۔اپنے مرد کو ہر لمحہ یہ احساس دلاٸیں کہ وہ بادشاہ ہے ملکہ تو آپ خود بن جاٸیں گی۔

؎مرد کی فطرت ایسی ہے کہ اسے پوری عورت میسر ہو تو اس کا دل بھر جاتا ہے۔ اگر تھوڑی میسر ہو تو اسے پانے کے لیے حدیں پار کر دیتا ہے۔

توجہ نہ دو تو پل پل مرتا ہے، توجہ دو تو پل پل مار دیتا ہے۔ مرد کو آج تک یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ عورت حاصل کرنی ہے یا لاحاصل رکھنی ہے۔”

؎جب کوہی عورت یہ کہتی ہے نہ کہ مجھے دنیا کے سارے مردوں سے نفرت ہےاس کا یہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس نے دنیا کہ سارے مرد آزمالیے ہیں بلکہ اس نے جس مرد کو آزمایا ہے وہ ہی اس کی دنیا تھا۔

؎ ‏ایک میچور عورت کا نشہ اور ذائقہ، دو جوان لڑکیوں  سے زیادہ دیر پا اور  تیز ہوتا ہے کیونکہ اسکا تجربہ اور طریقہ مرد کو سرور اور لزت کی آخری حد تک لے جاتا ہے۔“

؎من پسندعورت بھلے ٹرک جتنی وزنی ہو مرد کو گلاب کی  پنکھری لگتی  ہے‏

؎ایک قلم فروش صحافی، جسم فروش عورت سے زیادہ بدکردار ہوتا ہے ۔،~سعادت حسن منٹو

؎ریاست پر حکومت کرنا عورت پر حکومت کرنے سے زیادہ آسان ہے،

؎دنیا گواہ ہے کہ عورت اس مرد سے بور ہو جاتی ہے

جو مرد اس سے سچی محبت کرتا ہو۔

؎بھٹکی ہوئی عورت بڑی شدت پسند ہوتی ہے  وہ تمہارے لیے خدا تک جاسکتی ہے!

؎!‏مردانگی ایک فن ہے۔

جو سارے مردوں کو نہیں آتا۔اورنسوانیت ایک ذوق ہے

جو ساری عورتوں کے پاس نہیں ہوتاجب فن ذوق سے ملتا ہے تب زندگی جنم لیتی ہے۔

۔ا؎گر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی عورت آپ کو بھول جائے، اسے اپنی غربت کے بارے میں، بھوک کے بارے میں، یتیمی کے بارے میں بتائیں، وہ آپ کی دوست بن جائے گی اور آہستہ آہستہ وہ آپ کی بہن بن جائے گی اور پھر وہ بادلوں کی طرح مٹ جائے گی۔ عورت اس آدمی سے محبت نہیں کرتی جس پر اسے  ترس آتا ہو۔

؎ عورت کا جسم دنیا کی واحد چیز ہے جس کی ڈیمانڈ ہر سیزن میں ایک جیسی رہتی ہے.

؎اصلی مرد عورت کے حسن سے نہیں۔

بلکہ اسکے جذبے سے متاثر ہوتا ہے۔۔۔

؎اگر کسی عورت سے وفا چاہتے ہو تو

اسے وقت دو؛ محبت دو؛ بھروسہ دو

اور سب سے زیادہ اگر عزت دوگے

تو وہ عورت تمہارے لیے اپنی جان

تو دے دے گی مگر کبھی بے وفائی نہیں کرے گی .

؎سونے چاندی کی لذتیں صرف عورت سمجھ سکتی ہے۔ اور عورت کی لذتیں صرف ایک صحت مند مرد ہی سمجھ سکتا ہے۔

؎عورت کی محبت کا مزہ صرف وہ شخص لے سکتا ہے جسے عورت چاہتی ہو"

؎عورت میں آگ ہے اگر اچھی طرح پیار کیا تو سارا گھر گرم کر دے گی، زیادتی ہوئی تو جلا دے گی۔"

؎عورت کی شادی اُس کی مرضی کے بغیر کروانا ایسا ہے جیسے اسے غیر مرد کو پوری زندگی ریپ کرنے کے لیے سونپ دیا گیا ہو۔۔

پھر جو عورت اپنے ماں باپ کا حکم اس لیے مانتی ہے کہ وہ گنہگار نہ ہو اور ان کی مرضی کے خلاف نہیں جاتی وہ اپنے ماں باپ کو ساری زندگی کے لیے گنہگار بنا رہی ہے۔۔

؎عورت جتنی نخرے والی ہو گی

اتنا ہی اس میں نشہ ہو گا

؎عورت کے وجود پر مرد کا رومانس کرنا غذا کی طرح اثر کرتا ہے۔ مرد جتنی شدت سے محبوبہ کو پیار کرتا ہے۔ محبوبہ کے حسن میں اتنا ہی زیادہ نکھار پیدا ہوتا ہے۔

؎مختصر سا قصہ ہم نے جانا تو محض یہ جانا کہ__ہر دلکش عورت عمر میں ہم سے بڑی ہے.

؎یہ جو محبت ہوتی ھے ناں یہ بڑی لاڈلی ہوتی ھے۔

یہ بس لاڈ اٹھوانا جانتی ھے جو اس کی انگلی پکڑ لیتا ھے  یہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ھے۔

اس کے لاڈ بڑے انوکھے ہوتے ہیں یہ دل کو موہ لیتی ھے۔

یہ پوری پوری رات رلا کر سکون کی نیند سلا دینے میں ماہر ھے۔یہ انسان کے اندر کی" میں " کو دھکے دے کر باہر پھینک دیتی ھے۔

اسے انسان کا دل ہی نہیں اسے انسان کے عارضی وجود سے لے کر روح تک کا قبضہ چاہیے ہوتا ھے -

یہ پہلے " انا" کو مار کر غصے کی طرف آتی ھے

محبت کی غصے سے بنتی نہیں ھے اسی لیے یہ غصے کی جگہ آنکھوں میں آنسووں بھر کر عاجزی سے جھکا دیتی ھے۔

کوئی اس کا ہاتھ چھڑوا کر بھاگنے کی کوشش کرے تو یہ اس کو جکڑ کر باندھ دیتی ھے_

اور بھاگنے والوں سے نیند چھین لیتی ھے

یہ توڑ کر جوڑتی ھے اور جوڑ کر توڑتی ھے یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ ھے جو اسے بہت پسند ھے جو اس کے مشغلے کو سمجھ جاتا ھے ناں وہ ہر وقت تو ہی تو کی صدا لگاتا رہتا ھے

یہ پھر اس کو رب کے سامنے جا کر کھڑا کردیتی ھے

تاکہ رب جو محبت کا سب سے انوکھا روپ ہے وہ تعمیر کر سکے ایسا تعمیر کہ کوئی دنیا کی.طاقت اسے توڑ نہ سکے

یہ محبت کا انوکھا لاڈ ہوتا ھےاسی لیے محبت سے ضد نہ کریں محبت پر بسم اللہ کہیں ؛بسم اللہ کہنا ہی تو محبت ھے_

؎_!میں نے پھر ویسا ہی بنا لیا خود کو

جیسا ہونے کا الزام لگایا تھا اس نے۔

؎بیمار ذہنوں کو خود مختار عورتیں بد کردار نظر آتی ہیں.

؎۔جس عورت کو مرد کی فطرت اور طبعیت کے مطابق چلنا نہیں آتا وہ بیوی ہو یا معشوقہ

ہمیشہ ذلیل ہوتی ہے مرد کے ہاتھوں۔

؎آپ چاہتے ہیں کہ وہ محسوس نہ کرے کہ آپ بدل رہے ہیں۔۔۔

عورت تو لپ اسٹک کے رنگوں میں فرق کرسکتی ہے پھر وہ آپ کے بدلتے ہوئے رنگ کیسے نہ پہچانے۔

؎مرد خود سے جُڑی عورت کو زمانے کی حوس سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے جبکہ عورت اس چیز کو بے جا پابندیوں کا نام دے کر خود کو زمانے کے حوالے کر دیتی ہے۔۔!

؎!عورت کے ساتھ خوش رہنے کے لیے ایوب کا صبر اور یعقوب کا سا نابینا  ہونا ضروری ہے اور اسے خوش کرنے کے لیے لقمان کی حکمت اور قارون کا مال تمہارے  پاس ہونا چاہے .‏

؎عورت ہمیشہ اپنی مرضی سے مرد کے قابو میں آتی ہے اسکی مرضی کے بغیر اسے چھونا تو بڑی دور کی بات ہے محض ٹکٹکی باندھ کے تکنے پر بھی ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے۔۔

؎!میرے عشق دے وچ معشوق نہ ھو،

نہیں آج تک غلط نگاھ کیتی،

تیری ھر ملاقات میں انج کیتی،

جیویں موسی نال خدا کیتی،

نہیں فرق کیتا تیری پوجا وچ،

نہیں خطراں دی پرواہ کیتی،

ایک تینوں رب نہ کہہ سکدی،

باقی ساری رسم ادا کیتی۔۔

بلھے شاہ

؎وہ عورت بدکردار نہیں جو کسی خاص مرد کے لیے اپنی شرم و حیا کی ساری حدیں ختم کردے۔ بدکردار وہ ہوتی ہے جو ہر مرد کو اس قابل سمجھ لے۔

؎اگر شطرنج میں ایک مہرہ عورت کا ہوتا، تو یقیناً کھیل کے دوران بادشاہ کو اُس سے عشق ہوجانا تھا، اور پھر شاہ کی مات اور موت کا سبب یہی" عشق "بنتا،

لیکن کوئی بھی نہیں جانتا کہ شطرنج میں بادشاہ کے ہوتے ہوئے ملکہ کا مہرہ کیوں نہیں ہے، وہ اس لیے کہ عورت کھیلنے کے لیے تخلیق نہیں کی گئی!!

؎*بدصورتی کبھی بھی کسی کے نقوش، چہرے یا رنگت میں نہیں ہوتی، ہر وہ انسان بدصورت ہے جس کا کردار بدصورت ہے*

*اور میں نے عورت سے زیادہ خوبصورت اللہ کی کوئی مخلوق نہیں دیکھی*

؎مرد میں ایسا کچھ بھی اضافی نہیں ہوتا جس کی بنا پر عورت اُس کے پیچھے جائے ، سوائے اُس کے کردار کے.

؎وفادار ؛عورت بدصورت ہی سہی مگر کئی حسیناؤں سے بہترین ہوتی ہے .

؎اگر صرف ایک مرد عورت کی قدر نہ کرے۔ جس مرد سے عورت اپنی عزت اور قدر کی توقع رکھے۔

تو عورت اس مرد کا بدلہ دنیا کے ہر مرد سے لیتی ہے

؎قابل  مرد  ہمیشہ " عورت"  کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے ۔

اپنے لئے نہیں بلکہ اس کے لئے کہ وہ کہاں  جائے  گی  اور   یہی  ہوتی ہے پیار کی ڈور جو  احساس پر  لپٹی  ہوتی ہے.

؎معاشرے کے جس حصے میں بھی عورت کا حصہ ہے

وہیں پہ وفا اور محبت کا انمول قصہ ہے .

؎عورت کے لیے اس سے بڑی اذیت اور کوئی نہیں، کہ وہ اس مرد کے قبضے میں آجائے جسے وہ پسند نہیں کرتی.

؎عورت کی جنسی زندگی مشکل جبکہ مرد کی آسان ہوتی ہے کیونکہ عورت اپنی پسند کے مرد کے ساتھ سونا چاہتی ہے جبکہ مرد ہر دستیاب عورت کے ساتھ.

؎جنت میں وہ تمام چیزیں ہوں گی

جن کی وجہ سے ہم دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔

؎جو عورت آپکی قربت خود چاہتی ہے وہی عورت آپکی زندگی بڑھا سکتی ہے ، ورنہ آپ کسی بھی عورت سے تعلق رکھ لیں ،محنت ہے ، بس یکطرفہ محنت تھکن ہے سکون نہیں.‏

؎ہر مرض زمانے سے ہو جاۓ اگر رخصت

دنیا میں رہیں گے پر بیمار محبت کے

تم ہاتھ چھڑاؤ گے وہ ہاتھ چھڑا لیں گے

کچھ لوگ تو ہوتے ہیں خوددار محبت کے

؎اگر اکیلی عورت کے ساتھ رہ کر آپ اپنی ہوس پر قابو پا سکتے ہیں ۔۔۔

تو یا آپ فرشتہ ہے یا نامرد ۔۔۔۔ !

؎محبت واحد پھول ہے جو موسموں کی مدد کے بغیر بڑھتا اور پھولتا ہے۔  خلیل جبران

؎آج کل "میرا پیچھا مت کرو" سے لے کر "جان پیچھے سے کرو" تک کا سفر محبت ہے.

؎مرد ہوا میں اُڑتا ایک عقاب ہے جو اپنے سے نیچے والوں پر حکمرانی کرتا ہے۔۔۔ بہرحال عورت! وہ تو محض ایک کُوکتی ہوئی بُلبُل ہے، مگر جب یہی عورت کُوکتی ہے تو دِلوں پر سلطنت کرتی ہے...

وِکٹر ہیوگو ❤️

؎ پرانی شراب اور بڑی عمر کی عورت کا نشہ

ایک سا ہوتا ہے سر چڑھ کے بولتا ہے 🔥

٧🙂مرد عورتوں کے خلاف ہیں اور عورتیں مردوں کے خلاف، سمجھ نہیں آرہی آبادی میں اتنا اضافہ کیسے ہو رہا ہے ۔

😬زباں زباں پہ مُحبت کا وِرد ہے لیکن دِلوں میں محض وقت کا گزارا ہے💔 ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:47، 27 مارچ 2024ء (م ع و)

عورت مرد اور محبت قسط نمبر 3[ترمیم]

انتخاب و تحقیق ڈاکٹر ملک حسن امتیاز ڈیوا

( جٹ بھٹی)

؎‏جب عورت کا عشق عروج پر ہو ناں تو عورت کی ٹانگیںآسانی سے اٹھ جاتی ہے ۔

؎عورت ایک  ایسی مشین ہے جسے وقت پر تیل  نہ دیا جائے تو خود ہی کاریگر ڈھونڈ لیتی ہے.

؎بلیک ہولز ویسے ہی بدنام ہیں ورنہ عورت میں وہ کشش ہے کہ مرد کی عزت نفس، دولت شہرت، شاعری، فلسفہ، فکر، انسان، دوستی، دین، دھرم، ایمان سب بہا لے جائے

؎عورت کے جسم تک پہنچنے میں جلدی مت کریں۔

لیکن جب پہنچ ہی جائیں تو کوئی کسر مت چھوڑیں۔؎عورت جب کسی مرد کو پسند کرنے لگتے ہے تو اس کے سامنے تین اداٸیں ظاہر کرتی ہے!

اول۔ مسکراتی ہے

دوم۔ اپنے کپڑے درست کرتی ہے ۔

سوم۔ اپنے بالوں کو پیچھے کرتی ہیں۔💯

؎عورت آدھی روٹی کھا کر گزارا کر لیتی ہے

مگر مرد اُسے پورا چاہیئے ہوتا ہے۔

‏‎؎عورت ایک بانسری کی مانند ہے۔ اس میں سے دھن اور ساز حاصل کرنے کیلئے اس میں محبت اور خلوص بھرے سانس پھونکنے پڑتے ہیں جو صرف روح کی گہرائی سے ہی نکل سکتے ہیں۔‏"

؎عورت ایک گٹار کی مانند ہے اپنی دھن صرف اسے دیتی ہے جو دل کے تار بجانا جانتا ہو۔"

🥂عورت وہ چراغ ہے جس میں تقریباً ہر مرد ہی تیل ڈال کر روشنی حاصل کرنا چاہتا ہے

🥂مرد ہوتا ہی وہی ہے جس کے ساتھ

عورت خود کو محفوظ سمجھے۔

؎شہوانی عمل ایک آرٹ ہے

اور ہر کوئی اس میں ایکسپرٹ نہیں ہوتا

دھکے مارنے سبھی کو آتے ہیں

لیکن مرد وہ ہے جسے عورت بار بار طلب کرے.

؎عورت اگر کسی مرد کو اپنا جسم مفت میں دے دے تو اسے محبت کہا جاتا ہے اور اگر بدلے میں پیسے لے لے تو اسے فحاشی کہتے ہیں ”سعادت_حسن_منٹو“

؎جو عورت آپکی قربت خودچاہتی یے وہی عورت اپکی زندگی بڑھا سکتی ہے ورنہ آپ کسی بھی عورت سے ملاپ کریں وہ محنت ہے بس یکطرفہ محنت تھکن ہے سکون نہیں

؎۔پردہ حجاب ؛عورت کی خوبصورتی کو تو ڈھانپ سکتا ہے . مگر عورت کی خواہش اور اسکی آزاد خیالی کو نہیں چھین سکتا ۔

؎عورت جس کو متاثر کرنے کے لیے مہنگے کپڑے پہنتی

؎اگر کوئی عورت تمہاری طرف رجوع کرتی ہے

تو پھر اُس کی خاطر مر جاؤ

کیوں کہ کوئی بھی عورت کسی مرد میں تب تک دلچسپی نہیں لیتی جب تک وہ مرد اس کی نظروں میں تمام مردوں سے عظیم نہ ہو.....!

‏؎مردانگی ایک فن ہے جو سارے مردوں کو نہیں آتا۔

نسوانیت ایک ذوق ہے جو ساری عورتوں کے پاس نہیں ہوتا۔ جب فن ذوق کے ساتھ ملتا ہےتو" زندگی " وجود پذیر ہوتی ہے ۔۔

🧡ایک اچھے لباس والی عورت، اگرچہ اس کا پرس دردناک طور پر خالی ہے، دنیا کو فتح کر سکتی ہے۔

؎آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔

منٹو

؎عورتــــــ کا پہلا غُرور اُس کا حُسن اور آخری غُرور اُس کے بچے ہوتے ہیں، وہ اپنے آخری غُرور کو مکمّل کرنے کے لیے اپنے پہلے غُرور کو خَاکــــ میں مِلا دیتی ہے-

؎عورت کے وجود پر مرد کا پیار کرنا غذا کی طرح اثر کرتا ہے۔ مرد جتنی شدت سے عورت  کو پیار کرتا ہے، جتنی ذیادہ اس کے جسم پر محنت کرتا ہے۔ عورت  کی حسن میں اتنا ہی زیادہ نکھار پیدا ہوتا ہے۔

؎مرد کی شدید جنسی خواہش نے ہر عورت کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ بہت خوبصورت ہے.

؎عورت چاہے جس عمر کی بھی ہو اس کا سینہ اسکی شخصیت کو نکھارتا ہے اور معاشرے میں اس کی تصویر کو نمایاں کرتا ہے ۔

؎جو عورت شوہر کو برے وقت میں چھوڑ دے اس میں اور طوائف میں کوئی فرق نہیں کیوں کہ طوائف بھی تماش بین کے پاس پیسہ ختم ہونے پر اسے چھوڑ دیتی ہے۔۔

🌸خُدا کے بعد یہ سب ایک مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے،

وُہ جتنا چاہے عورت کو خوبصورت بنا سکتا ہے

کیونکہ مرد جتنا حسین طریقے سے اسے

دیکھے گا، سُنے گا اور بولے گا

عورت اتنی ہی حسین ہوتی جائے گی۔‏

؎عورت کا بدن ایک ایسا گہرا کنواں ہے,

‏جسے صرف محبت سے بھرا جا سکتا ھے مردانگی‏ سے نہیں۔

💦بیشک عورت ہر چیز بانٹ سکتی ہے کچھ نہیں بانٹ سکتی تو وہ ہے ایک پسندیدہ مرد !

؎۔"عورت دنیا کی واحد شکاری ہے جو شکار ہو کر شکار کرتی ہے۔منٹو

؎عورت کو ‏چومنے، چاٹنے، چُوسنے، لینے اور دینے کا عمل جب رک جائے تو آج کل کی محبتوں کو زنگ لگ جاتے ہیں.

‏؎مرد صرف معاشرتی طور پر تو عورت کا آقا ہوسکتا ہے لیکن فطرتاً، عقلاً، منطقی اعتبار سے، دل سے، دماغ سے اور نفسیاتی طور پر عورت کا غلام ہے۔

؎کبھی سنا ہے عورت کو ہارٹ اٹیک ہوا ہو کیونکہ دل صرف مرد کے پاس ہوتا ہے

😂عورت محبت میں کبھی پیسے کو اہمیت نہیں دیتی.

؎یہ عورت کا کرشمہ ہے،، تیری وحشت کے پانی کو

بدن کی سیپ میں رکھ کر ____اسے انسان بناتی ہے۔

؎ہر فاحشہ کےاندرایک شریف عورت ھوتی ھے اور ہر شریف عورت کے اندر ایک فاحشہ۔ ھمارا معاشرہ فاحشہ کے اندر شریف عورت کو دبا کر رکھتا ھےاور شریف عورت کے اندر فاحشہ کو دبا کر رکھا جاتا ھے اگر یہ دباؤ نہ ھوتو فاحشہ، فاحشہ نہ رھے اور شریف، شریف نہ رھے۔

یورپی معاشرہ اسکی بہترین مثال ھے۔

؎عورت کو عزت ﷲ تعالیٰ نے تحفے میں دی ہے مرد کو عزت کمانی پڑتی ہے جبکہ عورت کو عزت سنبھالنی پڑتی ہے-

؎عورت ایسا مرد چاہتی ہے جسکا مستقبل اچھا ہو اور مرد ایسی عورت چاہتا ہے جس کا ماضی اچھا ہو .

؎عورت کے آنسو بہانہ مردانگی نہیں

عورت کا پسینہ بہانہ مردانگی ہے .

؎طوائف کسی عورت کا نام نہیں بلکہ

مرد کی سہولت کا نام ہے۔

؎۔ایک عام عورت کی محبت میں کئے گئے وعدوں سے افضل  ہوتی  ہیں طوائف کی باتیں .!! جس میں کم  از کم کوئی منافقت نہیں ہوتی..

؎.مکمل ننگی عورت کے مقابلے میں ایسی عورت جس نے لباس تو پورا پہنا ہوا ہو لیکن اس کے جسم کا ایک ایک ابھار اور اس کے جسم کی ایک ایک لکیر اس لباس میں سے واضح ہورہے ہوں ایسی عورت کو دیکھ کر مرد کے ہوش و حواس قابو میں نہیں رہتے..

؎مرد خوش نصیب ہے اگر وہ___ عورت کی پہلی محبت ہے ___ اور عورت خوش نصیب ہے اگر وہ مرد کی آخری محبت ہے...

🥰‏جب ایک عورت اپنی پسند کے مرد کيساتھ سونےکافیصلہ کرتی ھے تو کوئی ایسی دیوار نہیں جسے وہ سر نہیں کرے گی کوئی ایسا قلعہ نہیں جسے وہ تباہ نہیں کرے گی کوئی ایسا اخلاقی خیال نہیں جسے اُسکی جڑ سےاُکھاڑ نہیں پھینکے گی اور کوئی ایسا خُدا نہیں جسکی سزا سے وہ ڈرے گی"گیبریل گارشیا مارکیز"

؎ملازمت کرنے والی عورت کا انتخاب کرتے وقت، آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ گھر نہیں سنبھال سکتی۔

- اگر آپ نے ایک گھریلو خاتون کا انتخاب کیا ہے جو آپ کی دیکھ بھال کر سکتی ہے اور آپ کے گھر کا مکمل انتظام کر سکتی ہے، تو آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ پیسے نہیں کما رہی ہے۔

- اگر آپ ایک فرمانبردار عورت کا انتخاب کرتے ہیں، تو آپ کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ وہ آپ پر منحصر ہے اور آپ کو اس کی زندگی کو یقینی بنانا چاہیے۔

- اگر آپ ایک مضبوط عورت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ سخت ہے اور اس کی اپنی رائے ہے۔

- اگر آپ ایک خوبصورت عورت کا انتخاب کرتے ہیں، تو آپ کو بڑے اخراجات کو قبول کرنا پڑے گا.

- اگر آپ ایک کامیاب عورت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ اس کے پاس کردار ہے اور اس کے اپنے مقاصد اور عزائم ہیں۔

کامل جیسی کوئی چیزیں نہیں ہیں۔  ہر ایک کی اپنی پہیلی ہے، جو ہمیں منفرد بناتی ہے۔

؎رک جاؤ اور سوچوکہ عورت کی فطرت میں دو رخی کیوں ہوتی ہے؟ ایک ہی نظر سے یہ گھاؤ بھی پیدا کرتی ہے اور اِس پر پھاہا بھی رکھ دیتی ہے۔ دل تڑپا دیتی ہے اور تسکین بھی پہنچاتی ہے۔ ستم بھی اس کو پھبتا ہے کرم بھی اس کے شایان ہے۔~ ”کرشن چندر“

؎عورت کی شہوت اور پیار کا اروج ایک جیسا ہوتا ہے

مگر مرد کا پیار اور ہوتا ہے اور شہوت اور.

؎جو عورتیں سمجھتی ہیں کہ ایک خاص عمر کے بعد کیونکہ وہ بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی تو وہ محبت کرنے کے قابل بھی نہیں رہتی ۔ ان کو زندگی کے سفر میں کسی ساتھی کی ضرورت نہیں رہتی

سنیں، آپ کسی بھی وجہ سے اکیلی ہو جائیں خدارا اپنے لئیے محبت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند نہ کریں

شادی کا نا ہونا طلاق یا بیوگی وجہ کوئی بھی ہو تنہا رہ جانے کی

خود کو اذیت نہ دیں محبت کریں اگر خود کرنے کی ہمت نہیں کسی کی محبت قبول کریں

یقین کریں جب ہارمونز کی اچھل کود کم ہو جاتی ہے تو تبھی سب سے زیادہ اچھے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کو سمجھ سکے آپ کی فیلنگز کو سمجھ سکے آپ کو وہ عزت وہ پیار دے آپ کا ایسے خیال رکھے جیسا پہلے کبھی کسی نے نہ رکھا ہو

عورت محبت کی دیوی ہے چاہے عمر کا کوئی بھی حصہ ہو محبت ایک ہی بار ہوتی ہے محبت جب بھی کریں محبت ہی ہوتی ہے

زندگی محبت سے گزاریں اپنے جسم کی عمر کو نا دیکھیں عمر صرف آپ کے شناختی کارڈ پر لکھی ایک تاریخ ہے بس اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

؎گھٹیا موسیقی، بد زائقہ چائے، دل پھینک قسم کے مرد اور مسلسل چُپ عورت ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں.

؎اگر تم ذہنی آسودگی چاہتے ہو تو

کسی رضامند خاتون کا قرب حاصل کرو , کیونکہ چاہنے سے زیادہ چاہے جانے میں سکون ہے .

❤🥀مرد کی محبت اور تم سمجھتی ہو وہ مجبور تھا؛

مرد محبت کر لے تو طوائف کیلئے  بهی لڑ جاتا ہے۔

؎عورتیں اگر گنجی ہو جائیں تو بدصورت نظر آتی ہیں...

اگر عورتوں کی مونچھیں آ جائیں تو بدصورت لگتی ہیں...

اگر عورتوں کے سکس پیک ایبس نکل آئیں،

تو عجیب لگتی ہیں ......

اور آپ کہتے ہیں کہ عورتیں خوبصورت ہوتی ہے...؟؟؟

اب بات کرتے ہیں مردوں کی....

یعنی لڑکے...

اگر لڑکے کلین شیوں ہوں تو خوبصورت لگتے ہیں...

اور داڑھی رکھیں پھر اور زیادہ خوبصورت لگتے ہیں ....

لڑکے گنجے ہو جائیں تب بھی خوبصورت لگتے ہیں...

بڑے بال رکھیں، پھر بھی خوبصورت لگ تے ہیں ۔

درمیانے بال ہیں، پھر بھی خوبصورت نظر آتے ہیں۔

اگر لڑکوں کو سکس پیک ایبس آ جائیں تو خوبصورت

اور اگر چھریرے ہیں تو پھر بھی خوبصورت...

یعنی عورت کا حسن بس ایک چھلاوہ ہے...!

جیسے کسی جادوگر کا جادو ...!!

لیکن مرد کی خوبصورتی......

ایک ابدی سچائی ہے جو ہر حال میں چھائی رہتی ہے۔

؎بازار میں کھڑی ہے جو ہمراہ غیر کے

کچھ شک نہیں کہ حشر میں حقدارِ نار ہے

ملتی ہے جو علیحدگی میں آن شیخ کو

سمجھو کہ پُل صراط سے عورت وہ پار ہے.

؎عورت کی خواہش ہے بھر پور لذت و تسکین لینا

اور یہ ممکن ہے جب آدمی سمجھدار ہو۔

؎ہاں !یقیناً خدا نے مرد کو عورت سے پہلے ہی تخلیق کیا ہے؛کیونکہ شاہکار سے پہلے مسودہ تیار کیا جاتا ہے۔

؎ڈاکٹر وہ بد ذوق  مرد ھے

جو خوبصورت عورت کا جسمانی معائنہ کرنے کی بھی فیس لیتا ھے۔~ کارل مارکس“

؎ایک  عورت کا نشہ اور ذائقہ، دو جوان لڑکیوں  سے زیادہ دیر پا اور  تیز ہوتا ہے.

؎مُجھے عورت کو دیکھ کر بہت دکھ ھوتا ھے                                                                                                                جب وہ اپنے کردار پر لگے داغ کو مٹانے کے لئے داڑھی نہیں رکھ سکتی                                                                                   سعادت حسن منٹو

؎لوگ کہتے ہیں کے ایک کامیاب مرد کے پِیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اب ایسا نہی ہے اب عورت ہاتھ ہی کامیاب مرد پہ رکھتی ہے.

؎عورت کو سب کچھ چاہئے اگر پیار اس کے پاس ہوُتو اسائشیں بھی چاہئے اگر آسائشیں ہوں تو پھر پیار بھی چاہئے وہ کبھی اسائشوں کے لیے پیار کو چھوڑتی ہے اور کبھی پیار کے لئے اسائیشوں کو۔

؎عورت کے لیے سیکس زندگی کا جزو ہوتی ہے مردوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اکثر عورتیں اس وقت تک جنسی طور پر مطمئن نہیں ہوتیں جب تک ان کی مجموعی ازدواجی زندگی خوش گوار نہ ہو۔  گویا یہ نہیں ہوتا کہ ان کے دن اچھے نہ ہوں مگر راتیں اچھی ہوجائیں۔

؎پیسہ دیکھ کر تو کوٹھے کی عورت بھی پیار کر لیتی ہے ای بنت حوا اپنی زات میں کچھ فرق تو پیدا کر۔

؎زیادہ پاس مت آنا میں وہ تہہ خانے ہوں جس میں شکستہ خواہشوں کے ان گنت آسیب بستے ہیں جو آدھی شب تو روتے ہیں پھر آدھی رات ہنستے ہیں .

""عورت جب تک آپ سے محبّت کرتی ہےتب تک وہ آپ سے لڑتی ہے روٹھتی ہےفرمائش کرتی ہےاپنی ہر ضد منواتی ہے۔

جب وہ تھک کے ٹوٹ جاتی ہے؛تب وہ نہ شکایت کرتی ہے نہ ضد کرتی ہے بلکہ وہ اپنی خواہشوں کو دل میں دبا کر خاموش ہو جاتی ہے""

؎عورت اور زمین اپنے اُوپر مرنے والے عاشق کو ھمیشہ یاد رکھتی ھیں ۔(محمّود درویش)

؎محبت کبھی جسم سے نہیں ہوا کرتی اسی لئے جسم ایک ہو کر بھی پیاسے رہ جایا کرتے ہیں۔ محبت ہمیشہ خوبیوں سے ہوا کرتی ہے۔ ان خوبیوں کے بہت سے نام ہیں جن میں کچھ یہ ہیں۔ عزت، وفا، خیال، سمجھداری، احساس ذمہ داری اور بردباری۔

؎(  عورت عشق کی استاد ہے۔ ).

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے پوچھا’’شاہ لطیف کون تھا؟‘‘

میں نے کہا ’’دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر‘‘

اس نے پوچھا ’’کس طرح۔۔۔!؟‘‘

میں نے کہا ’’اس طرح کہ :

وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے؟

اس سوال کا جواب ارسطو بھی نہ دے پایا

اس لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:

’’ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا

پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں‘‘

دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ

’’عورت ایک مسئلہ ہے‘‘

اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھا کہ

’’عورت مسئلہ نہیں

عورت محبت ہے!‘‘

مگر وہ محبت نہیں

جو مرد کرتا ہے!

مرد کے لیے محبت جسم ہے

عورت کے لیے محبت جذبہ ہے

مرد کی محبت جسم کا جال ہے

عورت کی محبت روح کی آزادی ہے

مرد کی محبت مقابلہ ہے

عورت کی محبت عاجزی ہے

مرد کی محبت ایک پل ہے

عورت کی محبت پوری زندگی ہے

مرد کی محبت ایک افسانہ ہے

عورت کی محبت ایک حقیقت ہے!

سارے شعراء شیکسپئر سے لیکر شیلے تک

اور ہومر سے لیکر ہم تم تک

سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے

صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے

اس لیے شاہ لطیف نے لکھا:

’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘

سب سوچتے رہے کہ

’’آخر عورت کیا چاہتی ہے؟

تخت؛ بخت اور جسم سخت!؟‘‘

شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ

’’عورت کو محبت چاہیے

نرم و نازک گرم و گداز

جسم سے ماورا

جنس سے آزاد‘‘

مرد جسم میں کے جنگل میں

بھٹکتا ہوا ایک بھوکا درندہ ہے

عورت روح کے چمن میں

اڑتی ہوئی تتلی ہے

جو پیار کی پیاسی ہے

مرد کے لیے محبت بھوک

اور عورت کے لیے پیار

ایک پیاس ہے!

صرف لطیف جانتا تھا

عورت کے ہونٹ ساحل ہیں

اور اس کا وجود ایک سمندر ہے

آنکھوں سے بہتے ہوئے

اشکوں جیسا سمندر

جو نمکین بھی ہے

اور

حسین بھی ہے!!

جس میں تلاطم ہے

جس میں غم ہے

جس میں رنج نہیں

صرف اور صرف الم ہے!!...🍁

؎اگر طوائف کے آنسوں سے کچھ ہونا ہوتا تو کوٹھے کب کے بہہ چکے ہوتے۔

‏؎منٹو نے عورتوں کے بارے میں ایک بہت عمدہ رائے دی

وہ کہتے ہیں کہ عورت ہمیشہ اپنی مرضی سے مرد کے قابو میں آتی ہے

اسکی مرضی کے بغیر اسے چھونا تو بڑی دور کی بات ہے محض ٹکٹکی باندھ کے تکنے پر بھی ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے۔۔!"🙏

؎عورت گلی میں فرشتہ ، چرج میں سَنت ، کھڑکی پر خوبصورتی کی علامت ، گھر کے معاملات میں ایماندار ، اور بستر پر شیطان ہوتی ہے !!

میگوئل ڈی سروینٹس

؎‏غریبی مرد کو ننگا کر دیتی ہے اور دولت عورت کو..

منٹو🤗

؎عورت سجتی ہے تو خوب بجتی ہے

بجنے کے لئے ہی تو عورت سجتی ہے

؎محترمہ سنی لیون اپنی کتاب "گیلی چو*ت" میں فرماتی ہیں کہ

عورت اس کو تو معاف کر دیتی ہے جو موقعے کا نا جائز فائدہ اٹھائے مگر اس کو کبھی معاف نہیں کرتی جو موقع ضائع کر دے۔

؎عورت کھانے پینے سے نہیں ہتھیار لینے سے موٹی ہوتی ہے. جب کئی مردوں کی طاقتور منی اس کے جسم کے اندر جاۓ گی تو ظاہر ہے اس کی صحت اور فیگر پر اثر تو پڑے گا ہی. مرد کی منی میں صرف اولاد پیدا کرنے کے خلیۓ ہی نہیں ہوتے بلکہ ویٹامن اور پروٹین بھی ہوتے ہیں. پھر چوما چاٹی کرنے سے عورت کو جو خوشی، لذت اور آسودگی ملتی ہے اس کا بھی اس کی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے. مرد ہی عورت کو کلی سے پھول بناتا ہے. عورت کا شباب مرد کی جوانی سے ہے.

جو عورتیں ہتھیار کے لیۓ ترستی ہیں ان کی صحت اور فیگر کبھی اچھا نہیں ہوتا. وہ چڑچڑی اور بدمزاج ہوتی ہیں اور جلد بوڑھی ہو جاتیں ہیں.

میری ریسرچ یہی کہتی ہے. آپ کی اس بارے میں کیا راۓ ہے.

؎‏عورت ہر اس مرد سے با آسانی چدوا لیتی ہے جس کے ساتھ وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔

؎کلینکل ٹپس

تین چار بچوں کی پیدائش کے بعد عورت کا جسم ڈھیلا ہوجاتا ہے اور خاوند کو ہمبستری میں لذت نہی آتی۔نتیجتا شوہر کی دلچسپی عورت میں کم ہونے لگتی ہے۔اگر خواتین ایک ماہ میں تین سے چار بار کلکیریا فلور 12 کی چار چار گولیاں لے لیا کریں تو بڑھاپے میں بھی نہ رحم کے ڈھیلے پن کی شکایت ہو گی نہ ہی جسم پر کہیں گلٹیاں یا رسولیاں بنیں گے۔اور چہرے پر جھریوں کے آثار بھی نہی دکھائ دیتے ۔اگر مرد بھی استعمال کریں تو انہیں بھی اعصاب کے ڈھیلے پن۔جھریوں تھکاوٹ سستی جیسے عوامل سے چھٹکارہ رہتا ہے۔۔؎عورت اپنی گہری غار  کا راستہ صرف اس مرد کو دیتی ہے جو اس کی چوٹیوں کو سر کرنے کی ہمت اور حوصلہ رکھتا ہو ۔

؎رضامند عورت کا قرب مرد کی ذہنی و جسمانی آسودگی کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے.

؎عورت کے جسم کی تمام تر لذتیں وہ مرد حاصل

کر سکتا ہے جو عورت کا چاہا ہوا شخص ہو،

؎عورت کو جنسی اشتعال دلانے کیلئے اس کے ساتھ 20 منٹ کا فور پلے یعنی محبت کا کھیل کھیلنا نہایت ہی ضروری ہے۔ عورت اپنے سارے جسم کو چھونا پسند کرتی ہے وہ چاہتی ہے پہلے اس کے کم حساس حصوں کو چھوا جائے اور پھر زیادہ حساس حصوں کو چھوا جائے۔ دوسری طرف اگر مرد کے زیادہ حساس حصوں کو جلد مشتعل کیا جائے تو وہ جلد انزال کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اگر پھر وہ چھوٹ جائے تو پھر عورت آرگیزم حاصل نہیں کر پاتی اور وہ بھرپور جنسی لطف سے محروم رہتی ہے محبت کا طویل کھیل دراصل عورت کی ضرورت ہے مرد کی نہیں۔

؎مرد عورت کو شادی کے لئے طوائف سے زیادہ مہنگے داموں خریدتا ہے ۔۔۔

اور وہ مہنگی قیمت دے کر بدلے میں حیا اور عزت لیتا ہے۔

؎💕عورت مرد میں دلداری عام بات ہے لیکن عورت دلداری سے زیادہ روح داری کا شوق رکھتی ہے جب تک اسے روح داری نہیں ملتی اسے دلداری میں سکون مل ہی نہیں سکتا کیونکہ عورت کو جسم میں اس وقت تک دلچسپی نہیں ہوتی جب تک اسکی روح راضی نہیں ہوتی جو مرد عورت کی روح کو راضی کر لے عورت اس کیلئے جان بھی دے سکتی ہے لیکن ایسا مرد ملتا لاکھوں میں کوئی ایک ہی ہے اور جسکو ملتا ہے اسکی جوانی کبھی ڈھلتی ہی نہیں ہے،

؎ایک عورت اگر چاہے تو وہ سو مردوں کو خراب کرسکتی ہے۔ مگر سو مرد مل کر بھی ایک عورت کو خراب نہیں کرسکتے۔ لیکن قدرت کا کمال دیکھیں کہ سو مردوں سے بچ کررہنے والی عورت ہمیشہ کسی ان دیکھے آنکھوں سے اوجھل اور دھندلے انسان کے ہاتھوں خراب ہوجاتی ہے۔ جو مرد و عورت اپنے خیالات کی لذت کو اپنے ہاتھوں اور انگلیوں سے محسوس کرتے ہیں وہ ہمیشہ ایک الگ دنیا میں رہتے ہیں۔ شیطان بذات خود عورت کا دیوانہ ہے۔ شیطان کو اتنی طاقت عطا کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی عورت کو شہوت میں مبتلا کرسکتا ہے۔ شیطان اپنی زات میں دیوانہ ہے جو معصوم اور کم عمر لڑکیوں کو پسند کرتا ہے۔ شیطان کا سب سے آسان ہدف وہ لڑکیاں ہوتی ہیں جو اکیلا رہنا پسند کرتی ہیں۔ اکیلی لڑکی شیطان کی دلہن ہوا کرتی ہے۔

؎عورت ایک ایسی کتاب ہے، جسے ہر مرد پڑھنا چاہتا ہے۔مگر پڑھنے کا سلیقہ چند مردو کو ہی آتا ہے .

💥اولاد نرینہ کے لیے مجرب💥

ڈھاک کے پتوں کا سفوف بنا کر 10گرام عورت مرد دودھ سے صبح شام ایک ماہ استعمال کریں ۔

💢۔اس دوران ملاپ سے مکمل پرھیزکریں ۔اس کے بعد ایام سے فارغ ھوتے ھی ملاپ کریں  ان شاء اللہ بیٹا پیدا ھو گا۔عورت اگر دو ماہ اور استعمال کر لے تو حمل گرنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا ۔

💧مجرب اور آزمودہ ھے

💧 خوراک ۔

۔اس کے ساتھ 5 اور 6 نمبر غزا استعمال کریں

؎حُب💞

‏جانتے ہیں حُب کسے کہتے ہیں؟

‏جب کوئی عورت اپنا سیاہ سے سیاہ رُخ ‏اس ڈر کے بغیر آپ کے سامنے کھول کر رکھ دے ‏کہ آپ نہ تو اُسکو دھتکاریں گے اور نہ طعنہ بازی کریں گے... آپ کو اپنے کسی جذباتی لمحے میں چُنے اور آپ کے سامنے بچوں کی طرح رو لے یا بِنا سوچے سمجھے کوئی بے تُکی بات کرکے ہنس لے اس یقین کے ساتھ کہ آپ اسے دل سے جانتے ہیں سمجھتے ہیں اس کا مان کبھی نہیں توڑیں گے اور ساتھ ہی یہ اطمینان بھی رکھے کہ اسکی بات صرف آپ تک ہی محدود رہے گی تو اسی تعلق کو حُب کہتے ہیں ♥️

؎اگر اکیلی عورت کے ساتھ رہ کر آپ اپنی ہوس پر قابو پا سکتے ہیں ۔

تو یا آپ فرشتہ ہیں  یا نامرد ۔

؎عورت کا جسم

اس کی روح سے محبت کے بغیر

گوشت کےسوا کچھ بھی نہیں

ہاں یہ الگ بات کہ

اِس دنیا میں

گوشت خوروں کی کمی بھی نہیں..🖤

؎جس عورت کی گردن پر تل ہو وہ امیر اور خوش قسمت ہوتی ہے جس عورت کے اوپر والے ہونٹ پر تل ہو وہ خوبصورت اور دلکش ہوتی ہے جس عورت کے ماتھے پر تل ہو وہ خوش نصیب ہوتی ہے جس عورت کے ہاتھ پر تل ہو وہ نیک ہوتی ہے جس عورت کے پاؤں پر تل ہو وہ سمجھدار ہوتی ہے جس عورت کے دائیں گال پر تل ہو وہ چلاک ہوتی ہے جس عورت کے بائیں گال پر تل ہو وہ ذہین ہوتیہے جس عورت کے ہونٹ پر تل ہو وہ محبت کرنے والی ہوتی ہے انگلیوں سے عورت کی پہچان جس عورت کی چھوٹی انگلی زیادہ لمبی ہوتی ہے وہ عورت وفادار ہوتی ہے جس عورت کا انگوٹھا چھوٹی انگلی کے برابر ہوتا ہے وہ عورت مطلبی ہوتی ہے جس عورت کی نیچ والی انگلی شہادت کی انگلی کے برابر ہوتی ہے وہ عورت دھوکے باز ہوتی ہے جس عورت کی انگلیاں لمبی ہوں وہ عورت بہت تیز دماغ کی ہوتی ہے جس عورت کی انگلیاں موٹی ہوں وہ عورت بہت معصوم ہوتی ہے جس عورت کی انگلیاں پتلی ہوں وہ عورت بہت چالاک ہوتی ہے۔!

؎جن سے محبت ہوان کے لیے جگہ بنالی جاتی ہے پھر چاہے وہ گھر ہو دل ہو یا زند گی وہاں بہانے نہیں بناۓ جاتے ۔۔ اب جا کر احساس ہوا کہ کاش میں اپنی محبت کور از ہی رہنے دیتا ، مگر وضاحت کر کے خودکوماردالا ہے ۔۔ خون کے ہوں بادل کے ہوں رشتے ایک دن امتحان ضرور لیتےہیں جب ہمارے ہونے یانہ ہونے سے کسی کو کوئی بے چینی دبے قراری محسوس نہ ہو تو یہ سمجھنادرست ہے کہ ہم ان کی زندگی میں امر حوم کا درجہ پا چکے ہیں ۔۔ اور پھر خوبصورت ہونے سے کچھ نہیں ہوتا ، بات تو ساری نصیبوں کی ہوتی ہے ! ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم پر آنے والی آز ماپیش ہمارے لئے ہوتی ہی نہی ۔ اس کا مقصد ہی دوسروں کی اصلی شکل دیکھاناہوتاہے ۔ زندگی خوبصورت نہیں ہوتی اسکوخودسجاناپڑتاہے دعائیںلےکر وفائیںلُٹاکراوردوسروںکے دردسمیٹ کر میں نے بہت سی تلوار میں دیکھیں ہیں جو ایک کو دو کر دیتی ہیں ۔ مجھے عشق کی تلوار پر بڑا تعجبہے یہ دو کوا یک کر دیتی ہے ۔۔ میری دادی اماں کہتی تھی مر داس عورت کی محبت میں مجنون بن جاتا ہے جو عورت مرد کی گرفت میں نہیں ہوتی کون کہتا ہے مر دکودر د نہیں ہوتا ۔۔۔ مرد مجبور نہیں ہوتا ۔۔۔ قصور عورت کا نہیں ہوتا ۔ کبھی کبھی مر د کی تباہی میں عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔۔ مرد بھی انسان ہوتا سے فرشتہ نہیں کبھی کبھی انسان اتنا بے بس ہو جاتا ہے کہ امید میں بدعائیں ، یقین اور ہمت سب آنکھوں کے راستے بہنے لگتے ہیں ۔ لیکن یہ سب پھلے سے بہہ جائیں مگر اللہ کی ذات پر تو کل نہیں ۔ اللہ پر تو کل سے زیادہ کوئی چیز مضبوط نہیں۔یہ ہو توانسان تنباہو کر بھی تنہا نہیں ہو ساس کار باس کے ساتھ ہوتا ہے ۔ لوگوں سے امید میں لگانا چھوڑو میں اور اللہ سے امید میں لگانا شروع کر دیں۔اللہ سے مانگیں ، اللہ کے سامنے روئیں ۔

؎‏عورت ایک ایسا گہرا کنواں ہے,

‏جسے صرف محبت سے بھرا جا سکتا ھے مردانگی

‏سے نہیں .

؎عورت وہ چراغ ہے جس میں ہر مرد تیل ڈال کر روشنی کرنا چاہتا ہے 💘 ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:39، 29 مارچ 2024ء (م ع و)

جامن نامی درخت کے طبی فواٸد[ترمیم]

اسے بنگالی میں کالا جام اور سندھی میں جموں کہا جاتا ہے۔مشہور عام درخت ہے۔ گرمیوں کے موسم میں پھل لگتا ہے۔ اس کا رنگ اودا سیاہ ہے۔ ذائقہ قدرے شیریں ہے اور مزاج سرد خشک ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کے لئے بہت مفید ہے۔ جامن کی گٹھلیاں پیس کر سادہ پانی کے ہمراہ ہر روز تین ماشہ کھاتے رہیں۔ ذیابیطس کا خاتمہ ہو جائے گا۔یہ خون اور گرمی کے نقائص دور کرتا ہے۔ بھوک لگاتا ہے کھانے کو ہضم کرتا ہے۔ قدرے قابض ہے۔ تلی‘ جگر اور معدہ کو طاقت دیتا ہے۔ خصوصاً گرم طبیعت والوں کے بالوں کو گرنے سے بچاتا ہے۔ پیشاب میں شکر آنے کو روکتا ہے۔ جامن بڑھی ہوئی تلی کے لئے بہت مفید ہے۔ اسے ویسے بھی کھایا جا سکتا ہے اور اس کو شربت بنا کر بھی پینا مفید رہتا ہے۔ جامن کی چھال کا جوشاندہ پرانے اسہال اور پیچش میں مفید رہا ہے۔ گلے آنے اور پھولے ہوئے مسوڑھوں میں اس کی کلیاں اور غرارے حد درجہ نفع بخش ہیں۔جب جامن کا موسم ہو تو ذیابیطس (پیشاب میں شکر آنے) والے مریض روٹی کھانا کم اور زیادہ سے زیادہ جامن کا استعمال کریں اس طرح ان کے پیشاب میں شکر آنا بند ہو جائے گی۔ لوگ جامن کھاتے اور گٹھلیاں بے کار سمجھ کر پھینک دیتے ہیں حالانکہ جامن کی گٹھلیاںبے کار چیز نہیں‘ یہ گٹھلی کتنی کام کی چیز ہے ان سطور سے آپ پر بخوبی واضح ہو جائے گا۔

جامن کی گٹھلی کو سایہ میں خشک کر کے اس کا سفوف بنا لیں۔ تین ماشہ یہ سفوف دہی کے ساتھ دن میں تین بار استعمال کرنے سے ہر قسم کی پیچس دور ہو جاتی ہے۔آنکھوں سے پانی آتا ہو یا موتیا اتر رہا ہو تو جامن کی گٹھلی خشک کر کے باریک پیس کر تین تین ماشہ صبح و شام پانی کے ساتھ کھلائیں اور جامن کی گٹھلی برابر وزن شہد میں پیس کر سرمچو سے صبح و شام آنکھوں میں ڈالا کریں۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب موتیا اترنا شروع ہوتا ہے تو پھر رکتا نہیں۔ یہ آسان سی دوائی لوگوں کے اس خیال کو غلط ثابت کر دے گی۔ جامن کی گٹھلیوں کو خشک کر کے باریک پیس کر شہد ملا کر بڑی بڑی گولیاں یا بتیاں بنا کر رکھیں۔ بوقت ضرورت شہد میں ملا کر لگائیں۔ ایک بار بنا کر سال بھر کام میں لا سکتے ہیں۔جامن کی گٹھلیوں کو شہد ملا کر گولیاں منہ میں رکھ کر چوسنے سے بیٹھا ہوا گلا ٹھیک ہو جاتا ہے اور آواز کا بھاری پن ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اگر دیر تک استعمال کی جائے تو دیر سے بگڑی ہوئی آواز بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ زیادہ بولنے اور گانے والوں کے لئے یہ عجیب چیز ہے۔ جامنوں کی گٹھلیاں نکال کر ان کا ایک سیر گودا لیجئے۔ پہاڑی نمک ایک تولہ‘ سیاہ نمک ایک تولہ‘ دانے دارچینی حسب ذائقہ‘ زیرہ سیاہ حسب ضرورت پانی مناسب۔جامنوں کے گودے میں نمک حل کر دیں۔ یہ یاد رہے کہ نمک سمندری استعمال نہ کریں۔ اس سے ذائقہ خراب ہو جائے گا۔ نمک پہاڑی استعمال کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی سیاہ نمک بھی حل کر دیں۔ جب کسی کو پلانا ہو تو اس نمکین گودے میں سے ایک تولہ لیجئے اور اس میں چینی کا باریک سفوف نصف چھٹانک ملا دیجئے اور 1/16 تولہ زیرہ سیاہ بریاں کا سفوف ملا دیجئے اور پانی میں گھول کر چھان لیجئے اور برف ڈال کر استعمال کیجئے۔ یہ سردائی نہایت لذیذ بنتی ہے۔ اس کے استعمال سے بدہضمی‘ بھوک کا نہ لگنا‘ معدہ کی کمزوری اور انتڑیوں کی شکایت دور ہوتی ہے۔ جگر کی گرمی بھی اس سے دور ہوتی ہے۔ خون جسم کے کسی حصے سے خارج ہوتا ہو یہ اسے روکنے میں مدد دے گی۔گٹھلی کا مغز‘ آم کی گٹھلی کا مغز‘ ہلیلہ سیاہ (جنگ ہرڑ) ہم وزن لے کر سفوف بنا لیں۔ تین چار ماشے پانی کے ساتھ پھانکنے سے دست بند ہو جاتے ہیں۔ سایہ میں خشک کی ہوئی چھال باریک پیس کر چھ چھ ماشہ صبح‘ دوپہر اور شام کے وقت تازہ پانی کے ساتھ کھلانا ذیابیطس کے مریض کے لئے بے حد مفید ہے۔ جامن کی گٹھلیوں کاسفوف پانچ رتی صبح و شام پانی کے ساتھ استعمال کرنے سے پیشاب کے ساتھ شکر آنے کو فائدہ کرتا ہے۔جامن کی چھال کو سایہ میں خشک کر کے باریک پیس کر کپڑے سے چھان لیں اور دونوں وقت صبح و شام اسے بطور منجن دانت‘ مسوڑھوں پر مل کر منہ کو پانی سے صاف کر دیا کریں۔ اس سے دانتوں اور مسوڑھوں کے تمام امراض دور ہو جاتے ہیں‘ ہلتے دانت بھی ٹھیک ہو جاتےموسم گرما کا اہم پھل،

فہرست یہاں دیکھیں

جامن کے تیس فوائد

موسم گرما میں آنے والا پھل جامن صحت کے حوالے سے ا نتہائی مفید اور اہم پھل ہے اوردیگر پھلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مہنگا بھی نہیں ہے۔ جامن کے ساتھ ساتھ جامن کی گھٹلیاں اورپتے بھی بہت ساری بیماریوں کے علاج میں استعمال کیے جاتے ہیں۔عموماً جامن کھا کر گھٹلیاں پھینک دی جاتی ہیں حالانکہ جامن کی گھٹلیاں مجموعی امراض میں بے انتہا فائدہ پہنچاتی ہیں۔ آپ ان گھٹلیوں کو سکھا کر رکھ سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر استعمال کریں۔ جامن کینسر،دل کی بیماریوں،ذیابیطس،دمہ،معدہ اور جلد کے مختلف مسائل کے حل کیلئے نہایت مفید پھل ہے۔جامن میں اہم غذائی اجزاء جیسے کیلشیئم،آئرن،میگنیشیئم،فاسفورس،سوڈیم،وٹامن ،تھیامن،ربوفلیون،نیاسن،کاربوہائیڈریٹ،کیروٹین،فولک ایسڈ،فائبر،فیٹ، پروٹین اورپانی موجود ہوتے ہیں۔جو صحت کیلئے بے انتہامفید ہیں۔ لیکن جو بھی کھائیں اعتدال میں رہتے ہوئے کھائیں۔

جامن کے فوائد

ذیل میں جامن کے فوائد ہیں جن سے آپ آسانی سے اپنے روزمرہ مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔

۱۔جامن معدہ ،آنتوں کی جلن،خراش اور کمزوری دور کرنے والی بے مثل غذا ہے۔

۲۔جامن اسٹارچ کو انرجی میں تبدیل کرکے بلڈ شوگرکی سطح کو نارمل رکھنے میں مدد کرتاہے۔شوگر کے مریضوں کو روزانہ جامن کھانا چاہئے۔

۳۔بھوک بڑھاتاہے اور صفراء کا زور توڑتاکر معدہ کو طاقت دیتاہے اور کھانے کو ہضم کرتاہے۔

۴۔جامن میں پیا س کی شدت اورخون کی گرمی کم کرنے کی قدرتی تاثیر موجود ہے۔۵۔ذیابیطس کے مریضوں کے لئے جامن کا استعمال انتہائی مفید ہے یہ خون میں شکر کی مقدار کو بڑھنے نہیں دیتا۔

۶۔بڑھی ہوئی تلی کو کم کرنے اور جگر کی صحت کیلئے بہت فائد ہ مند ہے نیا خون پیدا کرتاہے۔

۷۔گرمی سے نجات کا بہترین ذریعہ ہے لیکن جامن کھانے کے بعد پانی نہ پیئیں۔

۸۔پیشاب کی زیادتی کو کم کرتاہے مثانہ کی کمزوری دور کرتاہے۔

۹۔دانتوں کی صحت کیلئے بھی مفیدپھل ہے۔

۱۰۔جامن کی گھٹلیاں سکھاکر پیس کر رکھ لیں اور روزانہ تین ماشہ سادہ پانی سے کھالیں ذیابیطس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

۱۱۔کمر اور پیروں کے دردسے نجات کے لئے جامن گھٹلی سمیت پیسٹ بناکر کھائیں ۔

۱۲۔گرتے ہوئے بالوں کو روکتاہے۔

۱۳۔بڑھی ہوئی تلی کیلئے خالی جامن ،جامن کا سرکہ یا جامن کا شربت بناکر پینا بہت مفید ہے۔

۱۴۔جامن کی چھال کا جوشاندہ اسہال اور پیچش میں فائدہ دیتاہے۔

۱۵۔جامن کی چھال کو پانی میں پکا کر غرارے اور کلیاں کرنے سے پھولے ہوئے مسوڑھوں اور گلے آنے کا مسئلہ حل ہوجاتاہے۔

۱۶۔جنکا معدہ کمزور ہو انکے لئے جامن اور جامن کا سرکہ بہترین دوا کا کام کرتے ہیں۔

۱۷۔آنکھوں سے پانی نکلتاہو یا موتیا آرہا ہو تو جامن کی گھٹلی سکھا کر باریک پیس لیں اور صبح و شام تین تین ماشہ سادہ پانی کے ساتھ لیں ۔

۱۸۔جن لوگوں کو رات میں برے خواب آتے ہوں انکو جامن کی گھٹلی کا پاؤڈر صبح و شام کھانا چاہئے۔

۱۹۔بیٹھے ہوئے گلے اور آواز کیلئے جامن کی گھٹلیوں کو پیس کر چھوٹی چھوٹی گولیا ں بناکر رکھ لیں اور شہد لگا کر چوس لیں۔

۲۰۔کیسے بھی دستوں میں جامن کے درخت کے ڈھائی پتے جو نہ زیادہ سخت ہوں نہ زیادہ نرم،پیس کر تھوڑا سا نمک ملاکر اسکی گولیاں بنالیں اور ایک گولی صبح و شام لینے سے دست فوراً رک جائیں گے۔

۲۱۔جامن کے پتے السر میں مفید ہیں۔

۲۲۔جامن کا جوس مدافعتی نظام کو فروغ دیتا ہے۔

۲۳۔اینیمیا کے شکار افراد جامن ضرور کھائیں۔

۲۴۔سو گرام جامن میں ۵۵ ملی گرام پوٹاشیم ہوتاہے جو دل کے مریضوں کے لئے اچھاہے۔

۲۵۔جامن کے روزانہ استعمال سے ہائی بلڈ پریشر اور اسٹروک کے خطرے سے بچا جاسکتاہے۔

۲۶۔جامن میں موجود وٹامن سی جلد کے لئے بہترین ہے۔

۲۷۔ایکنی کے لئے روزانہ رات کو جامن کی گھٹلی پیس کر دودھ میں ملا کر لگانے سے ایکنی ختم ہوجاتی ہے۔

۲۸۔داغ دھبوں سے نجات کے لئے جامن کی گھٹلی کا پاؤڈر،لیموں کار س،بیسن،بادام کا تیل اور عرق گلاب چند قطرے ملا کر چہرے پرلگائیں جب سوکھ جائے تو دھولیں۔

۲۹۔آئلی اسکن کیلئے جامن کا پلپ،جو کا آٹا،آملہ کا رس، اور عرق گلاب ملا کر فیس ماسک کے طور پر استعمال کریں جب سوکھ جائے تو دھو لیں۔

۳۰۔ جامن کا مزاج خشک سرد ہے گرم مزاج رکھنے والوں کے لئے مفید ہے۔جامن استوائی خطے کا ایک سدا بہار درخت ہے جس کا اصل وطن پاکستان ، بھارت ، نیپال ، بنگلہ دیش اورانڈونیشیا ہے۔ یہ کافی تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے جو مناسب حالات میں 30 میٹر کی اونچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ درخت اکثر 100 سال سے زیادہ کی عمر پاتا ہے۔ اس کے پتے گھنے اور سایہ دار ہوتے ہیں اور لوگ اسے صرف سایہ اور خوبصورتی کے لیے بھی لگاتے ہیں۔ لکڑی بہت مظبوط ہوتی ہے جس پر پانی اثر نہیں کرتا۔ اپنی اس خصوصیت کے باعث اس کی لکڑی ریلوے لائنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے

درخت پر موسم بہار میں چھوٹے چھوٹے خوشبودار پھول آتے ہیں۔ برسات کے موسم تک پھل تیار ہوجاتا ہے۔ پھل کے باہر نرم چھلکا ، پھر گودا اور درمیان میں ایک بیج ہوتا ہے۔ پھل کا رنگ جامنی ہوتا ہے، رنگ کا نام اسی پھل کی نسبت سے ہےآم اور جامن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آم کا سیزن شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد عموماً برسات میں جامن بھی بازار میں فروخت ہونے لگتا ہے۔ جامن چھوٹا بھی ہوتا ہے جسے دیسی جامن کہتے ہیں اور بڑا بھی جو پھلندا کہلاتا ہے جبکہ ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے جس کا گودا بہت کم ہوتا ہے۔

جامن کے بے شمار طبی فوائد ہیں: یہ کئی امراض کے علاج میں کارآمد ثابت ہوا ہے۔ مرض ذیابیطس کہ جس میں لبلبے کے بگڑنے سے خون میں شکر کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے اور پیشاب میں بھی خارج ہونے لگتی ہے اس مرض سے پورے جسم میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ ذیابیطس کا غذائی پرہیز ہی واحد علاج ہے۔

جامن ذیابیطس کنٹرول کرنے میں انتہائی مفید ہے۔ ذیابیطس ٹائپ ون کی بجائے ذیابیطس ٹائپ ٹو میں جامن کا استعمال زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے لیکن اس مرض کی دیگر مروجہ ادویات کے بجائے صرف جامن ہی کے استعمال پر انحصار کسی طور پر مناسب نہیں۔ شوگر کے مریض اگر کبھی کبھار آم کھالیں تو اس کے بعد جامن کھانے سے شوگر لیول اعتدال پر رکھا جاسکتا ہے نیز اس سے آم کی حدت بھی معتدل ہوجاتی ہے۔

علاوہ ازیں موسم برسات میں اسہال’ گیسٹرو اور دیگر پیٹ کے امراض کیلئے بھی جامن کا سرکہ فائدہ مند ہے جو صدیوں سے مستعمل ہے۔ لو لگنے کی صورت میں جامن کھانے سے لو کے اثرات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ پھوڑے پھنسیوں سے محفوظ رہنے کیلئے جامن نہایت مفید ہے۔ چہرے کے داغ دھبے’ چھائیاں’ جامن یا جامن کے شربت کے مسلسل استعمال کرنے سے دور ہوجاتی ہیں اور چہرے کی رنگت نکھر جاتی ہے۔

چہرے کی شادابی’ داغ’ دھبے’ چھائیاں دور کرنے کیلئے جامن کا بیرونی استعمال بھی کیا جاتا ہے اس مقصد کیلئے جامن کی گٹھلیوں کو پانی میں رگڑ کر اس کا پیسٹ بنائیں اور چہرے پر اس کا لیپ کریں۔ جامن جسم کو تقویت دیتا ہے۔

یہ مقوی باہ ہے۔ مادہ حیات کو گاڑھا کرتا ہے۔ پیشاب کی جلن میں بھی مفید ہے۔ اگر منہ پک جائے توجامن کے نرم پتے ایک پاؤ لے کر ایک کلو پانی میں جوش دیں بعد ازاں چھان کر کلیاں کرنے سے فائدہ ہوجاتا ہے۔ جامن کا کھانا آواز کو درست اور گلے کو صاف کرتا ہے۔ رات کو سوتے وقت منہ سے پانی بہنے کی شکایت (بادی کیفیت) کو دورکرتا ہے۔ جامن تیزابیتِ معدہ کا خاتمہ کرتا ہے۔ معدہ اور آنتوں کی کمزوری کو دور کرنے کیلئے ایک پاؤ جامن کے سرکے میں تین پاؤ چینی ملا کر سکنجبین بنائیں اور صبح وشام استعمال کریں۔

بواسیر کا خون بند کرنے کیلئے بیس گرام جامن کے پتے ایک پاؤ دودھ میں رگڑ کر چھان کر پلانا مفید ہے۔

جامن مفرح قلب ہے: گھبراہٹ و بے چینی اور ایگزائٹی میں فائدہ مند ہے۔ جامن کا موسم نہ ہونے کی صورت میں غرض ذیابیطس کیلئے جامن کی گٹھلیوں کا سفوف تین گرام صبح نہار منہ اور شام پانچ بجے کھانا چاہیے۔ مزید برآں ذیابیطس کے مریض اگر تخم جامن تیس گرام’ طباشیر نقرہ دس گرام’ دانہ الائچی خورد پندرہ گرام کاسفوف بنالیں اور صبح و شام ایک چمچ (چائے والا) ہمراہ تازہ پانی متواتر 21 روز استعمال کریں تو شوگر کنٹرول ہوجاتی ہے۔

جریان کیلئے نسخہ: جامن کی گٹھلیوں کو خشک کرکے ان کو باریک پیس لیں اور یہ سفوف تین گرام کی مقدار میں صبح نہار منہ اور شام پانچ بجے تازہ پانی سے بیس یوم استعمال کرنے سے انشاءاللہ بدخوابی و جریان کامرض جاتا رہے گا۔

نوجوان لڑکیاں اور خواتین لیکوریا کا علاج: لیکوریاکے مرض میں جامن کی گٹھلیاں پچاس گرام باریک پیس لیں اور اس میں کشتہ بیضہ مرغ دس گرام شامل کرلیں’ یہ سفوف دو سے تین گرام بلحاظ عمر صبح نہارمنہ اور شام پانچ بجے دودھ یا سادہ پانی سے استعمال کریں (دوران حیض استعمال نہ کریں) بیس روز کا استعمال شافی و کافی ہوتا ہے۔ خواتین میں کثرت حیض کو کنٹرول کرنے کیلئے جامن کے پتے سایہ میں خشک کرکے سفوف بنالیں اور روزانہ صبح نہار منہ ایک چمچ (چائے والا) ہمراہ تازہ پانی استعمال مفید ہوتا ہے۔

جامن کی گٹھلیوں کا سفوف خونی اسہال اور پیچش میں بھی مؤثر ہے۔ اس سلسلے میں شربت انجبار کے ساتھ اس کا استعمال بہتر نتائج دے گا۔ جامن کے درخت کی چھال کو جوش دے کر پینے سے بھی مندرجہ بالا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مسوڑھوں سے خون آنے کی صورت میں جامن کے پتوں کو پانی میں جوش دیکر تھوڑا سا نمک ملا کر غرغرے کرنا مفید ہے

؎ایلویرا کےافعال و خواص

بلغمی امراض میں ایلو ویرا کا استعمال مفید ہے۔ یہ سودا کو نکالتا ہے اور ریاح کو تحلیل کرتا ہے۔ امراض باردہ کو بھی مفید ہے اور مقوی باہ ہے۔ شہد اور سونٹھ کے ساتھ روزانہ کھانا کمر درد کا علاج ہے۔ صفرا کو دستوں کے ذریعے خارج کرتا ہے۔ درد شکم کو نفع اور ہاضمہ کو درست کرتاہےافعال و خواص

بلغمی امراض میں ایلو ویرا کا استعمال مفید ہے۔ یہ سودا کو نکالتا ہے اور ریاح کو تحلیل کرتا ہے۔ امراض باردہ کو بھی مفید ہے اور مقوی باہ ہے۔ شہد اور سونٹھ کے ساتھ روزانہ کھانا کمر درد کا علاج ہے۔ صفرا کو دستوں کے ذریعے خارج کرتا ہے۔ درد شکم کو نفع اور ہاضمہ کو درست کرتاہے ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:41، 29 مارچ 2024ء (م ع و)

آم نامی درخت کے طبی فواٸد[ترمیم]

آم کے پتوں کے حیران کن فوائد اور کھانے کا طریقہ[ترمیم]

آموں کے پتوں میں وٹامن اے، سی اور بی سمیت اینٹی آکسیڈنٹس بھرپور پائے جاتے ہیں__فوٹو فائل

آم ناصرف اپنے لذیذ ذائقے کی وجہ سے پسندیدہ ہوتا ہے بلکہ اس میں غذائیت کے بھی کئی راز پوشیدہ ہیں۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس پھل کے پتے بھی کھانے کے قابل ہوتے ہیں اور کافی صحت بخش مانے جاتے ہیں؟  آج ہم آپ کو آم کے پتوں کے کئی صحت سے متعلق فوائد  اور ان کے استعمال کا طریقہ بتائیں گے۔

آموں کے پتوں میں وٹامن اے، سی اور بی سمیت اینٹی آکسیڈنٹس بھرپور پائے جاتے ہیں،  درحقیقت آم کے پتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کئی بیماریوں کا علاج ثابت ہوسکتے ہیں۔

بلڈ پریشر اور شوگر کے مریضوں کیلئے فائدہ مند:

آم کے پتوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ بلڈ پریشر کو متوازن رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ جن افراد کو شوگر کا مسئلہ ہو، وہ یہ کھائیں، ان کی شوگر بہتر ہوجائے گی۔

بالوں کے مسائل حل کرے:

ان لوگوں کے لیے جو اپنے بالوں کے بہتر علاج کے لیے قدرتی علاج چاہتے ہیں، آم کے پتے بہترین ہیں! ان کے پتوں میں آکسیڈنٹس 'فلیوونائڈز' ہوتے ہیں جو بالوں کو سفید نہیں ہونے دیتے۔

اس کے علاوہ آم کے پتے میں موجود وٹامن اے اور سی کولیجن کی پیداوار کی راہ ہموار کرتا ہے جو کہ صحت مند بالوں کوی وجہ بنتا ہے۔

معدے کے السر کے مریضوں کیلئے مفید:

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آم کے پتے پیٹ کے ٹانک سے کم نہیں ہیں جو معدے کے السر کے علاج میں نمایاں مدد کرسکتے ہیں۔ بہترین نتائج کے لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ باقاعدگی سے خالی پیٹ آم کے پتوں کی چائے پیئیں اور فرق دیکھیں۔

کینسر نہیں ہونے دیتے:

آم کے پتوں میں پائے جانے والے پولی فینولز اور ٹرپینوائڈز نامی اینٹی آکسیڈنٹس کینسر جیسی بیماری سے محفوظ رکھتے ہیں۔

آم کے پتوں کو کینسر کے مرض میں مبتلا افراد بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

آم کے پتوں کو کیسے کھانا چاہیے؟

پتوں کی چاٸے

آپ آم کی چائے بناکر استعمال کرسکتے ہیں جس کے لیے 10-12 پتیوں کو تقریباً 150 ملی لیٹر پانی میں ابال لیں،  اسے خالی پیٹ یا شام کو پی لیں۔

اس کے علاوہ آپ اس کے ٹی بیگز بناکر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ے پتوں کے 10 حیرت انگیز طبی فواید

واشنگٹن ۔۔۔ مرکزاطلاعات فلسطین، ایجنسیاں

+

-

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور پوری دنیا میں موسم گرما میں آموں کا چرچا ہوتا ہے۔ ہم آم تو خوب کھاتے ہیں اور اس کا جوس بھی بنا کر پیتے ہیں مگر ہم میں سے شاید ہی کبھی کسی نے اس کے پتوں کے فواید پر غور کیا ہو۔ سچ پوچھیں تو آم کے پھل کی طرح آم کے درخت کے پتے بھی غیرمعمولی طبی فواید کے حامل ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صحت سے متعلق معلومات شائع کرنے والی ویب سائیٹ ’بولڈ اسکائی‘ کی رپورٹ کے مطابق آم کے پتوں کے بے شمار فواید ہیں۔ پتوں میں کئی طبی خواص پائے جاتے ہیں جن کے استعمال سے بیماریوں کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ اینٹی آکسائیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی اقسام کے وٹامن، فلافونویڈ اور اینٹی مائیکربائیٹ کے مرکبات سے بھرپور ہوتے ہیں۔

؎ماہرین صحت نے آم کے پتوں کے 10 حیرت انگیز فواید بیان کیے ہیں۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔

بلند فشار خون کو کنٹرول کرنا

آم کے پتے بلند فشار خون کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان پتوں میں خون کی شریانوں کو تقویت دینے کے خواص پائے جاتے ہیں۔ ماہرین خوراک تجویز کرتے ہیں کہ بلند فشار خون کے مریض آم کے پتوں کو ابال کران کا عرق پیئیں جس کے نتیجے میں ان کا ہائی بلڈ پریشر کنٹرول میں رہے گا۔

ذبابیطس کا علاج

آم کےپتوں میں ’ٹانینز‘ اور انتھوسینن‘ جیسے دو خواص پائے جاتے ہیں جو شوگر اور ذیابیطس کی بیماری کا بھی مفید علاج ہیں۔ اس مرض کے لیے بھی آم کے پتوں کو پانی میں ابال کر پینا مناسب طریقہ بتایا جاتا ہے۔

سانس کی بیماری کا اعلان

بہت سے لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جنہیں سانس لینے میں دشواری کی شکایت ہو وہ آم کے پتوں کو پانی میں ابال کا ان کا پانی پینا شروع کریں اور اس کےبعد اس کے حیرت انگیز اثرات دیکھیں۔

کان میں درد سے آرام

آم کے پتے کان میں تکلیف سے آرام کا بھی ذریعہ بتائے جاتے ہیں۔ طریقہ استعمال یہ ہے کہ آم کے پتوں کو پانی میں ابالیں، پھر انہیں ٹھنڈا ہونے دیں۔ اس کے بعد اس پانی کے چند قطرے اس کان میں ڈالیں جس میں درد محسوس کیاجا رہا ہے۔

جلن کی دوا

جسم کے کسی حصے کے جل جانے کی صورت میں آم کے پتے علاج کا کام دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آم کے پتوں کو پیس کران کا پاؤڈر جسم کے جلے ہوئے حصے پرلگائیں اور جلد آرام پائیں۔

یورک ایسڈ کے مسائل کا علاج

روزانہ ایک کپ آم کے ابلے ہوئے پتے پینے سے خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح یوریک ایسڈ کے مسائل کا شکار افراد بھی اسے بہ طور علاج استعمال کرسکتے ہیں۔

ڈی پریشن کا علاج

اعصبابی تناؤ اور ڈی پریشن کے لیے بھی آم کے کے پتوں کا عرق مفید سمجھاجاتا ہے۔ آم کے پتوں کا پانی جسم کو راحت پہنچاتا ہے اور ذہن کو سکون بخشتا ہے۔

گردوں میں پتھری کا علاج

اگر کوئی شخص گردوں میں پتھری کا شکار ہے تو وہ آم کے چند پتے لے، انہیں خشک کرکے پیسے اور اس کے بعد پانی میں ڈال کر چند بار پی لے۔ اس طرح اس کی پتھری خود بہ خود نکل جائے گی۔

گلے کی سوزش

اکثر لوگوں کو گلے کی سوزش کا شکار دیکھا جاتا ہے۔ آپ اس تکلیف سے نجات کے لیے بھی آم کے پتے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ آم کے چند پتے آگ میں اس طرح جلائیں کہ ان کا دھوئیں آپ کی ناک میں جائے۔ اس طرح آپ گلے کی سوزش سے جلد نجات پا لیں گے۔

دانتوں کی حفاظت

دانتوں اور مسوڑوں کو صاف رکھنے اور منہ کی بدبو کے خاتمے کے لیے آم کے پتوں کواُبال کر اس کے پانی کی کلی کریں۔ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:14، 29 مارچ 2024ء (م ع و)

آم نامی درخت کے طبی فواٸد[ترمیم]

آم کے پتوں کے حیران کن فوائد اور کھانے کا طریقہ[ترمیم]

آموں کے پتوں میں وٹامن اے، سی اور بی سمیت اینٹی آکسیڈنٹس بھرپور پائے جاتے ہیں__فوٹو فائل

آم ناصرف اپنے لذیذ ذائقے کی وجہ سے پسندیدہ ہوتا ہے بلکہ اس میں غذائیت کے بھی کئی راز پوشیدہ ہیں۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس پھل کے پتے بھی کھانے کے قابل ہوتے ہیں اور کافی صحت بخش مانے جاتے ہیں؟  آج ہم آپ کو آم کے پتوں کے کئی صحت سے متعلق فوائد  اور ان کے استعمال کا طریقہ بتائیں گے۔

آموں کے پتوں میں وٹامن اے، سی اور بی سمیت اینٹی آکسیڈنٹس بھرپور پائے جاتے ہیں،  درحقیقت آم کے پتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کئی بیماریوں کا علاج ثابت ہوسکتے ہیں۔

بلڈ پریشر اور شوگر کے مریضوں کیلئے فائدہ مند:

آم کے پتوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ بلڈ پریشر کو متوازن رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ جن افراد کو شوگر کا مسئلہ ہو، وہ یہ کھائیں، ان کی شوگر بہتر ہوجائے گی۔

بالوں کے مسائل حل کرے:

ان لوگوں کے لیے جو اپنے بالوں کے بہتر علاج کے لیے قدرتی علاج چاہتے ہیں، آم کے پتے بہترین ہیں! ان کے پتوں میں آکسیڈنٹس 'فلیوونائڈز' ہوتے ہیں جو بالوں کو سفید نہیں ہونے دیتے۔

اس کے علاوہ آم کے پتے میں موجود وٹامن اے اور سی کولیجن کی پیداوار کی راہ ہموار کرتا ہے جو کہ صحت مند بالوں کوی وجہ بنتا ہے۔

معدے کے السر کے مریضوں کیلئے مفید:

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آم کے پتے پیٹ کے ٹانک سے کم نہیں ہیں جو معدے کے السر کے علاج میں نمایاں مدد کرسکتے ہیں۔ بہترین نتائج کے لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ باقاعدگی سے خالی پیٹ آم کے پتوں کی چائے پیئیں اور فرق دیکھیں۔

کینسر نہیں ہونے دیتے:

آم کے پتوں میں پائے جانے والے پولی فینولز اور ٹرپینوائڈز نامی اینٹی آکسیڈنٹس کینسر جیسی بیماری سے محفوظ رکھتے ہیں۔

آم کے پتوں کو کینسر کے مرض میں مبتلا افراد بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

آم کے پتوں کو کیسے کھانا چاہیے؟

پتوں کی چاٸے

آپ آم کی چائے بناکر استعمال کرسکتے ہیں جس کے لیے 10-12 پتیوں کو تقریباً 150 ملی لیٹر پانی میں ابال لیں،  اسے خالی پیٹ یا شام کو پی لیں۔

اس کے علاوہ آپ اس کے ٹی بیگز بناکر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ے پتوں کے 10 حیرت انگیز طبی فواید

واشنگٹن ۔۔۔ مرکزاطلاعات فلسطین، ایجنسیاں

+

-

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور پوری دنیا میں موسم گرما میں آموں کا چرچا ہوتا ہے۔ ہم آم تو خوب کھاتے ہیں اور اس کا جوس بھی بنا کر پیتے ہیں مگر ہم میں سے شاید ہی کبھی کسی نے اس کے پتوں کے فواید پر غور کیا ہو۔ سچ پوچھیں تو آم کے پھل کی طرح آم کے درخت کے پتے بھی غیرمعمولی طبی فواید کے حامل ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صحت سے متعلق معلومات شائع کرنے والی ویب سائیٹ ’بولڈ اسکائی‘ کی رپورٹ کے مطابق آم کے پتوں کے بے شمار فواید ہیں۔ پتوں میں کئی طبی خواص پائے جاتے ہیں جن کے استعمال سے بیماریوں کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ اینٹی آکسائیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی اقسام کے وٹامن، فلافونویڈ اور اینٹی مائیکربائیٹ کے مرکبات سے بھرپور ہوتے ہیں۔

؎ماہرین صحت نے آم کے پتوں کے 10 حیرت انگیز فواید بیان کیے ہیں۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔

بلند فشار خون کو کنٹرول کرنا

آم کے پتے بلند فشار خون کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان پتوں میں خون کی شریانوں کو تقویت دینے کے خواص پائے جاتے ہیں۔ ماہرین خوراک تجویز کرتے ہیں کہ بلند فشار خون کے مریض آم کے پتوں کو ابال کران کا عرق پیئیں جس کے نتیجے میں ان کا ہائی بلڈ پریشر کنٹرول میں رہے گا۔

ذبابیطس کا علاج

آم کےپتوں میں ’ٹانینز‘ اور انتھوسینن‘ جیسے دو خواص پائے جاتے ہیں جو شوگر اور ذیابیطس کی بیماری کا بھی مفید علاج ہیں۔ اس مرض کے لیے بھی آم کے پتوں کو پانی میں ابال کر پینا مناسب طریقہ بتایا جاتا ہے۔

سانس کی بیماری کا اعلان

بہت سے لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جنہیں سانس لینے میں دشواری کی شکایت ہو وہ آم کے پتوں کو پانی میں ابال کا ان کا پانی پینا شروع کریں اور اس کےبعد اس کے حیرت انگیز اثرات دیکھیں۔

کان میں درد سے آرام

آم کے پتے کان میں تکلیف سے آرام کا بھی ذریعہ بتائے جاتے ہیں۔ طریقہ استعمال یہ ہے کہ آم کے پتوں کو پانی میں ابالیں، پھر انہیں ٹھنڈا ہونے دیں۔ اس کے بعد اس پانی کے چند قطرے اس کان میں ڈالیں جس میں درد محسوس کیاجا رہا ہے۔

جلن کی دوا

جسم کے کسی حصے کے جل جانے کی صورت میں آم کے پتے علاج کا کام دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آم کے پتوں کو پیس کران کا پاؤڈر جسم کے جلے ہوئے حصے پرلگائیں اور جلد آرام پائیں۔

یورک ایسڈ کے مسائل کا علاج

روزانہ ایک کپ آم کے ابلے ہوئے پتے پینے سے خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح یوریک ایسڈ کے مسائل کا شکار افراد بھی اسے بہ طور علاج استعمال کرسکتے ہیں۔

ڈی پریشن کا علاج

اعصبابی تناؤ اور ڈی پریشن کے لیے بھی آم کے کے پتوں کا عرق مفید سمجھاجاتا ہے۔ آم کے پتوں کا پانی جسم کو راحت پہنچاتا ہے اور ذہن کو سکون بخشتا ہے۔

گردوں میں پتھری کا علاج

اگر کوئی شخص گردوں میں پتھری کا شکار ہے تو وہ آم کے چند پتے لے، انہیں خشک کرکے پیسے اور اس کے بعد پانی میں ڈال کر چند بار پی لے۔ اس طرح اس کی پتھری خود بہ خود نکل جائے گی۔

گلے کی سوزش

اکثر لوگوں کو گلے کی سوزش کا شکار دیکھا جاتا ہے۔ آپ اس تکلیف سے نجات کے لیے بھی آم کے پتے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ آم کے چند پتے آگ میں اس طرح جلائیں کہ ان کا دھوئیں آپ کی ناک میں جائے۔ اس طرح آپ گلے کی سوزش سے جلد نجات پا لیں گے۔

دانتوں کی حفاظت

دانتوں اور مسوڑوں کو صاف رکھنے اور منہ کی بدبو کے خاتمے کے لیے آم کے پتوں کواُبال کر اس کے پانی کی کلی کریں۔ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:25، 29 مارچ 2024ء (م ع و)

املتاس نامی درخت کے طبی فواٸد[ترمیم]

؎املتاس:

املتاس کے بے شمار طبی فوائد بھی ہیں۔ تپ دق یا ٹی بی کے مرض میں جدید تحقیقات میں بہت ہی مفید ثابت ہوا ہے۔بھوک اور وزن میں کمی‘لگاتار ہلکا بخار‘بہت جلد تھکاوٹ ہونا‘خصوصا رات کو پسینے میں شرابور ہوجانا ٹی بی کی علامات ہوسکتی ہیں جبکہ مسلسل کئی ہفتوں سے کھانسی جو عام علاج سے درست نہ ہواور کھانسی کے ساتھ خون کا اخراج نیز سینے میں دردوغیرہ جیسی علامات پھیپھڑوں کی ٹی بی کی نشاندہی کرتی ہیں۔طب یونانی میں بھی اس مرض کا موثر علاج موجود ہے اور اس سلسلے میں املتاس کے گودے سے عالمی سطح پر ہربل و جدیدادویات تیار کی جارہی ہیں ۔

املتاس کاسنسکرت نام ارگ وادھا ہےیعنی بیماریوں کو مارنے والااور اس کے اسم بامسمہ ہونے کی گواہی وہ طبی نسخاجات دیتے ہیں جو برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں صدیوں سےرائج ہیں اور بے شمار امراض میں ان گنت مریضوں کو شفایاب کر چکے ہیں۔ دنیا کے بہت سے جاگے ہوئے ممالک میں ان نسخاجات کی جدید علوم کی روشنی میں نہ صرف توسیق کی جارہی ہے بلکہ ان میں بہتری بھی لائی جا رہی ہے۔ہم بھی نجانے ایسی کتنی ہی ادویات استعمال کر رہے ہونگے جن میں وہ اجزا موجود ہونگے جو املتاس یا ہمارے دوسرے نباتاتی ورثےسے لئے گئے ہونگے۔۔ان پھلیوں کی وجہ سے ہی نیپال میں انہیں بندر لاٹھی بھی کہا جاتا ہے۔۔۔ان پھلیوں میں دیمک بھگانے کی طاقت ہوتی ہے اور جب یہ پھلی پک جاتی ہے تو بھورے رنگ کی ہوجاتی ہے۔۔۔ ان پھلیوں میں موجود گودہ مغز خیار شنبر کہلاتا ہے اور اس سے ادویات بنائی جاتی ہیں۔۔۔املتاس کے اندر بیش بہا فوائد چھپے ہیں۔۔۔اس پھل کا گودا پیٹ کی خرابی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔۔۔اسے کھانے سے جسم کی سوجن کم ہوتی ہے اور پیٹ بھی صاف ہوتا ہے۔۔۔ جن افراد میں ذائقہ کی حس ختم ہوجاتی ہے تو اس پھلی کا گودا وہ واپس لانے میں مدد دیتا ہے۔۔۔ نشہ آور دوائیں یا چیزیں لینے سے زبان کا ذائقہ ختم ہوجاتا ہے اور اس صورت میں اگر چوبیس گرام گودے کو ایک چوتھائی کپ گرم دودھ میں ملا کر ماؤتھ واش کی طرح استعمال کیا جائے تو بہت افاقہ ہوتا ہے۔۔۔املتاس کا گودا ناف پر باندھنے سے قبض کھلتا ہے اور گیس کی بیماری بھی ختم ہوتی ہے

‎ا ملتاس (پھول بھی سبزی بھی۔ ‎اس کے پھل کا گودا جلاب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ورم کو گھلاتا ہے اور کھانسی میں فائدہ دیتا ہے۔ منہ پکنے، حلق سوجنے اور گلے کی نالی کے زخم، خراش اور ورم کیلئے اس کا گودا دودھ میں جوش دے کر اس سے غرارہ کریں۔ بچوں کے اپھارے میں یہ گودا سونف کے عرق میں پیس کر بچے کی ناف کے ارد گرد لیپ کریں۔ فوری تسکین ہو جاتی ہے۔

املتاس کا گلقند ‎املتاس کے پھول قبض کشا ہیں اور کھانسی کیلئے مفید ہیں۔ پھول صاف کر کے ان سے دگنا وزن شکر ملائیں۔کسی مرتبان(شیشہ کا بند ڈھکنے والا برتن)میں ڈال کر 4 یا 5 دن دھوپ میں رکھیں۔ روزانہ 10 سے 40 گرام تک استعمال کرنے سے ہائی بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔ دائمی قبض کیلئے اس کے پھول گوشت میں پکا کر کچھ دن تک کھائیں۔ قبض دور اور آنتوں کا فعل ان شاء اللہ العزیز درست ہو جائے گا۔


ٹانسلز کا علاج: سیاہ پھلیوں کا گودا ہی ’’مغز املتاس‘‘ کہلاتا ہے۔ اس سے تیار کردہ دوا کو ’’لعوق خیارشنبر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے دو چمچے ایک پیالی گرم پانی میں ملا کر سوتے وقت اور صبح پیئں۔ یہ کھانسی اور قبض میں بھی مفید ہے۔ مغزاملتاس سے غرارے بھی کرائے جاتے ہیں۔ درخت لگائیں زندگی بچائیںاملتاس کی پھلیوں کے پختہ ہونے پر ان کے اندر سے جو ٹکیاں نکلتی ہیں،وہ اپنی سیاہ رطوبت کی وجہ سے مغزِ املتاس کے نام سے مشہور ہیں۔بہ وقت ضرورت پھلی میں سے گودا نکال کر استعمال کر لیا جاتا ہے،لیکن یہ گودا زیادہ عرصے تک رکھنے سے خراب ہو جاتا ہے۔ املتاس کی پھلی کے بیرونی چھلکے کو پوست املتاس کہتے ہیں۔اس کا مغز،یعنی گودا اور پھلی کا بیرونی چھلکا دونوں دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ املتاس کا گودا سیاہ اور بُو دار ہوتا ہے۔پھلی کے بیج سفید رنگ کے ہوتے ہیں اور ان میں کوئی بُو نہیں ہوتی۔اس کے پھول زرد رنگ کے اور بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔املتاس کا گودا ورم پر لگانے سے ورم ختم ہو جاتا ہے۔نیز ایام کے جاری کرنے اور ولادت میں بھی یہ گودا مدد کرتا ہے۔املتاس کا گودا قبض کشا ہوتا ہے اور پھول بھی یہی تاثیر رکھتے ہیں۔اس کے گودے میں پوٹاشیم،کیلشیم،فولاد اور مینگنیز کے علاوہ اور بہت سے کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ املتاس کا صرف گودا کھانے سے پیٹ میں مروڑ پیدا ہو سکتا ہے،اس لئے اطبا گودے میں بادام کا تیل یا بادام کا دودھ ملا کر پلاتے ہیں۔املتاس کے پھولوں سے گل قند بنایا جاتا ہے،جو دافع بخار ہوتا ہے۔گل قند ایک معجون ہے،جو شکر اور گلاب کی پتیوں کو ملا کر بناتے ہیں۔ املتاس کی پھلی ہر پنساری کے ہاں آسانی سے دستیاب ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کا قبض ختم کرنے میں یہ پھلی بہت کام آتی ہے۔پھلی کے اندر سیاہ رنگ کی جو ٹکیاں ہوتی ہیں،وہ ایک گلاس پانی میں بچے کی عمر کی مناسبت سے ایک یا ایک سے زیادہ ٹکیاں حل کرکے شکر سے میٹھا کرکے پلا دینا چاہیے،قبض بغیر تکلیف کے ختم ہو جائے گا۔اس کی بنائی ہوئی گھٹی نوزائیدہ بچوں کو اب تک پلائی جاتی ہے،تاکہ ان کے پیٹ کا نظام درست رہے۔ خناق کے لئے مغزِ املتاس،یعنی املتاس کی پھلی کا گودا نہایت مفید ہے۔خناق میں حلق کے اندر ورم ہو جاتا ہے،روٹی کا لُقمہ کھانا تو دور کی بات ہے،پانی کا گھونٹ بھی حلق سے اُترنا مشکل ہوتا ہے۔ایسی صورت میں مغزِ املتاس کے جوشاندے سے غرارے کرنے سے حیرت انگیز فائدہ ہوتا ہے اور یہ معمولی سی دوا وہ اثر دکھاتی ہے،جو قیمتی دواؤں سے ناممکن ہے۔گلے کی بیماری دور کرنے کے لئے بھی مغزِ املتاس نہایت مفید ہے۔املتاس کے پھول کھانسی میں فائدہ دیتے ہیں۔املتاس کی پھلیوں کو جلا کر اور راکھ میں تھوڑا سا نمک ملا کر رکھ لیں،تھوڑی سی مقدار دن میں تین چار بار شہد میں ملا کر یا بغیر شہد کے کھائیں تو کھانسی ختم ہو جائے گی۔ املتاس کے درخت کی لکڑی سے نہ صرف دیہاتوں میں بیل گاڑی،ہل،زرعی اوزاروں کے دستے اور کشتیاں بنائی جاتی ہیں،بلکہ یہ چمڑا بنانے کے کارخانوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔املتاس گھروں اور پبلک پارکوں میں اپنے خوبصورت زرد پھولوں کے لئے ہی نہیں لگایا جاتا ہے،بلکہ اس کے بہت سے طبی فوائد بھی ہیں۔اس کی لکڑی کا شمار اعلیٰ قسم کا فرنیچر بنانے والی لکڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ املتاس کا گودا ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لئے بھی بہت مفید ہے۔املتاس کے پھول 30 گرام سے 125 گرام تک لے کر گوشت میں پکا کر کچھ دنوں تک کھائیں تو قبض کی شکایت نہیں ہو گی اور آنتوں کا فعل بھی درست رہے گا۔ املتاس کے نرم پتے سبز مکوہ کے پانی میں ملا کر پیس کر جوڑوں کے درد اور سوجن والی جگہ پر لیپ کرنے سے چند روز میں درد اور سوجن سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔اس کے پتے درد والی جگہ پر لگانے سے درد میں کمی ہو جاتی ہے۔اگر بھوک اور وزن میں کمی ہو جائے،مسلسل ہلکا بخار رہنے لگے،بہت جلد تھکاوٹ کا احساس ہونے لگے اور رات کو پسینہ بہت نکلنے لگے تو یہ سب تپِ دق (ٹی بی) کی علامات ہو سکتی ہیں۔اسی طرح اگر مسلسل کئی ہفتوں تک کھانسی رہے اور عام علاج سے درست نہ ہو،کھانسی کے ساتھ خون کا اخراج ہو اور سینے میں درد ہو تو یہ علامتیں پھیپھڑوں کی تپِ دق کی نشان دہی کرتی ہیں۔طبِ مشرق میں اس مرض کا موٴثر علاج موجود ہے۔اس ضمن میں عالمی سطح پر املتاس کی پھلیوں کے گودے اور جڑی بوٹیوں سے جدید ادویہ تیار کی جا رہی ہیں۔ املتاس کو اپنی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کی بنیاد اور اس میں پائے جانے والے فائبر کی وجہ سے قبض کے خلاف مفید سمجھا جاتا ہے۔ پیٹ کی چربی کم کرنے کے لیے مفید اکثر لوگ موٹاپے اور بڑھے ہوئے پیٹ کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ پیٹ کی چربی سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس کی پکی ہوئی پھلی کا دو انچ کا ٹکڑا لے لیں۔ اس ٹکڑے سے گودا نکال کر اس ایک کپ پانی میں بھگو دیں اور اس میں ایک چمچ سونف بھی شامل کر دیں۔ رات بھر سونف اور املتاس کے گودے کو بھگونے کے بعد صبح چھان کر نہار منہ پانی لیں۔ کچھ دنوں تک اس نسخے پر عمل کرنے سے پیٹ کی چربی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ معدے کی تیزابیت کا خاتمہ کھانے کو ہضم کرنے کے لیے معدے میں تیزاب بننے کا عمل بہت ضروری ہے، اگر تیزاب نہ بنے تو کھانا ہضم نہیں نہیں ہوتا۔ تاہم زیادہ مقدار میں ایسڈ بننے کی وجہ سے معدے کی جھلی متاثر ہو جاتی ہے۔ اگر آپ معدے کی تیزابت کا شکار ہیں تو املتاس آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ املتاس معدے پر اپنا اثر ظاہر کرتے ہوئے اس کی گرمی اور تیزابیت کو کم کرتا ہے۔

ماہواری کی بے قاعدگی کو ختم کرنے میں مفید اکثر خواتین کو ماہواری میں بے قاعدگی کی شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ شکایات شدت اختیار کر جاتی ہیں اور دو سے چار مار ماہ خواتین کو ماہواری نہیں آتی۔ ایسی خواتین کے لیے املتاس کی پھلیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ماہواری کی بے قاعدگی سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس کی پھلی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو آدھے کپ پانی میں رات کو بھگو کر رکھ دیں۔ صبح پھلی کو چھان کر نہار منہ اس پانی کو پی لیں۔ کچھ دنوں تک یہ پانی استعمال کرنے سے ماہواری شروع ہو جائے گی۔

آرتھرائٹس کی علامات میں کمی آرتھرائٹس کی بیماری کی وجہ سے ہمیں گھٹنوں کی سوزش اور درد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس سوزش اور درد سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ چوں کہ املتاس میں سوزش کو کم کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اس لیے یہ آرتھرائٹس کی علامات میں کمی لاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور سوزش سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس ایک بہترین آپشن ہے۔

زخم جلدی بھرنے میں مددگار املتاس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ٹشوز کو دوبارہ بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ املتاس کو اگر چوٹ لگنے کی صورت میں استعمال کیا جائے تو آسانی کے ساتھ کم وقت میں زخم بھر سکتے ہیں۔

مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مدافعتی نظام کو مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ املتاس میں ایسے اجزاء، اینٹی فنگل، اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی جاتی ہیں جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہیں، جس کی وجہ سے بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔

بخار کی شدت میں کمی بخار کی شدت میں کمی لانے کے لیے بھی املتاس کو استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے آپ املتاس کا پانی استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق املتاس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بخار سے بچاؤ میں بھی مدد فراہم کر سکتی ہیں۔

اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور املتاس کے پتوں کا عرق بہت سے اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آپ کا جسم فری ریڈیکلز کے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے، اور آپ کی جلد پر بڑھاپے کے اثرات بھی ظاہر نہیں ہوتے۔ املتاس کے مزید فوائد کے متعلق معلومات کسی ماہرِ غذائیت سے حاصل کی جا سکتی ہیں، کسی بھی ماہرِ غذائیت کے ساتھ آسانی کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے آپ ہیلتھ وائر کا پلیٹ فارم استعمال کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہیلتھ وائر نے رابطوں کو بہت آسان بنا دیا ہےپاکستان میں املتاس کا درخت عام پایا جاتا ہے اس کے پھل پتے جڑیں اور تنے سب ہی بے پناہ افادیت کی حامل ہیں مثلاً فالج کے مریضوں کے لئے پتوں کا رس اور مالش مفید ہے اس کے علاوہ پتے سوجن درد اور حدت دور کرتے ہیں زکام میں املتاس کی جڑیں جلا کر اس کا دھواں سونگھنے سے فاسد مادے خارج ہو جاتے ہیں کھانسی سے نجات کے لئے املتاس کی پھلی سے سیاہ ٹکیاں نکال کر چوسنے سے افاقہ ہوتا ہے بچوں کو اگر اپھاڑے کی شکایت ہو جائے تو اس کا گودا پیس کر عرق بادیاں میں ملا کر ناف کے چاروں طرف اور پیٹ کے نچلے حصے پر لیپ کرنے سے آرام و سکون ملتا ہے ریاح کی تکلیف میں مبتلا بچوں کے لئے املتاس کا گودا ناف کے گرد باندھنے سے شفا ملتی ہے السی یا بادام کے تیل میں ملا کر پیٹ پر مالش کرنے سے پاخانہ جاری ہو جاتا ہے املتاس کا گودا زبان کی حس ذائقہ ختم ہونے پر بہت مفید ہے اس کیفیت کے لئے 24 گرام گودے کا ایک چوتھائی گرم دودھ میں ملا کر ماؤتھ واش کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔قہوہ ایک فوائد بیشمارمرد و عورت سب کے لیے یکساں مفید بے ضرر اور فاٸدہ مند ایک ایسا گھریلو قہوہ جو آپ بیٹھے بٹھاۓ باآسانی تیار کرکے بہت سے مرضوں سے اپنے آپکو بچاسکتے ہیں اور قطرہ قطرہ پیشاب آنا پیشاب کی نالی میں زخم ہونا گردہ اور مثانہ سے پیپ کا اخراج ہونا نزلہ ذکام بلغم الرجی چھپاکی سوزاک لیکوریا غرض ایسی اور بہت ساری بیماریوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیںھوالشافیملٹھی چھ گرامبرگ بانسہ چھ گرامگودا املتاس چھ گرامتمام ادویات کو ڈیڑھ پاؤ پانی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر پکائیں جب پانی ایک پاؤ رہ جا ئے تو پن چھان کر استعمال کریں.*فواٸد*یہ قہوہ جمے ہوئے اور خراشدار بلغم کوپتلا کرکے خارج کرتا ہے اس کے استعمال سے گلے کی خراش خراشدار نزلہ خراشدار کھانسی خراشدار دمہ جس میں جما ہوا زردی مائل بلغم خارج ہو رہا ہو کو بہت فائدہ دیتا ہے دمہ کے ایسے مریض جن کو کبھی نہ کبھی سوزاک ہوا ہو یہ قہوہ ان کے دمہ کو جڑ سے نکالدیتا ہےالرجی یا چھپاکی میں یہ قہوہ فوراً فائدہ کرتا ہے مگر یہ ان مریضوں کو دینا چاہیئے جن کا مزاج صفراوی ہو سوزاک کیلئے یہ قہوہ بہت بہتر کام کرتا ہےجب پیشاب قطرہ قطرہ آرہا ہو پیشاب کی نالی میں زخم ہوں گردہ اور مثانہ سے پیپ کا اخراج ہو رہا ہو تو اس قہوہ کو ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ خواتین جن کو حیض زیادہ مقدار میں آرہا ہے یہ قہوہ حیض کی زیادتی کو فو راًختم کر دیتا ہے ایسا لکوریا جو جلن ہیدا کرتا ہو زرد رنگ کا ہو یا سفید پانی کی طرح یہ قہوہ بہت فائدہ مند ہےسرعت انزال کے مریض اس قہوہ کو استعمال کریں اس سے ان کی پریشانی ختم ہو جائے گی۔جریان خون کیلئے یہ قہوہ بہت فائدہ مند ہے جریانِ خون خواہ کسی جگہ سے ہو یہ قہوہ انتہائی کامیاب دوا ہےگردے مثانے اور آنتوں کی سوزش کیلئے یہ قہوہ ضرور استعمال کریںورم زائد آور یعنی اپینڈ کس میں اس قہوہ کو استعمال کرنا چاہئے مریض کو درد سے سکون ہوگا اور مرض ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گایہ قہوہ دماغی امراض کے مریضوں کو بہت فائدہ کرتا ہے جو نسیان کے مریض ہوں اور انہیں نفسیاتی عوارض لاحق ہوگئے ہوں، یہ قہوہ دماغ کی خشکی دور کرکے سکون دیتا ہے لکھنے پڑھنے والے اشخاس کو یہ قہوہ ہمیشہ فائدہ پہنچاتا ہے تپ دق کے مریض اس قہوہ کو استعمال کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔املتاس کے فوائد املتاس کو اگر طبی ماہرین کی ہدایات کے مطابق متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے تو مندرجہ ذیل طبی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ذیابیطس کے مرض میں مفید ذیابیطس کا شمار ان امراض میں کیا جاتا ہے جس سے اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ متاثر ہے۔ اس مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے املتاس کا استعمال بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ املتاس بھی اروی کی طرح اس مرض کی علامات کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ذیابیطس کی علامات سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا کیوں کہ یہ ایک دائمی مرض ہے، اس کی علامات کو صرف کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

دل کی کارکردگی میں اضافہ املتاس ایک ایسی دوا ہے جس کے استعمال سے دل کی بیماریوں کے خطرات کم ہو جاتے ہیں، اور یہ دل کی کارکردگی کو بھی بہتر بناتی ہے۔ املتاس کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے، اور بلڈ شوگر کا لیول بھی متوازن رہتا ہے۔

قبض کی علامات میں مفید اچھی صحت کے لیے بڑی آنت کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب آپ کا ہاضمہ کا نظام ٹھیک طریقے سے کام کرتا ہے تو آپ کی صحت میں بہتری آنا شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ کا ہاضمہ کا نظام اچھے طریقے سے کام نہ کر رہا تو قبض کی علامات لاحق ہو سکتی ہیں۔ تاہم قبض سے نجات حاصل کرنے کے لیے املتاس مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ املتاس کو اپنی اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کی بنیاد اور اس میں پائے جانے والے فائبر کی وجہ سے قبض کے خلاف مفید سمجھا جاتا ہے۔

؎پیٹ کی چربی کم کرنے کے لیے مفید اکثر لوگ موٹاپے اور بڑھے ہوئے پیٹ کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ پیٹ کی چربی سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس کی پکی ہوئی پھلی کا دو انچ کا ٹکڑا لے لیں۔ اس ٹکڑے سے گودا نکال کر اس ایک کپ پانی میں بھگو دیں اور اس میں ایک چمچ سونف بھی شامل کر دیں۔ رات بھر سونف اور املتاس کے گودے کو بھگونے کے بعد صبح چھان کر نہار منہ پانی لیں۔ کچھ دنوں تک اس نسخے پر عمل کرنے سے پیٹ کی چربی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔

'معدے کی تیزابیت کا خاتمہ: کھانے کو ہضم کرنے کے لیے معدے میں تیزاب بننے کا عمل بہت ضروری ہے، اگر تیزاب نہ بنے تو کھانا ہضم نہیں نہیں ہوتا۔ تاہم زیادہ مقدار میں ایسڈ بننے کی وجہ سے معدے کی جھلی متاثر ہو جاتی ہے۔

اگر آپ معدے کی تیزابت کا شکار ہیں تو املتاس آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ املتاس معدے پر اپنا اثر ظاہر کرتے ہوئے اس کی گرمی اور تیزابیت کو کم کرتا ہے۔

ماہواری کی بے قاعدگی کو ختم کرنے میں مفید: اکثر خواتین کو ماہواری میں بے قاعدگی کی شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ شکایات شدت اختیار کر جاتی ہیں اور دو سے چار مار ماہ خواتین کو ماہواری نہیں آتی۔ ایسی خواتین کے لیے املتاس کی پھلیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ماہواری کی بے قاعدگی سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس کی پھلی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو آدھے کپ پانی میں رات کو بھگو کر رکھ دیں۔ صبح پھلی کو چھان کر نہار منہ اس پانی کو پی لیں۔ کچھ دنوں تک یہ پانی استعمال کرنے سے ماہواری شروع ہو جائے گی۔

آرتھرائٹس کی علامات میں کمی: آرتھرائٹس کی بیماری کی وجہ سے ہمیں گھٹنوں کی سوزش اور درد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس سوزش اور درد سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ چوں کہ املتاس میں سوزش کو کم کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں، اس لیے یہ آرتھرائٹس کی علامات میں کمی لاتا ہے۔ جوڑوں کے درد اور سوزش سے چھٹکارا پانے کے لیے املتاس ایک بہترین آپشن ہے۔

'زخم جلدی بھرنے میں مددگار: املتاس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ٹشوز کو دوبارہ بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ املتاس کو اگر چوٹ لگنے کی صورت میں استعمال کیا جائے تو آسانی کے ساتھ کم وقت میں زخم بھر سکتے ہیں۔

'مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ: بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مدافعتی نظام کو مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ املتاس میں ایسے اجزاء، اینٹی فنگل، اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی جاتی ہیں جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہیں، جس کی وجہ سے بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔

بخار کی شدت میں کمی: بخار کی شدت میں کمی لانے کے لیے بھی املتاس کو استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے آپ املتاس کا پانی استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق املتاس میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بخار سے بچاؤ میں بھی مدد فراہم کر سکتی ہیں۔

اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور املتاس کے پتوں کا عرق بہت سے اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آپ کا جسم فری ریڈیکلز کے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے، اور آپ کی جلد پر بڑھاپے کے اثرات بھی ظاہر نہیں ہوتے۔ ڈیوا جٹ بھٹی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:29، 29 مارچ 2024ء (م ع و)