مجید امجد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مجید امجد
معلومات شخصیت
پیدائش 29 جون 1914ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جھنگ،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 مئی 1974ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ساہیوال،  پنجاب،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی اسلامیہ کالج لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مجید امجد (پیدائش: 29 جون 1914ء— وفات: 11 مئی 1974ء) جدید اردو نظم کے مشہور ترین شاعر تھے۔۔

سوانح[ترمیم]

جدید اردو نظم کے ایک اہم ترین شاعر۔ جنھوں نے اپنی شاعری سے اردو نظم کو نیا آہنگ بخشا۔ ان کا شمار جدید اردو نظم کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ مجید امجد کی فطری بے نیازی کے سبب ان کی زندگی میں ان کا ایک مجموعہ شب رفتہ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعد ازاں تاج سعید اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے مجید امجد کا شعری کلیات مرتب کیا۔ مجید امجد کی نثر بھی مقدار میں کم ہونے کے باوجود ان کو ایک منفرد شناخت عطاکرتی ہے۔ ڈاکٹر افتخارشفیع کی مرتبہ کلیات نثر سے ان کے تنقید،ترجمہ نگاری،بچوں کے ادب،کالم نگاری جیسی اصناف سے دل چسپی کا پتہ چلتا ہے۔ مجیدامجد کاتعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔انھوں انٹرمیڈیٹ کا امتحان گورنمنٹ کالج جھنگ سے پاس کیا۔گریجویشن اسلامیہ کالج لاہور سے کی۔یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا۔انھیں ابتدائی طور پر جھنگ میونسپلٹی کے رسالے "عروج" کی ادارت کی ملازمت ملی۔کچھ عرصے بعد ان کی ایک غیر موجودگی میں برطانوی سامراج کے خلاف ان کی ایک نظم"قیصریت"کی اشاعت کی وجہ سے انھیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔اس کے بعد مجیدامجدمحکمہ خوارک سے وابستہ ہو گئے۔انھیں اس سلسلے میں پنجاب کے مختلف شہروں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ان میں گوجرہ،تاندلیانوالہ،سمندری،مظفرگڑھ اور چیچہ وطنی شامل ہیں۔ان کی ملازمت کا زیادہ عرصہ ساہیوال میں گذرا۔وہ اپنی وفات تک یہیں مقیم رہے۔وفات کے بعد ان کی میت آبائی شہرجھنگ روانہ کردی گئی۔جہاں لولے شاہ قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔

حالات زندگی[ترمیم]

29 جون، 1914ء کو (جھنگ) میں پیدا ہوئے۔والد کا نام علی محمد تھا۔ مجید کے والد نے جب عقد ثانی کیا تو ان کی والدہ ان کو لے کر ننھیال آگئیں. ان کے نانا میاں نور محمد (جو ایک عالم فاضل انسان تھے)،نے ان کی پرورش اور تربیت کی. مجید امجد نے ابتدا میں عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے نانا ہی سے حاصل کی. نوجوانی میں قدم رکھا تھا کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ انٹر تک کی تعلیم جھنگ ہی سے حاصل کی. 1930ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی اے کیا۔ آپ کی ادبی زندگی کا آغاز 9 سال کی عمر سے ہی ہو گیا تھا۔ بی اے کرنے کے بعد آپ جھنگ واپس آ گئے تو ایک نیم سرکاری ہفت روزہ اخبار"عروج" میں مدیر رہے. 1939ء تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد برطانوی سامراج کے خلاف "عروج" کے صفحئہ اول پر آپ کی نظم "قیصریت" شائع ہوئی. جس کے نتیجے میں اخبار چھوڑنا ان کی سزا ٹھرئی گی. 1944ء انسپکٹر سول سپلائر مقرر ہوئے۔ ترقی پاکر اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بنے۔ ملازمت کا زیادہ عرصہ منٹگمری موجودہ ساہیوال میں گذرا۔ جہاں سے وہ 29 جون 1972ء کو ریٹائر ہوئے۔بعد میں بڑی تنگدستی سے گذر اوقات کرنے لگے. ان کے بعض دوستوں کے توجہ دلانے پر حکومت پاکستان نے مارچ 1973ء میں ان کے لیے پانچ سو روپے ماہانہ ادبی وظیفہ مقرر کیا.

ازدواجی زندگی[ترمیم]

1939ء میں خالہ کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ جو گورنمنٹ اسکول جھنگ میں استانی تھیں۔ دونوں کے مزاج میں اختلاف تھا۔ جس کی وجہ سے ان کی اہلیہ ان سے بنا طلاق لیے الگ رہنے لگی. اوروہ اولاد سے محروم رہے۔

آخری ایام[ترمیم]

آخری ایام انتہائی عسرت اور تنگی میں گذرے۔ وفات سے ایک ماہ پہلے تک انھیں پینشن نہ مل سکی۔ نوبت تقریباً فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ آخر اسی کیفیت میں گیارہ مئی، 1974ء کے روز اپنے کوارٹر واقع فرید ٹاون ساہیوال میں مردہ پائے گئے۔ تدفین آبائی وطن جھنگ میں ہوئی۔

شاعری[ترمیم]

مجید امجد کو جو معاشرتی ماحول میسر آیا اس نے ان کے دل و دماغ پر جو اثر ڈالا وہ زیادہ خوشگوار نہ تھا۔ وہ خارجی ظلم اور استحصال پسند عناصر کو دیکھتے ہیں اور اس طرح ان کے اندر کرب نمودار ہوتا ہے جس کا اثر ان کے کلام پر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ مجید امجد اپنے معاشرے اور ماحول کی جزئیات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مجید امجد نے اپنی شاعری کے آخری دور میں دنیا کے رسمی پیمانوں سے منہ موڑ لیا اگر وہ چاہیں تو دستور زمانہ کے مطابق اپنی فنی مہارت اور آہنگ کے عروضی تنوع سے قارئین کو متاثر کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک جگہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "مجید امجد ایک تروتازہ اور سبزوشاداب شاعر تھے۔ اقبال کے بعد ابھرنے والے وہ واحد شاعر ہیں جن نے سوچ زبان اور لہجے کی حدبندیوں کو توڑ کر اپنی انفرادیت کا بھرپور احساس دلایا ہے". مجید امجد کے بارے میں خواجہ محمد زکریا لکھتے ہیں: مجید امجد اردو نظم کے ایک انتہائی اہم اور منفرد لہجے کے شاعر ہیں ان کا کلام معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بے مثال ہے۔ جتنا تنوع ان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ اردو کے کسی جدید شاعر میں موجود نہیں۔ ان کی تقریباً ہر نظم مختلف موضوع اور مختلف ہیت میں تخلیق ہوئی ہے۔ ان کے کلام میں زبردست آورد پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جذباتی گہرائی جتنی ان کے ہاں ملتی ہے، وہ عصر حاضر میں کسی اور کے ہاں نایاب ہے۔ انھیں ادبی حلقوں نے مسلسل نظر انداز کیا لیکن انھوں نے کبھی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

مجیدامجد مہجورساعتوں کے شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں جدید عہدکے تنہاانسان کی ذہنی کیفیات کا اظہار ملتا ہے۔اس پہلو پرروشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹرافتخارشفیع لکھتے ہیں:باشعوردنیاکے نئے انسان کایہ احساس تنہائی کوئی نیا تجربہ نہیں بل کہ یہ ایک اہم انسانی جبلت اور موضوع کے اعتبار سے عالم گیریت کی حامل کیفیت ہے،اہل علم و دانش نے اس کے مختلف زاویے بیان کرتے ہوئے تنہائی کو چند حصوں میں منقسم کیا ہے۔مجید امجد کے ہاں تنہائی کا احساس کسی خطرناک داخلی بیماری کو ظاہر نہیں کرتا،آج کا انسان چوں کہ بین الاقوامی برادری کا فرد ہے اس لیے اس کے سماجی دائرے محدود ہوتے جا رہے ہیں۔انفرادی رشتوں کا یہی احساس  انسان کو عدم و نیستی کے تصور سے آشنا کرنے کا کام دیتا ہے۔شعور، معاشرے اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے تنہائی کی نوعیت اور حیثیت میں ارتقا ہوتا رہتا ہے لیکن انبیا، فقہااور شعرا نے ہمیشہ نہیں تو گاہے بہ گاہے تنہائی کا دکھ اٹھایا ہے۔ دنیا کے ہر ادب اور ادب کی تقریباً تمام اصناف میں تنہائی ایک پسندیدہ موضوع کے طور پر نمایاں رہی ہے۔اسی احساس تنہائی کی اقسام،تنہائی(loneliness)،علاحدگی(Isolation)،اکیلا پن (Aloneness)،خلوت(Solitude)اور بے گانگی(Alienation) کے کئی رنگ ہمارے شعرا کے ہاں دکھائی دیتے

نمونہ کلام[ترمیم]

اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا

مگر ہائے ظالم زمانے کی رسمیں
ہیں کڑواہٹیں جن کی امرت کی رس میں
نہیں مرے بس میں نہیں مرے بس میں

مری عمر بیتی چلی جا رہی ہے
دو گھڑیوں کی چھاؤں ڈھلی جا رہی ہے
ذرا سی یہ بتی جلی جا رہی ہے

جونہی چاہتی ہے مری روح مدہوش
کہ لائے ذرا لب پہ فریاد پر جوش
اجل آکے کہتی ہے خاموش! خاموش

تصانیف[ترمیم]

پہلا شعری مجموعہ شب رفتہ کے نام سے ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔’’ شب رفتہ کے بعد‘‘ ان کا دوسرا مجموعہ تھا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ اس کے بعد تاج سعید نے لوح دل کے عنوان سے ان کاشعری کلیات شائع کیا۔بعد ازاں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کلیات مجید امجد کے نام سے ان کا تمام کلام مرتب کیا ہے۔ اس کے باوجود مجیدامجد کے جدید تقاضوں کے مطابق شعری کلیات کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی۔

حال ہی میں ان کی نثری تخلیقات پر مشتمل کتاب کلیاتِ نثر مجید امجد منظرِ عام پر آئی ہے یہ کتاب مجید امجد کے تنقیدی مضامین،دیباچوں،مضامین و مقالات،تراجم ،بچوں کے لکھی گئی تحریروں اور اداریوں کے علاوہ دو نایاب مباحث پر مشتمل ہے۔ مجید امجد کے Dr.Davidson کی علم فلکیات پر لکھی گئی کتاب کا ادھورا ترجمہ اور اس پر ایک مضمون بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

اس کتاب کو ڈاکٹر افتخار شفیع نے مرتب کیا ہے ۔

بیرونی روابط[ترمیم]