داغ دہلوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مرزا محمد ابراہیم داغ دہلوی

معلومات شخصیت
پیدائش 25 مئی 1831ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 مارچ 1905ء (74 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عرفیت داغ
والد شمس الدین نواب آف فیروزپور جھرکہ
والدہ وزیر خانم
عملی زندگی
صنف غزل، قصیدہ، مخمس
موضوعات عشق
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متاثر علامہ اقبال، جگر مراد آبادی، بیخود بدایونی، سیماب اکبرآبادی وغیرہ
ویب سائٹ
ویب سائٹ http://www.royalark.net/India/loharu3.htm
باب ادب

نواب مرزا خاں اور تخلص داغ تھا۔ 25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ابھی چھ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خاں کاانتقال ہو گیا۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں باریاب ہوئے ان کی پرورش وہیں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقینا بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انھیں”حجاب“ سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی فریاد ِ عشق اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کارخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ 1905ء میں فالج کی وجہ سے حیدرآباد میں وفات پائی۔ داغ کو جتنے شاگرد میسر آئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ اس کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ حسن رضا حسن ،اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔

داغ دہلوی کی شاعری کی کلیات[3]

کلام[ترمیم]

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں ناز والے نیاز کیا جانیں

کب کسی در کی جُبّہ سائی کی شیخ صاحب نماز کیا جانیں

جو رہِ عشق میں قدم رکھیں وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھیے مے کشوں سے لطفِ شراب یہ مزا پاک باز کیا جانیں

حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں

شمع رُو آپ گو ہوئے لیکن لطفِ سوز و گداز کیا جانیں

جن کو اپنی خبر نہیں اب تک وہ مرے دل کا راز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے آپ بندہ نواز کیا جانیں ۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://data.bnf.fr/ark:/12148/cb137747124 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2019 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. https://www.rekhta.org/authors/dagh-dehlvi
  3. https://quranwahadith.com/product/kulliyat-e-dagh-dehlvi/