شیخ یوسف الکومی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ یوسف الکومی شیخ اکبر ابن عربی کے مشائخ میں سے ہیں۔ ابن عربی اپنے شیخ یوسف الکومی کے بارے میں اپنی کتاب روح القدس میں لکھتے ہیں: آپ نے شیخ ابو مدین کی صحبت اختیار کی اور اِن علاقوں کی بہت سی بزرگ ہستیوں سے ملاقاتیں کیں۔ ایک مدت دیارِ مصر میں مقیم رہے اور شہر اسکندریہ میں شادی کی۔ آپ کو شہر فاس کی حکومت دی گئی مگر آپ نے انکار کر دیا۔ طریقت میں راسخ القدم تھے۔ شیخ ابومدین  جو بلادِ مغرب میں اِس طریقت کی زبان اور اس کا احیا کرنے والے ہیں، وہ شیخ یوسف کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: “ابو یعقوب کشتی کے مضبوط لنگر جیسے ہیں۔” آپ کرم والے تھے، کثرت سے ورد وظائف کرتے، اپنا صدقہ چھپاتے، فقیرکی تعظیم کرتے اور امیر کو عاجز بناتے، محتاج کی حاجت روائی میں جلدی کرتے۔

شیخ اکبر اور شیخ یوسف الکومی کا تعلق[ترمیم]

ہماری پہلی ملاقات میں آپ نے مجھ پر مکمل توجہ مرکوز کر کے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ نمازی کے آگے سے گزرنے پر ایساکیاگناہ ہے کہ اُسے چالیس سال تک ٹھہرنے کاحکم ہے؟ میں نے آپ کو ٹھیک ٹھیک جواب دے دیا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ میں جب آپ کے پاس یا اپنے دیگر شیوخ کے پاس بیٹھتا تو تیز آندھی میں رکھے ورقے کی طرح پھڑ پھڑاتا، میری آواز گم ہو جاتی، میرے اعضا شل ہو جاتے حتیٰ کہ یہ سب میری حالت سے ظاہر ہونے لگتا، پھر آپ مجھے مانوس کرتے اور مجھ سے بے تکلف ہوتے لیکن یہ عمل بھی اس خوف اور اِجلال میں اضافہ کرتا جاتا۔ آپ  مجھ سے (بے انتہا) محبت کرتے تھے لیکن کبھی مجھ پر ظاہر نہ ہونے دیتے، (ظاہراً) دوسروں کو اپنے قریب کرتے اورمجھے دور کرتے، دوسروں کی بات کی تائید کرتے، محافل اور مجالس میں مجھے ڈانٹتے اور کوستے یہاں تک کہ میرے ساتھی مجھے “کم ہمت” ہونے کا طعنہ دیتے، میرے یہ ساتھی بھی میری طرح آپ کے زیرِ سایہ آپ کے خدمت گزار تھے۔ اِس جماعت میں مجھ سے کوئی سبقت نہ لے سکا، شکر ہے اللہ کا! اور شیخ بھی اس بات کو مانتے تھے۔

شیخ اکبر کا شیخ یوسف الکومی سے رسالہ قشریہ پڑھنا[ترمیم]

مجھے اُس وقت تک رسالہ قشیریہ وغیرہ کا کچھ پتا نہ تھا اور نہ میں یہ جانتا تھا کہ اِس راستے (یعنی طریقت) میں کسی شخص کی کوئی تصانیف بھی ہیں حتیٰ کہ مجھے لفظ تصوف کا مطلب بھی نہیں پتا تھا۔ ایک دن آپ گھوڑے پر سوار ہوئے، مجھے اور میرے ایک ساتھی کویہ حکم دیا کہ (آج ) ہم “المنتبار” – جو اشبیلیہ سے ایک فرسخ (4 کلومیٹر) کے فاصلے پر ایک پہاڑ پر – جائیں گے۔ چنانچہ میں اور میرا ساتھی شہر کا دروازہ کھلتے ہی چل پڑے، میرے ساتھی کے ہاتھ میں رسالہ قشیریہ تھا جبکہ میں یہ تک نہ جانتا تھا کہ قشیری کون ہے اور اِس کا رسالہ کیا چیز ہے۔ جب ہم پہاڑ پر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ آپ پہلے ہی پہنچ چکے ہیں، آپ کا غلام آپ کے گھوڑے کو تھامے ہوئے تھا۔ پھر ہم اِس پہاڑ کی چوٹی پر موجود مسجد میں چلے گئے، ہم نے نماز پڑھی اور آپ قبلے کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئے، آپ نے مجھے رسالہ (قشیریہ ) دیااور بولے: پڑھو۔ میں ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے نہیں جوڑ پا رہا تھا اور ہیبت سے کتاب میرے ہاتھوں سے گر پڑتی تھی۔ پھر آپ نے میرے ساتھی سے کہا: اِسے پڑھاؤ۔ میرے ساتھی نے کتاب اٹھا لی اور اسے پڑھنا شروع کیا جبکہ شیخ اِس پر کلام فرماتے جاتے۔ کچھ دیر بعد ہم نے عصر کی نماز پڑھی، پھر شیخ نے فرمایا: اب ہم واپس شہر کی طرف چلتے ہیں، آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور میں نے اپنا ہاتھ اس کی رکاب میں ڈال دیا، ساتھ ساتھ آپ مجھے شیخ ابو مدین کے فضائل اور کرامات بتاتے جا رہے تھے۔ میں آپ کی باتوں میں ایسا کھویا کہ مجھے ہوش نہ رہا، میں بار بار اپنا چہرہ اٹھا کر آپ کی طرف دیکھتا تو آپ مجھے دیکھ رہے ہوتے، مسکراتے اور پھر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاتے اور تیز کرتے، میں بھی آپ کے ساتھ اور تیز دوڑنے لگتا۔ پھر آپ رک گئے اور مجھ سے کہا: دیکھ، تُو اپنے پیچھے کیا چھوڑ آیا ہے۔ جب میں نے پیچھے (مڑ کر) دیکھا تو جس راستے پر میں چل کر آیا تھا وہ جھاڑیوں اور کانٹوں سے بھرا ہوا تھا، کچھ جھاڑیاں کمر بند تک بلند تھیں اور کچھ زمین پر پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر فرمایا: اَب اپنے قدموں کی طرف دیکھ، جب میں نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو اِن پر کانٹوں کا نام و نشان تک نہ تھا، پھر بولے: اب اپنے کپڑوں کی طرف دیکھ، اُ ن پر بھی (کانٹوں کے ) کوئی آثار نہ تھے۔ پھر گویا ہوئے: یہ سب ابومدین  کے ذکر کی برکت سے ہے۔ اے بیٹے! اِس راستے پر پکا ہو جا تو کامیاب ہو جائے گا، (یہ کہہ کر) آپ نے اپنے گھوڑے کوایڑ لگائی اور مجھے وہیں چھوڑ گئے۔

در مدح شیخ یوسف الکومی[ترمیم]

شیخ اکبر نے شیخ یوسف الکومی کی مدح میں یہ اشعار کہے: (ترجمہ) اگر پوچھا جائے کہ وجود میں افضل کون؟ تو وہ سرکار یوسف ابن یخلف ہی ہیں۔ شرف والوں کے ہیں آقا اور معانی کے جوہر، لطیف الطبع، نرم دل وہ شخص ہے یا کوئی گوہر، وجود میں سب سے بڑھ کر کرم نواز اور ان سب سے زیادہ رحم دل اور مہربان۔ رزم گاہ میں سب سے بہادر و شجاع، جس کی ہیبت سے کانپے سب جہاں، سب سے بڑھ کر ہمت اور حال میں، مشاہدۂ کشف ِعُلا کے جال میں۔ علوم میں ہے کس کا دامن یوں وسیع، ہے تیری ظاہر اور باطن پر نگاہ۔ خوبی و نسبت میں حاصل یہ کمال، تجھ سے بڑھ کر کون ہے بلند حال۔ بلندیوں میں تیرا ربتہ سب سے بڑھ کر، ہے وہاں پر انتہا کی بھی انتہا۔ غیوب میں سب سے لطیف معناً ہے تو، سب سے بڑھ کر شرح حکمت تیرا طور۔ اُس چاند کو اپنی بلندی پر ہے داغ، میرا مولی بدر کامل اِس سے پاک۔ یہ ایک لمبی نظم ہے جسے میں نے اس طریقت کے بارے میں اپنی نثر اور نظم پر مشتمل کتاب «إنزال الغیوب علی مراتب القلوب» میں ذکر کیا ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. روح القدس از ابن العربی، شائع شدہ ابن العربی فاؤنڈیشن ۔