مندرجات کا رخ کریں

شیخ ابو جعفر العریبی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ ابو جعفر العریبی شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کے مشائخ میں سے ہیں۔ ابن العربی اپنی کتاب روح القدس میں شیخ ابو جعفر العریبی کے بارے میں لکھتے ہیں: طریق اللہ میں میری سب سے پہلی ملاقات ابو جعفر العریبی  سے ہوئی۔ آپ اُس وقت ہمارے ہاں اشبیلیہ منتقل ہوئے جب مجھے پہلی مرتبہ اس بلند راستے (یعنی طریقت) کے بارے میں پتا چلا، میں فوراً آپ کی طرف متوجہ ہوا اور جب آپ کے حضور حاضر ہوا تو میں نے آپ کو ذکر پر فریفتہ شخص پایا، میں نے آپ کو اپنا نام بتایا تو آپ اس سے میرے دل کی بات جان گئے مجھے کہتے ہیں: “کیا تو نے راہ خدا پر چلنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے؟” میں نے عرض کی: بندہ تو صرف ارادہ ہی کر سکتا ہے، ثبات دینے والا تو خداہی ہے۔ (یہ سن کر) آپ نے مجھے کہا: “(دنیا سے ) منہ موڑ لے، اسباب سے ناتا توڑ لے، الوھاب کے ساتھ لو لگا، وہ بنا حجاب تجھ سے خطاب کرے گا۔” میں نے اسی (نصیحت ) پر عمل کیا یہاں تک کہ مجھ پر (معاملہ ) کھل گیا۔ آپؒ اَن پڑھ اور دیہاتی تھے، نہ لکھ سکتے اور نہ حساب کتاب جانتے تھے لیکن جب علم توحید میں کچھ بیان فرماتے تو تیرے لیے یہی کافی ہوتا کہ تو سنتا رہے۔ آپ اپنی توجہ سے خواطر کو باندھتے اور اپنے الفاظ سے وجود کو چیرتے۔ ہمیشہ باوضو قبلہ رُخ ذکر کرتے رہتے اور اکثر اوقات روزے سے ہوتے۔

راہ طریقت میں آنے کا واقعہ

[ترمیم]

ایک روز میں نے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے معاملے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ فرمانے لگے: میرے گھر کا سالانہ راشن آٹھ بوری انجیر ہوتا تھا – ایک بوری سو (100) رطل کے برابر ہوتی ہے– پس جب میں خلوت میں اللہ کے حضور بیٹھ گیا تو میر ی بیوی نے مجھے گالیاں دینا اور شور و غوغا کرنا شروع کر دیا، مجھے کہتی: اُٹھ اور مزدوری کر، تا کہ اپنے بچوں کے لیے اِس سال کچھ جمع ہو جائے۔ اُس (کی اِن باتوں) سے میر ی توجہ اور خیال میں خلل پڑتا تھا لہذا میں نے دعا کی: یا رب! یہ (عورت ) میرے او ر تیرے درمیان آ گئی ہے، ہمیشہ میرے پیچھے پڑی رہتی ہے، اگر تو مجھے اپنے حضور بٹھانا چاہتا ہے تو اِس مصیبت سے میر ی جان چُھڑوا اور اگر تجھے میرا یہ بیٹھنا گوارا نہیں تو مجھے بتا دے، فرماتے ہیں: حق تعالیٰ نے مجھے غیب سے آواز دی: “اے احمد! ہمارے حضور بیٹھا رہ، آج دن ڈوبنے سے پہلے پہلے میں تجھے بیس (20) بوری انجیر دوں گا – جو تیرے اڑھائی سال کا راشن ہے – اور میں اور زیادہ دیتا چلا جاؤں گا۔ ہمارے حضور بیٹھا رہ اور کہیں مت جا۔” ابھی ایک گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور ایک شخص انجیر کی ایک بوری ہدیتاً لے آیا، مجھے حق تعالی نے کہا:“یہ بیس میں سے پہلی ہے۔” ابھی اس روز کا سورج بھی نہ ڈوبنے پایا تھا کہ میرے پاس بیس بوریاں جمع ہو گئیں (یہ دیکھ کر) میری بیوی اور بچے بہت خوش ہوئے، میری بیوی نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھ سے راضی ہو گئی۔

فرنگیوں کی قید کا واقعہ

[ترمیم]

فرنگیوں نے آپ کو قید کر لیا اور آپ یہ پہلے ہی بتا چکے تھے، (ایک دن پہلے ہی) آپ نے قافلے والوں سے کہا تھا کہ کل ہم سب قیدی بنا لیے جائیں گے۔ چنانچہ علی الصبح ہی دشمن آن پڑے اور سب کو پکڑ لیا۔ وہاں آپ کی بہترین خاطر داری کی گئی، آپ کے لیے ایک بہترین گھر صاف کروایا اور آپ کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی گئی۔ پھر آپ نے اِس فرنگی سے اپنی رہائی پانچ سو (500) دینار تاوان پر طے کر لی اور جب آپ ہمارے پاس آئے تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ ہم ایک دو لوگوں سے یہ رقم جمع کر لیتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’نہیں، میں چاہتا ہوں کہ اس کارِ خیر میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں، اگر میرے بس میں ہوتا کہ میں ہر انسان سے ذرہ ذرہ لے سکوں تو میں ایسا ضرور کرتا کیونکہ اللہ تعالی نے مجھے بتایا ہے کہ جو کوئی اس میں اپنا حصہ ڈالے گا وہ دوزخ سے آزادی حاصل کر لے گا، لہذا آپ نے اُمتِ محمد  کے لیے بغیر محنت کے بھلائی چاہی۔

بارش کے لیے دعا کی درخواست کا واقعہ

[ترمیم]

آپ کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب آپ ہمارے پاس اشبیلیہ میں تھے تو آپ سے کہا گیا: “قصرِ کُتامہ” کے لوگ بارش کو ترس رہے ہیں، آپ اِن کے ہاں جائیں اور مجھ (یعنی اللہ رب العزت) سے بارش کی دعا مانگیں تا کہ میں (یعنی اللہ تعالی) ان پر بارش نازل کروں۔ آپ نے یہ (ہمیں) بتایا اور اپنے ساتھی محمد کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے – ہمارے اور “قصر ِکُتامہ” کے درمیان سمندر اور آٹھ روز کا فاصلہ تھا – آپ سے کہا گیا کہ اِن کے لیے یہیں سے دعا کر دیں، مگر آپ بولے: مجھے ان کی طرف جانے کا حکم ملا ہے، لہٰذا آپ چل پڑے۔ جب آپ “قصر کتامہ” پہنچے اور (شہر میں) داخل ہونا چاہا تو آپ کو اندر جانے سے روک دیا گیا، آپ نے وہیں سے اُن کے لیے بارش کی دعا کی – جبکہ وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے – پس اللہ نے اُسی وقت اُن پر بارش نازل کی۔ آپ شہر میں داخل نہ ہوئے اور اُسی جگہ سے واپس ہماری طرف لوٹ آئے۔[1]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. روح القدس از ابن العربی، شائع شدہ ابن العربی فاؤنڈیشن ۔