ظفر احمد قاسم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ظفر احمد قاسم
معلومات شخصیت
پیدائشی نام ظفر احمد
پیدائش 1946ء
بمقام بستی ککھڑ کبیر والا، ضلع ملتان، برطانوی ہند (موجودہ ضلع خانیوال، پنجاب، پاکستان)
وفات 9 ستمبر 2022ء
بمقام نشتر ہسپتال ملتان
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم
مذہب اسلام
رشتے دار خلیل الرحمٰن ظفر،عزیز الرحمن ظفر ،عبیدالرحمن ظفر (بیٹے)
عملی زندگی
مادر علمی دارلعلوم کبیروالا ضلع خانیوال
پیشہ محدث،مدرس ،مبلغ ،شیخ طریقت،ماہرعلوم عقلیہ ونقلیہ
کارہائے نمایاں مدرسہ خالد بن ولید کی بنیاد
باب ادب

ظفر احمد قاسم پاکستانی سنی عالم دین،مدرس،مبلغ،محدث اور شیخ طریقت تھے۔ آپ جامعہ خالدبن ولید ٹھینگی ضلع وہاڑی کے بانی اور شیخ الحدیث تھے۔

پیدائش[ترمیم]

ظفر احمد قاسم کی ولادت 1365ہجری بمطابق 1945ء کے اواخر میں بمقام موضع کرم پور بستی ککڑ ہٹہ تحصیل کبیر والا ضلع ملتان (موجودہ ضلع خانیوال)کی مضافاتی بستی کرم پور جوتہ میں ایک عالم دین عبد الحق قوم سیال کے ہاں ہوئی۔[1]

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔آپ ہر امتحان میں نمایاں پوزیشن سے پاس ہوتے تھے۔

حفظ قرآن[ترمیم]

احمد علی لاہوری کے فرمان پر قرآن حافظ محمد امیر کے پاس یاد کرنا شروع کیا اور نو ماہ گیارہ دنوں میں مکمل قرآن حفظ کر لیا۔

داغ یتیمی[ترمیم]

زمانہ طالب علمی میں والد اور ایک سال بعد والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔نہایت ناگفتہ بہ حالات میں پوری ہمت،جدوجہد اور استقامت کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو ساڑھے پانچ برس کے مختصر عرصہ میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

سن فراغت[ترمیم]

آپ کی فراغت مشہور دینی درس گاہ جامعہ دار العلوم کبیر والا سے 1966ء میں ہوئی۔

اساتذہ[ترمیم]

آپ کے اساتذہ میں وقت کے کبار علما و مشائخ شامل ہیں،جن میں دار العلوم کبیر والا کے بانی،دار العلوم دیوبند کے فاضل و سابق استاذ عبد الخالق،محمود حسن(المعروف شیخ الہند) کے شاگرد رشید ابراہیم جگرانوی، عبد المجید لدھیانوی(امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،شیخ الحدیث جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا)،صوفی محمد سرور،منظور الحق(ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ)،فاضل دیوبند ظہور الحق،عبداللہ درخواستی،عبداللہ بہلوی،دوست محمد قریشی،محمد حیات کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔یہ حضرات اپنے دور کے علمی و روحانی نسبتوں کے امین اور یگانہ روزگار شخصیات کے حامل افراد تھے۔

عقد نکاح[ترمیم]

آپ کا عقد بھی 1966ء میں ہوا۔آپ کی اہلیہ منہایت نیک پارسا اور بڑے دل والی خاتون ثابت ہوئیں۔ ہر نیک کام میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔

نسبی اولاد[ترمیم]

آپ کے تین صاحب زادے اور دو صاحب زادیاں ہیں۔

  • خلیل الرحمٰن ظفر
  • عزیز الرحمن ظفر
  • عبیدالرحمن ظفر

ایک صاحب زادی کا نکاح حکیم عبد القادر سے ہوا جب کہ دوسری صاحب زادی "تلخیص البیان فی فھم القرآن" کے مؤلف زاہد انور کے عقد میں ہے۔

تدریس[ترمیم]

تدریس کا پہلا مدرسہ[ترمیم]

عبد المجید لدھیانوی نے آپ کی تشکیل نیاز احمد شاہ گیلانی کے مدرسہ تلمبہ میں کی۔جس کو آپ نے بصد ادب و احترام قبول کیا۔یہاں آپ نے 1967ء تا1976ء نو سال تک تمام علوم نقلیہ و عقلیہ کی تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ آپ روزانہ اٹھارہ اٹھارہ سبق پڑھاتے تھے۔ایک دفعہ محمد طیب قاسمی تشریف لائے اور آپ سے استفسار کیا کہ کتنے سبق پڑھاتے ہیں؟ آپ نے اٹھارہ سبق شمار کرکے بتائے۔وہ کچھ دیر بعد ظرافت بھرے لب و لہجہ میں گویا ہوئے: مولانا ظفر احمد قاسم صاحب!"آپ اس انتظار میں ہوں گے کہ آپ کی تعریف کروں؟ مشینری ہے،جلدی گھس جائے گی"

آخری عمر میں آپ ان کی اس بات کو بہت یاد کرتے تھے۔طارق جمیل نے یہیں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے اور صرف و نحو کی مکمل آپ سے کتب پڑھیں۔

دار العلوم کبیر والا میں تدریسی خدمات[ترمیم]

دار العلوم کبیروالا کے اساتذہ آپ کو دار العلوم لے آئے اور آپ نے یہاں اپنے استاد منظور الحق کی جگہ پہ صرف و نحو پڑھائی۔یہاں آپ نے 1976ء تا 1982ء چھ سال بسر کیے۔

جامعہ عثمانیہ شور کورٹ[ترمیم]

پھر بشیر احمد خاکی کے قائم کردہ معروف ادارے جامعہ عثمانیہ شور کورٹ تشریف لائے۔ادھر چار سال تدریسی خدمات بھی سر انجام دیں اور جامعہ کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔[2]

جامعہ خالد بن ولید وہاڑی کا قیام[ترمیم]

ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ دینی علوم و عصری فنون کے امتزاج کے تحت ایک مثالی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔جس میں ایسے علما و فضلاء تیار کیے جائیں،جو وقت کے چیلنچز کا ادراک بھی رکھتے ہوں اور جدید طرز اور مؤثر اسلوب میں عوام الناس کی دینی،علمی،سماجی اور سیاسی راہ نمائی بھی کرسکیں۔اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے 1986ء کے دوران ٹھینگی کالونی وہاڑی میں آٹھ ایکڑ اراضی حاصل کرکے ایک منفرد ذوق و فکر کے نظریاتی ادارے کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔اس موقع پر انھوں نے ایک پر وقار اور تاریخ ساز تقریب کا بھی اہتمام کیا۔جس میں پاک و ہند اور سرزمین حرم کے علما و مشائخ عظام کو جمع کیا۔امام تراویح مسجد حرام شیخ علی عبد اللہ الجابر نے خصوصی طور پہ شرکت کی۔ پھر آپ نے خود کو اس ادارے کے ہمہ قسم کے انتظام و انصرام کے لیے خود کو وقف کر ڈالا۔بہت تھوڑے وقت میں بفضل خدا اسے بام عروج تک پہنچایا۔

تحریکی خدمات[ترمیم]

آپ نے ہر دور میں دینی اسلامی تحریکوں اور تنظیموں میں خوب حصہ لیا۔سنہ 1974ء میں تحریک ختم نبوت چلی تو آپ اس میں دیوانہ وار شریک ہوئے۔جس کی وجہ سے آپ گرفتار بھی ہوئے۔جیل میں مسلم لیگ ن کے راہنما خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق بھی آپ کے ساتھ تھے۔ 1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ میں آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔آپ ان دنوں ضلع کبیر والا کے امیر تھے۔اس سلسلہ میں آپ بڑے سخت جان ثابت ہوئے اور صدائے حق اٹھانے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ کی پہلی بیعت احمد علی لاہوری سے ہے۔ان کے انتقال کے بعدعبیداللہ انور پھر سید نفیس الحسینی سے دست راست پر ہوئی۔پھرعبد المجید لدھیانوی اور پھر ناصرالدین خاکوانی صاحب سے بیعت کا تعلق قائم کیا۔ نفیس الحسینی،عبد المجید لدھیانوی،ناصرالدین خاکوانی اور محمد تقی عثمانی نے آپ کو اجازت و خلافت بھی عطا کی[3]۔محمد تقی عثمانی نے آپ کو اجازت نامہ عربی زبان میں تحریر کرتے ہوئے آپ کے لیے" فضیلة الشیخ مولانا الموھوب (جنہیں اللہ نے وہبی علم سے نوازا ہے) کے الفاظ زیب قرطاس فرمائے۔

شوق عبادت[ترمیم]

آپ عبادت کے اس قدر دل دادہ تھے کہ شدید علالت کے دنوں میں بھی روزے بھی رکھتے اور پانچ پانچ پارہ یومیہ قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے۔آپ نے تین دفعہ جامعہ میں نماز فجر کی امامت میں قرآن پاک پڑھا ہے اور قاری رفیق (جہانیاں) نے اوابین کے نوافل میں آپ سے دو بار قرآن پاک سنا ہے۔ کبھی کبھار آپ حیات مستعار کے آخری ایام میں دو دو گھنٹے بخاری شریف کا درس بھی دیتے۔

حج و عمرہ[ترمیم]

درجنوں بار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی۔۔کعبہ خداوندی کے اندر جانے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔

سفرآخرت[ترمیم]

9 ستمبر2022ء بروز جمعہ مبارک صبح نماز فجر کے بعد بوقت پانچ بج کر 25 منٹ پر نشتر ہسپتال اللہ اللہ کرتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔

نماز جنازہ[ترمیم]

آپ کی نماز جنازہ آپ کے پیر ومرشد ناصر الدین خاکوانی نے پڑھائی[4]۔جنازہ میں اخباری رپورٹ کے مطابق دو لاکھ افراد نے شرکت کی۔

تدفین[ترمیم]

آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق جامعہ خالد بن ولید وہاڑی کے احاطہ میں دفن کیا گیا۔آپ نے اپنے عزیز القدر شاگرد اور خادم خاص شکیل احمد ظفر کو تجہیز وتکفین کے متعلق وصیت ریکارڈ کراتے ہوئے تاکید کی تھی کہ "میری قبر میں آگ سے پکی کوئی چیز نہ ہو،کوئی لوہا اور کوئی پکی اینٹ کا ٹکڑا بھی نہ ہو،کوشش کیجیے کہ میری قبر "شق" بنائے جی،نہیں تو پھر "لحد" بنادی جائے۔مجھے کھدر کا کفن پہنایا جائے۔جس دن میری وفات ہو،اس دن بھی جامعہ میں تعلیمی ناغہ نہیں ہونا چاہیے"

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "پیدائش" 
  2. "تدریس" 
  3. "بیعت و خلافت" 
  4. "جنازہ"