معراج جامی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
معراج جامی

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: سید معراج مصطفٰی حسین ہاشمی ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 12 اپریل 1955ء (69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش گلشن اقبال
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ فدا خالدی دہلوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  مدیر ،  ناشر ،  افسانہ نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل غزل ،  ہائیکو ،  ادارت ،  اشاعت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

سید معراج جامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے شاعر، کتابوں کے پبلشر، برطانیہ سے جاری ہونے والا علمی، ادبی اور تحقیقی مجلہ پرواز کے مدیر، افسانہ نگار، سفرنامہ نگاراور خاکہ نویس ہیں۔ وہ اردوکے نامور شاعر اور فلمی نغمہ نگار فیاض ہاشمی کے بھائی ہیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

معراج جامی 12 اپریل، 1955ء کو لاہور، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید معراج مصطفٰی حسین ہاشمی، جامی تخلص اور قلمی نام معراج جامی ہے۔ جامی کا لاحقہ عبد الرحمٰن جامی سے روحانی عقیدت کے باعث ہے۔ان کی پیدائش کے چند ہفتے بعد ان کے والدین کراچی آ گئے اور کچھ دن رہ کر صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں بس گئے۔ اس طرح جامی کی تعلیم کا آغاز دادو میں ہوا۔ انھوں نے پرائمری، سیکنڈری اور بی اے کی تعلیم رسم و رواج کے مطابق اسکول اور کالج میں حاصل کی۔ 1971ء میں میٹرک کرنے کے بعد 1973ء میں انٹرمیڈیٹ اور 1975ء میں بی اے کیا۔ 1977ء میں ان کے والدین کے ساتھ دوبارہ کراچی منتقل ہو گئے۔ کراچی آکر پرائیویٹ امیدوار کے طور جامعہ سندھ سے ایم اے (اسلامک اسٹڈیز) اور ایم اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔[1]

تعلیم سے فارغ ہو کر ذریعہ معاش کے 1979ء میں کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں معراج جامی نے تقریباً بیس برس کام کیا۔ 1995ء میں کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کا ادارہ بند ہو جانے سے ان کی ملازمت بھی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد ان کی اپنی بنائی ہوئی ادبی انجمن بزم تخلیق ادب پاکستان ان کا ذریعہ معاش ہے۔ انھوں نے اس بزم کے تحت اشاعتِ کتب کا اپنا کاروبار شروع کیا، جو اب تک جاری ہے۔[1]

ادبی خدمات[ترمیم]

ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1971ء میں ہوا جب وہ میٹرک کرنے کے بعد اپنے بھائی فیاض ہاشمی کے پاس لاہور چلے گئے۔ فیاض ہاشمی کا شمار فلمی دنیا کے نامور اور کہنہ مشق شعرا میں ہوتا تھا۔ لاہور میں جامی کا قیام دو ماہ رہا۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ ہر روز شام کو شاہ نور اسٹوڈیو، ایور ریڈی اسٹوڈیو اور باری اسٹوڈیو جاتے تھے۔ ان دنوں فیاض ہاشمی کی فلمی نغمہ نگاری میں بہت شہرت تھی۔ اس کے علاوہ وہ فلمی کہانی، اسکرین پلے اور ڈائلاگ بھی لکھ رہے تھے۔[1] فیاض ہاشمی کی صحبت یا لاہور کی طلسماتی فضا کا اثر تھا کہ یکایک معراج جامی کو بھی شعر و شاعری سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ شعر کہہ کر ڈائری میں لکھ لیتے لیکن کسی کو دکھاتے نہیں تھے۔ اتفاق سے ایک دن ان کی ڈائری ان کے بھائی فیاض ہاشمی نے دیکھی تو وہ بہت خوش ہوئے اور بہت حاصلہ افزائی کی اور انھیں کسی استاد سے رجوع کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ایک د ن اپنے گھر میں منعقدہ محفل مشاعرہ میں جامی کی ملاقات اختر اندوری سے ہوئی۔ اختر اندوری نے معراج جامی کا ذوقِ سخن دیکھ کر انھیں فدا خالدی دہلوی سے ملوایا۔ فدا خالدی بیخود دہلوی جانشینِ داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ یوں جامی نے شاعری میں فدا خالدی سے اصلاح لینا شروع کر دی۔[2]

معراج جامی نے ابتدا میں غزلیں ہی کہیں۔ 1992ء میں غزلوں کا ایک مجموعہ روزن خیال کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے نعت، منقبت اور قطعات بھی لکھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہائیکو اور جاپانی صنف سخن سین ریو میں بھی طبع آزمائی کی۔ 2003ء میں ان کا سین ریو پر مشتمل مجموعہ بیوی سے چھپ کر 2003ء میں شائع ہوا۔اردو میں یہ صنف باقاعدہ کتابی صورت میں متعارف کرانے کا سہرا معراج جامی کے سرجاتا ہے۔ 1985ء میں امریکن کلچرل سینٹر کراچی کی جانب سے منعقدہ مقابلہ شعرگوئی میں 194 شعرا میں اول انعام کے حقدار ٹھہرے۔ وہ شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں۔[2] ان کے افسانچوں، انشائیوں اور مطائبات کا مجموعہ اور ٹیلی فون بند ہو گیا 2021ء میں شائع ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے خاکے بھی لکھے۔ ان کے تحریر کردہ خاکوں کا مجموعہ معراج محبت 2021ء میں شائع ہوا۔ وہ کئی بین الاقوامی ادبی رسائل کے مدیر اور نقاد بھی ہیں جو ذاتیات سے ہٹ کر صرف تخلیق کے حسن و قبح پر نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذمہ دار محقق بھی ہیں۔تیرگی، آئینہ، دھوپ، سائیاں، آسماں، روشنی ،رہبر، گھر زندگی، آفتاب، احساس، شجر، جنوں، ہنر، دہر اور سکندر ان کے خاص استعارے ہیں۔معراج جامی ایک ایسے سخن گو ہیں۔جن کے کلام میں جدت بھی ہے اور روایت پرستی بھی۔مطالعہ اور مشاہدہ کی وسعت نے ان کے کلام کو جلا بخشی ہے۔کلام جامی اپنے قاری پر فکر کے نئے در وا کرتا ہے۔ زبان وبیان کی سادگی وبرجستگی، غنائیت، ندرت خیال، آفاقیت، عصری آگہی، رواں بحریں، مختصر زمینیں، بے ساختہ پن اور سلاست ان کے کلام کا خاصہ ہیں۔ [3] وہ برطانیہ سے نکلنے والے ماہنامہ پرواز کے مدیر بھی ہیں۔

تصانیف[ترمیم]

  • روزن ِ خیال، (ناشر: کوکن اردو رائٹرز گلڈ، نیروبی کینیا، فروری 1992ء)
  • اردو کے مشہور اشعار (بہ اشتراک غضنفر علی خان، ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، پہلا ایڈیشن 1995ء، دوسرا ایڈیشن 2000ء، تیسرا ایڈیشن 2021ء)
  • بیوی سے چھپ کر (سین ریو،بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، ستمبر 2003ء)
  • متعلقاتِ مشفق خواجہ (بہ اشتراک ساحر شیوی، صابر عثمانی، ناشر: یورپین اُردو سوسائٹی، لندن، 2008ء)
  • انگلستان خدا کی شان، (ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، 2011ء)[4]
  • مقالاتِ افتتاحیہ (سہ ماہی سفیر اردو، لیوٹن کے گیارہ برسوں کے اداریوں کا مجموعہ، 2011ء)
  • ساون میں دھوپ کا خالق: ودیا ساگر آنند
  • معراجِ عقیدت (حمد، نعت و منقبت،ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، جون 2013ء)
  • اور ٹیلی فون بند ہو گیا (افسانچے، انشائیے، مطائبات، ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، 2021ء)
  • معراج محبت (خاکے، ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، 2021ء)
  • رئیس فاطمہ: احوال و آثار (ناشر: بزمِ تخلیقِ ادب پاکستان، 2023ء)

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

زمین فرش فلک سائبان لکھتے ہیں ہم اس جہان کو اپنا مکان لکھتے ہیں
ہمارے عہد کی تاریخ منفرد ہوگی لہو سے اپنے جسے نوجوان لکھتے ہیں
یہ جھوٹ ہے کہ حقیقت یہ جبر ہے کہ خلوص جو بے وفا ہیں انہیں مہربان لکھتے ہیں
جو آنے والے زمانوں سے با خبر کر دےجبین وقت پہ وہ داستان لکھتے ہیں
سمندروں کے ستم کی کہانیاں جامیدریدہ ہوتے ہوئے بادبان لکھتے ہیں[5]

غزل

زندگی کیا ہر قدم پر اک نئی دیوار ہے تیرگی دیوار تھی اب روشنی دیوار ہے
کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں آج اربابِ خردکیا جنوں کے راستے میں آگہی دیوار ہے
بچ نہیں سکتی تغیر کے اثر سے کوئی شےپہلے سنتی تھی مگر اب دیکھتی دیوار ہے
ہم تو وابستہ ہیں ایسے دور سے جس دور میںآدمی کے راستے میں آدمی دیوار ہے
جذبۂ جہد و عمل سے زندگی کوہ گراںبے عمل ہو زندگی تو ریت کی دیوار ہے
آج اپنے دشمنوں سے کھل کے لڑ سکتا نہیںدشمنی کے راستے میں دوستی دیوار ہے
روح کیوں مضطر نہ ہو جامی حریم جسم میںجس طرف بھی دیکھتی ہے آہنی دیوار ہے[6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ احمد حسین صدیقی، دبستانوں کا دبستان (جلد دوم)، قرطاس پبلیکیشنز کراچی، 2005ء، ص 433
  2. ^ ا ب احمد حسین صدیقی، دبستانوں کا دبستان (جلد دوم)، قرطاس پبلیکیشنز کراچی، 2005ء، ص 434
  3. سید محمد مستقیم نوشاہی ،کوئی دیکھے تو آئینہ ہوں میں (سید معراج جامی )
  4. تصانیف و تالیف، سید معراج جامی، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  5. زمین فرش فلک سائبان لکھتے ہیں (غزل)، سید معراج جامی، ریختہ ڈاٹ او آر جی، بھارت
  6. زندگی کیا ہر قدم پر اک نئی دیوار ہے (غزل)، سید معراج جامی، ریختہ ڈاٹ او آر جی، بھارت