"باؤلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8.6
سطر 20: سطر 20:
{{زمرہ کومنز|Stepwells}}
{{زمرہ کومنز|Stepwells}}
* [http://jatinchhabra.com/category/step-wells/ بھارت کی باؤلیاں]
* [http://jatinchhabra.com/category/step-wells/ بھارت کی باؤلیاں]
* [http://www.agrasenkibaoli.com/ اگرسین کی باولی]
* [http://www.agrasenkibaoli.com/ اگرسین کی باولی] {{wayback|url=http://www.agrasenkibaoli.com/ |date=20160625132516 }}
* [http://www.thisiscolossal.com/2015/08/stepwell-architecture/ باؤلی فن تعمیر]
* [http://www.thisiscolossal.com/2015/08/stepwell-architecture/ باؤلی فن تعمیر]



نسخہ بمطابق 11:13، 15 مارچ 2022ء

باؤلی

باؤلی: (انگریزی :stepwell )اردو اور ہندی میں سیڑھی والے کنویں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

باؤلی تاریخی تناظر

عموما باؤلی راجپوت دور میں استعمال ہونا شروع ہوئی شیر شاہ سوری نے بھی کافی باؤلیاں بنوائیں ان میں ہاتھی اور گھوڑے بھی اتر سکتے تھے بعض باؤلیوں میں خفیہ راستے بھی بنائے جاتے تا کہ ہنگامی حالات میں استعمال ہو سکیں بعض اوقات انخلاء کے مقصد کے لیے بھی استعمال ہوتیں ان کے قریب زیر زمین کئی کلومیٹر خفیہ راستے بھی ملتے ہیں جہاں بھی راجپوت اور شیر شاہ سوری کے دور کے قلعے ہیں وہاں یہ باؤلیاں

ضرور ملتی ہیں۔

باؤلی کی دو قسمیں

باؤلی کی دو قسمیں ہیں شمالی باؤلی اور مغربی باؤلی

شمالی باؤلی

شمال کی باؤلی عموما سادہ جس میں ایک چوڑا زینہ ہوتا ہے جو عمارت کی پوری چوڑائی میں سطح زمین سے پانی کی سطح تک جاتا ہے اس طرح کی باؤلی شیخ سلیم چشتی کے مزار پر فتح پور سیکری میں ہے دہلی میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے مقبرے پر ہے ان کا مقصد پانی نکالنا اور وضو اورغسل کرنے میں کارآمد بنانا ہے اس میں زائرین روپے اور سکے ڈالتے ہیں یہ انداز مسلمانوں نے یہاں اپنایا اس سے پہلے کا ذکر نہیں ملتا۔

مغربی باؤلی

مغربی باؤلی اعلیٰ فنی اور تعمیری کمال کا نمونہ ہوتی ہے اور بڑی کارآمد ہوتی ہے جس کے لیے کافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے یہ عموما دو حصوں پر مشتمل ہء ایک عمودی مدور یا مثمن ستون اور دوسرادالانوں کا ایک سلسلہ جنہیں سیڑھیوں کے ذریعہ ملا دیا جاتا ہے یہ عمارتیں گجرات کے اسلامی عہد میں بنی ہیں [1]

موجودہ دور میں

دہلی میں متعدد، لکھنؤ میں ایک، آلہ آباد باندہ روٹ پر کالنجراور چترکوٹ دوجگہ، سہسرام، حیدرآباد، بھوپال وغیرہ کی تاریخی عمارتوں میں باولیاں موجود ہیں ۔

ابھی پاکستان میں کچھ باولیاں باقی ہیں مثلاً لوسر باؤلی ( واہ کینٹ ) ، ہٹیاں ( چھچھ ) ضلع اٹک اور قلعہ روہتاس (جہلم) میں. یہ ایک بڑا سا کنواں ہوتا ہے جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنج سکتے ہیں. اس میں ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی بہت ٹھنڈے رہتے ہیں. امراء وہاں اپنے دفتر اور آرام کرتے تھے اور یوں تپتی دوپہریں ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے. عمومی طور پر تاریخی عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنویں " باولیاں " ( stepwell ) ضروری ہوتی تھیں۔ شروع شروع میں تو یہ تعمیری کاموں میں استعمال ہوتی تھیں بعد میں تفریح اور آرام گاہ کے بطور مستقل موجود رہتی تھیں۔

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. دائرہ معارف اسلامیہ جلد3 صفحہ1016 جامعہ پنجاب لاہور