فرانس کا تاوان جنگ 1871
فرانس اور جرمنی کی جنگ 1871ء میں ختم ہوئی جس میں فرانس کو شکست ہوئی اور اُسے اپنے دو صوبے جرمنی کو دینے پڑے۔ اس کے علاوہ پانچ ارب فرانک بھی ادا کرنے پڑے۔ شروع میں فرانس نے دیڑھ ارب فرانک کی پیشکش کردی مگر جرمنی نے دھمکی دی کہ وہ پوری رقم وصول کرنے کے لیے فرانس کے بقیہ حصوں پر بھی قبضہ کر لے گا۔ جرمنی نے واضح طور پر کہا کہ چونکہ فرانس یورپ کا امیر ترین ملک ہے اس لیے جب تک اسے کنگال نہ کر دیا جائے یہ مزید جنگیں شروع کرتا رہے گا۔ اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ عین اتنی ہی رقم تھی جتنی نپولین نے 1807ء میں جرمنی سے وصول کی تھی۔
فرانس نے یہ رقم قسطوں میں ادا کی اور مہلت ختم ہونے سے دو سال پہلے ہی آخری قسط ستمبر 1873ء تک ادا کر دی۔ اس کے بعد جرمنی نے اپنی افواج فرانس سے واپس بلا لیں۔ اس وقت یہ اندازے لگائے گئے تھے کہ اتنا تاوان جنگ ادا کرنے کے بعد فرانس تیس یا پینتیس سالوں تک کے لیے معاشی طور پر مفلوج ہو جائے گا لیکن فرانس بہت جلد ہی دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا ہو گیا۔
جرمنی (بسمارک) نے یہ رقم وصول کر کے اپنی کرنسی کو چاندی سے ہٹا کر گولڈ اسٹینڈرڈ اپنایا۔ جرمنی میں اسٹاک مارکیٹ اور جائیدادوں کی قیمتیں تیزی سے بڑھیں جس کے نتیجے میں 1873 میں معاشی بحران آیا۔
معاہدہ فرینکفورٹ
[ترمیم]دس مئی 1871کو فرینکفورٹ میں طے ہونے والے امن کے معاہدے کے مطابق سینٹرل پاورز (فرانس) کو چار حصوں میں 5 ارب فرانک کا یہ تاوان ادا کرنا تھا۔
- پیرس میں نظم وضبط بحال ہونے کے بعد 30 دن کے اندر دس فیصد ادا کرنا تھا۔
- 1871 کے اختتام تک مزید 20 فیصدادا کرنا تھا۔
- یکم مئی 1872ء تک اور دس فیصد دینا تھا۔
- 2 مارچ 1874ء تک بقیہ 60 فیصد ادا کرنے تھے جس پر 5 فیصد سود بھی تھا۔
معاہدے کی شرائط میں یہ بھی شامل تھا کہ تاوان کی رقم میں فرانس کی اپنی کاغذی کرنسی ساڑھے بارہ کروڑ یعنی ڈھائی فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ ساڑھے بتیس کروڑ فرانک سے فرانس جرمنی (Alsace-Lorraine) میں ریلوے لائن بچھائے گا۔ بقیہ رقم یا تو سونے چاندی کی شکل میں ادا کی جائے گی یا جرمنی، انگلینڈ، بیلجیئم یا ایمسٹرڈیم کے بینک نوٹوں یا بل آف ایکسچینج کی شکل میں ہو گی۔
حکومتی قرضے
[ترمیم]- معاہدہ فرینکفورٹ کے 48 دنوں بعد فرانس نے دو ارب فرانک کے حکومتی قرضے عوام کو بیچنے شروع کیے۔ ان بونڈز کی قیمت پر 17.5فیصد ڈسکاونٹ بھی تھا اور 5 فیصد سالانہ سود بھی تھا۔
تیرہ مہینوں بعد فرانس کی حکومت نے مزید تین ارب فرانک کے قرضے عوام کو بیچنے کی پیشکش کری۔ اس دفعہ ڈسکاونٹ 15.5 فیصد تھا جبکہ سود وہی 5 فیصد سالانہ تھا۔ حکومت کی اس پیشکش کے جواب میں 12 گنا زیادہ کی مانگ کی گئی جس میں سے آدھی غیر ممالک سے تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ فرانسیسی قرضوں کی شہرت اس زمانے میں کتنی اچھی تھی۔ غیر ملکی مانگ میں سے ایک تہائی خود جرمنی سے آئی تھی۔ اس طرح فرانس وقت سے پہلے ہی پورا تاوان ادا کر سکا۔
- 1815ء میں نپولین کی شکست کے بعدفرانس پر لگ بھگ دو ارب فرانک کا تاوان جنگ عائید کیا گیا تھا۔10 فروری 1817کو فرانسیسی حکومت نے دس کروڑ فرانک کے قرضے بیچنے شروع کیے اور9 کروڑ 30 لاکھ فرانک کے قرضے بیچنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ قرضے پیرس(58 فیصد)،لندن (29 فیصد) اور ایمسٹرڈیم (13 فیصد) میں بکے۔100 فرانک کا ٹریژری بونڈ 58 فرانک میں بکا جس پر 8.625 فیصد سود تھا۔[1]
- 1789ء-1790ء کے انقلاب فرانس کے وقت بادشاہ لوئس (سولہویں) کے حکومتی اخراجات کا پچاس فیصد بینکر سے لیے گئے قرض کا سودادا کرنے پر خرچ ہوتا تھا۔[2]
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دیڑھ دو سو سال پہلے جب ہندوستان چین اور دنیا کے بیشتر ممالک ہارڈ کرنسی پر تھے اس وقت بھی یورپ میں بینکنگ اور کاغذی کرنسی کس قدر محکم ہو چکی تھی۔ آگے چل کر یہی کاغذی کرنسی پوری دنیا میں چھا گئی۔(دیکھیے گریشام کا قانون)