تبادلۂ خیال صارف:Zarmeena.zar

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خوش آمدید!

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں: اور

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید

جناب Zarmeena.zar کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 205,315 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس () زریہ پر طق کریں۔


ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


--طاھر محمود (تبادلۂ خیال) 09:55, 1 جون 2013 (م ع و)

                          بنت حوا تو پر عزم ہے 

صدیوں سے پرعزم و باکمال ہے

کچھ ایسی اہم و خاص بنت حوا ہے

کرتی ہے رات دن ایک وہ سب کے لیے

عظمت و حوصلے کا حسین پیکر ہے

جنم دیتی ہے، سینچتی ہے اپنے لہوجگر سے

دو جہاں کے رتبہ عظیم سے اسے جب قدرت نوازتی ہے

اپنی اولاد میں بستی ہے ہر دم روح اس کی

ہنس کر وہ اپنی جان ان پر وار دیتی ہے

ہنرمند ہاتھوں سے کچھ ایسے اپنی

سنگ لاخ روایات کا سینہ چیر ڈالتی ہے

نہ جھکتی ہے ، نہ ڈرتی ہے، نہ دبتی ہے زمانے سے

زر جب اپنے حق کے لیے آواِزحق اٹھاتی ہے

                                         شاعرہ،  زرمینہ زر
                                                                 --~~زر~~

صفعہ زیستِ فیض[ترمیم]

                 فیض احمد فیض 

رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چھپکے سے بہار آجائے جیسے صحراوں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بھی وجہ قرار آجائے

فیض احمد فیض اردو ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے، مرزا غالب اور اقبال کے بعد ان کا نام لیا جاتا ہے بہت سے ناقدین کے نزدیک وہ ایک انقلابی شاعر تھے فیض احمد فیض نے 13 فروری1911 کے اس جہان فانی میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق سیالکوٹ کے ایک  معززاور تعلیم یافتہ  گھرانے سے تھا۔ان کی والدہ کا نام سلطان فاطمہ تھا۔ آپ کی ابتدائی  تعلیم تربیت مولوی محمد ابرائیم میرنے کی۔ایف اے تک کی تعلیم سیالکوٹ کے میری اسکول سے حاصل کی آپ کی تعلیم اس وقت کے بہترین اساتذہ نے کی میر مولوی شمس الحق بھی آپکے اساتذہ رہ چکے وہ علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ فیض کو اردو انگریزی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی میں بھی عبور حاصل تھا۔بی اے گورئمنٹ کالج لاہور سے کرنے کے بعد 1932 میں لاہور سے ہی انگریزی  ایم اے کیا۔ اس کے بعد اورینٹل کالج لاہور سے ہی عربی میں دوسرا ایم اے کیا۔ فیض کی تمام زندگی علم و ادب کی خدمت کرتے گزری۔ اپنی عملی زندگی کی ابتدا تو 1930 میں ایلس فیذ سے شادی کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ 1942 میں فوج میں بحثیت کیپٹن شمولیت اختیار کرنے کے بعد وہاں محکمہ تعلقات عامہ سے منسلک ہوگئے 1943 میں میجر اور پھر 1943 میں colonel  lieutenant کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنی گراں قدر خدمات پیش کرنے کے بعد 1947 کو ریٹائر ہوگئے۔ سے  1959 میں پاکستان  آرٹس کونسل میں سیکریٹری کی حثیت سے کام کرنے لگے، وہاں 1962 تک اپنی خدمات انجام دی۔ اس کے بعد لندن سے وآپس آگئے اور کراچی میں عبدالله ہارون کالج میں پرنسپل کی حثیت سے ملازمت اختیار کی۔ اس دوران فیض نے بہت سے ادبی رسائل و جرائد میں بحثیت مدیر کام کرتے رہے جن میں ادب لطیف اور لوٹس قابل ذکر ہیں۔فیض کا شمار انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال و متحرک ارکان میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور کمیونسٹ بھی تھے۔ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی مگر 9 مارچ 1951 میں راولپنڈی میں سازش کے کیس میں معونت کرنے کے جرم الزام میں حکومت وقت کے گرفتار کردیا۔وہ خود کیا خوب کہتے ہیں اپنی جدوجہد کے حوالے سے،

، ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرے رہیں گے

فیض کی زندگی کے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآبا داور کراچی کے جیل میں بسر ہوئے قید و بند کی زندگی میں بھی ایک شاعر کا ناتا شاعری سے ٹوٹ نہیں سکا۔
 متاع لوح و قلم چھین گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیںانگلیاں میں نے

دل نا امید تو نہیں، نا کام ہی تو ہے لمبی ہےغم کی شام مگر شام ہی تو ہے

آپ کو بالآخر 2 اپریل 1955 کو اس قید و بند سے رہائی نصیب ہوئی اور یہئ وہ وقت تھا جب زندہ نامہ کی اکثر نظمیں لکھی گئیں۔جیل سے آنے کے بعد بھی شعرو ادب کا سلسلہ جاری رہا۔

     زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس  میں
     ہر گھڑی درد کی  پیوند لگی جاتی ہیں

فیض کی شاعری کو ہر طبقہ عمر کے لوگوں میں مقبولیت حاصل ہوئی آج بھی ان کی شاعری زبان زد عام ہے۔ان کی نامور کتابوں میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادی سینہ، شام شہریاراں،میرے دل میرے مسافر، کلیات نسخہ ہائے وفا قابل ذکر ہیں۔

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

زندگی کو فنا ہے اور ہر انسان ایک نہ ایک دن اپنے حصے کی عمر گزار کر اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے یہی مشعیت ایزدی اور زیست کی تلخ حقیقت ہے۔ فیض احمد فیض اپنی خدمات ادا کرنے کے بعد 20 نومبر 1984 کو اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔

اٹھ کر تو آگئے ہیں تیری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے، کس دل سے آئے ہیں

                                                                                                                                                                      ~~زر~~

صفعہ زیستِ فیض[ترمیم]

                 فیض احمد فیض 

رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چھپکے سے بہار آجائے جیسے صحراوں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بھی وجہ قرار آجائے

فیض احمد فیض اردو ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے، مرزا غالب اور اقبال کے بعد ان کا نام لیا جاتا ہے بہت سے ناقدین کے نزدیک وہ ایک انقلابی شاعر تھے فیض احمد فیض نے 13 فروری1911 کے اس جہان فانی میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق سیالکوٹ کے ایک  معززاور تعلیم یافتہ  گھرانے سے تھا۔ان کی والدہ کا نام سلطان فاطمہ تھا۔ آپ کی ابتدائی  تعلیم تربیت مولوی محمد ابرائیم میرنے کی۔ایف اے تک کی تعلیم سیالکوٹ کے میری اسکول سے حاصل کی آپ کی تعلیم اس وقت کے بہترین اساتذہ نے کی میر مولوی شمس الحق بھی آپکے اساتذہ رہ چکے وہ علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ فیض کو اردو انگریزی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی میں بھی عبور حاصل تھا۔بی اے گورئمنٹ کالج لاہور سے کرنے کے بعد 1932 میں لاہور سے ہی انگریزی  ایم اے کیا۔ اس کے بعد اورینٹل کالج لاہور سے ہی عربی میں دوسرا ایم اے کیا۔ فیض کی تمام زندگی علم و ادب کی خدمت کرتے گزری۔ اپنی عملی زندگی کی ابتدا تو 1930 میں ایلس فیذ سے شادی کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ 1942 میں فوج میں بحثیت کیپٹن شمولیت اختیار کرنے کے بعد وہاں محکمہ تعلقات عامہ سے منسلک ہوگئے 1943 میں میجر اور پھر 1943 میں colonel  lieutenant کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنی گراں قدر خدمات پیش کرنے کے بعد 1947 کو ریٹائر ہوگئے۔ سے  1959 میں پاکستان  آرٹس کونسل میں سیکریٹری کی حثیت سے کام کرنے لگے، وہاں 1962 تک اپنی خدمات انجام دی۔ اس کے بعد لندن سے وآپس آگئے اور کراچی میں عبدالله ہارون کالج میں پرنسپل کی حثیت سے ملازمت اختیار کی۔ اس دوران فیض نے بہت سے ادبی رسائل و جرائد میں بحثیت مدیر کام کرتے رہے جن میں ادب لطیف اور لوٹس قابل ذکر ہیں۔فیض کا شمار انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال و متحرک ارکان میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور کمیونسٹ بھی تھے۔ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی مگر 9 مارچ 1951 میں راولپنڈی میں سازش کے کیس میں معونت کرنے کے جرم الزام میں حکومت وقت کے گرفتار کردیا۔وہ خود کیا خوب کہتے ہیں اپنی جدوجہد کے حوالے سے،

، ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرے رہیں گے

فیض کی زندگی کے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآبا داور کراچی کے جیل میں بسر ہوئے قید و بند کی زندگی میں بھی ایک شاعر کا ناتا شاعری سے ٹوٹ نہیں سکا۔
 متاع لوح و قلم چھین گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیںانگلیاں میں نے

دل نا امید تو نہیں، نا کام ہی تو ہے لمبی ہےغم کی شام مگر شام ہی تو ہے

آپ کو بالآخر 2 اپریل 1955 کو اس قید و بند سے رہائی نصیب ہوئی اور یہئ وہ وقت تھا جب زندہ نامہ کی اکثر نظمیں لکھی گئیں۔جیل سے آنے کے بعد بھی شعرو ادب کا سلسلہ جاری رہا۔

     زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس  میں
     ہر گھڑی درد کی  پیوند لگی جاتی ہیں

فیض کی شاعری کو ہر طبقہ عمر کے لوگوں میں مقبولیت حاصل ہوئی آج بھی ان کی شاعری زبان زد عام ہے۔ان کی نامور کتابوں میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادی سینہ، شام شہریاراں،میرے دل میرے مسافر، کلیات نسخہ ہائے وفا قابل ذکر ہیں۔

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

زندگی کو فنا ہے اور ہر انسان ایک نہ ایک دن اپنے حصے کی عمر گزار کر اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے یہی مشعیت ایزدی اور زیست کی تلخ حقیقت ہے۔ فیض احمد فیض اپنی خدمات ادا کرنے کے بعد 20 نومبر 1984 کو اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔

اٹھ کر تو آگئے ہیں تیری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے، کس دل سے آئے ہیں

                                                                                                                           ۰
                                                                                 زر













․زر